کس بات کی خوشی۔؟

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
کس بات کی خوشی۔؟
محمدداؤدالرحمن علی
31 دسمبر 2023 کے لمحات جیسے جیسے رخصت ہورہے ہیں اور جیسے جیسے 2024 کی آمد کے لمحات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے اسراف، آتش بازی، پارٹیوں کی تیاری ، شوروغل وغیرہ کی تیاریاں عروج پر پہنچ رہی ہیں۔ خواب سجائے جا رہے ہیں کہ نئے سال کو کیسے خوش آمدید کہنا ہے۔
اسراف کرنا اور یہ سب حرکات کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں۔ نہ مسلمان کو کہا جاتا ہے ایسا کرو ، اور نہ مسلمان کو تعلیم دی جاتی ہے کہ ایسا کرو۔
بلکہ مسلمان کو تو اسراف سے منع گیا گیا ہے۔ بلکہ اسراف کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ" (الاسراء:۲۶،۲۷)
ترجمہ: ’’اور مال کو بےجا خرچ نہ کرو،بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘
اس آیت مبارکہ میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اپنے مال کو بے جا خرچ مت کرو۔بلکہ وہاں خرچ کرو جہاں اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
علامہ ا بن منظور افریقیؒ لکھتے ہیں:
’’سرف‘‘ اور ’’اسراف‘‘ میانہ روی سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں، عرب کہتے ہیں: ’’أسرف في مالہ‘‘ اس نے اعتدال کے بغیر مال خرچ کیا۔ اللہ کی نافرمانی میں خواہ کوئی کم مال خرچ کرے یا زیادہ، دراصل یہی ممنوع اور ناجائز اسراف ہے۔
قرآن و حدیث میں واضع طور پر اسراف یعنی فضول خرچی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ بخاری شریف کی درج ذیل حدیث مبارکہ اس کا واضع ثبوت ہے۔
’’ عن المغيرۃ بن شعبۃ، قال: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: ’’ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَيْکُمْ عُقُوْقَ الْأمَّہَاتِ، وَوَاْدَ الْبَـنَاتِ، وَمَنْعَ وَہَات، وَکُرِہَ لَـکُمْ قِیْلَ وَقَالَ، وَکَثْرَۃُ السُّؤالِ، وَإِضَاعَۃُ الْـمَالِ۔ ‘‘
’’حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، خود بخل کرکے دوسروں سے سوال کرنے، فضول باتوں اور سوالات اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایاہے۔‘‘(بخاری)
ہمیں تو اسلام نے ان طور طریقوں سے روکا ہے۔ یہ طور طریقے مسلمانوں کے نہیں غیروں کے ہیں۔ اس موقع کو خوشی کا نام انہوں نے دیا۔ جشن انہوں نے منائے یہ سب کام انہوں نے کیے۔
لیکن افسوس!آج کا مسلمان اس دَلدَل میں دھنستا چلا جارہاہے۔ چاہے تو یہ تھا کہ ہم اس موقع پر اپنا محاسبہ کرتے، ان خرافات سے بچتے ، دوسروں کو بچانے کی کوشش کرتے لیکن ہم از خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور گناہ کا طوق اپنے گلے میں ڈالتے ہیں۔
چاہئیے تو یہ تھا کہ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اللہ کے حضور گڑ گڑائیں۔ معافی کے طالب ہوں ، اس کی رحمت کو متوجہ کریں۔
اپنے رب کی نافرمانیوں کا ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔
یاد رکھیں کتاب وسنت پر کیے گئے ایک لمحہ کا عمل کتاب و سنت کے خلاف کیے گئے عمل سے صدیوں بہتر ہے۔
یہ سال جا نہیں رہا ہماری زندگی کا ایک سال سمیٹ کر جارہاہے۔ ہمیں ایک سال قبر کے قریب کرکے جارہاہے۔ ہم کیسے خوشی مناسکتے ہیں جب قبلہ اول پر غیروں کا قبضہ۔ ہم کیسے خوشی منا سکتے ہیں جب ہماری بچوں کو بارود کے سپرد کیا جارہاہو،ہم کیسے خوشی مناسکتے ہیں جب اہل غزہ مشکلات سے گزر رہے ہوں، ہم کیسے خوشی مناسکتے ہیں جب فلسطین پانی کی کی بوند بوند کو ترس گیا ہو، ہم کیسے خوشی منا سکتے ہیں جب اہل فلسطین بھوک کی شدت سے نڈھال ہیں۔
ایسی خوشی منانا مسلمان کا شیوہ ہے۔ مسلمان کی تعلیمات نہیں ۔ مسلمان اس چیز کی تلقین نہیں کرتا۔
یہ سب غیروں کی تعلیمات ہے اور مسلمان غیروں کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا کرتا۔
جو شخص ان کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"۔ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔
اس لیے بجائے خوشی منانے کے ، آتش بازی کرنے کے ، محفلیں سجانے کے ، فضول خرچی کرنے کے اپنے رب کی طرف بڑھیں ، اپنے رب کو منائیں۔
فضول خرچی کے بجائے اگر انہی پیسوں سے آپ کسی غریب کا پیٹ بھردیں ، کسی کو کپڑے دے دیں ، کسی کو رضائی دے دیں ، کسی کی ضرورت پوری کردیں تو یہ فضول خرچی سے ہزاروں گنا بہتر ہے۔ جب اس کے دل سے دعا نکلے گی تو دنیا بھی بن جائے گی اور آخرت بھی بن جائے گی۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بہت خوب ترغیب ہے ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے پیسوں کی گنتی نہیں کرتے جتنے کی بھی ہو چیز خرید لیتے ہیں مگر اللہ کے راستے میں دینے کے لئیے دس بار سوچتے ہیں پھر پانچ مرتبہ جیب کی طرف دیکھتے ہیں پھر نوٹ گنتے ہیں پھر۔ نوٹ کا انتخاب ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بوسیدہ ہوتا ہے وہ نکال کے دیتے ہیں یہ ہماری عطائیں ہیں اور اللہ کی عطاؤں پہ قربان جائیں وہ بہتر کھلاتا ہے پلاتا ہے پہناتا ہے
 
Top