میری ہر دل عزیز شخصیت سے آخری ملاقات

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
میری ہر دل عزیز شخصیت سے آخری ملاقات
✍️ محمدداؤدالرحمن علی
25 نومبر 2022 بروز جمعتہ المبارک کو میں جونہی ہاسپٹل کے کمرے میں داخل ہوا،سامنے بیٹھی نورانی شخصیت نے مسکراکر میرا استقبال کیا،حال احوال کے بعد ساتھی کو کہا دراز سے پھل فروٹ نکال کر داؤد کو دو۔ مجھ سے قبل سب سے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد عبدالرحمن صدیق صاحب اور مجھ سے بڑے بھائی مولانا مفتی محمد شمس الرحمن عثمان صاحب پہنچ چکے تھے۔جس شخصیت کے پاس بعد از جمعہ ہم بھائی پہنچے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہر دلعزیز شخصیت ،میرے پیارے بڑے بھائی حضرت مولانا محمدحفظ الرحمن فاروقؒ تھے۔
جیسے بھائی جان ؒ کی عادت تھی اور جیسے ہنس مکھ مزاج تھا اسی طرح سب سے مل رہے تھے اور باتیں کررہے تھے۔ جو بھی ملنے آتا تو اپنے انداز میں مہمان نوازی کرتے اور ساتھ طالب علم کو کہتے ان کو فروٹ نکال کردو۔
ہنسی مزاق کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی،بڑے بھائی مولانا محمدعبدالرحمن صدیق صاحب نے فرمایا:
مجھے کام ہے ،میں ان شاءاللہ وہ کرکے آجاؤں گا۔
تو کہنے لگے:
بے فکر ہوکر جائیں ،اب طبیعت بہت بہتر ہے۔
اسی دوران میرے ماموں زاد بھائی مولانا محمد سہیل نواز عثمانی،مولانا محمد شعیب نواز عثمانی،مولانامحمد منیب الرحمن صدیق صاحب تشریف لائے اور اسی طرح ہم ہنسی مزاق میں باتیں کررہے ہیں۔اور ساتھ ساتھ بھائی جان مرحوم اصرار کررہے ہیں کہ
یار کچھ کھا پی لو،باتیں ہوتی رہیں گی۔
اسی گفتگو کے دوران تایازاد بھائی حافظ محمد عاصم یسین صاحب اپنی والدہ کے ساتھ آئے،جس طرح سب ان کے ہنسی مزاق کیا کرتے تھے اسی طرح ہی ان سے باتیں چل رہی ہیں۔
اسی دوران انہیں سانس کی تکلیف شروع ہوگئی،لیکن پھر بھی وہ ہمارے ساتھ اسی طرح گفت و شنید کرتے رہے۔گھر سے حضرت والد صاحب مدظلہ کال کرکے مجھ سے صورت حال دریافت کرتے رہے،اور عرض کرتا رہا طبیعت اب کافی بہتر ہے۔
اس حالت میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھا،جس مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے،اس کے بارے میں ساتھ لڑکے سے پوچھ رہے تھے۔
یکدم مجھ سے کہا:
بات سنو!گھر میں کسی نہ کسی کی طبیعت خراب ہے،اس لیے سوچا تھا کل ہفتہ ہے ،سب کو بلالو ،دعوت رکھ لو دعا ہوجائے گی۔
بڑے بھائی مولانا محمد عبدالرحمن صدیق صاحب نے کہا :
آپ ٹھیک ہو جاؤ ،دعوت بھی کرلیں گے۔
پھر دوبارہ میری طرف مڑے اور کہا:
اگر دعوت نہیں رکھنی تو میں فلاں فلاں کو کال کرچکاہوں،ان کو پھر منع کردینا۔
اسی دوران عاصم بھائی جب آئے تو انہیں بھی کہ دیا کہ آپ کو دعوت کی کال کی تھی۔ لیکن سب کہ رہے ہیں کہ کرلیں گے،اس لیے کل دعوت نہیں۔
عاصم بھائی نے مزاحیہ انداز میں کہا
تسی سیٹ ہوجاؤ،دعوت وی کھا لاں گے۔
اسی ہنسی مزاق اور گپ شپ کے دوران طبیعت مزید ناساز ہونا شروع ہوگئی۔جب طبیعت مزید بگڑی تو مجھ سے ہی کہنے لگے
میرے موبائل سے فلاں صاحب کا نمبر نکالو،اس کو کال کرو۔
