آنجہانی غلام قادیانی کی دماغی کیفیت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
آنجہانی غلام قادیانی کی
دماغی کیفیت
مفتی ناصر الدین مظاہری
متنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی لغو دعاوی اوربدعات وخرافات کے ساتھ ساتھ انتہائی ہذیانی کیفیات میں مبتلا رہتے تھے انہیں خود اس اس کا پتہ نہیں رہتا تھا کہ میں نے ابھی کچھ دیر قبل کیا بات کی اوریہ کہ اب میں کیا کہہ رہا ہوں ،مراق کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے کہ ان کے نزدیک حق وباطل کا امتیاز ختم ہوچکا تھا ان کی لغویت اورخباثت دیکھئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ’’خدا کا نطفہ ‘‘’’خدا کا بیٹا ‘‘’’خدا کی بیوی ‘‘’’مریم ‘‘بتلایا اوراسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ اپنے متعلق کہا کہ ’’مجھے حیض آتا ہے ،اورایک جگہ تو یہاں تک کہہ دیاکہ ’’مجھے دروازہ ہوا ،اس کے علاوہ وربھی فحش کلمات اورقبیح دعاوی موجود ہیں جن کو دیکھنے سے مرزا صاحب کی ذہنی حالت اوردماغی کیفیت پر شک ہونے لگتا ہے ،چنانچہ یہ شک اس وقت یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے جب خود مرزا صاحب کے مریدین متعلقین اس کی شہادت دیتے نظر آتے ہیں چنانچہ ذیل میں ہم مرزا صاحب کی دماغی حالت کے بارے میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
گردنِ چوزہ اورانگلی ٔ مرزا
مرزا بشیر احمد قادیانی اپنے والدمتنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی کی سیرت اورحالات پر مشتمل کتاب ’’سیرۃ المہدی ‘‘میں لکھتا ہے ۔
’’خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر مہدی محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی اوراس وقت گھر میں کوئی اورکام کو کرنے والا نہ تھا اسلئے حضرت مرزا صاحب اس چوزہ کو ہاتھ میںلے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی ہی انگلی کاٹ لی جس سے بہت خون گر گیا اورآپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑکر اٹھ کھڑے ہوئے پھر وہ چوزہ کسی اورنے ذبح کیا، حضرت مسیح موعود نے چونکہ کبھی جانوروغیرہ ذبح نہ کئے تھے اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے انگلی پر چھری پھیر لی ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۴ روایت ۳۰۷)
مرزا صاحب کی اس سادگی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ایک مرغی کے چوزے کو ذبح کرنے پر قادرنہ ہونے پائے تو وہ میدان جہاد میں جنگ کرنے اورلڑائی لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ،ان کی ان بزدلانہ حرکتوں اورحقیقتوںکے پیش نظر کہا جاسکتا ہے ؎
ولو ان بر غوثاً علی ظہر قملۃٖ
یکرّ علی صفّی تمیم لولتٖ
(ان کی نامرادی اس حد کو بڑھ گئی ہے کہ)اگر کوئی مچھر جوں کی پیٹھ پر سوار ہوکر قبیلہ تمیم کی دونوں صفوں پر حملہ کردے تو ان کی بجز بھاگنے کے اورکچھ بھی نہ بن پڑے )۔
سرکنڈے کا ذبیحہ
’’والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت مرزا صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاںپکڑا کرتے تھے اورچاقو نہ ہوتا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کرلیتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
گھڑ ی اورچابی
’’مرزا صاحب بچپن ہی سے بہت سادہ لوح تھے ،دنیا کی چیزوں سے ناواقفیت اوراستغراقی کیفیت شروع ہی سے ان میں نمایا ں تھی ان کو گھڑی میں چابی دینانہیں آتا تھا ‘‘(قادیانیت ص: ۲۱بحوالہ یاد ایام ،قادیانی مذہب )
گھڑی کا شوق
’’ جب گھڑی دیکھنا ہوتا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسہ یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اورانگلی رکھ کر ہندسہ میں گنتے جاتے تھے ،گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
روٹی پر راکھ
’’ایک دفعہ بچپن میں اپنی والدہ سے روٹی طلب کی اوراس کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے کو مانگا ،انہوں نے کوئی چیز شاید’’گڑ‘‘بتایا کہ یہ لے لو ،حضرت نے فرمایا نہیں میں یہ نہیںلیتا ،انہوں نے کوئی اورچیز بتائی ،حضرت نے اس پر بھی وہی جواب دیا ، وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں،سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو ،حضرت روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اورگھر میں ایک لطیفہ ہوگیا ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۲۴۵)
دائیں اوربائیں ا متیاز
’’ایک دفعہ کوئی شخص آ پ کے لئے گرگابی لے آیا ،آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤ ںکا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا ،بعض دفعہ ُالٹی پہن لیتے تھے اورپھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹاپاؤںپڑجاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی تھی چیز اچھی نہیںہے ،والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے لئے الٹے سیدھے پاؤں کیلئے نشان لگادئے تھے مگر اس کے باوجود آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتاردیا ۔‘‘ (سیرۃ المہدی ص: ۶۷روایت ۱)
