آنجہانی غلام قادیانی کی
دماغی کیفیت
مفتی ناصر الدین مظاہری
متنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی لغو دعاوی اوربدعات وخرافات کے ساتھ ساتھ انتہائی ہذیانی کیفیات میں مبتلا رہتے تھے انہیں خود اس اس کا پتہ نہیں رہتا تھا کہ میں نے ابھی کچھ دیر قبل کیا بات کی اوریہ کہ اب میں کیا کہہ رہا ہوں ،مراق کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے کہ ان کے نزدیک حق وباطل کا امتیاز ختم ہوچکا تھا ان کی لغویت اورخباثت دیکھئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ’’خدا کا نطفہ ‘‘’’خدا کا بیٹا ‘‘’’خدا کی بیوی ‘‘’’مریم ‘‘بتلایا اوراسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ اپنے متعلق کہا کہ ’’مجھے حیض آتا ہے ،اورایک جگہ تو یہاں تک کہہ دیاکہ ’’مجھے دروازہ ہوا ،اس کے علاوہ وربھی فحش کلمات اورقبیح دعاوی موجود ہیں جن کو دیکھنے سے مرزا صاحب کی ذہنی حالت اوردماغی کیفیت پر شک ہونے لگتا ہے ،چنانچہ یہ شک اس وقت یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے جب خود مرزا صاحب کے مریدین متعلقین اس کی شہادت دیتے نظر آتے ہیں چنانچہ ذیل میں ہم مرزا صاحب کی دماغی حالت کے بارے میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
گردنِ چوزہ اورانگلی ٔ مرزا
مرزا بشیر احمد قادیانی اپنے والدمتنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی کی سیرت اورحالات پر مشتمل کتاب ’’سیرۃ المہدی ‘‘میں لکھتا ہے ۔
’’خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر مہدی محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی اوراس وقت گھر میں کوئی اورکام کو کرنے والا نہ تھا اسلئے حضرت مرزا صاحب اس چوزہ کو ہاتھ میںلے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی ہی انگلی کاٹ لی جس سے بہت خون گر گیا اورآپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑکر اٹھ کھڑے ہوئے پھر وہ چوزہ کسی اورنے ذبح کیا، حضرت مسیح موعود نے چونکہ کبھی جانوروغیرہ ذبح نہ کئے تھے اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے انگلی پر چھری پھیر لی ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۴ روایت ۳۰۷)
مرزا صاحب کی اس سادگی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ایک مرغی کے چوزے کو ذبح کرنے پر قادرنہ ہونے پائے تو وہ میدان جہاد میں جنگ کرنے اورلڑائی لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ،ان کی ان بزدلانہ حرکتوں اورحقیقتوںکے پیش نظر کہا جاسکتا ہے ؎
ولو ان بر غوثاً علی ظہر قملۃٖ
یکرّ علی صفّی تمیم لولتٖ
(ان کی نامرادی اس حد کو بڑھ گئی ہے کہ)اگر کوئی مچھر جوں کی پیٹھ پر سوار ہوکر قبیلہ تمیم کی دونوں صفوں پر حملہ کردے تو ان کی بجز بھاگنے کے اورکچھ بھی نہ بن پڑے )۔
سرکنڈے کا ذبیحہ
’’والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت مرزا صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاںپکڑا کرتے تھے اورچاقو نہ ہوتا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کرلیتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
گھڑ ی اورچابی
’’مرزا صاحب بچپن ہی سے بہت سادہ لوح تھے ،دنیا کی چیزوں سے ناواقفیت اوراستغراقی کیفیت شروع ہی سے ان میں نمایا ں تھی ان کو گھڑی میں چابی دینانہیں آتا تھا ‘‘(قادیانیت ص: ۲۱بحوالہ یاد ایام ،قادیانی مذہب )
گھڑی کا شوق
’’ جب گھڑی دیکھنا ہوتا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسہ یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اورانگلی رکھ کر ہندسہ میں گنتے جاتے تھے ،گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
روٹی پر راکھ
’’ایک دفعہ بچپن میں اپنی والدہ سے روٹی طلب کی اوراس کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے کو مانگا ،انہوں نے کوئی چیز شاید’’گڑ‘‘بتایا کہ یہ لے لو ،حضرت نے فرمایا نہیں میں یہ نہیںلیتا ،انہوں نے کوئی اورچیز بتائی ،حضرت نے اس پر بھی وہی جواب دیا ، وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں،سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو ،حضرت روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اورگھر میں ایک لطیفہ ہوگیا ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۲۴۵)
دائیں اوربائیں ا متیاز
