شکاری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
شکاری
ہم وہ ’’عظیم شکاری ‘‘ہیں جوقرآن کریم اورحدیث شریف کوچھوڑکراپنے تایاابا،اپنے ناناابا،اپنے چچااوردیگرخاندانی بزرگوں کے’’ اقوال زریں‘‘ نقل کریں گے تاکہ مخاطب کے فکرونظرکواپنی چرب زبانی اورمگرمچھی آنسوؤں اور بناوٹی لہجوں سے متأثرکرسکیں۔جس طرح شکاری کے پاس طرح طرح کے جال ہوتے ہیں،قسم قسم کے کیل کانٹے ہوتے ہیں،رنگارنگ چارے ہوتے ہیں،دھوکہ اورفریب دینے والی اشیاء ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ہم ایک شکاری کاکردار اداکرہے ہیں ،ہمیں بوبکروعمرنہیں اپنے تایااوردادایادرہ گئے،جنید وشبلی نہیں اپنے والداورنانایادرہ گئے ،اپنامسلک اورمشرب نہیں اپنامفاداورمقصدیادرہ گیا،ہم جوقصہ بیان کرتے ہیں اس کاایک مقصدہوتاہے،جوواقعہ سناتے ہیں اس کاایک پیش منظرہوتاہے ،جوبات کرتے ہیں اس کاایک بیک گراؤنڈہوتاہے،ہماری ہربات’’بامقصد‘‘ہوتی ہے اورمقصدمیں کامیاب ہونے کے لئے ہم لائن اس کو بھی ’’کراس‘‘ کرسکتے ہیں،ملت کاجنازہ نکلے،امت کی بدنامی ہووے،شریعت کی بیخ کنی ہو،طریقت کی رسوائی ہو،اداروں کی خفت ہوہمیںکسی سے مطلب نہیں۔
دریاکواپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
یہ مفادپرستی کب تک غالب رہے گی؟
محدوداورگھٹیاسوچ کے حصارسے ہم کب نکلیں گے؟
کب ہمارے اندرتوسع پیداہوگا؟
کب ہم اپنے پیرومرشدکی طرح دوسروں کے پیرومرشد کی تعظیم کریں گے؟
کب ہم عزت دیناشروع کریں گے؟
کب دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے سے بازآئیں گے؟
کب انگشت نمائی سے توبہ کی توفیق ملے گی؟
کب غیبت اورحسدسے بچنے کی کوشش کریں گے ؟۔
’’نگارشیں ‘‘سے اقتباس
(ناصرالدین مظاہری)
 
Top