افاداتِ حمادیہ !

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
فائدة من باب المعرفة بالله
”قد بیّن السادة الصوفیة العرفاء للذکر اربع طبقات: الاولیٰ: الناسوت، والثانیة:الملکوت، والثالثة:الجبروت،والرابعة:اللاہوت۔“
ترجمہ:…”حضرات صوفیاء کرام نے ذکر کے چار درجے بیان فرمائے ہیں: ۱…ناسوت، ۲…ملکوت، ۳…جبروت، ۴…لاہوت۔

”فالناسوت: ظہور البشر فی عالم الوجود ،والمرأ اذا ظہر فی ہذہ المرتبة فلہ قرینان: النفس والشیطان، وایضاً ہو محفوف بالحوائج الطبیعیة من النفقة والسکنیٰ وغیرہما:
فالنفس تشتہی لذائذ الدنیا وشہواتہا کما اشار الیہ سبحانہ وتعالیٰ فی قولہ: ”زین للناس حب الشہوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرة من الذہب والفضة“ والشیطان یزین لہا تلک اللذائذ والشہوات والاعمال الفاسدة من الفسق والفجور کما بینہ الله سبحانہ وتعالیٰ فی عدة آیات التنزیل: ”واذ زین لہم الشیطان اعمالہم“فزین لہم الشیطان والحاجات البشریة المرأ بطبیعتہ یشتہیہا، فہذہ الامور کلہا تستدعی ان تکون محبوبةً وتقع محبتہا من المرأ بجذر قلبہ وتستولی علیہ، فالذکر باسم الجلالة ”الله“ یکون القصد بأن ینفی محبة ہذہ الامور ،ویثبت محبة اللّٰہ جل ذکرہ، فاذا قال: ”الله الله“ فکأنہ یجیب النفس والشیطان بأنی لا احب الا اللّٰہ ولامحبة الا اللّٰہ جل ذکرہ، فیکررہ ویقول: ”الله الله“ وہو الذکر فی مرتبة الناسوت۔“
ترجمہ:…”ناسوت سے مراد ہے انسان کا عالم وجود میں ظاہر ہونا۔ آدمی جب اس مرتبہ میں ظہور پذیر ہوتا ہے تو نفس وشیطان اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں، نیز وہ خوراک، رہائش اور اس قسم کی دوسری ضروریات میں گھرا رہتا ہے۔
اب نفس دنیا کے لذائذ وشہوات پر لپکتا ہے، جیساکہ حق تعالیٰ نے اپنے ارشاد میں اس کی طرف اشارہ فرمایا: ”آراستہ کی گئی لوگوں کے لئے محبت خواہشات کی، یعنی عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیر“۔ اور شیطان نفس کے لئے ان لذات وشہوات کو خوبصورت کرکے دکھاتا ہے اور فسق وفجور اور اعمال بد کی ترغیب دیتا ہے، جیساکہ حق سبحانہ تعالیٰ نے یہ قرآن مجید کی کئی آیتوں میں بیان فرمایا: ایک جگہ ارشاد ہے: اور جب آراستہ کردکھائے ان کو شیطان نے ان کے عمل ، نیز ارشاد ہے: پس آراستہ کیا ان کے لئے شیطان نے اور انسانی ضروریات کا تقاضہ خود آدمی کی طبیعت میں موجود ہے، پس یہ سب چیزیں محبوب بننا چاہتی ہیں اور ان کی محبت آدمی کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوا چاہتی ہے، پس حق تعالیٰ کے اسم گرامی ”اللہ“ کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ ان تمام امور کی محبت کی نفی کی جائے اور حق تعالیٰ کی محبت کا اثبات کیا جائے، پس جب ذاکر ”اللہ اللہ“ کہتا ہے، گویا وہ نفس وشیطان کو جواب دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتا اور محبت اللہ جل شانہ کے سوا کسی کا حق نہیں، چنانچہ غیر اللہ کی محبت کومٹانے اور صرف اللہ جل شانہ کی محبت کو راسخ کرنے کے لئے وہ بار بار ”اللہ اللہ“ کا ورد کرتا ہے، یہ مرتبہ ٴ ناسوت کا ذکر ہے۔“