’’ایک دفعہ کوئی شخص آ پ کے لئے گرگابی لے آیا ،آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤ ںکا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا ،بعض دفعہ ُالٹی پہن لیتے تھے اورپھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹاپاؤںپڑجاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی تھی چیز اچھی نہیںہے ،والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے لئے الٹے سیدھے پاؤں کیلئے نشان لگادئے تھے مگر اس کے باوجود آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتاردیا ۔‘‘ (سیرۃ المہدی ص: ۶۷روایت ۱)
اس سادگی پہ ……
نئی جوتی جب پاؤڈ میں کاٹتی توجھٹ ایڑی بٹھالیاکرتے تھے اوراسی سبب سے سیر کے وقت گرد اُڑ اُڑکر پنڈلیوں پر پڑجایا کرتی تھی جس کو لوگ اپنی پگڑیوں وغیرہ سے صاف کردیا کرتے تھے ۔(سیرۃ المہدی )
مٹی اورمٹھائی
’’پیشاب کرنے کی وجہ سے اکثر جیب میں استنجاء کے لئے ڈھیلے رکھتے تھے اورشیرینی سے غیر معمولی رغبت کی وجہ سے گڑ کے ڈھیلے بھی اس جیب میں رکھ لیا کرتے تھے ‘‘۔
(مرزا صاحب کے حالات از معراج الدین عمر قادیانی شامل براہین احمدیہ ص:۶۷ج:۱)
گویا مرزا صاحب اس حالت سے بھی آگے نکل گئے تھے جہاں اچھے برے کی تمیزختم ہوجاتی ہے ،مٹی اورمٹھائی کا امتیازمٹ جاتا ہے گویا ان کے ذہن ودماغ نے صحیح کام کرنا بالکل چھوڑدیا تھا اورطرفہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو بھولنے کا مرض بہت زیادہ تھا حتی کہ شکر کی جگہ نمک استعمال کرگئے اس لئے اگر مٹی کے بجائے مٹھائی سے استنجاء کرلیاہواورمٹھائی کے بجائے مٹی کے ڈھیلے چٹ کر گئے ہوں تو کوئی مستبعد نہیں ہے ۔
الٹی جرابیں
’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزا)علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضورجراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اوربارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگاہوا تھا اوربعض اوقات کوئی دوست حضورکے لئے گرگابی ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیںمیں ڈال لیتے تھے اوربایاں دائیں میں۔
چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتے پہنتے تھے اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے ‘‘۔ (سیرۃ المہدی ص :۵۸حصہ دوم )
شکر کے بجائے نمک
’’بیان کیا مجھ سے میری والد ہ نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا )صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ کچھ بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ ،میں گھرمیںآیا اوربغیر کسی سے پوچھے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوںمیں بھر کر باہر لے گیا اورراستہ میں ایک مٹھی بھر کر منھ میں ڈال لی بس پھرکیاتھامیرا دم رُک گیا اوربڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھر اتھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۲۲۶روایت ۲۴۴،از مرزابشیر قادیانی )
واسکٹ اوربٹن
’’چونکہ حضور(قادیانی )کی توجہ دنیاوی امورکی طرف نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آپ کی واسکٹ کے بٹن ہمیشہ اپنے چاکوں سے جدا ہی رہتے تھے اوراسی سے وجہ آپ اکثر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے شکایت فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بٹن تو بڑی جلدی ٹوٹ جایا کرتے ہیں ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۸روایت ۲۴۴)
تیل لگانے کا انداز
شیخ صاحب یا دیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنواکر لایا کرتے تھے ،حضورکبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سرمبارک اورداڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پردھبے پڑجاتے ‘‘۔ (المنبر ص :۱۵ بحوالہ الحکم ج ۳۸،۲۱؍فروری ۱۹۳۵ء )
دو دو جرابیں
’’جرابیںآپ سردیوں میں استعمال فرماتے اوران پر مسیح فرماتے بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھالیتے مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر تک ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سر آگے لٹکتارہتا اورکبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی اورکبھی ایک جراب سیدھی اوردوسری اُلٹی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۶روایت ۴۴۴)
ازار بندمیں چابیاں
’’خاکسار عرض کرتاہے کہ آپ مرزا (غلام قادیانی)معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا مکمل بناہوا تھا باندھ لیا کرتے تھے اوررومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوالیتے یا کاج میں بندھوالیتے اورچابیاںازار بند کے ساتھ باندھ لیتے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ‘‘۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح (قادیانی )عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۱۴۲روایت ۶۴)
دماغی کیفیت
