قادیانیت کا مکروہ چہرہ

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب


گزشتہ دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے کارکن اور سیالکوٹ کے مبلغ مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کا ایک مکتوب موصول ہوا‘ جس کے ساتھ بے نام کا ایک سوال نامہ بھی منسلک تھا‘ اس سوال نامہ میں پوری امت مسلمہ‘ دنیا بھر کے مسلمانوں‘ اسلام کے نام لیواؤں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو مخاطب کرکے اس کے جواب کا مطالبہ تھا۔ یہ بھی مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کے ہی خط سے معلوم ہوا کہ یہ سوال نامہ دراصل کینیڈا کے قادیانیوں نے کینیڈا میں ر ہائش پذیر ایک مسلمان نوجوان کو دیا اور کہا کہ اس کا جواب دو۔ چنانچہ وہ سوال نامہ پھرتا پھراتا مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کے پاس پہنچا‘ تو انہوں نے راقم الحروف سے اس کے جواب کی فرمائش کی۔ بلاشبہ اس کا تو مجھے پہلے بھی علم‘ بلکہ یقین تھا کہ قادیانیت‘ اسلام کی ضد و نقیض ہے اور جس طرح آگ و پانی‘ اور دن و رات کا اجتماع محال ہے‘ ٹھیک اسی طرح قادیانیت اور اسلام کا اکٹھا ہونا بھی محال ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ قادیانی سیدھے سادے مسلمانوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے دھوکا دیتے ہیں‘ ورنہ انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام …صلی اللہ علیہ وسلم… سے جتنا بغض‘ عداوت اور نفرت ہے‘ شاید دنیا کے کسی بدترین کافر و مشرک کو بھی ان سے اتنا بغض و عداوت نہ ہوگی۔ بلاشبہ اس خط کو پڑھنے کے بعد قادیانی امت کی اسلام دشمنی اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی دلی نفرت و عداوت علم الیقین سے نکل کر عین الیقین کے درجہ میں آگئی۔
یقین جانئے! کہ اگر اس سوال نامہ کے ساتھ مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کا تعارف نامہ اور قادیانیوں کے روایتی سوالات نہ ہوتے تو شاید دوسرے سیدھے سادے مسلمانوں کی طرح‘ میں بھی اس کو کسی متعصب عیسائی‘ یہودی‘ پرلے درجے کے کسی ملحد‘ اسلام دشمن کافر اور مشرک کی دریدہ د ہنی قرار دیتا۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال نامہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو قادیانی دجل‘ فریب‘ الحاد‘ زندقہ اور ان کے گھناؤنے کردار سے نا آشنا تھا‘ یا وہ ان کے منافقانہ ظاہری ”حسن اخلاق“ سے متاثر تھا‘ اس سے کم از کم اس پر قادیانیت کی اسلام دشمنی اور پیغمبر اسلام سے ان کا بغض اور دلی عداوت کھل کر سامنے آجائے گی‘ اور قادیانیوں کے مکروہ چہرہ کی اس نقاب کشائی کے بعد کم از کم قادیانی‘ کسی مسلمان کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا نہیں دے سکیں گے۔ لیجئے! پہلے مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کا خط اور مسیلمہ کذاب کے جانشین‘ مسیلمہ پنجاب کے نام لیواؤں کا غلاظت بھرا سوال نامہ پڑھئے:
”مخدومی و مکرمی جناب حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب
السلام علیکم!
امید ہے کہ آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ گزارش یہ ہے کہ ایک تحریر حاضر خدمت ہے‘ کینیڈا میں ہمارے ایک مسلمان بچے کو یہ تحریر مرزائیوں/قادیانیوں نے دی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر اس کے ترتیب وار جامع‘ موزوں اور پُراثر جوابات تحریر فرمادیں اور اس کی ایک کاپی مجھے بھیج دیں تاکہ اسے کینیڈا بھیج کر اپنے مسلمان بھائیوں کو قادیانی فتنہ سے بچایا جاسکے اور ان کے ذہنوں کو اس گندگی سے بچایا جاسکے۔ امید ہے کہ آپ شفقت فرمائیں گے۔ مزید یہ کہ اگر کینیڈا میں ہماری جماعت کا کوئی اہم کارکن یا عہدیدار ہو تو اس کا نام‘ پتا اور فون نمبر ارسال کردیں تاکہ ہمارے مسلمان بھائی ان سے راہ نمائی حاصل کرسکیں۔
والسلام …دعاگو، فقیر اللہ اختر
خادم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ“

قادیانیوں کا سوال نامہ
”۱:… لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کی ضرورت صدیوں رہی اور اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں پیغمبر بھیجے‘ تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار پیغمبر بھیجنے کے بعد حضرت محمد پر ہی نبوت ختم کردی گئی؟ کیا بعد میں آنے والی صدیوں میں لوگوں کو ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟
۲:… جب حضرت محمد اور ان کے پیروکار اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوسکتے ہیں تو ایک مسلمان کیوں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا؟ دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اسے مرتد قرار دے کر اس کے قتل کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ مذہبی تبدیلی کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا؟ کیا یہ حکم اس امر کا غماز نہیں ہے کہ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے ”اسلام بذریعہ تبلیغ“ کے بجائے ”خاندانی یا موروثی اسلام“ کو ترجیح دی؟ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا‘ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو تبدیلی چاہے‘ اسے قتل کردیا جائے‘ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں؟
۳:… حضرت محمد نے اپنے خاندان یعنی آلِ رسول کو زکوٰة کی رقم دینے سے کیوں منع کیا ہے؟ کیا اس سے خاندانی بڑائی اور تکبر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیا رسول کا خاندان افضل اور باقی سب کمتر ہیں؟ بحیثیت انسان میں خاندانی افضیلت یا بڑائی تسلیم نہیں کرتا۔ خود حضرت محمد کا قول ہے کہ تم میں افضل وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں‘ تو پھر یہ قول ان کے اپنے خاندان پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟
۴:… حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کا پانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟
۵:… مالِ غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں‘ بھیڑ بکریاں ہیں‘ جنہیں مالِ غنیمت کے طور پر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟
۶:… مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کو جہاد قرار دے کر اسے اسلام کا پانچواں بنیادی رکن بنانے کی سزا ماضی کے لاکھوں‘ کروڑوں معصوم انسان بے شمار جنگوں کے نتیجے میں اپنی جان مال سے محروم ہوکر بھگت چکے ہیں اور عراق‘ افغانستان جنگ کی شکل میں آج بھی بھگت رہے ہیں‘ آخر اس ”جہاد“ کو بذریعہ اجتہاد ”جارحیت“ کے بجائے ”دفاع“ کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟
۷:… حضرت محمد نے مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی کیوں قرار دی؟
۸:… والدین کی جائیداد سے عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے کا کیوں حکم دیا؟ کیا عورت‘ مرد کے مقابلے میں کمتر ہے؟
۹:… حضرت محمد نے خود نو شادیاں کیں او ر باقی مسلمانوں کو چار پر قناعت کرنے کا حکم دیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟
۱۰:… شریعت محمدی میں مرد اگر تین بار طلاق کا لفظ ادا کرکے ازدواجی بندھن سے فوری آزادی حاصل کرسکتا ہے تو اسی طرح عورت کیوں نہیں کرسکتی؟
۱۱:… حضرت محمد نے حلالہ کے قانون میں عورت کو کسی بے جان چیز یا بھیڑ بکری کی طرح استعمال کئے جانے کا طریقہ کار کیوں وضع کیا ہے؟ طلاق مرد دے اور دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو عورت پہلے کسی دوسرے آدمی کے نکاح میں دی جائے‘ وہ دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ جنسی عمل سے گزرے‘ پھر اس دوسرے شخص کی مرضی ہو‘ وہ طلاق دے تو عورت دوبارہ پہلے آدمی سے نکاح کرسکتی ہے؟ یعنی اس پورے معاملے میں استعمال عورت کا ہی ہوا‘ مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑا‘ اس میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟
۱۲:… حضرت محمد نے قصاص و دیت کا قانون کیوں وضع کیا؟ مثال کے طور پر اگر میں قتل کردیا جاتا ہوں‘ اور میرے اپنی بیوی یا بہن بھائیوں سے اختلافات ہیں تو لازماً ان کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ میرے بدلے میں زیادہ سے زیادہ خون بہالے کر میرے قاتل سے صلح کرلیں اور باقی عمر عیش کریں‘ میں تو اپنی جان سے گیا‘ میرے قاتل کو پیسوں کے عوض یا اس کے بغیر معاف کرنے کا حق کسی اور کو کیوں تفویض کیا گیا؟ کیا اس طرح سزا سے بچ جانے پر قاتل کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کیا پیسے کے بل بوتے پر وہ مزید قتل و قتال کے لئے اس معاشرے میں آزاد نہیں ہوگا؟ پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک شیخ‘ ایک پاکستانی کو قتل کرکے سزا سے بچ گیا‘ کیونکہ مقتول کے اہل خانہ نے کافی دینار لے کر قاتل کو معاف کردیا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں صرف وہ قاتل سزا پاتا ہے‘ جس کے پاس قصاص کے نام پر دینے کو کچھ نہ ہو۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں‘ قیام سے لے کر اب تک‘ باحیثیت افراد میں سے صرف گنتی کے چند اشخاص کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ملی‘ وہ بھی اس وجہ سے کہ مقتول کے ورثا قاتل کی نسبت کہیں زیادہ دولت مند تھے۔ لہٰذا انہوں نے خون بہا کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اس قانون کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی باحیثیت شخص کسی کا قتل کردیتا ہے تو قاتل کے اہل و عیال و رشتہ دار‘ مقتول کے ورثا پر طرح طرح سے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں‘ جس پر ورثا قاتل کو معاف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا حضرت محمد نے اس قانون کو وضع کرکے ایک امیر شخص کو براہ راست ”قتل کا لائسنس“ جاری نہیں کیا؟
۱۳:… اور اسی طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں پوچھنا توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے؟
۱۴:… جو حضرات ”ہاں“ کہیں گے‘ ان سے صرف یہی عرض کرسکتا ہوں کہ حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں‘ چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں‘ اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں‘ تو کیا وہ خود مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ اگر ہاں! تو اے میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور میری طرح کے دیگر انسان مسلمانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو‘ کہ وہ خود ہی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ مناسب سزا تجویز فرما دینگے۔
۱۵:… یاد رکھو! ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو صرف اس کی سوچ اور عقائد کی بنا پر کافر قرار دیدے۔ یہ تو تھا اسلامی فرمان‘ اب ایک انسانی فرمان بھی سن لیں کہ ”دنیا کے کسی بھی مذہب سے کہیں زیادہ انسانی جان قیمتی ہے۔“ وما الینا الا البلاغ۔“
اس غلاظت نامہ کی خواندگی کے بعد ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول کے دل کی کیا کیفیت ہوگی؟ ہر مسلمان اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے!!! تاہم مسلمانوں کو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے‘ کیونکہ سانپ کا کام ڈسنا اور بچھو کی سرشت ڈنک مارنا ہی ہے۔ اس لئے جو لوگ قادیانی کفر سے آشنا ہیں‘ ان کو یقینا اس پر کچھ زیادہ تعجب نہیں ہوا ہوگا۔ ہاں! البتہ جو لوگ قادیانیت کے بارہ میں کسی غلط فہمی کا شکار تھے یا وہ قادیانیت کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نتھی کرنے کی غلطی کے مرتکب تھے‘ بلاشبہ ان کو اس تحریر سے اپنی غلط فہمی کا شدید احساس ہوا ہوگا‘ بلکہ بدترین دھچکا لگا ہوگا!!!۔
اگرچہ قادیانی سوالات شروع میں یک جا آگئے ہیں‘ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر جواب سے پہلے متعلقہ سوال نقل کرکے اس کا جواب درج کیا جائے تاکہ سوال و جواب دونوں قاری کے ذہن میں مستحضر رہیں۔ چنانچہ اس سوال نامہ کا پہلا سوال تھا:
۱:… ”لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کی ضرورت صدیوں رہی اور اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں پیغمبر بھیجے‘ تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار پیغمبر بھیجنے کے بعد حضرت محمد پر ہی نبوت ختم کردی گئی؟ کیا بعد میں آنے والی صدیوں میں لوگوں کو ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“
جواب:… یہ قادیانیوں کا پرانا اور گھسا پٹا سوال ہے اور اس کا متعدد اکابر نے مختلف انداز میں جواب دیا ہے‘ مگر جس کو نہ ماننا ہو‘ اس کا اشکال کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:
بلاشبہ ہر دور میں امت کو ہدایت و راہ نمائی کی ضرورت رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے امت کی راہ نمائی کے لئے نبی بھی بھیجے‘ اور جب تک امت کو نبی کی راہ نمائی کی ضرورت رہی‘ اللہ تعالیٰ یکے بعد دیگرے نبی بھیجتے رہے‘ لیکن جوں ہی نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نبوت کے اعزاز سے سرفراز فرمایا گیااور کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہ رہی‘ تو اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا کہ اب مزید کسی دوسرے شخص کو نبی نہیں بنایا جائے گا‘ اور ارشاد فرمادیا کہ:

”ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین و کان اللّٰہ بکل شیٴ علیماً۔“ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:… ”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول ہیں‘ اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں‘ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔“
اس ارشاد الٰہی سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود نہیں فرمایا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہ نفس نفیس اس کا اعلان فرمایا ہے‘ اس لئے قادیانیوں کا یہ کہنا کہ : ”کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“ سراسر ہرزہ سرائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی پر بہتان و افترأ ہے ۔
صرف یہی ایک آیت نہیں‘ بلکہ قریب قریب ایک سو سے زائد آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے‘ ملاحظہ ہو ”ختم نبوت کامل“ مولفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ۔
رہی یہ بات کہ اب کسی دوسرے نبی کی ضرورت کیوں نہیں رہی؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کیوں قرار دیا گیا؟اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں خود ارشاد فرما دیا کہ : اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کی ضرورت و عدم ضرورت کی حکمت کو خوب جانتے ہیں‘ اس پر کسی کو لب کشائی کی اجازت نہیں‘ لہٰذا اب قادیانیوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست پوچھیں‘ اس کی قوت قاہرہ کی آ ہنی دیوار سے اپنا سر پھوڑیں اور احتجاج کریں کہ آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کیوں قرار دیا؟
الغرض قادیانیوں کا یہ اعتراض مسلمانوں یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نہیں‘ بلکہ براہ راست قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے۔
چلئے! اگر ایک لمحہ کے لئے قادیانیوں کا یہ سوال صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے‘ تو کیا کل کلاں کسی کو اس کا حق بھی ہوگا کہ وہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پہلے اور نوح‘ شیث‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلوٰة والسلام کو بعد میں کیوں مبعوث فرمایا؟ اسی طرح کیا نعوذباللہ! کسی کو یہ کہنے کا حق بھی ہوگا ؟کہ :
”کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی اللہ کے خلیفہ اور انسانیت کے باپ ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“
اگر کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی… اور یقینا نہیں دی جاسکتی… تو کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے خلاف لب کشائی کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے؟ قادیانیو! اگر ہمت ہے تو اس کا جواب دو‘ ورنہ اس ہرزہ سرائی کے بعد کھلا اعلان کرو کہ ہمارا قرآن‘ حدیث‘ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں ہے۔

 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
۲:…نئے نبی‘ نئی شریعت اور نئی کتاب کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے‘ جب پہلے نبی کی نبوت‘ دین‘ شریعت اور کتاب منسوخ ہوجائے ‘ جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین‘ کتاب‘ نبوت اور شریعت قیامت تک کے لئے ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“

۲:… ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔“ (الحجر:۹)
ترجمہ:… ”ہم نے ہی اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔“

۳:… ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین۔“ (الانبیاء:۱۰۷)
ترجمہ: …”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کر کر جہان کے لوگوں پر۔“

۴:… ”یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ:… ”اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“

۵:… ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً و نذیراً۔“ (سبا:۲۸)
ترجمہ:… ”اور جو تجھ کو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔“

۶:… ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:…”اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین‘ سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا۔“
ان تمام آیات میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کو مدار نجات‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب کی قیامت تک حفاظت و صیانت‘ آپ کی ذات کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انسانوں کے لئے نبی‘ رسول‘ بشیر اور نذیر بناکر بھیجے جانے کا اعلان فرمایا گیا‘ تو معلوم ہوا کہ جس طرح امت کو صدیوں سے نبی و رسول کی ہدایت و راہ نمائی کی ضرورت تھی‘ آج بھی برقرار ہے اور اس کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت‘ رسالت‘ دین ‘ شریعت اور کلامِ الٰہی یعنی قرآن پاک کی شکل میں فرما رکھا ہے۔
۳:… اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء اور ان کی شریعتوں کی مثال چراغ کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و شریعت کی مثال سورج کی ہے اور جب سورج نکل آتا ہے تو نہ صرف یہ کہ سارے چراغ بے نور ہوجاتے ہیں‘ بلکہ ان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی‘ لہٰذا اگر سورج نکلنے کے بعد کوئی ”عقل مند“ یہ کہے کہ اب چراغ کیوں نہیں جلائے جاتے؟ اور انسانیت کی راہ نمائی کے لئے چراغوں سے روشنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی؟ اور سورج کی موجودگی میں چراغوں سے روشنی حاصل نہ کرنا انسانیت کو روشنی سے محروم رکھنے کی سازش کے مترادف ہے‘ بتلایا جائے کہ ایسے ”عقل مند“ کو کیا نام دیا جائے گا؟ اور اس شخص کے اس ”حکیمانہ مشورہ“ کو مانا جائے گا؟ یا اسے کسی دماغی ہسپتال میں داخل کیا جائے گا؟
۴:… ایک لمحہ کے لئے اگر قادیانی بزرچ مہروں کی اس برخود غلط ”دل سوزی“ کو مان بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ اگر واقعی اس کی ضرورت تھی؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی تیرہ صدیاں اس سے خالی کیوں گزریں؟ اور اس طویل ترین دور میں امت کو نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوئی؟ اسی طرح پھر مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قادیانی امت کو اس ”خیر“ سے کیوں محروم رکھا گیا؟ اور قادیانیوں کو غلام احمد قادیانی کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی؟
۵:… اگر انسانیت کی راہ نمائی کے لئے نبوت کی ضرورت تھی‘ تو نئی نبوت کے ساتھ ساتھ نئی شریعت کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی؟ اس لئے اگر نبوت و شریعت کی ضرورت تھی‘ تو پھر چشم بد دور مرزا غلام احمد قادیانی نے ظلّی اور بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیوں کیا؟ کھل کر صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کیا؟ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔
۲:… ”جب حضرت محمد اور ان کے پیروکار اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوسکتے ہیں تو ایک مسلمان کیوں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا؟ دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اسے مرتد قرار دے کر اس کے قتل کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ مذہبی تبدیلی کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا‘ کیا یہ حکم اس امر کا غماز نہیں ہے کہ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے ”اسلام بذریعہ تبلیغ“ کے بجائے ”خاندانی یا موروثی اسلام“ کو ترجیح دی‘ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا‘ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو تبدیلی چاہے‘ اسے قتل کردیا جائے‘ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں؟“
جواب:… دین و مذہب کی تبدیلی پر سزائے ارتداد کے اسلامی قانون پر اگر کسی کو بالفرض‘ اعتراض کا حق ہوتا تو اس کے حق دار وہ لوگ تھے جو کسی آسمانی دین و مذہب کے پیروکار ہوتے؟ یا ان کے دین و مذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی‘ جیسے یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ رہے وہ لوگ جن کے دین و مذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہی نہیں ‘ بلکہ ان کا وجود ہی برخود غلط ہے‘ ان کو اس بحث میں حصہ لینے یا اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
۲:… کیا کسی ملک کی قانون ساز اسمبلی اور عوام کے نمائندہ ایوان کی جانب سے جارح اقوام‘ افراد‘ چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف قانون سازی پر‘ چوروں اور ڈاکوؤں یا جارح اقوام کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ یہ اعتراض کریں کہ ہمارے خلاف قانون کیوں بنایا گیا ہے؟ اور ہماری آزادی پر قدغن کیوں لگائی گئی ہے؟ یا اسی طرح ملک کے اُچکوں‘ بدمعاشوں اور سماج دشمنوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہماری چوری‘ بدمعاشی اور ڈاکا زنی پر سزا کا قانون پاس ہوا ہے تو چوری‘ ڈکیتی اور بدمعاشی سے توبہ کرنے والوں کے خلاف بھی سزا کا قانون بنایا جائے؟ لہٰذا جس طرح جارح اقوام‘ چوروں‘ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کو‘ ان کی بدمعاشی اور بدامنی کے خلاف قانون سازی پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں‘ ٹھیک اسی طرح سارقین نبوت‘ مرتدوں اور زندیقوں کے خلاف قانون ارتداد کی ترتیب و نفاذ پر‘ ان مرتدین کو بھی دین و دیانت اور عقل و شریعت کی رو سے کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے‘ بلکہ ان کا تحفظ‘ چوروں‘ بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کے تحفظ کے مترادف‘ اور ان کی سرکوبی بدمعاشوں کی سرکوبی کی مانند ہے۔
۳:… جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہوں تو ان پر سزائے ارتداد کا اجرا نہیں ہوتا‘ تو… نعوذباللہ!… مسلمانوں کے مرتد ہوکر یہودی‘ عیسائی یا کسی دوسرے دین کو اپنانے پر یہ سزا کیونکر جاری ہوتی ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:
الف:… بائبل میں بھی مرتد ہونے والے کی سزا قتل ہی ہے‘ چنانچہ خروج: باب ۲۲‘ آیت: ۲۰ میں ہے:
”جو کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نابود کردیا جائے۔“
ب:… جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہودی‘ عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں تو ان پر سزا ئے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصولی طور پر ہم اس سوال کا جواب دینے کے مکلف نہیں ہیں‘ بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں‘ بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔
تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِعمل صحیح ہے یا غلط؟ …اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت… یہودیت بھی اپنے باطل و منسوخ شدہ دین کے بارہ میں شدید تعصب کا شکار ہے‘ اس لئے کہ اگر وہ اپنے دین و مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر اور متعصب نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ‘ ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتی؟
اس سے ذرا اور آگے بڑھئے! تو یہودیت کے تعصب کا اس سے بھی اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتلِ ناحق‘ ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشدد پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ ورنہ بتلایا جائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ صرف یہی ناں کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلا دین و شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے ذریعہ نیا دین اور نئی شریعت آچکی ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات اور فوز و فلاح ہے۔
اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے ذمہ قرض ہے‘ وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ  اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں قتل کیا گیا؟ آخر ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کا پاک و پاکیزہ اور مقدس لہو بہایا گیا؟
اس کے علاوہ یہ بھی بتلایا جائے کہ حضرت عیسیٰ  روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟
مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضرات ِانبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اور پھر مسلمانوں سے بات کریں۔
ج:… یہ تو طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے حضراتِ انبیائے کرام اور رسل  بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا‘ جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تو اس کی انتہا‘ تکمیل اور اختتام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے دین و شریعت اور کتب کی کیفیت یکساں تھی یا مختلف؟
اگر بالفرض تمام انبیائے کرام کی شریعتیں ابدی و سرمدی تھیں‘ تو ایک نبی کے بعد دوسرے نبی اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ مثلاً: اگر حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابدی و سرمدی تھی اور اس پر عمل نجاتِ آخرت کا ذریعہ تھا تو اس وقت سے لے کر آج تک تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا تابع ہونا چاہئے تھا‘ اگر ایسا ہے تو پھر یہودیت و عیسائیت کہاں سے آگئی؟
لیکن اگر بعد میں آنے والے دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کی تشریف آوری سے‘ پہلے نبی کی شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی تھی… جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے… تو دوسرے نبی کی شریعت اور کتاب کے آجانے کے بعد سابقہ شریعت اور نبی کی اتباع پر اصرار و تکرار کیوں؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرا نبی‘ شریعت اور کتاب آجائے اور پہلا دین‘ شریعت اور کتاب منسوخ ہوجائے‘ تو اس منسوخ شدہ دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کے احکام پر عمل کرنا یا اس پر اصرار کرنا خود بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی ملک کے قانون میں ترمیم کردی جائے یا اس کو سرے سے منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا جدید آئین و قانون نافذ کردیا جائے‘ اب اگر کوئی عقل مند اس نئے آئین و قانون کی بجائے منسوخ شدہ دستور و قانون پر عمل کرتے ہوئے نئے قانون کی مخالفت کرے‘ تو اسے قانون شکن کہا جائے گا یا قانون کا محافظ و پاسبان؟
لہٰذا اگر کسی ملک کا سربراہ ایسے عقل مند کو رائج و نافذ جدید آئین و قانون کی مخالفت اور اس سے بغاوت کی پاداش میں باغی قرار دے کر بغاوت کی سزا دے‘ تو اس کا یہ فعل ظلم و تعدی ہوگا؟ یا عدل و انصاف؟ کیا ایسے موقع پر کسی عقل مند کو یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ اگر جدید آئین و قانون کو چھوڑنا بغاوت ہے تو منسوخ شدہ آئین و قانون کو چھوڑنا کیونکر بغاوت نہیں؟ اگر جدید آئین سے بغاوت کی سزا موت ہے تو قدیم و منسوخ شدہ آئین کی مخالفت پر سزائے موت کیونکر نہیں؟
د:… جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادیان اور ان کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں‘ اس سلسلہ میں گزشتہ سطور میں عقلی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ سابقہ انبیأ کی شریعتوں پر عمل باعث نجات نہیں‘ ورنہ نئے دین‘ نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ تاہم سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے بعد آنے والے دین و شریعت اور نبی کی آمد سے متعلق اپنی امت کو بشارت دی ہے اور ان کی اتباع کی تلقین بھی فرمائی ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

