مباحثہ… یا…محاسبہ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
مباحثہ… یا…محاسبہ
ناصرالدین مظاہری
ہردوراورہرزمانہ میں اسلام کی صف اول کی توجہات کارخ موڑنے،جادۂ اعتدال سے ہٹانے اوران کو اپنے مقصدکی ہمہ گیریت سے فضولیات کی بھول بھلیوں میں الجھانے کاعمل جاری ہے۔
اس سے قطع نظرکہ ملت اسلامہ کوفی زمانناکس سمت اورکس رخ کی ضرورت ہے،کس قیادت اورکس رہبری کی حاجت ہے،کس راہنمااورکس قائدکی کمی ہے؟مگرمسلمان بحیثیت مسلمان نہ تو اپنے رخ کویادرکھ سکانہ ہی اپنی سمت اورجہت پرکاربندرہ کر اسلام کے استحکام کاذریعہ بن سکا۔
خیرالقرون کے بعد بھی عام مسلمانوں میں دین کے چرچے،دین کی باتیں،مسئلہ اورمسائل پرگفتگوایک ماحول بن چکاتھا،حتی کہ قلی(حمال مزدور)بھی اپنے سروں پربھاری سامان لادکرجب ایک جگہ سے دوسری منتقل کرتے تھے تو آپس میں دینی مسائل پرگفتگوکرتے جاتے تھے۔
چنانچہ کتاب’’ ہزارسال پہلے‘‘میں اسی عہدمیمون کا ایک واقعہ ابن حوقل کے حوالے سے مذکورہے کہ
’’میں نے شہرخوزشتان میں ایک حمال (قلی)کوگزرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے سرپرایک بھاری بوجھ لداہواتھااور ایک دوسراحمال بھی اسی کے ساتھ ساتھ جارہاتھااوردونوں’’التاویل‘‘(قرآنی آیات کی تفسیر) اور علم کلام کے حقائق ومسائل میں جھگڑتے جارہے تھے،ایسامعلوم ہورہاتھاکہ ان دونوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے اپنے خیالات کے مقابلہ میں ان کی کوئی پرواہ ان کو نہیں ہے‘‘ (ہزارسال پہلے ص ۲۲۷)
اللہ عزوجل نے واضح لفظوں میں ارشادفرمایاہے یَااَیُّہاالذِّیْنَ آمَنُوالَاتَسْئَلوْاعَنْ أَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤ کُمْ ( المائدہ پ۷آیت ۱۰۰)اے ایمان والو!مت پوچھوایسی باتیں کہ اگرتم پر کھول دی جائیں توتم کو بری لگیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ترک مالایعنی ،فضول گوئی ،بکواس اورکثرت کلام سے منع فرمایاہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔انسان کی عمدہ خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کوترک کردے۔اسی طرح ایک موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے ارشادفرمایاتھاکہ میں تمہیں قیل وقال (بحث وتمحیص)سے،کثرت سے سوالات کرنے سے اورمال ضائع کرنے سے منع کرتاہوں۔
دین کی طلب،اسلامی تعلیم کی تڑپ،قرآن وحدیث کے علوم کے حصول کے لئے ہمارے اکابراہل اللہ کی کوششیں اورکاوشیں اپنی جگہ، اب ہم سے تو اتنابھی نہیں ہوتاکہ ان اکابرکے لکھے ہوئے علمی ذخیرہ کی قدر ومنزلت کرتے (۱)اس کی حفاظت وصیانت کی ہرممکن کوشش کرکے ان کے مطالعہ سے اپنی دنیاکوجگمگ اوراپنے اندرون کو روشن کرتے،اس کے برعکس ہماراحال یہ ہوگیاکہ ہم غیرضروری اورلایعنی بحثوں میں الجھ کررہ گئے،کسی کواس میں دلچسپی ہے کہ حضرت آدم اورحضرت حواعلیہماالسلام کے انتقال میں درمیانی وقفہ کتناہے؟کسی کو یہ فکردامن گیرہے کہ حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہمایاحضرت علی اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہمامیں سے کون حق پر؟کسی کوعصاء موسی اورعصاء سلیمان علیہم السلام کی تاریخی حیثیت معلوم کرنے میں دلچسپی ہے؟اس قسم کی خرافات اورفضول بحثوں پراپناقیمتی وقت صرف کردیاجاتاہے حالانکہ اگراس قیمتی وقت کودینی تعلیم اورمسائل کی تحصیل پرصرف کیاجائے تومعلومات کا قابل قدرذخیرہ ذہن نشین ہوجائے۔
