میں نے سنا ہے۔

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی

میں نے سنا ہے۔​

✍️محمدداؤدالرحمن علی
آج کل ایک چیز بہت پائی جاتی ہے کہ ”میں نے سناہے۔“ یا میں ”یہ بات سن چکاہوں۔“ یہ جملہ ایسا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے سنی سنائی باتوں پر یقین کامل کرلیا جاتا ہے۔
اس حد تک ”میں سن چکاہوں۔“ پر یقین کرلیا جاتا ہے کہ سامنے والا جتنا بھی اہم ہو ، قریبی ہو ، جاننے والا ہو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
جتنا بھی معزز ہو، جتنا بھی گہرا ہو، جتنا بھی دل کے پاس ہو ایک لفظ ”میں نے سنا ہے۔“ یا ”میں سن چکاہوں۔“ پر آکر ایک ہی جھٹکے میں اس رشتہ کو زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر قطعی طور پر غور نہیں کیا جائے گا کہ کہنے والا کون ہے۔؟ کس نے بات کہی۔؟ کیوں کہی۔؟ اس کی وجہ کیا ہے۔؟ کہاں سے بات چلی۔؟
نہ اس بارے میں وضاحت طلب کی جائے گی ، نہ جس کے بارے میں بات کی جائے اس سے پوچھنے کی زحمت ہوگی۔
جب پوچھنے کی باری آئے تو الفاظ میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ کہا جاتا ہے۔
”مجھے سب معلوم ہے۔“ ساتھ ہی کہ دیا جاتا ہے کہ
”میں نے سنا ہے۔“
اور سب چاہت ، الفت ، محبت زمین بوس کردی جاتی ہے۔
جیسے ہی یہ لفظ کسی کے منہ سے ادا ہوتے ہیں اور ہم سنتے ہیں اس کے بعد ہم پر ایسا بھوت سوار ہوجاتا ہے کہ سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات عمل بھی کر ڈالتے ہیں۔
لیکن!یہ نہیں سوچتے ان لمحات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔؟ اس بارے میں اسلام کیا سکھلاتا ہے۔؟ یا تعلیمات قرآنی کیا ہیں۔؟ یا بطور مسلمان ہمیں کیا کرنا چاہئیے۔
اگر ہم قرآن کی طرف متوجہ ہوں تو اللہ پاک سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۶ میں واضع طور پر حکم ارشاد فرما چکے ہیں۔
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔
اس آیت مبارکہ میں صاف الفاظ میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی خبر لائے تو پہلے تحقیق لازمی کرلیا کرو ۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں پشیمانی ہو۔
ہم انجانے میں ، بغیر تحقیق ، بغیر کوئی ذرائع استعمال کیے ہوئے۔ ”میں نے سناہے۔“ کے الفاظ سن ہر وہ عمل کر گزرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے جس سے نہ ہم بلکہ ہمارے آس پاس سب کے سب اس کے اندر جھونک دیے جاتے ہیں۔
