غیر مقلدین کے متضاد فتوے : 3 :

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
پہلا حصہ یہاں سے پڑھیں ۔ http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=4450

بے نماز کاحکم

بے نماز کے بارے می احادیث میں سخت وعید آئی ہے ۔ حتٰی کہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جان بوجھ کر جو نماز چھوڑے وہ کافر ہو گیا ۔ اکثر علماء تو اس حکم کو تہدید اور تشدید پر محمول کرتے ہیں ۔ جبکہ غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو قسم کے نظریات ہیں ۔

پہلا نظریہ

پہلا نظریہ یہ ہے کہ بے نماز کافر تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے ۔ چناچہ غیر مقلد شیخ الکل فی الکل مولانا نزیر حسین صاحب دہلوی ۔لکھتے ہیں ۔
جن احادیث سے تارک الصلوۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے ۔ ان احادیث سے وہ بلا شبہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا ہے ۔ مگر ہاں تارک الصلٰوۃ کا کفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائے اور مغفرت و شفاعت و دخول جنت کا مستحق نہ رہے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج1 ص463 }
اور مبارکپوری صاحب نے بھی یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے اسی عبارت کو پیش کیا ہے ۔
{ملاحظہ ہو فتاوٰی ثنائیہ ج1 ص 467 و فتاوٰی علمائے حدیث ج4ص263 }
اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں ۔
ہاں فی زمانتا حسب مصلحت وقت تہدیدا تارک الصلٰوۃ کو مطلق کافر کہنا جائز ہے ۔ نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سے محروم کیا جائے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج 4 ص 270 }

دوسرا نظریہ

دوسرا نظریہ بے نماز کے بارہ میں غیر مقلدین حضرات کا یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور ملت اسلام سے خارج ہے ۔چناچہ غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ہاں نماز ایسا رکن ہے کہ اس کے نہ پڑھنے سے ایمان ہی نہیں رہتا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص 116 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ ۔
بے نماز کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ۔ {فتاوٰی اہلحدیث ج2ص46 }
اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ۔
جو کبھی نماز پڑھے اور کبھی نہ پڑھے یا بالکل نماز کا تارک ہو اس کے ساتھ دوستانہ تعلق اور اس کے ساتھ محبت کے طور پر سلوک کرنا یا تحفہ وغیرہ بھیجنا اور ضیافت کرنا بالکل جائز نہیں ۔ ہاں عام لین دین جیسے ہندؤں وغیرہ سے کرتے ہیں ان کی دوکانوں سے سودا وغیرہ لیتے ہیں اور ان کی دوکانوں پر اشیاء وغیرہ فروخت کرتے ہیں اس کا کوئی حرج نہیں ۔ اور اسی صفحہ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج 2 ص 37 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ بے نماز کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 38 }
ایک مقام میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز کی بابت صحیح یہی ہے کہ بالکل کافر ہے ۔ پس اس کے ساتھ کافروں سا سلوک چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 48 }
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔ پھر آگے لکھتے ہیں ۔ اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج3 ص364 }

قارئین کرام

یہ ہیں غیر مقلدین جو مقلدین کے بارہ میں تو خوب شور مچاتے ہیں کہ ان میں یہ اختلاف ہے وہ اختلاف ہے ۔ مگر اپنے گھر کے اختلافات پہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں ۔
{ جاری ہے }
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
بے نماز کی اولاد

غیر مقلدین بے نماز کو کافر کہتے ہیں اور کافر کا تو نکاح ہی معتبر نہیں ۔ جب اس کا نکاح نہیں تو اولاد کو ولدالحرام ہی کہنا چاہیے مگر یہاں آ کر غیر مقلدین کو احتیاط یاد آ گئی اور یوں کہنے لگے ۔
مگر چونکہ بے نماز کا کفر ظنی ہے اس لئے اس کی اولاد کو ولدالحرام کہنے میں زرا احتیاط چاہیے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 47 }
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
قرآن کریم کو بے وضو ہاتھ لگانا

غیر مقلدین حضرات کے نزدیک بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتا ہے ۔ چناچہ غیر مقلد عالم نواب نورالحسن بھوپالی لکھتے ہیں
محدث را مس مصحف جائز باشد ۔
{ عرف الجادی ص15 }
یعنی بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز ہے ۔
اور غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں ۔
ولا یمنع الحدث المس ۔
{ کنزالحقائق ص 15 }
یعنی بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع نہیں ہے ۔
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب نزل الابرار ص 26 ج 1 میں لکھا ہے کہ ۔
ہمارے اکثر اصحاب نے بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیا ہے ۔

قارئین کرام

فیصلہ آپ خود کر لیں کہ میرے اللہ کا حکم ہے کہ پاکی کے بغیر ہاتھ مت لگاو اور غیر مقلدین فرما رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں آپ لگا سکتے ہیں ۔
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
حیض والی عورت کے لئے قرآن کریم کی تلاوت

