اصلاح معاشرہ

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی

اصلاح معاشرہ

از قلم: محمد داؤد الرحمن علی
’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ ایك خوبصورت عنوان اور دو لفظوں كی حسین ودلكش تعبیر ہے، اس لفظ كے سننے، بولنے اور پڑھنے والے كےذہن ودماغ كے دریچوں میں معاشرے كی وہ تمام برائیاں گردش كرنے لگتی ہیں۔ ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘کے عنوان پر سرکاری وغیر سرکاری طور پر کوششیں کی جاتی ہیں۔
ان سب کوششوں کے باوجود ذہن کے دریچوں میں کہ سوال پیدا ہوتا کہ یہ ساری محنتیں بے كار كیوں ہیں، ساری كوششیں اكارت كیوں ہوتی ہیں، اصلاح معاشرہ كی كوئی تدیبر كامیاب كیوں نہیںہورہی ہے، معاشرہ بجائے اصلاح كے بگاڑ وفساد كی طرف مزید كیوں بڑھ رہا ہے۔؟
اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ایک تو کوشش نہیں کرتے ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ کو اپنانے کی ،ساتھ ہم دین سے دوری رکھتے ہیں۔اللہ پاک قرآن کریم فرقان حمید میں وعدہ فرمارہے ہیں کہ جو کوشش کرینگے ہم انہیں ہدایت دینگے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ
جو لوگ ہماری راہ میں كوشش كریں گے ہم انھیں اپنے راستوں كی ہدایت كریں گے،بے شک اللہ نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔(سورۃ العنکبوت:69)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّـٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ
اے ایمان والو!اگر تم اللہ كے دین كی مدد كروگے تو ہم تمہاری مدد كریں گے اور تمہارے قدموں كو استقامت بخش دیں گے۔(سورہ محمد:7)
نہ تو خدا كا فرمان غلط ہوسكتا ہے نہ ہی خدا كا كلام جھوٹ ہوسكتا ہے، نہ رب ذوالجلال سے وعدہ خلافی كا صدور ممكن ہے، لیل ونہار میں تبدیلی ہوسكتی ہے، سورج كا بجائے مشرق كے مغرب سے طلوع ہونا ممكن ہوسكتا ہے، زمین وآسمان كا اپنی جگہ سے ٹلنے كا یقین كیا جاسكتا ہے، مگر رب كریم سے وعدہ خلافی كا صدور ناممكن ہے، خدائے بزرگ وبرتر كے كلام میں شك وربیب نہیں كیا جاسكتااور نہ اس میں کوئی شک کی گنجائش ہے۔
اگر درج بالا آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ كے نام پر كی جانے والی ساری تدبیروں اور كوششوں كا رخ صحیح نہیں، دراصل یہ كوششیں ان صفات وخوبیوں سے آراستہ نہیں، جو دوسرے كو اپنی طرف متوجہ كرسكیں، جو نصرتِ خداوندی كو دعوت دے سكیں۔ اگر ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كے سلسلے میں كی جانے والی ہماری كوششیں اور تمام تدبیریں اخلاص وللہیت سے بھرپور ہوں اور صحیح راستہ پر چلیں تو ضرور اللہ كی مدد شامل حال ہوگی اور نصرت خداوندی متوجہ ہوگی، پھر عوام اس سے متاثر ہوں گے اور اس كے صحیح، بہتر اور خوش كن نتائج ضرور برآمد ہوں گے ۔
اگر ہم غور وفكر كے دریچے كو كھولیں اور اپنے گریبان میں جھانك كر دیكھیں اور تحقیق كے دائرے كو ذرا وسیع كریں تو ہمیں اتنا تو ضرور معلوم ہوجائے گا كہ ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كے خوب صورت عنوان پر كی جانے والی ساری كوششوں كے درپردہ اتنے اغراض پوشیدہ ہیں اور یہ جدوجہد اتنے عیوب ونقائص سے بھری اور اصلاح كے حقیقی اصول وضوابط اور اصلاح كے لوازمات سے اتنی خالی ہیں كہ صحیح معنی میں اس كو ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كا نام دینا یا ’’اصلاح كی كوشش‘‘ كہنا ہی درست نہیں ہے۔
