تعلیم سے دوری:غفلت یاجرم؟

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

تعلیم سے دوری:غفلت یاجرم؟

ناصرالدین مظاہری
۱۴؍جولائی ۲۰۲۳ء

’’جمعیۃ علمائے ہندکے مطابق بھارت میں ۱۹؍ سال تک کے مسلم بچوں کی کل تعدادمسلم آبادی کی ۴۷؍فی صدہے یعنی کل ۸؍کروڑ۹ ؍لاکھ مسلمان بچے ہیں ،ان میں سے صرف ۴ فیصد بچے یعنی ۳۶؍لاکھ بچے دینی مدرسوں میں داخل ہیں،باقی پونے آٹھ کروڑ بچوں تک دینی تعلیم کی فراہمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے‘‘

دوسری طرف آپ کسی اورمذاہب کامطالعہ اورمشاہدہ کریں تووہاں پڑھنے والوں کاتناسب ہمارے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔تعلیم سے دوری اورمحرومی والے مذاہب میں حکمراں پیدا نہیں ہوتے ’’مزدور‘‘پیداہوتے ہیں،جوقومیں زیادہ پڑھی لکھی ہیں وہی قومیں اقتداراوراختیاررکھتی ہیں۔

مجھے پہلے پہل برماکے بارے میں معلوم ہواتھا کہ وہاں کی فوجی حکومت تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لیکن معتبرذرائع سے اپنے ملک بھارت کی برسراقتدار حکومت کی اندرونی اطلاعات بلکہ ان کے اہداف اورمقاصدکے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ حکومت بھی تعلیم کوصرف ’’اونچی ذاتوں‘‘تک محدودکردیناچاہتی ہے۔کوئی بھی حکومت جس نے جمہوریت کاقلادہ اپنے گلے میں ڈالاہواہووہ اپنے کسی بھی تخریبی منصوبے کوفوری طورپرسامنے نہیں لاتی،ان کے پاس منصوبہ سازماہرین ہوتے ہیں ،اُن کی نظریں درخت کی جڑوں پرہوتی ہیں وہ آرے سے درخت نہیں کاٹتے بلکہ وہ درخت کی جڑوں میں دھیرے دھیرے گرم پانی ڈالتے ہیں تاکہ درخت اوراُن کی جڑیں ہمیشہ کے لئے سوکھ ہوجائیں۔

مضمون نگارکی پیدائش ۱۹۷۷ء میں ہوئی ہے، جب شعورکوپہنچاتواخبارات ورسائل سے معلوم ہواکہ ہماری تعداداٹھارہ کروڑہے ،اب میری عمرچھیالیس سال ہوچکی ہے لیکن مسلمانوں کی تعداداب بھی اتنی ہی بتائی جارہی ہے جتنی چالیس سال پہلے بتائی جارہی تھی۔حالانکہ اب تک ہرمسلم گھراورگھرانابچوں سے بھرچکا ہے،جہاں چالیس سال پہلے گھرمیں صرف تین چارلوگ تھے وہاں اب درجنوں بچے بلکہ بچوں کے بچے کلکاریاں ماررہے ہیں۔مسلمانوں کی صحیح تعداد حکومت کبھی نہیں بتائے گی۔

ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے کہ اتنی بڑی مسلم آبادی تعلیم سے کیوں غافل ہے ،میں کسی بھی تعلیم کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا،تعلیم سے زیادہ ضروری کچھ بھی نہیں ہے،تعلیم کے بغیرکوئی عبادت قبول نہیں ہوسکتی،سب سے پہلا قرآنی حکم تعلیم ہے،علم روشنی ہے ، جہالت تاریکی ہے ،جوعلم سے محروم ہواوہ اپنے ماحول ہی کے لئے نہیں بلکہ ہرکسی کے لئے ’’بوجھ‘‘بن گیا،یہ شخص کبھی کسی میدان میں ترقی نہیں کرسکے گا،اس کادماغ ترقیاتی منصوبے نہیں بناسکے گا،حکومت کے کسی بھی عہدے تک نہیں پہنچ سکے گا۔