اس سادگی پہ ……
نئی جوتی جب پاؤڈ میں کاٹتی توجھٹ ایڑی بٹھالیاکرتے تھے اوراسی سبب سے سیر کے وقت گرد اُڑ اُڑکر پنڈلیوں پر پڑجایا کرتی تھی جس کو لوگ اپنی پگڑیوں وغیرہ سے صاف کردیا کرتے تھے ۔(سیرۃ المہدی )
مٹی اورمٹھائی
’’پیشاب کرنے کی وجہ سے اکثر جیب میں استنجاء کے لئے ڈھیلے رکھتے تھے اورشیرینی سے غیر معمولی رغبت کی وجہ سے گڑ کے ڈھیلے بھی اس جیب میں رکھ لیا کرتے تھے ‘‘۔
(مرزا صاحب کے حالات از معراج الدین عمر قادیانی شامل براہین احمدیہ ص:۶۷ج:۱)
گویا مرزا صاحب اس حالت سے بھی آگے نکل گئے تھے جہاں اچھے برے کی تمیزختم ہوجاتی ہے ،مٹی اورمٹھائی کا امتیازمٹ جاتا ہے گویا ان کے ذہن ودماغ نے صحیح کام کرنا بالکل چھوڑدیا تھا اورطرفہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو بھولنے کا مرض بہت زیادہ تھا حتی کہ شکر کی جگہ نمک استعمال کرگئے اس لئے اگر مٹی کے بجائے مٹھائی سے استنجاء کرلیاہواورمٹھائی کے بجائے مٹی کے ڈھیلے چٹ کر گئے ہوں تو کوئی مستبعد نہیں ہے ۔
الٹی جرابیں
’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزا)علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضورجراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اوربارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگاہوا تھا اوربعض اوقات کوئی دوست حضورکے لئے گرگابی ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیںمیں ڈال لیتے تھے اوربایاں دائیں میں۔
چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتے پہنتے تھے اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے ‘‘۔ (سیرۃ المہدی ص :۵۸حصہ دوم )
شکر کے بجائے نمک
’’بیان کیا مجھ سے میری والد ہ نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا )صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ کچھ بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ ،میں گھرمیںآیا اوربغیر کسی سے پوچھے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوںمیں بھر کر باہر لے گیا اورراستہ میں ایک مٹھی بھر کر منھ میں ڈال لی بس پھرکیاتھامیرا دم رُک گیا اوربڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھر اتھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۲۲۶روایت ۲۴۴،از مرزابشیر قادیانی )
واسکٹ اوربٹن
’’چونکہ حضور(قادیانی )کی توجہ دنیاوی امورکی طرف نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آپ کی واسکٹ کے بٹن ہمیشہ اپنے چاکوں سے جدا ہی رہتے تھے اوراسی سے وجہ آپ اکثر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے شکایت فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بٹن تو بڑی جلدی ٹوٹ جایا کرتے ہیں ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۸روایت ۲۴۴)
تیل لگانے کا انداز
شیخ صاحب یا دیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنواکر لایا کرتے تھے ،حضورکبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سرمبارک اورداڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پردھبے پڑجاتے ‘‘۔ (المنبر ص :۱۵ بحوالہ الحکم ج ۳۸،۲۱؍فروری ۱۹۳۵ء )
دو دو جرابیں
’’جرابیںآپ سردیوں میں استعمال فرماتے اوران پر مسیح فرماتے بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھالیتے مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر تک ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سر آگے لٹکتارہتا اورکبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی اورکبھی ایک جراب سیدھی اوردوسری اُلٹی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۶روایت ۴۴۴)
ازار بندمیں چابیاں
’’خاکسار عرض کرتاہے کہ آپ مرزا (غلام قادیانی)معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا مکمل بناہوا تھا باندھ لیا کرتے تھے اوررومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوالیتے یا کاج میں بندھوالیتے اورچابیاںازار بند کے ساتھ باندھ لیتے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ‘‘۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح (قادیانی )عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۱۴۲روایت ۶۴)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ختم نبوت اورہماری ذمہ داریاں

ختم نبوت اورہماری ذمہ داریاں
ناصر الدین مظاہری
الحمد للّٰہ وحدہٗ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ !
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی منبع ہدایت اورسرچشمۂ سعادت ہے ،سسکتی انسانیت اوردم توڑتی شرافت کیلئے ایک تریاق ہے ،ضلالت وذلالت کے مسموم حالات میں آپ کی بعثت خدا وند قدوس کا بیکراں انعام ہے لیکن اسلام اورانسان کے ازلی وابدی دشمن ملعون شیطان کو یہ کب گوارا ہوسکتا ہے کہ اسلام کی ابدی صداقتوں اورلافانی حقیقتوں پرصالح انسانیت کی تعمیر ہو،بدی کے شیدائی ،ابلیسی قوتیں اورطاغوتی نظام روز اول سے انسان اوراس کے خدائی مذہب سے متصادم رہا ہے ،صالح فکر اورصالح افراد ہمیشہ شیطانی قوتوں کی نظروں میںخارِ مغیلاںبن کر کھٹکتے ہیں اورموقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب اسلام کے سفینہ کو ڈبویا اورکب ان کے دینی جذبہ کو دفنایا جاسکے ۔
اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں اوربدکاروںکے دو الگ الگ محاذ قائم کردئے ہیں ،نیکی پر بدی کی حکمرانی کبھی نہیں ہوسکتی ،نیکوکارلوگ ہی کامیاب رہیں گے لیکن اپنے غلط اعمال کی پاداش اوراسلام مخالف تحریکات کے باعث وقتی آزمائشیں اورامتحانات بھی ناگزیر ہیں ،سعادت مندیوں کے بیکراں سمندر میں شقاوت کا وجود ناممکن ہے ،اسلام کے شفاف دامن پر کفر اورطاغوت کی چھینٹیں دیرپانہیں ہوسکتیں،چاند پر تھوکنا اورسورج کو پتھر مارنا دانائی کے خلاف ہے ،حق کا گلا گھونٹ کرباطل کو تخت طاؤس سپرد کردینا صالح طبیعتوں کے خلاف ہے اورصالح وسعید لوگ کفر کے مکراورطاغوت کے فریب میں آجائیںناممکن ہے ،سعادت اورشقاوت تو ہر انسان کی تقدیر سے جڑی ہوئی ہیں ،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی صفائی کے ساتھ فرمادیا ہے کہ السعید من سعد فی بطن امہ والشقی من شقی فی بطن امہ اس واضح ارشاد اورلافانی صداقت کے بعد اسلام کے خلاف کفر کی جنگ ،مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمن تحریکات کا زور اورقوانین اسلام کے خلاف مغربی میڈیاکا شورباعث فکر توہوسکتا ہے لیکن اسلام کے تعلق سے کسی مایوسی کا شکار نہیں ہواجاسکتا ، اسلام میں کثرت سے زیادہ وحدت پر زوردیا گیا ہے ،تکثیراورہجوم کسی مسئلہ کا حل نہ پہلے تھااورنہ آج ہے، لیکن وحدت ،اتفاق ،اتحاد،منشور،صالح جذبہ ،نیک عزائم ،مستحکم ارادے ،شاہین صفت استقامت اورفولادی ذہنیت (جو ایک زندہ مذہب کا خاصہ ہیں ) کی ہر دورمیں اہمیت رہی ہے ۔
اسلام کی شاندار تعلیمات پر چاہے جتنے اعتراضات کئے جائیں ،شریعت ِ محمدی کا کتنا ہی تمسخراڑایا جائے ، قرآ ن کی تحریف کے کتنے ہی منصوبے بنائے جائیں ،انبیاء سابقین کی شان میںکتنی ہی گستاخیاں کی جائیں ، صالحین اورداعیان اسلام کے دامن شرافت پر الزامات اوراتہامات کے کتنے ہی داغ لگائے جائیں اسلام پر کوئی حرف اورشریعت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی کیونکہ یہ تو اسلام کی فطرت اوراس کی سرشت میں شامل ہے کہ اس کو دبانے ،مٹانے اورنابود کرنے کے جتنے جتن کئے جائیں گے اتنا ہی اس میں ابھار پیدا ہوگا کفر کی بمباری کے بعد جب بھی بادل چھٹے ،آب وہوا نے رخ بدلا تو اسلام کا سورج اپنی تمام ترحشر سامانیوں اورنظروں کو خیرہ کردینے والی شعاؤں کے ساتھ طلوع ہوکر ’’اتنا ہی ابھرے گا جتناکہ دباؤ گے ‘ ‘ کا پیغام دیتا ہوا یہ چیلنج بھی دے گیا کہ
’’آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا ‘‘
فکر رسا اورچشم بینا افراد پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ خیر القرون سے ہی اسلام کے خلاف باطل تحریکات اٹھتی ، ابھرتی اورمٹتی رہی ہیں ،چنانچہ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر کے دورِ مسعود سے آج تک ہزاروں اسلام دشمن سازشیں اٹھیں اورنابود ہوگئیں ،کتنے ہی مسیلمہ کذاب ،اسود عنسی،طلیحہ اسدی،سجاح بنت حارث،،مغیرہ بن سعید،بیان بن سمعان،صالح بن طریف برغواطی،اسحاق اخرس،استادسیس خراسانی،علی بن محمدخارجی،مختاربن عبیدثقفی،حمدان بن اشعث قرمطی،علی بن فضل یمنی،عبدالعزیزباسندی،ابوطیب احمدبن حسین،عبدالحق مری، بایزیدروشن جالندھری،میرمحمدحسین مشہدی،زکرویہ بن ماہر،یحیٰ بن زکرویہ،ابوعلی منصور،نویدکامرانی،اصغربن ابوالحسین،رشیدالدین ابوالحشر،محمدبن عبداللہ تومرت،ابن ابی زکریا،محمودواحدگیلانی،عبدالحق بن سبعین، عبداللہ راعی اورعبدالعزیز طرابلسی جیسے ملعون ،کذاب،مفتری اورمدعیان نبوت پیداہوئے اورزمین کا حصہ بن گئے ،حسن بن صباح اورتاتاری فتنے آئے اورپھر خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے ،عیسائی اوریہودی لابیوں نے خرمن اسلام کو ہزاروں بار جلاکر خاکسترکرنے کی کوششیںکیں اورخود ہی بھسم ہوگئے،