غورکیجئے !ایک وہ اکابرتھے جنہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے مہینوں کا سفرطے کیا،راحلہ ختم،زادراہ ختم،سواری ختم ،توشہ ختم،سب کچھ ختم ہوجانے کے باوجودان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی ،کیونکہ ان کو اپنے زادراہ پربھروسہ تھاہی نہیں، ان کا سب سے بڑابھروسہ اللہ کی ذات والاصفات پر تھا سو اللہ نے ان کی کفایت اورکفالت فرمائی ،انھیں دینی علوم ومعارف سے مالامال فرماکراپنی کتاب اوراپنے نبی کی تعلیمات کارمزآشنابناکرہدایت وسعادت کی راہیں اورگرہیں ان کے لئے کھول دیں۔کسی نے سچ کہاہے
بقدرالکد تکتسب المعالی
ومن طلب العلا سہراللیالی
کسی اردوشاعرنے کیاخوب کہاہے
مٹادو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتاہے
اُس زمانہ میں دینی علوم کی تحصیل کس قدرمحنت طلب اوردقت ومشقت سے بھرپورہواکرتی تھی،غربت
(۱) ۱۲؍نومبر۲۰۰۹ء کو مظاہرعلوم کی طرف سے رضالائبریری رام پورکے ایک ورکشاپ میں شرکت کی غرض سے جانا ہوا،دوران قیام وہاں کی مشہور’’صولت لائبریری ‘‘دیکھنے کااتفاق ہوا، اس لائبریری کے رکھ رکھاؤ،کتابوں پر موجود گردوغبار، فرش کی گندگی،کتابوں کی بے ترتیبی،کبوتروں کے گھونسلوں اوران کی پھیلائی ہوئی گندگیوں،چھتوں میں شگاف کے باعث برساتی پانی سے ہونے والی سیلابی دیکھ کراوراس بدنظمی کی وجہ پوچھنے پرسرمایہ کی کمی کانامعقول کاعذرسن کربہت افسوس ہوااوردل نے گواہی دی کہ اگریہی بدنظمی برقراررہی تو چندسالوں میں ایک لاکھ کتابوں او رقیمتی مخطوطات سے مالامال اس لائبریری کانام صرف تاریخ اورکتابوں میں محفوظ رہ جائے گا۔اللہ تعالیٰ کارکنان وذمہ داران کو اس کی حفاظت کی توفیق عطافرمائے۔(ن م)
وعسرت ،فقروفاقہ اورتنگئی معاش کے ہزاروں قصے زبان زدہیں لیکن آج جب کہ الحمدللہ دولت کی ریل پیل ہے،آسودگی اورکشادگی کے مناظرہرسودیکھے جارہے ہیں،معاش ومعیشت اوراقتصادوتجارت میں خوب خوب ترقی ہورہی ہے ،اس فارغ البالی کاتقاضاتویہ تھاکہ ہمارے لئے حصول علم کے نئے باب واہوتے،عرفان الہی اورتعلیمات نبوی کے عمیق سمندرکو عبورکرکے اپنی تحقیقات غالیہ اورتصنیفات عالیہ سے علمی دنیامیں خوش آئندہیجان برپاکردیتے …لیکن… جوکچھ ہورہاہے وہ ہماری توقعات کے برعکس،ہمارے احساسات سے متضاداورہماری خواہشات سے ماورائ…ہمارے دینی تعلیمی ادارے نہ تورازی اورغزالی بنانے میں کوئی اہم کرداراداکررہے ہیں نہ ہی رفاہی اورخیراتی ادارے خیرالقرون کے عہدتاباں کی کوئی جھلک پیش کرنے میں کامیاب ہیں…ہماری عصری تعلیم گاہیں ڈگریوں اورسندوں کاپلندہ تھمانے میں توکامیاب ہیں لیکن اپنے فن کے ماہرین اوراپنے موضوع کے حاذقین دنیاکونہ دے سکے…اصلاح معاشرہ کے لئے وجودمیں آنے والی تنظیمں کسی بدعت اورفتنہ کو ختم کرنے سے پہلے خودہی