مترادفات القرآن (پ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پاس

کے لیے عِند، لدی اور لدن، تلقاء اور حول کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عند

بمعنی نزدیک۔ ظرف زمانی اور مکانی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ عند المكان بمعنی کسی مقام کے پاس یا قریب اور عند اللیل بمعنی رات کو یا رات کے قریب۔ (م - ا) غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد۔ ارشاد باری ہے:
مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ بَاقٍ ؕ وَ لَنَجۡزِیَنَّ الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 96)
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم انکو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔
اور کبھی عند سے پہلے من آتا ہے جو مزید تاکید کو ظاہر کرتا ہے۔ من عند بمعنی پاس سے، طرف سے۔ جیسے فرمایا:
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ آل عمران آیت 165)
بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب احد کے دن کفار کے ہاتھ سے تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ جنگ بدر میں اس سے دگنی مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑ چکی ہے تو تم کہنے لگے کہ یہ آفت ہم پر کہاں سے آپڑی کہدو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

2: لدی اور لدن

دونوں لفظ ایک ہی ہیں۔ اگر لدی پر من داخل ہو تو یہ لدن سے بدل جائے گا۔ جیسے من لَدُنكَ، مِنْ لَدُنَّا - اگر من کے بغیر آئے تو لدی آتا ہے۔ جیسے بما لديهم یا لدا الباب یہ لفظ عند سے اخص اور ابلغ ہے (مف) اور مزید قربت کو ظاہر کرتا ہے۔ نیز ممکن کو مقتضی ہے۔ مثلاً میرے پاس مال اگر حاضر ہو تو لدنّی مال کہتے ہیں لیکن عِندِی مال اس صورت میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مال ملکیت میں تو ہو مگر پاس موجود اور حاضر نہ ہو ( فق ل ۲۴۶) ارشاد باری ہے:
وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا
دوسرے مقام پر ہے
وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّـاۤ اَجۡرًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 67)
اوراس صورت میں ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے۔

3: تلقاء

لقیي يلقي لقاء بمعنی کسی چیز کا کسی چیز کے سامنے آنا، ملاقات کرنا اور تلقا، لقاء سے اسم (حاصل مصدر) ہے۔ اور مقابل یا متقابل کے معنوں میں آتا ہے۔ کہتے ہیں جلس تلقاءی بمعنی وہ اس کے سامنے یا مقابل بیٹھا۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ (سورۃ القصص آیت 22)
اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔
اور تلقاء نفس یعنی خود بخود، اپنے آپ۔ فعل الامر من تلقاء نفسہ اس نے کام کو خود بخود کیا (منجد) نہ اس کی کسی نے مدد کی نہ کسی نے مجبور کیا ۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ (سورۃ یونس آیت 15)
کہدو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔

4: حول

حال کا بنیادی معنی تغیر پذیری حرکت اور انتقال ہے۔ اور حول الشی بمعنی کسی چیز کی وہ جانب جس کی طرف اسے پھیرنا ممکن ہو۔ (مف) بعد میں یہ لفظ کسی چیز کے ارد گرد، گردا گرد (منجد) یا آس پاس کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:
مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 17)
انکی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی۔ جب آگ نے اسکے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔

ماحصل:

  • عند قرب زمانی اور مکانی کے لیے آتا ہے اور من داخل ہو تو مزید تاکید کے لیے ہوتا ہے۔
  • لدن پر من ہمیشہ داخل ہوتا ہے۔ عند سے اخص اور ابلغ ہے۔ مزید قربت اور تمکن کے لیے آتا ہے لدی اس کا ہم معنی ہے جو من کے بغیر آتا ہے۔
  • تلقاء: نفس کے ساتھ مل کر خود بخود، اپنے آپ کے معنی دیتا ہے ۔ عند انفسکم کی نسبت اس میں تاکید بھی ہے اور قربت بھی۔ اور مقابل کی سمت بھی متعین کرتا ہے۔
  • حول کسی چیز کے گردا گرد یا آس پاس۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پاک

کے لیے سبحان، قدوس، زکیّۃ، طھورا، طیب اور ان کے مشتقات آئے ہیں۔

1: سبحان

ابن فارس کے نزدیک لفظ سبح کے بنیادی معنی دو ہیں (1) عبادت کی قسم (2) دوڑنے کی قسم۔ (م ل)
اور امام راغب سبح کے معنی کسی چیز کا پانی یا ہوا میں تیرنا کی تیز رفتاری سے گزر جانا لکھتے ہیں (مف) سبّاح بمعنی بڑا تیراک ۔ اور فرس سبوح اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو رفتار میں تیزی کی وجہ سے ادھر اُدھر نہ ہلے (منجد) چنانچہ قرآن میں ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 33)
اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا (سورۃ النازعات آیت 3)
اور انکی جو تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔
پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو سرعت سے کرنے پر ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ(سورۃ المزمل آیت 7)
دن کے وقت تو تمہیں اور بہت سے شغل ہوتے ہیں۔

1: سُبحان

سبح سے مصدر ہے۔ جیسے غفر سے غفران۔ فضا میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ جن میں نہ کبھی لرزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ ہی تصادم یا ٹکراؤ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر و تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری اور عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہی سبحان کا معنی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی مدبر ہستی جو اپنی تدبیر محکم سے کائنات کا انتظام چلا رہی ہے ، وہ اس انتظام و انصرام میں بلا شرکت غیرے مختار کل ہو۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے کا عمل دخل اس کائنات کے انتظام میں خلل انداز ہو کر اس میں گڑ بڑ پیدا کر سکتا ہے۔ لہذا سبحان کے معنی وہ ہستی ہے جو عیب و نقص سے بھی پاک ہو اور وہ بلا شرکت غیرے مختار کل بھی ہو۔ اور کائنات میں اس طرح کی حرکت پذیر تمام اشیاء پر پورا پورا کنٹرول بھی رکھتی ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 116)
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے نہیں وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں۔
اور کائنات کی جملہ اشیاء کا یہ عمل جس کے تحت وہ مدبر ہستی کے مجوزہ قوانین کے تحت سرگرم عمل ہیں ان کی تسبیح، فرمانبرداری یا عبادت کہلاتا ہے۔ گویا کائنات کی جملہ اشیا زبان حال اور اپنے عمل سے اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ان کا انتظام کرنے والی مدبر ہستی ہر طرح کے عیوب و نقائص اور شرک سے منزہ و مبرا ہے۔ ارشاد باری ہے:
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ الصف آیت 1)
جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
پھر کائنات اور اس کی جملہ اشیاء کے اس مربوط اور منظم عمل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اس کی تنظیم اور باقاعدگی جس میں ایک لمحہ کی بھی تقدیم میں تاخیر ناممکن ہے، نہ جھول ہے نہ تصادم اور ٹکراؤ کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے تو بے اختیار اس کی زبان سے اس مدبر کائنات کی بزرگی اور تعریف جاری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ سبحان کا لفظ ایسے مقام پر بھی استعمال ہوتا ہے جب خالق کائنات کی کار آفرینیاں انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ گویا یہ کلمہ تنزیہہ بھی ہے اور استعجاب بھی۔ ہماری زبان میں "سبحان تیری قدرت" ایسے ہی موقع پر بولا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 1)
وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔
اس مقام پر لفظ سبحان کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سیر روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھی۔

2: قدوس

قدس کے معنی پاک اور صاف ہونا ہے (مف) اور صاحب منجد کے نزدیک پاک اور بابرکت ہونا ۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ (سورۃ النحل آیت 102)
کہدو کہ اسکو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ قرآن مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لئے تو یہ ہدایت اور بشارت ہے۔
تو یہاں روح القدس سے مراد یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام خدا کے کلام کو ہر طرح کی آلائشوں اور آمیزشوں سے پاک وصاف رکھ کر نازل فرماتے تھے۔ اسی لیے انہیں دوسرے مقام پر روح الامین بھی کہا گیا ہے۔
اور ارض مقدسہ میں سے مراد وہ پاک اور مبارک سرزمین (منجد) ہے جو انبیاء کے مولد و مدفن ہونے کی نسبت کی وجہ سے بابرکت ہو گئی ہے اور ان کی تبلیغ کی وجہ سے شرک کی آلائشوں سے پاک رہی ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 21)
اے بھائیو تم ارض مقدس یعنی ملک شام میں جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے داخل ہو چلو اور دیکھنا مقابلے کے وقت پیٹھ نہ پھیر دینا ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے۔
اور قدوس اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ جس کے معنی ہیں اضداد اور انداد (جمع ند بمعنی شریک) سے پاک (م ل) اور بمعنی ہر بری بات سے پاک اور بابرکت ذات (منجد) ارشاد باری ہے:
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ (سورۃ جمعہ آیت 1)
جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کر تی ہے جو بادشاہ حقیقی ہے پاک ہے زبردست ہے حکمت والا ہے۔

3: زكيّۃ

زکی (زکو) کے معنی بالیدگی نشو و نما پانا، بڑھنا اور عمدہ ہونا ہے۔ اور زکّی کے معنی کسی چیز کو عمدہ بنانا، اس کی اصلاح کرنا اور آگے بڑھانا ہے۔ اور زکی نفسہ کے معنی اپنی تعریف آپ کرنا یا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (سورۃ النجم آیت 32)
تو اپنے آپکو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے۔
اور تزکیہ کا استعمال عموماً نفس سے متعلق ہے۔ تزکیہ نفس کے معنی نفس کو روحانی آلائشوں، بیماریوں یا اخلاق رزیلہ سے پاک صاف کر کے اوصاف حمیدہ پیدا کرنا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 9، 10)
کہ جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ نامراد رہا۔
اور نفس زکیہ وہ شخص ہے جو بے گناہ اور ہر طرح کے الزام سے پاک صاف ہو۔ قرآن میں ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا (سورۃ الکہف آیت 74)
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ رستے میں ایک لڑکا ملا تو خضر نے اسے مار ڈالا۔ موسٰی نے کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ یہ تو آپ نے بری بات کی۔