حیض والی عورت قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے یا نہیں ؟ اس بارہ میں غیر مقلدین کے دو نظریات ہیں ۔

پہلا نظریہ

پہلا نظریہ یہ ہے کہ ایک دو حرف کی تلاوت کر سکتی ہےمگر پوری آیت نہیں ۔
چناچہ محدث مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں :
واما قراء الآ یۃ بتمامھا فلا یجوز لھما البتۃ ۔
جنبی اور حیض والی عورت دونوں کے لئے قرآن کریم کی مکمل آیت کی تلاوت بالکل جائز نہیں ہے ۔
{ تحفۃ الجوذی ج 1 ص 124 }

اسی طرح غیر مقلد عالم نواب نورالحسن خان بھوپالی لکھتے ہیں ۔
و جنب و حائض را در آمدن مسجد و خواندن قرآن حران ست نہ حلال ۔
جنبی آدمی اور حیض والی عورت کے لئے مسجد میں آ نا اور قرآن کریم پڑھنا حرام ہے ۔
{ عرف الجادی ص15 }

دوسرا نظریہ

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اگر حیض والی عورت متعلمہ ہے تو وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کر سکتی ہے اور ہاتھ بھی لگا سکتی ہے ۔ چناچہ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں ۔
ورخصواللحائضۃ المتعلمۃ فی مس المصحف والتلاوۃ ۔
{ نزل الابرار ج1 ص 26 }
یعنی غیر مقلدین حضرات نے طالبہ کے لئے جب کہ وہ حٰض کی حالت میں ہو تو اس کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کی اجازت دی ہے ۔
اسی طرح وہ اپنی کتاب کنزالحقائق ص 15 میں بھی حیض میں مبتلا طالبہ کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔

قارئین کرام

فیصلہ آپ خود فرما لیں کہ ہاتھی کہ دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کی مانند غیر مقلدین کا اپنا کیا حال ہے ۔

{جاری ہے }
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
مولوی نورالاسلام صاحب امید ہے کہ مزاجی گرامی درست ہونگے۔ میں نے آپ سے ایک چھوٹا سا سوال کرنا ہے کہ

کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں اگر جواب ناں میں ہے تو پھر کون تھا ؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ثابت کریں کہ علامہ وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد تھا ؟ اور اس نے اپنی پوری زندگی اپنا مسلک تبدیل نہیں کیا تھا ؟

پہلے اس کو ثابت کرلیں اور پھر بات آئے گی اس پر کہ جو آپ مسائل بیان کرتے جارہے ہیں۔
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
مولوی اصلی حنفی صاحب الحمدللہ مزاج بخیر ہیں اور امید ہے کہ بضل الٰہی آپ بھی خریت سے ہونگے ۔
جس کو دوسرے غیر مقلد عالم غیر مقلد کہتے اور لکھتے ہیں کیا اس کو غیر مقلد لکھنے کے لئےآاب اس کی سند آپ سے لینا پڑے گی جناب عالی میں اس چکر میں پڑنے سے رہا ۔ ہاں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب غیر مقلد نہیں تھے تو آپ اپنے سب غیر مقلدین دوستوں کو بتائیں اور خوب شور مچائیں کہ علامہ وحیدالزمان صاحب غیر مقلد نہیں تھے ۔ جناب ہماری ڈیوٹی نہ لگائیں کہ ہم بتائیں کہ کون غیر مقلد غیر مقلد رہااور کون نہ رہا مجھے امید ہے کہ آپ مولانا نواب نورالحسن صاحب اور مولانا نزیر حسین صاحب کے بارے میں بھی ارشاد فرما دیں گے کہ پہلے انہں غیر مقلد ثابت کرو
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
حضور پرنور مولوی نور!
دیکھیں آپ نے ہی اپنے تھریڈ میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے

’’ اور غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں‘‘ اور پھر ’’چناچہ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں‘‘

تو جناب میں نے سوال کیا ہے کہ حضور نور آپ نے اس آدمی کو غیر مقلد کہا تو کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟

حضور والا جب تم غیر مقلد کہہ رہے ہو تو ثابت بھی تمہیں کرنا ہوگا جیسا کہ میں نے کچھ یوں اپنے الفاظ میں پوچھا تھا

’’ کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں اگر جواب ناں میں ہے تو پھر کون تھا ؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ثابت کریں کہ علامہ وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد تھا ؟ اور اس نے اپنی پوری زندگی اپنا مسلک تبدیل نہیں کیا تھا ؟ ‘‘


