افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!

افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں

ناصرالدین مظاہری

جس دور میں ہم لوگ سانس لے رہے ہیں اس کو مختصرلفظوں میں ’’دورقحط الرجال ‘‘کہاجاسکتا ہے ،کوئی مجلس ، کوئی جماعت،کوئی تنظیم ، کوئی ادارہ اور کوئی سوسائٹی ایسی نہیں ہے جس کو کام کے افرادکی کمی کااحساس اور شکوہ نہ ہو۔

اگر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس احساس کے شاکی ،افرادکی کمی کے لئے شکوہ سنج اورکام کے افرادنہ ملنے کی شکایت سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہے اور یہ بھی ناقابل انکارسچائی ہے کہ سب سے کم شکوہ یہودیوں کوہے۔ پوری دنیاکے کل یہودی آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہیں،لیکن ان کی سوچ،فکرونظرکی وسعت، منصوبہ بندی ، اتحاد ویکجہتی اورایک دوسرے کیلئے ہمدردی ومروت کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ پوری دنیامیں اگرکہیں بھی کسی یہودی مفادات یایہودی شخص کسی بھی ناگہانی آفت سے دوچار ہوتاہے تو غاصب وقابض ملک اسرائیل اپنے تمام تروسائل اور ذرائع کا استعمال کرکے اس کاپائدارحل تلاش کرلیتاہے،لیکن مسلمان حکومتیں، بااقتدارشخصیتیں اور بااثرمسلمان دنیاکے کسی بھی ملک اورخطہ کے مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی مشکل کاحل تلاش کرنے میں یکسرناکام نظرآتے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کی اپنی ستاون (۵۷) حکومتیں ہیں،ان کے اپنے مالیاتی ذخائراور معدنیاتی خزینے ہیں ، تیل،گیس، پیٹرول، سونے اور چاندی کے معادن انھیں کے پاس ہیں،دنیاکی سب سے بڑی مجموعی فوجی طاقت بھی مسلمانوں کے پاس ہے،دنیاکے اہم راستے،ہوائی اور زمینی گزرگاہیں بھی مسلمانوں کے پاس ہیںلیکن ان سب کے باوجود ہماراکوئی وجود اور عالمی سوسائٹی میں ہماراکوئی شمارنہیں ہے…آخراس کی وجہ کیاہے…؟

وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے’’ مسلمان ‘‘ہونے کے احساس کوکھودیاہے،ایک مؤمن کیلئے سب سے بڑا جو سرمایہ ہوتاہے اس سرمایہ سے ہم دست بردارہوگئے ہیں،ہمارے پاس اڑنے کیلئے جودست وبازوتھے، پروازکیلئے جوفضائیں تھیں ،ان سب پر غیروں نے قبضہ جمالیااورہم اِسی خوش فہمی کاشکاربنے رہے کہ سب کچھ ہمارے پاس ہے،ہم نے حالات کا رونارونے کو فرض منصبی تصورکرلیا،اسلام اور مسلمانوں پرجبروتشددکومسلم حکومتوں کے سرتھوپ کر خاموش ہوگئے ،معاش ومعادکے معاملہ میں اللہ پرتکیہ کرنے کے بجائے عالمی اورسوئس بینکوں پربھروسہ کربیٹھے،اپنی جماعت اور جمعیت کومتحدکرنے کے بجائے ہم خوداغیار کی جماعت کارُکن بن گئے،اپنی دنیاآپ پیدا کرنے کے بجائے دوسروں کے رحم وکرم پراپنی زندگی گزارنے کودانائی اور حکمت عملی سمجھ بیٹھے ،اپنی پارٹی بنانے کے بجائے ہم خود دوسروں کی پارٹیوں میں ضم ہوگئے ،اپنا وجود ثابت کرنے کے بجائے دوسروں کے وجود کوثابت کرنے میں لگ گئے ، اپنی اسلامی تنظیمات،دینی مدارس،قرآنی مکاتب اورروحانی خانقاہوں کوآبادکرنے کے بجائے ہم ان ہی کومطعون اور ہدف تنقیدبنانے لگے ۔

ہماری یہ باتیں لفاظی نہیں،نہ ہی لفظوں کاہیر پھیرہیں،ہرلفظ کی ایک کہانی اورہرجملے کی ایک داستان دل خراش ہے جوانتہائی کرب انگیزاور غمناک ہے۔

