مطالعہ بریلویت ۔ ۔ ۔ ایک تحقیقی جائزہ : 2 :

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
پہلا حصہ یہاں سے پڑھیں http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=4196&pid=29336#pid29336

حاضر و ناظر کے متعلق فرقہ بریلویہ کے عقائد

مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں :
ہر جگہ حاضر و ناضر ہونا خدا کی صفت ہر گز نہیں ۔ خدائے تعالی جگہ اور مکان سے پاک ہے ۔
{جاءالحق حصۃ اوّل ص161}
مفتی احمد یار لکھتے ہیں :
خدا کو ہر جگہ ماننا بے دینی ہے ۔ ہر جگہ میں ہونا تو رسول ِ خدا ہی کی شان ہو سکتی ہے ۔
{جاءالحق حصۃ اوّل162}
مولانا احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں :
کوئی مقام اور کوئی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی نہیں ۔
{تسکین الخواطر فی مسئلہ الحاظروناظرص85}
مولانا احمد سعید کاظمی مزید لکھتے ہیں :
سید دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوّت ِ قدسیہ اور نور نبوت سے یہ امر بعید نہیں کہ آن ِ واحد میں مشرق و مغرب ، جنوب و شمال ، تحت و فوق ، تمام جہان و امکنہ بعیدہ متعدہ میں سرکار اپنے وجود مقدس بعینہ یا جسم اقدس مثالی کے ساتھ تشریف فرما کر اپنے مقربین کو اپنے جمال کی زیارت اور نگاہ کرم کی رحمت و برکت سے سرفراز فرمائیں ۔
{تسکین الخواطرص18}
اسلام میں عقائد کا معاملہ بہت اہم اور نازک ہے ۔ عملوں میں کمزوری کی چھوٹ فضل الٰہی سے مل سکتی ہے مگر عقائد میں غلطی اور سہل انگاری لائق درگزر نہیں ۔ عقائد کی جنگ ان کمزور قیاسات اور غلط مقدمات سے نہیں جیتی جاسکتی جو بریلویوں نے اس سلسلہ میں قائم کر رکھے ہیں ۔ ان کے لئے قرآن کریم کے دلائل قطعیہ کی ضرورت ہے اور وہ بریلویوں کے ہاں یکسر مفقود ہیں ۔
بدعات میں ان کے پہلے امام مولانا ببدالسمیع رام پوری ہوئے ہیں ۔ یہ مولانا احمد رضا خاں کے پیشرو ہیں اور خان صاحب انہیں اپنا بڑابھائی کہتے تھے ۔

مولانا عبدالسمیع رام پوری عقیدہ حاضر و ناظر کے ثبوت میں لکھتے ہیں :

چاند سورج ہر جگہ موجود ہے اور ہر جگہ زمین پر شیطان موجود ہے اور ملک الموت ہر جگہ موجود ہے تو یہ صفت {یعنی ہر جگہ ہونا} خدا کی کہا ہوئی ۔ اور تماشا یہ کہ اصحاب محفل میلاد {یعنی بریلوی حضرات} تو زمین کی ہر جگہ پاک و ناپاک مجالس مزہبی و غیر مزہبی میں حاضر ہونا رسول اللہ کا نہیں دعوٰی کرتے ۔ ملک الموت اور ابلیس کا حاظر ہونا اس اس سے بھی زیادہ ترمقامات پاک نا پاک و کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے ۔
{ انوار ساطعہ ص52۔53}
دوستو ۔ یہ ساری محنت کس لئے ہو رہی ہے کہ خدا کے حاضو ناضر کی کسی طرع مفی کی جا سکے ۔ اور ہر جگہ ہونا شیطان ۔ ملک الموت اور انبیائے کرام کی صفت قرار دی جائے ۔ مولانا عبدالسمیع نے تو ابلیس کو ہی ھر جگہ ھاضر وناظر مانا تھا ۔ مولانا احمدرضاخان نے تو کرشن کنیہا کو بھی سینکڑوں جگہ موجود اور حاظر مان لیا ۔ آپ فرماتے ہیں ۔
کسی نے عرض کی حضرت نے وقت واحد میں دس جگہ تشریف لئے جانے کا وعسدہ فرما لیا ہے یہ کیوں کر ہو سکے گا ۔ شیخ نے فرمایا کہ کرشن کنہیا کافر تھا اور ایک وقت میں کئی سو جگہ مو جود ہو گیا ۔ { ملفوظات حصۃ اؤل ص119 خلاصہ}
مولانا عبدالسمیع نے خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کی نفی کی ہے ۔ان سے اچھے تو مولانا دیدار علی الوری ہی رہے جنہوں نے رب العزت کے حضور و نظور کو تسلیم کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح حاظرو ناظر ہونے کی صاف لفظوں میں نفی کی ہے ۔
رسول القیام ص105}
اللہ تعالی کے ہر جگہ موجود ہونے کی حقیقت کو ہم پا نہیں سکتے اتنا جانتے ہیں کہ وہ اپنے علم محیط سے ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ۔
بریلویوں نے نے جب یہ لفظ {حاظر وناظر}انبیاء اور اولیاء کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو سننے والوں کا ذہن اس سے اسی طرف مائل ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ ہر جگہ سے ہر چیز کو دیکھتے ہیں ۔ انبیاء و اولیاء سے بھی کوئی چیز قریب و بعید کے فاصلے پر نہں ۔ وہ بھی ہر جگہ کی ہر چیز کو دیکھتے ہیں ۔ کوئی چیز ان سے دور نہیں ۔ بریلوی عوام آج اسی عقیدے سے انبیاء و اولیاء کو ہر جگہ حاظروناظر مانتے ہیں ۔ ان کے علماء اپنے ہاں کوئی تاویل کر لیں تو کرلیں ۔ لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح ہر جگہ حاظر وناظر سمجھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی کو اور ظاہر ہے کہ یہ صریح شرک ہے ، اور بقول مولانا الوری اس کا قائل سوائے جاہل و اجہل کے اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔
{ جاری ہے }


اگلا حصہ یہاں سے پڑھیں http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=4310&pid=30255#pid30255
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
خان صاحب اور ان کے متبعین کی بات ہی کچھ نرالی ہے ۔معاذ اللہ شریعت تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔فر ماتے ہیں\
“ مرد وہ نہیں جو تمام عالم کو انگوٹھے کے ناخن کے مثل دیکھے“ ۔اب ان طبع زاد اندھوں سے کوئی پو چھے !
حضرت ابرا ہیم علیہ السلام فرستوں کو نہ پہچان پائے اور بچھڑا بھون کر لے آئے۔حضرت لوط علیہ السلام بھی فر شتوں کو نہ پہچان سکے اور بولے یہ بڑی سختی کادن ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام فراق یوسف میں گر یہ وزاری فر ماتے رہے اور مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کی کچھ خبر نہ پائی اور خود حضرت یوسف علیہ السلام فراق یعقوب میں تڑپتے رہے کیوں !
پتہ نہیں ان واقعات کی کیا تاویل ان قبوری مولویوں کے پاس ہے اور یہ پیغمبران علیہ السلام رضا خانیوں کے نزدیک (معاذ اللہ ) مرد ہیں بھی یا نہیں ۔
 
Top