عصر حاضر اور مسلم اتحاد

حیدرعلی صدّیقی

وفقہ اللہ
رکن
موجودہ وقت میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلم امت بحیثیت مجموعی اقوام عالم کے لیے مذاق بن چکی ہے۔ اقوام عالم کے نظروں میں مسلمانوں کی حیثیت بالکل ہیچ ہوکر رہ گئی ہے۔ کہیں پر بھی مسلمانوں کا رعب و دبدبہ نظر نہیں آتا۔ ماضی میں مسلمانوں کا جو رعب و دبدبہ تھا وہ اب ایک قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی قومیت رو بہ زوال ہے، انکی وجود کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اقوام عالم انکی وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا عزم کرچکی ہے۔ ہر جگہ پر ہر سطح پر انکا، انکی مذہبی شعائر کا مذاق ایک کھیل بن چکا ہے۔ اور انتہائی چالاکی سے اسے مذہبی آزادی قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی مذہب، عزت اور ناموس پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، ان کو عالمی سطح پر ایک لاچار اور کمزور امت تصور کیا جاتا ہے۔ انکے پیارے پیغمبرﷺ، انکے قرآن اور مقدس شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن افسوس صد افسوس! کہ وہ مسلمان کہ کبھی اس کی قوت ایمانی، غیرت اور حمیت کا یہ حال تھا کہ وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں کی آوازیں بند ہوجاتی، انکی صداقت، شجاعت اور فقر کے سامنے بڑی بڑی حکومتیں لرزہ بر اندام تھیں۔ ان کے جذبوں اور ولولوں سے قیصر و کسریٰ جیسی وقت کے سپر پاور سلطنتوں کے نشانات مٹ چکے تھے۔ مسلمانوں کے کارہائے نمایاں تو صفحاتِ تاریخ کا لازوال باب ہے۔​

پھر ہوا کیا کہ مسلمانوں پر آج دنیا کی ہر قوم جھپٹ پڑی ہے، ہر طرف سے دنیا ان پر تنگ کی جارہی ہے؟ کیوں ہر جگہ مسلمان کو تکالیف و مصائب کا سامنا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو مسلمانوں کی عظمت و شوکت رفتہ کی بحالی کے لیے جاننا لازمی ہے۔ حضور انورﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ: ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہونگے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے (جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا)۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ ڈال دے گا۔ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! ”وہن“ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ یہی عادت آج مسلمانوں میں موجود ہے، ہر مسلمان دین اسلام کے لیے لڑ کر مرنے سے ڈرتا ہے، اسے مسلم امت کی مذہبی و قومی حیثیتوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ موت کو گلے لگانا اس کے لیے مشکل ہے۔ تبھی تو اقوام عالم مسلم امت پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ حدیث میں مذکور وجہ سب سے اہم وجہ ہے، تاہم آج کے مسلمانوں میں چند ایسے اجتماعی کوتاہیاں موجود ہیں جن کے وجہ سے آج ہم مغلوب ہیں۔ ان وجوہات میں سر فہرست مسلمانوں کی قرآن اور پیغمبری تعلیمات سے دوری اور روگردانی ہے۔ جن تعلیمات میں مسلمانوں کی درمیان نسلی اور قومی فوقیت کا قلع قمع کیا گیا تھا، جن تعلیمات میں ہماری عزت و ناموس کو ایک قرار دیا گیا تھا، جن تعلیمات میں ہماری سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا حل، اصول و ضوابط بیان کیے گئے تھے۔ آج ان تعلیمات سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے۔

دوسری وجہ آج مسلمانوں کے آپس میں موجود اختلافات اور ناموافق تعلقات ہیں۔ اتحاد و اجماعیت ایک فطری عمل ہے اور یہ امت مسلمہ کا خاصہ بھی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بارے میں سینکڑوں ارشادات موجود ہیں۔ حدیث میں امت مسلمہ کو ایک جسم و بدن کے مانند قرار دیا گیا ہے، ایک بدن کی آنکھ میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے قرار، سر میں تکلیف تو پورا جسم بے تاب۔ لیکن آج مسلمان آپس میں لڑ پڑے ہیں، ایک دوسرے سے معمولی سی بات پر اختلافات کرتے ہیں، لڑ پڑتے ہیں، مختلف فرقے وجود میں آتے ہیں، ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ مسجد جو کہ ہماری اجتماعیت کی جگہ تھی، اب تھوڑے اختلاف پر وہ بھی الگ بنانے لگے ہیں۔ مسلمان آج نسلی، قومی اور ملکی تعصبات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں پر ایک مسلمان تکلیف میں ہے تو دوسرے کو اس سے کوئی سر و کار نہیں۔

