تقلید مجھے سمجھا دو۔!

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مراسلہ نگار حضرات سے گزارش ہے۔شخصیات کا تذکرہ ادب وتہذیب کے دائرہ میں کریں ۔جو ہمارے اسلاف امت کا طریقہ کار رہا ہے ۔حتی الامکان دلازاری جیسے الفاظ والقاب استعمال نہ فر مائیں۔
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
احمدقاسمی نے کہا ہے:
مراسلہ نگار حضرات سے گزارش ہے۔شخصیات کا تذکرہ ادب وتہذیب کے دائرہ میں کریں ۔جو ہمارے اسلاف امت کا طریقہ کار رہا ہے ۔حتی الامکان دلازاری جیسے الفاظ والقاب استعمال نہ فر مائیں۔

جزاک اللہ قاسمی صاحب مجھے یہ رویہ قطعاً پسند نہیں ۔چاہے علماء فوت شدگان میں سے ہوں یا حیات ہوں کسی بھی عالم کی اس طرح مثال قائم کرکے اور صاف جھوٹا لکھنا انتہاہی درجے کی بدتمیزی ہے۔
جس کا ہمیں شعور نہیں ۔علماء انسان ہیں اور غلطیاں انسانوں سے ہوا کرتی ہیں۔اگرفضیلۃ الشیخ طالب الرحمن صاحب حفظہ اللہ کو جھوٹا کہا جارہا ہے اگر میں مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ کو جھوٹا کہنا شروع کردوں تو پھر جاہل اور صاحب علم وذی شعور میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور ہاں ہم کون ہوتے ہیں کسی عالم پر انگلی اٹھانے والے۔اگر نظریات سے اختلاف ہے تو سلجھے ہوئے انداز میں اختلاف کیا جائے۔ورنہ اپنی زبان کو لگام ڈالنا ہی فائدہ سے خالی نہیں۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم اصلی حنفی بھائی !
غالبا اہل علم حضرات آج کل کچھ مصروف ہیں ۔۔۔ ہم نے سوچا کہ چلیں ہم ہی آپ سے کچھ سیکھ لیتے ہیں کیوں کہ آپ کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ماشاء اللہ سے اس موضوع پر کافی معلومات رکھتے ہیں۔
لہذا اگر آپ مناسب سمجھیں تو اگر آپ ہم سے اس موضوع پر چند چیزیں واضح فرمادیں تو آپ کی عنایت ہوگی
لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ ہم عموما ایسے موضوعات پر روایتی طرز کی گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں ۔۔۔۔کیوں کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی دینی مسئلہ پر جو بھی گفتگو ہو وہ بامقصد ہو جس سے سائل و مسئول دونوں کو فائدہ ہو۔
اگر تو آپ ہمیں اپنا قیمتی وقت دینا چاہیں تو ہم مشکور ہوں گے ۔۔۔ہمیں فی الحال تو یہ سمجھنا ہے کہ “تقلید کیوں نہ کی جائے “۔۔۔ اور ایک عام آدمی تقلید نہ کرے تو کیا کرے ؟؟؟
جواب کے منتظر
ناصر نعمان
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
ناصر نعمان نے کہا ہے:
“تقلید کیوں نہ کی جائے “۔۔۔ اور ایک عام آدمی تقلید نہ کرے تو کیا کرے ؟؟؟

بہت بڑھیا حملہ ہے۔
جناب محترم ناصر صاحب حفظہ اللہ آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کہ میں آپ کامہمان ہوں اور جس چیز کو آپ واجب کہتےہیں اسی کےمتعلق پوچھنے آیاہوں۔ اور وہ بھی آپ کے گھر۔ تاکہ اپنی تمام تر کنفیوژن دور کرکے اس واجب پر عمل کرسکوں۔جس پر آج تک عمل سےمحروم رہا ہوں

آپ نےاگر یہ پوچھنا ہےکہ تقلید کیوں نہ کی جائے؟ تو پھر بھائی میرے اپنے گھر سےباہر نکلو اور ان بھائیوں کے فورمز وغیرہ پہ چکر لگاؤ جو کہتے ہیں کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔

اور پھر میرے پاس ایک تو زیادہ ٹائم نہیں ہوتا اور دوسرا میں اپنے آپ کو اس اہل بھی نہیں سمجھتا۔واضح اور کھری بات کرنا ہی اچھاہوتا ہے۔

اور ہاں آپ بھی مقلد ہیں۔اور ساتھ آپ کااس بات پر بھی یقین ہوگاکہ تقلید شخصی واجب ہے۔تو آپ ہی مجھے سمجھا دیں۔

مجھے حیرت ہے کہ 24 پوسٹس ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک تقلید کی تعریف ہی حل نہیں ہوپائی؟
بات موضوع پر رکھیں تو طریفین کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ورنہ صفحات فورم تو بھر جاتےہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
نعیم نے کہا ہے:
اصلی حنفی صاحب کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔اگر آپ حق کے متلاشی تھےتو“الکلام فی اثبات التقلید “ کا مطالعہ کافی تھا وہ تمام گھسے پٹے سوالات جو اٹھا رہے ہیں مذکورہ کتاب میں کافی وشافی جوابات موجود ہیں۔
میری گزاش ہے باقی باتیں چھوڑ کر اصل مقصد کی طرف آجائیں۔ہم تم کو آزمائیں تم ہم کو آزماؤ۔کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے اس میدان کے آپ پرانے کھلاڑی ہیں ۔گستاخی معاف

