غیر مقلدین کے متضاد فتوے : 1 :

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم ۔ ۔ ۔ اما بعد !
برادران اسلام ! غیر مقلدین کے متضاد فتوے ۔ ۔ ۔ یہ تالیف ہے استاذالحدیث حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب کی جس میں غیر مقلدین حضرات کے متضاد فتوے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اندرونی داستان کو باحوالہ نقل کیا ہے ۔ ۔ ۔ بندہ ان شاءاللہ اسی کتاب { غیر مقلدین کے متضاد فتوے } سے اکتباسات پیش کرے گا تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ قرآن و حدیث کا نعرہ لگا کر عوام کو متااثر کرنے والوں کا اپنا کیا حال ہے اور وہ قرآن و حدیث پہ کتنا عمل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔

ہمارے مہربان غیر مقلد علماء کرام اپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا یے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے ۔ پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں ۔ ۔ ۔
اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ۔ اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔
یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھی ایک دین چار مذہب کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بناسیا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ۔ تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔
اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔
{ ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص18 ۔ 12نومبر 1993ء }
اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔
{ الاعتصام ص19 ۔ 12نومبر 1993ء }
ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا وقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔
مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اسلئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔

جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب

یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم جناب حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔ ۔ ۔
{ فتاوی ثنائیہ ص 633 ج1 و فتاوی علمائے حدیث ص 275 ج4 }

قارہین کرام !

اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اسلئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔

ائمہ مجتہدین کے اختلافات

حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔
اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے ۔
{ فتاوی اہل حدیث 42 ج1 }

قارئین کرام

غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات بھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔
{جاری ہے }
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قیاس

بعض متششد غیر مقلدین حضرات عوام الناس میں یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث کے خلاف اجتہاد اور قیاس کیا ہے ۔ حالانکہ اسکی تردید خود غیر مقلد علماء کر چکے ہیں ۔ چناچہ غیر مقلد عالم شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا ابوالبرکات مرحوم شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سوال ہوا ۔ کیا امام ابو حنیفہ یا کسی اور مجتہد کو اس بنا پر لعنت اللہ کہنا جائز ہے کہ انہوں نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے ۔ وضاحت فرمائیں ؟
اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کسی امام نے بھی حدیث کے خلاف اجتہاد نہیں کیا ۔ حدیث کے خلاف اجتہاد اور پھر امام ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو حدیث کے خلاف اجتہاد کرے وہ امام نہیں ہو سکتا ۔ نہ امام ابو حنیفہ نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا اور نہ ہی کسی اور امام نے ۔ جس وقت حدیث نہیں ملتی اس وقت مجتہد اجتہاد کرتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس پر عمل کرنے سے ضعیف حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے ۔
{ فتاوٰی برکاتیہ ص 306 }
اسی طرح مولانا محمد عبداللہ روپڑی مرحوم نے لکھا ہے ۔ اہل سنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں کہ روایت اوردرایت { یعنی قیاس } کا درجہ مساوی ہے بلکہ حنفیہ تو ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر آگے مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں غرض ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حنفیہ نے ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کردیا ہے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ص14 ج1 }
نیز ایک مقام میں فرماتے ہیں احناف دیوبندی اہلسنت میں شامل ہیں ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ص6ج1}
اور ایک مقام میں حضرات صوفیاء کرام حضرت معین الدین چشتی ، حضرت نظام الدین اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہم کا تزکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بزرگوں کے حالات جو صحیح طور پر ہم کو پہنچے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے مسلک کے متابق متبع سنت تھے ۔
{ فتاوٰی ثنائیہ ص151 ج 1 }
ان عبارات سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے اور نہ ہی حدیث کے مقابل قیاس کو ترجیح دی ہے ۔ ہاں جہاں قیاس کی ضرورت تھی وہاں قیاس کیا ہے ۔ اور اس بارہ میں ان کی محنت دیگر ائمہ کہ بہ نسبت زیادہ نمایا ں ہے ۔ مگر ہے قواعد و ضوابط کے مطابق ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کا عمل بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق سنت کے موافق ہے ۔
{جاری ہے }
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
پاؤں چوڑے کرنا

باجماعت نماز میں مقتدیوں کو صفیں درست رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے تاکہ درمیان میں دراڑیں نہ رہیں ۔ جن میں شیطان گھس کر نمازی کی نماز خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احادیث میں پاؤں ، گھٹنے اور کندھے ملانے کا حکم ہے مگر غرر مقلدین حضرات کو صرف پاؤں ملانے کی فکر ہوتی ہے ۔ اگر ساتھ والا آدمی پاؤں کو ذرا ہٹالے تو یہ نماز کے بعد ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حالانکہ یہ کاروائی ان کے ان کے اپنے مسلک سے ناواقفیت کی بنا پر ہوتی ہے ۔
چناچہ ان کے اپنے علماء نے یوں لکھا ہے ۔
اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بلکل چوڑے نہ کرنا چاہے تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں ۔
اور اس سے پہلے لکھا ہے ۔
پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ص 199۔200 ج2 ۔ و فتاوٰی علمائے حدیث ص 266 ج 4 ، ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ص 6 ، 28 مئی 1999ء }
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
جماعت ثانیہ

