احمدقاسمی نے کہا ہے:مراسلہ نگار حضرات سے گزارش ہے۔شخصیات کا تذکرہ ادب وتہذیب کے دائرہ میں کریں ۔جو ہمارے اسلاف امت کا طریقہ کار رہا ہے ۔حتی الامکان دلازاری جیسے الفاظ والقاب استعمال نہ فر مائیں۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:“تقلید کیوں نہ کی جائے “۔۔۔ اور ایک عام آدمی تقلید نہ کرے تو کیا کرے ؟؟؟
نعیم نے کہا ہے:اصلی حنفی صاحب کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔اگر آپ حق کے متلاشی تھےتو“الکلام فی اثبات التقلید “ کا مطالعہ کافی تھا وہ تمام گھسے پٹے سوالات جو اٹھا رہے ہیں مذکورہ کتاب میں کافی وشافی جوابات موجود ہیں۔
میری گزاش ہے باقی باتیں چھوڑ کر اصل مقصد کی طرف آجائیں۔ہم تم کو آزمائیں تم ہم کو آزماؤ۔کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے اس میدان کے آپ پرانے کھلاڑی ہیں ۔گستاخی معاف
بات پھر گھوم پھر کر وہی آجائے گی ۔۔۔کہ جس عام مسلمان نے مسئلہ تقلید سمجھنا ہے اُسے حوالہ جات کی نہیں بلکہ اپنے اشکالات دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔لہذا اگر آپ واقعی مسئلہ تقلید سیکھنا سکھانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو لغوی و اصطلاحی تعریفات کی بحث میں الجھنے کے بجائے ٹودی پوائینٹ اپنا وہ اشکال پیش فرمائیں جو آپ کے لئے الجھن کا باعث بن رہا ہےاصلی حنفی نے کہا ہے:جناب محترم ناصر صاحب حفظہ اللہ آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کہ میں آپ کامہمان ہوں اور جس چیز کو آپ واجب کہتےہیں اسی کےمتعلق پوچھنے آیاہوں۔ اور وہ بھی آپ کے گھر۔ تاکہ اپنی تمام تر کنفیوژن دور کرکے اس واجب پر عمل کرسکوں۔جس پر آج تک عمل سےمحروم رہا ہوں
جناب اصلی حنفی صاحب شاید آپ کے علم میں نہیں ۔۔۔ہم آپ کے مشورے سے قبل یہ سعی کرچکے ہیں اور اُن لوگوں کی محفل (اردو محفل) میں اپنا یہ موضوع پیش کرچکے ہیں جو حضرات تقلید کے قائل نہیں۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ وہاں پر تو ایک ہی کوشش جاری تھی کہ مقلدین کو کس طرح زیر کیا جاتا ہے ؟؟؟اصلی حنفی نے کہا ہے:آپ نےاگر یہ پوچھنا ہےکہ تقلید کیوں نہ کی جائے؟ تو پھر بھائی میرے اپنے گھر سےباہر نکلو اور ان بھائیوں کے فورمز وغیرہ پہ چکر لگاؤ جو کہتے ہیں کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
بھائی ٹائم تو زیادہ ہمارے پاس بھی نہیں ہوتا اور ہم بھی آپ کی طرح ہی اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے کہ آپ کو مذکورہ مسئلہ سمجھا سکیں ۔۔۔۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ اور ہم ایک ہی کیٹیگری کے معلوم ہوتے ہیں لہذا آپ اپنے اشکال پیش کریں ہم اپنے محدود علم کے مطابق سیکھنے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لنگڑا راستہ بتاتا جائے اور اندھا چلتا جائے کے مصداق شاید کہ ہم دونوں کو ہی منزل مل جائے ۔۔۔۔لیکن نیت میں اخلاص شرط ہے (یہ بہت اہم بات ہے)اصلی حنفی نے کہا ہے:اور پھر میرے پاس ایک تو زیادہ ٹائم نہیں ہوتا اور دوسرا میں اپنے آپ کو اس اہل بھی نہیں سمجھتا۔واضح اور کھری بات کرنا ہی اچھاہوتا ہے۔
اور ہاں آپ بھی مقلد ہیں۔اور ساتھ آپ کااس بات پر بھی یقین ہوگاکہ تقلید شخصی واجب ہے۔تو آپ ہی مجھے سمجھا دیں۔
مجھے حیرت ہے کہ 24 پوسٹس ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک تقلید کی تعریف ہی حل نہیں ہوپائی؟
