والدین کا بیوی کو طلاق دینے پر اصرار

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
والدین کا بیوی کو طلاق دینے پر اصرار​

سوال: عبد اللہ نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف شادی کرلی ہے،اس کے والد بضد ہیں کہ تم بیوی کو چھوڑ دو ،ورنہ تم کو میری جائیداد سے اور ملکیت سے دستبردار ہو نا پڑے گا ۔عبد اللہ کو اپنی بیوی سے بیحد محبت ہے اور اُدھر والد کا حکم ،وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہے ،اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے تو شرعا کو ئی قباحت نہیں؟ بینوا تو جروا۔

جواب : قال اللہ تعالیٰ ‘‘ولا تلقو ابایدیکم الی التھلکۃ ‘‘۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق ۔آیت مکتوبہ سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا معصیت اور منہی عنہ کا ارتکاب ہے ،اور روایت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔ پس اگر طلاق دینے پر شدتِ محبت کی وجہ سے یا طلاق دینے کے بعد دوسری شادی نہ ہونے کی وجہ سے کسی بد کاری میں مبتلا ہو جانے کا گمان غالب ہے تو بیوی کو طلاق دینا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ، جو بنص قرآنی ممنوع اور اس میں والد کی فر مانبرداری بحکم حدیث نا جائز ہے ،یعنی بیوی کو طلاق دینا جا ئز نہیں ،اور اگر طلاق دینے کی وجہ سے کسی بد کاری میں ابتلا کا اندیشہ نہیں تو طلاق دینے کا حکم دینے میں باپ کے حق ہو نے کی صورت میں طلاق دینا واجب ہے ، اگر عورت حق پر ہے باپ نا حق یہ حکم دے رہا ہے ،تو طلا ق دینا جا ئز ہے ۔
(فتاوی ریا ض العلوم ج2)
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
کیا زبردستی طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی ؟ جبکہ میاں بیوی اک دوسرے سے راضی بھی ہوں اور خصوصاً عورت کا شوہر طلاق دینے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو؟ اور صرف والد کے احترام اور حکم کی وجہ سے ہی طلاق دے؟

اختلاف نہیں کیا صرف سوال کئے ہیں۔

شکریہ

والسلام
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
اگر طلاق دینے کی وجہ سے کسی بد کاری میں ابتلا کا اندیشہ نہیں تو طلاق دینے کا حکم دینے میں باپ کے حق ہو نے کی صورت میں طلاق دینا واجب ہے ، اگر عورت حق پر ہے باپ نا حق یہ حکم دے رہا ہے ،تو طلا ق دینا جا ئز ہے ۔

سرخ رنگ کی عبارت کا معفوم ذرا واضع کر دیں ^o^||3
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مغموم نے کہا ہے:
اگر طلاق دینے کی وجہ سے کسی بد کاری میں ابتلا کا اندیشہ نہیں تو طلاق دینے کا حکم دینے میں باپ کے حق ہو نے کی صورت میں طلاق دینا واجب ہے ، اگر عورت حق پر ہے باپ نا حق یہ حکم دے رہا ہے ،تو طلا ق دینا جا ئز ہے ۔

سرخ رنگ کی عبارت کا معفوم ذرا واضع کر دیں ^o^||3

اگر بلا کسی معقول سبب کے والدین ‘‘طلاق ‘‘دینے کا حکم کریں تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر شوہر کو بیوی کی جدائی نا قابل برداشت اور شدید مشقت وتکلیف کا سبب ہو ، یا کسی بد کاری میں وقع ہو نے کا اندیشہ ہو ، تو طلاق دینا جا ئز نہیں ۔اور اگر بیوی کی جدائی بر داشت کر سکے اور معصیت میں ابتلاء کا اندیشہ نہ ہو تو والدین کے کہنے پر طلاق دیدینا بہتر ہے ضروری نہیں ہے ۔
امید ہے یہ تفصیل کافی ہو گی۔

 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یعنی آپ کے کہنے کے مطابق عورت کی عزت و توقیر کوئی معنی نہیں رکھتی ؟
آپ جانتے ہی ہونگے انڈوپاک میں طلاق یافتہ عورت کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور ایسی صورت میں جب عورت حق پر ہو تو پھر اسے طلاق دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟
والدین کی اطاعت کا حکم نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہے نا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
احمدقاسمی نے کہا ہے:
مغموم نے کہا ہے:
یعنی آپ کے کہنے کے مطابق عورت کی عزت و توقیر کوئی معنی نہیں رکھتی ؟
آپ جانتے ہی ہونگے انڈوپاک میں طلاق یافتہ عورت کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور ایسی صورت میں جب عورت حق پر ہو تو پھر اسے طلاق دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟
والدین کی اطاعت کا حکم نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہے نا کہ ۔ ۔ ۔ ۔

