نمازکے بعدبیٹھے رہنے کی فضیلت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
نمازکے بعدبیٹھے رہنے کی فضیلت
(ناصرالدین مظاہری)
سردی ہویاگرمی جاڑے ہوںیابرسات،گھرمیں مہمانوں کی ریل پیل ہو،کسی خاص تقریب کی دھکم پیل ہو،بھوک سے معدہ بے قرارہویاکوئی ملاقاتی برائے ملاقات حاضرومنتظرہو،میں نے اپنے اباجی مرحوم کی یہ عادت ہمیشہ دیکھی کہ وہ نمازفجرکے بعدتلاوت اورتلاوت کے بعدنمازاشراق پڑھے بغیرمسجدسے باہرنہیں آتے تھے،کبھی کوئی ایمرجنسی آپڑی ،والدہ نے کسی بچے کومسجدبھیجاتاکہ بلاکرلے آئے لیکن اباجی نے ہاں ہاں کرکے پھربھی مسجدمیں اپنا مشغلہ جاری رکھا،نہ نکلے نہ فوری طورپرآنے کاکوئی وعدہ کیا۔
ایک زمانے کے بعدجب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت پر نظر پڑی تو اباجی مرحوم یاد آگئے ،حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی الغداۃ فی جماعۃ ثم قعدیذکراللّٰہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجرحجۃ وعمرۃ ،قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص فجر کی نماز با جماعت ادا کرے، اور پھر سورج طلوع ہونے تک اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے اور پھر دو رکعت نماز ادا کرے تو یہ اس کے لیے ایک حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مکمل، مکمل ، مکمل حج اور عمرے کے برابر۔(ترمذی)
حضرت جابربن سمرہ ؓ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :
ان النبی کان اذاصلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازفجرسے فارغ ہوجاتے تواپنی جگہ پرتشریف فرمارہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہوجاتا۔
بتاتاچلوں کہ میرے والدصاحب کم پڑھے لکھے انسان تھے،ان کی تعلیم برائے نام تھی ۔ایک ہم ہیں جوخودکوپڑھالکھاسمجھتے ہیں،دناوبیناہونے کابھی گمان ہے،عقل وشعور کی پختگی کابھی غرہ اورطرہ ہے،بلکہ دوسروں کوحقیروکمترسمجھنے کابھی مرض ہے ،بایں ہمہ شاید ہی کبھی توفیق ملتی ہوکہ نمازکے بعدکچھ ہی دیرسہی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں،ہاں یہ توممکن ہے کہ ہم مسجدکے دروازے کے پاس کچھ دیرتک اس لئے کھڑے رہیں کہ بھیڑکی وجہ سے چپل جوتے نہیں ملیں گے ،یاکندھے سے کندھاچھلے گا،یاکپڑوں میں سلوٹیں پڑجائیں گی،مسجدسے نکلتے وقت لوگوں کی جوکیفیت دیکھنے اورمشاہدے میں آتی ہے اس کولفظوں میں بیان کرنامشکل ہے، لگتاہے پیچھے سے کوئی فوج حملہ آور ہوچکی ہے اورلوگ راہ فراراختیارکرنے کے لئے ایک دوسرے پر گرے جارہے ہیں۔اس بھاگم بھاگ میں بعض کے چپل ٹوٹ جاتے ہیں توبہتوں کے جوتے اپنی پالش اورسجاوٹ کھودیتے ہیں،روندے ہوئے چپلوں اورجوتوں کی شکلیں بسااوقات پہچاننامشکل ہوجاتاہے۔
ذرا سوچئے!اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تویہ فرمارہے ہیں کہ کل قیامت کے دن عرش الہٰی کے سایے میں رہنے والے سات خوش نصیب لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جوقلبہ معلق فا المساجدکامصداق ہویعنی جس کادل مساجدمیں اٹکارہے۔اوراس حدیث شریف کی روشنی میں ہم اپناجائزہ لیتے ہیں توہماری کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہم اپنے گھروں،دکانوں ،مکانوں اورمساجدکے باہر کھڑے یابیٹھ کرجماعت کھڑی ہونے کاانتظارکرتے ہیں۔ٹھیک تکبیرکے موقع پرہم مساجدپہنچتے ہیں ،اگرامام نے نمازمیں قرا ء ت کچھ طویل کردی توہماری گردنیں تن جاتی ہیں،اگرامام نے مسنون ومطلوب تعدیل ارکان کردیاتوبھی ہماری حالت غیرہونے لگتی ہے۔یہ ساری چیزیں ہمارے اندرون کی عکاس اورغمازہیں ،ان سے ہم اپنی ایمانی حالت وکیفیت کاخودہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کس چیزکاتقاضاکرتے ہیں اورہمارانفس ہمیں کس راہ پرلے کرجارہاہے ،ہم فیصلہ کرسکتے ہیں اپنی کامیابی اورناکامی کا۔
چلتے چلتے حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کرتاچلوں:
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی جو بیٹھنے والے حضرات تھے وہ بیٹھ گئے اور جو جانے والے تھے چلے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس تیزی سے تشریف لائے کہ آپ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اپنے گھٹنوں کے سہارے بیٹھ کر فرمایا : تم خوش ہو جائو کہ تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے کہ میرے بندوں کی جانب دیکھو، ایک فریضہ پورا کر کے دوسرے فریضہ کا انتظار کر رہے ہیں۔(ابن ماجہ)
 
Top