”و اذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ و لتنصرنہ۔“ (آل عمران:۸۱)
ترجمہ:… ”اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم‘ پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے۔“
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت انجیل کے علاوہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ:

”ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد۔“ (الصف:۶)
ترجمہ:․․․ ”اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد‘ اس کا نام ہے احمد۔“
اسی طرح بائبل میں استثنا‘ باب: ۱۸‘ میں ہے:
”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘ تم اس کی سننا۔“
اسی طرح اسی باب میں مزید ہے:
”اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں‘ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔“ (استثنا‘ باب: ۱۸‘ آیت: ۱۷‘۱۸)
چنانچہ سابقہ انبیائے کرام  میں سے کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ میری نبوت اور دین و شریعت قیامت تک کے لئے ہے اور میں قیامت تک کا نبی ہوں‘ دنیائے یہودیت و عیسائیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی نبی نے ایسا فرمایا ہے‘ تو اس کا ثبوت لاؤ:”قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔“ ہمارا دعویٰ ہے کہ صبح قیامت تک کوئی یہودی اور عیسائی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے گا۔
جب کہ اس کے مقابلہ میں آقائے دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی اور خاتم النبیین فرمایا گیا‘ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

۱:… ”قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً۔“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ:… ”تو کہہ: اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“

۲:… ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین۔“ (الانبیاء:۱۰۷)
ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکر جہان کے لوگوں پر۔“

۳:… ”ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین۔“ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:… ”محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے‘ لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم النبیین۔“

۴:… ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً و نذیراً۔“ (سبا:۲۸)
ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا‘ سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا:

۱:… ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔“ (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۴۵)
ترجمہ:… ”میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“

۲:… ”انا آخر الانبیاء و انتم آخر الامم۔“ (ابن ماجہ‘ ص:۲۹۷)
ترجمہ:… ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔“

۳:… ”لو کان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی۔“ (مشکوٰة‘ ص:۳۰)
ترجمہ:․․․ ”اگر موسیٰ علیہ الصلوٰة و السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“
اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے‘ تو ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے‘ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا‘ اس لئے جو شخص اس جدید و رائج قانون اور آئینِ الٰہی کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین و شریعت یا کسی خود ساختہ مذہب‘ جیسے موجودہ دورکے متعدد باطل و بے بنیاد ادیان و مذاہب… مثلاً: ہندو‘ پارسی‘ سکھ‘ ذکری‘ زرتشتی اور قادیانی وغیرہ… میں سے کسی کا اتباع کرے گا‘ وہ باغی کہلائے گا۔ دین و شریعت‘ قرآن و سنت اور عقل و دیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہیے‘ اور وہ قتل ہے۔
اسی لئے قانونِ ارتداد پر قادیانیوں کی طرف سے یہ اعتراض خالص دجل و فریب اور دھوکا ہے کہ:
”کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ تبدیلی مذہب کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا‘ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے اور اسلام بذریعہ تبلیغ کے بجائے خاندانی یا موروثی اسلام کو ترجیح دی‘ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا‘ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ مسلمان خودبخود بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو تبدیلی چاہے اسے قتل کردیا جائے۔“
کیونکہ یہ قانون مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں‘ بلکہ اسلام دشمنوں کی راہ روکنے کے لئے ہے‘ اس لئے کہ کسی ملک میں انسداد بغاوت اور جرائم کی روک تھام کا قانون کسی ملک کے شریف شہریوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ بدمعاشی کی روک تھام کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔
اگر قادیانی فلسفہ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ کسی جرم کی روک تھام پر قدغن لگانا یا اس پر کڑی سزاؤں کا نفاذ‘ اس کی علامت ہے کہ اس ملک کے شریف شہریوں کے بدمعاش اور جرائم پیشہ ہونے کے خوف سے وہ قوانین نافذ کئے گئے ہیں؟ حالانکہ مہذب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا‘ بلکہ ہر نیک دل حکمران اور شفیق باپ اپنی رعایا اور اولاد کو برائی کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے‘ بعض اوقات ازراہ خیر خواہی ان کو سزا بھی دیتا ہے اور معاشرہ کے بدکرداروں کے خلاف قانون سازی کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت تدبیر کرتا ہے ۔
اس سے ذرا مزید آگے بڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی کفر و شرک پر عذاب و عِقاب اور جہنم کی شدید سزا کا قانون مرتب فرمارکھا ہے‘ کیا نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ماننے والوں کی تعداد میں کمی کا اندیشہ تھا؟ اور اس نے بھی ان کی تعداد بڑھانے کے لئے اس فارمولا کو ترجیح دی ہے؟ اور بذریعہ آبادی اپنے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کے آسان اور موثر فارمولا پر عمل کیا ہے؟ کہ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے؟ بتلایا جائے کہ کیا ایسا کہنا عقل و دیانت کے مطابق ہے؟ قانون ارتداد پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا یہ اعتراض کہاں تک جاتا ہے؟
دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سرے سے جرم و سزا کا کوئی قانون ہی نافذ نہیں ہونا چاہئے‘ اگر ایسا ہو تو کیا اس سے معاشرہ انارکی‘ طوائف الملوکی‘ انتشار‘ تشدد اور بدامنی کی لپیٹ میں نہیں آجائے گا؟ جو لوگ ایسا مطالبہ کریں‘ کیا سمجھا جائے کہ وہ انسانیت کے دوست ہیں یا دشمن ؟
۳:… ”حضرت محمد نے اپنے خاندان یعنی آلِ رسول کو زکوٰة کی رقم دینے سے کیوں منع کیا ہے؟ کیا اس سے خاندانی بڑائی اور تکبر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیا رسول کا خاندان افضل اور باقی سب کمتر ہیں؟ بحیثیت انسان میں خاندانی افضیلت یا بڑائی تسلیم نہیں کرتا۔ خود حضرت محمد کا قول ہے کہ تم میں افضل وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں‘ تو پھر یہ قول ان کے اپنے خاندان پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟“
جواب:… عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کٹر سے کٹر مخالف میں بھی کوئی خوبی اور کمال نظر آئے‘ تو اس کا اعتراف کرنا چاہئے‘ مگر باطل پرستوں کے ہاں اس کے برعکس یہ اصول ہے کہ جب کسی سے پرخاش‘ بغض‘ عداوت یا دلی نفرت ہو‘ تو انہیں اس کی خوبیوں میں بھی سو‘ سو نقائص نظر آتے ہیں اور نہ صرف اس کے محاسن و خوبیوں کو نقائص و معائب بناکر پیش کیا جاتا ہے‘ بلکہ ان پر حرف گیری کی جاتی ہے۔ قادیانیوں کے مذکورہ اعتراض میں بھی ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کا یہی فلسفہ کارفرما ہے۔
ورنہ اگر دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر جہاں امت کے غرباء اور فقراء پر احسان فرمایا ہے‘ وہاں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے تنگی اور مشکلات پیدا فرمائی ہیں‘ اس لئے کہ:
۱:… زکوٰة تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی اس کے ذمہ فرض ہے‘ اگر زکوٰة و صدقاتِ واجبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے لئے حلال ہوتے تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی کہ میری زکوٰة سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم‘ آپ کے خاندان اور آل و اطہار کے مصرف میں آئے‘ اس سے ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کا خاندان تو آسودہ حال ہوسکتا تھا‘ مگر اس کے ساتھ‘ ساتھ مسلمان غرباء اور فقراء مالی تنگی اور تنگ دستی کا شکار ہوجاتے‘ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات‘ آل‘ اولاد اور خاندان کے مفادات کی قربانی دی اور اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو مشقت میں ڈال کر امتِ مسلمہ کے غرباء اور فقراء کے منافع کو پیش نظر رکھا۔
۲:… اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اور اپنی آل و اطہار کے لئے ہدیہ و عطیہ قبول کرنے میں بھی اپنی ذات اور اپنے خاندان کے مالی منافع کو مزید محدود فرمادیا ہے‘ کیونکہ ہدیہ و عطیہ دینے کی نہ تو ہر مسلمان میں استعداد و استطاعت ہوتی ہے اور نہ ہی ہر کسی کو اس کا ذوق ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان مالی تنگی اور عسر کے ساتھ ساتھ زہد و تکشف کا خوگر رہے گا‘ اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور دلی دعا تھی‘ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی دعا فرمائی کہ:

