فضلائے دارا لعلوم دیوبند قسط 2

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دارالافتا کا قیام اور پہلے صدرمفتی​

جب طلب فتاویٰ کی تعداد بہت ذیادہ بڑھ گئی اور اساتذہ کیلئے تدریس کے ساتھ اتنے استفاءات کو جواب لکھنا مشکل ہو نے لگا تو دارالعلوم کی مجلس شوریٰ نے ۔۔۔ جس میں حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ بھی شامل تھے ۔۔۔ایک علاحدہ دارلافتاء کے قیام کی تجویز طئے کی اور 1310ھ میں مستقل دارالافتاء کا قیام عمل میں آیا اور فقہ وفتاویٰ میں ید طولیٰ رکھنے والی شخصیت مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کے لئے خاص کر دیا گیا ، جو اس وقت دارالعلوم کے نائب مہتمم تھے ، چنانچہ دا رالعلوم دیوبند کی 1310ھ کی روئداد میں لکھا ہے ۔
‘‘چوں کہ بفصلہ تعالیٰ اس مدرسہ کی شہرت دور دور ہے اس وجہ سے مقامات دور دراز سے استاءات بکثرت آتے ہیں اور مدرسان عربی کا کار تعلیم سے اس قدر فرصت نہیں ہوتی کہ بلا حرج تعلیم ان کے جوابات لکھ سکیں اور اشاعت اور تحقیق علوم دین سے بڑا مقصد یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو مسائل شرعیہ دریافت ہوں اور تحقیق حق میں سہولت ہو ۔۔۔ لہذا بنظر مصلحت یہ تجویز قرار پائی کہ عہدہ نائب مہتمم کا تخفیف میں آوے اور مولوی عزیز الرحمٰن نائب مہتمم کو اس عہدہ سے جدا کر کے خدمت میں افتاء مدرسہ اور تعلیم اسباق شرح ملا سے نیچے کی کتب پر مقرر کیا جاوے ‘‘

دارالافتاء میں کام کرنے والی شخصیات
دارالعلوم دیوبند کو جس طرح پورے بر صغیر میں مر جعیت حاصل ہے ،اسی طرح یہاں کے دارالافتاء کو ہمیشہ ایسی شخصیات ملتی رہی ہیں ، جن کا شمار اپنے وقت کی با کمال شخصیتوں میں ہوتا ہے ، چنا نچہ دارالافتاء میں جن شخصیتوں نے کام کیا ہے ، ذیل میں ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔
(1) مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
( 1275۔ 1347ھ ) جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ دارالعلوم کے دارالافتا میں سب سے پہلے مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی نے ہی صدر مفتی کی حیثیت سے کام کیا ،آپ نے 1310ھ سے دار الافتاء کا کام سنبھالا اور 1344ھ تک چونتیس سال اس منصب پر فائز رہے ،آپ کو فقہ وفتایٰ میں ایسی مہارت تھی کہ بڑے بڑے معرکۃ الآرا استفتاء کا جواب مراجعت کتب کے بغیر بلا تکلف لکھ دیتے تھے ،اس دور میں بے شمار ایسے مشکل فتاویٰ لکھے ، جو صرف فتویٰ ، بلکہ معرکۃ الآرا مہمات میں محاکمہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، فتاویٰ مختصر ، عا، فہم اسر سلیس زبان میں لکھتے تھے ، آپ کی فتاویٰ نویسی کی مہارت کے بارے میں ایل نظر لکھتے ہیں ۔
‘‘ یوں تو فتاویٰ ہع زمانے میں لکھے گئےمگر فتویٰ نویسی کا جو کمال حضرت مفتی صاحب کو حاصل تھا ، یہ کمالا جماعت دیوبند میں صرٍ ف تین شخصوں کے حصے میں آیا ہے ، ایک مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے حضرت مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور تیسرے حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔
آپ کے فتاویٰ کی تعداد حضرت قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( سابق مہتمم دار العلوم دیوبند) کے ایک سرسری اندازے کے مطابق ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کے قریب ہے ، آپ کی فتویٰ نویسی کے ابتدائی بیس سال تک نقل فتاویٰ کا اہتمام نہیں کیا جا سکا ،1230 سے فتاویٰ کی نقل محفوظ کی گئی ، جو اس وقت ‘‘ عزیز الفتاویٰ ‘‘ اور ‘‘فتاویٰ دارا لعلوم دیوبند ‘‘ کے نام سے محفوظ ہیں ، آپ 1344ھ میں دار العلوم سے مستفتی ہو گئے تھے اور 1347 ھ میں آپ کی وفات ہوئی ۔