بات موضوع پر رکھیں تو طریفین کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ورنہ صفحات فورم تو بھر جاتےہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:بات پھر گھوم پھر کر وہی آجائے گی ۔۔۔کہ جس عام مسلمان نے مسئلہ تقلید سمجھنا ہے اُسے حوالہ جات کی نہیں بلکہ اپنے اشکالات دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:لہذا اگر آپ واقعی مسئلہ تقلید سیکھنا سکھانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو لغوی و اصطلاحی تعریفات کی بحث میں الجھنے کے بجائے ٹودی پوائینٹ اپنا وہ اشکال پیش فرمائیں جو آپ کے لئے الجھن کا باعث بن رہا ہے-
ناصر نعمان نے کہا ہے:بھائی ٹائم تو زیادہ ہمارے پاس بھی نہیں ہوتا اور ہم بھی آپ کی طرح ہی اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے کہ آپ کو مذکورہ مسئلہ سمجھا سکیں ۔۔۔۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:جو تعریف آپ مقلدین میں معتبر سمجھتے ہیں اور اُس پر آپ کو جو اشکال ہے وہ ہی واضح فرمادیں ۔۔۔۔ اگر توہمارے علم میں ہوا تو واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔جزاک اللہ
جناب عالی ایک بات آپ بھول رہے ہیں شاید پہلی پوسٹ میں آپ نے حوالہ کا مطالبہ کیا تھا ملنگ صاحب نے “الکلام فی اثبات التقلید“ کی لنک دی تھی ۔اب سوال یہ ہے کیا آپ نے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر لیا ۔اگر ہاں تو اس کی عبارت پر جو اشکال ہو وہ پیش کریں ۔اگر نہیں تو براہ کرم مطالعہ کرلیں ۔دوسری بات جو میں نے کہی تھی وہ یہی تھی کہ اصل مطلب کی طرف آئیں۔ وہ اس کے علاوہ اور کیا تھی جس کے متعلق “ناصر نعمان صاحب نے لکھا ہے “ مجھے لگتا ہے آپ صرف الجھاؤ پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے نہیں ورنہ کیا بات ہے کتاب میں تفصیلی بحث اس موضوع پر لکھی ہے وہ آپ کو سمجھ نہ لگے ۔اصلی حنفی نے کہا ہے:نعیم نے کہا ہے:اصلی حنفی صاحب کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔اگر آپ حق کے متلاشی تھےتو“الکلام فی اثبات التقلید “ کا مطالعہ کافی تھا وہ تمام گھسے پٹے سوالات جو اٹھا رہے ہیں مذکورہ کتاب میں کافی وشافی جوابات موجود ہیں۔
میری گزاش ہے باقی باتیں چھوڑ کر اصل مقصد کی طرف آجائیں۔ہم تم کو آزمائیں تم ہم کو آزماؤ۔کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے اس میدان کے آپ پرانے کھلاڑی ہیں ۔گستاخی معاف
نعیم بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیاتھا۔چلیں اگر باقی علماء بقول ناصر بھائی کے مصروف ہیں تو نعیم صاحب مجھے سمجھا دیں
کیاخیال ہےنعیم صاحب ؟
مجھے توتقلید سمجھنی ہے
بابا
تقلید مجھے سمجھا دو
نعیم نے کہا ہے:جناب عالی ایک بات آپ بھول رہے ہیں شاید پہلی پوسٹ میں آپ نے حوالہ کا مطالبہ کیا تھا ملنگ صاحب نے “الکلام فی اثبات التقلید“ کی لنک دی تھی ۔اب سوال یہ ہے کیا آپ نے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر لیا ۔اگر ہاں تو اس کی عبارت پر جو اشکال ہو وہ پیش کریں ۔اگر نہیں تو براہ کرم مطالعہ کرلیں۔
نعیم نے کہا ہے:مجھے لگتا ہے آپ صرف الجھاؤ پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے نہیں ورنہ کیا بات ہے کتاب میں تفصیلی بحث اس موضوع پر لکھی ہے وہ آپ کو سمجھ نہ لگے ۔