آپ سوشل میڈیاپرجائیں وہاں آپ کویہی نظریات پڑھنے کوملیں گے…آپ عالمی رائے عامہ پرنظرکریں ہرجگہ اپنے ہی اپنوں سے باہم دست وگریباں ملیں گے…سیاست کے کوہ ہمالہ کے پہلے زینے پرہی ہم نے قدم رکھا اوراس کوبراکہناشروع کردیا…تجارت کی الف باء سے واقف نہیں اورعلمی موشگافیوں سے مفکراسلام بن گئے…فیس بک کے علاوہ ایک بھی کتاب نہیں پڑھی اورخود کودانشورسمجھنے لگے…فرائض کی ادائیگی ہونہیں پاتی اورمستحبات پرانگلیاں اٹھانے لگے…قرآن کریم کااردوترجمہ ہم سے ہونہیں سکتااورتفسیربالرائے کے خواب سجانے لگے…مکتب ہم سے صحیح طورپر چلایا نہیں جاتااورجامعات پرنکیرکرنے لگے…زکوۃ ہم سے نکلتی نہیں اورمدارس کے نظام طعام وقیام پرنقدوتنقیدکرکے دل کی بھڑاس نکالنے لگے…گھروں میں ہماری چلتی نہیں اور مساجد کے اماموں کواپنا غلام سمجھنے لگے…اپنی اولادشتربے مہارہے اورماتحت ملازمین کی زندگیاں اجیرن کئے ہوئے ہیں…اپنے ماں باپ کی خدمت ہونہیں پاتی دوسرے بزرگوں کے لئے مستقل فنڈکی بات کرتے ہیں…اپنی بچیاں بازاروں کی زینت بنی ہوئی ہیں اورمحراب سے ہم پردہ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں… اپنے گھروالے ہم سے ناخوش ہیں اورمعاشرہ میں خوشنما انقلاب کی ڈفلی بجانے سے نہیں تھکتے…اپنے گھروں کانظام درست نہیں مگر دوسرے اداروں،مدرسوںاورمسجدوںمیں مشورے دیتے نہیں تھکتے۔

نتیجہ یہ ہواکہ ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لئے اجنبی،ناکارہ اورعضومعطل تصورکئے جانے لگے، پروازکے لئے ہزاروں وسعتیں ،فضائیں اورافق وآسمان ہونے کے باوجودہماراعرصہ حیات ہم پر تنگ ہوگیا۔

آج دنیامیں ہراہم معاشی نظام پریہودیوں کا قبضہ ہے…پوری دنیاکاسب سے طاقتورادارہ میڈیا یہودیوں کے قبضہ میں ہے…پوری دنیا کاسب سے مالدارعالمی بینک یہودیوں کاہے…امریکہ کے سرکاری یانیم سرکاری ہربڑے شعبہ کی سربراہی یہودی کرتاہے…امریکی جاسوسی نظام سے لے کردنیاکے ترقی پذیراورترقی یافتہ ملکوں کے فوجی نظام کویہودیوں کے مشاق تربیت یافتہ فوجیوں سے ٹریننگ مل رہی ہے۔

دنیابھرکے مذکورہ کلیدی شعبہ جات پرمکمل یہودی گرفت کی وجہ کیاہے؟وجہ جاننے کے لئے تاریخ کے صفحات کو پلٹناہوگا۔

۵۸۶ قبل مسیح میں بخت نصرنے یہودیوں کاقتل عام کرایاتھا…۱۲۹۰ء میں برطانوی حکومت نے برطانیہ سے یہودیوں کونکال باہرکیا…۱۳۹۴ء میں فرانس میں یہودیوں کاقتل عام اورجلاوطنی ہوئی…۱۳مارچ ۱۴۹۲ء میں اسپین کی سرزمین بھی یہودیوں کیلئے تنگ ہوگئی اوروہاں سے بھی یہودیوں کوجلاوطن ہوناپڑا… ۱۵۴۰ء میں نابولی (اٹلی) میں یہودیوں کوبے تحاشہ مارااورجلاوطن کیاگیا۔

مشہورعیسائی ظالم حکمراں ہٹلرکوبھی یہودی خباثتوں اورچیرہ دستیوں کابخوبی علم تھا…اس نے محسوس کیاکہ روئے زمین پراس قوم سے زیادہ مفسد،فتنہ پرداز، عیار ومکاراورظالم وجابر کوئی اور قوم نہیں ہے چنانچہ ہٹلرنے یہودیوں کی ایک بڑی جمعیت کوجولاکھوں پرمشتمل تھی بے دریغ قتل کرادیا یہ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان کی بات ہے…جلاوطنی،نقل مکانی اور قتل عام کے یہ تمام واقعات عیسائی ملکوں اور عیسائی قوموں کے ذریعہ وجودمیں آئے جب کہ مسلمانوں نے یہودیوں کو ہرزمانہ میں بہت زیادہ مراعات دیں… چنانچہ اسپین میں مسلمانوں نے جومراعات دے رکھی تھیں ان پرمستقل ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن یہودی ہمیشہ اپنے محسنوں کے لئے آستین کاسانپ ثابت ہوئے ہیں جس کا خمیازہ آج ہم مسلمان’’ فلسطین‘‘ میں بھگت رہے ہیں۔

