اختلافات فقہا میں سے حق ایک ہے یا متعدد

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اختلافات فقہا میں سے حق ایک ہے یا متعدد​

یہ ایک مشہور علمی مسئلہ ہے کہ جن مسائل میں ائمہ مجتہدین مختلف ہیں ایک چیز کو ایک امام حلال قرار دیتا ہے اوردوسرا حرام اور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ دونوں امام اہل حق ہیں اور ہر ایک کے مقلد کو اپنے اپنے امام کے قول پر عمل کرنا جا ئز بلکہ واجب ہے تو بحث یہ آتی ہےکہ کیا عند اللہ اس چیز کا حلال ہونا بھی حق ہے اور حرام ہونا بھی ،یا حق ایک ہی ہے ؟ اسی مسئلہ میں علمائے اصول کی مفصل بحثیں ہیں اور ایک مدت مدیدہ ہوئی شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک رسالہ ‘‘ ہدیہ سنیہ ‘‘ کے نام سے تحریر فر مایا تھا ۔
اس مسئلہ پر ایک بہترین تحریر امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ کی رسالہ‘‘بلوغ الامانی‘‘کی عبارت کا اردو ترجمہ استفادہ کیلئے ہدیہ ناظرین ہے جو اس اہم مسئلہ کا نہایت مکمل اور بہترین حل ہے۔

‘‘ ابن ابی العوام نے طحاوی سے اور انہوں نے شعیب بن الکسانی سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے نقل فر مایا کہ امام محمد بن حسن نے ہمیں املا لکھا یا جس میں فر مایا کہ جب لوگ کسی مسئلہ میں مختلف ہوں ایک فقیہ ایک شئے کو حرام قرار دے اور دوسرا حلال اور دونوں کو اجتہاد کا حق حاصل ہو تو صواب ( حق) اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان میں دونوں میں سے ایک ہی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہی شئی حرام وحلال دونوں نہیں ہو سکتی ، بلکہ حق اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہی ہو گی اور مجتہد اس کا مکلف ہے کہ وہ اپنی رائے اور اجتہاد کو اس میں خرچ کرے تا کہ وہ اس کی حقیقت کو پہنچ جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق ہے ۔پس اگر اپنی رائے اور اجتہاد میں وہ اس حق کو پہنچ جائے جو اللہ کے نزدیک حق ہے تو اس پر اس کو عمل کرنے کی بھی اجازت ہے کیونکہ وہ جس کام کا مکلف تھا اس وہ ادا کر دیا ۔ اگر چہ جو اللہ کے نزدیک متعین حق ہے اس پر نہیں پہنچا تا ہم جس چیز کا مکلف تھا وہ تو ادا کردیا اور مستحق ثواب ہو گیا ۔ لیکن یہ درست نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ایک امام نے ایک عورت کو حلال کر دیا اور دوسرے نے حرام اور اللہ کے نزدیک دونوں درست اور حق ہیں ۔بلکہ اللہ کے نزدیک حق ایک ہی ہے البتہ قوم فقہاء اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئی کیونکہ وہ اپنے مقدور بھر اجتہاد کر چکی اسلئے ان کو اس پر عمل کرنا جائز ہوگا اگر چہ ان دونوں میں سے ایک ضرور حق مطلوب میں خطا کی ہے مگر چو نکہ وہ اپنی کو شش کو خرچ کر چکا ہے تو اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گیا اگر چہ حقیقت کے اعتبار سے اس نے خطا کی کیونکہ حق تعالیٰ کے نزدیک تمام اشیاء میں حق ایک ہی ہے ۔یہ سب امام اعظم ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے قول ہیں اور یہی ہمارا مذہب ہے ۔ وھذا کلہ قول ابی حنیفہ وابی یوسف وقولنا ( بلوغ الامانی)
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ بھائی ۔۔۔۔ ماشاء اللہ سے بہت قیمتی نکتہ کی وضاحت فرمائی
اس بات کو آسان الفاظ میں یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس مسئلہ میں کوئی اشکال پیدا ہوجائے ۔۔۔۔ اور جب اجتہاد کی ضرورت پیش آجائے ۔۔۔۔ اور حضرات فقہائے کرام اپنی بساط کے مطابق اجتہاد فرمائیں ۔۔۔۔ اور دو الگ الگ رائے قائم ہوجائیں ۔۔۔۔۔ تو اس کے بعد تو دونوں طرف کی رائےگمان ہی ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ سو فیصد یقینی علم یعنی بذریعہ وحی اطلاع ملنا تو موقوف ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔ لہذا دونوں فریقین کے پاس سوائے گمان کے اور کچھ نہ ہوگا ۔۔۔۔ تو جب کسی کو بھی سو فیصد یقینی علم حاصل نہیں کہ فلاں مسئلہ پر اُس کی رائے صحیح ہے یا غلط ۔۔۔۔۔تو فقہائے کرام کا اپنی مقدور بھر کوشش فرماچکنے کے بعد قطع نظر اس کے کہ کس کی رائے حق تھی وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔۔
یعنی کسی مسئلہ پر حق ایک ہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن کیوں کہ کسی کو سوفیصد یقینی علم حاصل نہیں لہذا دونوں فریقین اپنی اپنی رائے کو حق گمان کرتے ہوئے اُس پر عمل کرلیتے ہیں۔
یوں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ دونوں فریقین حق پر ہیں
واللہ و اعلم
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مجھے لگتا ہے کہ اس عبارت میں کچھ ابہام ہے‘‘یوں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ دونوں فریقین حق پر ہیں ‘‘ مزید وضاحت کی ضرورت ہے
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
الحمد للہ ہمیں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ کسی مسئلہ پر دو علیحدہ رائے ہونے کے باوجود دونوں امام اہل حق ہیں...
واضح کرنا یہ مقصود تھا کہ کسی مسئلہ پر دو علیحدہ علیحدہ رائے ہونے کے باوجود کس بنیاد پر دونوں فریقین کو حق پر کہا جاتا ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ناصر نعمان نے کہا ہے:
الحمد للہ ہمیں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ کسی مسئلہ پر دو علیحدہ رائے ہونے کے باوجود دونوں امام اہل حق ہیں...
واضح کرنا یہ مقصود تھا کہ کسی مسئلہ پر دو علیحدہ علیحدہ رائے ہونے کے باوجود کس بنیاد پر دونوں فریقین کو حق پر کہا جاتا ہے