پہلے صفائی کاکام "بھ ن گی" کرتے تھے کیونکہ اُن کے اندرتعلیم نہیں تھی جب تعلیم نہیں تھی توانھیں اِس کام سے زیادہ ’’ترقی‘‘ کسی چیزمیں نظرنہیں آئی ،لیکن اس درمیان میں دلتوں کے کئی بڑے سیاسی لیڈران میدان میں آئے،تخت حکومت تک پہنچے،اقتدار اورباختیاراُن کے ہاتھوں میں آیا توبانہوں نے اولین فرصت میں اپنی قوم کوتعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کے تانے بانے بنے،منصوبے بنائے، ریزرویشن متعین کیا،حکومت میں انھیں نوکریاں دیں،ترقی کے مواقع دئے، مراعات دیں یہاں تک کہ اُن میں بیداری پیداہوگئی ،اُن کابود وباش بدل گیا،اُن کارہن سہن ترقی کرگیا،اب رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ’’دلتوں‘‘کی جگہ لے رہی ہے،اب حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم سے دُوری بلکہ تعلیم سے وحشت ہوچلی ہے،ہرگھراورگھرانے میں تعلیم یافتہ کم اورتعلیم سے محروم افرادزیادہ ہوچکے ہیں ،سیکڑوں ہزاروں گھروں میں سے کوئی ایک فرد مشکل سے ایساملتاہے جوکسی سرکاری اسکول میں تھرڈدرجے کاٹیچر یاماسٹر ہے ،یعنی کاروبارہمارے پاس نہیں ،دین ہمارے پاس نہیں،عصری یادینی تعلیم ہمارے پاس نہیں،عہدے اورمرتبے ہمارے پاس نہیں،ریاست اورحکومت ہمارے پاس نہیں، ریزرویشن اورکوٹاہمارے پاس نہیں اورہم اسی میں خوش رہیں ،ترقی کی نہ سوچیں،بچوں کونہ پڑھائیں،اس لئے حکومت نے مجموعی طورپرایک ’’لولی پوپ‘‘ ہمیں تھمادیاکہ تمام غریبوں کے کھاتے میں سال میں چھ ہزارروپے دیں گے، تمام غریبوں کومہینے میں دوباراوربعدمیں ایک بارفی کس پانچ کلواناج دیں گے۔ اگرسروے میں کوئی مستحق ٹھہراتواس کومکان بنانے کے لئے دوڈھائی لاکھ روپے بھی دیں گے اوراحمق لوگ اِن رعایات سے اتناخوش ہیں کہ انھیں احساس ہی نہیں ہورہاہے کہ اِن کی جڑوں کوکاٹا جارہاہے،ان کے دماغوں کوعضومعطل بنایاجارہا ہے،حکومت انھیں اپنے رحم وکرم پربے دست وپاکئے جارہی ہے،کوئی ہنرکوئی روزگار، کوئی کاروبار،کوئی دستکاری اورکوئی صنعت کسی کونہیں دی جارہی ہے،کیونکہ ہرچیزکادارومدارتعلیم پرہے اورتعلیم کی دشمن ہے یہ سرکار۔سرکاری اداروں میں تعلیم کی گراوٹ اور حکومت کرنے والے سیاست دانوں کی تعلیم سے دوری بلکہ محرومی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔سچ کہوں توکوئی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ’’حکومت‘‘نہیں کرناچاہتاکیونکہ اسے ’’گندی سیاست‘‘سے وحشت ہوچکی ہے۔ کوئی بھی خوددارشخص کسی کی غلامی کرنانہیں چاہتا،کوئی بھی صحت مندجوان کسی کے قدموں میں گرنانہیں چاہتاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اچھی صحت سے نوازاہے ۔

مجھ کو ایک صاحب نے خوش خبری دی کہ ماشاء اللہ بیٹے کی ولادت ہوئی ہے میں نے کہاکہ بچہ کوآپ مزدورنہ بنائیں،کسی فیکٹری میں نوکر،کسی عہدے دار کااردلی کسی سیاست دان کا ڈرائیور،کسی نالی اورسڑک کے لئے صفائی کرم چاری‘‘کسی سیٹھ کے گھرکاملازم،کسی رئیس کی دیوڑھی پردربان وغیرہ نہ بنائیں۔

بچے کوسب سے پہلے والدین ہی پڑھاتے ہیں ، ماں اورباپ کی تربیت سے مالامال بچہ ہی مکتب واسکول میں سب سے ہونہارہوتا ہے، ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بچے کومکتب اور اسکول میں داخل کرانے کے بعدمڑکرنہیں دیکھتے کہ بچہ کیاپڑھ رہا ہے ،کتناپڑھ چکا ہے، تعلیم کااثراس کی ذات پر کتناہواہے ،بچے کاذہن کس لائن اورکس فن میں زیادہ چل رہا ہے،اساتذہ بھی مجرم ہیں جوتمام بچوں کوایک ساتھ لے کراپناکام ہلکاکرتے ہیں ،ایک ہی جماعت میں اگرپچاس بچے ہیں توضروری نہیں کہ سب کاذہن ودماغ ایک جیساہوا،بہت سے بچے تجارت سے دلچسپی رکھتے ہیں،بہت سے بچے سیاست میں اپنانام روشن کرناچاہتے ہیں،کچھ کے اندرملی جذبے کی فراوانی ہوتی ہے ،بہتوں میں کسی ہنرکی خواہش ہوتی ہے،بعض سائنس اورٹیکنالوجی میں آگے جانا چاہتے ہیں،اب بچوں کی نفسیات کاپڑھنا اور مطالعہ کرکے انھیں ان کی راہوں پرگامزن کرنااساتذہ کاکام ہوتاہے لیکن اگراساتذہ ہی بے شعورہوں،ان کوبچوں کی نفسیات کامطالعہ اور مشاہدہ کی توفیق نہ ملے توآپ سوچ سکتے ہیں کہ اچھے خاصے ہونہار، تیزوطرار بچے معاشرے کاعضومعطل بن کررہ جاتے ہیں۔

