سوچئے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

سوچئے!

ناصرالدین مظاہری
۳۰؍محرم الحرام ۱۴۴۵ھ

بجلی کی آنکھ مچولی مسلسل جاری تھی،کبھی کبھی توکئی کئی گھنٹے کے لئے بھی غائب ہوجاتی ہے، عموماً بجلی جانے کی صورت میں انورٹر اپناکام خود بخودشروع کردیتاہے لیکن آج انورٹرنے بھی دھوکہ دیا،بجلی کے ماہرسے روداد بتائی تواس نے جواب دیاکہ انورٹر بجلی کامحتاج ہوتاہے ،جب اچھی خاصی بجلی اچھی خاصی دیرتک رہتی ہے تب انورٹربھی اچھی طرح سے چارج ہوجاتا ہے اور اگربجلی کی آنکھ مچولی جاری رہے،دیردیر تک بجلی غائب رہے توانورٹربجلی سے استفادہ نہیں کرسکتا،انورٹرمطلوبہ پاور اور بجلی کشیدکرکے ذخیرہ اندوزی نہیں کرسکتا۔

بجلی کی مہنگائی،کم پیداواراورزیادہ خرچ کودیکھتے ہوئے سائنس دانوں نے سولرسسٹم ایجادکیا جوسورج سے بجلی کشید کرکے اپنے پاس محفوظ کرتارہتاہے اورپھرضرورت پڑنے پر بجلی کی سپلائی شروع کردیتاہے ۔لیکن سردیوں میں جب مسلسل چالیس دن تک سورج دکھائی نہیں دیا،سورج کی روشنی سے سولرسسٹم محروم رہاتوہزارکوشش کے باوجودبھی بجلی سپلائی نہ کرسکا۔

یہ دونوں مثالیں ایک ایسی حقیقت ہیں جن سے ہم قطعاً انکارنہیں کرسکتے، اب ہم ان مثالوں کی روشنی میں اپنے ماحول اورمعاشرے میں پھیلے اداروں، رفاہی وغیررفاہی تنظیموں،فعال وغیرفعال تعلیم گاہوں اورمعاشرے کاجزو معطل اورزمین کابوجھ بنے لوگوں کودیکھتے ہیں ۔چھ ارب سے زیادہ لوگوں کابوجھ اس زمین نے اپنی پشت پرلاداہواہے ،کروڑوں لوگ روزانہ مرتے اور پیداہوتے ہیں۔ غورکیجئے کہ بہت سے مرنے والے اب بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں اوربہت سے زندہ اب بھی ہمارے درمیان’’ مردہ حالت‘‘ میں موجودہیں ۔

خوب سمجھ لیجئے کہ ہر سوسائٹی،ہر ادارہ،ہر تنظیم، ہر مدرسہ اور جامعہ پاورہاؤس کے مانند ہے،اگرپاورہاؤس میں جان باقی نہ رہے، پاور ہاؤس ناکارہ اورنکما ہوجائے یااس میں اتنی کمزوری اوراضمحلال پیداہوجائے کہ وہ بقدر ضرورت بجلی سپلائی نہ کرسکے توآپ سمجھ سکتے ہیں ہزاروں لاکھوں انورٹرجوگھروں میں منتظرِپاور ہیں وہ خودبخود ضائع اوربے کارہوجائیں گے۔یہی حال ہمارے اداروں کاہے اگرہمارے یہ ادارے حقیقت میں پاورہاؤس کاکردارادانہیں کرپارہے ہیں توجس طرح پاورہاؤس بندیاتبدیل کردئے جاتے ہیں اسی طرح اِن پاورہاؤسوں کوبھی تبدیل اورتحلیل کردیاجاناچاہئے۔جہاں بسیں نہ چلتی ہوں وہاں بس اڈوں کاکام نہیں،جہاں فلائٹ نہ آتی جاتی ہوں وہاں ایرپورٹ کاکام نہیں،جہاں ریل گاڑیاں نہ آتی جاتی ہوں وہاں ریلوے اسٹیشنوں کی ضرورت نہیں اورجہاں کام کے افراد پیدانہ ہوتے ہوں وہاں اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ اپنے گھرمیں دیکھ لیجئے مرنے سے والے سے ہماراکتناہی تعلق ہوہم اس کے مرنے کے فوراًبعداسے دفنانے میں کتنی جلدی کرتے ہیں بالکل یہی حال ہمارے اداروں کابھی ہے اگرہمارے ادارے،شخصیات اورتنظیمیں ناکارہ اورنکمی ہوجائیں تووہ جیتے جی مردہ سمجھی جاتی ہیں۔آپ انورٹراورسولرکی محتاجی سے عبرت نہیں حاصل کرسکتے توسمجھ لیجئے کہ آپ بھی بس جیتے ہیں جیسے اورلوگ جیتے ہیں لیکن آپ کایہ جینازمین کے لئے صرف بوجھ ہے ،آپ اپنے آپ کودوسروں کامحتاج اوردست نگرنہ بنائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوپرِپروازعطاکئے ہیں، اس نے ذہن ودماغ عطاکیاہے،اس نے قوت بازوسے نوازاہے ،اس نے بے شماراُفق عطا کئے ہیں ،ستاروں اورسیاروں سے تیزچلنے والا آپ کاذہن اگربندکمرے میں ناکارہ ہوا جاتاہے تویقین جانیں کل آپ سے اس کی بابت بھی سوال ہوگاکہ ہم نے تمہیں اتناعمدہ دماغ دیاتھا اس کوکن کاموں میں خرچ کیا؟