4: طهورا

طھر کی ضد دنس بمعنی میل کچیل اور تلچھٹ وغیرہ ہے (م ل) اور طہور وہ چیز ہے کہ میل کچیل اور گندگی سے پاک صاف ہو، یا بقول امام راغب نجاست محسوسہ سے پاک ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا (سورۃ الدھر آیت 21)
اور ان کا پروردگار انکو نہایت پاکیزہ مشروب پلائے گا۔
اسی طرح عورت کا حیض، نفاس وغیرہ سے پاک ہونا بھی طہر ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 222)
سو ایّام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔ اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔
اور طھّر (باب تفعیل) ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاستوں سے پاکیزگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً :
(۱) ظاہری نجاست کو دور کرنے کے لیے :
وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ (سورۃ مدثر آیت 3، 4)
اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
(۲) باطنی برائیوں سے صاف کرنے کے لیے :
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 33)
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے۔

5: طیب

طاب بمعنی کسی چیز کا دل کو خوش لگنا، خوش ذائقہ ہونا۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (سورۃ النساء آیت 3)
تو نکاح کر لوجو عورتیں تم کو خوش آویں ۔ (عثمانیؒ)
اور طیب بمعنی خوشبو (منجد) اور طیّبہ دل کی خوشی اور رضا کو کہتے ہیں (م - ق) اور طیب ہر وہ چیز ہے جو خوشگوار، پاکیزہ اور حلال ہو (مف) اور اس کی ضد خبیث ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 172)
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر اللہ ہی کے بندے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرو۔
اور بلدة طيبة ایسے شہر کو کہتے ہیں جو صاف ستھرا، خوش منتظر اور صاف ستھرے ماحول والا اور زرخیز ہو۔

ماحصل:

  • سبحان: وہ ذات جو ہر طرح عیب اور نقص کمی اور کوتاہی سے پاک ہو۔ اور صرف اللہ ہے۔
  • قدوس: اللہ تعالیٰ کا نام ۔ شرک اور اسی طرح کی دوسری برائیوں سے پاک اور بابرکت ہستی یا مقام۔
  • زکیہ: نفس کا اخلاق رزیلہ سے پاک ہونا اور صلاح یافتہ ہونا یا سنورنا۔
  • طھر: ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاستوں سے پاک ہونا ۔ اور یہ ازکی سے ابلغ ہے۔
  • طیب: ظاہری نجاستوں سے پاک حلال اور خوش منظر چیز۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پاک کرنا

کے لیے محص، زکّی اور طہر، صفا، برّا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: محّص

محص بمعنی کسی چیز کو کھوٹ، آلائش اور آمیزش سے پاک صاف کرنا۔ اور محص الذهب معنی سونے کو کٹھیالی میں ڈال کر اور آگ پر پگھلا کر اس سے میل کچیل اور آمیزش کو دور کر کے اسے خالص بنانا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 141)
اور یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو پاک صاف بنا دے اور کافروں کو نابود کردے۔
اس مقام پر اللہ تعالی مسلمانوں کی عملی کمزوریوں کا ذکر کر کے ان کی اصلاح فرما رہے ہیں۔ گویا محص سے مراد عملی زندگی میں انسان کو کمزوریوں اور تقاضوں سے پاک کرنا مراد ہے۔

2: زکی

سے مراد نفس کو روحانی آلائشوں، بیماریوں اور اخلاق رزیلہ سے پاک کرنا ہے (تفصیل اوپر دیکھتے)۔

3: طھّر

سے مراد ظاہری نجاست کو دور کرنا بھی ہے اور دل کو شرک اور شیطانی وساوس سے پاک کرنا بھی۔ (تفصیل اوپر گزر چکی ہے)

4: صفا

بمعنی کسی چیز کا ہر طرح کی آمیزش سے پاک وصاف ہونا ہے (مف) اور صفّی بمعنی کسی چیز کو پاک و صاف بنانا۔ جیسے شہد کو موم اور ستّھا وغیرہ کی آمیزش اور آلائش سے پاک و صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی (سورۃ محمد آیت 15)
اور صاف شدہ شہد کی نہریں ہیں

5: برّا

برء بمعنی بیماری سے شفا پانا اور ابرا بمعنی تندرست کرنا اور برّا بمعنی کسی کو تہمت یا عیب سے پاک کرنا (منجد، مف) بری قرار دینا۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا (سورۃ الاحزاب آیت 69)
مومنو! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسٰی کو عیب لگا کر رنج پہنچایا تو اللہ نے انکو بےعیب ثابت کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔

ماحصل:

  • محّص: کسی چیز کو ظاہری اور باطنی آلائشوں اور کمزوریوں سے پاک کرنا۔
  • زکّی: نفس کو اخلاق رزیلہ سے پاک کرنا۔
  • طھّر: ظاہری نجاست نیز شرک و وساوس کی آلائشوں سے پاک صاف کرنا۔
  • صفّا: خام پیداوار کو اس کی آلائشوں سے پاک کرنا۔
  • برّا: کسی کو تہمت یا عیب سے پاک کرنا۔
نیز دیکھیے "صاف کرنا۔
پاکیزگی بیان کرنا کے لیے دیکھیے "تسبیح و تقدیس"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پانا

کے لیے وجد، ثقف، الفی اور ادرک کے الفاظ آئے ہیں۔

1: وجد

کسی چیز کو موجود دیکھنا (مف) اس لفظ کا استعمال عام ہے اور ہر جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔ قرآن میں ہے:
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الۡمِحۡرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزۡقًا (سورۃ آل عمران آیت 31)
زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اسکے پاس کھانا پاتے

2: ثقف

بمعنی کسی چیز کے پا لینے یا کسی کام کے کرنے میں حذاقت اور مہارت سے کام لینا (مف) اور ثقف فن حر و ضرب کے استاد اور ماہر کو کہتے ہیں (م ا) ثقیف بمعنی دانا اور ہوشیار اور ثقافت بمعنی دانائی اور مہارت اور ثقف بمعنی کسی کو پانا اور اس کی خوب خبر لینا اور اس پر فتح پانا۔ (م ا) ارشاد باری ہے:
وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ (سورۃ البقرۃ آیت 191)
اور ان کو جہاں پاؤ قتل کر دو۔ اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ یعنی مکے سے وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔ اور دین سے گمراہ کرنے کا فساد قتل و خونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے
دوسرے مقام پر بالکل ایسے ہی موقع کے لیے ثقف کے بجائے وجد کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو وجد کی عمومیت پر دال ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 89)
تو انکو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو۔ اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بناؤ۔

3: الفی

لفو بمعنی کسی چیز کے آگے سے حجاب دور ہونا اور اس کا ظاہر ہو جانا (م ل) اور الفی یعنی از خود کسی چیز کا علم میں آنا یا کوئی چیز سامنے آنا۔ قرآن میں ہے:
وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا
دوسرے مقام پر قرآن کریم میں ہے:
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 170)
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں نہیں بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں تب بھی وہ انہی کی تقلید کئے جائیں گے۔
اس آیت میں الفی کا استعمال اس لحاظ سے ہوا ہے کہ چیز انہیں نسلا بعد نسل ورثہ میں ملی تھی۔ ایک دوسرے مقام پر بالکل ایسے ہی موقع پر الفی کی جگہ وجد کا لفظ استعمال ہوا ہے جو وجد کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 104)
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے اسکی طرف اور پیغمبر کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے۔ بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں تب بھی؟

4: ادرک

درک اور درج ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ سیڑھیوں پر جب نیچے سے اوپر کو چڑھیں تو یہ درج یا درجۃ ہے۔ اور جب اوپر سے نیچے آئیں تو یہ درک ہے۔ اسی لیے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاروہ استعمال ہوتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 145)
کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم ان کا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے۔
اور ادرک کے معنی کسی چیز کا درجہ بدرجہ اپنی غایت کو پہنچنا، پا لینا (مف) یا کسی چیز کا اپنے وقت پر پہنچنا۔ ادرک الثمر پھل کا پک جانا اور ادرک الولد بمعنی لڑکے کا بالغ ہونا ہے (منجد)۔ اور ابن الفارس اس کے معنی کسی چیز کا دوسری کو مل کر اسے پا لینا (یعنی آ پکڑنا، آ لینا، یا آ دبوچنا) بتلاتے ہیں (م ل) مزید تفصیل "گرانا" میں دیکھیے۔ ارشاد باری ہے:
لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ (سورۃ الانعام آیت 103)
وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کا ادراک کر لیتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا ہے خبردار ہے۔
نہیں پا سکتیں اس کو آنکھیں اور وہ پا سکتا ہے آنکھوں کو۔ (عثمانیؒ)

ماحصل:

  • وجد: کسی چیز کو موجود دیکھنا۔ اس کا استعمال عام ہے۔
  • ثقف: کسی چیز کو پانے میں مہارت سے کام لینا۔ دوران جنگ مطلوبہ افراد کو پانا۔
  • الفی: اتفاقا کسی چیز کو پانا۔ حجاب دور ہونے پر کسی چیز کا موجود پانا، از خود کسی چیز کو پانا۔
  • ادرک: کسی چیز کی انتہا تک پہنچ کر اس کو پانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پانی اور اس کی اقسام

پانی کے لیے عام مستعمل لفظ ماء ہے۔ پانی گدلا ہو یا ستھرا، میٹھا ہو یا کھاری۔ سب پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور اس کی درج ذیل اقسام قرآن کریم میں مذکور ہوئی ہیں۔ حمیم، غسّاق، ان اور انیۃ، غور، معین، عذب، فرات، ملح، اجاج۔
(الف) بلحاظ درجہ حرارت

1: حمیم

حمّ بمعنی گرم اور حمّی تپ یا بخار کو کہتے ہیں (منجد) اور حمیم ایسے گرم پانی کو کہتے ہیں جو دھوپ کی وجہ سے (جوہڑوں وغیرہ میں ) سخت گرم اور بعض دفعہ بد بو دار بھی ہو جاتا ہے۔ صاحب فقہ اللغۃ اس کے معنی "سخت گرم پانی" بتلاتے ہیں۔

2: غسّاق

کا ترجمہ عموماً پیپ یا رستی پیپ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن صاحب فقہ اللغۃ اور صاحب منجد دونوں اس کے معنی ٹھنڈا اور بد بو دار پانی بتلاتے ہیں (ف ل 260، منجد) قرآن کریم سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں حمیم اور غسّاق کے الفاظ دو بار ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً:
لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَرَابًا اِلَّا حَمِیۡمًا وَّ غَسَّاقًا (سورۃ النباء آیت 24، 25)
وہاں نہ ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ کچھ پینا نصیب ہو گا۔ مگر کھولتا پانی اور بدبودار پیپ۔
جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمِہَادُ ہٰذَا ۙ فَلۡیَذُوۡقُوۡہُ حَمِیۡمٌ وَّ غَسَّاقٌ (سورۃ ص آیت 56، 57)
یعنی دوزخ جس میں وہ داخل ہوں گے۔ اور وہ بری آرامگاہ ہے۔ یہ کھولتا ہوا گرم پانی اور پیپ ہے اب اسکے مزے چکھیں۔