نعیم نے کہا ہے:میں اگر آپ کی بات مان لوں کہ تقلید بقول آپ شرک وغیرہ یا زہر دین وایمان ہے تو ذرا مجھے سمجھا دیں اس مسئلہ میں کس کی بات مانی جائے اور کس کا نظریہ قبول کیا جائے ۔ مسئلہ:صاحب تحفۃ الاحوذی محدث مباکپوری کا۔ جنھوں حیض والی عورت کیلئے قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا یے “ واما قراءۃ الایۃ فلا یجوز لھما البتۃ “ کہ جنبی آدمی اور حیض والی عورت دونوں کے لئے قرآن کریم کی مکمل آیت کی تلاوت بالکل جائز نہیں (تحفۃ الاحوذی ج1 ص 124 ) اسی طرح نورا الحسن خاں بھو پالی فر ماتے ہیں جنبی آدمی اور حیض والی عورت کے لئے مسجد میں آنا اور قرآن کریم پڑھنا حرام ہے ۔ یا پھر علامہ نواب وحید الزماں کا نظریہ کہ “ وورخصوا للحائضۃ المتعلمۃ فی مس الصحف والتلاوۃ ( نزل الابرار ج 1ص 26)
اسی طرح اپنی کتاب کنز الحقائق ص 15 میں بھی حیض میں مبتلا طالبہ کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کی اجازت دیتے ہیں ۔
فیصلہ آپ فر مادیں ان دو علماء میں سے کس کی بات مانی جائے اور کس بات بنیاد ۔ان کے تبحر علمی اور زہد وتقویٰ پر بھروسہ کر کے دونوں کی بات مان لی جائے یا ایک کی بات کو مان کر دوسرے کی تضحیک کی جائے ۔یا پھر علماء احناف کے نظریہ پر زہد وتقویٰ پراعتمادکر کےکسی ایک کی بات مان لی جائے اور دوسرے کو نظر انداز کر دیا جائے ۔یا پھر ۔۔۔ دونوں سے دلیل طلب کی جائے اور دلیل پر اعتماد نہ ہویا سمجھ میں نہ آئے(کیونکہ عامی آدمی تو دلیل سمجھ نہ سکے گا) تو ہوائے نفس کی بنیاد پر عمل کیا جائے ۔
اب آپ مجھے سمجھادو
اصلی حنفی نے کہا ہے:لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔
محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے قول یا فعل کے حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کین تعریف کو بھی ہم درست کرتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتطار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مث آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہاندھی تقلید ہے ۔ جاہل جاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے یا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات و مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ ڈاکٹر کے لکھے نسخے میں مریض کا سوچ بچار کرنا اور تحقیق کرنا کیا گُل کھلا سکتا ہے سوچنے کی بات ہے ۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔
محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے امام کے پیچھے مقتدی نماز پڑھتے ہیں اور دونوں کی نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز اللہ کے بجائے امام کے لئے نہیں ہو جاتی اسی طرح امام کی تقلید کر لینے سے قرآن وحدیث پر عمل کے بجائے امام کے قول پر عمل نہیں سمجھنا چاہئے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے قول یا فعل کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
اصلی حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو بھی ہم درست کہتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مچ آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہ اندھی تقلید ہے ۔ جاہل اگرجاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے چلےیا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔ (جاہل کے بھی درجے ہوتے ہیں اور عالم کے بھی درجے ہوتے ہیں ۔وفوق کل ذی علم علیم ۔اصلی حنفی صاحب کیا آپ یا ہم یا آج کا کوئی بھی شخص امام بخاری کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے لہذا یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کے لوگ ان کے رفقاء سمیت کیا سب جاہل ہیں ۔)
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ اور ایرے غیرے کی اس لئے نہیں مانتے کہ ان میں وہ کمال نہیں۔
