حج کی اہمیت و فرضیت اوراُس کےادا نہ کرنے پر وعید

اشرف

وفقہ اللہ
رکن
حج کی اہمیت و فرضیت اوراُس کےادا نہ کرنے پر وعید
حقیقتِ حج
حج کے اصل معنی ارادے کے ہیں، کسی چیز کا ارادہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے "حججت الشئی"۔
شریعت کی اصطلاح میں بیت اللہ شریف کی ازراہِ تعظیم مخصوص اعمال کے ساتھ زیارت کا ارادہ کرنے کا نام حج ہے۔
(عمدۃ القاری: ۱۴/۱۷۱، ۱۷۲)
حج "ح" کے زبر اور "ح" کے زیر دونوں طرح یہ لفظ نقل کیا گیا ہے اور قرآن مجید میں بھی دونوں طریقوں پر قرأت جائز ہے۔
(عمدۃ القاری: ۱۴/۱۷۲)
اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن "حج بیت اللہ" ہے۔
حج کیا ہے؟ ایک معین اور مقررہ وقت پر اللہ کے دیوانوں کی طرح اس کے دربار میں حاضر ہونا اور اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں اور طور طریقوں کی نقل کرکے ان کے سلسلہ اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دینا اور اپنی استعداد کے بقدر ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے حصہ لینا اور اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگنا۔
مزیدوضاحت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ ذوالجلال والجبروت، احکم الحاکمین اور شہنشاہ کل ہے اور ہم اس کے عاجزومحتاج بندے اور مملوک ومحکوم ہیں اور دوسری شان اس کی یہ ہے کہ ان تمام صفات جمال سے بدرجہ اتم (مکمل طورپر) متصف ہے جس کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور اس لحاظ سے وہ بلکہ صرف وہی محبوب حقیقی ہے۔
اس کی پہلی حاکمانہ اور شاہانہ شان کا تقاضہ یہ ہے کہ بندے اس کے حضور میں ادب ونیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں، ارکانِ اسلام میں پہلا عملی رکن نماز اسی کا خاص مرقع ہے اور اس میں یہی رنگ غالب ہے اور زکوٰۃ بھی اسی نسبت کے ایک دوسرے رخ کو ظاہر کرتی ہے اور اسی کی دوسری شان محبوبیت کا تقاضہ یہ ہے کہ بندوں کا تعلق اس کے ساتھ محبت ووارفتگی کا ہو، روزے میں بھی کسی قدر یہ رنگ ہے، کھانا، پینا چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑلینا عشق ومحبت کی منزلوں میں سے ہے؛ مگر حج اس کا پورا پورا مرقع ہے، سلے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس پہن لینا، ننگے سررہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں میں کنگھا نہ کرنا، تیل نہ لگانا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، میل کچیل سے جسم کی صفائی نہ کرنا، چیخ چیخ کے لبیک لبیک پکارنا، بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے ایک گوشہ میں لگے ہوئے سیاہ پتھر (حجراسود) کو چومنا اور اس کے درودیوار سے لپٹنا اور آہ وزاری کرنا پھر صفاومروہ کے پھیرے کرنا، پھر مکہ شہر سے بھی نکل جانا اور منیٰ کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں جاپڑنا پھر جمرات پر بار بار کنکریاں مارنا، یہ سارے اعمال وہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اس رسمِ عاشقی کے بانی ہیں، اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اپنے دربار کی خاص الخاص حاضری حج ووعمرہ کے ارکان ومناسک ان کو قرار دیدیا، انہی سب کے مجموعہ کا نام گویا حج ہے اور اسلام کا آخری اور تکمیلی رکن ہے۔
اہمیتِ حج
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن ہے، شریعت میں اس کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ارکانِ حج کی ادائیگی کے مواقع (جگہیں) صرف شہر مکہ ہی میں ہے، دنیا کے جس حصہ میں بھی کوئی مسلمان صاحبِ نصاب ہو تو کسی طرح وہ شہر مکہ متعین وقت میں پہنچ کر اس کو اسلام کے اہم رکن کو ادا کرنا ضروری ہے، شریعت میں اس عمل کے علاوہ کسی اور عمل کی ادائیگی کے لیے اتنی مشکلات بالکل نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ ان تمام مشکلات کا مکمل علم رکھنے کے باوجود اس عمل کو زندگی میں ایک بار کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔
فرضیتِ حج