اِن مسلسل قتل عام سے بچ جانے والے مٹھی بھریہودی اپنی جان بچاتے اور دم دباتے دنیا کے طول وعرض میں بھاگتے پھرے،انھیں نہ تو کہیں جائے قرارمل سکی اور نہ ہی راہ فرار میسرآسکی،لیکن جویہودی جہاں بھی تھا آپس میں ایک دوسرے سے مربوط رہانتیجہ کے طورپر ۱۸۹۷ء میں سوئزرلینڈکے شہرباسل میں ۳۰۰؍اہم یہودی رہنماجمع ہوئے اورپوری دنیاکو اپنی مٹھی میں لینے کادستورالعمل طے کیا،اس دستورکوعام اصطلاح میں ’’یہودی پروٹوکول‘‘ کہاجاتا ہے۔چنانچہ اس پروٹوکول کے مطابق کام شروع ہوا،منصوبہ بندی،حکمت علمی،رازداری جوکسی بھی مقصدکوپانے میں کلیدکی حیثیت رکھتی ہے اس کو ہمہ وقت پیش نظررکھاگیااوراس رزلٹ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ۔(اقوام متحدہ بھی یہودی مفادات کے تحفظ کیلئے قائم ہواہے جس کے تمام اہم شعبہ جات یہودیوں کے پاس ہیں۔

یہودیوں نے اپنی شکست کابدلہ کتنی حکمت اور تدبیرسے لیاکہ دوسری تمام قومیں ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کامصداق بن گئیں۔لیکن مسلمان جوہردورمیں ظلم کا شکارہوا…ہرعہدمیں اس پر غیروں نے شکنجہ کسا…ہرظالم حکمراں نے گاجرمولی کی طرح کاٹا…ہرنزلہ مسلمانوں کی گردنوں پرگرا…لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدارنہیں ہوا… اور…ہم اپنے کرداروعمل سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے بجائے خودہی مرعوب ہوگئے۔

ایک بارحضرت خالدبن عبدالرحمن بغدادآئے توابوجعفرمنصوربغدادی نے آپ سے پوچھاکہ آپ تو خلفاء بنوامیہ میں تشریف لاتے رہے ہیں بتائیے کہ ان کے اورمیرے دورحکومت میں کیافرق ہے اورآپ نے راستے میں مختلف صوبوں کے عاملین کو کیساپایا؟

حضرت خالدؒنے برجستہ فرمایاکہ میں نے تمہارے عاملین(افسران )کودیکھاجن کے مظالم کی انتہا نہیں ہے، حالانکہ بنوامیہ کے عہدمیں کوئی ظلم نہیں تھا۔

منصورعباسی نے یہ جچاتلااور حق جواب سن کرندامت کے احساس سے گردن جھکالی اورکچھ دیر کے بعد سراٹھایااورگویاہواکہ اچھے عمال (افسران)نہیں ملتے،ہم کیاکریں؟

حضرت خالدؒنے فرمایاکہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ فرمایاکرتے تھے کہ حاکم کی مثال ایک بازارکی سی ہے جس میں وہی مال آتاہے جواس میں چلتاہے،اگروہ نیک ہوتاہے تومقربین اس کے پاس نیک لوگوں کو لاتے ہیں اور اگر وہ بدکار ہوتاہے تومقربین اس کی خدمت میں بدکاروں کو پیش کرتے ہیں۔

قرآن و حدیث میں بیان فرمودہ مختلف احکامات وارشادات کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اعْمَالُکُم عُمَّالکم (جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارے حکمراں )، ہمارے اعمال کی نحوست سے حکمراں متعین ہوتے ہیں’’شامت اعمالِ ماصورت نادرگرفت‘‘ ایک مسلمہ اصول ہے۔

اگرکسی شخص کوپرکھناہوتواس کیلئے سب سے اہم نکتہ ہمارے اکابرنے یہ فرمایاہے کہ اس کے مصاحبین اورمجلس نشین پرنظرکرو،اگرمجلس میں عارفین کی آمدزیادہ ہے تو ایسا شخص اپنے وقت کا عارف ہوگا،اگراس کی مجلس میں علماء اور اہل علم کی کثرت سے آمد ہوتی رہتی ہے تو ایسا شخص نیک اور صالح عالم ہوگا،اہل علم کی مجلس میں زرداروں اوردنیاداروں کی آمدزیادہ ہوتی ہوتو ایساشخص عالم دین نہیں طالب دنیا ہوگا۔جوعالم مالداروں کے پاس آتاجاتاہواس سے دوررہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