در اصل یہ بات اطاعت والدین کی اہمیت کے ضمن میں کہی گئی ہےچنا نچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا تھا لیکن میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے نا پسند فر ماتے تھے ۔والد صاحب نے حکم دیا کہ بیوی کو طلا ق دیدو ۔مجھے تامل ہو ا والد صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ بات عرض کردی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اسکو طلاق دیدو یہ روایت مشکوۃ شریف کی ہے ۔ پوری روایت ملاحظہ فر مائیں۔

فی المشکوٰۃ :421 عن ابن عمر قال: کانت تحتی امراۃ احبھا وکان عمر یکرھا،فقال لی : طلقھا، وابیت ،فاتیٰ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر ذالک لہَ فقال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلقھا ۔ رواہ التر مذی وابو داؤد ۔

وقال المحشی ( قولہ طلقھا) ان کان الحق فی جانب الوالدین فطلقھا واجب للزوم العقوق فی الحقوق وان کان فی جانب المراءۃفان طلقھا لرضاء الوالدین فھو جائز ۔( مشکوٰۃ ،باب البر والصلۃ ،الفصل الثانی)
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
فی المشکوٰۃ :421 عن ابن عمر قال: کانت تحتی امراۃ احبھا وکان عمر یکرھا،فقال لی : طلقھا، وابیت ،فاتیٰ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر ذالک لہَ فقال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلقھا ۔ رواہ التر مذی وابو داؤد ۔
جزاک اللہ خیرا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
sahj نے کہا ہے:
کیا زبردستی طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی ؟ جبکہ میاں بیوی اک دوسرے سے راضی بھی ہوں اور خصوصاً عورت کا شوہر طلاق دینے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو؟
اور صرف والد کے احترام اور حکم کی وجہ سے ہی طلاق دے؟

اختلاف نہیں کیا صرف سوال کئے ہیں۔

شکریہ

والسلام
جبری صورت ہو یا غیر جبری، والدین کے احترام میں ہو یا حالت غضب میں طلاق واقع ہو گی ۔فقہ حنفی کے مطابق۔
 

یوسف ثانی

وفقہ اللہ
رکن
sahj نے کہا ہے:
کیا زبردستی طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی ؟ جبکہ میاں بیوی اک دوسرے سے راضی بھی ہوں اور خصوصاً عورت کا شوہر طلاق دینے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو؟ اور صرف والد کے احترام اور حکم کی وجہ سے ہی طلاق دے؟

اختلاف نہیں کیا صرف سوال کئے ہیں۔

شکریہ

والسلام
1۔ “ زبردستی“ سے مراد اگر یہ ہے کہ کوئی گن پوائنٹ پر یعنی طاقت کے بل بوتے پر، جان سے مارنے یا زود کوب کرنے کی دمکی دے کر زبانی یا تحریری طلاق دلوادے تو اس طرح کی “زبردستی“ سے طلاق نہین ہوتی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کسی روزہ دار کو پکڑ کراس کے منہ میں زبردست کوئی کھانے پینے کی چیز ڈال دے اور مجبور بندہ نگل لے تب بھی روزہ نہین ٹوٹے گا۔

2۔ لیکن اگر “ زبردستی“ سے مراد یہ ہے کہ ماں یا باپ یا کوئی اور کسی شوہر سے پر زور اصرار کرے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو، اگر طلاق نہین دو گے تو میں ناراض ہوجاؤں گا، جائیداد سے عاق کردون گا، تم سے ملنا جلنا بند کردوں گا وغیرہ وغیرہ تو اس طرح کی “ زبردستی“ سے طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔ جیسے اگرکوئی روزہ دار کسی ایسی محفل میں بیٹھا ہو جہاں اس کے بے تکلف دوست احباب غیر روزہ دار ہوں اور کھا پی رہے ہون اور وہ روزہ دار سے اصرار کرے کہ آپ بھی کھا لو اور وہ اس “ زبردستی کے اصرار پر“ کچھ کھا لے تو یقینا“ روزہ ٹوٹ جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یوسف ثانی نے کہا ہے:
sahj نے کہا ہے:
کیا زبردستی طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی ؟ جبکہ میاں بیوی اک دوسرے سے راضی بھی ہوں اور خصوصاً عورت کا شوہر طلاق دینے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو؟ اور صرف والد کے احترام اور حکم کی وجہ سے ہی طلاق دے؟

اختلاف نہیں کیا صرف سوال کئے ہیں۔

شکریہ

والسلام
1۔ “ زبردستی“ سے مراد اگر یہ ہے کہ کوئی گن پوائنٹ پر یعنی طاقت کے بل بوتے پر، جان سے مارنے یا زود کوب کرنے کی دمکی دے کر زبانی یا تحریری طلاق دلوادے تو اس طرح کی “زبردستی“ سے طلاق نہین ہوتی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کسی روزہ دار کو پکڑ کراس کے منہ میں زبردست کوئی کھانے پینے کی چیز ڈال دے اور مجبور بندہ نگل لے تب بھی روزہ نہین ٹوٹے گا۔