ان واضح سچائیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ’’وأنتم الأعلون ان کنتم مؤمنین ‘‘کو د ل ودماغ میں راسخ کرکے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ہم کہاںجارہے ہیں ،کہاں کہاں ٹھوکریں لگی ہیں ، ہمارا سا حل اورہماری منزل کہاں ہے اورسفینہ جس پر ہم سوار ہیں کس سمت رواں دواں ہے ۔
’’ ختم نبوت ‘‘کا موضوع اسلام کے کلیدی اوربنیادی عقائد میں سے ہے ،ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ صحیفہ ٔ ہدایت قرآن کریم کو خاتم الکتاب، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی مسجدکو خاتم المساجد اورآپصلی اللہ علیہ وسلمکی امت کو خاتم الامم جانے مانے اورزبان ودل سے اس کا اقرار کرے ۔
ختم نبوت کا منکر باتفاق امت کافر ہے ،دنیا میں جن بد دماغوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کے بعد اپنے نبی ورسول یا مہدی ومسیح موعود ہونے کے دعاوی کئے وہ سب شیطانی تحریک کے تانے بانے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تو اس قصر کی سی ہے جس کو بڑی عمدگی کے ساتھ آراستہ وپیراستہ بنایا گیا لیکن اس کے اندر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی گئی ،لوگ اس خوبصورت محل کو دیکھ کر کاریگروںکی کاریگری کی تعریف کے دوران یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوںنہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان مکمل محسوس ہوتا ) قصرنبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے مکمل ہوا ،اورنبوت کے اس عالیشان قصرکی خشت آخرآپ کی ذات بابرکات قرار پائی ، ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتاً فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذی اللبنۃ وانا خاتم النبیین ۔(بخاری ،مسلم ،نسائی ،ترمذی )
کنزالعمال اورابن ابی حاتم نے نیزمسند احمد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد گرامی میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔فکنت أنا سددت موضع اللبنۃ وختم بی النبیون وختم بی الرسل ۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر احادیث شریفہ کا ایک بڑا دفتر کتب احادیث میں موجود ہے اسی طرح ام الکتاب قرآن کریم کی سیکڑوں آیات بھی واضح الفاظ اورمفہوم کے ساتھ موجود ہیں اس لئے ایک ابدی وسرمدی صداقت سے انحراف یا چشم پوشی اورتاویلات وتلبیسات صرف قصورفہم کا نتیجہ ہیں ۔
یوں تو منکرین ختم نبوت کی ایک مستقل تاریخ ہے( اورجن کو صاحبان علم ودانش کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے)لیکن انیسویں صدی کے ابتدائی حصہ میں قادیان سے ایک فتنہ پیدا ہوا جس کو ’’فتنۂ قادیانیت ‘‘کہا جاسکتا ہے ،اس فتنہ کی حقیقت اوربانی ٔ فتنہ کے اصلی حالات وکیفیات کا مطالعہ تو آپ اندرونی صفحات میںکریں گے لیکن ان معروضات میں قادیانیوں کی بعض ذیلی شاخوں کا ضمناً ذکر نا گزیر ہے ،در اصل کسی بھی تحریک کے پس پشت ا گر ذاتی ومادی منفعت کار فرماہوگی تو وہ تحریک بٹتی ،مٹتی اورسمٹتی چلی جاتی ہے چنانچہ انگریزوں کی خو شامد ،تملق، چاپلوسی ،اقتدارکی ہوس ،سنہرے سکوں کی چمک اوردولت وثروت کے لالچ میں پیدا ہونے والی یہ جماعت اندرونی خلفشار اورانتشارکا شکار ہوکر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ،’’ لڑاؤ اورحکومت کرو ‘‘کا فارمولہ وضع کرنے والی استعماری قوتیں چاہتی بھی یہی ہیں چنانچہ ظہیرالدین اروپی نے مرزاغلام احمد قادیانی کو صاحب شریعت تشریعی نبی ورسول مان کر الگ جماعت بنالی تو مرزا محمود نے باصلاحِ خود غیر تشریعی نبی ہونے کا نعرۂ مستانہ لگاکر اپناڈیڑھ اینٹ کامحل الگ قائم کرلیاپھر محمد علی لاہوری مسیح موعود اورمہدی موعود کا لیبل لگاکر جدا ہوگیا ،مقصد اورقدر مشترک سب کا یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانسا جائے ،اسلام کو بدنام کیا جائے اوردوسروںکو اُلو بناکر اپنا الو سیدھا کیاجائے ۔