مثال کے طور پر میں کسی جگہ گاڑی کی ڈرائیو کرکے گھر آتا ہوں اوراپنے بڑے بھائی کو بتاتا ہوں کہ بھائی جان میں نے گاڑی ڈرائیو کی ہے۔ تو بھائی پوچھیں گے ناں کہ بھائی جان کونسی گاڑی تھی؟ کس کی گاڑی تھی ؟ کیسی گاڑی ٹھی؟ کیا ماڈل تھا؟ کیا کلر تھا۔؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب یا اس میں سے کچھ باتیں تووہ پوچھیں گے۔ تو کیا الٹا میں بھائی کو یوں کہوں کہ بھائی جان یہ سب باتیں آپ مجھے بتائیں تو جناب حضور نور عقل سے سوچ کر ذرا بتاؤ کہ مجھے یہاں کیا کہا جائے گا؟

جناب تم نے غیر مقلد لکھا ہے اور تم ہی ثابت کرو۔ چاہے ہمارے علماء سے یا اپنے علماء سے یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے کیونکہ مقلد کےلیے قول امام ہی حجت ہوتا ہے۔

جناب من جو بات پوچھی گئی ہے امید ہے کہ اب اس کا ہی جواب ملے گا۔ کہ

وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد ہی تھا؟ اگر سوال میرا غلط ہے تو سوال درست کرکے جواب عنایت فرمادیں ادھر ادھر کی لولی لنگڑی باتوں سے کلی پرہیز کریں مہربانی ہوگی۔
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
تعظیم قبلہ

مسلمان قبلہ کی تعظیم کرتے ہیں اور ایسے کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو قبلہ کی توہین کا باعث ہو اور جمہور مسلمان قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب وغیرہ کرنے کو اور اسی طرح بلا عزر قبلہ کی جانب پاؤں پھیلانے کو بھی تعظیم کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ مگر غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو نظریات ہیں ۔

پہلا نظریہ

پہلا نظریہ تعمیر شدہ بیت الخلاء میں اگر کوئی بیٹھ کر پیشاب وغیرہ کرے تو پھر کعبہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
چناچہ ایک سوال میں لکھا گیا کہ : قضائے حاجت کا کیا طریقہ ہے ؟
تو جواب دیا گیا کہ بیٹھنے کے وقت زمین کے قریب ہو کر کپڑا اٹھانا چاہیے قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کرنے سے پرہیز رکھے ہاں اگر آگے پیچھے پردہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص251}
اسی طرح قضائے حاجت کے مسائل بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ۔ پیشاب یا پخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا منع ہے ۔ بیت الخلاء میں بوقت ضرورت جائز ہے ۔
{ فتاوٰی علمائے حدیث ج1ص33}


دوسرا نظریہ

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پیچاب اور پخانہ کی حالت میںقبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کرنا منع ہے خواہ کھلی جگہ ہو یا تعمیر شدہ بیت الخلاء ہو ۔ چناچہ نواب مولانا نورالحسن خان بھوپالی لکھتے ہیں ۔
واستقبال واستدبارقبلہ نزدریدن و شاشدن ۔
{ عرف الجادی ص11}
اسی طرح غیر مقلد عالم محدث مبارکپوری صاحب اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فالحاصل ان اولی الاقوال واقواھا عندی واللہ اعلم ھو قول من قال انہ لایجوزالاستقبال والاستدبار مطلقا ۔
{ تحفۃ الاحوذی ج1ص20}
تو اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ
ان اقوال میں سے سب سے بہتر اور قوی قول میرے نزدیک ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ متلقا { خواہ کھلی جگہ ہو یا بیت الخلاء میں } قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا منع ہے ۔
واللہ اعلم

قارئین کرام

غیر مقلد علماء کے نظریات ملاحظہ فرمالیں ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر سکتے ہیں اور دوسرا صاحب فرما رہے ہیں کہ قطعا نہیں کر سکتے ۔
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
مولوی نور صاحب آپ سے ایک گزارش کی تھی اس کا جواب دیں گے کہ نہیں ؟ اور دوسری بات آپ لوگ اتنے ہٹ دھرم، ضدی اور تعصبی ہو کہ اللہ کی پناہ۔ ایک بات کو جانتے بوجھتے بھی نہیں مانتے۔ جب آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اہل حدیث صرف ماخذ شریعت کو مانتے ہیں۔ تو پھر آپ لوگ کیوں علماء کے فتاویٰ جات پیش کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ میں ڈالتے رہتے ہو؟ اور پھر سب سے بے وقوفی وشدید ظلم کی بات تو یہ ہے کہ ایک دو عالم کا قول یا فتویٰ کو پوری جماعت پہ ٹھونس دیتے ہو؟ کیا یہ ظلم کی انتہاء نہیں ہے ؟ یہ کہاں کا اصول ہے کہ ایک جماعت کے ایک یا دوعالم کی رائے کو پوری جماعت کی رائے کہا جائے ؟ فیا اسفیٰ

مولوی نور پرنور آپ وحید الزماں پر بات نہیں کریں گے اور کبھی نہیں کریں مرسکتے ہیں لیکن وحید الزماں کے بارے میں جو پوچھا ہے وہ نہیں بتاسکتے تو ٹھیک ہے جناب مجھے یہ بتادیں کہ

