موضوع احادیث سے بچیں

عبدالاحد بستوی

وفقہ اللہ
رکن
*موضوع احادیث و من گھڑت واقعات بیان نہ کریں*
عبدالاحد بستوی
مدیر ماہنامہ صدائے اسلام

وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ. (الذاریات:۵۵)
ترجمہ: ”اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے“۔
وعظ و نصیحت کرنا زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح دین کی ضروریات میں بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، یہ ہمارے معاشرہ کی اصلاح میں عظیم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں مجھے وعظ و نصیحت پر نہیں بلکہ خطباء کی خدمت میں ایک بات رکھنی ہے۔
اس سے کسی صاحب علم و عقل کو انکار نہیں ہوسکتا کہ خطابت ایک اونچا عمل ہے، معاشرہ میں خطیب کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، مساجد میں جمعہ و دیگر اہم مواقع پر ایک اچھا خطیب ہی اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے، اس کی تقاریر کے نتیجہ میں لوگوں میں نیکی کی طرف رغبت اور برائیوں سے بے رغبتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اچھی اور موثر تقریر یقیناً اصلاح کا باعث بنتی ہے۔
خطیب و مبلغ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جمیع انبیاء کرام خطیب و امام تھے۔ قرآن مجید نے مختلف انبیاء کرام کے خطبوں کا ذکر کیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کے خطبات اسلامی شریعت اور تاریخ و ادب کا اہم حصہ ہیں، خلفاء راشدین کے خطبات سے شریعت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی لیے تمام اسلامی حکومتوں میں خطیب کا منصب ہمیشہ اہم رہا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین عرب اور مشرکین مکہ نے ’’ساحر‘‘ کا جو خطاب دیا تھا، اس کی وجہ قرآن کریم کے اعجاز کے ساتھ ساتھ خو د آنحضرت ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا کمال بھی تھا کہ اللہ رب العزت نے آپؐ کو خطابت و فصاحت کے اس اعلیٰ ترین مقام و معیار سے نوازا تھا، جسے اپنے الفاظ میں تعبیر کرنے کے لیے منکرین کے پاس ’’جادو‘‘ کے علاوہ کوئی اور لفظ موجود ہی نہیں تھا۔
اس امت کے سب سے پہلے خطیب حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں، گویا کہ جو خطباء حضرات ہیں وہ نبی صلی ﷺ کی نیابت کرتے ہیں۔
یہ انتہائی قابل توجہ بات ہے کہ ہمارےنبی ﷺ اپنے خطاب میں جھوٹے قصے، جھوٹے واقعات اور جھوٹی خبریں ہرگز نہیں بیان فرماتے تھے، اسی طرح ہر بیان و تقریر کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے بیان میں گھڑی ہوئی احادیث اور واقعات ہرگز بیان نہ کریں۔ مگر مشاہدہ آئی کی اکثر کتب اس بات کا خیال نہیں رکھتے، اور ہر طرح کی رطب و یابس بیان کرتے رہتے ہیں، جسے سن کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام و مرتبہ کی کس قدر ناقدری کر رہے ہیں۔ حالانکہ موجودہ دور میں کتابوں تک رسائی انتہائی آسان ہے، تحقیقی اور معتبر کتابیں کثرت سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں، اگر تھوڑی سی جدوجہد کی جائے تو معتبر کتابوں سے استفادہ کرکے متعینہ عنوان پر بیان کرنا کچھ مشکل نہیں، لیکن پھر بھی اتنی توفیق نہیں ہوتی۔
عام طور پر آج کے خطباء کا حال یہ ہے کہ کسی صاحب کا کوئی بیان سنا، یا یوٹیوب پر کسی کی کوئی تقریر سنی، تو آکر بالکل وہی تقریر اپنے سامعین کو سنا دی، بعض مرتبہ سنی گئی تقریر میں مشہور احادیث موضوعہ اور شدید ضعیفہ بھی آجاتی ہیں، جن کے بارے میں بیان کرنے والے کو تحقیق نہیں ہوتی، تو صرف سن کر اس کو بیان کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟
لہذا ہمیں اس بات پر نظر رکھنا ہو گی، اور اس مشکل کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ ہم اپنے خطبوں میں لوگوں کو مستند مواد فراہم کریں۔ ہمارے سامعین اب ہم سے لفاظی کی بجائے مواد اور معلومات کا تقاضہ کرتے ہیں، اور ان کے ذہنوں میں اس مواد کے لیے حوالہ اور استثناء کا سوال بھی ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ایک کامیاب خطیب کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہیے، اور صرف مستند معلومات کو جمع کرنا چاہئے، یہ ایک مستقل فن ہے جوخطابت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
قرآن کی بے شمار آیات میں مفتری علی اللہ (خدا پر جھوٹ باندھنے والے) کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا گیا ہے، کیا قرآن پر تازہ ایمان رکھنے والوں کے لیے اس کے بعد اس کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ جان بوجھ کر العیاذ باللہ اپنے محبوب رسولؐ پر جھوٹ باندھیں؟ یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہؓ جس وقت ”حدیث“ بیان کرنے کے لیے بیٹھتے، تو کچھ بیان کرنے سے پہلے ”من کذب علی متعمدا“ والی حدیث کو ضرور پڑھتے تھے۔
امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں راوی ہیں کہ خصوصیت کے ساتھ ذخیرۂ احادیث کے سب سے بڑے راوی، یعنی حضرت ابوہریرہؓ کا یہ ہمیشہ کا قاعدہ تھا کہ، وہ جس وقت حدیث بیان کرنی شروع کرتے تو کہتے: قال رسول اللہ الصادق المصدوق ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم من كذب على متعمدا فليتبوأ معقده من النار.) الاصابه) ترجمہ: فرمایا رسول اللہ صادق و مصدوق ابوالقاسم ﷺ نے، جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا، (اسے) چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے۔
