اقصیٰ کے مسلمانوں کی پکار

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اقصیٰ کے مسلمانوں کی پکار
✍️ محمدداؤدالرحمن علی
ہر مسجد کا الگ الگ مقام و مرتبہ ہے۔ گھر کی مسجد ، محلہ کی مسجد ، شہر کی مسجد سب کا اپنا الگ الگ مقام ہے۔ خطہ ارض پر تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف سفر کرنا باعث ثواب ہے۔ ان مساجد میں ایک مسجد ”مسجد اقصی“ ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں کے آس پاس کی زمین بابرکت ہے۔ جس زمین کا قرآن میں ذکر ہے۔ جس زمین پر انبیاء علیھم السلام کی آمد ہوئی اور انبیاء کا مسکن رہا۔
یہاں وہ مسجد قائم ہے جو مسلمانوں کا ”قبلہ اول“ ہے۔ مسلمان اس طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ روئے زمین پر تعمیر ہونے والی دوسری مسجد ہے۔
ایک مسلمان کے لیے یہ سر زمین اور یہ مسجد قابل رشک ہیں۔
یہ مقام ہمیشہ یہودو نصری کی آنکھوں میں کھٹکتی رہا۔ مخلتف حیلوں بہانوں سے یہاں کے مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا رہا ۔ اس سرزمین پر ناجائز قبضہ کی جسارت کی گئی ۔ اس سرزمین پر واقع مسجد کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی۔ دنیا اس بات کی گواہ ہے جب بھی کسی نے اس پاک سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو مسلمان کمانڈروں نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔
تاریخ اوراق اٹھاکر دیکھیں آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے یہ مقام کتنا اہم ہے۔ مسلمانوں نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سینچا ہے۔
بیت المقدس کی فتح کے موقع پر خلیفتہ المسلمین ، خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا تھا:
”جب تک مسلمان اسلام پر عمل کرینگے اس وقت تک عزت کے ساتھ رہینگے، جس دن مسلمان اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دینگے اس دن ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔“
آج دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔ آج جب اسلامی ممالک کی طرف دیکھتا ہوں تو یہ الفاظ سچ ثابت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آج ستاون سے زیادہ اسلامی ملک ہونے کے باوجود ، آج مسلمانوں کی طاقت ہونے کے با وجود ، آج مسلمانوں کے پاس ہر وسائل ہونے کے باجود مسلمان پستی کا شکار ہے۔
آج مسلمان کے سامنے اس کے مسلمان بھائیوں کو بے دردی سے اس دنیا سے رخصت کیا جارہاہے۔ آج مسلمان کے سامنے مسلمان کو ہی لا کھڑا کیا جارہاہے ۔ آج مسلمانوں کو گاجر مولی سمجھا جارہاہے۔
آج فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں پر باوجود وسعت کے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ ظلم کا ہر حربہ ان پر استعمال کیا جارہاہے۔ جبر کی تمام اقسام ان پر آزمائی جا رہی ہیں۔
ایک ملک کے ساتھ دوسرا ملک ڈنکے کی چوٹ پر اس کا ہر ممکن ساتھ دے رہاہے۔
مسلمان کے خون کو خون نہیں ، مسلمان کے بچے کو بچہ نہیں ، مسلمان کے حقوقوں کو حقوق نہیں ، مسلمان کے مال کو مال نہیں ، مسلمان کی عزت کو عزت نہیں سمجھا جا رہا۔
ایسے وقت میں دو ملک جو بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ہیں ملکی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی ۔ دونوں مسلمانوں کی نسل کشی پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس کے باجود ہمارے حکمران خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔
مسلمان حکمران اپنی شاہی میں مست رہے ، حکمران اپنی عیاشیوں پر نظر رکھتے رہے ، حکمران اپنی شاہ خرچیوں کے ساتھ سرخیوں میں رہے۔
لیکن وہاں سر زمین فلسطین خون سے رنگین کردی گئی ، وہاں جدید اسلحہ کے استعمال کے ساتھ بچوں کو روندا گیا ، وہاں ماؤں کے دوپٹے ، بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتا رہا۔
جب مؤرخ آج کے حالات ہماری نسلوں کو سنائے گا تو کچھ یوں گویا ہوگا
پچاس سے زائد مسلم حکمران تھے اس کے باجود مسلمانوں پر ظلم ہوتا رہا۔ وہ بارود میں بھی نماز ادا کرتے رہے اور دیگر باجود ہر آرائش کے مساجد خالی تھیں۔
وہ لکھے گا۔
فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کے خون سے زمین لال ہورہی تھی اور اسلامی سپر پاور کے مسلمان ولڈ کپ کے میچوں میں مشغول تھے۔
وہ بتائے گا
وہاں مسلمان کے بچے خون میں لت پر تھے اور یہاں کے لوگ اپنی مستی میں مست تھے۔
وہ محسوس کرائے گا کہ
ان پر کھانا بند تھا اور یہ لوگ ہزاروں روپے کا کھانا ضائع کررہے تھے۔
مؤرخ کہے گا