کسی بھی جماعت کے ایک،دو یا پھر تین علماء کی رائے کو پوری جماعت کی رائے کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

اس سوال کا جواب دو (مجھے یقین کامل ہے کہ نہیں دو گے) اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری بیان کی ہوئی یہ ساری بکواسات کیسے زمین بوس ہوتی ہیں۔

اللہ کےبندو کب تک دنیا میں رہو گے ؟ کیا اللہ کے پاس جانے کا ارادہ نہیں ہے ؟ کیوں سادہ لوح عوام کو دھوکہ میں ڈال رہے ہو ؟

اور پھر اب اگر میں فقہ حنفی کے وہ مسائل جن مسائل نے شرم وحیاء کے پردے بھی چاک کرکے رکھ دیئے اور پھر وہ مسائل جو قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہیں نقل کرنا شروع کردں تو انہیں قارئین کے سامنے کیامنہ دکھاؤ گے ؟
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
جناب مولوی اصلی حنفی صاحب اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا جب آپ کا ماخذ قرآن و حدیث ہے تو آپ اتنے سیخ پا کیوں ہو رہے ہیں ۔ پہلے علامہ وحید الزمان صاحب کے غیر مقلد رہنے کی بحث شروّ کرنا چاہ رہے تھے آپ مگر میں سمجھتا ہوں کی ایک ایک کر کے آپ اپنے سب بڑوں کا انکار کر دیں گے نا معلوم نواب نورالحسن بھوپالی صاحب اور فتاوٰی ثنائیہ والے اور فتاوٰی علمائے حدیث کے بارے میں آپ کب لب کشائی ہیں کہ پہلے ثابت کرو کہ یہ اہل حدیث تھے یا کہ نہیں ۔ رہی بات ہٹ دھرمی کی وہ بھی غیر مقلدین میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے آپ ہمیں مشورہ نہ دیں بلکہ اپنے گھر کی اصلاح کریں قرآن و حدیث کہتے کہتے آپ کی زبان نہیں تھکتی مگر جب آپ کے علماء کے بیان کردہ مسائل شئیر کئے گئے تو آپ سے برداشت نہ ہو سکا جناب عالی یہ مسائل ان علماء کے لکھے ہوئے جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے رہی بات میں نہ مانو کی تو وہ آپ پہلے کب مانیں ہے جو اب مانیں گے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
نورالاسلام نے کہا ہے:
جناب مولوی اصلی حنفی صاحب اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا

مولوی نور پرنور غصہ میں نےنہیں کیا ۔ آپ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ میں نے ایک بات پوچھی ہے لیکن اس کے جواب دینے کی ہمت تو نہیں ہوئی پر طعنہ دے دیا۔
حضور نور آپ سے جو بات پوچھی گئی ہے آپ اس کا جواب دیں۔ شکریہ

نورالاسلام نے کہا ہے:
جب آپ کا ماخذ قرآن و حدیث ہے تو آپ اتنے سیخ پا کیوں ہو رہے ہیں۔

جی الحمدللہ ثم الحمدللہ ہمیں اس پر فخر ہے۔ اور ہم پر اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہمارے کشکول میں امتیوں کے اقوال کے علاوہ قرآن وحدیث ہے۔

نورالاسلام نے کہا ہے:
پہلے علامہ وحید الزمان صاحب کے غیر مقلد رہنے کی بحث شروّ کرنا چاہ رہے تھے آپ

مولانا آپ نے وحید الزماں کو غیر مقلد کہا اس لیے پوچھا۔ اگر غیر مقلد تھا تو آپ نے جواب کیوں نہیں دیا ؟
اور پھر حیرت وافسوس کی بات یہ ہے کہ جب آپ لوگ شیعہ سے مناظرہ کرتے ہو تو یہی وحید الزماں جن کو غیر مقلد کہتے کہتے تھکتے نہیں ہو شیعہ ثابت ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن اب غیر مقلد کہہ کر ان کے مسائل ہم اہل حدیثوں کے کھاتےمیں ڈال رہے ہو ؟ شرم مگر تم کو آتی نہیں۔

نورالاسلام نے کہا ہے:
مگر میں سمجھتا ہوں کی ایک ایک کر کے آپ اپنے سب بڑوں کا انکار کر دیں گے نا معلوم نواب نورالحسن بھوپالی صاحب اور فتاوٰی ثنائیہ والے اور فتاوٰی علمائے حدیث کے بارے میں آپ کب لب کشائی ہیں کہ پہلے ثابت کرو کہ یہ اہل حدیث تھے یا کہ نہیں ۔