فلاں ڈاکٹر صاحب سے پوچھو۔
فلاں صاحب کے بھائی ڈاکٹر ہیں ان سے رابطہ کرلو۔
اور میں ان کی ہدایت کے مطابق کالز بھی کررہا تھا اور ان سے گفتگو بھی۔
مغرب کی نماز کے قریب سانس کی مزید تکلیف شروع ہوگئی،ڈاکٹرز نےتجویز کیا کہ اب وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جانا چاہیئے۔
اسی دوران والد گرامی کی کال آئی تو عرض کی کہ
یہ صورت حال ہے۔
فرمایا جیسا ڈاکٹر کہتے ہیں کرلو۔ اللہ کرم کرے گا۔
جب بھائی کو ایمر جنسی میں منتقل کیا جارہا تھا تو جو بھائی کے آخری الفاظ میرے کانوں نے سنے وہ تھے۔
یا اللہ! یا اللہ! اللہ اکبر
یہ وہ الفاظ تھے جو میرے کانوں نے سنے،معلوم نہیں تھا ان کی یہ آخری آواز سن رہاہوں۔
اس کے بعد ڈاکٹرز نے مختلف ٹیسٹوں کے لیے دوڑا دیا اور میں اسی میں لگا رہا۔
اسی دوران باقی سب بھی آگئے،بڑے بھائی مولانا محمد عبیدالرحمن صدیق صاحب وہیں بھائی جان کے پاس بیٹھ کر اور ہم دو بھائی مزید جو چیزیں وہ منگوا رہے تھے اسی میں مصروف تھے۔
رات کو ڈاکٹر نے بلاکر کہا کہ ایک انجیکشن کی ضرورت ہے،کافی بھاگ دوڑ کی پر نہیں ملا،تو میں نے اپنے ماموں جان حضرت مولانا محمد اکرم عثمانی کو کال کی کہ اگر آپ کے ہاں کوئی میڈیکل سٹور کھلا ہے تو یہ انجیکشن پتہ کردیں۔
اس وقت سب بازار بھی بند ہو چکے تھے،الحمداللہ انجیکشن ہمیں مل گیا۔
بعد ازاں والدین،ماموں سب آگئے۔
ڈاکٹرز نے بھی کہ دیا کہ طبیعت بحال ہوگئی ہے آپ صبح ان کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ان شاءاللہ صبح تک ٹھیک ہونگے۔
ہم سب مطمئن ہوگئے اور محسوس بھی ہورہا تھا اب طبیعت کافی بحال ہے۔
والد گرامی بھائی جان کے سر کی طرف آگئے اور کلام الہیٰ پڑھنا شروع کردیا۔
اسی دوران ڈاکٹر نے مجھے بلایا کہ آؤ ایک کام ہے۔
ہم ایک دوسرے ڈاکٹر کو ملنے چلے گئے،لیکن وہ جا چکے تھے۔ ہم واپس آئے تو ڈاکٹر نے کہا:
جو ٹیسٹ کرایا اس کی رپورٹ بھی لے آؤ۔
میں باہر آیا اور مولانا شعیب نواز کو کہا کہ سامنے لیبارٹری سے رپورٹ لاؤ۔
بھائی مولانا مفتی شمس الرحمن عثمان کو بھی شدید بخار تھا سب کہنے لگے آپ جائیں ،طبیعت اب بہت بہتر ہے،ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوگا۔
میں باہر آگیا والد گرامی و بھائی اندر چلے گئے۔اسی دوران ڈاکٹر نے ایک اور ٹیسٹ رپورٹ لانے کو کہا
باہر آیا تو ذہن سے نکل گیا کہ کون سی لیبارٹری دیکر آیا تھا۔یہ سوچ کر واپس پلتا کہ ڈاکٹر سے پوچھتاہوں۔؟
واپس آیا تو دیکھا تو سب کمرے سے باہر ہیں۔
پوچھا: خیریت۔؟
کہنے ڈاکٹرز نے کہا ہے سب باہر جائیں۔
تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ کسی کام سے باہر کی جانب چلا گیا۔
واپس اندر آیا تو دیکھا وہاں کوئی نہیں۔
دل سے نکلا
یا اللہ خیر
کچھ آگے بڑھا تو بھائی جنید کھڑے تھے ۔انہوں نے بس سر کو دائیں سے بائیں جانب ہلایا۔
نہ سمجھتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
منظر ہی کچھ اور تھا۔جو بھائی مجھ سے کچھ دیر قبل ہنس کر باتیں کررہا تھا اور چیزیں بتارہا وہ بھائی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکا تھا۔