نعیم بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیاتھا۔چلیں اگر باقی علماء بقول ناصر بھائی کے مصروف ہیں تو نعیم صاحب مجھے سمجھا دیں
کیاخیال ہےنعیم صاحب ؟
مجھے توتقلید سمجھنی ہے
بابا
تقلید مجھے سمجھا دو​
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
اصلی حنفی نے کہا ہے:
جناب محترم ناصر صاحب حفظہ اللہ آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کہ میں آپ کامہمان ہوں اور جس چیز کو آپ واجب کہتےہیں اسی کےمتعلق پوچھنے آیاہوں۔ اور وہ بھی آپ کے گھر۔ تاکہ اپنی تمام تر کنفیوژن دور کرکے اس واجب پر عمل کرسکوں۔جس پر آج تک عمل سےمحروم رہا ہوں
بات پھر گھوم پھر کر وہی آجائے گی ۔۔۔کہ جس عام مسلمان نے مسئلہ تقلید سمجھنا ہے اُسے حوالہ جات کی نہیں بلکہ اپنے اشکالات دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔لہذا اگر آپ واقعی مسئلہ تقلید سیکھنا سکھانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو لغوی و اصطلاحی تعریفات کی بحث میں الجھنے کے بجائے ٹودی پوائینٹ اپنا وہ اشکال پیش فرمائیں جو آپ کے لئے الجھن کا باعث بن رہا ہے
اصلی حنفی نے کہا ہے:
آپ نےاگر یہ پوچھنا ہےکہ تقلید کیوں نہ کی جائے؟ تو پھر بھائی میرے اپنے گھر سےباہر نکلو اور ان بھائیوں کے فورمز وغیرہ پہ چکر لگاؤ جو کہتے ہیں کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
جناب اصلی حنفی صاحب شاید آپ کے علم میں نہیں ۔۔۔ہم آپ کے مشورے سے قبل یہ سعی کرچکے ہیں اور اُن لوگوں کی محفل (اردو محفل) میں اپنا یہ موضوع پیش کرچکے ہیں جو حضرات تقلید کے قائل نہیں۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ وہاں پر تو ایک ہی کوشش جاری تھی کہ مقلدین کو کس طرح زیر کیا جاتا ہے ؟؟؟
لہذا ہماری یہ سعی ناکام ہوگئی ۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:
اور پھر میرے پاس ایک تو زیادہ ٹائم نہیں ہوتا اور دوسرا میں اپنے آپ کو اس اہل بھی نہیں سمجھتا۔واضح اور کھری بات کرنا ہی اچھاہوتا ہے۔
اور ہاں آپ بھی مقلد ہیں۔اور ساتھ آپ کااس بات پر بھی یقین ہوگاکہ تقلید شخصی واجب ہے۔تو آپ ہی مجھے سمجھا دیں۔
مجھے حیرت ہے کہ 24 پوسٹس ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک تقلید کی تعریف ہی حل نہیں ہوپائی؟
بات موضوع پر رکھیں تو طریفین کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ورنہ صفحات فورم تو بھر جاتےہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
بھائی ٹائم تو زیادہ ہمارے پاس بھی نہیں ہوتا اور ہم بھی آپ کی طرح ہی اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے کہ آپ کو مذکورہ مسئلہ سمجھا سکیں ۔۔۔۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ اور ہم ایک ہی کیٹیگری کے معلوم ہوتے ہیں لہذا آپ اپنے اشکال پیش کریں ہم اپنے محدود علم کے مطابق سیکھنے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لنگڑا راستہ بتاتا جائے اور اندھا چلتا جائے کے مصداق شاید کہ ہم دونوں کو ہی منزل مل جائے ۔۔۔۔لیکن نیت میں اخلاص شرط ہے (یہ بہت اہم بات ہے)
اور رہی بات تقلید کی تعریف کی تو میرے بھائی جس طرح غیر متعلقہ موضوعات شامل بحث کرنے سے صفحات کالے ہوتے ہیں اسی طرح کسی نکتہ پر بے مقصد بحث بھی غیر ضروری طوالت اختیار کرتی ہے ۔۔۔۔ابھی تو بات 24 پوسٹ تک پہنچی ہے لیکن یہ بات 48 پوسٹ تک بھی پہنچنے کے بعد ایسے ہی الجھی رہے گی ۔۔۔۔۔لہذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بحث بامقصد رہے اور غیر ضروری طوالت اختیار نہ کرے تو جو تعریف آپ مقلدین میں معتبر سمجھتے ہیں اور اُس پر آپ کو جو اشکال ہے وہ ہی واضح فرمادیں ۔۔۔۔ اگر توہمارے علم میں ہوا تو واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہ
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
ناصر نعمان نے کہا ہے:
بات پھر گھوم پھر کر وہی آجائے گی ۔۔۔کہ جس عام مسلمان نے مسئلہ تقلید سمجھنا ہے اُسے حوالہ جات کی نہیں بلکہ اپنے اشکالات دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔

یعنی جو بھی جیسے بھی جس طرح بات ہو وہ مان لی جائے؟
بھائی میرے وجوب کی بات ہے اور وجوب کو ایسے تو نہیں مانا جائے گا۔مثلاً میں آپ کو کہوں کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا واجب ہے۔تو کیا آپ مان لیں گے؟
یا تو آپ اس بات کا اقرار کریں کہ تقلید شرعی مسئلہ نہیں؟ یا پھر شرعی مسئلہ سمجھتے ہوئے دلائل سے بات کریں

ناصر نعمان نے کہا ہے:
لہذا اگر آپ واقعی مسئلہ تقلید سیکھنا سکھانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو لغوی و اصطلاحی تعریفات کی بحث میں الجھنے کے بجائے ٹودی پوائینٹ اپنا وہ اشکال پیش فرمائیں جو آپ کے لئے الجھن کا باعث بن رہا ہے-

مجھے تو پوری تقلید ہی الجھن لگتی ہے کیا اشکال پیش کروں۔اس وجہ سے تو شروع سے اینڈ تک سمجھنے کےلیے آیاہوں۔جہاں جہاں جس جس کی عبارت پہ مجھے اشکالات ہونگے۔میں بلاجھجھک پیش کرتا جاؤں گا۔آپ کاکام ہے کہ میرے اشکالات کا مدلل و مثبت جواب دینا

ناصر نعمان نے کہا ہے:
بھائی ٹائم تو زیادہ ہمارے پاس بھی نہیں ہوتا اور ہم بھی آپ کی طرح ہی اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے کہ آپ کو مذکورہ مسئلہ سمجھا سکیں ۔۔۔۔

جب اہل نہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ آپ ایک طرف ہوجائیں اور صاحب علم کو بات کرنے کا موقع دےدیں۔تاکہ اندھیرےمیں ٹامک ٹوئیاں نہ ماری جائیں

ناصر نعمان نے کہا ہے:
جو تعریف آپ مقلدین میں معتبر سمجھتے ہیں اور اُس پر آپ کو جو اشکال ہے وہ ہی واضح فرمادیں ۔۔۔۔ اگر توہمارے علم میں ہوا تو واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہ

وہی تو تعریف پیش کی تھی لیکن ملنگ بابا صاحب نے کچھ لب کشائی کی لیکن پھر خاموشی چھا گئی
لیکن اب تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف آپ لوگ ہی پیش کریں گے۔تاکہ بات مثبت ہوتی جائے یہ نہ ہو کہ میں پیش کردوں اور بعد میں وہی بات پیش کرنی پڑ جائے تو آپ لوگوں کا یہ جواب ہو کہ یہ بات تو ہم نے پیش ہی نہیں کی تھی۔
اس لیے جو تعریف میں نے پیش کی تھی اسی کی تصدیق چاہیے۔
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
اصلی حنفی نے کہا ہے:
نعیم نے کہا ہے:
اصلی حنفی صاحب کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔اگر آپ حق کے متلاشی تھےتو“الکلام فی اثبات التقلید “ کا مطالعہ کافی تھا وہ تمام گھسے پٹے سوالات جو اٹھا رہے ہیں مذکورہ کتاب میں کافی وشافی جوابات موجود ہیں۔
میری گزاش ہے باقی باتیں چھوڑ کر اصل مقصد کی طرف آجائیں۔ہم تم کو آزمائیں تم ہم کو آزماؤ۔کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے اس میدان کے آپ پرانے کھلاڑی ہیں ۔گستاخی معاف

