نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم ۔ ۔ ۔ اما بعد !
برادران اسلام ! غیر مقلدین کے متضاد فتوے ۔ ۔ ۔ یہ تالیف ہے استاذالحدیث حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب کی جس میں غیر مقلدین حضرات کے متضاد فتوے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اندرونی داستان کو باحوالہ نقل کیا ہے ۔ ۔ ۔ بندہ ان شاءاللہ اسی کتاب { غیر مقلدین کے متضاد فتوے } سے اکتباسات پیش کرے گا تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ قرآن و حدیث کا نعرہ لگا کر عوام کو متااثر کرنے والوں کا اپنا کیا حال ہے اور وہ قرآن و حدیث پہ کتنا عمل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
ہمارے مہربان غیر مقلد علماء کرام اپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا یے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے ۔ پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں ۔ ۔ ۔
اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ۔ اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔
یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھی ایک دین چار مذہب کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بناسیا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ۔ تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔
اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔
{ ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص18 ۔ 12نومبر 1993ء }
اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔
{ الاعتصام ص19 ۔ 12نومبر 1993ء }
ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا وقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔
مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اسلئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔
جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب
یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم جناب حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔ ۔ ۔
{ فتاوی ثنائیہ ص 633 ج1 و فتاوی علمائے حدیث ص 275 ج4 }
قارہین کرام !
اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اسلئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔
ائمہ مجتہدین کے اختلافات
حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔
اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے ۔
{ فتاوی اہل حدیث 42 ج1 }
قارئین کرام
غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات بھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔
{جاری ہے }
برادران اسلام ! غیر مقلدین کے متضاد فتوے ۔ ۔ ۔ یہ تالیف ہے استاذالحدیث حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب کی جس میں غیر مقلدین حضرات کے متضاد فتوے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اندرونی داستان کو باحوالہ نقل کیا ہے ۔ ۔ ۔ بندہ ان شاءاللہ اسی کتاب { غیر مقلدین کے متضاد فتوے } سے اکتباسات پیش کرے گا تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ قرآن و حدیث کا نعرہ لگا کر عوام کو متااثر کرنے والوں کا اپنا کیا حال ہے اور وہ قرآن و حدیث پہ کتنا عمل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
ہمارے مہربان غیر مقلد علماء کرام اپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا یے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے ۔ پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں ۔ ۔ ۔
اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ۔ اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔
یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھی ایک دین چار مذہب کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بناسیا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ۔ تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔
اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔
{ ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص18 ۔ 12نومبر 1993ء }
اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔
{ الاعتصام ص19 ۔ 12نومبر 1993ء }
ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا وقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔
مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اسلئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔
جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب
یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم جناب حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔ ۔ ۔
{ فتاوی ثنائیہ ص 633 ج1 و فتاوی علمائے حدیث ص 275 ج4 }
قارہین کرام !
اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اسلئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔
ائمہ مجتہدین کے اختلافات
حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔
اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے ۔
{ فتاوی اہل حدیث 42 ج1 }
قارئین کرام
غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات بھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔
{جاری ہے }