احمدقاسمی نے کہا ہے:میں چاہتا ہوں الغزالی کے نہایت معزز رکن جناب یوسف ثانی کا بھر پور تعارف آپ کی خدمات وغیرہ کا تفصیلی جائزہ الغزالی پر ‘‘کوئی صاحب‘‘ شیئر کریں۔
وجہ ظاہر ہے کہ ہندوستان کے لوگ پاکستان کی علمی شخصیات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
برادرم قاسمی صاحب کی اس ‘فرمائش‘ پر اپنے بارے میں چند کلمات خود لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید اس فورم میں مجھے جاننے والے موجود نہ ہوں۔ سب سے پہلے تو جناب کی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی o| دور کردوں کہ میں کوئی علمی شخصیت ہوں۔ میں محض ادب، صحافت، سائنس اور اسلامیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔
میں کوئی نصف صدی قبل 1959 میں بھارت کے صوبہ بیہار کے مشہور شہر بھاگلپور کے قصبہ سرائے میں پیدا ہوا۔ مدرسہ کی ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ یعنی اردو، ہندی اور عربی لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگیا۔ پھر جلد ہی والد صاحب کے ہمراہ ہم ڈھاکہ ہجرت کر گئے جہاں مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سقوط ڈھاکہ سے کچھ قبل کراچی ہجرت کرگئے۔ کراچی ہی میں ماسٹرز تک سائنس و فنون میں تعلیم حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی میں کالج مجلہ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے اور دوران طالب علمی ہی کراچی سے شائع ہونے والے قومی اخبارات جیسے جنگ، جسارت، نوائے وقت، مشرق، حریت وغیرہ میں مضامین بھی لکھے۔
رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد 1980 میں ایک کثیر القومی کیمیکل کمپنی سے وابستہ ہوگیا۔ اور گذشتہ 32 برسوں کے دوران اندرون و بیرون ملک کے متعدد کثیر القومی کیمیکل، آئل اینڈ گیس کمپنیز سے بحیثیت کیمکل ٹیکنالوجسٹ وابستگی رہی اور تاحال اسی شعبہ سے اپنا رزق حاصل کر رہا ہوں۔ دوسری طرف قلم سے بھی رشتہ برقرار ہے۔ پاکستان کی دوسری بڑی نیوز ایجنسی میں اردونیوز سروس کے انچارج اور پاکستان کے سب سے بڑے اردو روزنامہ جنگ کے نیوز رومزمیں برسوں خبروں کی خاک چھاننے کے علاوہ متعدد علمی و ادبی جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ افسانے بھی لکھے، کہانیاں بھی لکھیں، انشائیہ بھی لکھا مگر ان سب پر طنزو مزاح بھاری رہا۔ برسون کالم نویسی بھی کی۔ 2000 میں میرے دو عشروں کے منتخب تحریروں کا مجموعہ “ یوسف کا بکا جانا “ کے نام سے شائع ہوا۔ گو بوجوہ اس کتاب کی تقریب رونمائی تو نہ ہوسکی مگر اسی سلسلہ مین متعدد ادیب و شاعر نے احقر کی تحریروں پر تنقیدی و تعریفی مضامین لکھے جو بعد ازان “یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری“ کے نام سے انہی مضامین کے مجموعہ میں شائع ہوا۔ لکھنے والوں میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، سید ضمیر جعفری، نعیم آروی، حکیم محمد سعید، امراؤ طارق، قمر علی عباسی، نقاش کاظمی، علی حیدر ملک سمیت 25 سے زائد ادبا و شعراء شامل ہیں۔ سن اسی کی دہائی میں روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ جسارت کے مشہور و معرف ادبی صفحات (جو آج کل شائع نہیں ہوتے) میں اس احقر پر تفصیلی فیچر “یوسف ثانی کی انشائی نگاری“ کے عنوان سے شائع ہوئے۔
گذشتہ پانچ برسوں سے ادب و صحافت سے “کنارہ کشی“ کرکے قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتابیں تالیف کر رہا ہون۔ اب تک اردو مین پیغام قرآن، پیغام حدیث، اوامر و نواہی (قرآن و حدیث) اور سندھی میں قرآن جو پیغام کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ انہی کتب کے انگریزی ایڈیشن بھی تیار ہورہے ہیں۔ یہ کتب آن لائن www.paighamequran.com پر بھی دستیاب ہیں۔ جہاں انہیں آن لائن پڑھنے کے علاوہ ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان کتب کی سی ڈی کے بھی دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام کتب غیر تجارتی بنیادوں پر تقسیم کئے جاتے ہیں اور ان کتب کے حقوق جملہ قارئین کے نام محفوظ ہیں۔ یعنی انہیں کوئی بھی کہیں بھی شائع کرسکتا ہے۔ یہ کتب پیغام قرآن ڈاٹ کام کے علاوہ بھی متعدد سائٹس اور فورمز پر کسی نہ کسی طرح موجود ہین۔
امید ہے کہ یہ مختصر سا تعارف احباب کے لئے کافی ہوگا۔