نعیم بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیاتھا۔چلیں اگر باقی علماء بقول ناصر بھائی کے مصروف ہیں تو نعیم صاحب مجھے سمجھا دیں
کیاخیال ہےنعیم صاحب ؟
مجھے توتقلید سمجھنی ہے
بابا
تقلید مجھے سمجھا دو​
جناب عالی ایک بات آپ بھول رہے ہیں شاید پہلی پوسٹ میں آپ نے حوالہ کا مطالبہ کیا تھا ملنگ صاحب نے “الکلام فی اثبات التقلید“ کی لنک دی تھی ۔اب سوال یہ ہے کیا آپ نے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر لیا ۔اگر ہاں تو اس کی عبارت پر جو اشکال ہو وہ پیش کریں ۔اگر نہیں تو براہ کرم مطالعہ کرلیں ۔دوسری بات جو میں نے کہی تھی وہ یہی تھی کہ اصل مطلب کی طرف آئیں۔ وہ اس کے علاوہ اور کیا تھی جس کے متعلق “ناصر نعمان صاحب نے لکھا ہے “ مجھے لگتا ہے آپ صرف الجھاؤ پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے نہیں ورنہ کیا بات ہے کتاب میں تفصیلی بحث اس موضوع پر لکھی ہے وہ آپ کو سمجھ نہ لگے ۔
میں اگر آپ کی بات مان لوں کہ تقلید بقول آپ شرک وغیرہ یا زہر دین وایمان ہے تو ذرا مجھے سمجھا دیں اس مسئلہ میں کس کی بات مانی جائے اور کس کا نظریہ قبول کیا جائے ۔ مسئلہ:صاحب تحفۃ الاحوذی محدث مباکپوری کا۔ جنھوں حیض والی عورت کیلئے قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا یے “ واما قراءۃ الایۃ فلا یجوز لھما البتۃ “ کہ جنبی آدمی اور حیض والی عورت دونوں کے لئے قرآن کریم کی مکمل آیت کی تلاوت بالکل جائز نہیں (تحفۃ الاحوذی ج1 ص 124 ) اسی طرح نورا الحسن خاں بھو پالی فر ماتے ہیں جنبی آدمی اور حیض والی عورت کے لئے مسجد میں آنا اور قرآن کریم پڑھنا حرام ہے ۔ یا پھر علامہ نواب وحید الزماں کا نظریہ کہ “ وورخصوا للحائضۃ المتعلمۃ فی مس الصحف والتلاوۃ ( نزل الابرار ج 1ص 26)
اسی طرح اپنی کتاب کنز الحقائق ص 15 میں بھی حیض میں مبتلا طالبہ کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کی اجازت دیتے ہیں ۔
فیصلہ آپ فر مادیں ان دو علماء میں سے کس کی بات مانی جائے اور کس بات بنیاد ۔ان کے تبحر علمی اور زہد وتقویٰ پر بھروسہ کر کے دونوں کی بات مان لی جائے یا ایک کی بات کو مان کر دوسرے کی تضحیک کی جائے ۔یا پھر علماء احناف کے نظریہ پر زہد وتقویٰ پراعتمادکر کےکسی ایک کی بات مان لی جائے اور دوسرے کو نظر انداز کر دیا جائے ۔یا پھر ۔۔۔ دونوں سے دلیل طلب کی جائے اور دلیل پر اعتماد نہ ہویا سمجھ میں نہ آئے(کیونکہ عامی آدمی تو دلیل سمجھ نہ سکے گا) تو ہوائے نفس کی بنیاد پر عمل کیا جائے ۔
اب آپ مجھے سمجھادو

 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
نعیم نے کہا ہے:
جناب عالی ایک بات آپ بھول رہے ہیں شاید پہلی پوسٹ میں آپ نے حوالہ کا مطالبہ کیا تھا ملنگ صاحب نے “الکلام فی اثبات التقلید“ کی لنک دی تھی ۔اب سوال یہ ہے کیا آپ نے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر لیا ۔اگر ہاں تو اس کی عبارت پر جو اشکال ہو وہ پیش کریں ۔اگر نہیں تو براہ کرم مطالعہ کرلیں۔


مولانا نعیم صاحب شاید آپ نے میری فرسٹ پوسٹ کامطالعہ نہیں کیا برائےمہربانی میری پوسٹ اور اس کے بعد کی جانے والی وضاحت کو ذہن نشین کرلیں۔

نعیم نے کہا ہے:
مجھے لگتا ہے آپ صرف الجھاؤ پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے نہیں ورنہ کیا بات ہے کتاب میں تفصیلی بحث اس موضوع پر لکھی ہے وہ آپ کو سمجھ نہ لگے ۔

اس کاجواب پہلے دیاجا چکا ہے۔موضوع پر ہی بحث کی جائے۔بہت مہربانی ہوگی

نعیم نے کہا ہے:
میں اگر آپ کی بات مان لوں کہ تقلید بقول آپ شرک وغیرہ یا زہر دین وایمان ہے تو ذرا مجھے سمجھا دیں اس مسئلہ میں کس کی بات مانی جائے اور کس کا نظریہ قبول کیا جائے ۔ مسئلہ:صاحب تحفۃ الاحوذی محدث مباکپوری کا۔ جنھوں حیض والی عورت کیلئے قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا یے “ واما قراءۃ الایۃ فلا یجوز لھما البتۃ “ کہ جنبی آدمی اور حیض والی عورت دونوں کے لئے قرآن کریم کی مکمل آیت کی تلاوت بالکل جائز نہیں (تحفۃ الاحوذی ج1 ص 124 ) اسی طرح نورا الحسن خاں بھو پالی فر ماتے ہیں جنبی آدمی اور حیض والی عورت کے لئے مسجد میں آنا اور قرآن کریم پڑھنا حرام ہے ۔ یا پھر علامہ نواب وحید الزماں کا نظریہ کہ “ وورخصوا للحائضۃ المتعلمۃ فی مس الصحف والتلاوۃ ( نزل الابرار ج 1ص 26)
اسی طرح اپنی کتاب کنز الحقائق ص 15 میں بھی حیض میں مبتلا طالبہ کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کی اجازت دیتے ہیں ۔
فیصلہ آپ فر مادیں ان دو علماء میں سے کس کی بات مانی جائے اور کس بات بنیاد ۔ان کے تبحر علمی اور زہد وتقویٰ پر بھروسہ کر کے دونوں کی بات مان لی جائے یا ایک کی بات کو مان کر دوسرے کی تضحیک کی جائے ۔یا پھر علماء احناف کے نظریہ پر زہد وتقویٰ پراعتمادکر کےکسی ایک کی بات مان لی جائے اور دوسرے کو نظر انداز کر دیا جائے ۔یا پھر ۔۔۔ دونوں سے دلیل طلب کی جائے اور دلیل پر اعتماد نہ ہویا سمجھ میں نہ آئے(کیونکہ عامی آدمی تو دلیل سمجھ نہ سکے گا) تو ہوائے نفس کی بنیاد پر عمل کیا جائے ۔
اب آپ مجھے سمجھادو