محترم جناب ہم کسی کا انکار نہیں کرتے۔ ہمارا سیدھا سادھا اورجامع اصول ہے کہ جو بھی بات چاہے جس نے بھی کہی ہو اگر اس کی ماخذ شریعت میں صحیح دلیل موجود ہے تو ہم مانتے ہیں۔ لیکن اگر شریعت میں دلیل نہیں تو چاہے وہ اپنا ہی کیوں نہ ہو ہم اس کی بات کو نہیں مانتے کیونکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ کہ شخصی اقوال کے پیچھے بھاگنے کا۔

نورالاسلام نے کہا ہے:
رہی بات ہٹ دھرمی کی وہ بھی غیر مقلدین میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے

بہت بڑا بہتان ہے۔ اوراس بہتان کا بدلہ بھی چکانا ہوگا۔

نورالاسلام نے کہا ہے:
آپ ہمیں مشورہ نہ دیں بلکہ اپنے گھر کی اصلاح کریں قرآن و حدیث کہتے کہتے آپ کی زبان نہیں تھکتی مگر جب آپ کے علماء کے بیان کردہ مسائل شئیر کئے گئے تو آپ سے برداشت نہ ہو سکا

ہا ہا ہا اس مختصر سی عبارت میں تضاد۔۔۔ ایک طرف کہہ رہے ہو کہ آپ لوگوں کی زباں قرآن وحدیث کہتے کہتے نہیں تھکتی اور دوسری طرف کہہ رہے ہو کہ جب آپ کے علماء کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
مولانا آدمی ایک بار پڑھ لیتا ہے کہ میں نے لکھا کیا ہے۔ جب ہماری زبان قرآن وحدیث کہتے کہتے نہیں تھکتی تو ہمارے سامنے بھی قرآن وحدیث سے مسائل پیش کیے جائیں ناں ناکہ علماء کے شاذ اقوال۔۔۔ جب آپ بھی اقرار کررہے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کا ہی نام لیتے ہیں تو پھر اگر ہمارے سامنے پیش کرنا ہے تو قرآن وحدیث پیش کرو علماء کے اقوال کیوں پیش کرتے ہو ؟

نورالاسلام نے کہا ہے:
جناب عالی یہ مسائل ان علماء کے لکھے ہوئے جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے رہی بات میں نہ مانو کی تو وہ آپ پہلے کب مانیں ہے جو اب مانیں گے

چاہے علماء مقلد ہوں یا غیر مقلد ہم سب کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن احترام تب تک جب تک ان کے بیان شدہ مسائل دلیل پر مبنی ہوتے ہیں لیکن جب کوئی بھی ایسی عظیم ہستی کی کوئی بھی بات جو دلیل کے خلاف ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔
اورنہ مانوں والی بات مقلدین میں ہے یا اہل حدیث میں۔ آپ کو بتانےکی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی مسئلہ جس پر مقلدین عامل ہیں لیکن اہل حدیث عامل نہیں آپ میرے سامنے پیش کریں اور بادلائل صحیحہ ثابت کردیں۔ ان شاءاللہ عمل شروع کردوں گا۔

نورالاسلام نے کہا ہے:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہ شعر آپ لوگوں پر فٹ آتا ہے
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
جرابوں پر مسح کرنا

جرابوں پر مسح کرنے کے بارہ میں غیر مقلدین کے دو نظریئے ہیں ۔

پہلا نظریہ

پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہر قسم کی جرابوب پر مسح جائز ہے ۔ چناچہ اس بارہ میں سوال ہوا تو جواب دیا گیا کہ
پائتا {جراب} پر مسح کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛
فتاوٰی ثنائیہ ج1ص441}
مولانا محمد صادق سیالکوٹی صاحب جرابوں پر مسح کی بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ جورب پاؤں کے لفافے یا لباس کو کہتے ہیں وہ لباس خواہ چرمی ہو ، خواہ سوتی یا اونی وغیرہ ہم اس پر مسح کر سکتے ہیں ۔
{ صلوۃ رسول ص111 }

دوسرا نظریہ

دوسرا نظریہ ہے کہ پتلی جرابوں پر مسح کرنا درست نہیں ہے چناچہ ایک سوال کے جواب میں مولانا ابوالبرکات صاحب لکھتے ہیں جسکی تصدیق محدث گوندلوی مرحوم نے کی ہے ۔
جرابوں پر مسح والی حدیث ضعیف ہے جس سے قرآن کی تخصیص درست نہیں لہٰزا ہم شرط لگاتے ہیں کہ جرابیں موٹی ہونے کی صورت میں مسح جائز ہے ۔ اگر موٹی نہیں تو پھر جائز نہیں
{ فتاوی برکاتیہ ص224 }
ایک سوال کے جواب میں مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں ۔
المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علا جوازہ دلیل صحیح ۔
{ فتاوی ثنائیہ ج1 ص243}
کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے اسلئے کہ اس کے جواز پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے
ایک سوال ہو کہ اونی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا گیا مزکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ۔
{ فتاوی نزیریہ ج1 ص337 }

