دین کے کام میں آرڈر نہیں دیا جاتا بلکہ ماحول بنایا جاتا ہے

سارہ خان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ تعالی علیہ ایک دفعہ ایک شادی کے سلسلے میں تھانہ بھون تشریف لے گئے تو خیال ہوا کہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمتہ اللہ تعالی علیہ صاحب کی زیارت بھی کرلوں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ فطرت سلیمہ رکھتے ہیں تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا کہ آپ کسی سے بیعت بھی ہوئے یا نہیں آپ نے کہا نہیں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پھر مجھ سے بیعت ہو جاؤ حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میں اس شرط پر بعیت ہوں گا کہ آپ مجھے ذکر وشغل کا حکم نہ فرمائیں گے حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے تو بیعت ہونے کو کہا ہے شغل کا تو میں نے کہا ہی نہیں اور وعدہ بھی فرمایا کہ آئندہ بھی نہیں کہوں گا حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بیعت فرمایا اور یہ فرمایا کہ دو تین دن یہاں ٹھہرجاؤ آپ وہیں تھانہ بھون میں تین دن تھہرے جب رات کے وقت اڑھائی تین بجے دیکھا کہ سب لوگ اٹھ کر نماز تہجد ادا کررہے ہیں حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو شرم آئی انہوں نے بھی اٹھ کر نماز تہجد پڑھی پھر جب دوسرے لوگوں کو ذکر وشغل میں دیکھا تو آپ بھی ذکر میں مشغول ہوگئے دوسرے دن پھر یہی حالت ہوئی تیسرے دن خود بخود خوشی سے تہجد پڑھی اورذکر وشغل میں مشغول ہوئے تیسرے دن حضرت کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضرت آپ نے تو سب کچھ ہی کرا دیا حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے تھوڑا ہی کہا تھا میں نے وعدہ خلافی نہیں کی اب آپ جا سکتے ہیں حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ اب تو میں نہیں جاتا چالیس دن وہاں ٹھہرے اور تھوڑے عرصہ کے بعد خلافت لے کر واپس ہوئے پس یہ عبادت پہلے ریاء تھی پھر عادت ہوئی پھر عبادت ہوگئی اور ساتھ ہی خلافت بھی مل گئی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جب میری عمر آٹھ برس کی تھی ایک دفعہ میرا گنگوہ جانا ہوا وہاں ذکروشغل کا ماحول تو تھا ہی گنگوہ کی مسجد میں بہت سے دھوبی کپڑے دھوتے تھے وہ جب کپڑے کو مارتے تو الا اللہ بھی ساتھ کہتے یہ ماحول کا اثر تھا ورنہ ان کو پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا مقولہ مشہور ہے ہرچہ درکان نمک رفت نمک شد بس ماحول کا اثر یہی ہے جو نیک ماحول میں ہوگا اس کا بھی اثر ضرور ہوگا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا بھی ایک ماحول تھا کہ جو بھی اس میں آتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور ان کا ماحول بھی بہت قوی تھا حتٰی کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد انہی کا درجہ تھا امت کا اجماع ہے کہ الصحابتہ کلھم عدول معصوم تو نہیں تھے لیکن محفوظ ضرور تھے امت کا اتفاق ہے کہ کوئی شخص کنتا بڑا غوث اور قطب بن جائے لیکن ادنی صحابی کو نہیں پہنچ سکتا اس لیے کہ جو ماحول ان کو میسر آیا وہ کسی کو میسر نہ آسکا ایسے ماحول سے ابوجہل جیسا بدبخت ہی متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے اور جبری طور پر تو وہ بھی مومن تھا چنانچہ اپنے گھر میں کہتا تھا کہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی غلامی کرنی پڑے گی اسی سے اس کو عار تھی بہر حال اگر ایک گھرانہ یہ عہد کرے کہ ہم گناہ چھوڑ دیں تو ان کے ماحول میں جو داخل ہوگا انہی کی طرح ہوجائے گا
خطبات حکیم الاسلام(ص9تا11ج2)
 
Top