تیسری بات جو امت مسلمہ کی مغلوبيت کی وجہ ہے، وہ مسلمان سربراہان اور صاحبان اقتدار کی اسلام سے دوری ہے۔ جنھوں کو اسلام کا کوئی علم نہیں، اسلام کے قانون حکومت کے روح سے وہ واقف نہیں۔ اس وجہ سے مسلم حکمران اس وقت مسلمانوں کے مذہبی و قومی مسائل کے حل میں ناکام نظر آتے ہیں۔ وہ غیر مسلموں کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔

امت مسلمہ کی مغلوبيت کی چوتھی وجہ قوم پرستی ہے، ہماری ساری قوت اپنے مخالف مسلمان ہی قوم پر خرچ ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں قوم پرستی کو ذریعۂ افتخار بھی مانا جاتا ہے۔ جبکہ پیغمبر اسلامﷺ نے تمام تر نسلی، لسانی اور قومی تعصبات اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کو ایک جماعت ذکر کیا تھا، جس میں کسی عربی کو عجمی یا کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ فوقیت اگر کسی کو حاصل ہوگی تو وہ صرف تقویٰ اور پرہیزگاری میں ہوگی۔


یہ مذکورہ چند وجوہات میرے علم و ذہن کے مطابق ہیں، کسی دوسرے صاحبان علم کو ان سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور مزید وجوہات بھی ان کے علم میں ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ وجوہات کے وجہ سے مسلمان آج مغلوبیت کی زندگی گزار رہا ہے، مسلمان اپنے مابین اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں، اور اقوام عالم ان کو دیکھ کر خوشی کی شادیانے بجاتے ہیں اور مسلمانوں کی اختلافات کو مزید ہوا دے کر بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیرمسلم اقوام کو مسلم اتحاد میں اپنی شکست نظر آتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمان متحد اور مجتمع ہوگئے، تو یہ اپنے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی فیصلوں میں خود مختار اور آزاد ہوجائیں گے۔ ان کے کسی بھی مسئلے کی رہنمائی کے لیے مرکز واشنگٹن اور برطانیہ نہیں رہے گی بلکہ یہ اپنی رہنمائی براہ راست گنبد خضریٰ سے حاصل کریں گے۔ پھر امت مسلمہ اجتماعی طور پر دلجمعی کے ساتھ ایک کام کی طرف ہوسکے گی اور پھر کسی بھی قومی اور ملکی مسئلے کا حل ان کے لیے آسان ہوجائے گا۔ پھر یہ کسی بھی مخالف قوم سے مردانہ وار نبرد آزما ہوسکے گی اور آرام سے فتح یاب بھی ہوسکے گی۔ اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ، انکی تہذیب اور ثقافت پھر سے لوٹ آئے گی۔ آج اسلام اور مسلمانوں کے اجنبیت کا زمانہ ہے، ماضی کے مقابلے میں عصر حاضر میں مسلم امت کی اتحاد اشد ضروری ہے۔ لہذا مسلمانوں کے غلبے کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مسلمان اپنے تمام تر نسلی، لسانی، مسلکی اور قومی تعصبات اور اختلاف کو مٹائے اور ایک متحد قوم بن کر اس بھائی چارے کی فضاء قائم کرے جو پیغمبراسلامﷺ کی دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت مسلم امت کتنی شاندار ثقافت اور تہذیب کی حامل تھی کہ مختلف النسل، رنگ و تنوع کے اقوام ہونے کے باوجود ان کے درمیان حیرت انگیز یکسانیت اور یگانگت تھی۔ مسلم امت دنیا کی دوسری بڑی قوم ہے اور مسلم ممالک کی تعداد ستاون ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک کا شمار دنیا کی امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو قدرتی دولت اور وسائل سے بھی مالا مال فرمایا ہے۔ مسلمان ممالک کے ساتھ ایٹمی طاقت کے ساتھ بہترین افواج بھی موجود ہیں۔ لیکن جس بات کی مسلمانوں میں کمی ہے اور جس کی اشدت ضرورت ہے وہ اتحاد اور اجتماعیت ہے۔ اور اس لیے امت مسلمہ کے علماء اور مفکرین نے ہر دور میں گروہ بندی، تفرقہ بازی اور اختلاف کا قلع قمع کرنے کی کوششیں کی ہیں، اور اتحاد کی فضاء قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ امت مسلمہ کے سرکردہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اخوت و اتحاد قائم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں تاکہ مسلم امت اتحاد و اجتماعیت سے بہرہ ور ہوجائے۔ آخر میں علامہ اقبال کے چند اشعار کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں: ؏ ؂
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں​

اور
ہے جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کے زندگی میں​


اور
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

رہے فقط نامِ خــــــدا
 
Top