کام کے آدمی نہ ملنے کا شکوہ ،وہ بھی ’’خیرامت ‘‘ میں کس قدرافسوسناک ہے، ہند میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کل ۲۹ہزار ۷۸مدارس ہیں اگرہرمدرسہ سے سال میں صرف ایک قاری اورایک عالم پیدا ہوجائے تو ۲۹ہزار ۷۸قراء اور ۲۹ہزار۷۸علماء ہوجائیں گے۔اس حساب سے صرف دس سال میں ایک لاکھ نوے ہزارسات سواسی (۱۹۰۷۸۰)علماء اور قراء ہمارے درمیان اپنی شاندارلیاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ موجودہوں گے۔

غیرسرکاری اعدادوشمارکے مطابق ہندوستان میں ۳۵؍کروڑمسلمان ہیں ،اگرفی صدمسلمانوں پر ایک کام کاآدمی تیار ہوجائے تو ۳۵؍لاکھ کام کے افرادہمارے درمیان ہوسکتے ہیں،اس سے بھی زیادہ وسعت سے کام لیاجائے اورفی ہزار مسلمانوں پر ایک ہی کام کافردمان لیاجائے تب بھی یہ تعداد۳؍لاکھ پچاس ہزارہوجائے گی جوظاہرہے کہ ایک بڑے ملک کو چلانے اور کسی بھی نظام عمل کوسنبھالنے کی کفیل ہوسکتی ہے۔

ایک عیسائی ملک میں یہودیوں کی اہم کتاب ’’تلمود‘‘پرپابندی لگائی گئی تو یہودیوں نے اپنے بچوں کو تلمودکوحفظ کراناشروع کردیا۔

کچھ سال پہلے یوپی کی حکومت نے اردوٹیچروںکی تقرریاں شروع کیں تواس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت سے کافرمطلق نے اردوداں اوراردواداروں سے رجوع کیاکہ انھیں اردوسکھادی جائے تاکہ اردو ٹیچرس میں ان کا بھی نام آسکے۔

حج بیت اللہ جوخالص اسلامی شعارہے لیکن کس قدرتعجب کی بات ہے کہ ہندوستان میں حج کے امور کا سب سے کلیدی عہدہ غیرمسلم کے پاس ہوتاہے۔

اسی طرح ہندوستان میں اوقاف کی اہم حیثیت ہے اور تیسرے نمبرپرسب سے بڑی جائداد اوقاف کی ہے لیکن مجموعی طورپران کی دیکھ ریکھ کے لئے کلیدی عہدے غیروں کے پاس ہیں۔

ہندوستان میں سِکھ شایدسب سے کم ہیں لیکن طاقت اورروزگارکے اعتبارسے سب سے آگے ہیں۔

امت کوکبھی بھی گفتارکے غازیوں کی ضرورت نہیں رہی ہردورمیں کردارکے غازیوں کی جستجو رہی ہے،لیکن آج آپ کوشاندارقسم کے مقررمل جائیں گے لیکن خوشخط تحریروالاعالم مشکل سے ملے گا…اسٹیج کاشاندارعالم میسر ہوگالیکن مسندحدیث کامحدث نہ ملے گا…اجتماعات کاشاندارخطیب اورکتابوں کالاجواب ادیب مل جائے گالیکن دوسطریں انگلش میں ترجمہ کرنے والامترجم جلدی نہ ملے گا… اردو اخبارات کے پورے پورے صفحات بھردینے والاانشاء پرداز مل جائے گالیکن ریلوے اور بینک اکاؤنٹ کھلوانے میں فارم کی خانہ پری کے لئے دوسروں کامحتاج نظرآتاہے… دور مت جائیں ہندی ہمارے ملک کی زبان ہے لیکن خالص ہندی زبان میں تقریرکرنے والا مسلم دیندارمقررمشکل سے ملے گا،انگریزداں شخص سے گفتگوکرنے کی نوبت آجائے توبڑے بڑے بغلیں جھانکتے نظرآتے ہیں؟ہمارے تمام مدارس عربی تعلیم کے لئے وجودمیں آتے ہیں لیکن کسی بھی مدرسہ میں عربی وفودآجائیں تب پتہ چلتاہے کہ اس ادارہ میں عربی کے ماہرین کتنے ہیں؟