قارئین کرام

فیصلہ آپ خود فرما لیں ایک صاحب فرما رہیے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اوردوسرے حضرت فرما رہے ہیں کہ جائز نہیں ۔ ۔ ۔
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
محترم نورالاسلام صاحب ابھی تک آپ نے وحید الزماں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ؟ چلو دوبارہ نقل کردیتا ہوں۔ امید ہے کہ اب ضرور کچھ کرم فرمائیں گے۔ ان شاءاللہ


’’ کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں اگر جواب ناں میں ہے تو پھر کون تھا ؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ثابت کریں کہ علامہ وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد تھا ؟ اور اس نے اپنی پوری زندگی اپنا مسلک تبدیل نہیں کیا تھا ؟ ‘‘
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
ہماری نظر میں وحید الزمان آج بھی اہل حدیث نامی فرقے یعنی غیر مقلدین کے ہاں اکابرین کی صف میں کھڑا ہے ۔

waheedi1.png

۔نواب وحید الزمان المتوفی1328 ھ محدث وقت علامہ حافظ عبد اللہ روپڑی المتوفی1384 ھ جن کا اخبار تنظیم اہلحدیث دعوت دین دیتا رہا ۔
یہ اقتباس حاصل کیا ہے غیر مقلدین کی اک ویب سائٹ سے
waheedi2.png

جہاں پر تاریخ اہلحدیث نامی مضمون مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی کے نام کے ساتھ موجود ہے آج تک۔

اوریہی فرقہ اہل حدیث کےعالم سید بدیع الدین شاہ راشدی “عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات“ کے صفحہ 109 پر
وحید الزمان کی تعریف میں لکھتے ہیں
نواب عالی جناب ، عالم با عمل، فقیہ وقت، محب السنة، وحید الزماں بن مسیح الزمان الدکنی

مزید دیکھئیے

“فتاوٰی ثنائیہ مدینہ“ جلد اول کتاب العقائد کے صفحہ نمبر 493 پر شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی فاضل مدینہ یونیورسٹی فرماتے ہیں وحید الزمان اور اس کی کتاب ھدیۃ المہدی کے اعزاز میں

“اور کتاب نزل الابرار فی فقہ النبی المختار علامہ موصوف کی فقہ کے موضوع پر معروف کتاب ہے۔ غالب مسائل احادیث سے مستنبط ہیں ۔ اصل کتاب کئی اجزاء میں عربی زبان میں ہے۔ اس کے اردو ترجمہ کا مجھے علم نہیں فی الجملہ کتاب نہایت مفید ھے ۔“

یہ چند نمونے پیش کردئیے ہیں کہ مسٹر اصلی انہیں دیکھ لیں ، اور جان لیں کہ آج بھی وحید الزمان نامی بندہ فرقہ اہل حدیث کے اکابرین میں شمار ہوتا ہے خود فرقہ اہل حدیث کے مولویوں اور نمائیندگی کی دعوے دار جماعتوں کی جانب سے۔

لیکن یہ الگ بات ہے کہ وحید الزمان مرنے سے پہلے شیعہ ہو گیا تھا ، اسکی گواہی فرقہ اہل حدیث کے ہاں سے بھی ملتی ہے اور اہل سنت والجماعت کی جانب سے بھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وحید الزمان کو فرقہ اہل حدیث کے غیر مقلد آج بھی اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اور اس رافضی کے کئے ہوئے ترجمے اور تشریحات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ہونا یہ چاھئیے کہ فرقہ اہل حدیث کے غیور مولوی ایک لسٹ بنادیں کہ یہ یہ کتابیں وحید الزمان نے اہلحدیث فرقے میں ہوتے ہوئے لکھی تھیں انہیں ہم سر پر رکھتے ہیں اور وہ وہ کتابیں ہم نہیں مانتے انہیں ہم پیروں کے نیچے رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہم بھی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے سوچیں ۔ جبکہ تاحال وحید الزمان رافضی شیعہ کو غیر مقلدین کے کرتے دھرتے اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اس کی لکھی کتابوں کا دم بھرتے ہیں اسکی خدمات کی تعریفیں کرتے ہیں ،اسکے ترجمہ و تشریحات کو بشمول شیعی عقائد کے اپنی ویبسائٹوں پر سجاتے ہیں اور کتابوں کو گھروں میں رکھتے ہیں ۔

مسٹر اصلی اسی وجہ سے وحید الزمان رافضی ہونے کے باوجود بھی تمہارا ہی ہے یعنی فرقہ اہل حدیث کا مولوی۔
ثبوت اوپر پیش کردئیے گئے ہیں ۔ اب اگر مسٹر اصلی کو اعتراض ہے وحید الزمان کو فرقہ اہل حدیث کا مولوی کہنے پر تو ،مسٹر اصلی سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے ان مولویوں کے بارے میں وضاحت کریں جنہوں نے وحید الزمان کو اکابرین میں شمار کیا اور جماعت اہل حدیث ویب سائٹ کا اسٹیٹس بھی بتائیں اور بتائیں کہ کون کون سی کتابیں ہیں وحید الزمان کی جنہیں اصلی صاحب مانتے ہیں یا ان کی کیٹگری کے غیر مقلد مانتے ہیں ۔