مفتی ناصر الدین مظاہری
متنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی لغو دعاوی اوربدعات وخرافات کے ساتھ ساتھ انتہائی ہذیانی کیفیات میں مبتلا رہتے تھے انہیں خود اس اس کا پتہ نہیں رہتا تھا کہ میں نے ابھی کچھ دیر قبل کیا بات کی اوریہ کہ اب میں کیا کہہ رہا ہوں ،مراق کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے کہ ان کے نزدیک حق وباطل کا امتیاز ختم ہوچکا تھا ان کی لغویت اورخباثت دیکھئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ’’خدا کا نطفہ ‘‘’’خدا کا بیٹا ‘‘’’خدا کی بیوی ‘‘’’مریم ‘‘بتلایا اوراسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ اپنے متعلق کہا کہ ’’مجھے حیض آتا ہے ،اورایک جگہ تو یہاں تک کہہ دیاکہ ’’مجھے دروازہ ہوا ،اس کے علاوہ وربھی فحش کلمات اورقبیح دعاوی موجود ہیں جن کو دیکھنے سے مرزا صاحب کی ذہنی حالت اوردماغی کیفیت پر شک ہونے لگتا ہے ،چنانچہ یہ شک اس وقت یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے جب خود مرزا صاحب کے مریدین متعلقین اس کی شہادت دیتے نظر آتے ہیں چنانچہ ذیل میں ہم مرزا صاحب کی دماغی حالت کے بارے میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
گردنِ چوزہ اورانگلی ٔ مرزا
مرزا بشیر احمد قادیانی اپنے والدمتنبی پنجاب آنجہانی غلام قادیانی کی سیرت اورحالات پر مشتمل کتاب ’’سیرۃ المہدی ‘‘میں لکھتا ہے ۔
’’خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر مہدی محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی اوراس وقت گھر میں کوئی اورکام کو کرنے والا نہ تھا اسلئے حضرت مرزا صاحب اس چوزہ کو ہاتھ میںلے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی ہی انگلی کاٹ لی جس سے بہت خون گر گیا اورآپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑکر اٹھ کھڑے ہوئے پھر وہ چوزہ کسی اورنے ذبح کیا، حضرت مسیح موعود نے چونکہ کبھی جانوروغیرہ ذبح نہ کئے تھے اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے انگلی پر چھری پھیر لی ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۴ روایت ۳۰۷)
مرزا صاحب کی اس سادگی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ایک مرغی کے چوزے کو ذبح کرنے پر قادرنہ ہونے پائے تو وہ میدان جہاد میں جنگ کرنے اورلڑائی لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ،ان کی ان بزدلانہ حرکتوں اورحقیقتوںکے پیش نظر کہا جاسکتا ہے ؎
ولو ان بر غوثاً علی ظہر قملۃٖ
یکرّ علی صفّی تمیم لولتٖ
(ان کی نامرادی اس حد کو بڑھ گئی ہے کہ)اگر کوئی مچھر جوں کی پیٹھ پر سوار ہوکر قبیلہ تمیم کی دونوں صفوں پر حملہ کردے تو ان کی بجز بھاگنے کے اورکچھ بھی نہ بن پڑے )۔
سرکنڈے کا ذبیحہ
’’والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت مرزا صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاںپکڑا کرتے تھے اورچاقو نہ ہوتا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کرلیتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
گھڑ ی اورچابی
’’مرزا صاحب بچپن ہی سے بہت سادہ لوح تھے ،دنیا کی چیزوں سے ناواقفیت اوراستغراقی کیفیت شروع ہی سے ان میں نمایا ں تھی ان کو گھڑی میں چابی دینانہیں آتا تھا ‘‘(قادیانیت ص: ۲۱بحوالہ یاد ایام ،قادیانی مذہب )
گھڑی کا شوق
’’ جب گھڑی دیکھنا ہوتا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسہ یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اورانگلی رکھ کر ہندسہ میں گنتے جاتے تھے ،گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۴۵روایت ۵۱)
روٹی پر راکھ
’’ایک دفعہ بچپن میں اپنی والدہ سے روٹی طلب کی اوراس کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے کو مانگا ،انہوں نے کوئی چیز شاید’’گڑ‘‘بتایا کہ یہ لے لو ،حضرت نے فرمایا نہیں میں یہ نہیںلیتا ،انہوں نے کوئی اورچیز بتائی ،حضرت نے اس پر بھی وہی جواب دیا ، وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں،سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو ،حضرت روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اورگھر میں ایک لطیفہ ہوگیا ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص: ۲۴۵)
دائیں اوربائیں ا متیاز
’’ایک دفعہ کوئی شخص آ پ کے لئے گرگابی لے آیا ،آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤ ںکا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا ،بعض دفعہ ُالٹی پہن لیتے تھے اورپھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹاپاؤںپڑجاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی تھی چیز اچھی نہیںہے ،والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے لئے الٹے سیدھے پاؤں کیلئے نشان لگادئے تھے مگر اس کے باوجود آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتاردیا ۔‘‘ (سیرۃ المہدی ص: ۶۷روایت ۱)