جن ملکوں میں تعلیم کاتناسب زیادہ ہے وہاں ترقی زیادہ ہے،جن ملکوں میں تعلیم کاتناسب کم ہے وہاں مزدورں کی تعدادزیادہ ہے،افسوس کہ ہمارابھارت دنیاکوسب سے زیادہ ’’مزدور‘‘سپلائی کرنے والاملک بن چکاہے۔یہاں سے ہرروز ہزاروں لاکھوں مزدورملک اورملک سے باہرنقل مکانی اختیارکرتے ہیں۔ تعلیم گاہیں ویران ہوتی جارہی ہیں،درسگاہوں میں تالے پڑنے والے ہیں، سرکاری اسکولوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ صرف وقت گزاری کرتے ہیں ، مدارس کاحال بھی تقریباًایساہی ہے ،یہاں ایک ایک استاذکوسوسوبچے پڑھانے کودے دئے جاتے ہیں بلکہ لاکھوں مکاتب ایسے ہیں جہاں ایک ہی استاذپورے مدرسہ کوسنبھالے ہوئے ہے ، سوچئے کیاایسی صورت میں وہاں کے بچے آگے چل کرکسی لائق بن سکتے ہیں۔کسی بھی استاذ کوکام اتنادیں کہ وہ کرسکے،کسی بھی ملازم کوذمہ داری اتنی دیں کہ وہ نبھاسکے،کسی بھی شخص کوآپ چوبیس گھنٹے کی ذمہ داری دیں گے تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ خیانت نہ کرے کیونکہ اس کے بھی بیوی بچے ہیں،اس کے اپنے گھریلوامورہیں جووہ ہی انجام دے سکتاہے اور جس وقت وہ اپنے گھریلوامورانجام دینے کے لئے اپنی ڈیوٹی سے ہٹے گاتوآپ کی نظروں میں وہ’’ خیانت‘‘ ہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاہے لایکلف اللّٰہ نفساً الاوسعہا۔ہمیں اس اِرشادپرغورکرنے کی ضرورت ہے ،ہم اپنے کسی ملازم پراتنابوجھ اوراتنادباؤ نہ ڈالیں کہ ملازم اپنی ملازمت سے دست بردارہوجائے۔

تعلیم کی روشنی کسی کومحروم نہیں کرتی،یہ وہ خوشبوہے جس سے ہرکوئی روشنی حاصل کرسکتا ہے،تعلیم تعلیم ہے کوئی بھی ہو،بس صرف اتنایادرکھیں کہ اپنے نفع وضرر،اپنی عبادات اورحلال وحرام کی تمیزوامتیازکے لئے بقدرضرورت دینی تعلیم فرض ہے ،مایجوزبہ الصلوۃ(اتنی تعلیم جس سے نمازہوسکے)ہرمسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے۔

میراتجربہ ہے کہ جوبچے بقدرضرورت دینی تعلیم حاصل کرکے انگریزی تعلیم میں پہنچے ہیں وہ وہاں ٹاپرہوئے ہیں،تمام اسکول میں سب سے ممتازہوئے ہیں، کیونکہ ذہن ودماغ کی جورگیں اورگرہیں دینی تعلیم سے کھلتی ہیں،زبان وبیان میں جوشفافیت اورتلفظ دینی تعلیم والے کوحاصل ہے کسی اورکوحاصل ہوہی نہیں سکتا ہے۔

انگریزی ایک ناقص زبان ہے اس کے نقص کودینی تعلیم یافتہ شخص ہی سمجھ سکتاہے اوروہی دوربھی کرسکتاہے ،ضاد اورزاء میں فرق ،سین اورصادمیں امتیاز،تاء اورٹاء نیزہاء اورحاء میں جوبعداوردوری ہے اس کوصرف دینی تعلیم یافتہ شخص ہی سمجھ سکتاہے۔اس لئے اپنے بچوں کوآپ دنیاکی کوئی بھی تعلیم دیں میں منع نہیں کرتالیکن ہاں اتناضرورکہوں گاکہ ان کاعقیدہ،ان کاایمان ان کاطرززندگی اسلامی ہی رہناچاہئے ۔بقول اکبرالٰہ آبادی:

تم شوق سے کالج میں پڑھو ، پارک میں کھیلو
جائزہے غباروں میں اڑو ، چرخ پہ جھولو
پرایک سخن بندۂ عاجزکی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
 
Top