ختمِ قرآن کے موقعہ پر اجتماعی دعا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ختمِ قرآن کے موقعہ پر کی جانے والی دعا میں لوگوں کا اجتماعی طور پر شریک ہونا،نہ صرف مستحب ہے،بلکہ احادیث میں اس کی ترغیب اور تاکید بھی وارد ہوئی ہے،چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتاہے کہ" انہوں نے ایک قاری کی نگرانی پر ایک آدمی کو مقرر کیا ہوا تھا اور اس کو یہ کہا ہوا تھاکہ وہ جب بھی قرآن شریف ختم کرے مجھے بتانا،چناں چہ وہ ختم کے موقعہ پر ان کو بتایا کرتا تھا"،اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب بھی قرآن شریف کی تکمیل کیا کرتے تھے،تو اس موقعہ پر اپنے گھر والوں کے ساتھ اجتماعی دعا کیا کرتے تھے،اوراجتماعی دعا کرنا تو من وجہِِ خود حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ثابت ہے چناں چہ روایت میں آتا ہے کہ ایک موقعہ پرکسی صحابی نے آکر دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے اور ساتھ ہی سامعین نے بھی اپنے اپنے ہاتھ اٹھالیے،تو اس سے بھی فی الجملہ اجتماعی دعا کا استحباب ثابت ہوتا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ ختمِ قرآن کے موقعہ پر دعا کرنا ویسے بھی مستحب ہے،کیوں کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ختمِ قرآن کے موقعہ پر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے،ایک روایت میں آتا ہے کہ جو قرآن پڑھ کر دعا کرے،تو اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں،تو اس موقعہ پر بہتر یہی ہے کہ ایک دعا کرنے والے کو منتخب کرلیا جائے کہ جو دعا کراتا جائے اور لوگ اس کی دعاؤں پر آمین کہتے جائیں ،کیوں کہ روایت میں آتا ہے کہ "جو بھی جماعت دعا کے لیے اس طرح جمع ہو کہ ان میں سے کوئی دعا کرائے اور باقی آمین کہنے والے ہوں تو اللہ پاک ان کی دعاؤں کو لازمی قبول فرماتے ہیں"،ہاں البتہ اس کو لازم اور ضروری سمجھنااور اس کو حد سے زیادہ لمبا کرنا کہ لوگ اکتاجائیں،مناسب نہیں ہے۔

"صحيح البخاري"میں ہے:

"سمعت أنس بن مالك قال:أتى رجل أعرابي من أهل البدو، إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة، فقال: يا رسول الله، هلكت الماشية، هلك العيال، هلك الناس. فرفع الرسول الله صلى الله عليه وسلم يديه يدعو، ‌ورفع ‌الناس ‌أيديهم معه يدعون..."

(ص:348،ج:1،کتاب الإستسقاء،رفع الناس أيديهم مع الإمام في الاستسقاء،ط:دار ابن كثير)

"ألمستدرك علي الصحيحين للحاكم"میں ہے:

"سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يجتمع ملأ ‌فيدعو ‌بعضهم، ويؤمن البعض، إلا أجابهم الله."

(ص:390،ج:3،باب‌‌ذكر مناقب حبيب بن مسلمة الفهري رضي الله عنه،ط:دار الكتب العلمية)

"رد المحتار" میں ہے:

"ثم قال في النهر عن المعراج: وأما ما يفعل عقب الصلاة من السجدة فمكروه إجماعا؛ لأن العوام يعتقدون أنها واجبة أو سنة اهـ أي وكل جائز ‌أدى ‌إلى اعتقاده ذلك كره."

(ص:371،ج:1،کتاب الصلوۃ،ط:سعید)

"ألتبيان في آداب حملة القرآن"میں ہے:

"يستحب حضور مجلس ختم القرآن استحبابا متأكدا ...روى الدارمي وابن أبي داود بإسنادهما عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يجعل رجلا يراقب رجلا يقرأ القرآن فاذا أراد أن يختم أعلم ابن عباس فيشهد ذلك وروى ابن أبي داود باسنادين صحيحين عن قتادة التابعي الجليل صاحب أنس رضي الله عنه قال كان أنس بن مالك رضي الله عنه إذا ختم القرآن جمع أهله ودعا ... والدعاء يستجاب عند ختم القرآن وفي بعض الروايات الصحيحة وأنه كان يقال أن الرحمة تنزل عند خاتمة القرآن ... الدعاء مستحب عقيب الختم استحبابا متأكدا لما ذكرناه في المسألة التي قبلها وروى الدارمي بإسناده عن حميد الأعرج قال من قرأ القرآن ثم دعا أمن على دعائه أربعة آلاف ملك ... فيختار الداعي الدعوات الجامعة...استحبه السلف واحتجوا فيه بحديث أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال خير الأعمال الحل والرحلة قيل وما هما قال افتتاح القرآن وختمه."

(ص:158،الباب السادس فی آداب القرآن،‌‌فصل في آداب الختم وما يتعلق به،ط:دار ابن حزم)

"کفایت المفتی"میں ہے:

"سوال:سنتوں اور نفلوں کے بعد بھی دعا کرنا ہر شخص کے لئے خواہ امام ہو یا مقتدی سنت ہے یا مستحب ہے یا کیا ؟

جواب :انفراداً دعا مانگنا امام و مقتدی ہر ایک کے لئے سنتوں اور نفلوں کے بعد بھی جائز ہے اور اجتماعاً بھی ۔ بشرطیکہ التزام و اعتقاد سنیت نہ ہو ۔"

(ص:323،ج:3،کتاب الصلوۃ،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم
 
Top