اگر توہماری نیت میں شرارت نہیں بلکہ خلوص ہوگا تو ہم اپنے اشکال پیش کرکے آپ سے وضاحت طلب کریں گے ناکہ آپ کے مولویوں کی معتبر کتابوں سے اپنی مرضی کے الفاظوں میں حوالاجات ؟؟؟اصلی حنفی نے کہا ہے:یعنی جو بھی جیسے بھی جس طرح بات ہو وہ مان لی جائے؟
بھائی میرے وجوب کی بات ہے اور وجوب کو ایسے تو نہیں مانا جائے گا۔مثلاً میں آپ کو کہوں کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا واجب ہے۔تو کیا آپ مان لیں گے؟
اس کے لئے مقلدین کو الزام دینے کے بجائے اپنی عقل پر افسوس کریں کہ آپ آج تک اتنا معمولی مسئلہ نہ سمجھ سکے جو دنیائے اسلام کا 90 یا 80 فیصد طبقہ سمجھ سکتا ہے ۔اصلی حنفی نے کہا ہے:مجھے تو پوری تقلید ہی الجھن لگتی ہے کیا اشکال پیش کروں۔اس وجہ سے تو شروع سے اینڈ تک سمجھنے کےلیے آیاہوں۔
وہی تو آپ سے بار بار پوچھا جارہا ہے کہ آپ اپنے اشکالات پیش فرمائیں لیکن آپ نے تو مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح “لغوی اور اصطلاحی “ تعریف کی گردان کی ہوئی ہے ؟؟؟اصلی حنفی نے کہا ہے:جہاں جہاں جس جس کی عبارت پہ مجھے اشکالات ہونگے۔میں بلاجھجھک پیش کرتا جاؤں گا۔آپ کاکام ہے کہ میرے اشکالات کا مدلل و مثبت جواب دینا
آپ جیسوں کے لئے ہمارے صاحب علم کو اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔آپ اپنا اشکال پیش فرمائیں اور دیکھیں کہ کہیں آپ کا مسئلہ اتنا معمولی تو نہیں ہے کہ اُس کے لئے چند مبتدی ہی کافی ہیں؟؟؟ہاصلی حنفی نے کہا ہے:جب اہل نہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ آپ ایک طرف ہوجائیں اور صاحب علم کو بات کرنے کا موقع دےدیں۔تاکہ اندھیرےمیں ٹامک ٹوئیاں نہ ماری جائیں
یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس کا ہم نے شروع میں گمان ظاہر کیا تھا کہ آپ یہاں کچھ سیکھنے سمجھنے نہیں آئے بلکہ مقلدین کو ہرانے کی نیت سے آئے ہیں ۔۔۔۔۔جس کا آپ نے برملا اظہار فرماہی دیا ۔اصلی حنفی نے کہا ہے:وہی تو تعریف پیش کی تھی لیکن ملنگ بابا صاحب نے کچھ لب کشائی کی لیکن پھر خاموشی چھا گئی
لیکن اب تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف آپ لوگ ہی پیش کریں گے۔تاکہ بات مثبت ہوتی جائے یہ نہ ہو کہ میں پیش کردوں اور بعد میں وہی بات پیش کرنی پڑ جائے تو آپ لوگوں کا یہ جواب ہو کہ یہ بات تو ہم نے پیش ہی نہیں کی تھی۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:چلیں تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سے ہی شروع کردیں تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے۔جزاک اللہ
شرر نے کہا ہے:اصلی حنفی نے کہا ہے:لغات کی کتاب سے جو تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف سمجھ میں آتی ہے وہ کچھ یوں ہے
تقلید کی لغوی تعریف
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات میں تقلید کی لغوی تعریف کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتی ہے۔
’’دین میں بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی ایسے شخص کی (جو نبی نہیں ہے) بات ماننا ‘‘
مجھے تو لغت کی کتب سے یہ لغوی تعریف سمجھ آئی ہے۔اگر لغوی تعریف غلط ہے تو برائے مہربانی توجہ دلائیے۔
محترمی اصلی حنفی صاحب
السلام علیکم
احقر نے آپ کے اصرار پر تقلید کو سمجھانے کی مختصر سی کو شش کی ہے سب سے پہلے تقلید کے بارے میں اور اس کی تعریف کے تعلق سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اللہ ہم سب کو حق کی اطاعت نصیب کرے اور تعصب سے حفاظت فرمائے ۔