(2) مفتی ریاض الدین بجنوری رحمۃ اللہ علیہ
1344ھ میں مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے مستعفی ہو نے کے بعد قائم قائم مقام مفتی حیثیت سے افتاء کی خدمت مولانا مسعود احمد دیوبندی کے سپرد کی گئی ۔۔۔ جو حضرت شیخ الہند مولنا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد تھے ۔۔۔انہوں نے 1357ھ تک یہ خدمت انجام دی ،اسی دوران 1347ھ کے اواخر میں با ضابطہ اس منصب کے لئے مدرسہ عالیہ میرٹھ سے مولانا ریاض الدین بجنوری کو طلب کیا گیا اور اوائل 1350ھ تک اس منصب پر فائز رہے ، کم وبیش دو سال کی اس مدت میں دارالافتاء سے تقریبا سات ہزار استفتاءات کے جواب لکھے گئے ، صفر 1350 ھ میں انہیں شعبہ تدریس میں منتقل کر دیا گیا اور 22 ذی الحجہ 1366 ح کو ان کی وفات ہوئی ۔

(3) مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مفتی ریاض الرحمٰن صاحب کے زمانہ میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارا لعلوم میں علیا کے مدرس تھے اور طالبعلمی کے زمانے سے آپ کی مہارت اساتذہ پر واضح ہو چکی تھی ۔چنانچہ 1350 ھ میں مفتی ریاض الدین کی جگہ آپ کو دار الافتاء کا صدر مفتی بنایا گیا اور 1354ھ کے وسط تک ساڑھے چار سال اس منصب پر رہے ۔آپ کے زمانہ میں دارالعلوم کے دار الافتاء سے 26 ہزار کے قریب فتاویٰ لکھے گئے ،1396 میں آپ نے وفات پائی ، آپ کے فتاویٰ کا بڑا حصہ امداد المفتیین اور فتاوی ٰ دار العلوم میں مطبوع ہیں۔

(4) مولانا محمد سہول بھاگلپوری 1354ھ کے وسط میں مولانا محمد سہول بھا گلپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دار الافتاء کا صدر مفتی بنایا گیا ،اس وقت آپ مدرسہ عالیہ شمس الہدیٰ (پٹنہ) میں پرنسپل تھے ، مگر دارالعلوم کی دعوت پر ملازمت چھوڑ کر یہاں چلے آئے ، تاہم اپنی بعض ذاتی مشکلات اور ضروریات کی وجہ سے زیادہ دن دارالعلوم میں خدمت نہیں کر سکے اور 1357ھ تک تقریبا تین سال صدر مفتی رہ کر اپنی سابقہ ملازمت پر لوٹ گئے ، آپ کے زمانہ میں پندرہ ہزار ایک سا پچاسی ( 15185) فتا ویٰ دار الافتاء سے جاری کئے گئے ، 1350ھ سے 1362ھ تک آپ مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے ، 27 رجب 1367ھ مطابق1948ء کو آپ کی وفات ہو ئی ۔

(5) مولانا کفایت اللہ گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
1356ھ کے اواخر میں مولانا کفایت اللہ گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو دارالعلوم کے دارالافتا کیلئے منتخب کیا گیا ، تقریبا دو سال آپ نے دا را لعلوم کے دارالافتاء میں خدمت انجام دی اور 1359 ھ میں آپ کو شعبہ تدریس میں منتقل کر دیا گیا ، آپ کے زمانہ میں دار الافتاء پانچ ہزرا آٹھ سو چالیس ( 5840) فتاویٰ روانہ کئے گئے ، 1363 ھ میں آپ دارا لعلوم سے مستعفی ہو گئے ۔

( 6) مولانا فاروق انبہٹوی
1362ھ میں دار العلوم کے دارالافتاء صدر مفتی کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا ، آپ کو جامعہ عباسیہ بھاول پور سے بلایا گیا تھا، لیکن آپ دارا لعلوم میں ذیادہ دنوں نہیں رہ سکے بلکہ ریاست بھاولپور کی وزارت تعلیم کی جانب سے آپ پر واپسی کیلئے زور ڈالاگیا اور 63 13ھ میں آپ سابقہ جگہ ( جامعہ عباسیہ ) تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الحدیث مقرر ہو ئے ، دارا لافتاء دارا لعلوم دیوبند سے آپ کے زمانہ میں 8427 فتاویٰ لکھے گئے ۔