غورکریں کیااسلام خدانخواستہ بانجھ ہوگیاہے؟کیامسلمان دوسروں کے محتاج ہوکررہ گئے ہیں؟کیاصرف اردوزبان ہی ہندوستانی مسلمانوں کی روزی روٹی بن سکتی ہے؟کیااردوکے علاوہ اورزبانیں سیکھنااور سکھانا دورحاضرکی ضرورت نہیںہے؟ کیامنطق، المنطق، ایساغوجی، اقلیدس، صدرا، شمس بازغہ،تہذیب،شرح تہذیب، سلم العلوم،مسلم الثبوت اورقطبی یامیرقطبی جیسی سیکڑوں کتابیں حفظ کرلینے والاشخص محض اِن کتابوں سے اپنے بال بچوں کاایک وقت کاپیٹ پال سکتاہے؟

میں نصاب تعلیم کی خامی پرنہیں نظام تربیت کی کمی پرشکوہ سنج ہوں،غورکریں اگرہمارے پاس کوئی تجارتی دوکان ہو، دوکان بندہونے کاوقت ہوچکاہومگرگاہکوں کاتانتابندھاہواہوتوہم اپنی دوکان بندنہیں کرتے،ہماری ٹرین مؤخر ہوجائے توہم اپناٹکٹ کینسل نہیں کراتے، کھانا پکنے میں دیرہوجائے توہم کھانانہیں چھوڑتے، توپھرآخرکیاوجہ ہے کہ مدرسہ کاوقت ختم ہوتے ہی ہم درسگاہ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں،ہمار ے پیش نظرصرف نصاب تعلیم ہوتا ہے، مقدارخواندگی ہوتاہے،اسباق کاسننااورپڑھاناہوتاہے،ہم کوئی بھی دینی اصلاحی بات جوکتاب اورموضوع سے الگ ہو طلبہ کونہیں بتاتے،ان کے مستقبل کے سنوارنے کیلئے راہ عمل نہیں سجھاتے،اکابرکی زندگیوں کامنظرپیش نہیں کرتے، اسلاف کی راہوں کاخوگربنانے کی کوشش نہیں کرتے، توپھر غور کریں کیامحض کتابی علم سے بچہ کواپنے نفع ونقصان کاعلم ہوجائے گا؟

جواب نفی میں ہوگاتوپھراُن تمام راہوں کواختیارکیجئے جن کے اختیارکرنے کی ہمیں سنت اورشریعت نے اجازت دی ہے؟ہواؤں کے رخ کوپہچانئے اورایسی راہوں کاتعین کیجئے جن کے ذریعہ دین اسلام کوعروج مل سکتاہے، ایسی ڈگرکے خوگربنئے جن کوہمارے اسلاف اوراکابرنے اختیارکرنے کی اجازت دی ہے، دنیاکی ہرزندہ زبان کوسیکھئے اورپھران ہی لوگوں میں دعوت کے کام کوآگے بڑھائیے پھردیکھئے اسلام کی عظمت رفتہ بحال ہوگی اوراس کواس کاکھویاہوامقام پھرسے مل سکے گا۔

ضرورت ہے کہ ہم اپنے چھوٹوں کوآگے بڑھائیں، نئے دماغوں ،نئے چہروں اورنئے عزم وارادوں سے لیس نئی نسل کوکام کے بہترسے بہترطریقے بتلائیں اوران کو دین کا سچاخادم بنائیں، دینی مدارس کی روح کوبرقرار رکھیں،وہاں زیرتعلیم طلبہ کی تعلیم وتربیت پر ایسی توجہ اوردلچسپی کامظاہرہ کریں جوہم اپنے بچوں کے سلسلہ میں کرتے ہیں۔

مدارس ضرورت کی جگہوں پرہی قائم کریں، اختلافات کی بنیادپرکوئی مدرسہ نہ کھولیں نہ ہی کسی مدرسہ پرقبضہ کریں، افرادسازاداروں کو وجودبخشیں ،دین کودین کے سچے خادم ہروقت اورہمہ وقت مل سکیں اورپھر قوم کایہ دکھڑا اوررونابھی دورہوجائے کہ قحط الرجال کازمانہ ہے،افرادسازی نہیں ہورہی ہے،رازی اور غزالی پیدانہیں ہورہے ہیں،عوام کو ان کی توقعات کے مطابق علماء،حفاظ،قرا،دعاۃ اور مبلغین ومقررین نہیں مل پارہے ہیں۔

جو بات مناسب ہے وہ حاصل نہیں کرتے
جو اپنی گرہ میں ہے اسے کھو بھی رہے ہیں
بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
 
Top