قادیانیت کی صحیح اورسچی تصویرکوسمجھنے کے لئے قادیانی لٹریچراورقادیانیوں کے تعلقات ومراسم سے بھی واقفیت ضروری ہے،قادیانیوں کا اصل منشاء صرف یہ ہے کہ مادی دولت کے حصول کے لئے اسلام کو’’بلی کابکرابنادیاجائے‘‘چنانچہ صہیونیت کی تعلیم اورصہیونی مقاصدمیں تعاون جس قدرقادیانیوں سے ملا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،دینی فہم رکھنے والوں پربھی یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قادیانیت دراصل صہیونیت کاچربہ ہے، پرفیسرخالدشبیرصاحب نے تحریک ختم نبوت کے ترجمان’’نقیب ختم نبوت میں تحریرفرمایاہے کہ
’’اسلامی عقائد میں تحریف اورعیسائیت کی تکذیب کے ساتھ قادیانیوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہودی مذہبی نظریات کااحیاء کیاہے،قادیانیوں نے یہودیوں کو خوش رکھنے کیلئے جہاں مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے وہیں پر انہوں نے یہودیوں کی خوشنودی کی خاطراورصہیونیوں کا قرب حاصل کرنے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پروہ تمام الزامات عایدکئے جویہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرروزاول سے لگاتے چلے آئے ہیں،قادیانیوں نے اس سلسلہ میں حضرت مریم علیہاالسلام کوبھی معاف نہیں کیاجن کے تقدس اوراحترام کی گواہی قرآن کریم سے بھی ملتی ہے،مرزاقادیانی نے یہودیوں کی تقلیدکرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرتبے کو کم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگایااوراپنی شان کو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بڑھانے کیلئے زمین وآسمان کے قلابے ملادئے،ان تمام جسارتوں کامقصدصرف اورصرف یہ تھا کہ صہیونیت کا قرب حاصل ہو،ان کا اعتمادحاصل کرکے ان کی مالی معاونت سے قادیانیت کے فروغ کی راہیں تلاش کی جائیں اوربلاداسلامیہ میں یہودیوں کی سازشوں کوکامیاب بنانے کیلئے کام کیا جائے۔
علامہ اقبال سمیت عرب دنیاکے اسلامی اسکالروں کا بھی یہی خیال ہے چنانچہ عباس محمودالعقاد،شیخ ابوزہرہ،شیخ محب الدین الخطیب،شیخ محمدالمدنی جیسے بالغ نظرعلماء یہی کہتے ہیں کہ قادیانیت اورصہیونیت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ،یہ تحریک استعماریت کی ایک شاخ ہے‘‘(نقیب ختم نبوت)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان مسلمانوں سے پہنچا ہے اتنا شاید کسی قوم سے نہیں پہنچا ، شیطان ملعون نے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو مختلف تاویلات وتلبیسات کے ذریعہ راہِ مستقیم سے بہکانے میں پوری طاقت جھونک دی کیونکہ شیطان نے خدا تعالیٰ سے بنی نوع انسان کو بہکانے اورراہِ راست سے ہٹانے کی اجازت لے لی تھی اوراللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا ’’قال رب فانظرنی الی یوم یبعثون‘‘اورشیطان لعین کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ’’فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم‘‘ شیطان نے پھر اپنے عزائم اورارادوں کو ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا ’’قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین، الا عبادک منھم المخلصین ‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان اوراس کی ذریت کو دھمکی آمیزلہجے میں فرمایا تھا ’’قال فالحق والحق اقول ۔لأملئن جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین ‘‘(پ ۲۳،ص )
مذکورہ قرآنی شہادت کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان تا قیامت اللہ کے نیک بندوں کو بہکاتا،پھسلاتا اورراہِ خدا سے درماندہ کرنے کی کوشش کرتارہے گا اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندے شیطانی مشن سے محفوظ ومامون رہیںگے اورجو لوگ شیطانی تحریک کا حصہ بن جائیں گے تو ان ہی لوگوں سے جہنم کو بھردیا جائے گا ۔