ابھی تک ہم ان باتوں پر پہنچے ہی نہیں ابھی تو تعریفات کا مطالبہ پورا کیا جارہا ہے۔جب وقت آئے گا سب کچھ حل ہوجائے گا۔
آپ سےگزارش ہےکہ یا تو کسی معتبر کتاب سے باحوالہ لغوی واصطلاحی تعریف پیش کریں۔ یا پھر ایک طرف ہوکر کسی صاحب علم کو گفتگو کا موقع دیں تاکہ تقلید کو ظاہر وباطن سے سمجھنےکا موقع ملے۔

نوٹ
باقی اس موضوع پر مستند کتاب تو اس وجہ سے مانگی تھی کہ میں خود مطالعہ کروں باقی تقلید کو سمجھونگا یہاں سوال وجوابات کی روشنی میں۔ تاکہ تقلید پر جو بھی ابہامات ہیں سب کی تشفی کروا سکوں

برائے مہربانی سب سے گزارش ہے کہ ٹائم ضائع نہ کریں اور بامقصد بات کریں ادھر ادھر کی باتیں کرکے موضوع سے دوری مت بھاگیں اور ہاں ہر بات وقت آنے پر ہی کریں وقت سے پہلے کسی بات کی طرف اشارہ مت کریں۔ امید ہے کہ غور کیاجائے گا۔

کوئی بھی بھائی باحوالہ معتبر کتاب تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف نقل کردے۔بس
 

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
اصلی حنفی نے کہا ہے:
لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔

محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے قول یا فعل کے حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کین تعریف کو بھی ہم درست کرتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتطار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مث آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہاندھی تقلید ہے ۔ جاہل جاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے یا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات و مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ ڈاکٹر کے لکھے نسخے میں مریض کا سوچ بچار کرنا اور تحقیق کرنا کیا گُل کھلا سکتا ہے سوچنے کی بات ہے ۔
 

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
اصلی حنفی نے کہا ہے:
لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔

محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے امام کے پیچھے مقتدی نماز پڑھتے ہیں اور دونوں کی نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز اللہ کے بجائے امام کے لئے نہیں ہو جاتی اسی طرح امام کی تقلید کر لینے سے قرآن وحدیث پر عمل کے بجائے امام کے قول پر عمل نہیں سمجھنا چاہئے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے قول یا فعل کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
اصلی حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو بھی ہم درست کہتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مچ آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہ اندھی تقلید ہے ۔ جاہل اگرجاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے چلےیا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔ (جاہل کے بھی درجے ہوتے ہیں اور عالم کے بھی درجے ہوتے ہیں ۔وفوق کل ذی علم علیم ۔اصلی حنفی صاحب کیا آپ یا ہم یا آج کا کوئی بھی شخص امام بخاری کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے لہذا یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کے لوگ ان کے رفقاء سمیت کیا سب جاہل ہیں ۔)
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ اور ایرے غیرے کی اس لئے نہیں مانتے کہ ان میں وہ کمال نہیں۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم اصلی حنفی صاحب بالآخر آپ نے ہمارا گمان یقین میں بدل گیا کہ آپ یہاں کچھ سیکھنے سکھانے نہیں آئے محض اپنا اور سب کا قیمتی وقت برباد کرنے آئے ہیں
لہذا ہمارا تمام اہل علم حضرت سے گذارش ہے کہ آپ حضرات اپنے قیمتی وقت کو ایسے لوگوں کے لئے برباد نہ فرمائیں ۔۔۔۔آپ اہل علم حضرات کا وقت بہت قیمتی ہے جو یقینا کسی بہتر کام پر لگ کر لوگوں کے لئے مفید بن سکتا ہے ۔
باقی ایسے لوگوں کے کسی بھی جواب کے لئے ہم طالب عالم ہی کافی ہیں ۔۔۔لیکن شرط صرف “دیانت داری اور خلوص نیت کی ہے ۔۔۔۔لہذا جب بھی یہ حضرت یا ان کے جیسے کوئی بھی حضرت ان دو شرائط کے ساتھ حاضر ہوں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں حاضر پائیں گے ۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:
یعنی جو بھی جیسے بھی جس طرح بات ہو وہ مان لی جائے؟
بھائی میرے وجوب کی بات ہے اور وجوب کو ایسے تو نہیں مانا جائے گا۔مثلاً میں آپ کو کہوں کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا واجب ہے۔تو کیا آپ مان لیں گے؟
اگر توہماری نیت میں شرارت نہیں بلکہ خلوص ہوگا تو ہم اپنے اشکال پیش کرکے آپ سے وضاحت طلب کریں گے ناکہ آپ کے مولویوں کی معتبر کتابوں سے اپنی مرضی کے الفاظوں میں حوالاجات ؟؟؟
اصلی حنفی نے کہا ہے:
مجھے تو پوری تقلید ہی الجھن لگتی ہے کیا اشکال پیش کروں۔اس وجہ سے تو شروع سے اینڈ تک سمجھنے کےلیے آیاہوں۔
اس کے لئے مقلدین کو الزام دینے کے بجائے اپنی عقل پر افسوس کریں کہ آپ آج تک اتنا معمولی مسئلہ نہ سمجھ سکے جو دنیائے اسلام کا 90 یا 80 فیصد طبقہ سمجھ سکتا ہے ۔
جس دن کھلے دل کے ساتھ مسئلہ تقلید پر خلوص نیت اور دیانت دار کے ساتھ غور کرنے کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ کے سینے میں کشادگی عطاء فرمائے گا اور آپ کو باآسانی وہ حکمتین سمجھ آجائیں گی کے جن کے باعث ائمہ کرام نے عامیوں پر تقلید کو واجب قرار دیا ہے
لیکن شرط وہی دیانت داری اور خلوص نیت کی ہے
اصلی حنفی نے کہا ہے:
جہاں جہاں جس جس کی عبارت پہ مجھے اشکالات ہونگے۔میں بلاجھجھک پیش کرتا جاؤں گا۔آپ کاکام ہے کہ میرے اشکالات کا مدلل و مثبت جواب دینا
وہی تو آپ سے بار بار پوچھا جارہا ہے کہ آپ اپنے اشکالات پیش فرمائیں لیکن آپ نے تو مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح “لغوی اور اصطلاحی “ تعریف کی گردان کی ہوئی ہے ؟؟؟
اصلی حنفی نے کہا ہے:
جب اہل نہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ آپ ایک طرف ہوجائیں اور صاحب علم کو بات کرنے کا موقع دےدیں۔تاکہ اندھیرےمیں ٹامک ٹوئیاں نہ ماری جائیں
آپ جیسوں کے لئے ہمارے صاحب علم کو اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔آپ اپنا اشکال پیش فرمائیں اور دیکھیں کہ کہیں آپ کا مسئلہ اتنا معمولی تو نہیں ہے کہ اُس کے لئے چند مبتدی ہی کافی ہیں؟؟؟ہ
اصلی حنفی نے کہا ہے:
وہی تو تعریف پیش کی تھی لیکن ملنگ بابا صاحب نے کچھ لب کشائی کی لیکن پھر خاموشی چھا گئی
لیکن اب تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف آپ لوگ ہی پیش کریں گے۔تاکہ بات مثبت ہوتی جائے یہ نہ ہو کہ میں پیش کردوں اور بعد میں وہی بات پیش کرنی پڑ جائے تو آپ لوگوں کا یہ جواب ہو کہ یہ بات تو ہم نے پیش ہی نہیں کی تھی۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس کا ہم نے شروع میں گمان ظاہر کیا تھا کہ آپ یہاں کچھ سیکھنے سمجھنے نہیں آئے بلکہ مقلدین کو ہرانے کی نیت سے آئے ہیں ۔۔۔۔۔جس کا آپ نے برملا اظہار فرماہی دیا ۔
لہذا اب بھی آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنے اشکالات پیش کرنا شروع کریں ۔۔۔چلیں تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سے ہی شروع کردیں تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے۔جزاک اللہ
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
باقی تمام بےمقصد، بے موقع، بےمحل اورٹائم کے ضیاع پر مبنی باتیں چھوڑ دی گئی ہیں۔ اور نہ ہی لب کشائی کی اہل تھی۔اس لیے بامقصد بات پر ہی لکھ رہاہوں آپ نےکہا