3: اٰن، انیۃ

اٰن کے معنی پکنا یا اس کا وقت قریب آنا ہے۔ اور اٰن ایسے شدید گرم پانی کو کہتے ہیں جو کھولنے لگ جائے۔ ارشاد باری ہے:
یَطُوۡفُوۡنَ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَ حَمِیۡمٍ اٰنٍ (سورۃ الرحمن آیت 44)
وہ دوزخ اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان گھومتے پھریں گے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ (سورۃ الغاشیۃ آیت 5)
انکو ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے گا۔
(ب) بلحاظ گہرائی:

4: غور

وہ پانی جو زمین کے نیچے ہو۔ گہرائی میں پانی (ف ل 259) اور صاحب منجد غور کے معنی "زمین میں جذب ہونے والا پانی" لکھتے ہیں۔

5: معین

معن بمعنی پانی کا نرم رفتار سے بہنا (منجد) اور معین ایسا پانی جو سطح زمین پر جاری ہو (ف ل 259) سیلاب کی طرح تندی اور تیزی سے نہیں بلکہ نرمی اور سہولت سے جاری ہونے والا (م ل) چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ (سورۃ الملک آیت 30)
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی جو تم پیتے ہو اور برتتے ہو خشک ہو جائے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہارے لئے شفاف پانی کا چشمہ بہا لائے۔
(ج) بلحاظ ذائقہ:

6: عذب

میٹھا اور خوشگوار پانی (منجد) ٹھنڈا اور میٹھا پانی جسے پینے کو خواہ مخواہ جی چاہے (مف)۔

7: فرات

فرات بمعنی سمندر۔ نیز ایک بڑے دریا کا نام ہے جو خلیج فارس میں گرتا ہے اور فراتان دریائے دجلہ اور فرات کو کہتے ہیں۔ اور فرت الماء کے معنی پانی کا بہت میٹھا اور خوشگوار ہونا ہے (منجد) گویا فرات میں خاصیت عذب کی ہے جبکہ مقدار میں کافی زیادہ ہو۔
وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا (سورۃ المرسلات آیت 27)
اور ہم نے اس پر اونچے اونچے پہاڑ رکھ دیئے اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔

8: ملح

نمکین پانی، آب شور (ف ل 33)

9: اجاج

ایسا پانی جو نمکین بھی ہو اور کڑوا بھی (ف ل 33) سخت کھاری اور گرم پانی، چھاتی جلانے والا (مف) ارشاد باری ہے:
وَ مَا یَسۡتَوِی الۡبَحۡرٰنِ ٭ۖ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ؕ وَ مِنۡ کُلٍّ تَاۡکُلُوۡنَ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡنَ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ فِیۡہِ مَوَاخِرَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ فاطر آیت 12)
اور دونوں دریا بھی یکساں نہیں ہیں یہ ایک تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ دوسرا کھاری ہے کڑوا۔ اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو۔ اور تم دریا میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو پھاڑتی چلی آتی ہیں تاکہ تم اسکے فضل سے معاش تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو۔
ماحصل:
  • حمیم: گرم پانی۔
  • ان: کھولتا ہوا پانی
  • غسّاق: ٹھنڈا اور بد بو دار پانی یا پیپ۔
  • غور: زمین کے نیچے موجود پانی۔
  • معین: سطح زمین پر نرمی سے بہنے والا پانی۔
  • عذب: ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔
  • فرات: ٹھنڈا اور میٹھا پانی جبکہ کثیر مقدار میں ہو۔
  • ملح: آب شور۔
  • اجاج: کھاری اور کڑوا پانی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پانی کے راستے اور ذخیرے

کے لیے اودیۃ (ودی)، عین، انھار، سریّ، یم اور بحر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اودیۃ

وادی کی جمع ہے۔ وادی اصل میں اس کشادہ میدان کو کہتے ہیں جو پہاڑوں کے درمیان ہو اور اس ڈھلوان کو بھی جو پہاڑوں کے درمیان ہوتی ہے اور اس میں پانی بہتا ہو۔ (مف) پہاڑوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے اس میدان میں ندی نالوں کا جاری ہونا ضروری ہے۔ پہاڑوں پر ہونے والی بارش اور پگھلنے والی برے کے پانی کے بہنے کے یہی راستے ہوتے ہیں۔ پھر وادی کا لفظ کبھی تو صرف درمیان کے وسیع میدان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ندی نالے کے معنوں میں۔ ارشاد باری ہے:
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ (سورۃ الرعد آیت 17)
اسی نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے پھر پانی پر پھولا ہوا جھاگ آ گیا۔

2: عین

بمعنی چشمہ۔ پہاڑوں یا زمین میں کسی جگہ اگر پانی پھوٹ کر کسی نشیبی جگہ میں جمع و جائے تو یہ چشمہ ہے۔ اور چشمہ اتنے بڑے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے دریا اور نہریں بہنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی چشمہ کو آج کے معنوں میں جھیل کہا جاتا ہے۔ پھر ایسی ی جھیلوں کا اگر کوئی ایک حصہ بڑے سمندر سے مل رہا ہو تو اسے خلیج کہا جاتا ہے۔ (جمع عیون) قرآن میں ہے:
حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا (سورۃ الکہف آیت 86)
یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ والے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس چشمے کے پاس ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا ذوالقرنین! تم انکو خواہ تکلیف دو خواہ انکے بارے میں بھلائی اختیار کرو دونوں باتوں کی تمکو قدرت ہے۔
اور تاریخی تحقیق کے مطابق یہ وہ مقام تھا جہاں بحر ایجین چھوٹی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن نے یہاں بحر کی بجائے عین کا لفظ استعمال کیا ہے جو عین کے لغوی مفہوم کے مطابق ہے۔

3: انھار

نہر کی جمع ہے۔ یعنی پانی کے بہاؤ کے لیے وہ بڑا نالہ جس میں ادھر ادھر سے کئی نالے آ کر شامل ہو جاتے ہیں۔ نہر کا اطلاق عام طور پر اس بڑے نالے پر ہوتا ہے جس کے بہاؤ کا راستہ انسان اپنی ضرورت کے مطابق اپنی کوششوں سے بناتے ہیں۔ نہریں یا تو پہاڑوں کے درمیان پانی کے کسی بہت بڑے ذخیرہ چشمہ یا جھیل سے نکالی جاتی ہیں یا دریاؤں سے۔ ارشاد باری ہے:
عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 6)
یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے اللہ کے بندے پئیں گے اور اس میں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال لیں گے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 25)
انکے لئے نعمت کے باغ ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں

4: سریّ

سری میں دو باتوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ (1) رات کو چلنا (2) چھوٹا ہونا۔ سریۃ بمعنی چھوٹا سا لشکر بھی اور چھوٹی کشتی بھی۔ اور اس کی جمع سرایا ہے۔ اور ساریہ بمعنی رات کو روانہ ہونے والا چھوٹا سا لشکر۔ اور سریّ بمعنی چھوٹی سی نہر جو جاری ہو (منجد، فل 36) ارشاد باری ہے:
فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا (سورۃ مریم آیت 24)
تب انکے ٹیلے کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے انکو آواز دی کہ غمناک نہ ہو۔ تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے۔

5: یمّ

کا معنی اکثر اہل لغت پانی کا بہت بڑا ذخیرہ، دریا، سمندر لکھتے ہیں (مف) لیکن ہمارے خیال میں یمّ کا اطلاق پانی کے اس ذخیرہ پر ہوتا ہے جو نشیبی علاقہ کی طرف بہہ رہا ہو۔ یعنی دریا قرآن میں ہے:
اَنِ اقۡذِفِیۡہِ فِی التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِیۡہِ فِی الۡیَمِّ فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ ؕ وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ ۬ۚ وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ (سورۃ طہ آیت 39)
وہ یہ تھا کہ اسے یعنی موسٰی کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا میں ڈالدو تو دریا اسکو کنارے پر ڈال دے گا اور میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا۔ اور موسٰی میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پرورش پاؤ۔
اور دوسرے مقام پر ہے کہ:
وَ قَالَتۡ لِاُخۡتِہٖ قُصِّیۡہِ ۫ فَبَصُرَتۡ بِہٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 11)
اور والدہ موسٰی نے اسکی بہن سے کہا کہ اسکے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان لوگوں کو کچھ خبر نہ تھی۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ یمّ پانی کا وہ ذخیرہ ہے جو ندی، نالوں اور نہروں کی طرح نشیبی علاقہ کی طرف بہہ رہا ہے۔ اور اس کے لیے ہمارے ہاں دریا کا لفظ مخصوص ہے۔

6: بحر

جمع ابحر اہل لغت بحر کا معنی بھی دریا یا سمندر لکھتے ہیں۔ لیکن آج کی زبان میں بحر پانی کا وہ بہت بڑا ذخیرہ ہے جو نشیبی جگہ میں جمع ہو جائے اور ہر طرف سے پانی اس میں آ کر شامل ہوتا رہے۔ نشیبی علاقہ میں جمع ہونے والا پانی اگر قلیل مقدار میں ہو تو اسے جوھڑ کہتے ہیں۔ اس سے زیادہ مقدار میں ہو تو اسے جھیل کہتے ہیں زیادہ مقدار میں ہو تو اسے بحیرہ یعنی چھوٹا سمندر کہتے ہیں اور اس سے زیادہ مقدار میں ہو تو اسے بحر کہتے ہیں۔ قرآن میں بحیرہ اور بحر کے لیے بحر ہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 50)
اور جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔
اور تاریخی تحقیق یہ ہے کہ یہ "بحر" بحیرہ قلزم تھا۔
سمندر میں جمع شدہ پانی کبھی کبھی ساکن ہوتا ہے، بسا اوقات ہوائیں اس میں تموج پیدا کرتی اور اسے متحرک رکھتی ہیں۔ گویا حرکت کسی نشیبی علاقہ کی طرق نہیں ہوتی۔ پھر سمندر کے جمع شدہ پانی کے اندر بھی پانی کے دریا نشیب کی طرف چلتے ہیں اور کبھی دو دریا بھی ساتھ ساتھ رواں ہوتے ہیں۔ جن میں ایک گرم پانی کا ہوتا ہے اور دوسرا سرد پانی کا۔ یا ایک میٹھے پانی کا دوسرے کڑوے پانی کا۔ اور یہ آپس میں ملتے نہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی پانی کی خاصیت کے خلاف ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کے تحت ہوتا ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ (سورۃ الرحمن آیت 19، 20)
اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں۔ مگر دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
اس آیت میں دریا کے لیے قرآن میں بحر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ ایسے دریا سمندر میں ہی چلتے ہیں۔