حج کب فرض ہوا؟ شارحین اور مفسرین کی رائیں اس بارے میں مختلف ہیں، حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق سن ۹/ہجری میں آیا اور اس کے اگلے سال سن ۱۰/ہجری میں اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی تعداد کے ساتھ حج فرمایا، جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے (معارف السنن:۶/۳، للشیخ السید محمدیوسف الحسینی البنوریؒ، المتوفی:۱۳۹۷ھ، مطبوعہ: دارالکتاب دیوبند) اور اسی حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی "اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا" (المائدۃ:۳) "ترجمہ: آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارے دین بننے کے لیے پسند کرلیا" اس میں اس طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے؛ اگر بندہ کو صحیح اور مخلصانہ حج نصیب ہوجائے جس کو دین وشریعت کی زبان میں "حج مبرور" کہتے ہیں اور ابراہیمی ومحمدیؐ نسبت کا کوئی ذرّہ اس کو عطا ہوجائے تو گویا اس کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہوگیا اور وہ نعمت عظمیٰ اس کے ہاتھ آگئی جس سے بڑی کسی نعمت کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کو حق ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر کہے اور مست ہوہو کر کہے ؎

نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است افتم بہ پائے خودکہ مکویت رسیدہ است
ہردم ہزار بوسہ زنم دست خویش را کہ دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است
میں اپنی آنکھ پر فخرکرتا ہوں کہ اس نے تیرے جمال کا مشاہدہ کرلیا ہے۔
میں اپنے قدم پر گرپڑتا ہوں؛ کیونکہ وہ تیری گلی کوچہ کا سیر کرچکا ہے۔
میں ہروقت اپنے ہاتھ کو ہزاروں بار چومتا ہوں۔
اس لیے کہ وہ تیرا دامن تھامے ہوئے مجھے کھینچ لایا ہے ۔
فضیلتِ حج
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر واپس ہوگا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔
(بخاری، باب فضل الحج المبرور، حدیث نمبر:۱۴۲۴۔ مسلم، حدیث نمبر:۲۴۰۴)
قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
"اَلْحَجُّ اَشْھُرٌمَّعْلُوْمٰتٌج فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَافُسُوْقَلا وَلَاجِدَالَ فِی الْحَجِّ"۔
(البقرۃ:۱۹۷)
"ترجمہ: حج چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں؛ سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے نہ کوئی بے حکمی ہے اور نہ کوئی قسم کا نزاع زیبا ہے"۔
اس آیت میں حج کرنے والوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ خاص کر زمانۂ حج میں وہ شہوت کی باتوں اور اللہ کی نافرمانی والے سارے کاموں اور آپس کے جھگڑے سے بچیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس ہدایت پر عمل کرنے والوں کو بشارت سنائی گئی ہے کہ جو شخص حج کرے اور ایام حج میں نہ شہوت کی باتیں کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کوئی ایسی حرکت کرے جو فسق کی حد میں آتی ہو تو حج کی برکت سے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور وہ گناہوں سے بالکل ایسا پاک وصاف ہوکر واپس ہوگا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ تھا، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ دولت نصیب فرمائے، آمین۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عمرہ کے بعد عمرہ درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور حج مبرور (پاک اور مخلصانہ حج) کا بدلہ تو بس جنت ہے۔
(بخاری، باب وجوب العمرۃ وفضلھا، حدیث نمبر:۱۶۵۰۔ مسلم، حدیث نمبر:۲۴۰۳)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پے در پے حج اور عمرہ کیا کرو؛کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقر ومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے اور "حج مبرور" کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔
(ترمذی، باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ، حدیث نمبر:۷۳۸۔ سنن نسائی، حدیث نمبر:۲۵۸۴)
جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یاعمرہ کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا اور غسل کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقرومحتاجی وپریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے اور خوش حالی اور اطمینان کی دولت نصیب ہوجاتی ہے اورمزید برآں "حج مبرور" کے صلہ میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں؛ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو ہ ان کی مغفرت فرمائے۔
(ابن ماجہ، باب فضل دعاء الحاج، حدیث نمبر:۲۸۸۳۔ سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر:۱۰۶۹۱)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو؛ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہو ں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے (اس لیے اس کی دعا قبول ہونے کی خاص توقع ہے)۔