ناصر نعمان نے کہا ہے:
چلیں تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سے ہی شروع کردیں تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے۔جزاک اللہ

اوکے جان میں متفق ہوں آپ کسی معتبر کتاب سے تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف پیش فرمائیں۔تاکہ بات کو سمجھنے سمجھانےمیں آسانی ہو۔ اور پھر بات بھی ایک ترتیب سے چلتی جائے۔تاکہ میرے ساتھ قارئین کو بھی فائدہ ہو۔

ایک بات کاخاص خیال رہے کہ جتنی بات پوچھی جائے صرف اس بات کاہی جواب دیاجائے۔
چلیں پھر بسم اللہ کریں

نوٹ
ایک بات کا مزید شدت سےدھیان رہے کہ تنقیدی جملے،شخصیات پر حملے، اخلاق سے گری ہوئی باتوں وغیرہ سے کوسوں دور رہیں۔پہلےبھی ملنگ بابا نے کچھ اسطرح کی حرکت کی تھی جو کہ خاص طور پر میرے لیےناقابل برداشت ہے۔
بات کرو سلجھے ہوئےانداز میں اور سیکھنےسکھانےکی غرض سےورنہ پھر گھر ہی آدمی بیٹھا رہےتواچھا لگتا ہے۔
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
شرر نے کہا ہے:
اصلی حنفی نے کہا ہے:
لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔

محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے امام کے پیچھے مقتدی نماز پڑھتے ہیں اور دونوں کی نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز اللہ کے بجائے امام کے لئے نہیں ہو جاتی اسی طرح امام کی تقلید کر لینے سے قرآن وحدیث پر عمل کے بجائے امام کے قول پر عمل نہیں سمجھنا چاہئے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے قول یا فعل کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
اصلی حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو بھی ہم درست کہتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مچ آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہ اندھی تقلید ہے ۔ جاہل اگرجاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے چلےیا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔ (جاہل کے بھی درجے ہوتے ہیں اور عالم کے بھی درجے ہوتے ہیں ۔وفوق کل ذی علم علیم ۔اصلی حنفی صاحب کیا آپ یا ہم یا آج کا کوئی بھی شخص امام بخاری کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے لہذا یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کے لوگ ان کے رفقاء سمیت کیا سب جاہل ہیں ۔)
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ اور ایرے غیرے کی اس لئے نہیں مانتے کہ ان میں وہ کمال نہیں۔

شکریہ مفتی شرر صاحب
آپ نے حنفی بھائی کا مطالبہ پورا فرمادیا ۔اب ان پر لا زم ہے مزید بات آگے بڑھائیں “مرغے کی ایک ٹانگ پکڑنے کے مصداق نہ بنیں ،میرا گمان ہے اب تقلید کی جتنی تعریف کی گئیں یا تو محترم کی سمجھ میں نہ آئیں یا سمجھنا نہ چاہا۔ع:تو ہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں ۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم اصلی حنفی صاحب ہم تو خود اس چیز کے قائل ہیں کہ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع یا سخت الفاظوں کا استعمال یا بے مقصد کی غیر ضروری مباحثہ کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔۔۔ان شاء اللہ آپ ہم سے بامقصد بات چیت کرتے اُس وقت تک پائیں گے جب تک ہمارے ساتھ بات چیت کرنے والا سیکھنے سکھانے کے مقصد پر کاربند رہتا ہے ۔۔۔۔لیکن جہاں بحث برائے بحث یا بلامقصد کسی بات پر اصرار شروع ہوجائے اُس کے بعد ہم مزید بات چیت سے اجتناب برتتے ہیں۔۔۔۔کیوں کہ اس کے بعد بات چیت محض وقت کا ضیاع بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
اصلی حنفی نے کہا ہے:
اوکے جان میں متفق ہوں آپ کسی معتبر کتاب سے تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف پیش فرمائیں۔تاکہ بات کو سمجھنے سمجھانےمیں آسانی ہو۔ اور پھر بات بھی ایک ترتیب سے چلتی جائے۔تاکہ میرے ساتھ قارئین کو بھی فائدہ ہو۔
لیجیے جناب آپ کے بے حد اصرار پر ملاحظہ فرمائیں تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
”القاموس الوحید“ میں لغوی تعریف یوں منقول ہے ے:
1:- قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحید:1346)
2:-التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحید:1346)
اور “تقلید“ کی اصطلاحی تعریف مسلم الثبوت وغیرہ میں یوں منقول ہے :
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
اور حضرت مولانا قاضی محمد اعلیٰ صاحب تھانوی رحمہ اللہ سے تقلید کی تعریف یوں منقول ہے :
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل متقدا الحقیقۃ من غیر نظر الیٰ الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ دلیل (کشاف اصطلاحات الفنون ص 1178)
یعنی تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قول یا فعل میں محض حسن عقیدت سے اس کی اتباع کرے اس کو حق سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کے ملاحظہ کرنے کے گویا اس اتباع کرنے والے نے غیر کے قول یا س کے فعل کو بغیر دلیل کے مطالبہ کے اپنے گلے کا ہار بنالیا
اور علامہ ابن مالک رحمہ اللہ اور علامہ ابن العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو عبارۃ عن اتباعہ فی قولہ او فصلہ معتقد اللحقیۃ من غیر تامل فی الدلیل (شرح منار مصریص 252)
یعنی تقلید دوسرے کے قول یا س کے فعل میں اس کی اتباع کا نام ہے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)
اور حسامی کی شرح نامی میں ہے :
التقلید اتباع الغیر علیٰ ظن انہ محق بلا نظر فی الدلیل (ص 190)
یعنی تقلید غیر کی اتباع کا نام ہے دلیل کی طرف دھیان کئے بغیر اس خیال سے کہ غیر اہل حق میں سے ہے