بھائی بچھڑا کچھ اس طرح
آنکھیں سب کی نم کرگیا
مسکراتے ہوئے چہروں پر
غم کے آثار چھوڑ گیا۔
چودھویں کا چاند بن کے اُبھرا افق پر
ہمیں روتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چھپ گیا
تھے وہ اِک چمکتے ہوئے ستارے
چمکتے چمکتے کہکشاں ہوگیا
ہنستا ہنستا چہرہ جب آتا ہے سامنے
یوں مسکراتے مسکراتے رب کے ہاں چلا گیا
آج بھی یقین نہیں کرپاتا داؤد
مجھ سے باتیں کرتے کرتے وہ یوں اچانک چلا گیا

تمام احباب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے
 
Last edited:

محمدشعیب

وفقہ اللہ
رکن
الفاظ کم ہیں بھائی کی شخصیت کے بارے میں،ہم سے کلاس میں چند سال سینئیر تھے پر محبت و شفقت سب سے فرماتے تھے۔بڑی عظیم اور باکمال شخصیت تھے
اللہ پاک غریق رحمت فرمائے۔آمین
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میری ہر دل عزیز شخصیت سے آخری ملاقات
✍️ محمدداؤدالرحمن علی
25 نومبر 2022 بروز جمعتہ المبارک کو میں جونہی ہاسپٹل کے کمرے میں داخل ہوا،سامنے بیٹھی نورانی شخصیت نے مسکراکر میرا استقبال کیا،حال احوال کے بعد ساتھی کو کہا دراز سے پھل فروٹ نکال کر داؤد کو دو۔ مجھ سے قبل سب سے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد عبدالرحمن صدیق صاحب اور مجھ سے بڑے بھائی مولانا مفتی محمد شمس الرحمن عثمان صاحب پہنچ چکے تھے۔جس شخصیت کے پاس بعد از جمعہ ہم بھائی پہنچے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہر دلعزیز شخصیت ،میرے پیارے بڑے بھائی حضرت مولانا محمدحفظ الرحمن فاروقؒ تھے۔
جیسے بھائی جان ؒ کی عادت تھی اور جیسے ہنس مکھ مزاج تھا اسی طرح سب سے مل رہے تھے اور باتیں کررہے تھے۔ جو بھی ملنے آتا تو اپنے انداز میں مہمان نوازی کرتے اور ساتھ طالب علم کو کہتے ان کو فروٹ نکال کردو۔
ہنسی مزاق کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی،بڑے بھائی مولانا محمدعبدالرحمن صدیق صاحب نے فرمایا:
مجھے کام ہے ،میں ان شاءاللہ وہ کرکے آجاؤں گا۔
تو کہنے لگے:
بے فکر ہوکر جائیں ،اب طبیعت بہت بہتر ہے۔
اسی دوران میرے ماموں زاد بھائی مولانا محمد سہیل نواز عثمانی،مولانا محمد شعیب نواز عثمانی،مولانامحمد منیب الرحمن صدیق صاحب تشریف لائے اور اسی طرح ہم ہنسی مزاق میں باتیں کررہے ہیں۔اور ساتھ ساتھ بھائی جان مرحوم اصرار کررہے ہیں کہ
یار کچھ کھا پی لو،باتیں ہوتی رہیں گی۔
اسی گفتگو کے دوران تایازاد بھائی حافظ محمد عاصم یسین صاحب اپنی والدہ کے ساتھ آئے،جس طرح سب ان کے ہنسی مزاق کیا کرتے تھے اسی طرح ہی ان سے باتیں چل رہی ہیں۔