ماحصل:

  • اودیۃ: بمعنی ندی نالے۔
  • عین: چشمہ، جھیل، خلیج وغیرہ۔
  • نھر: معروف لفظ ہے۔
  • سری: چھوٹی سی نہر۔
  • یم: پانی کا بڑا ذخیرہ جو نشیب کو بہتا ہو۔ دریا۔
  • بحر: سمندر یا سمندر میں بہنے والے دریا کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پانی مانگنا

کے لیے استسقی، اور استغاث کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استسقی

سقی بمعنی کسی کو پانی پلانا اور اسقی بمعنی کسی دوسرے کو پینے کے لیے دینا۔ اور استسقی بمعنی پینے کے لیے پانی مانگنا۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذِ اسۡتَسۡقٰی مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ فَقُلۡنَا اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے ہم سے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو

2: استغاث

غیث اس بارش کو کہتے ہیں جو ضرورت کے وقت ہو اور ضرورت کے مطابق ہو (نہ کم نہ زیادہ) (ف ل 257، م ل) اور غیث اس گھاس اور نباتات کو بھی کہتے ہیں جو اس بارش سے اگے۔ (منجد، م ق) اور غاث اللہ البلاد بمعنی اللہ تعالی نے ملک پر بارش برسائی (منجد) اور استغاث بمعنی ایسی ہی بارش کے لیے فریاد کرنا یا فریاد کے طور پر پانی مانگنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا (سورۃ الکہف آیت 29)
اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے انکی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہو گا اور جو انکے چہروں کو بھون ڈالے گا انکے پینے کا پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری۔​

ماحصل:

  • استسقی: پینے کو پانی مانگنا۔
  • استغاث: پانی مانگنے کے لیے فریاد یا التجا کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پاؤں (پیر)

کے لیے دو الفاظ ہیں: رجل اور قدم

1: رجل

پنڈلی کے نیچے سے لے پاؤں کی انگلیوں تک معروف عضو بدن (مف) اور اس کی جمع ارجل آتی ہے۔
فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 6)
تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسحح کر لیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو
ارشاد باری ہے:
اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ (سورۃ ص آیت 42)
ہم نے (ایوب سے) کہا کہ زمین پر لات مارو دیکھو یہ چشمہ نکل آیا نہانے کو ٹھنڈا پانی اور پینے کو بھی۔
اور رجل بمعنی مرد کی جمع رجال آتی ہے۔ اور اگر رجالا بطور صفت ہو تو اس کے معنی پیادہ پا اور اس کی ضد رکبانا (بمعنی سوار) آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 239)
پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار جس حال میں ہو نماز پڑھ لو پھر جب امن و اطمینان ہو جائے تو جس طریق سے اللہ نے تم کو سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے اللہ کو یاد کرو۔

2: قدم

چلتے وقت پچھلے پاؤں اور اگلے پاؤں کے درمیانی فاصلہ کو قدم کہتے ہیں اور اس کی جمع اقدام آتی ہے (مف) اور انگریزی میں رجل اور قدم دونوں کے لیے foot آتا ہے۔ اور 12 انچ کی لمبائی کا پیمانہ بھی ہے۔ لہذا جدید عربی میں اس لمبائی کے پیمانہ کو بھی قدم کہتے ہیں۔ چالیس فٹ کی لمبائی کا عربی ترجمہ اربعین اقدام (قاموس الجدید) اور قدم بطور فعل استعمال ہو تو اس کے معنی آگے بڑھنے اور آگے چلنا کے ہوں گے۔ اور قدم بطور اسم رجل یعنی پاؤں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا رجل اور قدم میں بالکل ایسا ہی فرق ہے جیسا کہ عین اور بصر میں ہے۔ جس کی تفصیل "آنکھ" میں گزر چکی ہے۔ ارشاد باری ہے:
یُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِیۡمٰہُمۡ فَیُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِیۡ وَ الۡاَقۡدَامِ (سورۃ الرحمن آیت 41)
گنہگار اپنے چہرے ہی سے پہچان لئے جائیں گے تو پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ لئے جائیں گے۔
نیز دیکھیے "قدم"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پتھر

کے لیے حجر، حجارۃ، حصب اور سجیل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حجر

بمعنی سخت پتھر اور اس کی جمع احجار اور حجارۃ آتی ہے (مف) قرآن میں ہے:
وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ (سورۃ البقرۃ آیت 74)
اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں

2: حصب

بمعنی چھوٹے چھوٹے پتھر، کنکر اور حاصب اس تند و تیز ہوا کو کہتے ہیں جو ایسی کنکریوں کو اڑائے پھرتی ہے۔ قرآن میں حاصب کا لفظ پتھروں، کنکروں کی بارش کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ (سورۃ الملک آیت 17)
کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے۔ سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا رہا۔

3: سجیل

بمعنی کنکر، سنگ گل (مف، منجد) یعنی وہ نوک دار کنکریاں جس میں مٹی کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔ اور وہ مٹی سے کنکریاں بن رہی ہوتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ۙ مَّنۡضُوۡدٍ (سورۃ ھود آیت 82)
پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کو الٹ کر نیچے اوپر کر دیا۔ اور ان پر پتھر کی تہ بہ تہ کنکریاں برسائیں۔

ماحصل:

  • حجر: سخت اور بڑا پتھر۔
  • حصب: چھوٹی کنکریاں اور چھوٹے چھوٹے پتھر۔
  • سجیل: بمعنی سنگ گل، مٹی کی آمیزش والی نوک دار کنکریاں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پچھلا

کے لیے دو الفاظ آخر اور خلف آئے ہیں۔

1: آخر

بعد کا، اول کی ضد۔ اس لفظ میں عمومیت ہے۔ ظرف زمان کے طور پر استعمال ہوتا ہے (منجد) قرآن میں ہے:
ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 30، 40)
یہ بہت سے تو پہلے کے لوگوں میں سے ہوں گے۔ اور بہت سے بعد والوں میں سے۔

2: خلف

ضد سلف ایک ہی قوم یا گروہ کی بعد کی نسل (خلف بمعنی جانشین ہونا) اور خلف کا لفظ عموماً برے مفہوم میں پایا استعمال ہوتا ہے۔ یعنی نالائق اور نا اہل نسل، نا خلف۔ ارشاد باری ہے:
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا (سورۃ مریم آیت 59)
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ سو عنقریب انکو گمراہی کی سزا ملے گی۔
اور خلف کی ضد بین یدی یا بین ایدی بھی ہے اور یہ الفاظ بطور زمان و مکان دونوں طرح آتے ہیں۔ زمانی کی صورت میں خلف سے مراد بلا کسی تخصیص پچھلے لوگ مراد ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَجَعَلۡنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہَا وَ مَا خَلۡفَہَا وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 66)
اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جو انکے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت بنا دیا۔
لیکن بین یدی کے مقابلہ میں اگر خلف ظرف مکانی کے طور پر استعمال ہو تو اس کا معنی پچھلے نہیں بلکہ پیچھے ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ ؕ (سورۃ الرعد آیت 11)
اسکے آگے اور پیچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اسکی نگرانی کرتے ہیں۔
ماحصل:
  • آخر: صرف ظرف زمانی کے طور پر آتا ہے۔ اور اس کے استعمال میں عمومیت ہے۔
  • خلف: ظرف زمانی و مکانی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ زمانی کی صورت میں پچھلے کا معنی تو دیتا ہے مگر اس میں اگلے اور پچھلوں میں نسلی تعلق ہونا ضروری ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پچھتانا

کے لیے ندم، حسر، سقط فی یدہ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ندم

اپنے کیے ہوئے کسی برے فعل پر پشیمان ہونا، اس کا استعمال عام ہے۔ قرآن میں ہے:
فَتَرَی الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوۡنَ فِیۡہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ فَعَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِالۡفَتۡحِ اَوۡ اَمۡرٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَیُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَاۤ اَسَرُّوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ نٰدِمِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 52)
تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ وہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر نازل فرمائے پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے۔

2: حسر

صاحب فقہ اللغۃ حسرۃ کے معنی اشد الندامۃ (بہت زیادہ نادم ہونا) بتلاتے ہیں (ف ل 40) لیکن صاحب منجد حسر اور حسرۃ کے معنی افسوس کرنا لکھتے ہیں۔ یعنی حسرۃ اپنے کسی کیے ہوئے فعل پر افسوس اور ندامت کے اظہار کا نام ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا ۙ وَ ہُمۡ یَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَہُمۡ عَلٰی ظُہُوۡرِہِمۡ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 31)
جن لوگوں نے اللہ کے روبرو حاضر ہونے کو جھوٹ سمجھا وہ گھاٹے میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب ان پر قیامت ناگہاں آ موجود ہو گی تو بول اٹھیں گے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو ہم نے قیامت کے بارے میں کی۔ اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔

3: سقط فی یدہ

محاورہ ہے۔ جس کے معنی اپنی کی ہوئی بات یا دلیل کے غلط معلوم ہونے پر لوگوں کے سامنے نادم اور ذلیل ہونا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 149)
اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔

ماحصل:

1) ندم: اپنے کسی برے فعل پر پچھتانا۔
2) حسرۃ: انتہائے ندامت اور اس کا اظہار۔
3) سقط فی یدہ: اپنا سا منہ لے کر رہ جانا، اپنی بات یا دلیل کی غلطی کے احساس پر نادم ہونا۔
پراگندہ ہونا کے لیے "بکھرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پرانا – پرانا ہونا

کے لیے بلی، قدیم اور عتیق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بلی