موجودہ دورکی اسلام دشمن تحریکات ،کفار ویہود کی نت نئی سازشیں،ہنود کی اسلام دشمن سرگرمیاں،عیسائی تخریب کاریاں ،اپنوں کی دل آزاریاں،باطل منصوبہ بندیاں ،مسلمانوں کو اسلام سے بدظن وبرگشتہ کرنے کی حکمت عملی ،محض دولت کے حصول ،اقتدار کے لالچ ،جاہ کے عفریت ،شہرت کے فریب اوراَنا کی وقتی تسکین کیلئے غیرت وحمیت کے جنازے نکالنے کا ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل وجود میں آچکا ہے، ذرا ذرا سی بات پر اپنی جماعتیں اورجمعیتیں بنانے کا زور برساتی مینڈکوں کے شورکی طرح بڑھ رہا ہے اسلام کے نام پر اسلام کو ختم کرنے کی لاتعداد جمعیتیںاورتحریکات وجود میں آچکی ہیں ،کچھ لوگ فروعات کو لے کر میدان میں کو د پڑے ہیں ، کچھ نے مسائل کے بازار میں فضائل کی دوکانیں چمکانی شروع کردی ہیں ،وہ اقوام جو ایک دوسرے کی ازلی دشمن تھیں (اوراندرخانہ اب بھی ہیں)لیکن اسلام اورمسلمانوں کو زیر کرنے کیلئے ایک ہوچکی ہیں ،عیسائی کبھی یہودیوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ،یہودی ہمیشہ عیسائیوں کے بد خواہ رہیں گے یہ قرآنی شہادتیں ہیں لیکن آج یہ دونوں اقوام سر میں سر ملاکر پرانی رنجشیںپس پشت ڈال کر متحد ہوکر اسلام کے خلاف صف آرا ہیں اورپس پردہ یہ منصوبے بھیبناتی رہی ہیں کہ اسلام کے قلعے میں عقب سے نقب لگانے کے لئے گھر کے بھیدی اورمکان کے مکین سود مند ثابت ہوں گے اس لئے مسلمانوں ہی کے طبقہ سے بعض بے ضمیر افراد اغیارکی سازشوں کا شکار ہوکر اسلام کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں ،شاہ فیصلؒمرحوم کے قاتل ،جمال وکمال کے فرسودہ وژولیدہ افکار ،جنرل ضیاء کی موت ،شمالی اتحاد کے سیاہ کارنامے ،کردوں کے باغیانہ تیور،الفتح کے جانبازوں کی درندگیاں، دیریسین کا مقتل ،سقوط قرطبہ وغرناطہ ،افغانستان ،مصر،لبنان ،اردن،سوڈان اورفلسطین میں تباہ کاریاں،جعفروصادق کی ضمیرفروشیاں،مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے کشیدگیاں،افریقی ممالک میں اسلامی نسل کے خاتمے کی سازشیںاورمختلف اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی عیش پرستیاں روشن دل اورروشن فکر رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہیں اورآج اسلام کو حقیقی معنوں میں اپنوں ہی کی بے توجہی وغفلت سے نقصان پہنچ رہا ہے ۔
بر صغیر میں باطل تحریکات کا زیادہ ہی زور ہے ،وجہ یہ ہے کہ اسلام کی اصلی تصویراورسچی شبیہ اگر کسی جگہ مل سکتی ہے تو وہ بر صغیر ہے(۱)باطل اَدیان ومذاہب نہیں چاہتے کہ اسلام اپنے صحیح خد وخال کے ساتھ اُبھر سکے ، اسی لئے ڈالرویورواورسنہرے سکوں کے لالچ دے کر مسلمانوں کی صفوں میں دراڑڈالنے کی مذموم کوششیں یہاں پہلے کی طرح اب بھی نسبۃًجاری ہیں ۔
زیر نظر شمارہ ’’ختم نبوت نمبر‘‘اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے اس کا فیصلہ تو معز زقارئین فرمائیں گے لیکن ان سطور میں ایک اہم نقطہ اورخاص نکتہ پر توجہات عالیہ کو مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔
ختم نبوت کا منکر کوئی بھی ہواورکہیں بھی ہو کافر ہے ،اس پر علماء امت کا اتفاق ہے لیکن محض یہ تصورکرلینا کہ ختم نبوت کے منکرین صرف قادیانی ہیں یہ غلط ہے ،موجود ہ دورمیں قادیانیوں کے علاوہ بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو منصوبہ بندی اورپوری رازداری کے ساتھ ختم نبوت کا منکر ہے چنانچہ کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیۃ ‘‘میں ہے ۔
’’ہمارے مذہب کی ضروریات میں داخل ہے کہ کوئی فرشتہ اوررسول ہمارے بارہ اماموں کی عظمت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔‘‘
( الحکومۃ الاسلامیۃ ص :۴۰)
کتاب حکومت اسلامیہ میں ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ
’’تمام انبیاء بشمول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں عدل وانصاف کے اصولوں کی تعلیم دینے اور مساوات قائم کرنے میں ناکام رہے ۔ ‘‘ (تعمیرحیات لکھنؤ۱۰؍اگست ۱۹۸۰ء )