جب فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کو بے دردی سے موت کی نیند سلا جا رہا تھا یہ سب اپنے گھروں میں میٹھی نیند اور ہے تھے۔
وہ ان بزدلوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھے گاکہ
ان پر پانی بند تھا اور یہ لوگ مختلف اقسام کے اور ذائقے کے شربت پی رہے تھے۔
مسلمانو! تم سے مخاطب ہوں ۔
تم تو ایک غیرت مند قوم تھے۔ تمہاری غیرت کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ تمہارے سے دشمن خوف کھاتا تھا۔
اب تمہیں کیا ہوگا ہے۔؟ کس طرف چل پڑے ہو۔؟ کس کو خوش کرنا چاہتے ہو۔؟
یہ تو تمہارا شیوہ نہیں تھا ۔ یہ تو نہ سکھایا اور نہ بتلایا گیا تھا۔
مظلوم کی ایک آواز پر تم بلا خوف وخطر ملک فتح کردیا کرتے تھے۔
تم کب سے بے غیرت بنے۔؟ تمہاری غیرت کب سے ختم ہوئی۔
میں ان این جی اوز کو بھی مخاطب کروں گا جو کسی کو صرف ایک ہلکی سی کھروچ آجائے تو زمین و آسمان کی قلابازیاں ملا جاتے ہیں۔ وہ کہاں ہے۔۔۔؟ مجھے بتائیں آپ کا احتجاج کہاں ہورہاہے۔؟ آپ کون سے ٹی وی پر بیٹھ کر انصاف کی بات فرمارہے ہیں۔
بتائیں نہ۔؟ جب مسلمان کی باری آتی ہے یہ قلابازیاں کہاں چلی جاتی ہیں ۔ تمہارے احتجاج کہاں غائب ہوجاتے ہیں ، ٹی وی پر تمہارے چہرے نظر کیوں نہیں آتے۔ ؟
میں منتظر ہوں آپ کا کہ آپ ان پھولوں کی بابت کیسے آواز بلند کرتے ہیں۔
میں ان صحافی بھائیوں کا منتظر ہوں جو بات بات پر گھنٹوں پروگرام کردیا کرتے ہیں ، جو ہر چینل کی زینت ہوا کرتے ہیں۔ اخبارات میں ان کے مضمون ہوتے ہیں اور خبریں ان کی شہ سرخیوں میں شائع ہوتی ہیں۔
کب کرینگے آپ پروگرام ، کب لکھیں گے آپ کالم ، کب بنیں گی آپ کی آواز اخبار کی شہ سرخیاں ۔؟
کہاں ہیں وہ قلم نگار جن کی قلم خاموش ہیں ، کیوں ان کے قلم جنبش نہیں کررہے۔؟ کیوں ان کے قلم کی سیاہی خشک ہو گئی ہے۔؟
حکمرانو، صحافیو ، این جی اوز والو ، قلم نگارو غیرت کا مظاہرہ کرو ۔
یاد رکھو! تم فاتح بیت المقدس حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ، سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ ، سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ جیسے دلیر ، بہادر ، نڈر ، طاقت ور ، جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود کے پیرو کار ہو ، ان کے روحانی بیٹے ہو ، ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہو ۔
تمہیں غیرت مسلم زیب دیتی ہے، تمہیں بے غیرتی کا لبادہ زیب نہیں دیتا۔
سنو! اگر تمہارے اندر غیرت ہوتی تو غزہ کی یہ حالت نہ ہوتی، اگر آج تم غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے تو ان پر ٹینکوں ، توپوں ، بموں ، میزائلوں کی بارش نہ ہوتی۔
اگر تم میں غیرت ہوتی تو غزہ کی فضاؤں سے یہ اعلانات نہ ہوتے کہ یا اللہ! اب تیرے سوا کوئی نہیں بچا۔
اگر تم میں ذرہ بھر بھی غیرت ہوتی تو اہل غزہ کی مساجد کی سپیکروں سے اہل اسلام کو نہ پکارا جاتا۔
آج اگر تم میں غیرت ہوتی تو غزہ کے پھول اللہ کے حضور شکایت کا نہ کہتے۔
ارے او مسلم حکمرانوں! یاد رکھو! اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
تم ہمیشہ نہ دنیا میں رہو گے نہ ہمیشہ بادشاہت میں ۔
غزہ کی فضاؤں سے آنے والی اور دل چیر کر رکھ دینے والی آوازوں پر کان دھرو، ان کی مدد کو آگے بڑھو ، ان کے لیے اقدامات کرو ، بیان بازی سے آگے نکل کر حقیقی معنوں میں کردار ادا کرو۔
ان کی ایک ایک چیز کا بائیکاٹ کرو ، ان کی چیزوں کی سپورٹ کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کی گردن پر پاؤں مت رکھو، ان کے دست بازو مت بنو ۔
اپنے مسلمان ممالک اور اپنے ملک کی چیزوں کو فوقیت دو اور اسے استعمال کرو۔
آج وقت ہے اپنی غیرت ایمانی کو جگاؤ ، پیغام دو کہ غیرت مسلم زندہ ہے۔
اگر بدر میں ۳۱۳ کی مدد کے لیے فرشتے اتر سکتے ہیں ، تو آج اگر تم اہل فلسطین کی مدد کو قدم بڑھاؤ ان شاءاللہ آج بھی فرشتے اتر سکتے ہیں قطار اندر قطار اب بھی۔
ہمت تو کرو ، اللہ کے حکم کو پورا تو کرو۔
تم بہادروں کی اولاد ہو ، ڈرو مت ، سوچو مت ، گھبراؤ مت
کبھی قدم ڈگمگا جائیں تو اسلام کے جرنیل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی نصیحت یاد رکھنا۔
”دنیا کے بزدلو کو بتادو، اگر جہاد سے موت آتی تو خالد بن ولید کو بستر پر موت نہ آتی۔“
بزدلی چھوڑ دو ، بہادری کے ساتھ اہل فلسطین و کشمیر کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کھڑے ہو جاؤ ۔
ان شاءاللہ فتح تمہاری ہوگی۔
نصرمن اللہ و فتح قریب

نوٹ: پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے درج ذیل فائل پر کلک کریں۔
 

Attachments

  • اقصیٰ کے مسلمانوں کی پکار.pdf
    4.3 MB · مناظر: 10
Top