ہر وقت ہماری یہ خواہش ہوتی ہے كہ معاشرے سے تمام برائیوں كا خاتمہ دوسرے كی ذات اور دوسروں كے گھرسے شروع ہو، معاشرے كے تمام رسوم وبدعات كے خاتمہ كا آغاز دوسرا كرے اور ہر طرح كی تبدیلی كی ابتداء دوسرا كرے یہ خیال وگمان شاید ہی كسی شخص كو آتا ہو كہ رسومات كے خاتمے كا مطالبہ خود ہماری ذات سے بھی ہے، برائیوں كے خاتمے میں ہماری بھی كوئی ذمہ داری ہے، زندگی میں تبدیلی لانے كا فریضہ ہمارے اوپر بھی عائد ہوتا ہے اور شاذونادر ہی كوئی شخص یہ سوچتاہو كہ ہمیں خود بھی اپنے اخلاق وكردار بے داغ بنانا چاہیے، جب تك ہم كو یہ فكر دامن گیر نہیں ہوتی اور ہماری سوچ میں كوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ہے اور خود ہمارے اندر اخلاق وكردار كے بنانے اور سنوارنے كے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں كا احساس پیدا نہیں ہوتا، اس وقت تك ہمارے معاشرے میں اصلاحِ معاشرہ كا كام آسان نہیں ہوسكتا اور نہ ہمارا معاشرہ اصلاح كی طرف گامزن ہوسكتا اور نہ ہی ہماری زبان وقلم اور وعظ وتقریر كے اندر تاثیر پیدا ہوگی۔
انبیاء كرام، صحابہ وتابعین اور اولیاء عظام كا اصلاح كے سلسلے كا طرزِ عمل ہمارےطریقۂ كار سے بالكل علیحدہ تھا، ان كی ہر اصلاح كا آغاز اپنی ذات سے ہوتا تھا، اپنے اہل وعیال سے ہوتا تھا، اپنے گھر خاندان كی فكر ان كو دامن گیر ہوتی تھی، وہاں اعمال وكردار كے ذریعہ دعوت كا كام ہوتا تھا، زبانی وعظ ونصیحت كا دوسرا درجہ تھا۔
قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے
وَوَصّـٰى بِهَآ اِبْـرَاهِيْمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُۖ يَا بَنِىَّ اِنَّ اللّـٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُـمْ مُّسْلِمُوْنَ
وصیت كیا اس كی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں كو اور یعقوب علیہ السلام نے بھی (اپنے بیٹوں كو) كہ اے بیٹو! بیشك اللہ نے منتخب كیا ہے تمہارے لیے دین كو لہٰذا تم مسلمان ہوكر ہی مرنا۔(سورۃ البقرۃ:132)
آگے اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ
اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْۖ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰـهَكَ وَاِلٰـهَ اٰبَآئِكَ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ اِلٰـهًا وَّاحِدًاۚ وَّنَحْنُ لَـهٝ مُسْلِمُوْنَ
جب حضرت یعقوب علیہ السلام كے موت قریب آئی جب اپنے بیٹوں سے كہا كہ میرے بعد تم كس كی عبادت كروگے۔(سورۃ البقرۃ :133)