شکریہ
 

اصلی حنفی

وفقہ اللہ
رکن
حقیقی دستاویز فی تائید تاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز،​

یہ مقلدین کی مشہور کتاب ہے جو شیعہ حضرات کے جواب میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں وحیدالزماں کا مسلک اس طرح درج کیا گیا ہے:

چنانچہ اسی انواراللغہ کے مقدمہ میں مولف کا مذہب کا عنوان قائم کرکے لکھا گیا ہے کہ موصوف نے مذہبی طور پر کئی روپ بدلے اپنے بھائی کی صحبت نے نواب صاحب کو غیر مقلد تو بنا دیا مگر علمائے اہلحدیث ان کی چابک دستیوں کی وجہ سے ان سے سخت ناراض رہے۔ مقدمہ کی عبارت ہے کہ ان کے بعض تفردات سے شیعی عقائد کے ساتھ ہم آہنگی بھی ظاہر ہوتی تھی........بہرحال یہ حقیقت ہے کہ نواب صاحب شیعہ ہوگئے تھے۔ (حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز، صفحہ 97)

یہ صرف ایک آئینہ دکھایا ہے۔ ان مقلدین کو جو یہ کہتے ہیں کہ وحید الزماں غیر مقلد ہی تھا اور غیر مقلد ہی فوت ہوا۔

محترم سہج مقلد آپ کی پوسٹ پر گزارش ٹائم ملتے ہی کرونگا۔ ابھی کچھ جلدی میں ہوں۔

نوٹ
پھر ایک بار گزارش ہے کہ میرے سوال پر غور کرلیں۔ اور اسی سوال کے مطابق جواب دیں تاکہ حقیقت واضح ہو سوال دوبارہ نقل کردیتا ہوں

’’ کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں اگر جواب ناں میں ہے تو پھر کون تھا ؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ثابت کریں کہ علامہ وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد تھا ؟ اور اس نے اپنی پوری زندگی اپنا مسلک تبدیل نہیں کیا تھا ؟ ‘‘
 

sahj

وفقہ اللہ
رکن
ہماری نظر میں وحید الزمان آج بھی اہل حدیث نامی فرقے یعنی غیر مقلدین کے ہاں اکابرین کی صف میں کھڑا ہے ۔

waheedi1.png

۔نواب وحید الزمان المتوفی1328 ھ محدث وقت علامہ حافظ عبد اللہ روپڑی المتوفی1384 ھ جن کا اخبار تنظیم اہلحدیث دعوت دین دیتا رہا ۔
یہ اقتباس حاصل کیا ہے غیر مقلدین کی اک ویب سائٹ سے
waheedi2.png

جہاں پر تاریخ اہلحدیث نامی مضمون مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی کے نام کے ساتھ موجود ہے آج تک۔

اوریہی فرقہ اہل حدیث کےعالم سید بدیع الدین شاہ راشدی “عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات“ کے صفحہ 109 پر
وحید الزمان کی تعریف میں لکھتے ہیں
نواب عالی جناب ، عالم با عمل، فقیہ وقت، محب السنة، وحید الزماں بن مسیح الزمان الدکنی

مزید دیکھئیے

“فتاوٰی ثنائیہ مدینہ“ جلد اول کتاب العقائد کے صفحہ نمبر 493 پر شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی فاضل مدینہ یونیورسٹی فرماتے ہیں وحید الزمان اور اس کی کتاب ھدیۃ المہدی کے اعزاز میں

“اور کتاب نزل الابرار فی فقہ النبی المختار علامہ موصوف کی فقہ کے موضوع پر معروف کتاب ہے۔ غالب مسائل احادیث سے مستنبط ہیں ۔ اصل کتاب کئی اجزاء میں عربی زبان میں ہے۔ اس کے اردو ترجمہ کا مجھے علم نہیں فی الجملہ کتاب نہایت مفید ھے ۔“

یہ چند نمونے پیش کردئیے ہیں کہ مسٹر اصلی انہیں دیکھ لیں ، اور جان لیں کہ آج بھی وحید الزمان نامی بندہ فرقہ اہل حدیث کے اکابرین میں شمار ہوتا ہے خود فرقہ اہل حدیث کے مولویوں اور نمائیندگی کی دعوے دار جماعتوں کی جانب سے۔