”ثم کأنہ یرتقی السالک الذاکر من ہذہ المرتبة الی مرتبة الملکوت (مبالغة فی الملک بفتحتین) والملک لانفس ہناک ولاشیطان ولاتلک الطبائع البشریة والحاجات الطبیعیة ومقصود الملائکة رضا اللّٰہ جل ذکرہ، فالذکر فی ہذہ المرتبة القصد فیہا حصول رضا اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ، فیقول: ”الله الله“ ابتغاءً لرضاہ تعالیٰ۔“
ترجمہ:…”پھر سالک ذاکر اس مرتبہ سے ترقی کرکے مرتبہ ملکوت میں پہنچتا ہے (ملکوت، ملک کا مبالغہ ہے) مرتبہ ملکیت میں نہ نفس ہے، نہ شیطان، نہ بشری طبائع ہیں، نہ طبعی حاجات۔ ملائکہ کا مقصود صرف اللہ جل شانہ کی رضا جوئی ہے، اس لئے اس مرتبہ میں ذکر کا مقصد محض حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا جوئی ہے، اور بس۔ پس اسی رضائے الٰہی کے لئے اللہ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔“
”ثم یرتقی منہ الی مرتبة الجبروت وہی عبارة عن مرتبة صفات الله تبارک وتعالیٰ، فیلاحظ فی ہذہ المرتبة صفاتہ العلیا من جلال وکبریاء وعظمة واحسان ورأفة ورحمة، وبالجملة فیراقب صفاتہ من جلال وجمال ویقول: ”الله الله“ استغراقاً فی صفاتہ تعالیٰ جل وعلا۔“ ترجمہ:…”پھر یہاں سے مرتبہ ٴ جبروت میں ترقی پاتا ہے اور یہ عبارت ہے حق تعالیٰ کے مرتبہ ٴ صفات سے، اس مرتبہ میں وہ حق تعالیٰ شانہ کی صفات عالیہ، جلال، کبریائی، عظمت، احسان، شفقت رحم وغیرہ کاملا حظہ ومراقبہ کرتا ہے اور صفات میں مستغرق ہوکر” اللہ اللہ“ کا ذکر کرتا ہے۔“

”ثم یرتقی من درجة الصفات ویلاحظ مرتبة اللاہوت (والتاء فیہا زائدة مبالغةً للنفی) کما فی قولہ ”لات“ فکأنہ فی الاصل ”لات ہو“ فنفیٰ غیر اللّٰہ سبحانہ بقولہ ”لات“ ثم أثبت ذاتہ البحتة بقولہ ”ہو“ فکأنہ رعایةً للجبروت وقع ہذا الترتیب فأخرت التاء)۔“
ترجمہ:…”پھر درجہ ٴ صفات سے ترقی کرتے ہوئے مرتبہ ”لاہوت“ کا ملاحظہ کرتا ہے (لاہوت میں تامبالغہٴ نفی کے لئے زائد ہے) جیسے لات میں گویا لاہوت اصل میں لات ہو تھا: ”لات“ سے غیر اللہ کی نفی کی گئی اور ”ہو“ سے حق تعالیٰ شانہ کی ذات بحت کا اثبات کیا گیا، غالباً جبروت کی مناسبت سے ”لات ہو“ میں تا کو موخر کرکے لاہوت بنالیا گیا۔ (یہ لفظی توجیہ نہایت ہی لطیف اور نادر ہے)۔“