لیجیے جناب اصلی حنفی صاحب فرمائیے کہ آپ کو ان تعریفات میں کیا اشکال در پیش ہے ؟؟
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
ناصر نعمان نے کہا ہے:
لیجیے جناب آپ کے بے حد اصرار پر ملاحظہ فرمائیں تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف:

بار بار اسرار تو برادر آپ لوگوں نےکروایا تھا۔چلیں خیر ویری گڈ تعریف پیش کرنے پر۔

ناصر نعمان نے کہا ہے:
”القاموس الوحید“ میں لغوی تعریف یوں منقول ہے ے:
1:- قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحید:1346)
ناصر نعمان نے کہا ہے:
2:-التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحید:1346)

یہاں پر کچھ الفاظ نقل ہوئے ہیں بنا دلیل، آنکھ بند کرکے،بے سوچے سمجھے۔ان کو آپ نے لکھا ہے اور ظاہر ہے آپ ان سےمتفق بھی ہیں۔

ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور “تقلید“ کی اصطلاحی تعریف مسلم الثبوت وغیرہ میں یوں منقول ہے :
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)

مسلم الثبوت کی اس تعریف سے کچھ باتیں منکشف ہورہی ہیں
1۔تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے۔
2۔نص پر عمل تقلید نہیں
3۔عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔
4۔عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے
یہ باتیں مسلم الثبوت کی اس تعریف سے منکشف ہوئی ہیں۔

ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور حضرت مولانا قاضی محمد اعلیٰ صاحب تھانوی رحمہ اللہ سے تقلید کی تعریف یوں منقول ہے :
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل متقدا الحقیقۃ من غیر نظر الیٰ الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ دلیل (کشاف اصطلاحات الفنون ص 1178)
یعنی تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قول یا فعل میں محض حسن عقیدت سے اس کی اتباع کرے اس کو حق سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کے ملاحظہ کرنے کے گویا اس اتباع کرنے والے نے غیر کے قول یا س کے فعل کو بغیر دلیل کے مطالبہ کے اپنے گلے کا ہار بنالیا

یعنی
کسی کا کسی کے قول کو حسن عقیدت پراور اس کو حق سمجھتے ہوئے ماننا بغیر دلیل کے مطالبہ کے

ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور علامہ ابن مالک رحمہ اللہ اور علامہ ابن العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو عبارۃ عن اتباعہ فی قولہ او فصلہ معتقد اللحقیۃ من غیر تامل فی الدلیل (شرح منار مصریص 252)
یعنی تقلید دوسرے کے قول یا س کے فعل میں اس کی اتباع کا نام ہے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)

دوسرے کے قول وفعل کی اتباع اس کو حق پر سمجھتے ہوئے کرنا بغیر دلیل کی فکر کیئے۔

ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور حسامی کی شرح نامی میں ہے :
التقلید اتباع الغیر علیٰ ظن انہ محق بلا نظر فی الدلیل (ص 190)
یعنی تقلید غیر کی اتباع کا نام ہے دلیل کی طرف دھیان کئے بغیر اس خیال سے کہ غیر اہل حق میں سے ہے

غیر کی اتباع کرنا اس کو حق پر سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کی طرف دھیان دیے

ناصر نعمان نے کہا ہے:
لیجیے جناب اصلی حنفی صاحب فرمائیے کہ آپ کو ان تعریفات میں کیا اشکال در پیش ہے ؟؟

گزارش
مسلم الثبوت کی تعریف میں یہ لفظ ’’لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد‘‘ سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ عرف میں ان کو تقلید کا نام دیا جائے گا۔ اورمیں یہاں آپ سے تقلید عرفی کے بارے میں نہیں بلکہ تقلید اصطلاحی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرونگا۔ان شاءاللہ
کیونکہ میں نے تقلید کی اصطلاحی تعریف ہی پوچھی تھی عرفی نہیں۔

کیا تعریف سے جو یہ چار باتیں اخذ کی ہیں آپ اتفاق رکھتےہیں

1۔تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے۔
2۔نص پر عمل تقلید نہیں
3۔عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔
4۔عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اصطلاح میں نہیں

نوٹ
آپ ان چار باتوں کی وضاحت فرمادیں۔اگلی باتیں بعد میں ٹائم کی قلت پر صرف ان باتوں کی تصدیق پوچھی ہے۔
 