”اللہم اجعل رزق آل محمد قوتاً، متفق علیہ“ (مشکوٰة‘ص:۴۴۰)
ترجمہ: … ”اے اللہ! میرے خاندان کا رزق بقدر کفایت ہو۔“
۳:… دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دینے کا راز یہ تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لئے صدقات و زکوٰة لینا حلال قرار دیتے‘ تو احتمال تھا کہ اسلام دشمن اور قادیانیوں جیسے ملاحدہ وغیرہ یہ اعتراض کرتے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے …نعوذباللہ!… زکوٰة و صدقات کا حکم اپنی ذات اور اپنے خاندان کی مالی آسودگی کے لئے دیا ہے‘ جب ہی تو… نعوذباللہ!… وہ زکوٰة پر پل رہے ہیں۔ اسی حکمت کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰة کے مصرف کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”توخذ من اغنیائہم وترد فی فقرأہم۔“ (ابوداؤد‘ ص:۲۳‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”(مالِ زکوٰة) ان کے اغنیاء سے لے کر ان کے فقرأ پر خرچ کیا جائے۔“
چنانچہ اس حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض و بدگمانی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا اور واضح کردیا کہ زکوٰة و صدقات کے اجراء سے مقصود اپنی ذات یا خاندان کی معاشی آسودگی نہیں‘ بلکہ ان کے فوائد و منافع‘ زکوٰة و صدقات دینے والے مسلمانوں کے غریب و فقیر متعلقین ہی کی طرف لوٹائے جائیں۔
۴:… چونکہ جو لوگ بلا ضرورت مانگ کر یا زکوٰة و صدقات پر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں‘ عموماً ان میں تقویٰ‘ طہارت‘ حمیت‘ غیرت‘ شجاعت اور دوسرے اخلاق فاضلہ برقرار نہیں رہتے یا کم از کم کمزور پڑ جاتے ہیں‘ اور عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں‘ وہ محنت‘ مشقت اور کسبِ مال سے جی چراتے ہیں‘ عیش کوشی‘ راحت پسندی اور آرام طلبی ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے‘ سستی و کاہلی ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ اس لئے اندیشہ تھا کہ کہیں خاندانِ نبوت کے دشمن اس کو آڑ بنا کر ذاتِ نبوی کے خلاف زبان طعن کھول کر اپنی دنیا و آخرت نہ برباد کر بیٹھیں۔
انسانوں کے دین و ایمان کی بربادی کے اسی خطرہ کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل و اطہار اور خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر اپنی آل‘ اولاد اور خاندان پر معاشی وسعت کے دروازے بند کرکے ایک طرف ان کے لئے معاشی تنگی پیدا کی تو دوسری طرف بہت سوں کے ایمان و اسلام کو بربادی سے بچالیا۔
۵:… پھر اس کا بھی امکان تھا کہ کہیں میرا خاندان محض قرابت نبوی کی وجہ سے لوگوں کی زکوٰة و صدقات کو اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے‘ یا کہیں اس کی نگاہ لوگوں کے مال زکوٰة و صدقات پر ہی نہ ٹک جائے‘ اس لئے زکوٰة و صدقات کو سرے سے ان پر حرام قرار دے دیاگیا۔
۶:… اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ خاندانِ نبوت پر زکوٰة و صدقات حرام قرار دینے کی یہ حکمت ہو کہ میرا خاندان ذلیل دنیا اور معمولی رزق کی خاطر مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل و خوار نہ ہوجائے‘ یا لوگوں کی زکوٰة و صدقات پر تکیہ کرکے حصولِ رزق میں کاہل و سست نہ پڑ جائے‘ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر انہیں محنت و مجاہدہ سے بقدر کفایت رزق حاصل کرنے اور امور آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔
حیرت ہے کہ قادیانیوں کو ایک طرف آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زہد و تکشف اور اپنی ذات سے لے کر اپنی آل‘ اولاد اور خاندان کے لئے کفاف و قناعت کے طرز عمل پر تو اعتراض ہے‘ مگر دوسری طرف اُنہیں مسیلمہ پنجاب مرزا غلام احمد قادیانی کے اس بدترین کردار اور مال بٹورنے کے سو‘ سو غلیظ حیلوں ‘بہانوں اور بیسیوں قسم کے چندوں پر کوئی اعتراض نہیں۔
اگر قادیانی امت تعصب اور عناد کی عینک اتار کر ایک لمحہ کے لئے اپنے انگریزی نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی مالی حالت پر غور کرتی‘ تو اس پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ سیالکوٹ کی عدالت میں کلر کی کرنے والے ایک معمولی شخص کی فیملی‘ رائل فیملی کیسے بن گئی؟ اور اس کا خاندان دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں کیسے شامل ہوگیا؟ اور اس کے پاس اس قدر وافر مقدار میں مال و دولت کہاں سے آگئی؟ اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں کی اسٹیٹس کہاں سے نازل ہوگئیں؟ بلاشبہ قادیانی امت خود ہی مرزائی نبوت کی شریعت کی روشنی میں بتلاسکتی ہے کہ یہ سب قادیانی چندہ مہم کی برکت ہے‘ کیونکہ قادیانی شریعت میں تو قبر بھی چندہ کے عوض فروخت ہوتی ہے‘ اس لئے کہ جو قادیانی وقف زندگی‘ وقف جدید‘ وقف فلاں‘ وقف فلاں کا چندہ نہ دے سکیں‘ انہیں قادیانی ”بہشتی مقبرہ“ میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ جو قادیانی‘ بہشتی مقبرہ کا چندہ نہ دے پائے دوسرے لفظوں میں وہ جہنمی مقبرہ میں دفن ہوگا‘ گویا مرزا جی کو چندہ نہ دینے والے قادیانی اس دنیا میں ہی جہنمی ہیں۔
قادیانیو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے زکوٰة و صدقات استعمال نہ کرنے پر تو تمہیں اعتراض ہے‘ لیکن افسوس! کہ تمہیں اپنے نبی کے کنجریوں کی کمائی ہضم کرنے اور اُسے شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرجانے پر کوئی اشکال نہیں‘ آخر کیوں؟ قادیانیو! تمہارا نبی زندگی بھر دونوں ہاتھوں سے چندہ سمیٹتا رہا اور ساری زندگی مالی تنگی کا رونا بھی روتا رہا‘ سوال یہ ہے کہ آج اس کی فیملی اور خاندان رائل فیملی کیسے بن گیا؟
قادیانیو! تمہارے نبی کی ساری زندگی دوسروں کے مال پر نظر رہی‘ جبکہ ہمارے نبی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے دنی سے دامن چھڑانے میں گزری‘ چنانچہ آپ نے فرمایا: ہمیں تمہارے مال کی نہیں ایمان و اعمال کی ضرورت ہے۔
قادیانیو! تمہارے ہاں غریب کی کوئی حیثیت نہیں‘ چندہ دینے والے تمہارے ہاں بہشتی ہیں اور غریب جہنمی ہیں‘ اور تم قبروں کو بیچتے ہو‘ جبکہ ہمارے نبی اور ان کے امتیوں نے قبر فروشی کا کاروبار نہیں کیا‘ بلکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”…فمن مات وعلیہ دین ولم یترک وفاءً فعلیَّ قضاء ہ ومن ترک مالاً فلورثتہ‘ متفق علیہ۔“ (مشکوٰة‘ ص: ۳۶۳)
ترجمہ: ”اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اور اس پر کوئی قرضہ ہو تو اس کا میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ذمہ دار ہوں اور اگر مال چھوڑ جائے تو اس کا مال اس کے وارثوں کا ہے۔“
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا نورث ما ترکناہ صدقة‘ متفق علیہ۔“ (مشکوٰة‘ ص:۵۵)
ترجمہ:… ”ہم جماعت انبیاء جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ ہمارے خاندان میں بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ صدقہ ہے۔“
قادیانیو! بتاؤ!!! مرزا غلام احمد کی جائیداد اس کے خاندان کے علاوہ کہاں خرچ کی گئی؟ اگر قادیانیوں میں ذرہ برابر بھی شرم و حیا‘ یا عقل و دانش کی کوئی رمق ہوتی تو وہ نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر اعتراض کرنے کی بجائے دنیا کے پجاری اور انگریز کے حواری نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر دو حرف بھیج کر اس سے اظہار برأت کرتے۔
۴:… ”حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کا پانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟“
جواب:… دیکھا جائے تو اس اعتراض کے پیچھے بھی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کی انگریز حکومت کی نمک خواری کا جذبہ کار فرما ہے‘ ورنہ مرزائیوں اور تمام دنیا کو معلوم ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے‘ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مرزائیوں‘ قادیانیوں اور ان کے باوا غلام احمد قادیانی کا اسلام اور قرآن پر نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں‘ بلکہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
۲:… اگر قادیانی‘ قرآن کریم کو مانتے ہوتے اور اسے اللہ کا کلام سمجھتے ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود جہاد کا حکم دینا ہوتا تو مکی دور میں اس کا حکم دیتے‘ جبکہ مسلمان کفار و مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اگر جہاد کا معاملہ آپ کے قبضہ میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کو صبر کی تلقین کیوں فرماتے؟ حبشہ کی ہجرت کی اجازت کیوں دی جاتی؟ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کیوں فرماتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کفار اور مشرکین مکہ کے مظالم کیوں برداشت کرتے؟
۳:… اس سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے‘ اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا‘ اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا‘ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

الف:… ”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا‘ وان اللہ علی نصرہم لقدیر۔“ (الحج:۳۹)
ترجمہ:…”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں‘ اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“

ب:… ”یا ایھاالنبی حرض المومنین علی القتال‘ ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین‘ وان یکن منکم مائة یغلبوا الفا من الذین کفروا بانہم قوم لایفقہون۔“ (الانفال:۶۵)
ترجمہ:… ”اے نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا‘ اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔“

ج:… ”کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم‘ وعسٰی ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم‘ وعسٰی ان تحبوا شیئًا وہو شرلکم‘ واللہ یعلم وانتم لاتعلمون۔“ (البقرہ:۲۱۶)
ترجمہ:…”فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو‘ او ر شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔“
ان آیات اور اسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا‘ چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی‘ اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قو ت و حشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔
۴:… اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف و اذیتوں پر صبر و برداشت کا حکم تھا تو اب جوابی‘ بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایا گیا کہ یہ صبر و برداشت ایک وقت تک تھی‘ اب اس کا حکم ختم ہوگیا ہے اور جہاد و قتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہا ہوچکی۔
نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار‘ مشرکین اور ان کے مظالم‘ اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے‘ اس لئے حکم ہوا کہ : ”وقاتلوہم حتی لاتکون فتنہ“ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہوجائے۔
اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا گیا:

الف:… ”یایھاالنبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم ومأوٰہم جہنم وبئس المصیر۔“ (التوبہ :۷۳)
ترجمہ:…”اے نبی! لڑائی کر کافروں سے اور منافقوں سے اور تند خوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔“