”ففی ہذہ المرتبة یراقب ویلاحظ ذاتہ العلیا من غیر ملاحظة الصفات بأن ذاتہ تعالیٰ ہو المقصود المطلوب دون ما عداہ، وأنہ من حیث ہو مستحق لکل حمد وثناء فیقول الذاکر”الله الله“ نظراً الی ذاتہ البحتة، وانہ ہو المقصود الاعظم، فہکذا، یقول الذاکر، ”الله الله“ مرتین فی مرتبة الناسوت جواباً للنفس والشیطان، ثم یقول: ”الله الله“ مرتین طلباً لرضاہ وابتغاءً لما یرضاہ دون ماعداہ، ثم یقول: الله الله مرتین ملاحظة لصفاتہ العلیا بانہ یستحق الذکر من جہة ہذہ الکمالات، ثم یقول: ”الله الله“ مرتین مراقبةً لذاتہ العلیاء فیذکرہ بہذہ النیة، فاذن یذکر اسم الجلالة ثمانی مرات، کل مرتین بنیة مفردة، وہکذا یختلف الملاحظة باختلاف النیات فی کل مرتبة، وفی الشریعة لہ نظائر بان شیئاً واحداً یراد بنیات متعددة ویختلف تأثیراتہ علی مقتضی النیات والملاحظات فمائة مرة فکذا حیث کل مرة تحوی ثمانی مرات من ذکر اسم الجلالة تکون سبحة واحدة تحوی ثمانی مائة مرة من اسم الجلالة: ”الله“ فینبغی کل یوم للذاکر مائة مرة من الذکر بہذہ الکیفیة“۔(ہذا ملخص، استفدت من الشیخ العارف السندی)۔“
ترجمہ:…”بہرحال اس مرتبہ میں صرف حق تعالیٰ کی ذات عالیشان کا لحاظ ہوتا ہے، صفات کا بھی لحاظ نہیں ہوتا، ذاکر یہ تصور اور مراقبہ کرتا ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات ہی مقصود ومطلوب ہے، اس کے سوا کچھ مطلوب نہیں اور وہ بلا لحاظ کسی اور چیز کے اپنی ذات کی وجہ سے ہر حمد وثنا کا مستحق ہے، پس محض ذات کا تصور باندھ کر وہ ”اللہ، اللہ“ کا ذکر کرتا ہے کہ وہی مقصود اعظم ہے، پس ذاکر دو مرتبہ ”اللہ، اللہ“ مرتبہ ٴ ناسوت میں کہتا ہے، جس سے مقصود نفس وشیطان کو صاف صاف جواب دینا ہے، پھر دو مرتبہ ”اللہ، اللہ“ کہتا ہے‘ جس سے مراد حق تعالیٰ شانہ کی رضا اور مرضیات کا حصول ہے، پھر اس کی صفات عالیہ کو مد نظر رکھ کر دو مرتبہ ”اللہ، اللہ“ کہتا ہے، مطلب یہ کہ وہ ان کمالات کی وجہ سے ذکر وحمد کا مستحق ہے ،پھر اس کی ذات عالی شان کا مراقبہ کرتے ہوئے دو مرتبہ ”اللہ، اللہ“ کہتا ہے کہ ذات بحت ہی مقصود اعظم ہیں، یہ اسم مبارک کا ذکر آٹھ مرتبہ ہوا، اور ہردو مرتبہ الگ نیت کے ساتھ ذکر کیا گیا، اسی طرح ہر مرتبہ میں نیتوں کے مختلف ہونے سے مقاصد مختلف ہوجاتے ہیں، اور شریعت میں اس کے بہت سے نظائر ہیں کہ ایک ہی چیز میں مختلف نیتیں جمع کی جاسکتی ہیں اور ہرنیت کے مطابق اس کے الگ الگ اثرات ظاہر ہوتے ہیں، خواہ سو نیتیں جمع کرلی جائیں، اسی طرح جب اسم مبارک ”اللہ، اللہ“ کا ایک بار ذکر( مختلف نیتوں کے اعتبار سے) آٹھ مرتبوں پر مشتمل ہوا تو ایک تسبیح اسم مبارک اللہ کے آٹھ سو مرتبہ ذکر کرنے کے قائم مقام ہوگی، لہذا ہر ذاکر کو چاہئے کہ سو مرتبہ یومیہ اسی کیفیت سے ذکر کیا کرے۔“(یہ خلاصہ ہے اس تقریر کا جو مولانا حماد اللہ  سے میں نے سنی)
ف
ائدہ:تتعلق بالذکر علی طریقة اہل المعرفة
”ینبغی للذکر ان یذکر اسم الجلالة علی ثلاثة تصورات: اما اولاً: فیلاحظ ان الله سبحانہ وتعالیٰ ہو المحبوب الحقیقی، لانہ ہو الخالق والرزاق والمنعم لکل نعمة، فمنہ تعالیٰ الالطاف والنعم کلہا، فیتصور ان قلبہ یحب الله سبحانہ، ویعلم انہ المحبوب الحقیقی فیدعوا اسم اللہ سبحانہ ویقول: ”الله الله“
ترجمہ:…”ذاکر کو چاہئے کہ اسم مبارک ”اللہ“ کے ذکر میں تین دھیان رکھا کرے۔
اول: یوں دھیان کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ محبوب حقیقی ہیں، وہی خالق، وہی رازق ہیں، وہی ہرنعمت عطا کرنے والے ہیں، ساری عنایتیں اور نعمتیں اسی کی جانب سے ہیں، اب یہ تصور کرے کہ اس کا دل اللہ سبحانہ سے محبت کرتا ہے اور اس بات کا یقین کرے کہ وہی محبوب حقیقی ہے ،یہ دھیان باندھ کر اللہ سبحانہ کے نام کو پکارے اور کہے: اللہ اللہ“۔