میں سمجھتا ہوں کہ اس عبارت میں سوال بالا کا جواب مذکور ہے‘‘کوئی شخص یہ کہے کہ ایک امام نے ایک عورت کو حلال کر دیا اور دوسرے نے حرام اور اللہ کے نزدیک دونوں درست اور حق ہیں ۔بلکہ اللہ کے نزدیک حق ایک ہی ہے البتہ قوم فقہاء اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئی کیونکہ وہ اپنے مقدور بھر اجتہاد کر چکی اسلئے ان کو اس پر عمل کرنا جائز ہوگا اگر چہ ان دونوں میں سے ایک ضرور حق مطلوب میں خطا کی ہے مگر چو نکہ وہ اپنی کو شش کو خرچ کر چکا ہے تو اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گیا اگر چہ حقیقت کے اعتبار سے اس نے خطا کی‘‘
پھر بھی آپ کے ذہن میں اسکے علاوہ کوئی تاویل یا تفسیر ہو ،شیئر فر مائیں۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
o|:)
احمد قاسمی بھائی ۔۔۔ہم نےبھی اسی عبارت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی وضاحت پیش کی ۔۔۔لیکن شاید ہم اپنے الفاظ کو درست ترتیب نہ دے سکے جس کی وجہ سے ہماری بات سمجھنے میں دشواری پیش آئی
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ کے الفاظ کی ترتیب بلا مبالغہ احسن ہے شائد میں خود ہی مراد تک نہیں پہونچ پارہا ہوں۔دیکھتا ہوں کہیں اس سے عمدہ تشریح نظر آجائے تو پھر شیئر کروں گا۔
 

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
میں مختصر سا جواب ( بلکہ اس کا ناقص جواب) تحریر کردیتا ہوں تفصیل ان شاء اللہ بعد میں۔
قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ والسلام کے ایک مقدمہ کا ذکر ہے ۔حضرت داؤد علیہ السلام نے مقدمہ کا فیصلہ کچھ کیا ان کے فر زند حضرت سلیمان علیہ السلام نے مقدمہ کا فیصلہ سن کر ایک دوسرا فیصلہ اپنی طرف سے فر مایا ۔ قرآن کریم نے ان کے فیصلہ کا بھی ذکر کیا اور ان دونوں میں سے کسی کے بھی فیصلہ کی تردید اورتغلیط نہ کی بلکہ دونوں حضرات کی تعریف فرمائی ‘وکلا اٰ تیناہ حکماوعلما۔ یعنی ہم نے دونوں کو حکمت وعلم سے نوازا ۔
شریعتیں انبیاء سابقین کی بھی تھیں اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اور سب کے سب حق ہیں ۔ لہذا مطلقا نہیں کہہ سکتے کی دو فتوؤں میں سے ایک فتویٰ غلط ہے۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ شرر بھائی آپ نے بہت عمدہ جواب دیا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔آمین
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک مہم پر روانہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ عصر کی نماز فلاں جگہ جاکر پڑھنا۔ نماز عصر کا وقت وہاں پہنچنے سے پہلے ختم ہونے لگا تو صحابہ کی دو جماعتیں ہوگئیں، ایک نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر نمازِ عصر پڑھنے کا حکم فرمایا ہے، اس لئے خواہ نماز قضا ہوجائے مگر وہاں پہنچ کر ہی پڑھیں گے، دوسرے فریق نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک تو یہ تھا کہ ہم غروب سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائیں، جب نہیں پہنچ سکے تو نماز قضا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
بعد میں یہ قصہ بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہوا تو آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی اور کسی پر ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
ایک امام کہے کہ حلال ہے اور دوسرا کہے کہ حرام ہے اور تیسرا کہے کہ مکروہ ہے اور چوتھا کہے نہ حلال ہے نہ حرام ہے نہ ہےمکروہ ہے بلکہ باامر مجبوری جائز ہے۔
اور آج کے ملاں کہیں کہ چاروں حق پر ہیں۔ بہت خوب
 
Top