انبیاء علیہما السلام كے اصلاحی فریضہ كی تبلیغ كے سلسلے میں اہل وعیال سے آغاز میں حكمت ومصلحت یہ ہے كہ اصلاح كی جو ہدایت عام مخلوق كو دی جائے اس كو پہلے اپنے اہل وعیال، گھر اور خاندان سے شروع كرے، اپنے گھر كے لوگوں كو اس پر عمل كرنا اور اس كا ماننا اور منوانا نسبتاً آسان بھی ہوتا ہے،اس كی نگرانی اور كمی كوتاہی پر تنبیہ بھی ہروقت كی جاسكتی ہے اور جب وہ كسی خاص رنگ كو اختیار كرلیں اور پھر اس میں پختہ ہوجائیں تو اس سے ایك دینی ماحول پیدا ہوكر دعوت كو عام كرنے اور دوسروں كی اصلاح كرنے پھر دوسروں كو اسی ماحول میں ڈھالنے میں بڑی قوت پیدا ہوجائے گی۔ اصلاحِ خلق كے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مؤثر ایك صحیح دینی ماحول كا وجود میں لانا ہے، تجربہ شاہد ہے كہ صحابۂ كرام اور تابعینِ عظام كا دور اس كی روشن مثال ہے كہ ہر بھلائی تعلیم وتعلم افہام و تفہیم اور وعظ وتقریر سے زیادہ ماحول ومعاشرے اور اخلاق و كردار كے سانچے میں ڈھلنے سے پھیلتی اور بڑھتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام كے اس طرزِ عمل سے ایك اصولی بات یہ معلوم ہوتی ہے جو عام انسانوں كے لیے خاص طور پر ہدایت ہے وہ یہ كہ والدین كا فرض اور اولاد كا حق ہے كہ سب سے پہلے ان كی صلاح وفلاح كی فكر كی جائے ان كے بعد دوسروں كی توجہ كی جائے جس كے اندر دوحكمتیں ہیں: اوّؔل یہ كہ طبعی اور جسمانی تعلقات كی بناء پر وہ نصیحت كا اثر زیادہ جلد اور آسانی سے قبول كرسكیں اور پھر وہ ان كی تحریك اور اصلاحی كوششوں میں ان كے دست بازو بن كر اشاعت حق میں ان كے معین ہوں گے۔
اللہ پاک نے ایک تنظیمی اصول ارشاد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ
اے ایمان والو! اپنے آپ كو اور اپنے اہل وعیال كو جہنم كی آگ سے بچاؤجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور) اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔(سورۃ التحریم:6)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا
وامُر اَھلَكَ بِالصَّلوٰة واَصْطَبِرْ عَلَیھا
اپنے اہل وعیال كو نماز كا حكم كیجیے اور خود بھی اس كے پابند رہیے
نبی کریم ﷺ جو قیامت کی صبح تک آنے والے لوگوں کے لیے راہ ہدایت ہییں آپ کو بھی حکم دیا جارہاہے۔
واَنْذِر عَشِیرَتَكَ الاَقْرَبِینَ
اپنے رشتہ داروں كو اللہ كے عذاب سے ڈرائیے
لیکن ہماری دینی پسماندگی کیا حال ہے ۔؟یہ آپ خود جان سکتے ہیں،جو چیزیں ہمارے معاشرہ میں ہورہی ہیں۔
ہم اپنے آداب کو چھوڑ کر دوسروں کے آداب اپنا رہے ہیں۔چیز جو یہود و نصاریٰ کے ہاں پسندیدہ ہے اور حضورﷺکے دشمنوں کا طریقہ ہے اسے اپنے لیے پسندیدہ قرار دیتے ہیں اور اسلام کے دل کش و دل ربا آداب کو نظر انداز کرتے ہیں۔
آپﷺ نےایسے حسین اور عمدہ قسم کے آداب ِ معاشرت ارشاد فرمائے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر کبھی زوال آہی نہیں سکتا، وہ آداب اور ارشادات ہر دور میں جدید ہی رہیں گے ، اگر ان کی رعایت کی جائے تو راحت ہی راحت ہے۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا حال یہ تھا کہ ان کو ہر وقت اور ہر لمحہ یہ فکر رہتی تھی کہ میرا کوئی فعل، کوئی عمل اور کوئی ادا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف تو نہیں ہے اور جب یہ فکر لگی ہوئی ہے تو اب جب وہ دوسرے سے کوئی اصلاح کی بات کہتے ہیں تو وہ بات دل پر اثر انداز ہوتی ہے، اس سے زندگیاں بدلتی ہیں، اس سے انقلاب آتے ہیں اور انقلاب برپا کر کے دنیا کو بتلا بھی دیا۔ علامہ ابن الجوزیؒ ، جو بڑے مشہور واعظ تھے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے ایک ایک وعظ میں نونو سو آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کی ہے اور بات یہ نہیں تھی کہ ان کی تقریر بہت جوشیلی تھی، یا بڑی فصیح وبلیغ ہوتی تھی بلکہ بات دراصل یہ تھی کہ دل سے امڈتا ہوا جذبہ جب زبان سے باہر نکلتا ہے تو دوسرے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ (اصلاحی خطبات: ۳/۱۵۱)
