غزل

محمد یــــٰسین

محمد یــــٰسین
رکن
کاش نہ ملنے کو ہمیں کوئی بھی خواہش اترے
نہ انسان سمجھنے کو کوئی ہے اگر آتش اترے

مکتبِ عشق کی ابتدا میں انتہا کردی میں نے
اب مری تمنا ہے نہ دل میں کوئی فاحش اترے

خود کو بدبخت نا کہوں تو کیا کہوں خود کو
گر مجھے رولانے کو مری روح میں سازش اترے

اس کے بغیر اسے یقیں ہے میری تاحیاتی پہ
لیکن میں نے چاہا نہیں ایسی یہ نوازش اترے

یاسین ہاتھوں پہ ہیں دنیا کی لکھیریں لیکن
خاک مٹ جائے گی اک دن گر کوئی بارش اترے
 
Top