ب:… ”قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ‘ واللہ لایہدی القوم الفٰسقین۔“ (التوبہ: ۲۴)
ترجمہ:… ”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال‘ جو تم نے کمائے ہیں اور سودا گری‘ جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“
ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے‘ بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے‘ اور جو لوگ اپنی محبوبات و مرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجا نہیں لائیں گے‘ وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اللہ کا رسول‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجا لائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اُسے فرض جانیں تو اس میں اللہ کے نبی ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں کا کیا قصورہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضا کے خلاف سب مرغوبات و محبوبات کو چھوڑ کر اللہ کا حکم بجا لائیں‘ وہ قابلِ طعن ہیں یا وہ‘ جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟
بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے زمرے اور مصداق میں آتا ہے۔
۵:… اس سے ہٹ کر مشاہدات‘ تجربات‘ عقل اور دیانت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے‘ تو اللہ کے باغی کفار‘ مشرکین اور معاندین کے خلاف جہاد یا اعلان جنگ عین قرین ِ قیاس ہے۔
اس لئے کہ دنیا کے دو پیسے کے بادشاہوں میں سے کسی کے خلاف اس کی رعایا کا کوئی فرد اعلان بغاوت کردے تو پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کیا جاتا ہے اور ایسے باغی کے خلاف پورے ملک کی فوج اور تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے تاآنکہ اس کو ٹھکانے نہ لگادیا جائے۔ اور مہذب دنیا میں ایسے باغیوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت ہوتی ہے‘ بلکہ اگر ایسے باغی گرفتار ہوجائیں اور سو بار توبہ بھی کرلیں تو ان کی جان بخشی نہیں ہوتی‘ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم‘ برادری یا افراد‘ خالق و مالک کائنات اور رب العالمین سے بغاوت کریں‘ اور نعوذباللہ! اس کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے کو رب‘ الٰہ اور مالک مان لیں یا خالق کائنات کے احکام سے سرتابی کریں‘ تو کیا اس رب العالمین اور مالک ارض و سما کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ ان شوریدہ سروں کا علاج کرے اور ان کو ٹھکانے لگائے؟ دیکھا جائے تو جہاد کا یہی مقصد ہے‘ اور یہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔
۶:… پھر جہاد صرف شریعت محمدی ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی مشروع تھا‘ جیسا کہ بائبل میں ہے:
”پھر ہم سے مڑ کر بسن کا راستہ لیا اور بسن کا بادشاہ عوج اورعی# میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں جنگ کرنے کو آیا‘ اور خداوند نے مجھ سے کہا: اس سے مت ڈرو کیونکہ میں نے اس کو اور اس کے سب آدمیوں اور ملک کو تیرے قبضہ میں کردیا ہے‘ جیسا تونے اوریوں کے بادشاہ سیحون# سے جو حسبون# میں رہتا تھا کیا‘ ویسا ہی تو اس سے کرے گا؟ چنانچہ خداوند ہمارے خدا نے لبسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کردیا اور ہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا‘ اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہرلے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے نہ لے لیا ہو… اور جیسا ہم نے سیحون# کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ہی ان سب آباد شہروں کو مع عورتوں اور بچوں کے بالکل نابود کر ڈالا۔“ (استثنا‘ باب:۳‘ آیت:۱ ‘۲‘۳ اور ۶)
اسی طرح باب :۲‘ آیت: ۱۰ تا ۱۴ میں ہے:
”جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا‘ اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں‘ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو‘ تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا‘ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو‘ کھانا۔“
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
اسلام نے ان کی انہیں فطری صلاحیتوں کے باعث ان پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے‘ چنانچہ اسلام نے خواتین کو کسب معاش کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا‘ بلکہ اسے گھر کی ملکہ بنایا‘ گھر کی چار دیواری کے معاملات اس کے سپرد فرمائے اور گھر کی چار دیواری کے باہر تمام امور مرد کے ذمہ قرار دیئے‘ کسب معاش مرد کی ذمہ داری ہے‘ خاتون کے نان‘ نفقہ‘ لباس‘ پوشاک‘ علاج معالجہ اور سکونت و رہائش کا انتظام بھی مرد کے ذمہ قرار دیا‘ اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق و ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرماکر فرمایا:

”ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجة“ (البقرہ: ۲۲۸)
یعنی ان خواتین کے حقوق بھی اسی طرح ہیں‘ جس طرح ان پر مردوں کے حقوق ہیں‘ معروف طریقہ کے ساتھ‘ اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ کی فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ہنگامہٴ دنیا و بازار ‘ تجارت‘ معاش‘ قیادت و سیادت اور حکومت و امامت کا ذمہ دار بنایا تو خواتین کو گھر میں رہتے ہوئے انسانیت سازی کا کارخانہ حوالہ کیا‘ اور فرمایا گیا:

”اذا صلت خمسہا وصامت شہرہا واحصنت فرجھا و اطاعت بعلہا فلتدخل من ایّ ابواب الجنة شاء ت۔“ (مشکوٰة : ۲۸۱)
یعنی عورت گھر میں رہ کر اپنے اللہ‘ رسول کے حقوق بجا لائے‘ پانچ وقت کی نماز پڑھے‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
مگر یورپ کے مستشرقین کو عورت کا یہ اعزاز‘ عزت و عظمت اور سکون و اطمینان برداشت نہیں‘ انہوں نے عورت کے حقوق کی پاسداری اور علمبرداری کی آڑ میں اس کو گھر سے نکال کر ہنگامہ بازار میں لاکھڑا کیا‘ انہوں نے اس بے چاری سے اپنی فطری خواہشات تو پوری کیں‘ مگر اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے اسے بھی بازار و کارخانہ کی راہ دکھائی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر عورت کو یہ راہ سجھائی کہ جس طرح ہمارا دل بھر جاتا ہے اور ہم عورت کو ٹھوکر مار کر گھر سے نکال دیتے ہیں‘ اسی طرح اگر عورت کا دل بھر جائے تو وہ بھی اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد کی راہ دیکھے‘ دیکھا جائے تو اس ”خیر خواہی“ کے پیچھے بھی عورت دشمنی کا یہ راز ہے کہ کل کلاں عورت کے اس دھتکارے جانے پر ہمیں کوئی موردالزام نہ ٹھہرائے اور ہم نت نئی خاتون کو اپنی خواہش اور ہوس کا نشانہ بنا تے پھریں‘ اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور اسے چلتا کردیں۔یہی وجہ ہے کہ آج یورپ و امریکہ میں زنا کو نکاح پر ترجیح دی جاتی ہے‘ کیونکہ نکاح کرنے کی صورت میں عورت‘ مرد کی جائیداد کی حق دار ہوجاتی ہے‘ جبکہ زنا کاری کی غرض سے ایک ساتھ رہنے میں مرد پر عورت کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے‘ لہٰذا مرد جب چاہے اس کو دھکا دے کر فارغ کرسکتا ہے۔ کیا کبھی عورت کے حقوق کی دہائی دینے والوں نے عورت کے اس بدترین استحصال کے خلاف بھی آواز اٹھائی؟
جبکہ اسلام نے میاں بیوی کے نکاح کے بندھن کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا ہے‘ پھر چونکہ اندیشہ تھا کہ عورت اپنی فطری کمزوری‘ جلد بازی سے اس بندھن کو توڑ کر در‘ در کی ٹھوکریں نہ کھائے‘ اس لئے فرمایا کہ اس معاہدئہ نکاح کے فسخ کا حق مرد کے پاس ہی رہنا چاہئے‘ چنانچہ اس عقد کو باقی رکھنے کے لئے خصوصی ہدایات دی گئیں اور فرمایا گیا کہ اگر خدانخواستہ خواتین کی جانب سے ایسی کسی کمی کوتاہی کا مرحلہ درپیش ہو تو مردوں کو اس عقد کے توڑنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے‘ بلکہ دونوں جانب کے بڑے بوڑھوں اور جانبین کے اکابر و بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اصلاح کی فکر کرنی چاہئے‘ چنانچہ فرمایا گیا:

”والتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا‘ ان اللّٰہ کان علیاً کبیراً‘ و ان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکماً من اہلہ و حکما من اہلہا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللّٰہ بینہما‘ ان اللّٰہ کان علیماً خبیرا۔“ (النساء:۳۵)
ترجمہ:․․․ ”اور جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو‘ تو ان کو سمجھاؤ اور جدا کرو سونے میں اور مارو پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی‘ بے شک اللہ ہے سب سے اوپر بڑا‘ اور اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں‘ تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک منصف عورت والوں میں سے‘ اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرادیں تو اللہ موافقت کردے گا ان دونوں میں‘ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔“
ہاں اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ عورت کا اس مرد کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے یا شوہر ظلم و تشدد پر اتر آئے تو ایسی صورت میں عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی عدالت یا اپنے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ اس ظالم سے گلو خلاصی کراسکتی ہے۔
اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اندازا ہوگا کہ اس میں عورت کی عزت‘ عصمت اور عظمت کے تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے‘ کیونکہ نکاح کے بعد مرد کا تو کچھ نہیں جاتا‘ البتہ عورت کے لئے کئی قسم کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں‘ مثلاً: خود اس کا اپنا بے سہارا ہوجانا‘ اس کے بچوں کی پرورش‘ تعلیم‘ تربیت‘ ان کے مستقبل اور اس کے خاندان کی عزت و ناموس کا معاملہ وغیرہ‘ ایسے بے شمار مسائل‘ اس بندھن کے ٹوٹنے سے کھڑے ہوسکتے ہیں‘ اور ان تمام مسائل سے براہِ راست عورت ہی دو چار ہوتی ہے‘ اس لئے فرمایا گیا کہ عورت کو اس بندھن کے توڑنے کا اختیار نہ دیا جائے‘ تاکہ وہ ان مشکلات سے بچ جائے۔ بتلایا جائے کہ یہ عورت کی خیر خواہی ہے یا بدخواہی؟
مگر ناس ہو یورپ اور مستشرقین کی اندھی تقلید کا! کہ اس نے اپنے ذہنی غلاموں کو ایسا متاثر کیا کہ وہ ہر چیز کو ان کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی زاویہ نگاہ سے اسلامی احکام پر نقد و تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔
بلاشبہ مرزائیوں کا یہ اعتراض بھی میرے خیال میں اپنے آقاؤں کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے‘ ورنہ شاید وہ بھی اپنی خواتین کو حق طلاق دینے کے روادار نہیں ہوں گے‘ اگر ایسا ہوتا تو ان کی عورتیں کب کی ان پر دو حرف بھیج کر جاچکی ہوتیں۔
آخر میں ہم خواتین کے حق طلاق کا مطالبہ کرنے والوں سے یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ ہی کی طرح کا کوئی عقل مند کل کلاں یہ اعتراض کر بیٹھے کہ:
۱:… اللہ میاں نے مردوں کی داڑھی بنائی ہے تو عورتوں کو اس سے کیوں محروم رکھا؟
۲:… عورت اور مرد کے جنسی اعضا مختلف کیوں ہیں؟
۳:… ہر دفعہ خواتین ہی بچے کیوں جنتی ہیں؟ مردوں کو اس سے مستثنیٰ کیوں رکھا گیا؟
۴:… بچوں کو دودھ پلانے کی ذمہ داری عورت پر کیوں رکھی گئی؟
۵:… عورت ہی کو حیض و نفاس کیوں آتا ہے؟
۶:… حمل اور وضع حمل کی تکلیف مردوں کو کیوں نہیں دی گئی؟
تو بتلایا جائے کہ آپ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہی ناں کہ یہ مردوں اور خواتین کی جسمانی ساخت اور فطری استعداد کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس کو جیسی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں‘ اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے۔
بالکل اسی طرح خواتین کے حقِ طلاق کے مطالبہ کا بھی یہی جواب ہے کہ جس ذات نے عورت اور مرد کو پیدا فرمایا ہے‘ اس نے ان کی صلاحیتوں اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہر ایک کے فرائض بھی تقسیم فرمائے ہیں‘ اس لئے اگر مردوں کے بچے نہ جننے‘ حمل‘ وضع حمل‘ رضاعت اور ان کو حیض و نفاس نہ آنے پر قادیانیوں اور ان کے روحانی آباؤ اجداد یورپی مستشرقین کو کوئی اعتراض نہیں‘ تو مردوں کے حقِ طلاق پر انہیں کیونکر اعتراض ہے؟
۱۱:… ”حضرت محمد نے حلالہ کے قانون میں عورت کو کسی بے جان چیز یا بھیڑ بکری کی طرح استعمال کئے جانے کا طریقہ کار کیوں وضع کیا ہے؟ طلاق مرد دے اور دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو عورت پہلے کسی دوسرے آدمی کے نکاح میں دی جائے‘ وہ دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ جنسی عمل سے گزرے‘ پھر اس دوسرے شخص کی مرضی ہو‘ وہ طلاق دے تو عورت دوبارہ پہلے آدمی سے نکاح کرسکتی ہے؟ یعنی اس پورے معاملے میں استعمال عورت کا ہی ہوا‘ مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑا‘ اس میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟“
جواب:… اگر دیکھا جائے تو قادیانیوں کا یہ اعتراض بھی سراسر بدنیتی اور جہالت پر مبنی ہے‘ اس لئے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مروجہ حلالہ کے لئے عارضی نکاح کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تلقین نہیں فرمائی‘ بلکہ اس کی قباحت و شناعت بیان فرمائی ہے‘ چنانچہ محض پہلے شوہر کے لئے عو رت کو حلال کرکے طلاق دینے والے حلالہ کنندہ اور ایسا حلالہ کرانے والے دونوں کو ملعون قرار دیا ہے‘ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ۔“ (مسند احمد ص:۴۵۰‘ ج:۱)
ترجمہ:… ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر۔“
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تین طلاق دینے کے بعد خاتون اپنے شوہر کے لئے حرام ہوجاتی ہے اور بلا تحلیل شرعی ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح اور ملاپ نہیں ہوسکتا‘ تو یہ قرآن کریم کا مسئلہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے بیان فرمایا ہے‘ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

