سفر نامہ سپین و فلسطین . . . . . مولانا وحید الدین خان . .

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
مولانا وحیدالدین خان انڈیا کے معروف مسلمان عالم اور دانشور ہیں ۔ پانچ زبانیں جانتے ہیں . تحریر تقریر کا ایک ذخیرہ اب تک مختلف اسلامی اور سماجی موضوعات پر پیش کر چکے ہیں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے حامی ہیں۔ انہوں نے 1994 میں اسپین اور فلسطین کا ایک سفر کسی کانفرنس میں شرکت کے کے لئے کیا اور بعد میں اس کی روداد ایک سفر نامے کی شکل میں شائع کی ۔ اس میں سے سفر سپین کے متعلق چیدہ چیدہ ٹکڑے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہیں ۔
ہوائ جہاز کے سفر میں مجھے ایک خدائی نشانی نظر آتی ہے ۔ زمین فٹ بال کی مانند ایک بڑا سا گولا ہے جو خلا میں تیزی سے گھوم رہا ہے ۔ خلا میں گردش کرتے ہوئے اس کرہ پر انسان آباد ہے ۔ زمین کی اس مسلسل پرواز میں ذرا سا بھی اگر خلل پڑ جائے تو نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے ۔ کرہ ارض پر رہتے ہوئے انسان زمین کی اس حالت کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتا اس لئے وہ اسے محسوس بھی نہیں کر پاتا ۔ ہوائی جہاز آدمی کی اسی غیر محفوظ حالت کا محدود سطح پر ایک وقتی مظاہرہ ہے ۔ ہوائی جہاز گویا انسان کی حیثیت عجز کی ایک مشینی یاد دہانی ہے ۔ اس دنیا کی ہر چیز اس آدمی کے لئے ہے جو اس سے روحانی تجربہ حاصل کرے ۔ مگر یہ روحانی تجربہ اس کے حصے میں آتا ہے جو میٹر میں نان میٹر دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
جہاز میں ایک مدراسی ہندو مکینیکل انجینیئر سے ملاقات ہوئی جو ایک بحری جہاز پر ملازم تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اگر سمندر میں طوفان آ جائے تو آپ کیا کرتے ہیں ۔ اس نے کہا کہ ہم انتظار کرتے ہیں کیونکہ ہم نیچر کے خلاف نہیں جا سکتے ۔ میں سوچا کہ انتظار بے عملی نہیں ہے ۔ اس دنیا میں انتظار بھی ایک عملی پالیسی ہے ۔ مذکورہ مسافر کو میں نے ایک حدیث سنائی (افضل العبادۃ انتظار الفرج) یعنی کشادگی کا انتظار کرنا افضل عبادت ہے ۔ اس حدیث کو سن کر وہ بہت خوش ہوئے ۔
پیرس کے ایئر پورٹ پر ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی ۔ دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ فرانس ہمیشہ اسلام دشمنی میں امریکہ اور مغربی ملکوں کے ساتھ رہا ہے مگر آج اسی ملک میں زبردست اسلای لہر آئی ہوئی ہے ۔ میرے کچھ مزید سوالات کے نتیجے میں اندازہ ہوا کہ اسلامی لہر کا یہ نظریہ زیادہ تر خوش فہمی پر مبنی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ فرانس کے چالیس ہزار نوجوان مکمل طور پر اسلام کے زیر اثر ہیں ۔ مزید سوالات پر پتہ چلا کہ یہ وہی نوجوان ہیں جو یا تو بے روزگار ہیں یا جنہیں یہ احساس ہے کہ فرانس کی سوسائٹی میں انہیں با عزت مقام نہیں ملا ۔ دوسرے لفظوں میں اس اسلامی لہر کے پیچھے اصل محرک مادی محرومی کا احساس ہے نا کہ آخرت کی جواب دہی کا احساس ۔ یہ اسلام کا ایکسپلائیٹیشن ہے اور اسلام کے اس قومی ایکسپلائیٹیشن کا الٹا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کی رائے عامہ شدت سے مسلمانوں کے خلاف ہو گئی ہے ۔ ان انتہا پسند مسلمانوں نے اسلام کی نمائندگی اس طرح کی ہے کہ انہیں نظر آتا ہے کہ اسلام ان کے سسٹم سے ٹکراتا ہے ۔ میں نے کہا کہ معاشی افلاس کی وجہ سے یہ لوگ مغربی ممالک میں آئے تھے ۔ اگر وہ معاشی حصول کے بعد صرف اسلامی دعوت کو اپنا نشانہ بناتے تو ان کے لئے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہوتا جس کی ایک مثال ڈاکٹر حمید اللہ ہیں انہوں نے اپنے آپ کو صرف علمی اور دعوتی دائرے تک محدود رکھا چانچہ وہ فرانس کی ایک مقبول شخصیت بن گئے ۔ مگر نام نہاد اسلام پسندوں نے کلچرل تشخص اور اور قومی حقوق کے نام پر فرانسیسیوں سے زور آزمائی شروع کر دی ۔ اس کے نتیجے میں ان کے مطالبات تو پورے نہیں ہوئے البتہ یہ احتجاجی سیاست فرانس میں ان کے خلاف غصہ اور نفرت کی فصل اگا رہی ہے ۔
ایک نو مسلم خاتون نے ایک عجب واقعہ سنایا کہ ایک فرانسیسی عیسائی نے اسلام قبول کیا ہے ۔ قبول اسلام سے پہلے وہ صرف اسلامی لٹریچر سے آشنا ہوا تھا ۔ قبول اسلام کے بعد اس کا ربط مسلمانوں سے ہوا ۔ بعد اس نے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” خدا کا شکر ہے کہ میں اسلام سے اس وقت واقف ہوا جب میری ابھی کسی مسلمان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی “
ہماری گاڑی جب میڈرڈ کی سڑکوں پر سے گذر رہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ میڈرڈ یورپ کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں ایک دوسرے درجے کا شہر ہے ۔ ابتدائی مرحلے میں اسپین نے مغربی یورپ کو سائنسی ترقی کا راستہ دکھایا تھا مگر آخری مرحلے میں اسپین پیچھے اور مغربی یورپ آگے ہو گیا ۔ اس کی وجہ یہاں کے مذہبی طبقہ کا غلط کردار تھا ۔ انہوں نے اسپین کے مسلمانوں کے ترقیاتی پہلو کو نہیں دیکھا بلکہ صرف یہ دیکھا کہ وہ ایک دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔ اس پہلو کو لے کر انہوں نے خوب نفرت پھیلائی اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے علم کے خلاف بھی ۔ اس نے اسپین کو کئی صدیاں پیچھے کر دیا ۔ مشہور مورخ لین پول لکھتا ہے کہ مسلمانوں کو نکالنے کا یہ نتجہ ہوا کہ اسپین اسی پسماندگی کی جانب لوٹ گیا جہاں وہ پہلے تھا ۔
مسلم سپین سے سب سے پہلے تعارف مجھے مسدس حالی کے ذریعہ ہوا ۔ اس میں مسلم سپین کے عہد کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کیا گیا تھا ۔ مگر وہ منفی نوعیت کا تھا ۔ مثلا ایک بند کا دو مصرعہ اس طرح سے تھا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
وہ اجڑا ہوا کروفر جا کے دیکھے
اس کے بعد عربی یا اردو میں میں نے جو بھی تذکرے پڑھے وہ مرثیہ خوانی کے انداز میں تھے مثلا اقبال نے مسلم نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارا ” مسلم دانشور اور مسلم ادیب اس قسم کی مرثیہ خوانی میں کیوں مصروف ہیں اس کی وجہ بہت بعد کو مجھے اس وقت معلوم ہوئی جبکہ اسلام کے وسیع مطالعہ کے بعد میں نے اسلام کو دوبارہ دریافت کیا ۔ اب معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اسلام کی عظمت کو الحمرا اور لال قلعہ کی سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سیاسی عظمت کے سوا کسی اور عظمت کی انہیں خبر نہیں ۔ اگر وہ صاحب بصیرت ہوتے تو جانتے کہ اسلام کی نظریاتی عظمت تمام عظمتوں سے بڑ ی ہے ۔ مزید یہ کہ نظریاتی عظمت اس وقت بھی باقی رہتی ہے جب کہ درو دیوار کی عظمتیں کھنڈر ہو کر گذری ہوئی تاریخ کا حصہ بن چکی ہو

