ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں

سیما

وفقہ اللہ
رکن
ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں

ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں
سوچوں کے الاؤ سے لگے ہیں

دنیا کی گرفت میں ہیں سائے
ہم اپنا وجود ڈھونڈتے ہیں

اب بھوک سے کوئی کیا مریگا
منڈی میں ضمیر بک رہے ہیں

ماضی میں تو صرف دل دکھاتے تھے
اس دور میں ذہن بھی دکھتے ہیں

سر کٹاتے تھے کبھی شایان شان
اب لوگ زبان کاٹتے ہیں

ہم کیسے چھڑائیں شب سے دامن
دن نکلا تو سائے چل پڑے ہیں

لاشوں کے ہجوم میں بھی ہنس دیں
اب ایسے بھی حوصلے کسے ہیں

احمد ندیم قاسمی
 
Top