”واما ثانیاً: فیلاحظ انہ یخاطب الله سبحانہ، لانہ مصدر کل کمال وجمال، فیثبت لله تعالیٰ کل کمال، وینفی عن نفسہ کل کمال وصفة، فیراقب کمالاتہ تعالیٰ ثم یدعوہ وینادیہ کانہ یخاطبہ، غیر انہ لایاتی بحرف النداء وہو مراد فی ذہنہ وتصورہ فیقول: الله، الله، الله۔ وہکذا یستمر“۔
ترجمہ:…”دوم: یہ دھیان کرے کہ وہ اللہ سبحانہ سے خطاب کا شرف حاصل کررہا ہے، کیونکہ وہی ہر کمال وجمال کا مصدر ومنبع ہے، پس اللہ تعالیٰ شانہ کے لئے ہرکمال کو ثابت کرے اور اپنے سے ہرکمال وصفت کی نفی کرے، اللہ تعالیٰ کے کمالات کا مراقبہ کرتے ہوئے اسے پکارے، گویا وہ اللہ تعالیٰ سے خطاب کررہا ہے، مگر حرف ندا لفظوں میں نہیں لاتا، البتہ اس کے ذہن وتصور میں ہیں، پس خطاب کے دھیان سے کہے: اللہ ، اللہ، اللہ بس اسی طرح کہتا رہے“۔

”وثالثاً:یتصور انہ الموجود الحق، وان کل من سواہ کانہ غیر موجود، لانہ یزول ویفنیٰ ولا یبقیٰ ”کل شئ ہالک الا وجہہ“ فیدعو اللّٰہ سبحانہ علی ہذہ المراقبة ویقول: الله الله، الله وہکذا، فیذکر الله سبحانہ علی ہذہ المراقبات والملاحظات الثلاث علی ہذا الترتیب وقتاً طویلاً، ویناسب ان یکون نحو ثمانیة آلاف مرة، وان لم یتسع وقتہ فعلیٰ حسب وسعہ ووقتہ واقلہ سبع عشرة مرة فی الیوم، ویستوی الذکر الخفی من غیر تلفظ او بتلفظ خفی او جہراً کما تقتضیہ طبیتعہ، ہکذا ارشدنی الیہ الشیخ العارف بالله مولانا حماد الله السندی الہالیجی من خلفاء الشیخ العارف تاج محمود الامروتی السندی القادری طریقةً ومشرباً“۔
ترجمہ:…”سوم: یہ تصور کرے کہ وہی موجود حقیقی ہے، اور اس کے ماسوا جتنے ہیں وہ گویا وجود ہی نہیں رکھتے، کیونکہ زائل اور فانی ہیں، ان کو بقا نہیں، ہر چیز مٹنے والی ہے، سوائے اسکی ذات کے پس اللہ سبحانہ کو اس دھیان اور مراقبہ کے ساتھ پکارے اور کہے اللہ، اللہ، اللہ، ان تینوں مراقبوں کے ساتھ علی الترتیب اللہ سبحانہ کا ذکر دیر تک کرتا رہے، مناسب ہے کہ تقریباً آٹھ ہزار مرتبہ ذکر کرے اور اگر وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو تو اپنی وسعت اور وقت کی گنجائش کے مطابق کرلیا کرے، مگر یومیہ سترہ مرتبہ سے کم نہ ہو، خواہ ذکر خفی تلفظ کے بغیر ہو ،خواہ آہستہ آواز سے، خواہ مناسب جہر سے، جیسا طبیعت چاہے کر لیا کرے۔ حضرت شیخ عارف باللہ مولانا حماد اللہ سندھی، ہالیجی نے مجھ سے اسی طرح فرمایا تھا، آپ شیخ عارف باللہ مولانا تاج محمود امروٹی سندھی قادری کے خلیفہ تھے“۔
بشکریہ بینات
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
بھیا حمادیہ پر روشنی ڈالیں۔
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
کلیم بھیا یہ حمادیہ صرف حضرت شیخ عارف باللہ مولانا حماد اللہ سندھی، ہالیجی کے نام کی مناسبت سے ہے اسی لئے انکے افادات کو افادات حمادیہ کہتے ہیں
 
Top