میڈرڈ میں شام کو جب اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ہوا تو بہت شاندار نظر آیا تھا ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ میڈرڈ کا ممتاز ہوٹل ہے ۔ مگر اگلے ہی دن میری نظر میں اس کی تمام جاذبیت ختم ہو چکی تھی حتی کہ یہاں ٹہرنے کا شوق کرنے کی بجائے میں واپسی کے دن گننے لگا تھا ۔ یہی دنیا کی بظاہر عمدہ چیزوں کا حال ہے ۔ ملنے سے پہلے وہ اچھی دکھائی دیتی ہے مگر ملنے کے بعد معمولی محسوس ہوتی ہے ۔ دور سے دیکھنے والے کو جو زندگی عیش نظر آتی ہے اس زندگی کے حامل کو وہ صرف بورڈم محسوس ہوتی ہے ۔
ایک مجلس میں چند عرب حضرات موجود تھے انہوں نے غرناطہ کے آخری ایام کا ذکر کیا کہ ابو عبداللہ نے بغیر لڑے غرناطہ کی چابیاں عیسائیوں کے حوالے کر دیں تھیں اور روتا ہوا غرناطہ سے نکلا تھا تو اس کی ماں نے کہا تھا ” کہ جس ملک کی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کر سکے اس کے کھو جانے پر عورتوں کی طرح روتے کیوں ہو ” اس مقام کو جس پر سے ابو عبداللہ نے غرناطہ پر آخری نظر ڈالی تھی ” مور کی آخری آہ ”کے نام سے موسوم ہے ۔ میں نے کہا ابو عبداللہ کی ماں کا یہ فقرہ بہت معروف ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوا تھا کیوں کہ ابو عبداللہ کی فوجیں آخری دنوں تک بہت بہادری سے لڑی تھیں ۔ مگر ایک سلطان ایک فوج سے لڑ سکتا ہے حقائق سے نہیں ۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ خود مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے تاریخ بتاتی ہے کہ ابو عبداللہ نے بہت بہادری سے مقابلہ کرکے عیسائی فوجوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا مگر اس کے بعد اس کا چچا الزغل عیسائیوں کے ساتھ مل کر ابوعبداللہ کا دشمن بن گیا تھا اس طرح فتح دوبارہ شکست میں تبدیل ہو گئی ۔ تاہم الزغل کو اس کا کوئی معاوضہ عیسائی حکمرانوں کی طرف سے نہیں ملا تھا اور انہوں نے اسے اسپین سے نکال دیا تھا ۔ وہ الجزائر کے مقام تلمسان کے مقام پر چلا گیا اور گمنامی کی موت مرا ۔ غرناطہ کی آخری سلطنت الحمرا تک محدود ہو گئی تھی جس طرح دہلی کی سلطنت لال قلعہ تک محدود ہو گئی تھی مگر آخری مسلمان حکمران کے فوجی سپہ سالا موسی ابی غسان نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ وہ اپنی موت تک بہت بہادری سے لڑا تھا ۔ تاہم حقیقت سے لڑنا بہت دیر تک ممکن نہیں ہوتا چنانچہ ابوعبداللہ نے 3 جنوری 1492 کو عیسائی حکمرانوں سے صلح کر لی تھی جس میں تمام مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کا عہد کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی کیونکہ سلطان کے صلح کے اعلان کو بہت سارے مسلمانوں نے قبول نہیں کیا تھا اور پہاڑی علاقوں میں بار بار بغاوت کا جھنڈا بلند کیا مگر انہیں شکست ہوئی اور آخر کا ر انہوں نے اس شرط پر صلح کر لی کہ وہ ملک چھوڑ کر مراکش ، ترکی اور مصر چلے جائیں گے ۔