2۔ لیکن اگر “ زبردستی“ سے مراد یہ ہے کہ ماں یا باپ یا کوئی اور کسی شوہر سے پر زور اصرار کرے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو، اگر طلاق نہین دو گے تو میں ناراض ہوجاؤں گا، جائیداد سے عاق کردون گا، تم سے ملنا جلنا بند کردوں گا وغیرہ وغیرہ تو اس طرح کی “ زبردستی“ سے طلاق دلوانے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔ جیسے اگرکوئی روزہ دار کسی ایسی محفل میں بیٹھا ہو جہاں اس کے بے تکلف دوست احباب غیر روزہ دار ہوں اور کھا پی رہے ہون اور وہ روزہ دار سے اصرار کرے کہ آپ بھی کھا لو اور وہ اس “ زبردستی کے اصرار پر“ کچھ کھا لے تو یقینا“ روزہ ٹوٹ جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

جناب عالی نہایت ادب کے ساتھ دار العلوم دیوبند کا یہ فتویٰ پیش خدمت ہے۔ملاحظہ فر مائیں۔
فقہا نے طلاق کے سلسلہ میں اکرا ہ کا باب قائم کیا ہے( طلاق مکرہ کا کیا حکم ہے؟)یعنی زور زبردستی۔
‘‘اگر کسی آدمی نے جان سے ماردینے کی دھمکی سے ڈر کر اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور ایسی طلاق کے متعلق امام ابوحنیفہ کا کیا جواب ہے؟ براہ مہربانی تفصیل سے جواب دیں‘‘۔

فتوی: 590/ م= 586/ م
ایسی حالت میں اگر زبانی طلاق دے گا تو واقع ہوجائے گی اس لیے کہ حالت اکراہ میں زبانی طلاق واقع ہوجاتی ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ایسی طلاق کو واقع مانتے ہیں: کما فی الدر المختار: ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولو عبداً أو مکرھا فان طلاقہ صحیحÂ… وفي رد المحتار: وفي البحر أن المراد الإ کراہ علی التلفظ بالطلاق (شامي زکریا: ۴/۴۳۸، ۴۴۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

(2)گزارش ہے کہ میرےوالدین نے بچپن میں میرانکاح کردیاتھا۔ بعدمیں ہمارےوالدین کےدرمیان تنازعات شروع ہوگئے۔ مجھےطلاق دینے کا کہا گیامگر میں نے ایسا نہ کیا جس پرہم دونوں کوماراپیٹاگیااورمجھ سےزبردستی طلاق لی گئی

فتوی(ل): 1402=999-9/1431
‘‘گر آپ نے زبان سے طلاق دیدی تھی تو طلاق واقع ہوگئی تھی، زبردستی اگر زبان سے طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


 

یوسف ثانی

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ احمد قاسمی بھائی!
تصحیح کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے ان فتاویٰ سے صد فیصد اتفاق ہے

غالبا“ میں اپنے نکتہ نمبر ایک کی صحیح وضاحت نہیں کرسکا۔ میں اپنے نکات کی دوبارہ وضاحت کی کوشش کرتا ہوں

“حالت اکراہ میں زبانی طلاق واقع ہوجاتی ہے“
1۔گویااس فتویٰ کی رو سے حالت اکراہ میں تحریری طلاق نہیں ہوتی؟ میری تصحیح کیجئے، اگر میں غلطی پر ہوں

زبردستی اگر زبان سے طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے

2۔میں نے “زبردستی“ کے ضمن میں کہا تھا کہ اگر یہ زبردستی “گن پوائنٹ پر“ کہلوایا جائے تو طلاق نہیں ہوگی۔ جیسے اگر گن پوائنٹ پر کفریہ کلمات “کہلوائے“ جائیں تو یہ “کفر نہیں ہے“۔ “گن پوائنٹ، طاقت وغیرہ کے زور پر آن دی اسپاٹ کہلوانے“ اور دھمکی وغیرہ کے نتیجہ میں ڈر کر از خود “کہنے“ میں بہت باریک سا فرق ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ علمائے کرام بھی اس “زبردستی کہلوانے“ پر طلاق نافذ نہیں کرتے۔ الا یہ کہ خود بندہ بعد میں اپنے طرز عمل سے اس زبردستی کی توثیق کردے۔ میری تصحیح کیجئے، اگر میں غلطی پر ہوں۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میرے خیال سے اس دھاگہ کو الغزالی فتویٰ سیکشن میں منتقل کر دیا جائے ۔تاکہ مفتی صاحبان بڑی صراحت سے وضاحت فر ماسکیں۔
محترم آپ کے نقطہ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟ شکریہ
 
Top