فتنہ کی شکارہوکرتقسیم درتقسیم سے دوچارہوکرمعاشرہ کی نظروں میں اپنااعتماکھوچکی ہوتی ہیں…خدمت خلق کے صالح جذبہ سے سرشاراورکچھ کرگزرنے کا نیک جذبہ لے کرپیداہونے والی تحریکات چندمہینوں یاچندسالوں میں عنقاہوجاتی ہیں،دنیاکی قیادت اورعالم اسلام کی سیادت کاخواب دیکھ کربیدارہونے والے ،ضلالت اورذلالت کوحرف غلط کی طرح ختم کرنے کاعزم مصمم لیکرمیدان کارزارمیں کودپڑنے والے چنداصحاب عزیمت اورسپہ سالارپانی کے بلبلوں اورسمندری جھاگ کی طرح بیٹھ کرحالات کا رونارونے لگتے ہیں۔
آج طارق ؒبن زیادکاعزم ،نورالدین زنگی ؒکی بصیرت،موسی بن نصیرؒکی استقامت،صلاح الدین ایوبیؒ کاجذبہ،محمدبن قاسم ؒکاولولہ،سیداحمدشہیدؒکافکر،شاہ اسمعیل ؒشہیدکادرداورمحمودغزنویؒ،شیرشاہ سوریؒ اور شیرمیسور کے شاہین صفت ارادوں کاکوہ ہمالہ صرف اسی لئے سرنگوں ہوتاجارہاہے کیونکہ ہمارے دلوں سے ایمان کی عظمت،قرآن کی محبت،سول برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت اوراخیاراسلام کے اولوالعزمانہ کارناموں سے مجرمانہ غفلت ہماراطغرائے امتیازبن چکاہے۔
طبریؒ ورازیؒ ،غزالیؒ وسیوطیؒ،جوزیؒ وفارابیؒ ،اصمعیؒ وذہبیؒ ،عینیؒ ونوویؒ ،بخاریؒ وقرطبیؒ ،فارابیؒ وعسقلانیؒ ، بغدادیؒ واعرابیؒ ،تھانوی ؒوگنگوہی ؒ،دہلویؒ ونانوتویؒ ،سہارنپوریؒ ورائے پوریؒ یہ جتنے اہل علم وماہرین فن گذرے ہیںسبھوں نے حصول علم کے لئے خود کو فنا کرکے اور’’اَلْعِلْمُ لَا یُعْطِیْکَ بَعْضُہٗ حَتّٰی تُعْطِیْہِ کُلُّکَ ‘‘کو مد نظر رکھتے ہوئے محنت ومشقت اورقربانی وجانفشانی کی راہیں طے کیں،نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آسانیاں مقدر فرمادیں کیونکہ ان کے مجاہدے ،شب وروز کی محنتیں اوراللہ رحیم وکریم سے دعائیں اخلاص وعمل کی کسوٹی پر پوری اترتی تھیں ،آج ہم شاہراہِ معراج پر بکٹٹ دوڑنا چاہتے ہیں لیکن کسل مندی اورغفلت کی دبیز چادر ہم پر تنی ہوئی ہے ، موتیوں اورلعل وگوہر کی جستجو ہمیں بھی ہے لیکن بستروں اورنرم گدوں سے پیٹھ نہیں ہٹانا چاہتے ،غواصی نہیں کرتے ، بلندیوں کی طلب ہونے کے باوجود محنت ومشقت کا ہمارا مزاج نہیں بنتا ۔
ضرورت ہے کہ ہم افرادسازی پر اپنی توجہات مرکوزکریں،ہمارامطمع نظراپنی ذات سے دوسروں کو صرف اورصرف فائدہ پہنچانابن جائے،کیونکہ اس دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیزفائدہ پہنچانے کے لئے بنائی ہے،سورج کی تمازت سے کھیتیاں پکتی ہیں،چاندکی روشنی سے پھلوں اورپھولوں میں حلاوت پیداہوتی ہے،دریا اورسمندر کھیتیاں سیراب کرتے ہیں،زمین اپنی گودسے زرخیزی وشادابی لانے میں اہم کرداراداکرتی ہے،درخت اپنے سایہ،پھل اورلکڑی سے خدمت کرتے ہیں،حتی کہ پتھربھی اپنی نافعیت اورخدمت میں دوسروں سے پیچھے نہیں ہے، مکانوں کی تعمیرسے لے کرسڑکوں،پلوں اوردیگرتعمیری امورمیں اپنی خدمات پیش کرتاہے، دریااورسمندر سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں ،زیرزمین پانی کاقدرتی نظام ہمیں آسانیاں فراہم کرتاہے،اسی طرح پانی اپنی ہمہ گیر نافعیت کے علاوہ بجلی بھی پیداکرتاہے ،اس قسم کی ہزاروں لاکھوں چیزیں صرف اورصرف انسان کی خدمت پرمامورکی گئی ہیں جوابتدائے آفرینیش سے قیامت تک اپنی خدمات بہم پہنچاتی رہیں گی۔