(مسنداحمد، باب مسندعبداللہ بن عمرؓ، حدیث نمبر:۵۳۷۱۔ مسندفردوس للدیلمی، حدیث نمبر:۱۰۹۸)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کا جو بندہ حج یاعمرہ کی نیت سے یاراہِ خدا میں جہاد کے لیے نکلا؛ پھرراستہ ہی میں اس کو موت آگئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر وثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج وعمرہ کرنے والوں کے لیے اور جہاد کرنے والوں کے لیے مقرر ہے۔
(شعب الایمان، باب من خرج حاجاً اومعتمراً اوغازیا ثم مات فی طریقۃ، حدیث نمبر:۳۹۴۵۔ جمع الجوامع اوالجامع الکبیر للسیوطی: ۴۸۵۳)
اللہ تعالیٰ کے اس کریمانہ دستور وقانون کا اعلان خود قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے:
"وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللہ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللہ ط وَکَانَ اللہ غَفُوْرًارَّحِیْمًا"۔
(النساء:۱۰۰)
"اور جو بندہ اپنا گھر اور بار چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی نیت سے نکل پڑے؛ پھر آجائے اس کو موت (راستہ ہی میں) تو مقرر ہوگیا اس کا اجر اللہ کے ہاں اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے"۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ اللہ کی رضا کا کوئی کام کرنے کے لیے گھر سے نکلے اور اس کے عمل میں آنے سے پہلے راستہ ہی میں اس کی زندگی ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل کا پورا اجر اس بندہ کے لیے مقرر ہوجاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کا تقاضا ہے "وَکَانَ اللہ غَفُوْرًارَّحِیْمًا"۔
(النساء:۱۰۰)
حج ادا نہ کرنے پر وعید
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا خرچ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرجائے یانصرانی ہوکر، اس کے بعد حضورؐ نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی "وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ" (آل عمران:۹۷) اور اللہ تعالیٰ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان (بیت اللہ) کا جو (فرض) ہے اس شخص کے ذمہ ہے جو وہاں جانے کی سبیل رکھتا ہو اور جو منکر ہو تو (اللہ جل شانہ کا کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تمام جہاں سے غنی ہیں (ان کو کیا پروا)۔
(ترمذی، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، حدیث نمبر:۷۴۰)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے لیے کوئی واقعی مجبوری حج سے روکنے والی نہ ہو، ظالم بادشاہ کی طرف سے روک نہ ہو یاایسا شدید مرض نہ ہو جو حج سے روک دے؛ پھر وہ بغیر حج کئے مرجائے تو اس کو اختیار ہے کہ چاہے یہودی ہوکر مرے یانصرانی ہوکر۔
(دارمی، باب من مات ولم یحج، حدیث نمبر:۱۸۳۹۔ جمع الجوامع اوالجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر:۶۶۱۱)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ جو بندہ ایسا ہو کہ میں نے اس کو صحت عطا کررکھی ہو اور اس کی روزی میں وسعت دے رکھی ہو اور اس کے اوپرپانچ سال ایسے گزرجائیں کہ وہ میرے دربار میں حاضر نہ ہو وہ ضرور محروم ہے۔
(صحیح ابن حبان، باب ذکر اوأخبار عن اثبات الحرمان لمن وسع، حدیث نمبر:۳۷۰۳۔ شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۹۷۵)
• اس حدیث کا تقاضا یہ تھا کہ ہرصاحب ثروت پر اگر اس میں حج کی طاقت ہو تو ہرپانچ سال میں ایک مرتبہ حج فرض ہوتا؛ لیکن چونکہ دوسری احادیث میں حضور اقدس ﷺ سے صاف لفظوں میں یہ ثابت ہوگیا کہ حج عمربھر میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے اس لیے اس حدیث کو فرض پر تو محمول نہیں کیا جاتا؛ لیکن خیروبرکت کی محرومی سے کیا انکار ہے جب کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد بھی ہے اور اس کی عطا کی ہوئی صحت اور رزق کی وسعت بھی ہے؛ ایسی حالت میں اگر کوئی دوسری دینی ضرورت مقدم نہ ہو تو پھر حاضر ہونا ہی چاہئے۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است افتم بہ پائے خودکہ مکویت رسیدہ است
ہردم ہزار بوسہ زنم دست خویش را کہ دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است
میں اپنی آنکھ پر فخرکرتا ہوں کہ اس نے تیرے جمال کا مشاہدہ کرلیا ہے۔
میں اپنے قدم پر گرپڑتا ہوں؛ کیونکہ وہ تیری گلی کوچہ کا سیر کرچکا ہے۔
میں ہروقت اپنے ہاتھ کو ہزاروں بار چومتا ہوں۔
اس لیے کہ وہ تیرا دامن تھامے ہوئے مجھے کھینچ لایا ہے ۔
 
Top