دل سے میرے وہ ستم گر نکلا : نصیر احمد ناصر

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن


دل سے میرے وہ ستم گر نکلا
آئنہ توڑ کے پتھر نکلا

اس کی آنکھوں میں کنارہ تھا کوئی
ڈھونڈنے جس کو سمندر نکلا

تو اگر خواب تھا میرا تو بتا!
کیوں مری نیند سے باہر نکلا

منزلیں ہاتھ کی دوری پہ رہیں
راستہ پاؤں کا چکر نکلا

پھر ہوئی قید کوئی شہزادی
پھر حویلی سے کبوتر نکلا

ایک دل تھا کہ سرشام بجھا
ایک آنسو تھا کہ جل کر نکلا

زلزلے مجھ میں کچھ ایسے آئے
اک جزیرہ مرے اندر نکلا

دیکھتی رہ گئیں آنکھیں ناصر
ایسا منظر پس منظر نکلا

(نصیر احمد ناصر)​
 
Top