کیاآپ نے کبھی غورکیاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہزاروں لاکھوں چیزیں ہماری خدمت اوراطاعت کیلئے کیوں بنائیں ؟کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ،اس کو مخلوقات میں سب سے اونچامقام اسی لئے دیاگیاہے تاکہ وہ اپنے رب کی ربوبیت کاقائل ہوکراپنے مقصدتخلیق پرتوجہ کرکے اورمنشاء الہٰی وماخلقت الجن والانس الالیعبدون پرکاربندہوکراللہ کی رضااورخوشنودی کا خوگرہواورجنت کی ابدی اورسرمدی نعمتوں سے لطف اندوزہوسکے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنامحاسبہ کریں!حضرت عمرفاروق ؓکاارشادگرامی ہے’’ حَاسَبُوْاقَبْلَ اَنْ تَحَاسَبوْا‘‘تم خوداپنامحاسبہ کرو قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارامحاسبہ کیاجائے اوراس سے پہلے کہ تمہیں پرکھا جائے تم خودپرکھ کردیکھ لو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ احتساب اورمحاسبہ کی تلقین فرمائی ہے چنانچہ ایک جگہ ارشادفرمایاہے کہ یَااَیُّہَاالذِّیْنَ آمَنُوْااتقوااللّٰہ ولتنظرنفس ماقد مت لغد (پ ۲۸)
اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو،بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبرہے۔
اہل اللہ نے عقلمندوں کیلئے چار ساعتیں مقررکی ہیں جن میں سے ایک ساعت محاسبہ نفس کی بھی ہے۔
حضرت عمرفاروقؓ! رات کو اپنے پیروں پرکوڑے مارتے تھے اور خودکو مخاطب کرکے فرماتے تھے کہ تو نے آج کیاکیاہے؟
حضرت غزوان نامیؒ ایک غازی کی نظرایک اجنبیہ پرپڑگئی تو اپنے منہ پرزوردارطمانچہ ماراکہ آنکھ پر ورم آگیااورآنکھ کو مخاطب کرکے فرمایاکہ تو ایسی چیزکی طرف دیکھتی ہے جوتیرے لئے مضرہے۔
ایک عارف کامل نے ایک اجنبی عورت سے گفتگوکرلی ،گفتگومیں محویت ایسی ہوئی کہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھ دیا،فوراًاپنی غلطی پر نادم ہوئے اوربطورسزااپناوہ ہاتھ آگ کے شعلوں پر رکھ کرجلایایہاں تک کہ وہ ہاتھ کوئلہ ہوگیا۔
جن مخلصین کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جڑاہوتاہے وہ لوگ مکائد شیطانی اورہوائے نفسانی سے محفوظ ومامون رہتے ہیں ،ایسے برگزیدہ نفوس اپنے ایک ایک سانس ،ہرہرقدم اورہر لمحہ وہرآن صادرہونے والے افعال واعمال کومحاسبہ کی کسوٹی پرجانچتے اور پرکھتے ہیں ،روحانی بیماریوں کاعلاج قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں ۔
حضرت میمون بن مہرانؒ نے عجیب بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومن اور متقی انسان اپنے نفس کا حساب ظالم بادشاہ اور بخیل شریک سے بھی سخت لیتاہے اوربندہ اس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے نفس سے اس طرح حساب نہ لے جس طرح تاجراپنے شریک تجارت سے کیاکرتاہے۔
محاسبہ،احتساب نفس،ہوائے نفسانی سے احتیاط واحتراز اوراپنی غلطیوں پر خودہی سزادینے کا مزاج بنانے والے انسان ہی دراصل مقربین میں شمارہوتے ہیں۔