جب انسان اس بات کی تحقیق کرتا ہے تو بعض اوقات معلوم ہوجاتا ہے بات کرنے والے نے کوئی بات کی ہوتی ہے اور نقل کرنے والے راوی نے ”کچھ“ کا ٹچ ڈال کر بیان کیا ہوتا ہے اور اگلے راوی نے اس بات میں ”مزید کچھ“ کا ٹچ ڈال کر سنا دینا ہے۔ بات جب اصل تک پہنچتی ہے وہ کیا سے کیا ہوگئی ہوتی ہے۔
یہ چیز ہمارے اندر اتنی سرایت کرچکی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو کیا شریعت مطہرہ کو بھی اس میں گھسیٹا ہوا ہے۔ آپ کو سینکڑوں ایسے فرمامین ، گھڑی ہوئی احادیث ، اسلام کے نام پر احکامات جس کے اندر در اصل اسلام کو عجیب الغریب مذہب بتاکر ہمیں دور کیا جارہاہوتا ہے اور ہم عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہمت کرکے اس بابت کسی سے پوچھ لے تو جواب آتا ہے کہ
”میں نے سنا ہے۔“
الفاظ کے تیروں سے کسی کو زخم مت دو ، ورنہ پچھتاتے رہوگے۔
میں یہ ہوں ،میں وہ ہوں، میں فلاں ہوں ،میں فلاں کا ظاہر وباطن جانتاہوں ، میں بڑا پھنے خان ہوں، یا میں کھلی کتاب ہوں۔
یاد رکھیے!”میں“ صفت شیطان کی ہے انسان کی نہیں۔ اسی ”میں“ نے شیطان کو رب العالمین کی دربار سے نکلوایا تھا۔ اگر ”میں“ میں انا آجائے تو رب تعالی کو شاہ سے خاک کرنے میں وقت نہیں لگتا۔
بڑے بڑے لوگ آئے زمانے جن سے کانپا کرتے تھے۔ جو دعوی کیا کرتے تھے ”میں نے سنا ہے۔“ ”مجھے علم ہے“ ”مجھے سب پتہ ہے“ کہنے والے آئے تھے۔ آج ان کا ناموں نشان نہیں۔
اس لفظ ”میں نے سنا ہے۔“ کے اندر ”غیبت“ اور ”بہتان“ کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ ہم انجانے میں یہ گناہ بھی سر لے رہے ہیں۔
میری دست بستہ گزارش ہے کہ
خدارا ! اسلامی تعلیمات ہوں ، زندگی کے لمحات ہوں ، اپنا ہو پرایا ہو ، قریبی ہو یا دور کاہو اگر آپ کو کوئی اس بابت بات کرے تو ”میں نے سنا ہے۔“ پر عمل کرنے کے بجائے تحقیق کی طرف متوجہ ہوجائیں، خدا کے حکم کی طرف بڑھیں ان شاءاللہ آپ کو کبھی ”میں نے سنا ہے۔“ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شکریہ،آپ کا۔
در اصل بہت سے ایسے ایسے الفاظ سننے کو مل جاتے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی کلمات لکھنے پڑتے ہیں۔
اس چیز نے اتنا کردیا ہےبعض اوقات اچھا بھلا نیک صفت آدمی ایسی حدیث بیان کررہاہوتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
پوچھو تو جواب آتا ہے کہ
’’میں نے سنا ہے۔‘‘
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تو ان سے کہیئے کہ ہم نے بھی سن لیا آپ سے لیکن اب کسی اور کو مت سنانا
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن

میں نے سنا ہے۔​

✍️محمدداؤدالرحمن علی
آج کل ایک چیز بہت پائی جاتی ہے کہ ”میں نے سناہے۔“ یا میں ”یہ بات سن چکاہوں۔“ یہ جملہ ایسا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے سنی سنائی باتوں پر یقین کامل کرلیا جاتا ہے۔
اس حد تک ”میں سن چکاہوں۔“ پر یقین کرلیا جاتا ہے کہ سامنے والا جتنا بھی اہم ہو ، قریبی ہو ، جاننے والا ہو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
جتنا بھی معزز ہو، جتنا بھی گہرا ہو، جتنا بھی دل کے پاس ہو ایک لفظ ”میں نے سنا ہے۔“ یا ”میں سن چکاہوں۔“ پر آکر ایک ہی جھٹکے میں اس رشتہ کو زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر قطعی طور پر غور نہیں کیا جائے گا کہ کہنے والا کون ہے۔؟ کس نے بات کہی۔؟ کیوں کہی۔؟ اس کی وجہ کیا ہے۔؟ کہاں سے بات چلی۔؟
نہ اس بارے میں وضاحت طلب کی جائے گی ، نہ جس کے بارے میں بات کی جائے اس سے پوچھنے کی زحمت ہوگی۔
جب پوچھنے کی باری آئے تو الفاظ میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ کہا جاتا ہے۔
”مجھے سب معلوم ہے۔“ ساتھ ہی کہ دیا جاتا ہے کہ
”میں نے سنا ہے۔“
اور سب چاہت ، الفت ، محبت زمین بوس کردی جاتی ہے۔
جیسے ہی یہ لفظ کسی کے منہ سے ادا ہوتے ہیں اور ہم سنتے ہیں اس کے بعد ہم پر ایسا بھوت سوار ہوجاتا ہے کہ سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات عمل بھی کر ڈالتے ہیں۔
لیکن!یہ نہیں سوچتے ان لمحات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔؟ اس بارے میں اسلام کیا سکھلاتا ہے۔؟ یا تعلیمات قرآنی کیا ہیں۔؟ یا بطور مسلمان ہمیں کیا کرنا چاہئیے۔
اگر ہم قرآن کی طرف متوجہ ہوں تو اللہ پاک سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۶ میں واضع طور پر حکم ارشاد فرما چکے ہیں۔
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔
اس آیت مبارکہ میں صاف الفاظ میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی خبر لائے تو پہلے تحقیق لازمی کرلیا کرو ۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں پشیمانی ہو۔
ہم انجانے میں ، بغیر تحقیق ، بغیر کوئی ذرائع استعمال کیے ہوئے۔ ”میں نے سناہے۔“ کے الفاظ سن ہر وہ عمل کر گزرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے جس سے نہ ہم بلکہ ہمارے آس پاس سب کے سب اس کے اندر جھونک دیے جاتے ہیں۔
جب انسان اس بات کی تحقیق کرتا ہے تو بعض اوقات معلوم ہوجاتا ہے بات کرنے والے نے کوئی بات کی ہوتی ہے اور نقل کرنے والے راوی نے ”کچھ“ کا ٹچ ڈال کر بیان کیا ہوتا ہے اور اگلے راوی نے اس بات میں ”مزید کچھ“ کا ٹچ ڈال کر سنا دینا ہے۔ بات جب اصل تک پہنچتی ہے وہ کیا سے کیا ہوگئی ہوتی ہے۔
یہ چیز ہمارے اندر اتنی سرایت کرچکی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو کیا شریعت مطہرہ کو بھی اس میں گھسیٹا ہوا ہے۔ آپ کو سینکڑوں ایسے فرمامین ، گھڑی ہوئی احادیث ، اسلام کے نام پر احکامات جس کے اندر در اصل اسلام کو عجیب الغریب مذہب بتاکر ہمیں دور کیا جارہاہوتا ہے اور ہم عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہمت کرکے اس بابت کسی سے پوچھ لے تو جواب آتا ہے کہ
”میں نے سنا ہے۔“
الفاظ کے تیروں سے کسی کو زخم مت دو ، ورنہ پچھتاتے رہوگے۔
میں یہ ہوں ،میں وہ ہوں، میں فلاں ہوں ،میں فلاں کا ظاہر وباطن جانتاہوں ، میں بڑا پھنے خان ہوں، یا میں کھلی کتاب ہوں۔
یاد رکھیے!”میں“ صفت شیطان کی ہے انسان کی نہیں۔ اسی ”میں“ نے شیطان کو رب العالمین کی دربار سے نکلوایا تھا۔ اگر ”میں“ میں انا آجائے تو رب تعالی کو شاہ سے خاک کرنے میں وقت نہیں لگتا۔
بڑے بڑے لوگ آئے زمانے جن سے کانپا کرتے تھے۔ جو دعوی کیا کرتے تھے ”میں نے سنا ہے۔“ ”مجھے علم ہے“ ”مجھے سب پتہ ہے“ کہنے والے آئے تھے۔ آج ان کا ناموں نشان نہیں۔
اس لفظ ”میں نے سنا ہے۔“ کے اندر ”غیبت“ اور ”بہتان“ کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ ہم انجانے میں یہ گناہ بھی سر لے رہے ہیں۔
میری دست بستہ گزارش ہے کہ
خدارا ! اسلامی تعلیمات ہوں ، زندگی کے لمحات ہوں ، اپنا ہو پرایا ہو ، قریبی ہو یا دور کاہو اگر آپ کو کوئی اس بابت بات کرے تو ”میں نے سنا ہے۔“ پر عمل کرنے کے بجائے تحقیق کی طرف متوجہ ہوجائیں، خدا کے حکم کی طرف بڑھیں ان شاءاللہ آپ کو کبھی ”میں نے سنا ہے۔“ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ماشاءاللہ
اللہ پاک زور قلم مزید عطا فرمائے۔
اصلاح معاشرہ پر لکھتے رہا کریں۔
 
Top