ناصر نعمان

وفقہ اللہ
رکن
اصلی حنفی نے کہا ہے:
نوٹ
آپ ان چار باتوں کی وضاحت فرمادیں۔اگلی باتیں بعد میں ٹائم کی قلت پر صرف ان باتوں کی تصدیق پوچھی ہے۔
محترم جناب اصلی حنفی صاحب نہ تو یہ بات چیت کوئی روایتی مناظرہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی عدالتی کاروائی ہے جو آپ کو تصدیقات کی ضرورت محسوس ہوئی ۔۔۔بلکہ آپ کا مقصد”مسئلہ تقلید“ سمجھنا ہے ۔۔۔۔لہذا آپ سے ایک بار پھر گذارش ہے کہ براہ کرم آپ اپنے مقصد کو نہ بھولیں ۔۔۔۔اور اس بات چیت کو روایتی مناظرہ کی طرف نہ لے کر جائیں ۔۔۔۔آپ سے کئی مرتبہ گذارش کی جاچکی ہے کہ آپ کو ”مسئلہ تقلید“ پرجو بھی اشکال یا اعتراضات ہیں وہ واضح فرمائیں تاکہ اُن کی وضاحت کی جاسکے ۔۔۔لیکن پہلے تو آپ ”تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات “ کے مطالبہ پر مصر رہے ۔۔۔اور اب جبکہ آپ کو دونوں تعریفات واضح کردیں گئیں ہیں لیکن پھر بھی آپ اپنے اشکال یا اعتراض پیش کرنے کے بجائے ایسے ”تصدیقات“مانگ رہے ہیں جیسے کوئی مناظرہ ہورہاہو یا عدالتی کاروائی ہورہی ہو؟؟
اصلی حنفی نے کہا ہے:
یہاں پر کچھ الفاظ نقل ہوئے ہیں بنا دلیل، آنکھ بند کرکے،بے سوچے سمجھے۔ان کو آپ نے لکھا ہے اور ظاہر ہے آپ ان سےمتفق بھی ہیں۔
اگر کسی لفظ کے لغوی اعتبار سے کئی معنی نکلتے ہوں تو ضروری نہیں کہ ہر مقام پر اُس لفظ کے تمام لغوی معنوں کا اطلاق ہوگا ۔۔۔بلکہ موقع محل کے اعتبار سے معنوں کا تعین کیا جاتا ہے ۔۔۔امید ہے آپ یہ نکتہ ملحوظ رکھیں گے۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:
کیا تعریف سے جو یہ چار باتیں اخذ کی ہیں آپ اتفاق رکھتےہیں
1۔تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے۔
2۔نص پر عمل تقلید نہیں
3۔عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔
4۔عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اصطلاح میں نہیں
آپ اپنا جواب سمجھنے سے قبل پہلے توایک اہم ترین نکتہ تو یہ ذہن نشین فرمالیں کہ اکثر اوقات مختلف عبارتوں کے کئی کئی مفہوم بھی نکل آتے ہیں ۔۔۔جس کے لئے کسی بھی مفہوم کا تعین کرنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ یا تو صاحب عبارت سے دریافت کرلیا جائے ۔۔۔لیکن اگر صاحب عبارت موجود نہیں تو پھر جو ان کے پیروکار ہیں وہ مذکورہ عبارت کی وضاحت کرسکتے ہیں ۔۔۔۔یا اگر وہ عبارت کسی عمل سے تعلق رکھتی ہے تو پھر عمل کی بنیاد پربھی عبارت کا مفہوم متعین کیا جاسکتا ہے۔
لہذا آپ کے اخذ کئے ہوئے مفہوم میں ”بنا دلیل “ کی جگہ یہ بھی اضافہ فرمالیں کہ ”اگر چہ دلیل اپنی جگہ موجود ہے لیکن سائل مسئول سے حسن ظن رکھنے کی وجہ سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا ۔(جس کی وضاحت ہماری پیش کی ہوئی دیگر تعریفات میں شامل ہے
ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور حضرت مولانا قاضی محمد اعلیٰ صاحب تھانوی رحمہ اللہ سے تقلید کی تعریف یوں منقول ہے :
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل متقدا الحقیقۃ من غیر نظر الیٰ الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ دلیل (کشاف اصطلاحات الفنون ص 1178)
یعنی تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قول یا فعل میں محض حسن عقیدت سے اس کی اتباع کرے اس کو حق سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کے ملاحظہ کرنے کے گویا اس اتباع کرنے والے نے غیر کے قول یا س کے فعل کو بغیر دلیل کے مطالبہ کے اپنے گلے کا ہار بنالیا
ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور علامہ ابن مالک رحمہ اللہ اور علامہ ابن العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو عبارۃ عن اتباعہ فی قولہ او فصلہ معتقد اللحقیۃ من غیر تامل فی الدلیل (شرح منار مصریص 252)
یعنی تقلید دوسرے کے قول یا س کے فعل میں اس کی اتباع کا نام ہے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)
ناصر نعمان نے کہا ہے:
اور حسامی کی شرح نامی میں ہے :
التقلید اتباع الغیر علیٰ ظن انہ محق بلا نظر فی الدلیل (ص 190)
یعنی تقلید غیر کی اتباع کا نام ہے دلیل کی طرف دھیان کئے بغیر اس خیال سے کہ غیر اہل حق میں سے ہے
نیز آپ کااخذ کیا ہوا یہ مفہوم بھی تھوڑی وضاحت رکھتا ہے کہ آپ نے ”مسلم الثبوت “کی عبارت سے یہ مفہوم اخذ کیا :
اصلی حنفی نے کہا ہے:
عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔
گو آپ کا اخذ کیا ہوا مفہوم اپنی جگہ درست ہے لیکن اس میں آپ یہ بات بھی اپنے پیش نظر کھیے گا کہ یہاں دومسئلے ہیں:
یعنی ایک مسئلہ ہے کہ ایک عام مسلمان کا عالم سے سوال پوچھنا
اور دوسرا مسئلہ ہے کہ جو کچھ عالم بتائے اُس کو مان کر عمل کرنا
پہلا مسئلہ نص سے ثابت ہے ۔۔۔لہذا عام مسلمان کا عالم سے سوال پوچھنا تقلید نہیں ۔
لیکن دوسرا مسئلہ یعنی عالم نے جو عامی کو بتایا اُس کو مان کر عمل کیا ۔۔۔یہ تقلید ہے ۔

امید ہے کہ آپ اپنے اگلے مراسلات میں ایک طرف تو آپ اپنے مقصد کو پیش نظر رکھیں گے اور دوسری طرف آپ اپنے اگلے اشکالات یا اعتراضات میں ان نکات کو ضرور مد نظر رکھیں گے ۔جزاک اللہ
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ بھائی آپ کی پوسٹ پر کچھ تحفظات ہیں وہ بعد میں پیش کرونگا پہلے آپ مجھے پوائنٹ نمبر4 کاجواب عنایت فرمادیں۔
مسلم الثبوت وغیرہ کی تعریفات میں ایک نقطہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ
عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اصطلاح میں نہیں؟ کیا یہ میں صحیح سمجھا ہوں ؟؟
 