اس سادگی پہ ……
نئی جوتی جب پاؤڈ میں کاٹتی توجھٹ ایڑی بٹھالیاکرتے تھے اوراسی سبب سے سیر کے وقت گرد اُڑ اُڑکر پنڈلیوں پر پڑجایا کرتی تھی جس کو لوگ اپنی پگڑیوں وغیرہ سے صاف کردیا کرتے تھے ۔(سیرۃ المہدی )
مٹی اورمٹھائی
’’پیشاب کرنے کی وجہ سے اکثر جیب میں استنجاء کے لئے ڈھیلے رکھتے تھے اورشیرینی سے غیر معمولی رغبت کی وجہ سے گڑ کے ڈھیلے بھی اس جیب میں رکھ لیا کرتے تھے ‘‘۔
(مرزا صاحب کے حالات از معراج الدین عمر قادیانی شامل براہین احمدیہ ص:۶۷ج:۱)
گویا مرزا صاحب اس حالت سے بھی آگے نکل گئے تھے جہاں اچھے برے کی تمیزختم ہوجاتی ہے ،مٹی اورمٹھائی کا امتیازمٹ جاتا ہے گویا ان کے ذہن ودماغ نے صحیح کام کرنا بالکل چھوڑدیا تھا اورطرفہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو بھولنے کا مرض بہت زیادہ تھا حتی کہ شکر کی جگہ نمک استعمال کرگئے اس لئے اگر مٹی کے بجائے مٹھائی سے استنجاء کرلیاہواورمٹھائی کے بجائے مٹی کے ڈھیلے چٹ کر گئے ہوں تو کوئی مستبعد نہیں ہے ۔
الٹی جرابیں
’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزا)علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضورجراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اوربارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگاہوا تھا اوربعض اوقات کوئی دوست حضورکے لئے گرگابی ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیںمیں ڈال لیتے تھے اوربایاں دائیں میں۔
چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتے پہنتے تھے اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے ‘‘۔ (سیرۃ المہدی ص :۵۸حصہ دوم )
شکر کے بجائے نمک
’’بیان کیا مجھ سے میری والد ہ نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا )صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ کچھ بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ ،میں گھرمیںآیا اوربغیر کسی سے پوچھے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوںمیں بھر کر باہر لے گیا اورراستہ میں ایک مٹھی بھر کر منھ میں ڈال لی بس پھرکیاتھامیرا دم رُک گیا اوربڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھر اتھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا ‘‘۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۲۲۶روایت ۲۴۴،از مرزابشیر قادیانی )
واسکٹ اوربٹن
’’چونکہ حضور(قادیانی )کی توجہ دنیاوی امورکی طرف نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آپ کی واسکٹ کے بٹن ہمیشہ اپنے چاکوں سے جدا ہی رہتے تھے اوراسی سے وجہ آپ اکثر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے شکایت فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بٹن تو بڑی جلدی ٹوٹ جایا کرتے ہیں ‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۸روایت ۲۴۴)
تیل لگانے کا انداز
شیخ صاحب یا دیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنواکر لایا کرتے تھے ،حضورکبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سرمبارک اورداڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پردھبے پڑجاتے ‘‘۔ (المنبر ص :۱۵ بحوالہ الحکم ج ۳۸،۲۱؍فروری ۱۹۳۵ء )
دو دو جرابیں
’’جرابیںآپ سردیوں میں استعمال فرماتے اوران پر مسیح فرماتے بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھالیتے مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر تک ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سر آگے لٹکتارہتا اورکبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی اورکبھی ایک جراب سیدھی اوردوسری اُلٹی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص :۱۲۶روایت ۴۴۴)
ازار بندمیں چابیاں
’’خاکسار عرض کرتاہے کہ آپ مرزا (غلام قادیانی)معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا مکمل بناہوا تھا باندھ لیا کرتے تھے اوررومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوالیتے یا کاج میں بندھوالیتے اورچابیاںازار بند کے ساتھ باندھ لیتے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ‘‘۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح (قادیانی )عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :۱۴۲روایت ۶۴)