یہ جو تھیلی کے چٹے بٹے ہیں : مسعود مُنّور

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن


یہ جو تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
جانے کس بات پر اکٹھے ہیں

کیدو کل کہ رہا تھا رانجھے سے
عشق اُلو ہے ، لوگ پٹھے ہیں

جتنے بیمار ہیں سیاست کے
کھاتے پیتے ہیں ، ہٹے کٹے ہیں

پاپولر شاعروں کی بات نہ کر
اُن کے انگور سخت کھٹے ہیں

ایک شاعر کے گھر کا فرنیچر
تین دریاں ہیں ، چار پھٹے ہیں

بیویوں کے سروں کی چادر میں
شوہروں کے کفن کے لٹھے ہیں

چٹ پٹی ، چُلبلی کو بے بے نے
بھیجے لاہور سے دوپٹے ہیں

میں ترا میر ، تو مرا غالب
شاعروں کے یہ وٹے سٹّے ہیں

ٹ نما ٹھ کا فرق نا معلوم
ہم نے الفاظ چُن کے رٹّے ہیں

ویگنوں میں لدے ہوئے مسعود
میرے شعروں کے ساٹھ گٹھے ہیں

مسعود مُنّور​
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
پاپولر شاعروں کی بات نہ کر
اُن کے انگور سخت کھٹے ہیں

ایک شاعر کے گھر کا فرنیچر
تین دریاں ہیں ، چار پھٹے ہیں
بہت خؤب ،شاندار
 
Top