اسی دوران انہیں سانس کی تکلیف شروع ہوگئی،لیکن پھر بھی وہ ہمارے ساتھ اسی طرح گفت و شنید کرتے رہے۔گھر سے حضرت والد صاحب مدظلہ کال کرکے مجھ سے صورت حال دریافت کرتے رہے،اور عرض کرتا رہا طبیعت اب کافی بہتر ہے۔
اس حالت میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھا،جس مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے،اس کے بارے میں ساتھ لڑکے سے پوچھ رہے تھے۔
یکدم مجھ سے کہا:
بات سنو!گھر میں کسی نہ کسی کی طبیعت خراب ہے،اس لیے سوچا تھا کل ہفتہ ہے ،سب کو بلالو ،دعوت رکھ لو دعا ہوجائے گی۔
بڑے بھائی مولانا محمد عبدالرحمن صدیق صاحب نے کہا :
آپ ٹھیک ہو جاؤ ،دعوت بھی کرلیں گے۔
پھر دوبارہ میری طرف مڑے اور کہا:
اگر دعوت نہیں رکھنی تو میں فلاں فلاں کو کال کرچکاہوں،ان کو پھر منع کردینا۔
اسی دوران عاصم بھائی جب آئے تو انہیں بھی کہ دیا کہ آپ کو دعوت کی کال کی تھی۔ لیکن سب کہ رہے ہیں کہ کرلیں گے،اس لیے کل دعوت نہیں۔
عاصم بھائی نے مزاحیہ انداز میں کہا
تسی سیٹ ہوجاؤ،دعوت وی کھا لاں گے۔
اسی ہنسی مزاق اور گپ شپ کے دوران طبیعت مزید ناساز ہونا شروع ہوگئی۔جب طبیعت مزید بگڑی تو مجھ سے ہی کہنے لگے
میرے موبائل سے فلاں صاحب کا نمبر نکالو،اس کو کال کرو۔
فلاں ڈاکٹر صاحب سے پوچھو۔
فلاں صاحب کے بھائی ڈاکٹر ہیں ان سے رابطہ کرلو۔
اور میں ان کی ہدایت کے مطابق کالز بھی کررہا تھا اور ان سے گفتگو بھی۔
مغرب کی نماز کے قریب سانس کی مزید تکلیف شروع ہوگئی،ڈاکٹرز نےتجویز کیا کہ اب وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جانا چاہیئے۔
اسی دوران والد گرامی کی کال آئی تو عرض کی کہ
یہ صورت حال ہے۔
فرمایا جیسا ڈاکٹر کہتے ہیں کرلو۔ اللہ کرم کرے گا۔
جب بھائی کو ایمر جنسی میں منتقل کیا جارہا تھا تو جو بھائی کے آخری الفاظ میرے کانوں نے سنے وہ تھے۔
یا اللہ! یا اللہ! اللہ اکبر
یہ وہ الفاظ تھے جو میرے کانوں نے سنے،معلوم نہیں تھا ان کی یہ آخری آواز سن رہاہوں۔
اس کے بعد ڈاکٹرز نے مختلف ٹیسٹوں کے لیے دوڑا دیا اور میں اسی میں لگا رہا۔
اسی دوران باقی سب بھی آگئے،بڑے بھائی مولانا محمد عبیدالرحمن صدیق صاحب وہیں بھائی جان کے پاس بیٹھ کر اور ہم دو بھائی مزید جو چیزیں وہ منگوا رہے تھے اسی میں مصروف تھے۔
رات کو ڈاکٹر نے بلاکر کہا کہ ایک انجیکشن کی ضرورت ہے،کافی بھاگ دوڑ کی پر نہیں ملا،تو میں نے اپنے ماموں جان حضرت مولانا محمد اکرم عثمانی کو کال کی کہ اگر آپ کے ہاں کوئی میڈیکل سٹور کھلا ہے تو یہ انجیکشن پتہ کردیں۔