لیکن یہ الگ بات ہے کہ وحید الزمان مرنے سے پہلے شیعہ ہو گیا تھا ، اسکی گواہی فرقہ اہل حدیث کے ہاں سے بھی ملتی ہے اور اہل سنت والجماعت کی جانب سے بھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وحید الزمان کو فرقہ اہل حدیث کے غیر مقلد آج بھی اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اور اس رافضی کے کئے ہوئے ترجمے اور تشریحات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ہونا یہ چاھئیے کہ فرقہ اہل حدیث کے غیور مولوی ایک لسٹ بنادیں کہ یہ یہ کتابیں وحید الزمان نے اہلحدیث فرقے میں ہوتے ہوئے لکھی تھیں انہیں ہم سر پر رکھتے ہیں اور وہ وہ کتابیں ہم نہیں مانتے انہیں ہم پیروں کے نیچے رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہم بھی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے سوچیں ۔

جبکہ تاحال وحید الزمان رافضی شیعہ کو غیر مقلدین کے کرتے دھرتے اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اس کی لکھی کتابوں کا دم بھرتے ہیں اسکی خدمات کی تعریفیں کرتے ہیں ،اسکے ترجمہ و تشریحات کو بشمول شیعی عقائد کے اپنی ویبسائٹوں پر سجاتے ہیں اور کتابوں کو گھروں میں رکھتے ہیں ۔

مسٹر اصلی اسی وجہ سے وحید الزمان رافضی ہونے کے باوجود بھی تمہارا ہی ہے یعنی فرقہ اہل حدیث کا مولوی۔
ثبوت اوپر پیش کردئیے گئے ہیں ۔ اب اگر مسٹر اصلی کو اعتراض ہے وحید الزمان کو فرقہ اہل حدیث کا مولوی کہنے پر تو ،مسٹر(1) اصلی سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے ان مولویوں کے بارے میں وضاحت کریں جنہوں نے وحید الزمان کو اکابرین میں شمار کیا اور(2) جماعت اہل حدیث ویب سائٹ کا اسٹیٹس بھی بتائیں اور(3) بتائیں کہ کون کون سی کتابیں ہیں وحید الزمان کی جنہیں اصلی صاحب مانتے ہیں یا ان کی کیٹگری کے غیر مقلد مانتے ہیں ۔

شکریہ

دوبارہ اسلئے یہ مراسلہ دکھارہا ہوں مسٹر اصلی کو کہ اچھی طرح غور سے پڑھئے اور پھر وحید الزمان کا اسٹیٹس بتائیے اپنے فرقہ اہل حدیث کے ہاں۔

اور امید ہے دوبارہ ہم سے نہیں پوچھیں گے کہ
’’ کیا علامہ وحید الزماں غیر مقلد تھا ؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں اگر جواب ناں میں ہے تو پھر کون تھا ؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ثابت کریں کہ علامہ وحید الزماں پیدائش سے لے کر وفات تک غیر مقلد تھا ؟ اور اس نے اپنی پوری زندگی اپنا مسلک تبدیل نہیں کیا تھا ؟ ‘‘

بلکہ آپ ہمیں یعنی اہل سنت والجماعت کو بتائیں اس سوالوں کے جوابات جو آپ سے پوچھے ہیں ہم نے ۔
رہی بات آپ کے سوالوں کے جوب کی تو جناب اصلی صاحب میں ان کا جواب دے بھی چکا اپنے پچھلے مراسلہ میں جسے آپ جلدی میں ہونے کی وجہ سے دیکھ نہیں سکے ۔جب فرصت مل جائے اور جلدی نہ ہو تو دیکھ لیجئے گا

sahj نے کہا ہے:
لیکن یہ الگ بات ہے کہ وحید الزمان مرنے سے پہلے شیعہ ہو گیا تھا ، اسکی گواہی فرقہ اہل حدیث کے ہاں سے بھی ملتی ہے اور اہل سنت والجماعت کی جانب سے بھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وحید الزمان کو فرقہ اہل حدیث کے غیر مقلد آج بھی اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اور اس رافضی کے کئے ہوئے ترجمے اور تشریحات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ہونا یہ چاھئیے کہ فرقہ اہل حدیث کے غیور مولوی ایک لسٹ بنادیں کہ یہ یہ کتابیں وحید الزمان نے اہلحدیث فرقے میں ہوتے ہوئے لکھی تھیں انہیں ہم سر پر رکھتے ہیں اور وہ وہ کتابیں ہم نہیں مانتے انہیں ہم پیروں کے نیچے رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہم بھی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے سوچیں ۔

جبکہ تاحال وحید الزمان رافضی شیعہ کو غیر مقلدین کے کرتے دھرتے اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں اس کی لکھی کتابوں کا دم بھرتے ہیں اسکی خدمات کی تعریفیں کرتے ہیں ،اسکے ترجمہ و تشریحات کو بشمول شیعی عقائد کے اپنی ویبسائٹوں پر سجاتے ہیں اور کتابوں کو گھروں میں رکھتے ہیں ۔

مسٹر اصلی اسی وجہ سے وحید الزمان رافضی ہونے کے باوجود بھی تمہارا ہی ہے یعنی فرقہ اہل حدیث کا مولوی۔



شکریہ
 
Top