پاس
کے لیے عِند، لدی اور لدن، تلقاء اور حول کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔1: عند
بمعنی نزدیک۔ ظرف زمانی اور مکانی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ عند المكان بمعنی کسی مقام کے پاس یا قریب اور عند اللیل بمعنی رات کو یا رات کے قریب۔ (م - ا) غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد۔ ارشاد باری ہے:مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ بَاقٍ ؕ وَ لَنَجۡزِیَنَّ الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 96)
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم انکو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔
اور کبھی عند سے پہلے من آتا ہے جو مزید تاکید کو ظاہر کرتا ہے۔ من عند بمعنی پاس سے، طرف سے۔ جیسے فرمایا:جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم انکو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ آل عمران آیت 165)
بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب احد کے دن کفار کے ہاتھ سے تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ جنگ بدر میں اس سے دگنی مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑ چکی ہے تو تم کہنے لگے کہ یہ آفت ہم پر کہاں سے آپڑی کہدو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب احد کے دن کفار کے ہاتھ سے تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ جنگ بدر میں اس سے دگنی مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑ چکی ہے تو تم کہنے لگے کہ یہ آفت ہم پر کہاں سے آپڑی کہدو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
2: لدی اور لدن
دونوں لفظ ایک ہی ہیں۔ اگر لدی پر من داخل ہو تو یہ لدن سے بدل جائے گا۔ جیسے من لَدُنكَ، مِنْ لَدُنَّا - اگر من کے بغیر آئے تو لدی آتا ہے۔ جیسے بما لديهم یا لدا الباب یہ لفظ عند سے اخص اور ابلغ ہے (مف) اور مزید قربت کو ظاہر کرتا ہے۔ نیز ممکن کو مقتضی ہے۔ مثلاً میرے پاس مال اگر حاضر ہو تو لدنّی مال کہتے ہیں لیکن عِندِی مال اس صورت میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مال ملکیت میں تو ہو مگر پاس موجود اور حاضر نہ ہو ( فق ل ۲۴۶) ارشاد باری ہے:وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا
دوسرے مقام پر ہےاور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا
وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّـاۤ اَجۡرًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 67)
اوراس صورت میں ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے۔
اوراس صورت میں ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے۔
3: تلقاء
لقیي يلقي لقاء بمعنی کسی چیز کا کسی چیز کے سامنے آنا، ملاقات کرنا اور تلقا، لقاء سے اسم (حاصل مصدر) ہے۔ اور مقابل یا متقابل کے معنوں میں آتا ہے۔ کہتے ہیں جلس تلقاءی بمعنی وہ اس کے سامنے یا مقابل بیٹھا۔ قرآن میں ہے:وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ (سورۃ القصص آیت 22)
اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔
اور تلقاء نفس یعنی خود بخود، اپنے آپ۔ فعل الامر من تلقاء نفسہ اس نے کام کو خود بخود کیا (منجد) نہ اس کی کسی نے مدد کی نہ کسی نے مجبور کیا ۔ قرآن میں ہے:اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔
قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ (سورۃ یونس آیت 15)
کہدو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔
کہدو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔
4: حول
حال کا بنیادی معنی تغیر پذیری حرکت اور انتقال ہے۔ اور حول الشی بمعنی کسی چیز کی وہ جانب جس کی طرف اسے پھیرنا ممکن ہو۔ (مف) بعد میں یہ لفظ کسی چیز کے ارد گرد، گردا گرد (منجد) یا آس پاس کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 17)
انکی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی۔ جب آگ نے اسکے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔
انکی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی۔ جب آگ نے اسکے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔
ماحصل:
- عند قرب زمانی اور مکانی کے لیے آتا ہے اور من داخل ہو تو مزید تاکید کے لیے ہوتا ہے۔
- لدن پر من ہمیشہ داخل ہوتا ہے۔ عند سے اخص اور ابلغ ہے۔ مزید قربت اور تمکن کے لیے آتا ہے لدی اس کا ہم معنی ہے جو من کے بغیر آتا ہے۔
- تلقاء: نفس کے ساتھ مل کر خود بخود، اپنے آپ کے معنی دیتا ہے ۔ عند انفسکم کی نسبت اس میں تاکید بھی ہے اور قربت بھی۔ اور مقابل کی سمت بھی متعین کرتا ہے۔
- حول کسی چیز کے گردا گرد یا آس پاس۔