تقلید: باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانا، قلادہ ڈالنا ،مالا پہنانا ، طوق پہنانا ، پٹہ ڈالنا ( پٹہ اپنے گلے میں ڈلوانانہیں) عربی میں بولا جاتا ہت قلد البعیر اونٹ کو قلادہ پہنایا ( اونٹ کا قلادہ پہنا غلط تر جمہ ہو گا ) قلد الشاۃ بکری کو مالا پہنایا ۔ قلدہ امرا کسی کو کوئی کام کرنے کا ذمہ دار بنانا ۔ بعض حضرات جو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں تقلید کے معنیٰ ہیں اپنے گلے میں پٹہ ڈالوانا ( یہ بیچارے بیمار ذہن والے یہ بھی نہیں جانتے کہ قلادہ کے معنیٰ ہا ریعنی مالا کے بھی آتے ہیں ۔بعض حضرات اپنے معدے کی غلاظت نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقلدین پالتو کتے ہیں انہوں نے اپنے گلے میں اماموں کی تقلید کا پٹہ ڈال رکھا ہے ۔اردو میں گلے کا ہار بنانا محاورہ ہے ۔ معنیٰ ہے محبوب بنا نا انتہائی قریب کرنا ۔
مذکورہ مقولے کا جواب یہ ہے کہ غیر مقلدین گویا آوارہ کتے ہیں اور فالتو ہیں ۔پالتو اور فالتو کا فرق بیشتر جاہل بھی جانتے ہیں )
مقلد اسم فاعل ہے اس کے معنیٰ ہیں ہار پہنانے والا (نہ کہ خود پہننے والا ) جیسے لوگ صدرِ مملکت ،وزیر اعظم یا دوسری پسندیدہ شخصیات ( شعراء ادباء وغیرہ ) کو عقیدت ومحبت سے ہار پہناتے ہیں ۔
ائمہ اربعہ رحمھم اللہ کے گلے میں عقیدت ومحبت اور خلوص والفت کا ہار دالنے والے مقلدین کہلاتے ہیں اور ان کے مخالفین غیر مقلد۔
تقلید کی اصطلاحی تعریف :
امام الہند حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو غیر مقلدوں کے تر جمان القرآن مرحوم مولوی جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں ۔
شیخ الحدیث مولوی اسماعیل سلفی صاحب ( گو جرا والا ) نے اپنی ایک تصنیف میں شاہ صاحب کو غیر مقلدیت کا بانی بتا یاہے اور بہت سے غیر مقلد حضرات بھی ان کو معتبر مانتے ہیں لہذا تقلید کی تعریف جو شاہ صاحب نے کی ہے میں پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔
“ ان یکون اتبا عاا لروایۃ دلا لۃ یعنی بات ثبوت کی ہو اور الفاظ مجتہد کے ہوں اس کو مان لینا تقلید ہے “ (عقد الجید ص 28 )
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ہے
تقلید ۔
معنیٰ اپنے ذمہ کوئی کام لینا۔ مجاز کسی کی پیروی کرنا ۔آگے لکھا ہے تقلید کے معنیٰ ہے لغوی طور پر پیروی کرنا ص 176 جلد 2 ۔
اتباع ِ روایت سے معلوم ہوا کہ اصل میں امام یا عالم کی تقلید نہیں ۔ روایت( قرآن وحدیث ) کی تقلید ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مُقَلَد۔ متبوع یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے پاس دلیل ہو تی ہے ۔البتہ وہ خود یا اس کا قول دلیل شرعی نہیں ہوتا ۔
من لیس قولہ حجۃ اور من لم یکن قولہ حجۃ کا یہی مطلب ہے کہ امام کی اپنی رائے اور بات حجت یعنی دلیل شرعی نہیں اصل حجت قرآن وحدیث ہے جن کا وہ ماہر عالم اور واقف ہے اور جن کی روشنی میں مسئلے کی تحقیق کرتا ہے امام کے پیچھے مقتدی نماز پڑھتے ہیں اور دونوں کی نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز اللہ کے بجائے امام کے لئے نہیں ہو جاتی اسی طرح امام کی تقلید کر لینے سے قرآن وحدیث پر عمل کے بجائے امام کے قول پر عمل نہیں سمجھنا چاہئے ۔ شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف میں دلالت کا لفظ یہ بتا نے کے لئے کہ امام صرف رہنمائی کرتا ہے وہ منزل مقصود نہیں ۔
