پہلا حصہ یہاں سے پڑھیں ۔ http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=4450
بے نماز کاحکم
بے نماز کے بارے می احادیث میں سخت وعید آئی ہے ۔ حتٰی کہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جان بوجھ کر جو نماز چھوڑے وہ کافر ہو گیا ۔ اکثر علماء تو اس حکم کو تہدید اور تشدید پر محمول کرتے ہیں ۔ جبکہ غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو قسم کے نظریات ہیں ۔
پہلا نظریہ
پہلا نظریہ یہ ہے کہ بے نماز کافر تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے ۔ چناچہ غیر مقلد شیخ الکل فی الکل مولانا نزیر حسین صاحب دہلوی ۔لکھتے ہیں ۔
جن احادیث سے تارک الصلوۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے ۔ ان احادیث سے وہ بلا شبہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا ہے ۔ مگر ہاں تارک الصلٰوۃ کا کفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائے اور مغفرت و شفاعت و دخول جنت کا مستحق نہ رہے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج1 ص463 }
اور مبارکپوری صاحب نے بھی یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے اسی عبارت کو پیش کیا ہے ۔
{ملاحظہ ہو فتاوٰی ثنائیہ ج1 ص 467 و فتاوٰی علمائے حدیث ج4ص263 }
اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں ۔
ہاں فی زمانتا حسب مصلحت وقت تہدیدا تارک الصلٰوۃ کو مطلق کافر کہنا جائز ہے ۔ نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سے محروم کیا جائے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج 4 ص 270 }
دوسرا نظریہ
دوسرا نظریہ بے نماز کے بارہ میں غیر مقلدین حضرات کا یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور ملت اسلام سے خارج ہے ۔چناچہ غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ہاں نماز ایسا رکن ہے کہ اس کے نہ پڑھنے سے ایمان ہی نہیں رہتا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص 116 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ ۔
بے نماز کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ۔ {فتاوٰی اہلحدیث ج2ص46 }
اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ۔
جو کبھی نماز پڑھے اور کبھی نہ پڑھے یا بالکل نماز کا تارک ہو اس کے ساتھ دوستانہ تعلق اور اس کے ساتھ محبت کے طور پر سلوک کرنا یا تحفہ وغیرہ بھیجنا اور ضیافت کرنا بالکل جائز نہیں ۔ ہاں عام لین دین جیسے ہندؤں وغیرہ سے کرتے ہیں ان کی دوکانوں سے سودا وغیرہ لیتے ہیں اور ان کی دوکانوں پر اشیاء وغیرہ فروخت کرتے ہیں اس کا کوئی حرج نہیں ۔ اور اسی صفحہ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج 2 ص 37 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ بے نماز کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 38 }
ایک مقام میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز کی بابت صحیح یہی ہے کہ بالکل کافر ہے ۔ پس اس کے ساتھ کافروں سا سلوک چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 48 }
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔ پھر آگے لکھتے ہیں ۔ اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج3 ص364 }
قارئین کرام
یہ ہیں غیر مقلدین جو مقلدین کے بارہ میں تو خوب شور مچاتے ہیں کہ ان میں یہ اختلاف ہے وہ اختلاف ہے ۔ مگر اپنے گھر کے اختلافات پہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں ۔
{ جاری ہے }
بے نماز کاحکم
بے نماز کے بارے می احادیث میں سخت وعید آئی ہے ۔ حتٰی کہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جان بوجھ کر جو نماز چھوڑے وہ کافر ہو گیا ۔ اکثر علماء تو اس حکم کو تہدید اور تشدید پر محمول کرتے ہیں ۔ جبکہ غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو قسم کے نظریات ہیں ۔
پہلا نظریہ
پہلا نظریہ یہ ہے کہ بے نماز کافر تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے ۔ چناچہ غیر مقلد شیخ الکل فی الکل مولانا نزیر حسین صاحب دہلوی ۔لکھتے ہیں ۔
جن احادیث سے تارک الصلوۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے ۔ ان احادیث سے وہ بلا شبہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا ہے ۔ مگر ہاں تارک الصلٰوۃ کا کفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائے اور مغفرت و شفاعت و دخول جنت کا مستحق نہ رہے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج1 ص463 }
اور مبارکپوری صاحب نے بھی یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے اسی عبارت کو پیش کیا ہے ۔
{ملاحظہ ہو فتاوٰی ثنائیہ ج1 ص 467 و فتاوٰی علمائے حدیث ج4ص263 }
اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں ۔
ہاں فی زمانتا حسب مصلحت وقت تہدیدا تارک الصلٰوۃ کو مطلق کافر کہنا جائز ہے ۔ نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سے محروم کیا جائے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج 4 ص 270 }
دوسرا نظریہ
دوسرا نظریہ بے نماز کے بارہ میں غیر مقلدین حضرات کا یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور ملت اسلام سے خارج ہے ۔چناچہ غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ہاں نماز ایسا رکن ہے کہ اس کے نہ پڑھنے سے ایمان ہی نہیں رہتا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص 116 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ ۔
بے نماز کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ۔ {فتاوٰی اہلحدیث ج2ص46 }
اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ۔
جو کبھی نماز پڑھے اور کبھی نہ پڑھے یا بالکل نماز کا تارک ہو اس کے ساتھ دوستانہ تعلق اور اس کے ساتھ محبت کے طور پر سلوک کرنا یا تحفہ وغیرہ بھیجنا اور ضیافت کرنا بالکل جائز نہیں ۔ ہاں عام لین دین جیسے ہندؤں وغیرہ سے کرتے ہیں ان کی دوکانوں سے سودا وغیرہ لیتے ہیں اور ان کی دوکانوں پر اشیاء وغیرہ فروخت کرتے ہیں اس کا کوئی حرج نہیں ۔ اور اسی صفحہ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج 2 ص 37 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ بے نماز کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 38 }
ایک مقام میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز کی بابت صحیح یہی ہے کہ بالکل کافر ہے ۔ پس اس کے ساتھ کافروں سا سلوک چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 48 }
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔ پھر آگے لکھتے ہیں ۔ اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج3 ص364 }
قارئین کرام
یہ ہیں غیر مقلدین جو مقلدین کے بارہ میں تو خوب شور مچاتے ہیں کہ ان میں یہ اختلاف ہے وہ اختلاف ہے ۔ مگر اپنے گھر کے اختلافات پہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں ۔
{ جاری ہے }