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن
محترم اصلی حنفی بھائی عرف کے معنی ہیں “پہچان، شناخت ،عام طور پر مشہورہوجانا، عوام میں جانا پہچانا“۔۔۔۔۔اور اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ کسی لفظ کے کوئی خاص معنی کسی علم یا فن وغیرہ کے ماہرین کی طرف سے مقرر کرنا۔
لہذا جب کسی لفظ (جیسے تقلید) کی اصطلاح ماہرین فن نے متعین کردی ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ لفظ (تقلید)عرف میں کن کن مواقع پر مشہور ہوا اس سے فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔بلکہ جس مقام پر بھی لفظ “تقلید“ اپنی اصطلاحی شرائط پر پورا اترے گا وہاں مراد اصطلاحی ہی ہوگی اور جس مقام پر بھی لفظ “تقلید“ اپنے اصطلاحی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو وہاں آپ تقلید کے لغوی معنی لے لیں یا عرف میں مشہور سمجھ لیں ۔
لیکن یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ کسی عمل کو“تقلید“ کی اصطلاح میں داخل ہونے کے لئے قائل یا منکر کا اقرار شرط نہیں ۔۔۔یعنی کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہوجو اس لفظ (تقلید) کی اصطلاحی شرائط پر بھی پورا اترے لیکن دوسری طرف وہ اپنے عمل کو اس اصطلاحی مفہوم میں داخل ہونے کا انکاربھی کرے تو اس شخص کے محض انکار کردینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ یہ عمل اصطلاحی تعریف میں ہی داخل ہوگا ۔۔۔۔جیسا کہ عموما اہل بدعت کے بعض اعمال اہل علم کی مقرر کی ہوئی “بدعت“ کی اصطلاح پر پورا اترتے ہیں لیکن اہل بدعت مختلف تاویلات پیش کرکے اس کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن یقینا اس انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اُن کے عمل کا اصطلاح کی شرائط سے موازنہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔اگر اُن کا کوئی عمل بدعت کی اصطلاح کی شرائط پر پورا اترتا ہے تو وہ اس اصطلاح میں داخل ہوجاتا ہے ۔
امید ہے کہ آپ یہ ایک اور قیمتی نکتہ اپنے پیش نظر رکھیں گے۔جزاک اللہ
(اور آخری گذارش یہ ہے کہ جب بھی آپ اپنے تحفظات ،اشکالات یا اعتراضات پیش فرمانا چاہیں تو ایک ایک نکتہ کو علیحدہ علیحدہ پیش فرمائیے گا جس سے بات چیت کسی الجھن کا شکار نہیں ہوگی کیوں کہ عموما دیکھا گیا ہے کہ بیک وقت ایک سے زائد نکات لے کر چلنے سے بات چیت الجھتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔۔اور دوسری درخواست یہ ہے کہ بات کو جتنا مختصر رکھیں گے اتنا ہی سمجھنا سمجھانا آسان رہے گا۔جزاک اللہ)
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
بھائی جان شاید پہلے بھی کہا تھا کہ جتنی بات پوچھی جائے صرف اس بات کا ہی جواب دیا جائے۔امید ہے کہ اب خیال رکھا جائے گا۔ کیونکہ اس سے پھر بحث دور نکل جاتی ہے۔ ٹریک کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔اگر آپ کی اس پوسٹ پر ہی میں کچھ لکھوں تو پھر بحث مقصود سے باہر نکل جائے گی۔اس لیے میں گریز کرتا ہوں اور آپ بھی دھیان رکھیں۔ مسلم الثبوت کی تعریف میں یہ الفاظ
’’ لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔‘‘
اس عبارت سے یہ مفہوم روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تقلید اصطلاحی میں نص پر عمل تقلید نہیں اور نہ ہی عامی کا مجتہد سے مسئلہ پوچھنا تقلید کے ذمرے میں آتا ہے۔ ان دونوں نقطوں میں سے پھلانقطہ ’’ نص پر عمل تقلید نہیں‘‘ جس کا جواب آپ نے یوں دیا تھا
’’گو آپ کا اخذ کیا ہوا مفہوم اپنی جگہ درست ہے‘‘ یعنی آپ بھی مان گئے کہ نص پر عمل کرنے کو تقلید نہیں کہتے۔ لیکن رہا دوسرا نقطہ اس کا فائنل جواب ابھی تک آپ نے نہیں دیا۔ پس بات کو الجھانے کےلیے عرف واصطلاح کے معنی ومفہوم کے چکر میں پڑ گئے۔

عزیز محترم
ٹو دی پوائنٹ جواب عنایت کریں کہ
نبی علیہ الصلاة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں۔ یعنی نص پر
عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں
قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں
یعنی اصطلاح میں ان سب باتوں کو تقلید نہیں کہیں گے بلکہ اتباع کا نام دیں گے لیکن عرف میں ان پر اگر تقلید کا لفظ بول دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
تو کیا آپ متفق ہیں کہ
عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اصطلاح میں نہیں؟
ٹو دی پوائنٹ جواب ہے۔

تضاد کی وضاحت
پوسٹ نمبر36 سے ابھی صرف ایک تضاد کو پیش کررہا ہوں۔امید ہے کہ وضاحت ہوگی۔
بھائی میں نے تعریف میں سے ایک نقطہ کچھ یوں واضح کیا تھا کہ ’’تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے۔‘‘ اس پر آپ نے کہا کہ
”اگر چہ دلیل اپنی جگہ موجود ہے لیکن سائل مسئول سے حسن ظن رکھنے کی وجہ سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا ‘‘
اور پھر جب یہ کہا گیا کہ نص پر عمل تقلید نہیں تو جس کی وضاحت آپ نے کچھ یوں کی
’’یعنی ایک مسئلہ ہے کہ ایک عام مسلمان کا عالم سے سوال پوچھنا
اور دوسرا مسئلہ ہے کہ جو کچھ عالم بتائے اُس کو مان کر عمل کرنا
پہلا مسئلہ نص سے ثابت ہے۔۔لہذا عام مسلمان کا عالم سے سوال پوچھنا تقلید نہیں۔
لیکن دوسرا مسئلہ یعنی عالم نے جو عامی کو بتایا اُس کو مان کر عمل کیا ۔۔۔یہ تقلید ہے ۔‘‘
تضاد:
جب پوچھا گیا کہ تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہیں یا تقلید بلامطالبہ دلیل تو آپ کے الفاظ کامفہوم کہ بلا مطالبہ دلیل۔
اور جب کہا گیا کہ نص پر عمل تقلید ہے یا نہیں؟ تو اس کی وضاحت میں آپ نے کہا
عامی کا عالم سے سوال کرنا تقلید نہیں لیکن عالم کاجواب دینا تقلید ہے۔
تو کیا جو عالم جواب دے گا اس کی دلیل شریعت میں نہیں ہوگی ؟ اگر تو دلیل ہوگی پھر تقلید نہیں لیکن اگر دلیل نہیں ہوگی پھر تقلید ہے۔
اس کی وضاحت درکار ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top