قاضی اعلیٰ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے قول یا فعل کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے ۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا ۔( کشاف اصطلا حات الفنون ص 1178)
گلے کا ہار بنانے کا مفہو اوپر گزرا
خلاصہ یہ کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو اجو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان با دلیل باتوں کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا عرف میں تقلید کہلاتا ہے ۔
اصل تو مسائل ہیں مسائل معلوم ہو گئے تو عمل کے لئے کافی ہے ۔دلیل پو چھنے اور دلیل کے مطالبہ کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں نہیں دیا گیا اس لئے کہ عمل کرنے والے کا کام مسائل سے پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد دلیل کی تلاش میں لگنا عمل کے درمیان حارج وحائل ہے ۔
( لیکن یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے مستفتی عام طور سے استفتا ء کے اخیر میں قرآن وحدیث سے جواب دیں لکھ دیا کرتا ہے وہ گنہگار نہیں کوئی نہ لکھے تو بھی گنہگار نہیں یہ جھگڑے کی بنیاد نہیں ہے )
مطالبہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دلیل نہ ہو ۔
اصلی حنفی صاحب آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو بھی ہم درست کہتے ہیں البتہ اس کی تشریح کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو بعد میں اعتراض اور جواب کے انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔
آنکھیں بند کر کے کسی کی بات ماننا یا آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا تسلیم وقبول اور اعتماد میں مبالغہ کیلئے لکھا اور بو لا جا تا ہے سچ مچ آنکھ پر پٹی با ندھنا ، ہاتھ رکھنا یا کسی چیز سے بند کرنا مراد نہیں ہوتا ۔ اس جملے میں ظاہری معنیٰ کے علاوہ دو باتیں اور بھی ہیں ۔
(1) اندھے کو آنکھ بند کر نے کی ضرورت نہیں آنکھ والا ہی آنکھ بند کرتا ہے یعنی مقلد آنکھ والا بصارت وبصیرت والا ہوتا ہے۔ غیر مقلدوں کی طرح بصیرت وبصارت کا دشمن نہیں ہوتا ۔( اس قسم کے الفاظ کو غیر مقلدین ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کٹ حجتی کرکے اندھی تقلید کا الزام دیتے ہیں۔اندھی تقلید کیا ہے وہ بھی سمجھ لیجئے ۔ اندھا اگر اندھے کے پیچھے چلے تو یہ اندھی تقلید ہے ۔ جاہل اگرجاہل کی تقلید کرے تو یہ اندھی تقلید ہے اندھا آنکھ والے کے پیچھے چلےیا جاہل عالم کی تقلید کرے تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہیں گے ۔ (جاہل کے بھی درجے ہوتے ہیں اور عالم کے بھی درجے ہوتے ہیں ۔وفوق کل ذی علم علیم ۔اصلی حنفی صاحب کیا آپ یا ہم یا آج کا کوئی بھی شخص امام بخاری کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے لہذا یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کے لوگ ان کے رفقاء سمیت کیا سب جاہل ہیں ۔)
(2) اعتماد بھروسہ اور محبت کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے اور وہ ہے سامنے والے کی عظمت ۔ اس کا کمال ۔ اس کی فنی مہارت ۔ اس کا تجربہ یا پھر اس کی محنت وخدمت ۔ مقلدین ائمہ اربعہ کی بے سوچے سمجھے تقلید کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے ان کی بات مان لیتے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا گہرا علم خوف الٰہی۔ تقویٰ اور اجتہاد میں کمال جتنا ان کو حاصل ہے اُتنا کسی کو نہیں ۔ اور ایرے غیرے کی اس لئے نہیں مانتے کہ ان میں وہ کمال نہیں۔
شکریہ مفتی شرر صاحب