تاتری سردار ہلاکو خان نے 1258 ع میں بغداد کی مسلم سلطنت کا خاتمہ کیا اور اور عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ دوم نے 1492 میں آخری اسپنی مسلمان سلطنت کا خاتمہ کیا ۔ اس پر ایک عرب دوست نے کہا کہ یہ سب اسلام دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھا ۔ میں نے کہا کہ اگر بغداد کی تباہی مسلمان دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھا تو اس کے محض پچاس برس بعد تاتاریوں کا اسلام کا خادم بن جانا کس کی سازش کا نتیجہ تھا ۔ میں نے کہا کہ سازش کی تھیوری کے تحت مسلم ہسٹری کی توجیہ کرنا مسلم قوم کو مقہور اور غیر مسلم کو قاہر کے درجے پر فائز کرنا ہے ۔ اس طرح کا تصور تاریخ سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ میں نے کہا کہ امت محمدی کا مستقبل تمام تر دعوت کے اوپر منحصر ہے ۔اگر وہ دعوت اللہ کی ذمہ داری کو پورا کریں گے تو اوپر اٹھیں گے اور اس سے کوتاہی کریں گے تو گریں گے ۔ تاتاریوں کے مسلمان ہو جانے میں ہمارے لئے ایک سبق پوشیدہ ہ ہے ۔
ایک عرب دوست نے مجھے ایک کتاب ” اسلامی وجود کا خاتمہ ” پیش کی جس میں بڑے جذباتی انداز میں سقوط غرناطہ کا ذکر کیا گیا تھا ۔ میں نے کہا اس طرح کی مرثیہ خوانی سرا سر اسلامی روح کے خلاف ہے ۔ اسلام امید اور اعتماد کا دین ہے ۔ اسلام عسر میں یسر کا راز بتاتا ہے ۔ اسلام کے لئے خدا نے حفاظت کا ابدی وعدہ کیا ہے ایسی حالت میں ہمیں چاہیے کہ منفی باتوں میں بھی مثبت باتیں تلاش کریں ۔ ابھی میڈرڈ میں اس کانفرنس کا انعقاد بھی یہ بتاتا ہے کہ اسپین کے تاریخی کھنڈروں سے اسلام کا ایک ننیا مستقبل پیدا ہو رہا ہے ۔
کانفرنس کے پہلےے دن سے واپسی کے دوران ایک اسپینی پروفیسر خواکین لومبا کا ساتھ ہو گیا ۔ وہ سرقسطہ کی یونیورسٹی میں اسلامک فلاسفی کے پروفیسر تھے ۔ اس نے بتایا کہ اس کے شعبے میں اس وقت تقریبا دو سو طالبعلم زیر تعلیم ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مشہور مسلم فلاسفر ابن باجہ کے ہم وطن ہیں اور انہوں نے ابن باجہ پر ریسرچ کر کے ایک کتاب شائع کی ہے ۔ لومبا ابن باجہ کی بہت تعریف کرتے رہے ۔ ابن باجہ سرقسطہ میں 1095 کو پیدا ہوا اور مراکش کے شہر فاس میں 1139 کو اس وفات ہوئی ۔ وہ ابن طفیل اور ابن رشد کی طرح عظیم فلسفی سمجھا جاتا ہے اگرچہ کچھ لوگ اس کو ملحد سمجھتے ہیں ۔ پروفیسر لومبا خود بھی عربی جانتے ہیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ اقبال نے لکھا ہے کہ بارہویں صدی کے بعد اسلامی فلسفہ کی ترقی رک گئی اور کوئی بڑا مسلم فلسفی نہیں پیدا ہوا اس کی کیا وجہ ہے؟ ۔ میں نے کہا میرے خیال میں یہ دور میں تبدیلی کا معاملہ ہے ۔ قدیم دور میں جس چیز کو اسلامی فلسفہ کہا جاتا ہے اس کی تشکیل اس دور میں ہوئی جب یونان کی قیاسی منطق کا غلبہ تھا ۔ ملسم فلسفیوں نے اس میں مہارت پیدا کی اور اس کی بنا پر اپنے فلسفہ کو آگے بڑھایا مگر سائنسی انقلاب کے بعد یہ منطق ختم ہو گئی ۔ اب سائنسی منطق کا دور آگیا مگر مسلم ذہن سائنسی منطق میں مہارت پیدا نہ کر سکا اس لئے وہ جدید علوم کی بنیاد پر اسلامی فلسفہ (علم کلام) بھی تشکیل نہ دے سکے ۔ میں نے کہا کہ جب دور اول میں مسلمانوں کا مقابلہ یونانی منطق سے پیش آیا تو وہ فاتح کی نفسیات میں جی رہے تھے ۔ انہوں نے بڑھ کر یونانی منطق کو سیکھا اور اس میں مہارت پیدا کی اس طرح وہ اس قابل ہو گئے کہ وہ یونانی منطق کو اسلامائز کر سکیں اور اس کی بنیاد پر ایک طاقطور علم کلام پیدا کر سکیں ۔ مگر موجودہ زمانے میں جب سائنسی منطق کا زمانہ آیا تو مسلمان مفتوح اور مغلوب بن چکے تھے چناچہ ان میں اقدام کی بجائے تحفظ کا مزاج ہیدا ہوگیا ۔ اس مزاج کی بنا پر مسلمان نئے علم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے وہ آگے بڑھ کر ان سے واقف ہونے اور انہیں استعمال کرنے کا حوصلہ نہ پیدا کر سکے ۔
کانفرنس کے ایک مندوب اسرائیلی یہودی بھی تھے ان سے تبادلہ خیال ہوا تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل عالمی برادری میں تنہائی میں پڑ گیا ہے ۔ اس تنہائی کا پہلا فائدہ ہم یہ اٹھایا ہے کہ داخلی ترقی میں لگ گئے ہیں مثلا ہم بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے میں لگ گئے اور اس میں ترقی کی ۔ اس خاموش ترقی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ترقی کر کے اس مقام تک پہنچ گئے کہ ہم دنیا کی دوسری قوموں کو کچھ دے سکیں مثلا بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کی ٹیکنالوجی ہم آپ کے ملک انڈیا کو دے رہے ہیں ۔ انڈیا میں راجھستان اور گجرات میں کئی پروجیکٹس ہمارے تعاون سے چل رہے ہیں ۔
کانفرنس میں کئی یہودی عالم شریک تھے ان سے گفتگو کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ان کی فکری سطح عام لوگوں سے اونچی ہے اور یہی احساس ان کے بارے میں مجھے کئی دفعہ پہلے بھی ہوا تھا ۔ میں نے اپنے سوڈانی مسلمان ساتھی شیخ مسکوتہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک امت کی مانند رہتے ہیں ان کا ایک آدمی دوسرے کے لئے اضافہ علم کا سبب بنتا ہے ۔ میں سوچا کہ یہ ایک حقیقت بات ہے ۔ ایک حدیث ہے کہ (المومن کثیر باخیہ ) یعنی مومن اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کثیر ہو جاتا ہے ۔ جس گروہ میں اجتماعی اوصاف نہ پائے جائیں اس کا ہر شخص تنہا ہو جاتا ہے اور جس گروہ میں اجتماعی اوصاف موجود ہوں اس کا ہر فرد دوسروں کے لئے طاقت کا سبب بنے گا اور خود دوسروں سے طاقت لیتا رہے گا ۔
اسپین کی کانفرنس میں جو یہودی علماء آئے ہوئے تھے وہ بڑے جوش سے اسپین کے ماضی کی ترقیوں کا ذکر کر رہے تھے ۔ اس کا راز مجھے بعد میں سمجھ میں آیا ۔ اصل میں وہ یہ چاہتے ہیں کہ ماضی کی ترقیوں کو وہ یہودیوں کے خانے میں درج کریں ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ٹھیک ہے کہ سیاسی اقتدار مسلمانوں کے پاس تھا مگر ان کے ایڈوائزر اور ایکسپرٹ یہودی تھے ۔ وہ تو اس حد تک گئے کہ ابن رشد کو بھی یہودی قرار دیتے ہیں اورا سی لئے اسرائیل کی ہیبرو یونورسٹی میں ایک سنٹر ابن رشد کے نام سے قائم کیا گیا ہے اور اس سنٹر کے تحت ابن رشد پر انگریزی اور عربی میں کتابیں شائع کی جاتی ہیں ۔ میں نے کہا کہ اسپین کے ترقیاتی عمل میں خواہ کچھ یہودی ماہرین شریک ہوں مگر اس سے بھی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ یہ ترقیاتی عمل اسلام کے فکری انقلاب کے تحت وجود میں آیا ۔ اسلام نے اس دور کے توہماتی ذہن کو اگر نہ توڑا ہوتا تو کوئی ترقیاتی عمل وجود میں نہ آتا......................


بشکریہ : محمد ریاض شاہد صاحب
 
Top