یبلی بلاء کسی قابل استعمال چیز کا استعمال میں رہنے کی وجہ سے پرانا اور بوسیدہ ہو جانا۔ بلی الثوب بمعنی کپڑا کا پرانا اور بوسیدہ ہونا (منجد، مف) پنجابی میں "ہنڈ جانا" قرآن میں ہے:
فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی (سورۃ طہ آیت 120)
پھر شیطان نے انکے دل میں وسوسہ ڈالا۔ اور کہا کہ آدم بھلا میں تمکو ایسا درخت بتاؤں جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہو اور ایسی بادشاہت کہ کبھی زائل نہ ہو۔

2: قدیم

پرانے زمانے کا، پرانے وقت کا، پرانا اور اس کی ضد جدید (بمعنی نیا) ہے۔ قدم بمعنی آگے بڑھنا اور قدیم بمعنی پرانا ہونا ہے۔ (منجد)
قَالُوۡا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الۡقَدِیۡمِ (سورۃ یوسف آیت 95)
وہ بولے کہ واللہ آپ اسی قدیم غلطی میں مبتلا ہیں۔

3: عتیق

العتق (مصدر) کے معنی خالص الاصل ہونا، جمال، شرافت، نجابت، آزادی، کہنگی (منجد) عتیق ہر وہ چیز ہے جس کے قدیم ہونے کے باوجود اس کی شرافت و نجابت میں فرق نہ آئے۔ زندہ جاوید۔ اس لحاظ سے خانہ کعبہ کو بیت العتیق کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ الحج آیت 29)
پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر یعنی بیت اللہ کا طواف کریں۔

ماحصل:

  • قدیم: پرانا، پرانے زمانے کا، مدتوں سے۔
  • بلی: کسی قابل استعمال چیز کا استعمال کی وجہ سے پرانا ہونا۔
  • عتیق: کسی چیز کے پرانا ہونے کے باوجود اس کی شرافت و نجابت میں فرق نہ آنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پردہ

کے لیے غطاء (غطو) غشاوۃ (غشی)، غلف، اکمام، اکنّۃ، ستر، حجاب، عورۃ اور سرادق کے الفاظ آئے ہیں۔
اور ان کے علاوہ حجر، حجز، برزخ کے الفاظ بھی اس سے قریب المعنی ہیں۔ جو "آڑ" میں گزر چکے ہیں۔

1: غطاء

ہر وہ چیز جو کسی چیز پر بطور سر پوش رکھی جائے اور اسے مکمل طور پر ڈھانپ دے وہ غطاء ہے (مف) جیسے ہانڈی کا طباق یا ڈھکنا، یا دوات کا ڈھکنا، اور اس لفظ کا اطلاق عموماً ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جن کی ایک ہی طرف خالی ہو۔ اور اس خالی طرف پر جو چیز رکھ دی جائے، تا کہ اسے مکمل طور پر ڈھانک دے وہ غطاء ہے۔ غطاء کے لیے ضروری ہے کہ وہ کثیف بھی ہو اور ملا ہوا بھی تا کہ مکمل طور پر ڈھانک کر اوجھل کر دے (فق ل 238) ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ (سورۃ ق آیت 22)
یہ وہ دن ہے کہ اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔ اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔

2: غشاوۃ

غشی بمعنی کسی چیز کو کسی رقیق چیز سے ڈھانپنا کہ وہ کچھ نہ کچھ نظر بھی آتی رہے۔ (فق ل 238) اور یہ غطاء سے عام ہے۔ غشی اس مرض کو کہتے ہیں جس سے حواس پر پردہ پڑ جائے اور وہ جواب دے جائیں۔ اسی طرح یہ پردہ کپڑے وغیرہ یا تاریکی کا بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ لفظ ظاہری اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 7)
اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پرمہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہےاور ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے۔

3: غلف

غلف بمعنی کسی چیز کو ہر طرف سے ڈھانک دینا کہ وہ چیز پوری طرح چھپ جائے۔ غلفت السیف یعنی میں نے تلوار کو نیام میں ڈال دیا (مف) اور غلاف وہ چیز ہے جس میں کوئی چیز چھپائی جائے۔ اس کی جمع غلف آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 88)
اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر پردے ہیں نہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں۔

4: اکمام

کمّ بمعنی چھپانا اور کمّ البعیر بمعنی اونٹ کے منہ پر تھوتھنی چڑھانا (منجد) اور کمّ کا لفظ خوشوں کے غلاف کے لیے آتا ہے۔ اور اس کی جمع اکمام ہے (مف) ارشاد باری ہے:
فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ ۪ۙ وَّ النَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَکۡمَامِ (سورۃ الرحمن آیت 11)
اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جنکے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔

5: اکنۃ

کنّ الشیء بمعنی کسی چیز کو محفوظ مقام میں چھپانا اور دھوپ سے بچانا۔ اور کنّ فی نفسہ کے معنی کسی بات کو دل میں چھپانا (منجد) اور کنّ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں حفاظ یا پناہ حاصل کی جائے اور اس کی جمع اکنان اور اکنۃ آتی ہے۔ گویا یہ لفظ ظاہری اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
ظاہری طور پر:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ وَ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 81)
اور اللہ ہی نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غار بنائے اور تمہارے لئے کرتے بنائے جو تم کو گرمی سے بچائیں۔ اور ایسے کرتے بھی جو تم کو اسلحہ جنگ کے ضرر سے محفوظ رکھیں۔ اسی طرح اللہ اپنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔
معنوی استعمال:
وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا فِیۡۤ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ وَ فِیۡۤ اٰذَانِنَا وَقۡرٌ وَّ مِنۡۢ بَیۡنِنَا وَ بَیۡنِکَ حِجَابٌ فَاعۡمَلۡ اِنَّنَا عٰمِلُوۡنَ (سورۃ حم سجدۃ آیت 5)
اور کہنے لگے کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس کی طرف سے ہمارے دل پردوں میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرا پن ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان ایک پردہ ہے تو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے ہیں۔

6: سترا

ستر بمعنی چھپانا اور پردہ کرنا ہے۔ اور ستر ڈھال کو بھی کہتے ہیں (منجد) نیز اس چیز کو بھی جو چھپائے یا پردہ کا کام دے (مف) اور سترہ اس روک کو کہتے ہیں جو نمازی نماز میں پڑھتے وقت اپنے آگے رکھ لیتا ہے۔ اور سترۃ السطح چھت پر پردہ کی دیوار کو کہتے ہیں (منجد) گویا ستر میں کوئی چیز مکمل طور پر نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔ اور ستر کا تعلق کسی دوسری چیز سے ہونا ضروری نہیں جبکہ حجاب کا تعلق کسی دوسری چیز سے ہوتا ہے (فق 238) ارشاد باری ہے:
حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا (سورۃ الکہف آیت 90)
یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع ہوتا ہے جنکے لئے ہم نے دھوپ سے بچاؤ کی کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی۔

7: حجاب

حجب کے معنی کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہو جانا ہے۔ اور حاجب دربان کو کہتے ہیں (فق ل 238) اور حجب کے معنی پردہ میں کر دینا ہے (م ا) وہ اس طرح کہ دو چیزوں کے درمیان یوں پردہ کر دینا کہ ایک چیز دوسری کو نہ دیکھ سکے نہ دوسری تک پہنچ سکے۔ عورتوں سے متعلق پردہ کے احکام کو آیۃ حجاب کہا جاتا ہے۔ اور حجاب کا مطلب یہ ہے کہ چادر یا کوئی دوسرا کپڑا نگاہوں سے اتنا نیچے ہو جانا چاہیے کہ عورت راستہ تو دیکھ سکے لیکن کسی راہ چلتے کو نہ دیکھ سکے اور نہ کوئی مرد عورت کے چہرہ یا جسم وغیرہ کو دیکھ سکے۔ سی طرح ہر ایسی آڑ یا روک جو یہ مقصد پورا کر دے وہ حجاب ہے۔ بالفاظ دیگر حجاب دو چیزوں کے درمیان ایسا پردہ ہے جس سے ایک دوسرے کو دیکھنا اور پہنچنا ممنوع ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ (سورۃ الاحزاب آیت 53)
اور جب پیغمبر ﷺ کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔

8: عورۃ

العوار والعورۃ بمعنی کپڑے یا مکان میں شگاف ہونا، رخنے پڑ جانا، قران میں ہے:
وَ اِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا ۚ وَ یَسۡتَاۡذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوۡرَۃٌ ؕۛ وَ مَا ہِیَ بِعَوۡرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا (سورۃ الاحزاب آیت 13)
اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل یثرب یہاں تمہارے ٹھہرنے کا مقام نہیں تو لوٹ چلو اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے۔ وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے۔
یعنی ان مکانوں میں کوئی شگاف یا رخنے نہیں پڑے تھے جن سے کوئی اندر گس آتا۔
اور عورۃ بمعنی ہو وہ چیز جس سے شرم (عار) محسوس ہو۔ اور کنایۃ انسان کے وہ اعضا جنہیں شرم کی وجہ سے چھپایا جاتا ہے۔ مقامات ستر۔ (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ (سورۃ النور آیت 31)
یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں
اور عورت کو عورت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارے جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ اور بے ستر رہنے کو باعث عار سمجھا جاتا ہے۔ گویا عورت کا معنی شگاف یا رخنہ بھی ہے۔ مقام ستر بھی اور ان کو پردہ سے ڈھانپنا بھی۔ پھر یہ لفظ صرف پردہ کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ قرآن میں ہے:
ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ (سورۃ النور آیت 58)
یہ تین وقت تمہارے پردے کے ہیں

9: سرادق

یہ لفظ فارسی سے معرب ہے۔ بمعنی سرا پردہ (مف) موٹے کپڑے کی دیواریں۔ قناتیں یا شامیانے یا ایسے خیمے جن پر چھت نہ ہو۔ (واحد سردق) قرآن میں ہے:
اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ (سورۃ الکہف آیت 29)
ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جسکی قناتیں انکو گھیر رہی ہوں گی۔

ماحصل:

  • غطاء: کسی چیز کی ایک خالی طرف کو کثیف چیز سے ڈھانپ کر اسے اوجھل کرنے والا۔
  • غشاوۃ: کسی رقیق چیز کا پردہ جس سے وہ کچھ نہ کچھ نظر بھی آئے۔ ظاہری اور معنوی دونوں طرح مستعمل ہے۔
  • غلف: کسی چیز کو ہر طرف ڈھانک دینے والی چیز۔
  • اکمام: درختوں کے میووں کے اوپر کے پردے۔
  • اکنّۃ: حفاظتی پردے اور جگہیں۔
  • سترا: جزوی طور پر حائل ہونے والے پردے۔ اس کا تعلق کسی دوسری چیز سے ہونا ضروری نہیں۔
  • حجاب: ایسا پردہ جس سے ایک چیز کا دوسری کو دیکھنا یا اس تک پہنچنا ممنوع ہو۔
  • عورۃ: شگاف، مقامات ستر اور ان کا پردہ۔
  • سرادق: قناتیں، بغیر چھت کے موٹے کپڑے کے کھڑے کیے ہوئے پردے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پردہ کرنا

کے لیے استتر اور حجب کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
ان دونوں الفاظ کی تشریح اور فرق اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے۔
وَ مَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَتِرُوۡنَ اَنۡ یَّشۡہَدَ عَلَیۡکُمۡ سَمۡعُکُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُکُمۡ وَ لَا جُلُوۡدُکُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعۡلَمُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ حم سجدۃ آیت 22)
اور تم اس بات کے خوف سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور کھالیں تمہارے خلاف شہادت دیں گی بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر ہی نہیں۔
کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 15)
بیشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پرورش کرنا

کے لیے ربا اور ربّی (ربو)، انبت، انشا، رَبِّ اور کفّل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ربی اور ربّی

ربا الولد بمعنی بچے کا نشو و نما پانا۔ اور ربّی بمعنی بچے کی پرورش کرنا، پالنا، مہذب بنانا (منجد) قرآن میں ہے، فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا:
قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّكَ فِيۡنَا وَلِيۡدًا وَّلَبِثۡتَ فِيۡنَا مِنۡ عُمُرِكَ سِنِيۡنَۙ‏ (سورۃ الشعراء آیت 18)
(فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُل رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًاؕ‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 24)
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا

2: انبت

نبت بمعنی گھاس یا سبزی وغیرہ کا اگنا۔ اور انبت بمعنی اگانا ہے۔ لیکن اگر کسی بچے کی یوں پرورش کی جائے کہ بچے کے پلنے اور بڑھنے کی رفتار عام بچوں سے غیر معمولی طور پر زیادہ ہو تو اس کے لیے بھی انبت کا لفظ قرآن کریم نے استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّاَنۡۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا (سورۃ آل عمران آیت 37)
سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا

3: انشاء

نشا کے معنی پیدا ہونا، زندہ ہونا اور جوانی کو پہنچنا (منجد) اور انشا بمعنی کسی کو پیدا کرنا پھر اس کو پال پوس کر بڑھانا ہے (مف) اور ناشی نوجوان کو کہتے ہیں اور نشأة
وَلَـقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَةَ الۡاُوۡلٰى فَلَوۡلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 62)
اور بیشک تم نے پہلے پیدائش (کی حقیقت) معلوم کر لی پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے
اُٹھان کو ۔ ارشاد باری ہے:
اَفَرَءَيۡتُمُ النَّارَ الَّتِىۡ تُوۡرُوۡنَؕ‏ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَهَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔـوۡنَ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 71، 72)
بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو کیا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا :
هُوَ الَّذِىۡ يُرِيۡكُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّيُنۡشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ‌ۚ‏ (سورۃ الرعد آیت 12)
وہی ہے جو تمہیں (کبھی) ڈرانے اور (کبھی) امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور (کبھی) بھاری (گھنے) بادلوں کو اٹھاتا ہے
اور نشا ینشیء (باب تفعیل) کے معنی صرف پالنا اور پرورش کرنا کے ہوتے ہیں (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اَوَمَنۡ يُّنَشَّؤُا فِىۡ الۡحِلۡيَةِ وَهُوَ فِىۡ الۡخِصَامِ غَيۡرُ مُبِيۡنٍ‏ (سورۃ الزخرف آیت 18)
اور کیا جو زیور و زینت میں پرورش پائے اور جھگڑے میں واضح نہ ہو

4: ربّ

ربّ مصدر ہے جس کے معنی کسی کو پرورش کر کے بتدریج حد کمال تک پہنچانا اور اس کی پوری ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے (مف)۔ یہ لفظ عموماً بطور اسم فاعل استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ (سورۃ الفاتحہ آیت 2)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے
ربوبیت کی صفت اللہ ہی کو سزاوار ہے۔ اور الرّب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تاہم لفظ ربّ کی نسبت آقا اور مالک کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ اور اس صورت میں اس کا مصدر ربوبیۃ نہیں بلکہ ربابیت آئے گا (مف) قرآن میں ہے:
يٰصَاحِبَىِ السِّجۡنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَيَسۡقِىۡ رَبَّهٗ خَمۡرًا‌ۚ (سورۃ یوسف آیت 41)
اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربّی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا
اسی طرح ربّ کی جمع آنے کی بھی کوئی تک نہیں لیکن چونکہ کفار نے کئی رب بنا لیے تھے اس لیے قرآن نے اس کی جمع ارباب استعمال کی ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰصَاحِبَىِ السِّجۡنِ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَيۡرٌ اَمِ اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُؕ‏ (سورۃ یوسف آیت 39)
اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! (بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اﷲ جو سب پر غالب ہے

5: كفّل

کفّل فلانا بمعنی کس کو پالنا اور اس پر خرچ کرنا (م ق) اور بمعنی کسی کے نان و نفقہ اور اس کی خبر گیری کا ذمہ دار ہونا (مف منجد) ارشاد باری ہے:
وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يُلۡقُوۡنَ اَقۡلاَمَهُمۡ اَيُّهُمۡ يَكۡفُلُ مَرۡيَمَ (سورۃ آل عمران آیت 44)
حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم (علیہا السلام) کو پرورش میں لے

ماحصل:

  • ربّی: محض تربیت کرنے اور پالنے کے لیے آتا ہے۔
  • انبت: خوراک وغیرہ کا خیال رکھ کر نہایت اچھی طرح پرورش کرنا۔
  • نشا: بمعنی پیدا کرنا۔ پھر پال پوس کر بڑھانا۔
  • ربّ: پیدا کرنا۔ پھر تربیت کرکے بتدریج کمال تک پہنچانا اور اس کی جملہ ضرورتوں کا خیال رکھنا۔
  • کفّل: کسی کی پرورش اور تربیت کا ذمہ دار بننا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پڑھنا پڑھانا

کے لیے قرا اور اقرۃ ، تلی، رتل، درس اور دراسۃ اور املی (ملی) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قرء

پڑھنا اور مطالعہ کرنا کے لیے اس کا استعمال عام ہے۔ خواہ کوئی تحریر پڑھی جائے یا کتاب یا ایک آدھ لفظ (فق ل 48) اور قرآن کریم کو قرآن اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بکثرت اور بار بار پڑھا جاتا ہے۔ اور اس لفظ قرآن میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ جیسے غفر سے غفران ۔ ارشاد باری ہے:
فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيۡنِهٖۙ فَيَقُوۡلُ هَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا كِتٰبِيَهۡ‌ۚ‏ (سورۃ الحاقہ آیت 19)
سو وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (خوشی سے) کہے گا: آؤ میرا نامۂ اَعمال پڑھ لو
اور اقرا بمعنی کسی دوسرے کو پڑھانا۔ ارشاد باری ہے:
سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓىۙ‏ (سورۃ الاعلی آیت 6)
ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے

2: تلی

تلی یتلوا۔ تلوا کے معنی کسی چیز کے پیچھے پیچھے آنا اور بار بار آتے رہنا۔ (مف) ارشاد باری ہے:
وَالشَّمۡسِ وَضُحٰٮهَا وَالۡقَمَرِ اِذَا تَلٰٮهَا (سورۃ الشمس آیت 1، 2)
سورج کی قَسم اور اس کی روشنی کی قَسم۔ اور چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے۔
اور تلی (یتلوا- تلاوة) بمعنی کتاب یا قرآن پڑھنا اور تلاوۃ کا لفظ صرف خدا کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے پڑھنے سے مخصوص ہے (مف) کیونکہ اس میں ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری آیات وعلی ہذا القیاس ، پڑھی جاتی ہیں ۔ (م ل) الہامی کتابوں کا ایک آدھ حرف یا جملہ پڑھنے پر تلاوت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ (فق ل ۴۸) ارشاد باری ہے:
اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ مِنَ الۡكِتٰبِ (سورۃ العنکبوت آیت 41)
آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل لغت کا تلاوت کے لفظ کو الہامی کتابوں کے پڑھنے سے مختص کرنا نزول قرآن سے بہت بعد کی پیداوار ہے کیونکہ قرآن نے اس لفظ کو عام پڑھنے حتی کہ جنتر منتر اور جادو کے الفاظ و اوراد پڑھنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوۡا الشَّيٰطِيۡنُ عَلٰى مُلۡكِ سُلَيۡمٰنَ‌‌ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 102)
اور وہ ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے تھے جو سلیمان (علیہ السلام) کے عہدِ حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے

3: رتل

رتل کسی چیز کی خوبی، آرائش اور بھلائی کو کہتے ہیں (م ا) اور رتّل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنا (مف) ہے۔ اور ترتیل بمعنی خوش آوازی سے پڑھنا یا پڑھنے میں خوش الحانی اور حسن ادائیگی حروف کا لحاظ رکھنا ہے (منجد) اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِيۡلاًؕ‏ (سورۃ المزمل آیت 4)
اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں

4: درس

بمعنی بوسیدہ ہونا۔ کہا جاتا ہے، درس الثوب یعنی کپڑا پرانا اور بوسیدہ ہو گیا اور درس العلم بمعنی علم کو یاد کرنے کے لیے متوجہ ہوتا ہے۔ (منجد) اور امام راغب کے نزدیک اس کے معنی علم کو حفظ اور ضبط کر کے اس کا اثر حاصل کرنا ہے۔ اور چونکہ یہ بات مسلسل پڑھنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے لہذا درس مسلسل اور باقاعدہ پڑھنے کے معنی میں آتا ہے (مف) ارشادِ باری ہے:
وَلٰـكِنۡ كُوۡنُوۡا رَبَّانِيّٖنَ بِمَا كُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡكِتٰبَ وَبِمَا كُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَۙ‏ (سورۃ آل عمران آیت 79)
بلکہ (وہ تو یہ کہے گا) تم اﷲ والے بن جاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس وجہ سے کہ تم خود اسے پڑھتے بھی ہو
اور درس ( دراسة) بمعنی پڑھنا پڑھانا اور دراس (دراسا) بمعنی ایک دوسرے کو پڑھ کر سنانا، باہم پڑھنا (منجد) قرآن میں ہے:
اَنۡ تَقُوۡلُـوۡۤا اِنَّمَاۤ اُنۡزِلَ الۡـكِتٰبُ عَلٰى طَآٮِٕفَتَيۡنِ مِنۡ قَبۡلِنَا وَاِنۡ كُنَّا عَنۡ دِرَاسَتِهِمۡ لَغٰفِلِيۡنَۙ‏ (سورۃ الانعام آیت 156)
(قرآن اس لئے نازل کیا ہے) کہ تم کہیں یہ (نہ) کہو کہ بس (آسمانی) کتاب تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں (یہود و نصارٰی) پر اتاری گئی تھی اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے

5: املى

الإملاء کو اہل لغت دو مادوں کے تحت لاتے ہیں۔ (1) املّ یملّ املاء (ملل) اور (۲) املی یملی املاء (ملی) اور دونوں صورتوں میں املاء کا ایک ہی معنی ہے یعنی تحریر کرانا یا لکھوانا (منجد، مف) اور چونکہ املاء کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی بولتا جاتا ہے اور دوسرا لکھتا ہے۔ تو اس لحاظ سے تملی کا لفظ قرآن کریم میں بعض کے نزدیک لکھی ہوئی عبارت کو پڑھ کر سنانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
وَقَالُوۡۤا اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ اكۡتَتَبَهَا فَهِىَ تُمۡلٰى عَلَيۡهِ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلاً‏ (سورۃ الفرقان آیت 5)
اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) اگلوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے پھر وہ صبح و شام پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
اور کہتے ہیں یہ نقلیں ہیں پہلوں کی جن کو اس نے لکھ رکھا ہے سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس کے پاس صبح و شام (عثمانیؒ)

ماحصل:

  • قرا: پڑھنے کے لیے اس کا استعمال عام ہے۔ تھوڑا ہو یا زیادہ کتاب ہو یا چھٹی۔
  • تلاوة: الہامی کتابوں یا جنتر منتر کے پڑھنے کے لیے آتا ہے۔
  • رتل: ٹھہر ٹھہر کر اور سنوار سنوار کر پڑھنا۔
  • درس: با قاعدہ سیکھنے کے لیے اور اس کا ضبط کرنا۔
  • املی: لکھی ہوئی عبارت پڑھ کر سنانا۔
پسند آنا کے لیے دیکھیے "خوش ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پسند کرنا

کے لیے حبّ، ودّ، ارتضی اور تخیّر کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: حبّ اور حبّۃ

(دانہ گندم، جو وغیرہ) کو کہتے ہیں۔ اور حبة القلب سویدائے دل کو اور محبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر سویدائے دل میں جگہ دینا، اس کا ارادہ کرنا اور چاہنا (مف) اور بمعنی چاہنا اور اس کے حصول میں حکمت سے کام لینا (فق ل ۹۹) قرآن میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِھۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحجرات آیت 12)
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ تو غیبت نہ کرو اور اللہ کا ڈر رکھو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے۔

2: ودّ

کے معنی بہت محبت کرنا (م ا) اور امام راغب کے نزدیک کسی چیز سے محبت کرنا اور بعض دفعہ صرف اس کے ہونے کی تمنا کرنے کے ہیں۔ پھر یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے (مف) اور مودت بمعنی بہت محبت اور ودود بہت محبت کرنے والا ہے۔ اور یہ لفظ صرف کسی چیز کو پسند کرنے یا کسی چیز کی تمنا کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ ؕ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ (سورۃ المعارج آیت 11)
حالانکہ ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے اس روز گنہگار چاہے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دیدے یعنی اپنے بیٹے۔
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 2)
کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے۔

3: ارتضی

رضی بمعنی کسی سے خوش اور راضی ہونا ۔ اور ارتضی بمعنی اپنے دل کی خوشی سے کسی چیز کو پسند کر لینا۔ ارشاد باری ہے:
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسۡلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ رَصَدًا (سورۃ الجن آیت 26، 27)
وہی غیب کا جاننے والا ہے سو کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے اور اسکو غیب کی باتیں بتا دے تو اسکے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔

4: تخیّر

خیر بمعنی بہتری، بھلائی اور تخیّر بمعنی بہت سی چیزوں میں سے کسی چیز کے اوصاف کی بنا پر اسے پسند کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ فَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 20)
اور میوے جس طرح کے انکو پسند ہوں۔

ماحصل:

  • حبّ: کسی چیز کی پسندیدگی اور خواہش اور اس کے حصول میں حکمت سے کام لینا۔
  • ودّ: انتہائی محبت یا اس کے حصول کی تمنا کے لیے آتا ہے۔ گویا پسندیدگی کی اصل سے ودّ کا لفظ حب سے ابلغ ہے۔
  • ارتضی: میں پسندیدگی کی اصل وجہ دل کی خوشی ہے جبکہ
  • تخیّر: میں پسندیدگی کی اصل وجہ اس پسندیدہ چیز کے اوصاف ہیں۔
نیز دیکھیے "چن لینا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پکارنا

کے لیے دعا، نادی، اذّن ، ابتھل اور جھر کے الفاظ آئے ہیں۔

1، 2: دعا اور ندا

دونوں الفاظ قریب المعنی ہیں۔ دعاء کا لفظ نداء سے اخص ہے۔ اور ان میں درج ذیل باتوں میں فرق پایا جاتا ہے۔
1: دُعاء کے معنی محض پکارنا ہے جبکہ نداء عموماً بلند آواز سے پکارنے کے لیے آتا ہے کیونکہ ندی کے معنی لمبے فاصلے کے بھی آتے ہیں۔ (م - ل) اور منادی ڈھنڈورچی یا اعلانچی کو کہتے ہیں۔
2: دعا میں کلام کا با معنی ہونا ضروری ہے جبکہ نداء با معنی بھی ہو سکتی ہے اور بے معنی بھی۔ یعنی صرف بلند آواز نداء تو ہے مگر دعاء نہیں ہے۔ گویا نداء کا لفظ محض چلانے پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
3: دعاء میں کسی کو مخاطب کرنا ضروری ہے۔ مگر نداء میں منادی کا نام لینا ضروری نہیں (مف) ارشاد باری ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 171)
جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ سن نہ سکے یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے۔
نعق: کوے کے چلانے کو کہتے ہیں۔ اور آیت بالا میں ندا ء سے مراد محض چلانا اور دُعاء سے مراد پکارنا ہے۔ اور یہ جو قرآن میں آیا ہے:
اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا (سورۃ مریم آیت 3)
جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا۔
تو یہاں خفیّا کا لفظ استثنا کی صورت پیدا کر رہا ہے۔
اور ندا کا لفظ قرآن کریم میں اذان کی معنوں میں بھی آیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ جمعہ آیت 9)
مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خریدوفروخت ترک کر دو اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
گویا نداء کی اس صورت میں منادی کا نام بھی نہیں لیا جاتا اور بلند آواز اور لمبے فاصلے کی شرط بھی موجود ہے۔

3: اذّن

کے معنی کسی کو بلند آواز سے متوجہ کرنا اور بلانا ہے۔ اس طرح کہ آواز اس کے کانوں تک پہنچ سکے۔ گویا اذان اور تاذین کا لفظ نداء سے اخص ہے۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَہَّزَھُمۡ بِجَہَازِھِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 70)
پھر جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے تھیلے میں آبخورہ رکھ دیا پھر جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔

4: ابتھل

بھل علیحدگی اور دعاء کی ایک خاص قسم کو کہتے ہیں۔ اور ابتهال یا مباھلہ یہ ہے کہ کسی فیصلہ طلب امر میں فریقین میں سے ہر ایک جھوٹا اور غلط ہونے کی صورت میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت آزادی اور عاجزی سے بد دعا کرے (م ا) ارشاد باری ہے:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 61)
پھر اگر یہ لوگ عیسٰی کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اسکے بعد کہ تم کو حقیقت معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا و التجا کریں اس طرح جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔

5: جهر

بمعنی اتنی بلند آواز سے پکارنا یا بولنا جسے دوسرے ساتھ والے سن سکیں۔ اور اس کی ضد اسرّ ہے یعنی اتنی خفی آواز سے بولنا جسے ساتھ والے نہ سن سکیں ۔ جیسے نماز میں مقتدی پڑھتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ تَجۡہَرۡ بِالۡقَوۡلِ فَاِنَّہٗ یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی (سورۃ طہ آیت 7)
اور اگر تم پکار کر بات کہو تو کیا ہے وہ تو آہستہ کہی ہوئی اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے۔

ماحصل:

  • دعا: با معنی کلام، عام یا دبی آواز سے اور مدعو کو مخاطب کرنا ضروری ہے۔
  • نداء: کا اطلاق صرف بلند آواز سے اور بے معنی کام پر بھی ہو سکتا ہے اور منادی کا نام بھی لینا ضروری نہیں
  • اذان اور تاذین بلند آواز سے پکار کر اپنی طرف کسی کو متوجہ کرنا یا بلانا۔
  • ابتھال: بد دعا کی ایک خاص قسم ہے۔
  • جھر: اتنی بلند آواز سے پکارنا جسے کم از کم ساتھ والے سکیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پکڑنا

کے لیے اخذ، بطش اور تناوش (نوش) قبض، خَطَّفَ ، سطا (سطو)، اِعْتَصم (عصم) استمسك (مسك) اور درک کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اخذ

پکڑنے کے لیے یہ لفظ عام ہے۔ کسی چیز کو حاصل کر لینا یا احاطہ میں لے لینا (مف) اور یہ لفظ ظاہری اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً :
ظاہری لحاظ سے:
قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَ لَا بِرَاۡسِیۡ ۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ لَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ (سورۃ طہ آیت 94)
کہنے لگے کہ اے ماں جائے میری داڑھی اور سر کے بالوں کو نہ پکڑیئے میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا۔
معنوی لحاظ سے:
خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا (سورۃ البقرۃ آیت 93)
جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو زور سے پکڑو اور جو تمہیں حکم ہوتا ہے اس کو سنو