آپ نے حنفی بھائی کا مطالبہ پورا فرمادیا ۔اب ان پر لا زم ہے مزید بات آگے بڑھائیں “مرغے کی ایک ٹانگ پکڑنے کے مصداق نہ بنیں ،میرا گمان ہے اب تقلید کی جتنی تعریف کی گئیں یا تو محترم کی سمجھ میں نہ آئیں یا سمجھنا نہ چاہا۔ع:تو ہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں ۔
لیجیے جناب آپ کے بے حد اصرار پر ملاحظہ فرمائیں تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف:اصلی حنفی نے کہا ہے:اوکے جان میں متفق ہوں آپ کسی معتبر کتاب سے تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف پیش فرمائیں۔تاکہ بات کو سمجھنے سمجھانےمیں آسانی ہو۔ اور پھر بات بھی ایک ترتیب سے چلتی جائے۔تاکہ میرے ساتھ قارئین کو بھی فائدہ ہو۔
ناصر نعمان نے کہا ہے:لیجیے جناب آپ کے بے حد اصرار پر ملاحظہ فرمائیں تقلید کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
ناصر نعمان نے کہا ہے:”القاموس الوحید“ میں لغوی تعریف یوں منقول ہے ے:
1:- قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحید:1346)
ناصر نعمان نے کہا ہے:2:-التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحید:1346)
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور “تقلید“ کی اصطلاحی تعریف مسلم الثبوت وغیرہ میں یوں منقول ہے :
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور حضرت مولانا قاضی محمد اعلیٰ صاحب تھانوی رحمہ اللہ سے تقلید کی تعریف یوں منقول ہے :
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل متقدا الحقیقۃ من غیر نظر الیٰ الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ دلیل (کشاف اصطلاحات الفنون ص 1178)
یعنی تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قول یا فعل میں محض حسن عقیدت سے اس کی اتباع کرے اس کو حق سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کے ملاحظہ کرنے کے گویا اس اتباع کرنے والے نے غیر کے قول یا س کے فعل کو بغیر دلیل کے مطالبہ کے اپنے گلے کا ہار بنالیا
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور علامہ ابن مالک رحمہ اللہ اور علامہ ابن العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو عبارۃ عن اتباعہ فی قولہ او فصلہ معتقد اللحقیۃ من غیر تامل فی الدلیل (شرح منار مصریص 252)
یعنی تقلید دوسرے کے قول یا س کے فعل میں اس کی اتباع کا نام ہے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور حسامی کی شرح نامی میں ہے :
التقلید اتباع الغیر علیٰ ظن انہ محق بلا نظر فی الدلیل (ص 190)
یعنی تقلید غیر کی اتباع کا نام ہے دلیل کی طرف دھیان کئے بغیر اس خیال سے کہ غیر اہل حق میں سے ہے
ناصر نعمان نے کہا ہے:لیجیے جناب اصلی حنفی صاحب فرمائیے کہ آپ کو ان تعریفات میں کیا اشکال در پیش ہے ؟؟
محترم جناب اصلی حنفی صاحب نہ تو یہ بات چیت کوئی روایتی مناظرہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی عدالتی کاروائی ہے جو آپ کو تصدیقات کی ضرورت محسوس ہوئی ۔۔۔بلکہ آپ کا مقصد”مسئلہ تقلید“ سمجھنا ہے ۔۔۔۔لہذا آپ سے ایک بار پھر گذارش ہے کہ براہ کرم آپ اپنے مقصد کو نہ بھولیں ۔۔۔۔اور اس بات چیت کو روایتی مناظرہ کی طرف نہ لے کر جائیں ۔۔۔۔آپ سے کئی مرتبہ گذارش کی جاچکی ہے کہ آپ کو ”مسئلہ تقلید“ پرجو بھی اشکال یا اعتراضات ہیں وہ واضح فرمائیں تاکہ اُن کی وضاحت کی جاسکے ۔۔۔لیکن پہلے تو آپ ”تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات “ کے مطالبہ پر مصر رہے ۔۔۔اور اب جبکہ آپ کو دونوں تعریفات واضح کردیں گئیں ہیں لیکن پھر بھی آپ اپنے اشکال یا اعتراض پیش کرنے کے بجائے ایسے ”تصدیقات“مانگ رہے ہیں جیسے کوئی مناظرہ ہورہاہو یا عدالتی کاروائی ہورہی ہو؟؟اصلی حنفی نے کہا ہے:نوٹ