اس وقت سب بازار بھی بند ہو چکے تھے،الحمداللہ انجیکشن ہمیں مل گیا۔
بعد ازاں والدین،ماموں سب آگئے۔
ڈاکٹرز نے بھی کہ دیا کہ طبیعت بحال ہوگئی ہے آپ صبح ان کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ان شاءاللہ صبح تک ٹھیک ہونگے۔
ہم سب مطمئن ہوگئے اور محسوس بھی ہورہا تھا اب طبیعت کافی بحال ہے۔
والد گرامی بھائی جان کے سر کی طرف آگئے اور کلام الہیٰ پڑھنا شروع کردیا۔
اسی دوران ڈاکٹر نے مجھے بلایا کہ آؤ ایک کام ہے۔
ہم ایک دوسرے ڈاکٹر کو ملنے چلے گئے،لیکن وہ جا چکے تھے۔ ہم واپس آئے تو ڈاکٹر نے کہا:
جو ٹیسٹ کرایا اس کی رپورٹ بھی لے آؤ۔
میں باہر آیا اور مولانا شعیب نواز کو کہا کہ سامنے لیبارٹری سے رپورٹ لاؤ۔
بھائی مولانا مفتی شمس الرحمن عثمان کو بھی شدید بخار تھا سب کہنے لگے آپ جائیں ،طبیعت اب بہت بہتر ہے،ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوگا۔
میں باہر آگیا والد گرامی و بھائی اندر چلے گئے۔اسی دوران ڈاکٹر نے ایک اور ٹیسٹ رپورٹ لانے کو کہا
باہر آیا تو ذہن سے نکل گیا کہ کون سی لیبارٹری دیکر آیا تھا۔یہ سوچ کر واپس پلتا کہ ڈاکٹر سے پوچھتاہوں۔؟
واپس آیا تو دیکھا تو سب کمرے سے باہر ہیں۔
پوچھا: خیریت۔؟
کہنے ڈاکٹرز نے کہا ہے سب باہر جائیں۔
تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ کسی کام سے باہر کی جانب چلا گیا۔
واپس اندر آیا تو دیکھا وہاں کوئی نہیں۔
دل سے نکلا
یا اللہ خیر
کچھ آگے بڑھا تو بھائی جنید کھڑے تھے ۔انہوں نے بس سر کو دائیں سے بائیں جانب ہلایا۔
نہ سمجھتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
منظر ہی کچھ اور تھا۔جو بھائی مجھ سے کچھ دیر قبل ہنس کر باتیں کررہا تھا اور چیزیں بتارہا وہ بھائی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکا تھا۔

بھائی بچھڑا کچھ اس طرح
آنکھیں سب کی نم کرگیا
مسکراتے ہوئے چہروں پر
غم کے آثار چھوڑ گیا۔
چودھویں کا چاند بن کے اُبھرا افق پر
ہمیں روتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چھپ گیا
تھے وہ اِک چمکتے ہوئے ستارے
چمکتے چمکتے کہکشاں ہوگیا
ہنستا ہنستا چہرہ جب آتا ہے سامنے
یوں مسکراتے مسکراتے رب کے ہاں چلا گیا
آج بھی یقین نہیں کرپاتا داؤد
مجھ سے باتیں کرتے کرتے وہ یوں اچانک چلا گیا

تمام احباب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے
اللہ رب کریم مرحوم بھائی کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ تمام اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
 
Top