2: بطش

بمعنی کسی چیز کو غلبہ اور قوت سے پکڑنا (م ل) یا کوئی چیز زبردستی سے پکڑنا یا لے لینا۔ (مف) ہے۔ سخت اور مضبوط گرفت- جابرانہ گرفت، سختی اور رعب سے پکڑنا (م ق) اخذ کی طرح یہ لفظ بھی ظاہری اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 130)
اور جب کسی کو پکڑتے ہو تو جابرانہ پکڑتے ہو۔

3: تناوش

ناش بمعنی کسی چیز کو اتنی دور سے پکڑنا کہ اس تک ہاتھ پہنچ سکے۔ طلب کرنا (منجد) اور تناوش بمعنی کسی مطلوبہ چیز تک رسائی ہونا۔ دست رسی ہونا۔ ارشاد باری ہے،
وَّ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَ اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ (سورۃ سبا آیت 52)
اور کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے اور اب اتنی دور سے ان کا ہاتھ ایمان کے لینے کو کیسے پہنچ سکتا ہے؟​
(نیز دیکھیے پہنچنا)

4: قبض

کسی چیز کوٹھی میں پکڑنا اور قبضۃ بمعنی مٹھی آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُہَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ (سورۃ طہ آیت 96)
اس نے کہا کہ میں نے ایسی چیز دیکھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی۔ پھر اسکو بچھڑے کے جسم میں ڈال دیا اور مجھے میرے جی نے اس کام کو اچھا بتایا۔

5: خطف

کسی چیز کو پکڑنا اور لے اڑنا۔ جلدی سے کوئی چیز پکڑنا اور چلتے بننا (فل 170) اچک لے جانا کسی (پرندے وغیرہ کا) کوئی چیز جلدی میں لے اڑنا۔ ارشاد باری ہے
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ (سورۃ الحج آیت 30)
صرف ایک اللہ کے ہو کر اور اسکے ساتھ شریک نہ ٹھہرا کر اور جو شخص کسی کو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے پھر اسکو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور کی جگہ اڑا کر پھینک دے۔

6: سطا

بمعنی کسی پر حملہ کر کے اسے مغلوب کرنا (منجد) اور امام راغب کے نزدیک حملہ کے دوران سختی سے گرفت کرنا ہے (مف) اور سطوة کے معنی البطش برفع الید، کسی پر ہاتھ اٹھا کر سخت گرفت کرنا ہے، ہاتھ چلانا (م - ق) ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡمُنۡکَرَ ؕ یَکَادُوۡنَ یَسۡطُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ؕ (سورۃ الحج آیت 72)
اور جب انکو ہماری صاف صاف آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو انکی شکل بگڑ جاتی ہے اور تم انکے چہروں میں صاف طور پر ناگواری دیکھتے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ انکو ہماری آیتیں پڑھ کو سناتے ہیں ان پر حملہ کر دیں گے۔

7: اعتصم

عصم بمعنی چیز کو محفوظ رکھنا اور بچانا (منجد) اور اعتصم بمعنی دونوں ہتھیلیوں سے مضبوط پکڑنا اور پنجہ مارنا ہے (فل ۱۷۴) ارشاد باری ہے:
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔

8: استمسک

امسك کے معنی جو چیز پاس ہو اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دینا۔ روک لینا۔ چمٹنا اور تمسك اور استمسک معنی مضبوطی سے تھامے رکھنا، چمٹ جانا، مضبوط پکڑے رکھنا (منجد) ارشاد باری ہے:
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 256)
دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسّی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے سب کچھ جانتا ہے۔

9: درک

بمعنی کسی چیز کا پیچھے سے دوسری چیز کو ملنا اور اسے آ پکڑنا (م ل) درک سمندر کی تہ کو بھی کہتے ہیں اور اس رسی کو بھی جس کے ساتھ پانی کی تہہ تک پہنچنے کے لیے دوسری رسی باندھ کر ملائی جاتی ہے (مف) گویا درک کسی چیز کو جا لینا، جا پکڑنا یا آ پکڑنا کا معنی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ (سورۃ یس آیت 40)
نہ تو سورج ہی سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔

ماحصل:

  • اخذ: پکڑنا کے لیے عام لفظ ہے۔
  • بطش: سخت اور جابرانہ گرفت۔
  • تناوش: کسی دور کی چیز کو پکڑنے کی کوشش۔
  • قبض: مٹھی میں کوئی چیز پکڑنا۔
  • خطف: جلدی سے کوئی چیز لے کر چلتے بننا۔
  • سطا: یوں پکڑنا جیسے کوئی حملہ کر رہا ہو۔
  • اعتصم: دونوں ہتھیلیوں سے کسی چیز کو مضبوط پکڑنا۔
  • استمسك، جو چیز پکڑی ہے یا پاس ہے اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا۔
  • درک: کسی چیز کو پیچھے سے جا پکڑنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پناہ - پناہ گاہ یا جائے پناہ

کے لیے وزر، موئلا، اكنانا، مَلْجَا، مَفازةً ، مَحیص اور مُلْتَحدا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: وزر

پہاڑ کو بھی کہتے ہیں اور جائے پناہ کوبھی (م ا) اور بقول امام راغب کسی پہاڑ میں جائے پناہ کو (مف) غارع کھوہ وغیرہ۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّا لَا وَزَرَ اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمُسۡتَقَرُّ (سورۃ القیامۃ آیت 11، 12)
کہیں نہیں کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس روز تمہارے پروردگار ہی کے پاس تمہیں جا ٹھہرنا ہے۔

2: مويلاً

والۃ، اونٹ اور بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں اور استیئال بمعنی اونٹوں کا جمع ہوتا ہے (م ا) اور ابن فارس کے نزدیک "اکٹھا ہونے اور حفاظت و نجات" پر دلالت کرتا ہے۔ گویا موئلا ایسی خود ساختہ جگہ ہے جو چوری چکاری اور دوسرے خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے بنائی گئی ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ رَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ لَوۡ یُؤَاخِذُھُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَہُمُ الۡعَذَابَ ؕ بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا (سورۃ الکہف آیت 58)
اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ انکے کرتوتوں پر ان کو پکڑنے لگے تو ان پر جھٹ عذاب بھیج دے مگر ان کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے کہ اس کے عذاب سے کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔

3: اکنان

کنّ بمعنی کسی چیز کو گھر میں چھپانا اور دھوپ وغیرہ سے بچاؤ کرنا (منجد) اور کنّ وہ محفوظ مقام ہے جہاں دھوپ اور بارش سے پناہ لی جا سکے (م ا) یا ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو چھپایا جا سکے۔ اور کن کی جمع اکنان اور اکنۃ آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا (سورۃ النحل آیت 81)
اور اللہ ہی نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غار بنائے

4: ملجا

لجا یعنی قلعہ وغیرہ میں پناہ لینا (منجد) اور لجا قلعہ کو بھی کہتے ہیں اور اس کی جمع الجاء ہے (م ق) اور ملجا کے معنی قلعہ یا کوٹ کے ہیں۔ جہاں دشمن سے حفاظت کا انتظام ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ (سورۃ الشوری آیت 47)
ان سے کہدو کہ قبل اسکے کہ وہ دن جو ٹلے گا نہیں اللہ کی طرف سے آ موجود ہو اپنے پروردگار کا حکم قبول کر لو۔ اس دن تمہارے لئے نہ کوئی جائے پناہ ہو گی اور نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا۔

5: محيص

حیص بمعنی تنگی اور سختی (م ا) حیص اور بیص دونوں الفاظ عموماً اکٹھے استعمال ہوتے ہیں اور قریب المعنی ہیں۔ جن کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی مشکل اور تردد جس سے نجات کی صورت نہ ہو۔ اور محیص وہ جگہ جہاں شدائد سے پناہ مہیا ہو سکے۔ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَ لَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا (سورۃ النسا آیت 121)
ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ وہاں سے کوئی راہ فرار نہیں پا سکیں گے۔

6: مفازة

فاز بمعنی نجات حاصل کرنا، مصیبتوں سے نجات حاصل کر کے خیر و عافیت کے ساتھ سلامتی کی جگہ پہنچنا ہے (مف) اسی لیے فاز الرجل اور فوز الرجل کے معنی مرنا اور ہلاک ہونا بھی آتا ہے (یہ لفظ ذوی الاصدار سے ہے) (م - ل ، م ق ) گویا مر کر بھی انسان دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرتا ہے۔ اور مفازة وُہ امن و سلامتی کی جگہ ہے جہاں انسان کو سختیوں سے اطمینان اور پریشانیوں سے سکون نصیب ہو۔ اور نیز معنی ہلاکت کی جگہ اور اس کا سبب (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ یُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا بِمَفَازَتِہِمۡ ۫ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوۡٓءُ وَ لَا ھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 61)
اور جو پرہیزگار ہیں انکی کامیابی کے سبب اللہ انکو نجات دے گا نہ تو انکو کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔

7: ملتحدا

لحد معنی کسی کی طرف جھکنا اور مائل ہونا۔ گوشہ ریشم سے دیکھنا۔ اور لحد کے معنی وہ شگاف جو قبر کے ایک طرف بنایا جاتا ہے (م ا) اور ملتحدا وہ جگہ جہاں تھوڑا سا ادھر ادھر یا آگے پیچھے ہو کر انسان بچ سکے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ اِنِّیۡ لَنۡ یُّجِیۡرَنِیۡ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ۬ۙ وَّ لَنۡ اَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا (سورۃ الجن آیت 22)
یہ بھی کہدو کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اور میں اسکے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پاؤں گا۔

ماحصل:

  • وزر: پہاڑ کی کھوہ، یا غار کو کہتے ہیں جس میں پناہ لی جا سکے۔
  • موئلا: خود ساختہ پناہ گاہ جہاں انسان یا مویشی کسی حفاظت گاہ میں اکٹھے ہوں، حفاظت گاہ۔
  • اکنان: دھوپ اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کی جگہ، محفوظ مقام۔
  • ملجا: قلعہ یا کوٹ جہاں دشمن سے حفاظت کا انتظام ہو۔
  • محيص: سختیوں اور مصائب سے حفاظت کی جگہ۔
  • مفازة: سختیوں اور مصائب سے خیر و عافیت سے ایسی حفاظت گاہ میں پہنچنا جہاں امن اور سلامتی بھی نصیب ہو۔
  • ملتحدا: کسی مصیبت کے مقام سے ادھر ادھر ہٹ کر بچاؤ کی جگہ۔
 
Top