آپ ان چار باتوں کی وضاحت فرمادیں۔اگلی باتیں بعد میں ٹائم کی قلت پر صرف ان باتوں کی تصدیق پوچھی ہے۔
اگر کسی لفظ کے لغوی اعتبار سے کئی معنی نکلتے ہوں تو ضروری نہیں کہ ہر مقام پر اُس لفظ کے تمام لغوی معنوں کا اطلاق ہوگا ۔۔۔بلکہ موقع محل کے اعتبار سے معنوں کا تعین کیا جاتا ہے ۔۔۔امید ہے آپ یہ نکتہ ملحوظ رکھیں گے۔اصلی حنفی نے کہا ہے:یہاں پر کچھ الفاظ نقل ہوئے ہیں بنا دلیل، آنکھ بند کرکے،بے سوچے سمجھے۔ان کو آپ نے لکھا ہے اور ظاہر ہے آپ ان سےمتفق بھی ہیں۔
آپ اپنا جواب سمجھنے سے قبل پہلے توایک اہم ترین نکتہ تو یہ ذہن نشین فرمالیں کہ اکثر اوقات مختلف عبارتوں کے کئی کئی مفہوم بھی نکل آتے ہیں ۔۔۔جس کے لئے کسی بھی مفہوم کا تعین کرنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ یا تو صاحب عبارت سے دریافت کرلیا جائے ۔۔۔لیکن اگر صاحب عبارت موجود نہیں تو پھر جو ان کے پیروکار ہیں وہ مذکورہ عبارت کی وضاحت کرسکتے ہیں ۔۔۔۔یا اگر وہ عبارت کسی عمل سے تعلق رکھتی ہے تو پھر عمل کی بنیاد پربھی عبارت کا مفہوم متعین کیا جاسکتا ہے۔اصلی حنفی نے کہا ہے:کیا تعریف سے جو یہ چار باتیں اخذ کی ہیں آپ اتفاق رکھتےہیں
1۔تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے۔
2۔نص پر عمل تقلید نہیں
3۔عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔
4۔عرف میں ان سب کو تقلید کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اصطلاح میں نہیں
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور حضرت مولانا قاضی محمد اعلیٰ صاحب تھانوی رحمہ اللہ سے تقلید کی تعریف یوں منقول ہے :
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل متقدا الحقیقۃ من غیر نظر الیٰ الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ دلیل (کشاف اصطلاحات الفنون ص 1178)
یعنی تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قول یا فعل میں محض حسن عقیدت سے اس کی اتباع کرے اس کو حق سمجھتے ہوئے بغیر دلیل کے ملاحظہ کرنے کے گویا اس اتباع کرنے والے نے غیر کے قول یا س کے فعل کو بغیر دلیل کے مطالبہ کے اپنے گلے کا ہار بنالیا
ناصر نعمان نے کہا ہے:اور علامہ ابن مالک رحمہ اللہ اور علامہ ابن العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو عبارۃ عن اتباعہ فی قولہ او فصلہ معتقد اللحقیۃ من غیر تامل فی الدلیل (شرح منار مصریص 252)
یعنی تقلید دوسرے کے قول یا س کے فعل میں اس کی اتباع کا نام ہے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)
نیز آپ کااخذ کیا ہوا یہ مفہوم بھی تھوڑی وضاحت رکھتا ہے کہ آپ نے ”مسلم الثبوت “کی عبارت سے یہ مفہوم اخذ کیا :ناصر نعمان نے کہا ہے:اور حسامی کی شرح نامی میں ہے :
التقلید اتباع الغیر علیٰ ظن انہ محق بلا نظر فی الدلیل (ص 190)
یعنی تقلید غیر کی اتباع کا نام ہے دلیل کی طرف دھیان کئے بغیر اس خیال سے کہ غیر اہل حق میں سے ہے
گو آپ کا اخذ کیا ہوا مفہوم اپنی جگہ درست ہے لیکن اس میں آپ یہ بات بھی اپنے پیش نظر کھیے گا کہ یہاں دومسئلے ہیں:اصلی حنفی نے کہا ہے:عامی کا سوال پوچھنا بھی تقلید نہیں۔کیونکہ شریعت نے اس کو سوال کا مکلف ٹھہرایا ہے۔کیونکہ یہ حکم عامی کےلیے نص سے ثابت ہے اور نص پرعمل تقلید نہیں۔