اللہ والوں نے اپنے نفس اور خواہشات کو اپناغلام بنالیاتو عنداللہ سرخروہوگئے اورہم خواہشات کے غلام،نفس کے بندے اور شیطان کے آلۂ کارہوکرتباہ ہورہے ہیں۔
نفس کے تقاضوں پر مشتبہ لقمہ حلق سے اتارنے پر فاقوں کی سزاتجویزکرلینا،کسی پربری نظرپڑجائے تو آنکھوں کو بندکرکے سزادینا،برے کام کے لئے چلنے پر رک جانے کی سزاپیروں کودینااورہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری ،جواب دہی اورحساب وکتاب کااستحضاررکھنااللہ والوں کی عمدہ عادات وصفات کا عملی نمونہ ہے۔
چنانچہ حضرت جرجانی ؒ ہمیشہ ستو کھاتے تھے کہ روٹی کھانے اورچبانے پر وقت زیادہ ضائع ہوتا ہے اورذکراللہ کے لئے وقت میںکمی ہوتی ہے ،حضرت عتبہؓ سوکھا آٹا ہی کھالیتے تھے ،حضرت شقیق بن ابراہیمؒ کا نفس تیس سال سے حریرہ کھانے کو کہتا رہا لیکن نہیں کھایا ،حضرت مالک بن دینارؒ نے بھی نفس کی مخالفت میںچالیس سال دودھ نہیںپیا،حضرت احمد بن ابی الحواریؒ نے نمک کھانا ہی چھوڑدیا ،نفس نے ترکاری کی خواہش کی تو مالک بن منعمؒ نے چالیس دن کے لئے ترکاری کھانے کا ارادہ ہی ترک کردیا ،اسی طرح چالیس سال سے زائد عرصہ تک دودھ استعمال نہیں فرمایا ،حضرت داؤد طائی ؒ کے نفس نے خرماکی خواہش کی تو قسم کھالی کہ کبھی خرمانہیں کھاؤںگا ،حضرت موسیٰ بن رشتجؒ نے بیس برس تک نمک نہیں کھایا، حضرت احمد بن خلیفہؒ نے کبھی شکم سیر ہوکر پانی نہیںپیا،حضرت سری سقطیؒ کا جی چاہتا تھا کہ روٹی کو شیرہ اورانگور میں ترکرکے کھاؤں مگر تیس برس تک نہیں کھایا ۔
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ترک مالایعنی پر ایساعمل کیاکہ عقلیں حیران اورششدررہ جاتی ہیںچنانچہ منصوربن المعتمرؒنے عشاء کے بعد چالیس برس تک گفتگو نہیں فرمائی ، حضرت ربیع بن ہیثمؒ نے بیس سال تک کوئی کلام نہیں فرمایا ،حضرت حسین ؓ تیس برس نہیںہنسے ، حضرت عطاء سلمی ؒ چالیس برس نہیں ہنسے ،عبد الوہاب بن وراقؒ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا،حضرت حسن بصری ؒ چالیس سال تک نہ ہنسے ، حضرت سعید بن جبیرؓ کبھی نہیں ہنسے ، حضرت حسان بن سنانؒ نے ایک دریچے کی بابت معلوم کرلیا کہ یہ کب تعمیر ہوا ،فوراً تنبہ ہوا کہ لایعنی سوال کرلیا چنانچہ نفس کے لئے سزاتجویز کی کہ دو سال تک روزے رکھنا ہے اوراسی پر عمل کیا۔
جولوگ علمی ودینی ،تدریسی وتصنیفی ،دعوتی اوراصلاحی کام کرنے والے ہیں اورہروقت اپنے تھکنے کاشکوہ کرتے رہتے ہیں ان کے لئے یہ واقعات اورنظائر بصیرت افروزہوں گے کہ حضرت ابو محمد مریؒ اٹھانوے سال تک نہیں لیٹے ، حضرت عامر بن قیسؒ کبھی نہیں سوئے ،حضرت رابعہ عدویہ ؒنے پچاس سال شب وروز عبادت کی اور حضرت صفوانؒ نے چالیس برس تک بسترسے پیٹھ نہیں لگائی ۔
یہ حالات اورواقعات صرف اس لئے وجودمیں نہیںآئے کہ اللہ کے ان بندوں کویہ چیزیں غربت ومفلسی کی وجہ سے نہیں مل سکیں،ایسابھی نہیں تھاکہ اِن چیزوں کا حصول اِن قدسی نفوس کے لئے ناممکن تھا،حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اگرچاہتے تو آسمان سے سجے سجائے دسترخوان نازل ہوتے،من وسلویٰ ان کی غذائیں ہوتیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت کو نفس کی مخالفت کرنے والوں کے لئے بنایاہے ،اس لئے یہ طائفۂ خداوندی ہروقت اورہمہ وقت اللہ کے حضورمیں گریاں وبریاں رہتاتھا،دنیاوی لذات وخواہشات کی طرف ان کی توجہات نہیں ہوتی تھیں۔