مذکورہ دونوں اقتباسات کے قائل شیعہ مذہب کے سرخیل خمینی صاحب ہیں اورذیل میں انہیں کے پیروکارملا باقرمجلسی کی ذہنیت ملاحظہ فرمائیں ۔
’’جب بارہواں امام ظاہر ہوگا تو سرسے پاؤں تک ننگا ہوگا اوردنیا اس کے ہاتھ پر بیعت کرے گی سب سے پہلے جو شخص اس کے ہاتھ پر بیعت کرے گا وہ محمد رسول اللہ ہوں گے (معاذ اللہ )(حق الیقین ص :۲/۲۰۷)
اسی طرح ایک اورشیعہ مصنف محمد بن مسعود عیاشی کے قلم سے یہ غلیظ عبارت نکلتی ہے ۔
’’حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر وباطن میں تضاد تھا ‘‘ (تفسیر عیاشی ۲/۱۰۱)

(۱)حضرت مولاناشیخ عبدالقادرؒمدیرالمدارس العلمیہ حلب ۱۳۴۵ھ میں مظاہرعلوم سہارنپورتشریف لائے اوریہاں کی دارالحدیث میں تقریرکے دوران فرمایاکہ’’میں حلب کے تمام علمی مدارس کا ناظم ہوں،ہندوستان اس لئے آیاہوں کہ یہاں کے علماء کی جواستعداداورعملی حالت ہوتی ہے وہ ہمارے یہاں نہیں ہوتی میں یہ دیکھنے کے لئے آیا ہوں کہ یہاں کیا طرزتعلیم ہے؟اورکیاطرزتربیت؟تاکہ میں بھی اپنے یہاں یہی طرزتعلیم وتربیت رائج کروں اوروہاں بھی ایسے علماء پیداہوں(پھراثناء تقریرمیں یہ بھی فرمایاکہ )اگرمیں اپنے واپس جاکرقسم کھاکر یہ بیان کروں کہ میں نے ہندوستان میں فرشتوں کو زمین پرچلتے پھرتے دیکھاہے تومیں اپنی قسم میں جھوٹانہ ہوں گا‘‘(نصاب ونظام دینی مدارس:ازحضرت مفتی جمیل احمدتھانویؒ)
ایک اور کتاب ’’حیات القلوب ‘‘کی یہ عبارت بھی پڑھتے چلیں
’’جس پیغمبر نے ولایت علی ؓ کے اقرار میں توقف کیا اسے اللہ نے عذاب میں مبتلا کردیا ‘‘
(حیات القلوب مترجم اردو ،۱/۵۶۸)
شیعی مصنفین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ صرف ایک پیراگراف اتمام حجت کے لئے نقل کرتا ہوں۔
’’پیغمبر حضرت علی ؓ کے درکے بھکاری ہیں ‘‘۔( خلعت تبرائیہ ،۱/۱۰۲)
یہ چند مثالیں تو اسلام کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دینے والے ایک فرقہ کی ہیں لیکن اگرتحقیق کی جائے تو دیگر فرقوں میں بھی ختم نبوت کے منکرین اورسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر طعن وتشنیع کرنے والے مل جائیںگے جنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام کاماسک اوراپنی پیشانیوں پر ’’مسلمانی ‘‘کا لیبل لگارکھا ہوگا لیکن ا ن کے کردار وگفتار کی تضاد بیانیاں ،ضمیر کی بے حسی ،قلم کی بے بسی اورفکر ونظر کے جمود وتعطل سے صاحبان فکر ودانش حقائق کا ادراک کرسکتے ہیں ،عیاریوں اورمکاریوں کے نقاب اٹھاکر سیاہ کاریوں کے چہرے دیکھ سکتے ہیں اوربآسانی نفاق وریا کی قلعی کھل سکتی ہے ۔
نہ بحرف ساختہ سر خوشم، نہ بنقش مشوشم
نفسے زیادِ تو می زنم چہ عبارت وچہ معانیم
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
غلام قادیانی کاانکارجہاد

قادیانی…جہاد کا منکر

قادیانی جماعت کے بانی مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن حرمت جہاد ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دورائے نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ مرزا قادیانی نے اسلام کے خلاف مکروہ سازش کرتے ہوئے جہاد کو سختی سے حرام قرار دیا ،چند حوالے نمونے کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)’’آج سے دین کیلئے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کیلئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔‘‘(اشتہار چند منارۃ المسیح، صفحہ ب، ت،ضمیمہ خطبہ الہامیہ)
(۲)’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ ہرگزجہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرفِ زر کثیر چھاپ کربلا د اسلام میں پہنچائی ہیں او رمیں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۶۵)
(۳) ’’ہر شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے، اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے۔‘‘ (گورنمنٹ اور جہاد ضمیمہ صفحہ ۷)
۴:۔ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال!