متششد غیر مقلدین جماعت ہو چکنے کے بعد مسجد میں آئیں گے تو وہ اصرار کریں گے کہ ہم دوبارہ جماعت کر کے ہی نماز ادا کریں گے ۔ حالانکہ احناف کے ہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو ایسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا درست نہیں ۔ جس کا امام اور نماز کے اوقات متعین ہوں ۔
{ شامی ص 291 ج1 و فتاوٰی رشیدیہ 290 }
اب اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حضرات یا تو اپنی کسی مسجد میں چلے جائیں یا مسجد سے باہر جماعت کرا لیں یا اپنے گھر تشریف لے جائیں وہاں جماعت کرا لیں ۔ جب یہ تمام متبادل صورتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ تو اس کے باوجود ان کا احناف کی مساجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا اصرار سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بریلوی مکتب فکر کا کوئی آدمی کسی دیوبندی یا غیر مقلدین کی مسجد میں اذان سے پہلے یا بعد میں مروجہ صلٰوۃ و سلام یا میت کے لیے تیجہ وغیرہ کی رسم کے لئے اصرار کرے ۔ جیسے اس کا یہ اقدام درست نہیں ۔ اسی طرح احناف کی مساجد میں غیر مقلدین کا دوبارہ جماعت کا اصرار درست نہیں ۔ جبکہ ان کے اپنے علماء نے بھی دوبارہ جماعت کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی رو سے بھی ان حضرات کا اصرار صرف فساد کی نیت ہے اور کچھ نہیں ۔
چناچہ ان کے ہفت روزہ میں پوچھے گے مسائل کے جوابات دینے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ۔
اور دوسری جماعت کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ یہ محض ناگہانی ضرورت کی بنا پر ہے ۔
{ ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص6 ۔ 25 محرم الحرام 1419ھ }
اسی طرح ایک مضمون تعدد جماعت کی مضرتیں کے عنوان سے شائع ہوا اس میں بحث کا خلاصہ یوں پیش کیا گیا ۔
اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقا نہیں کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستورالعمل نہیں بنایا ۔
{ ہفت روزہ الاعصام لاہور ص 20 - 24 جمادی الاولٰی 1416ھ}

قارئین کرام

ہم نے پہلے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ کچھ عرصہ سے بڑے منظم انداز میں یہ پوپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ امت میں اختلاف کی وجہ فقہ ہے ۔ حالانکہ یہ بات بلکل غلط ہے اور بے بنیاد ہے ۔ نیز بعض مقامات میں غیر مقلدین حنفی شافعی اختلافات کا طعنہ دیکر بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ تو ہم نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جزوی مسائل میں اختلافات تو خود غیر مقلدین حضرات کے آپس میں بھی ہیں تو پھر ایسی طعنہ بازی ان کو کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتی ۔
غیر مقلدین میں اختلافی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے ۔ اسئے کہ اختلافی مسائل کے حل اور عمل کے لئے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے کہ اگر حنفی شافعی وغیرہ مختلف مسالک کا اختلاف ہے تو ہر مسلک والا اپنے امام اور اپنے مسلک کے محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرے گا ۔ اور اگر کسی مسلک کے اپنے علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف ہو مفتٰی بھا مسائل پر عمل کیا جائے گا ۔ اور غیر مفتٰی بھا کو ترک کردیا جائے گا ۔ اس لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے ۔ مگر غیر مقلدین ان اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے کونسی صورت اور ضابطہ سے کام لیتے ہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ان کے تمام علماء جنہوں نے مسائل بتائے ہیں وہ سب کے سب صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے دعویدار ہیں اور ہر مسلمان سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے والوں کے درمیان مسائل میں اختلاف کیوں ؟
کیا جن جن حضرات نے مسائل بتائے ہیں ان سب کے مسائل بر حق ہیں ؟
اگر ان میں سے بعض کے مسائل حق پر نہیں توغیر مقلدین کے وہ علماء جو دوسروں کی کتابوں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالتے پر کمر بستہ ہیں کیا انہوں نے اپنے عوام کی سہولت کے لئے حق اور باطل مسائل کو جدا جدا کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے ؟
اور کیا نا حق مسائل بتانے والوں کے خلاف اپنے قلمی اور تقریری جہاد کا رخ موڑا ہے ؟
اگر نہیں تو کیا اس کو مسلکی تعصب کے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے ؟
کوئی تو ڈال دے ان پر جواب کی چادر
مسک رہے ہیں برہنہ سوال چہرے پر

بقیہ حصہ یہاں سے پڑھیں http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=4450
 
Top