کب تک رہے گا روشنی کے انتظار میں
جلتا نہیں ہے خود سے دیا احتساب کر

گمنام ہو گیا ہے تو اپنی ہی بزم میں
کن غلطیوں کی ہے یہ سزا احتساب کر

اپنے کئے دھرے کا اب احیاؔ حساب کر
دنیا ملی کہ دین ملا احتساب کر

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :لاتصاحب الامؤمنا ولا یایأکل طعامک الاتقی ۔کہ سوائے مؤمن کے کسی کودوست نہ بناؤاورمؤمن ہی تمہارے دسترخوان سے کھانا کھائے۔اس سے آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ ان ہی اداروں سے جڑیں جورفاہی اورلوگوں کی بہبودکاکام کرتے ہوں،ان ہی لوگوں سے مربوط ہوں جن کی ذات سے آپ کو فائدہ ہوتاہو،ان ہی مجلسوں میں شرکت کریں جہاں کسی کی غیبت نہ ہوتی ہو،کسی کاتمسخرنہ اڑایاجاتاہو،کسی کی پگڑی نہ اچھالی جاتی ہو،جہاں تخریب کاسامان نہ فراہم کیاجاتاہو،جہاں تعمیری ذہن ہو،تعمیری فکرہو،تعمیری عزائم اورارادے ہوں ،وہ ادارے ادارے نہیں تجارتی ’’دکانیں ‘‘ہیں جن سے ملت کوکوئی فائدہ نہ ہوتاہو،وہ تنظیمیں تنظیمیں نہیں’’ پیٹ بھرائی ‘‘کاگھرہیں جوصرف اپنی ذات کے لئے خیرات حاصل کرنے کے درپے ہیں،وہ مدرسے مدرسے نہیں جن سے نئے اورتازہ دم علماء اورحفاظ پیدانہیں ہوتے ہیں،ہرسال علماء کی اتنی بڑی تعدادفارغ ہوکر کہاں ضم اورختم ہوجاتی ہے کہ ہرادارے کوکام کے افرادنہ ملنے کاشکوہ ہے؟کبھی اس موضوع پرکانفرنسیں نہیں ہوتی ہیں، کبھی ملی ادارے اس بارے میں غوروفکرکے لئے کسی ایک پلیٹ فارم پرجمع نہیں ہوتے ہیں،کبھی کوئی شخصیت اس درداورکرب کولے کرمیدان میں نہیں اترتی ہے۔ہرکسی کواپنی فکرہے جب کہ ہم اس مذہب اوراس قوم کے نمائندے ہیں جہاں ذاتیات سے نہیں عوام سے مطلب رکھا جاتاہے ،جہاں یہ اعلان کیاجاتاہے کہ خیرالناس من ینفع الناس،لیکن پھرآخرکیوں ہمارے اندر سے رجال کارظاہرنہیں ہوتے؟کیوں اتنی بڑی تعدادفارغ ہوکرسمندری جھاگ کے مانند بیٹھ جاتی ہے۔خدارا!ان فارغین کے لئے سوچئے ،انھیں فارغ ہونے سے پہلے ان کے لئے اُفق تلاش کیجئے،کن سمتوں اورجہتوں میں کس کوکیاکام کرنے ہیں آپ ہی متعین کیجئے،ہرمسجدکوصرف ایک ہی امام چاہئے اورہرمسجدکوپہلے سے امام ملاہواہے،ہرمدرسہ میں دارالافتاء نہیں ہے اس لئے ہرمدرسہ کومفتی نہیں چاہئے ، ہرمدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اس لئے ہرمدرسہ کوفارغین کی ضرورت نہیں ہے توپھریہ آپ کے سوچنے کاکام ہے کہ ملت کوکتنے علماء کی ضرورت ہے اسی طلب اورآرڈرکے مطابق آپ سامان تیارکیجئے ،طلب اور ڈیمانڈ سے زیادہ جس کمپنی اورفیکٹری نے مال تیارکیا وہ مال کوڑیوں کے بھاؤ سڑک کے کنارے فروخت ہوتے دنیادیکھتی ہے آپ اپنے وزن کومت گھٹایئے، دنیامیں جس چیزکی طلب ہے وہی مال تیارکیجئے ،تب ہی آپ کی کمپنی ترقی کرے گی، تب ہی آپ کاادارہ معاشرے کی نظروں میں مفیدثابت ہوسکے گااورتب ہی آپ ’’خیرامت‘‘ کامصداق کہلائیں گے۔مصحفی غلام ہمدانی کاخیال ہے:

ہم بھی اے جان من اتنے تونہیں ناکارہ
کبھی کچھ کام تو ہم کوبھی تو فرمایا کر
 
Top