حضرت مجمع ؒ نے ایک دن آسمان کی طرف نظر کی تو کسی بالا خانہ پرکوئی عورت نظر آئی فوراً توبہ کی اورقصد کرلیا کہ کبھی اوپر نہیں دیکھوںگا ،اخنف بن قیسؒ رات بھر چراغ جلاتے اوراپنی انگلی بتی پر رکھ کر نفس کو سزادیتے تھے۔
توبہ ابن الضمہ ؒرقہ میں تھے اوراپنے نفس کا محاسبہ کررہے تھے ،انہوں نے اپنی عمرکاحساب لگایاتو پتہ چلاکہ ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں،ساٹھ سال میں اکیس ہزارچھ سو دن ہوتے ہیں ،اس خیال سے کانپ گئے چیخ ماری اورکہا افسوس!میں شاہ حقیقی کے سامنے اکیس ہزارچھ سو گناہوں کے ساتھ ملاقات کروں گا،اور اگرہردن کے دس ہزارگناہ ہوئے تومیراانجام کیاہوگا؟پھروہ بیہوش ہوکرگرپڑے اوراسی حالت میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔
لوگوں نے ان کے انتقال کے بعدایک غیبی آوازسنی کہ کوئی کہہ رہاہے کہ اب فردوس بریں کی طرف لوٹ جاؤ!بندے کو اپنی سانسوں کا اسی طرح حساب لگاناچاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ اپنا کچھ وقت دنیوی کاموں کیلئے مخصوص کرلواورکچھ وقت اپنی آخرت کے لئے ۔
غورکیجئے !کیاہم اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں؟کیاہماراعمل سیرت وسنت کے مطابق ہے ؟ہم زمین کیلئے بوجھ تو نہیں ہیں؟کیاہماری ذات سے عمومی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچ رہاہے ؟کیاہماری شوکت وعظمت ہنوزقائم ہے ؟کیاہماری صفوں میں حقیقی علمائ،دینی راہنما،اسلامی قائدین ومفکرین اوربلندپایہ واعظین ومبلغین موجودہیں؟کیاعوام الناس کو ہمارے مرکزی اداروں اورمسلکی جماعتوں وتحریکوں سے فائدہ پہنچ رہاہے ؟ کیاہمارا بہترین دماغ ملک وقوم کی رہنمائی میں کامیاب ہے؟آج امت کو جن بنیادی مسائل میں ہماری قیادت کی ضرورت ہے کیااس میں ہم سوفیصدکامیاب ہیں؟اورکیااسلام اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کو واپس لانے میں ہماراکوئی اہم مثبت کردارقوم کے سامنے ہے؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
منصف آستیں

’’منصف کی آستیں میں ہے خنجرچھپاہوا‘‘
ناصرالدین مظاہری
ہندستان کی جمہوریت،جمہوریت کا غلط مفہوم،اس غلط مفہوم پر ’’دانشور‘‘طبقہ کا یقین واعتماد،جمہوریت ، جمہوریت کا مغربی شور اور اس شور کی لے میں لے ملاکر پوری دنیا میں ہنگامہ آرائی،کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ جمہوریت کی حقیقت کیا ہے؟اس کے تقاضے،اس کا مفہوم اورقوم سے اس کے مطالبات کو کسی نے سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور اسلام کے علاوہ دنیا میں رائج مذاہب اس کا سچااور صحیح رخ بتلانے سے قاصر رہے،اس لئے کہ ان کے پاس بتلانے کو کچھ نہیں جبکہ بکنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