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرمایا کرتے تھے’’ حق بات ، حق طریقے سے، اور حق نیت سے جب بھی کہی جائے وہ کبھی نقصان دہ نہیں ہوگی، لہٰذا جب بھی تم دیکھو کہ حق بات کہنے کے نتیجے میں کہیں لڑائی جھگڑا ہو گیا ، یا نقصان ہو گیا، یا فساد ہو گیا تو سمجھ لو کہ ان باتوں میں سے ضرور کوئی بات ہوگی، یا تو بات حق نہیں تھی اور خواہ مخواہ اس کو حق سمجھ لیا گیا تھا، یابات حق تھی لیکن نیت درست نہیں تھی اور بات کہنے کا مقصد دوسرے کی اصلاح نہیں تھی، بلکہ اپنی بڑائی جتانا مقصود تھا، یا دوسرے کو ذلیل کرنا مقصود تھا ،جس کی وجہ سے بات کے اندر اثر نہیں تھا، یا بات بھی حق تھی، نیت بھی درست تھی، لیکن کہنے کا طریقہ حق نہیں تھا اور بات ایسے طریقے سے کہی جیسے لٹھ ماردیا‘‘۔
آج ہمیں انگریز کی غلامی اپنی آزادی سے زیادہ پسند ہے۔ ہم چارپائی پر بیٹھ کر بھی کھانا کھاسکتے ہیں ، زمین اور چٹائی پر بیٹھ کر بھی کھا سکتے ہیں ، گاؤ تکیے پر بیٹھ کر بھی کھانا کھا سکتے ہیں ، ہمیں کھانا کھانے کے لیے کسی تکلف کی ضرورت نہیں ، لیکن جو لوگ یہود و نصاریٰ کی روش پر چلتے ہیں ، جب تک میز کرسی نہ ہو ان کے لیے کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ! ان کو اگر کہا جائے کہ یہاں چٹائی بچھی ہوئی ہے، دستر خوان لگا دیا گیا ہے ،آپ یہاں کھانا کھالیجیے تو ان کو بہت زحمت ہوتی ہے، ان کو وہاں بیٹھنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اس لیے کہ ان کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ غیروں کی نقل اتاریں اور حضور اکے دشمنوں کی قدم بوسی کریں ،یہ لوگ اسلام کی سادگی کو حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے اپنانے میں عار سمجھتے ہیں ، کس قدر پستی اور ذلت کا منظر ہوتا ہے کہ جہاں کرسی میز کا انتظام نہیں ہوتا، جتنے لوگ کھانا کھانے والے جمع کیے جائیں وہ کھڑے ہو کر کھانا کھاتے ہیں۔
حکم یہ ہے کہ بیٹھ کر اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت کا شکر بجالاتے ہوئے اس طرح سے کھانا کھاؤ کہ ہر ادا سے یہ ثابت ہو کہ اللہ کی عظیم نعمت سے مستفید ہو رہے ہو اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا آپ پر بڑا احسان اور کرم ہوا ہے کہ اس نے آپ کو یہ خوراک مہیاکی ۔نبی ٴ اکرم صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
” آکلُ کما یأکلُ العبد“․(کنزالعمال :15/274 (رقم الحدیث :40792) ۔
(ترجمہ ) میں (کھانا ) کھاتا ہوں (ایسے ) جس طرح ایک غلام کھاتا ہے۔
فخر دوعالمﷺ کی انکساری، آپ کی تواضع اور آپ کی سادگی کا یہ عالم ہے۔
اور دوسری طرف بطور امتی ہم کیا کررہے ہیں۔۔۔؟
تھوڑا نہیں مکمل سوچیئے گا۔
 
Top