دین کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جودین کا امام ہے
دین کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسمان سے نورِ خدا کا نزول ہے
اب جگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گوروپ صفحہ ۴۲، مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۷؍صفحہ۷۸،۷۷؍ از مرزا قادیانی)
(۵) ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۱۹؍از مرزا قادیانی)
(۶)’’یہی وہ فرقہ (قادیانی فرقہ) ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے۔‘‘ (ریویو آف ریلیجز صفحہ ۵۳۷)
مرزا قادیانی نے اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کیلئے جہاد حرام قرار دے دیا، آج کے قادیانی کا جہاد سے متعلق کیا خیال ہے؟
قادیانی…اﷲ تعالیٰ کے گستاخ
اﷲ پاک کی ذات پر کامل ایمان و یقین کا نام عقیدۂ توحید ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے۔ مرزا قادیانی نے اﷲ پاک کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کیں ہیں جن میں سے کچھ درج کی جاتی ہیں۔
(۱) ’’میں (مرزا قادیانی) نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ۵۶۴، مندرجہ روحانی خزائن جلد ۵؍صفحہ ۵۶۴؍ از مرزا قادیانی)
(۲) ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔ ‘‘
(کتاب البریہ صفحہ ۸۵؍مندرجہ روحانی خزائن جلد ۳؍صفحہ ۱۰۳؍از مرزا قادیانی)
(۳) ’’وہ خدا جو ہمارا خدا ہے ایک کھا جانے والی آگ ہے۔‘‘ (سراج منیر ص ۵۶مندرجہ روحانی خزائن ۲/ ۵۷،از مرزا قادیانی)
(۴)’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کیلئے بے شمار ہاتھ ،بے شمار پیر اور ہر ایک عضو کی کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہے۔‘‘ (توضیح مرام صفحہ ۴۲؍مندرجہ روحانی خزائن جلد ۲؍صفحہ ۹۰؍از مرزا قادیانی)
(۵) ’’کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتاتو ہے مگر بولتا نہیں۔ پھر بعد اس کے یہ سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا۔ کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم صفحہ ۱۴۴؍مندرجہ روحانی خزائن؍ جلد۲۱؍صفحہ ۳۱۲؍از مرزا قادیانی)
(۶)’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرّہ ذرّہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتاہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤںگا۔‘‘ (روحانی خزائن ج:۲ ص:۳۹۶)
(۷) ’’ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھاکہ خدا قادیان میں نازل ہوگا، اپنے وعدہ کے موافق۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ الہامات صفحہ ۴۸۲؍طبع دوم از مرزا قادیانی)
(۸)’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (روحانی خزائن )
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچے خدا کی نشانی صرف یہ ہے کہ اس نے مرزا قادیانی کو قادیان میں رسول بناکر بھیجا ہے اور اگر مرزا قادیانی رسول نہیں ہے توپھر خدا کی سچائی مشکوک ہے۔ (نعوذ باﷲ)
(۹) ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا، سمجھے والے کیلئے اشارہ کافی ہے۔‘‘
ممکن ہے شیطان نے ایک انتہائی بارعب اور وجیہ نورانی شخصت کے روپ میں مرزا قادیانی کو ورغلا پھسلا کر رجولیت کی طاقت کا اظہار (یعنی عمل قوم لوط) کیا ہو اور پھر مرزا قادیانی نے اسے اﷲ تعالیٰ سے منسوب کر دیا ہو۔ جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے، آج تک کسی شخص نے بھی اﷲ تعالیٰ پر ایسا بے ہودہ، گھٹیا اور بدترین کفریہ الزام نہیں لگایا۔
(۱۰) ’’مریم کی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخربراہین احمد کے حصہ چہارم صفحہ۵۵۶ میں درج ہے۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ۴۷مندرجہ روحانی خزائن ۱۸/ ۱۵۰؍از مرزا قادیانی)

(ماخوذ:ازختم نبوت نمبر:ماہنامہ آئنہ مظاہرعلوم سہارنپور
 
Top