(7) مولانا اعزاز علی امروہی
حضرت مولانا اعزاز علی امروہی دارا لعلوم کے نہایت ممتاز فضلاء میں تھے 1330ھ میں دارالعلوم میں مدرس کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا پہلی مرتبہ 1347ھ سے 1348 ھ تک ایک سال آپ
دار الافتاء میں رہے ، پھر 1364ھ سے 1366 تک آپ نے دار الافتاء میں صدر مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دی ، آپ کے عہد صدارت میں 24855 فتاوی ٰ لکھے گئے 1374ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔

(8) مفتی مہدی حسب شاہجہاں پوری رحمۃ اللہ علیہ
1347ھ میں مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری رحمۃ اللہ علیہ کو دارا لعلوم کے دارا الافتاء میں صدر مفتی کے منصب پر فائز کیا گیا ، 1387ھ میں اپنی طویل علالت اور صعف وکمزوری کی وجہ سے دا را لعلوم سے سبکدوش ہو کر وطن چلے گئے 28 ربیع الثانی 1396ھ کو آپ کی وفات ہوئی ،آپ کا زمانہ صدارت میں دار الافتا ء سے 75324 فتاویٰ جاری کئے گئے ۔

(9) مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے بیس سال مظاہر علوم سہارنپور میں افتاء کی خدمت انجام دی ، 14 سال جامع علوم کانپور میں صدر مفتی رہے ، 1385 ھ مطابق 1965ء میں دارا لعلوم دیو بند میں صدر مفتی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ، اور درمیان میں معمولی وقفہ کے ساتھ اپنی وفات 1417ھ مطا بق 1996ء تک اس منصب پر فائز رہے ، فقہی جزئیات پر خاص کر بہت ہی عبور حاصل تھا اور آپ کی حاضر جوابی ولطیفہ سنجی مشہور تھی ، آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ‘‘ فتا ویٰ محمودیہ ‘‘ کے نام سے 20 جلدوں میں طبع شدہ ہے ، آپ افریقہ کے سفر پر تھے وہیں 19 ربیع الثانی 14 17 ھ مطابق 2 ستمبر 1996 کو آپ کی وفات ہوئی ۔

(1)مفتی نظام الدین اعظمی
مفتی نطام الدین اعظمی کو 1385 ھ میں دار العلوم دیوبند میں افتاء کی خدمت پر مقرر کیا گیا اور مفتی محمود حسن گنگوہی کے بعد آپ دارا لافتاء کے ذمہ دار رہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے اختراعی ذہن سے نوازا تھا ، علمائے دیو بند میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے بعد جدید مسائل کے شرعی حل میں آپ کی خدمات نمایا ہیں ۔

(11) مفتی ظفیر الدین مفتاحی
1956ء میں مفتی ظفیر الدین مفتاحی کو دا را لعلوم دیو بند میں شعبہ تبلیغ کیلئے مدعو کیا گیا تھا، 1376ھ میں آپ کا تبادلہ دار الافتاء میں مرتب فتاویٰ کی حیثیت سے ہوا اور ایک سال بعد 1377ھ سے فتاویٰ نویسی کا کام بھی آپ کے سپرد ہوا، 1429ھ مطابق 2008ء تک آپ نے فتاویٰ نویسی کی خدمت انجام دی 2008ء میں پیرانہ سالی ضعف وامراض کی وجہ سے آپ دار العلوم سے مستعفی ہو گئے اور اس وقت آپ گھر پر زیر علاج ہیں ۔

(12) مفتی حبیب الرحنٰن خیر آبادی

مفتی حبیب الرحمٰن خیر آبادی نے 23 سال مدرسہ حیات العلوم مرادآباد میں افتاء کی خدمت انجام دی ، پھر دا ر العلوم دیوبند میں تدریس کیلئے آپ کی تقرری ہوئی کچھ دنوں بعد آپ کو دارالافتاء منتقل کر دیا اور تا ہنوز آپ اس منصب پر فائز ہیں۔(فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات)

 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا
مولانا بہت ہی مفید مضمون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ امید ہے آپ اس کو جاری رکھیں گے ۔
اور کیا یہ کتاب نیٹ پہ موجود ہے؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیفی خان نے کہا ہے:
جزاک اللہ خیرا
مولانا بہت ہی مفید مضمون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ امید ہے آپ اس کو جاری رکھیں گے ۔
اور کیا یہ کتاب نیٹ پہ موجود ہے؟

جی نہیں۔
 
Top