راویانِ حدیث میں حضرت ابو ہریرۃ ؓ کا کیا مقام ہے یہ اہل علم پر مخفی نہیں، مگر پھر بھی وہ احادیث بیان کرنے کے معاملے میں کتنی احتیاط کرتے تھے، تو آج کے مقررین کو تو اور زیادہ اس کا احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی کو نبی ﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: جب سونے لگو تو یہ دعا پڑھ کر سویا کرو: آمنت بكتابك الذى أنزلت، و نبيك الذى أرسلت. ترجمہ: ” ایمان لایا میں اس کتاب پر جو تٗو نے اتاری اور ایمان لایا اس نبیؐ پر جسے تٗو نے بھیجا“۔
آپ ﷺ نے یہ دعا بتانے کے بعد ان صحابی سے فرمایا کہ، میں نے جو کہا ہے اس کو دہراؤ، ان صحابی نے دعا کے الفاظ میں ”نبیک“ کے لفظ کو ”رسولک“ کے لفظ سے بدل دیا، جو تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں، یعنی بجائے ”نبی“ کے ”رسول“ کا لفظ استعمال کیا، لیکن آنحضرت ﷺ کی طرف سے حکم ہوا کہ میں نے یہ نہیں کہا، وہی کہو جو میں نے بتایا۔ (ماخوذ: تدوین حدیث/ص۱۷, ۱۸)
ظاہر سی بات ہے کہ سونے کی دعا کی حیثیت شریعت میں فرض و واجب کے درجے کی چیز نہیں، لیکن اس کے باوجود حضور ﷺ نے ان کو متنبہ فرمایا۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے بیان کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے، صرف سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرکے بیان نہیں کردینا چاہیے۔
فرمان نبوی ﷺ ہے: ”كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع“ (صحيح مسلم) ترجمہ: ” کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے آگے) بیان کر دے“۔
حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نور اللہ مرقدہ رقمطراز ہیں:
نقل وحوالہ پر آنکھ بند کر کے اعتماد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حوالہ کو اصل سے ملا کر دیکھنا چاہئے۔
ہم نے حضرت الاستاذ مفتی مہدی حسن صاحب قدس سره سے ایک بار عرض کیا تھا کہ: ہمیں کوئی نصیحت فرما ئیں۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ: کبھی کسی کے حوالہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ: اگر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ حوالہ دیں تو ؟“ آپؒ نے برجستہ فرمایا کہ: اگر حافظ ابن جبل حوالہ دیں تب بھی!
میں نہیں بتا سکتا کہ حضرت الاستاذ کی اس نصیحت نے مجھے کس قدر فائدہ پہنچایا ہے۔ فَجَزَاهُ الله خيرا“۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں؟/ص ۲۳/مکتبہ رحمانیہ، لاہور)
یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ علماء نے ”روایت بالمعنیٰ“ ( روایت بالمعنیٰ یہ ہے کہ بیان کرنے والا روایت کے الفاظ کے بجائے؛ معانی کو اپنے الفاظ میں بیان کرے) کی اجازت دی ہے، بات درست ہے، لیکن اس کی بھی کچھ شرائط ہیں جن کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”متنِ حدیث کے الفاظ میں جان بوجھ کر تبدیلی کرنا یا اختصار کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ایک ہم معنیٰ لفظ کو دوسرے ہم معنیٰ لفظ سےبدلنا جائز ہے۔ ہاں یہ کام اس کے لئے جائز ہوسکتا ہے جو الفاظ کے معانی و مطالب سے بخوبی واقف اور باخبر ہو“۔ (نخبۃ الفکر)
واقعہ:
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ: ”بعض لوگوں کو وفات کے بعد خواب میں اس حالت میں دیکھا گیا کہ، ان کے ہونٹ اور زبان کٹے ہوئے تھے، ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ، رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک کا ایک لفظ تبدیل کرنے کی وجہ سے یہ سزا دی گئی ہے“۔ (عمدۃ النظر/ص۲۶۷)
منبر خطابت پر اسی کو جلوہ افروز ہونا چاہئے جو نڈر و بہادر ہو، زبان و بیان کا ماہر ہو، علم سے لیس ہو، اصابت رائے کا مالک ہو، اپنے کردار و گفتار میں اخلاص کی دولت سے مالا مال ہو، کیونکہ منبر، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی نشر و اشاعت، اور حکام و عوام کی خیر خواہی، علم نافع اور عمل صالح کی دعوت و تذکیر کا ایک اہم ترین پلیٹ فارم ہے۔
خلاصہ یہ کہ موضوع احادیث اور من گھڑت واقعات بیان کرنے سے مقررین کو بچنا چاہیے، صرف معتبر مضامین بیان کرنا چاہئے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ بھرپور تیاری کریں، امت کے حال پر رحم فرمائیں، اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس و لحاظ فرمائیں۔ اگر آپ کے اندر کتابوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، یا تیاری کرنے کا موقع میسر نہیں ہے، تو بازار سے معتبر کتابیں خرید لیں، اسے دیکھ کر پڑھ کر سنا دیں، کتاب دیکھ کر پڑھ کر سنادینے میں کوئی قباحت بالکل بھی محسوس نہ کریں، آج بھی بہت سارے علماء لکھ کر خطاب کرتے ہیں، تو یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے، اس کی برکت سے کچھ ایام میں تقریر کا فن اور طریقہ بھی آجائے گا انشاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حوالہ سے دین کی خدمت کرنے اور اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقہ سے سرانجام دینے کی توفیق سے نوازیں۔آمین یا رب العالمین۔
 
Top