الف:… ”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔“ (البقرة:۲۲۹)
ترجمہ:…”طلاق رجعی ہے دو بار تک‘ اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑدینا بھلی طرح سے۔“

ب:… ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ۔“ (البقرہ:۲۳۰)
ترجمہ:… ”پھر اگر اس عورت کو طلاق یعنی تیسری بار‘ تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔“
دراصل اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے نکاح کے اس بندھن کے توڑنے کے حق میں نہیں ہیں‘ وہ نہیں چاہتے کہ ایک ہنستا بستا گھرانا طلاق کی وجہ سے اجڑ جائے۔ اس لئے طلاق اگرچہ مباح ہے‘ مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں مباح و جائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض و ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین طلاق کو آخری حد قرار دیا ہے‘ جبکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد نکاح ثانی کے بغیر مرد کے دوبارہ رجوع کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا‘ لیکن اگر کوئی انتہا پسند اپنی عجلت پسندی اور حماقت سے اس حد کو بھی پار کر جائے تو اس پر کوئی تعزیر اور تازیانہ ضرور ہونا چاہئے اور وہ تعزیر و تازیانہ یہ مقرر فرمایا کہ تم نے چونکہ اپنی بیوی کو بے قدر چیز اور نکاح کو کھیل بنا رکھا تھا‘ اس لئے تیسری طلاق کے بعد اب تمہارا اس عورت پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری طلاق کی حد پار کرنے والے پر جب تعزیر و تازیانہ کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر حرام قرار دے دیا گیا‘ تو دوسرے نکاح کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال کیوں قرار دے دی گئی؟ اس سلسلہ میں حافظ ابن قیم نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”اعلام الموقعین“ میں اس کی نہایت خوبصورت حکمت و علت بیان فرمائی ہے‘ چنانچہ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
”تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی جانتا ہے جس کو اسرار شریعت اور مصالح کلیہ الٰہیہ سے واقفیت ہو‘ پس واضح ہو کہ اس امر میں شریعتیں بحسب مصالح ہر زمانہ اور ہر امت کے لئے مختلف رہی ہیں۔ شریعت تورات نے طلاق کے بعد جب تک عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے‘ پہلے مرد کا رجوع اس کے ساتھ جائز رکھا تھا اور جب وہ دوسرے شخص سے نکاح کرلیتی‘ تو پہلے شخص کو اس عورت سے کسی صورت میں رجوع جائز نہ تھا۔ اس امر میں جو حکمت و مصلحت الٰہی ہے‘ ظاہر ہے‘ کیونکہ جب مرد جانے گا کہ اگر میں نے عورت کو طلاق دیدی تو اس کو پھر اپنا اختیار ہوجائے گا‘ اور اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا بھی جائز ہوجائے گا اور پھر جب اس نے دوسرا نکاح کرلیا تو مجھ پر ہمیشہ کے لئے یہ عورت حرام ہوجائے گی۔ تو ان امور خاصہ کے تصور سے مرد کا عورت سے تعلق و تمسک پختہ ہوتا تھا‘ اور عورت کی جدائی کو ناگوار جانتا تھا۔ شریعت تورات بحسب حال مزاج امت موسوی نازل ہوئی تھی‘ کیونکہ تشدد اور غصہ اور اس پر اصرار کرنا ان میں بہت تھا۔ پھر شریعت انجیلی آئی تو اس نے نکاح کے بعد طلاق کا دروازہ بالکل بند کردیا ۔ جب مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا تو اس کے لئے عورت کو طلاق دینا ہرگز جائز نہ تھا۔
پھر شریعت محمدیہ آسمان سے نازل ہوئی جو کہ سب شریعتوں سے اکمل‘ افضل‘ اعلیٰ اور پختہ تر ہے اور انسانوں کے مصالح‘ معاش و معاد کے زیادہ مناسب اور عقل کے زیادہ موافق ہے‘ خدا تعالیٰ نے اس امت کا دین کامل اور ان پر اپنی نعمت پوری کی‘ اور طیبات میں سے اس امت کے لئے بعض وہ چیزیں حلال ٹھہرائیں جو کسی امت کے لئے حلال نہیں تھیں‘ چنانچہ مرد کے لئے جائز ہوا کہ بحسب ضرورت چار عورت تک سے نکاح کرسکے‘ پھر اگر مرد و عورت میں نہ بنے تو مرد کو اجازت دی کہ اس کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرلے‘ کیونکہ جب پہلی عورت موافق طبع نہ ہو یا اس سے کوئی فساد واقع ہو اور وہ اس سے باز نہ آئے تو شریعت اسلامیہ نے ایسی عورت کو مرد کے ہاتھ اور پاؤں اور گردن کی زنجیر بناکر اس میں جکڑنا اور اس کی کمر توڑنے والا بوجھ بنانا تجویز نہیں کیا اور نہ اس دنیا میں مرد کے ساتھ ایسی عورت کو رکھ کر اس کی دنیا کو دوزخ بنانا چاہا ہے۔
لہٰذا خدا تعالیٰ نے ایسی عورت کی جدائی مشروع فرمائی اور وہ جدائی بھی اس طرح مشروع فرمائی کہ مرد‘ عورت کو ایک طلاق دے‘ پھر عورت تین طہر یا تین ماہ تک اس مرد کے رجوع کا انتظار کرے‘ تاکہ اگر عورت سدھر جائے اور شرارت سے باز آجائے اور مرد کو اس عورت کی خواہش ہوجائے یعنی خدائے مصرف القلوب عورت کی طرف مرد کے دل کو راغب کردے تو مرد کو عورت کی طرف رجوع کرنے کا دروازہ بھی مفتوح رہے‘ تاکہ مرد عورت سے رجوع کرسکے اور جس امر کو غصہ اور شیطانی جوش نے اس کے ہاتھ سے نکال دیا تھا‘ اس کو مل سکے اور چونکہ ایک طلاق کے بعد پھر بھی جانبین کی طبعی غلبات اور شیطانی چھیڑ چھاڑ کا اعادہ ممکن تھا‘ اس لئے دوسری طلاق مدت مذکورہ کے اندر مشروع ہوئی‘ تاکہ عورت بار بار کی طلاق کی تلخی کا ذائقہ چکھ کر اور خرابی خانہ کو دیکھ کر دوبارہ اس قبیحہ کا اعادہ نہ کرے جس سے اس کے خاوند کو غصہ آوے اور اس کے لئے جدائی کا باعث ہو اور مرد بھی عورت کی جدائی محسوس کرکے عورت کو طلاق نہ دے۔
اور جب اس طرح تیسری طلاق کی نوبت آپہنچے‘ تو اب یہ وہ طلاق ہے جس کے بعد خدا کا یہ حکم ہے کہ اس مرد کا رجوع اس عورت مطلقہ ثلاثہ سے نہیں ہوسکتا‘ اس لئے جانبین کو کہا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق تک تمہارا آپس میں رجوع ممکن تھا‘ اب تیسری طلاق کے بعد رجوع نہ ہوسکے گا‘ تو اس قانون کے مقرر ہونے سے وہ دونوں سدھر جائیں گے‘ کیونکہ جب مرد کو یہ تصور ہوگا کہ تیسری طلاق اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بالکل جدائی ڈالنے والی ہے‘ تو وہ طلاق دینے سے باز رہے گا‘ کیونکہ جب اس کو اس بات کا علم ہوگا کہ اب تیسری طلاق کے بعد یہ عورت مجھ پر دوسرے شخص کے شرعی‘ معروف اور مشہور نکاح اور اس کی طلاق و عدت کے بغیر حلال نہ ہوسکے گی اور دوسرے شخص کے نکاح سے عورت کا علیٰحدہ ہونا بھی یقینی نہیں‘ پھر دوسرے نکاح کے بعد بھی جب تک دوسرا خاوند اس کے ساتھ دخول نہ کرلے‘ پھر اس کے بعد یا تو وہ مرجائے یا برضا و رغبت خود اُسے طلاق دیدے اور وہ عورت عدت نہ گزارلے‘ تب تک وہ اس کی طرف رجوع نہ کرسکے گا‘ تو اس وقت مرد کو اس رجوع کی ناامیدی کے خیال سے اور اس احساس سے ایک دوراندیشی پیدا ہوگی اور وہ خدا تعالیٰ کی ناپسندیدہ ترین مباح یعنی طلاق دینے سے باز رہے گا‘ اسی طرح جب عورت کو اس عدم رجوع کی واقفیت ہوگی تو اس کے اخلاق بھی درست رہیں گے اور اس سے ان کی آپس میں اصلاح ہوسکے گی‘ اور اس نکاح ثانی کے متعلق نبی علیہ السلام نے اس طرح تاکید فرمائی کہ وہ نکاح ہمیشہ کے لئے ہو‘ پس اگر دوسرا شخص اس عورت سے اپنے پاس ہمیشہ رکھنے کے ارادہ سے نکاح نہ کرے بلکہ خاص حلالہ ہی کے لئے کرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے اور جب پہلا شخص اس قسم کے حلالہ کے لئے کسی کو رضا مند کرے تو اس پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ تو شرعی حلالہ وہ ہے کہ جس میں خود ایسے اسباب پیدا ہوجائیں کہ جس طرح پہلے خاوند نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی‘ اسی طرح دوسرا بھی طلاق دے یا مر جائے تو عورت کا عدت کے بعد پہلے خاوند کی طرف بلا کراہت رجوع درست ہے۔
پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع کے جواز کی وجہ مذکورہ بالا تفصیلات سے ظاہر و باہر ہے کہ اس میں عورت اور نکاح کی عزت و عظمت اور نعمت الٰہی کے شکر‘ نکاح کے دوام اور اس تعلق کے نہ ٹوٹنے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے‘ کیونکہ جب خاوند کو عورت کی جدائی سے اس کے دوبارہ ملاپ کے درمیان اتنی ساری رکاوٹیں حائل ہوتی محسوس ہوں گی تو وہ تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔“ (بحوالہ احکام اسلام عقل کی نظر میں از حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
رہی یہ بات کہ اس سلسلہ میں عورت ہی کو ان تمام مراحل سے کیوں گزارا گیا؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ شوہر ثانی سے نکاح کی شرط میں شوہر اول کو اس مفارقت و جدائی کا مزہ چکھانا مقصود ہے اور یہ بتلانا مقصود ہے کہ بلا کسی ضرورت و مصلحت اور سوچے سمجھے طلاق دینے اور اپنے نفس کی خواہش سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کا یہ عذاب ہے‘ کیونکہ کوئی باغیرت مرد اس قدر اپنی تذلیل کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے کسی غلط عمل کی و جہ سے اس کی بیوی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘ اس کے بستر کی زینت بنے اور پھر وہ دوبارہ اس کے نکاح میں آئے۔
دیکھا جائے تو اس میں بھی اس خاتون کی عزت و تکریم کا لحاظ رکھا گیا ہے‘ اس لئے کہ طلاق دہندہ مرد کو باور کرایا جارہا ہے کہ جس کو تم نے بے قدر سمجھا تھا‘ وہ ایسی بے قدر نہیں ہے‘ بلکہ وہ تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے باعزت زندگی گزار سکتی ہے‘ لیکن جب دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے دے یا وہ مر جائے اور پھر پہلا شوہر اس سے نکاح کی رغبت کرے گا تو آئندہ وہ اس عورت کی پہلے جیسی ناقدری نہیں کرے گا‘ بلکہ وہ اسے عزت و عظمت کا مقام دے گا۔ اب بتلایا جائے کہ اس میں مرد کی توہین و تذلیل زیادہ ہے یا عورت کی؟
افسوس!!! کہ اس فطری مسئلہ پر اعتراض وہی لوگ کرتے ہیں جن کے ہاں عورت محض شہوت رانی کا ایک ذریعہ ہے‘ اور وہ اسے کسی شمع محفل اور داشتہ سے زیادہ حیثیت دینے کے روادار نہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے یہ سوال دراصل اپنے آباؤ اجداد یورپی مستشرقین سے مرعوبیت اور ان کی ہم نوائی کا شاخسانہ ہے اور بس!
۱۲:… ”حضرت محمد نے قصاص و دیت کا قانون کیوں وضع کیا؟ مثال کے طور پر اگر میں قتل کردیا جاتا ہوں‘ اور میرے اپنی بیوی یا بہن بھائیوں سے اختلافات ہیں تو لازماً ان کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ میرے بدلے میں زیادہ سے زیادہ خون بہالے کر میرے قاتل سے صلح کرلیں اور باقی عمر عیش کریں‘ میں تو اپنی جان سے گیا‘ میرے قاتل کو پیسوں کے عوض یا اس کے بغیر معاف کرنے کا حق کسی اور کو کیوں تفویض کیا گیا؟ کیا اس طرح سزا سے بچ جانے پر قاتل کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کیا پیسے کے بل بوتے پر وہ مزید قتال کے لئے اس معاشرے میں آزاد نہیں ہوگا؟ پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک شیخ‘ ایک پاکستانی کو قتل کرکے سزا سے بچ گیا‘ کیونکہ مقتول کے اہل خانہ نے کافی دینار لے کر قاتل کو معاف کردیا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں صرف وہ قاتل سزا پاتا ہے‘ جس کے پاس قصاص کے نام پر دینے کو کچھ نہ ہو۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں‘ قیام سے لے کر اب تک‘ باحیثیت افراد میں سے صرف گنتی کے چند اشخاص کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ملی‘ وہ بھی اس وجہ سے کہ مقتول کے ورثا قاتل کی نسبت کہیں زیادہ دولت مند تھے۔ لہٰذا انہوں نے خون بہا کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اس قانون کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی باحیثیت شخص کسی کا قتل کردیتا ہے تو قاتل کے اہل و عیال و رشتہ دار مقتول کے ورثا پر طرح طرح سے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں‘ جس پر ورثا قاتل کو معاف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا حضرت محمد نے اس قانون کو وضع کرکے ایک امیر شخص کو براہ راست ”قتل کا لائسنس“ جاری نہیں کیا؟ “
جواب:… اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے قتل ہوجانے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی نے جان بوجھ کر کسی کو جان سے مار دیا‘ دوم یہ کہ وہ کسی شکار وغیرہ کو مارنا چاہتا تھا‘ مگر غلطی سے اس کے نشانہ پر کوئی انسان آگیا‘ اور وہ مر گیا‘ یا اس نے سمجھا کہ سامنے والا ہیولا اور شبیہ کسی جنگلی جانور یا شکار کی ہے‘ مگر اتفاق سے وہ کوئی انسان تھا جو شکاری کی گولی کا نشانہ بن کر مر گیا‘ پہلی صورت کو قتل عمد کہتے ہیں جس کی سزا قصاص ہے‘ اور دوسری صورت قتل خطا کی ہے اور اس کی سزا دیت اور خوں بہا ہے‘ قتل عمد میں اگر مقتول کے وارث قصاص لینے کی بجائے فی سبیل اللہ‘ یا خوں بہا لے کر قاتل کی جان بخشی کرنا چاہیں تو شریعت نے ان کو اختیار دیا ہے… مگر اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اگر بالفرض قاتل‘ قصاص سے بچ جائے تو حکومت بھی اس کو اس کی اس درندگی پر کوئی سزا نہ دے‘ یا اس کی درندگی کی روک تھام کے لئے اسے کسی مناسب تعزیر سے بھی بری قرار دے دے۔… یہی وہ صورت ہے جس پر قادیانیوں کو اعتراض ہے۔
مگر افسوس! کہ ان کا اعتراض کسی واقعی اور عقلی شبہ کی بنا پر نہیں ہے‘ بلکہ محض اپنے یورپی آقاؤں اور عیسائی محسنوں کی ہم نوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اس لئے کہ قانون دیت و قصاص‘ جو دراصل قتل و غارت گری کے سدباب کا بہترین و موثر ذریعہ ہے‘ اس میں محض فرضی احتمالات کے ذریعے کیڑے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو قصاص و دیت کے اس قانون کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد کی صورت میں کسی طالع آزما کو کسی معصوم کی جان سے کھیلنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ اگر گواہوں سے یہ ثابت ہوجائے کہ قاتل نے جان بوجھ کر اس جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اس کو قصاصاً قتل کیا جائے گا‘ اور اگر کوئی قاتل اپنے اس جرم کی وجہ سے کیفر کردار کو پہنچ جائے تو اس سے پورے معاشرہ کو قتل و غارت گری سے نجات مل جائے گی اور آئندہ کسی قاتل کو اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں‘ اس کی سزا میں‘ میں خود بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا‘ لہٰذا اس جرم کے ارتکاب کا معنی یہ ہے کہ میں اپنی موت کے پروانہ پر دستخط کرنے جارہا ہوں‘ اسی کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:

”ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب۔“ (البقرة: ۱۷۹)
ترجمہ:… ”اور تمہارے واسطے قصاص میں بڑی زندگی ہے‘ اے عقلمندو!“
لیکن اگر قتل کی کسی واردات میں شواہد‘ قرائن اور گواہوں سے ثابت ہوجائے کہ واقعی‘ قاتل نے عمداً اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا‘ تو اس صورت میں قاتل کو قصاصاً قتل تو نہیں کیا جائے گا‘ مگر چونکہ قاتل کی ہی غلطی سے مقتول کی جان ضائع ہوئی ہے‘ اس لئے تو بطور سزا اس پر یہ تاوان رکھا گیا ہے کہ مقتول کے ورثا کی اشک شوئی کے طور پر وہ مقتول کے وارثوں کو ایک انسانی جان کی قیمت: سو اونٹ یا ان کی قیمت ادا کرے گا‘ مثلاً: آج اگر ایک اونٹ کی قیمت ۲۵ ہزارروپے ہے تو سو اونٹ کی قیمت ۲۵ لاکھ روپے ہوگی‘ بھلا جو شخص ایک بار اپنی غلطی کی سزا ۲۵ لاکھ کی ادائیگی کی شکل میں بھگت لے گا ‘وہ آئندہ کتنا محتاط ہوجائے گا؟ اور اس کی نگاہ میں انسانی جان کی کتنی قدر و قیمت ہوگی؟
پھر چونکہ کسی مسلمان کا قتل معاشرہ کا انتہائی گھناؤنا جرم ہے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی مبغوض و ناپسندیدہ ہے‘ چنانچہ ارشاد ہے:

”ومن یقتل مومناً متعمداً فجزآوٴہ جہنم خالداً فیہا۔“ (النساء:۹۳)
ترجمہ:… ”اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے‘ پڑا رہے گا اسی میں۔“
اگرچہ جمہور علمائے امت اس کے قائل ہیں کہ کفرو شرک کے علاوہ ہر جرم معاف ہوسکتا ہے اور کسی جرم کی سزا ہمیشہ کے لئے جہنم کی شکل میں نہیں ہوگی‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ” اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے‘ اس کے علاوہ جسے چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔“ (النساء: ۴۸)
مگر بہرحال اتنا تو ضرور ہے کہ ایسا شخص اگر بغیر توبہ کے مر گیا تو اسے کافی عرصہ تک جہنم میں جلنا ہوگا‘ اور ”خالداً فیہا“کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک عرصہ تک اسے جہنم کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔
اس لئے حضرت امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاتل کا قصاصاً قتل ہوجانا یا دیت کا ادا کردینا اس کی آخرت کی سزا کا بدل نہیں ہے‘ لہٰذا اس کو ان دنیاوی سزاؤں کا سامنا کرنے کے بعد آخرت کی سزا سے بچنے کے لئے خلوص و اخلاص اور صدق دل سے توبہ بھی کرنا ہوگی‘ ورنہ اسے آخرت کی سزا کا بہرحال سامنا کرنا ہوگا۔ مگر چونکہ قتل کے جرم میں حق اللہ کے ساتھ حق عبد بھی شامل ہے‘ اس لئے دنیاوی طور پر اس حقِ عبد کی وصولی کا اختیار مقتول کے ورثا کو ہی حاصل ہے‘ اگر وہ دعویٰ کریں گے تو شریعت ان کو ان کا حق دلائے گی اور اگر وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہونا چاہیں‘ تو عقل و دیانت اور دین و شریعت انہیں اپنے اس حق کی وصولی پر مجبور بھی نہیں کرے گی‘ بلکہ مہذب دنیا کے کسی قانون میں یہ بات شامل نہیں کہ کوئی آدمی اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہے اور قانون اسے دستبردار نہ ہونے دے۔
لہٰذا قادیانیوں اور ان کے ولیانِ نعمت عیسائیوں اور یورپ کے مستشرقین کی جانب سے یہ خدشہ پیش کرکے اس قانون دیت و قصاص پر اعتراض کرنا کہ: ”اگر مقتول کے وارثوں کی مقتول سے لڑائی اور اختلاف ہو تو ان کی پہلی کوشش ہوگی کہ مقتول کے قتل کے بدلے زیادہ سے زیادہ خون بہا لے کر صلح کرلیں اور زندگی بھر مزے کریں“ نہایت سفاہت و دنائت پر مشتمل ہے۔
اس لئے کہ اگر محض ان مفروضوں کی بنا پر کسی قانون کو موردالزام ٹھہرا کر اس کی افادیت کا انکار کیا جائے‘ تو بتلایا جائے کہ کون سا قانون اس سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے؟
اگر ایسا ہو تو کیا دنیا میں کہیں عدل و انصاف اور جرم و سزا کا قانون روبہ عمل ہوگا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ کون سی عدالت‘ کون سا جج‘ کون سا وکیل‘ کون سی عدلیہ بلکہ ملک کا صدر‘ وزیراعظم یا بڑے سے بڑا عہدیدار اس بدگمانی سے مستثنیٰ یا محفوظ رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں‘ تو پھر دنیا میں جرم و سزا کا قانون کیونکر نافذ ہوسکے گا؟ کیا دنیا میں کہیں عدل و انصاف کا وجود ہوگا؟
قادیانیو! ذرا عقل و ہوش کے ناخن لو! اور اپنے یورپی محسنوں کی اندھی تقلید میں اسلام‘ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے لچر اعتراض نہ کرو کہ خود دنیائے کفر بھی تمہارے منہ پر تھوکنے پر مجبور ہوجائے۔
۱۳:… ”اور اسی طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں پوچھنا توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے؟ “
جواب:… اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح پوری مہذب دنیا کا اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کا زبان‘ بیان‘ اشارے کنائے اور شواہد و قرائن سے مجرم ہونا ثابت نہ ہوجائے‘ اس وقت تک وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ٹھہرتا‘ ٹھیک اسی طرح دین اسلام کا بھی یہی اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کی گستاخی اور جرم قول‘ فعل‘ زبان‘ بیان‘ اشارے کنائے اور عمل کا روپ نہ دھارلے‘ اس وقت تک اسے مجرم باور نہیں کیا جائے گا‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ:

”…انا نجد فی انفسنا مایتعاظم احدنا ان یتکلم بہ قال اوقد وجدتموہ قالوا نعم قال ذاک صریح الایمان۔“ (مشکوٰة : ۱۸‘ بحوالہ صحیح مسلم)
یا رسول اللہ! ایسے ایسے بُرے خیالات آتے ہیں کہ گردن کٹانا تو گوارا ہے‘ مگر ان کا زبان پر لانا برداشت نہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو ایمان ہے۔ یعنی اگر بلا اختیار دل میں ایسے خیالات آئیں اور ان کو زبان پر نہ لایا جائے تو نہ تو وہ جرم ہیں اور نہ ہی توہین رسالت کے زمرے میں آئیں گے۔
اس تمہید کے بعد اب سمجھئے! کہ جب تک سائل کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات نے زبان و بیان کے اظہار کی شکل اختیار نہیں کی تھی‘ وہ کسی جرم کے دائرے میں نہیں آتے تھے‘ مگر اب جب کہ سائل نے نہایت توہین و تنقیص کے انداز میں ان خیالات کو اظہار کا جامہ پہنا کر‘ ان کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے تو بلاشبہ یہ انداز توہین رسالت کے زمرے میں آئے گا‘ جس کا واضح قرینہ سائل کا توہین و تنقیص پر مبنی اگلا چودھواں سوال ہے‘ جس میں اس نے اس کا برملا اظہار کیا ہے کہ:
”حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں‘ چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں‘ اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟“
گویا سائل نے نہایت جرأت‘ ڈھٹائی‘ بے باکی اور گستاخی کے انداز میں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ معراج‘ شق قمر‘ خدا تعالیٰ کے قرب اور اسلام کے بانی ہونے کا صاف انکار کیا ہے‘ اس کے علاوہ سائل نے تضحیک کے انداز میں اپنی اس گستاخی پر براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سزا پانے کا مطالبہ کرکے گویا یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش کی ہے کہ اس گستاخی پر تم تو کیا تمہارے جلیل القدر نبی بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بتلایا جائے کہ یہ گستاخی اور توہین رسالت کے زمرے میں کیونکر نہیں آئے گا؟ شاید سائل اور اس کے ہم نواؤں کو ہماری گزارشات یوں سمجھ نہ آئیں‘ تو ہم ان کو یہ معاملہ ایک مثال سے سمجھائے دیتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ:
اگر کوئی شخص صدر پاکستان جناب جنرل پرویز مشرف صاحب کے بارہ میں کہے کہ: اس نے فلاں کام غلط کیا؟ فلاں معاملہ اس کا درست نہیں تھا‘ اس نے اقربا پروری سے کام لیا‘ اس نے اپنے مفادات کی خاطر اور اپنے اقتدار و مقبولیت کی خاطر یہ یہ غلط کام کئے‘ اور پھر آخر میں یہ کہے کہ اس قسم کے سوالات میرے ذہن میں آتے ہیں‘ کیا ان کا زبان پر لانا صدر کی توہین کے زمرے میں آئے گا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو صدر صاحب اتنے بڑے عہدے کے حامل ہیں اور حاضر سروس جنرل اور پاکستان کے صدر بھی ہیں‘ تو کیا وہ مجھے ان سوالات و اشکالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ بتلایا جائے کہ کسی منچلے کا ایسا انداز صدر کی گستاخی میں آئے گا یا نہیں؟
۱۴:… ”جو حضرات ”ہاں“ کہیں گے‘ ان سے صرف یہی عرض کرسکتا ہوں کہ حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں‘ چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں‘ اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ خود مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ اگر ہاں! تو اے میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور میری طرح کے دیگر انسان مسلمانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو‘ کہ وہ خود ہی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ مناسب سزا تجویز فرما دینگے۔ “
جواب:… جیسا کہ تیرھویں سوال کے جواب میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ سائل کا یہ سوال اور سوال کا انداز! نہایت گستاخی‘ بے ادبی اور ڈھٹائی پر مشتمل ہے‘ اور یہ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کے زمرے میں آتا ہے‘ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کا باعث ہوں‘ ان پر دنیا و آخرت میں ا للہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (الاحزاب: ۵۷) سائل کا یہ کہنا کہ: ”میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور دیگر انسانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو کہ وہ خود ہمارے لئے مناسب سزا تجویز کریں“ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی گستاخ‘ کسی ملک کے سربراہ یا صدر کی بدترین گستاخی کا ارتکاب کرے اور وہاں کی انتظامیہ اور پولیس سے کہے کہ مجھ پر رحم کرو اور ملک کے صدر یا سربراہ کو موقع دو کہ وہ میرے لئے کوئی مناسب سزا تجویز کرے۔ کیا خیال ہے اس ملک کی انتظامیہ اور پولیس اس کا راستہ چھوڑ دے گی یا یہ کہہ کر اسے کیفر کردار تک پہنچائے گی کہ اس گستاخی کی سزا صدر یا سربراہ مملکت نہیں بلکہ ملکی قانون و دستور کی روشنی میں ہم ہی نافذ کریں گے؟
بتلایا جائے کہ امریکا بہادر کے نام نہاد ”مسلمان باغیوں“ کو افغانستان و عراق سے پکڑ کر اور گوانتاناموبے لے جاکر ان کی اس ”گستاخی“ کی سزا صدر بش خود دے رہے ہیں یا اس کے آلہٴ کار؟ بلاشبہ توہین رسالت کا قانون آج سے چودہ سو سال پہلے مرتب ہوچکا ہے اور گزشتہ چودہ صدیوں سے اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور پاکستان میں بھی ۱۹۸۴ء کے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعہ اس کا نفاذ ہوچکا ہے‘ لہٰذا اس گستاخ سائل سے ہم کہنا چاہیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آپ کے خدام ہی تمہاری خدمت کے لئے موجود ہیں‘ اپنے شیش محل سے نکل کر سامنے آکر گستاخی کیجئے! اور اپنا تماشا دیکھئے!!!
۱۵:… ”یاد رکھو! ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو صرف اس کی سوچ اور عقائد کی بنا پر کافر قرار دیدے۔ یہ تو تھا اسلامی فرمان‘ اب ایک انسانی فرمان بھی سن لیں کہ ”دنیا کے کسی بھی مذہب سے کہیں زیادہ انسانی جان قیمتی ہے۔“ وما الینا الا البلاغ۔“ (نقل مطابق اصل…ناقل)
جواب:… جی ہاں! ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور اسلام نے ہی اس کی تعلیم دی ہے اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے‘ قرآن کریم نے اس پر سخت وعید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر اور ناحق قتل کرے‘ اسے ہمیشہ (یعنی طویل عرصہ) کے لئے جہنم میں جلنا ہوگا۔“ رہی یہ بات کہ کسی کو اس کی سوچ اور عقائد کی بنا پر کافر قرار دینے کا کسی کو حق نہیں‘ تو قادیانیوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی مخالفت کرنے والوں کو کافر‘ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کیوں قرار دیا؟ اسی طرح خود مرزا جی نے اپنے مخالفین کو جنگل کے سور اور ان کی بیویوں کو کنجریوں کا خطاب کیوں دیا؟ اسی طرح اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی کے ”اعزاز“ سے کیوں سرفراز فرمایا؟ اگر مرزائیوں کے مخالف مسلمان‘ سوچ اور عقائد کے اختلاف کی بنا پر کافر ‘مرتد‘ جہنمی اور جنگل کے سور ہیں‘ تو خود مرزائی پوری امت مسلمہ کی سوچ‘ چودہ صدیوں کے مسلمانوں اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام سے اختلاف کرنے اور ان کی توہین و تنقیص کرنے کی وجہ سے کیونکر کافر نہیں ہوں گے؟
دیکھا جائے تو سائل کا یہ پورا سوال ہی اس کے دجل‘ تلبیس‘ دوغلاپن‘ نفاق اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے‘ اس لئے کہ اگر سائل کا اپنے اس قول پر اعتقاد ہوتا تو وہ سب سے پہلے اپنے آقاؤں کو اس کی تلقین کرتا‘ جو فلسطین‘ بیروت‘ لبنان‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے بے جا قتل عام کا مرتکب ہیں۔ اگر قادیانی اپنے اس موقف میں سچے ہوتے تو بلاشبہ آج وہ دنیائے عیسائیت کی تائید و حمایت کی بجائے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہوتے‘ مگر اخبارات و میڈیا اس پر شاہد ہیں کہ قادیانی‘ عیسائیت‘ یورپ اور امریکا کی اس دہشت گردی پر نہ صرف خاموش ہیں‘ بلکہ در پردہ ان کی حمایت و تائید میں کوشاں ہیں۔

بشکریہ بینات کراچی
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
اعجاز الحسینی بہت بہت زبردست شیئرنگ سچ میں دل خوش ہوا ۔۔۔بےشک سچ ہمیشہ رہنے کے لیئے ہے اور باطل مٹنے کے لیئے ہی ہے ۔۔۔اللہ تعالی سبکو سچ کو پانے اورراہ ہدایت پہ چلنے چلنے کی توفیق دے ۔۔۔آمین
 
Top