اگر کسی ملک،قوم،جماعت،جمعیۃ اور پارٹی کو دنیا کے منظر نامے سے غائب کرنا ہوتو اس کا آسان حل یہ ہے کہ کسی ناتجربہ کار،ناعاقبت اندیش،نااہل اور اس فن سے ناواقف ونابلد فردکو اس کی زمام کار سپرد کردی جائے،جیسے ایک بڑے سائنس داں کو جس کا دل ،دماغ اور فکر ہروقت سائنس کی ترقی،بہتر سے بہتر ایجادات اور اختراعات میں مصروف ہو اس کو وہاں سے ہٹاکر سیاست کی باگ وڈور پکڑادی جائے،سیاست کے بہترین ’’کھلاڑی‘‘ کو سیاست سے ہٹاکر کسی اسکول کالج یا مدرسہ کا لیکچراربنادیاجائے،اسکول اور کالج کے بڑے معلم اور استاذ کوسیاست کے اکھاڑے میں اتاردیاجائے،ایک دفتری شخص کو جس کی زندگی صرف دفتری امور کو انجام دیتے گزرگئی ہو اسکو وہاں سے ہٹاکر تجارت کی اعلیٰ کمان سپردکردی جائے،ایسے ہی عربی کے کسی باکمال ،باصلاحیت عالم کو انگلش کی کتاب تھمادی جائے، ماہرانگلش کے حوالے فارسی کامضمون کردیا جائے،ایک کسان اور زراعت کے ماہر کو آنافاناً کسی کالج یا تنظیم کاعہدۂ صدارت دیدیاجائے ……آپ خود اندازہ کیجئے !ایسے ملک،ادارے، سوسائٹی اور جماعت کا کیاحال ہوگا،کیا اس کی سالمیت کی حفاظت کی ضمانت دی سکتی ہے ؟اگر جمہوریت کا یہی مفہوم ہے تو ایسا ملک اور سماج پوری دنیا کا’’ نادرونایاب اور تاریخ کا عجیب وغریب‘‘ملک کہا جائے گا۔
ایک کبڑے سے پوچھا گیا کہ بتاؤ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری کمرسیدھی کردی جائے یا تمہاری طرح پوری دنیا کو کبڑا بنا دیاجائے ،اس نے جواب دیا کہ ساری دنیا کو ہماری طرح کبڑا بنا دیاجائے۔
یہی حال ہمارے ملک اور قوم کا ہے،تجربہ کاروں اور مہذب سوسائٹی میں زندگی گزارنے والوں کے فیصلے ہوسکتا ہے سود مند ہوں،لیکن جو لوگ ہر طرح سے مغربی علوم سے آراستہ،وہاں کی تہذیب سے پیراستہ، وہاں کے نظریات اور افکارسے ان کے اذہان پراگندہ اورصحیح رخ کو سمجھنے اور سمجھانے میں ناپختہ ہوں ان کو اگر عدالت کی کرسی پر بٹھادیا جائے تو کیا ہوگا؟جن افراد کو کسی بھی مذہب اور تمدن کے افکاروخیالات اورتقاضوں کاکوئی علم نہ ہو خصوصاً ایسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے ماننے والے ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہوںانہیں جج یا سب جج بنادیاجائے تو ایسے’’ افراد اور شخصیات‘‘قوم کے حق میں کس طرح فیصلے کریں گے ؟ظاہر ہے۔
عد الت :جہاں سے پوری قوم کو یہ آس لگی رہتی ہے کہ صحیح اور سچا انصاف اگر مل سکتا ہے تو عدالت سے،لیکن اگر عدالتیں غلط فیصلے کرنے لگیں،وہاں بھی ضمیر فروش افراد من مانی کرنے لگیں،مذاہب کو تحفظ فراہم کر نے کے بجائے ان کے پرسنل لاء میں مداخلت کرنے لگیں،سماج اور معاشرہ کو صحت مند اور سودمند راہوں کے بجائے انھیں ایسی ڈگر پر ڈال دیا جائے جس سے ملک کے امن وامان کو خطرات درپیش ہوجائیں،اس کی سیاسی ساکھ مجروح ہونے لگے،پوری دنیا میں اس پر لعنت ملامت ہونے لگے تو کیا ایسے فیصلوں اور احکامات کوحقیقت پسندی وملک دوستی سے تعبیر کیا جائے گا اور کیا اس سے دنیا کو ایک اچھا پیغام مل سکے گا۔؟
سبھی جانتے ہیںاور اس سچائی پر پردہ نہیں ڈالاجاسکتا کہ پورے عالم میں مسلمان اپنی حیثیت،طاقت وقوت،قیادت وسیادت اور تجارت وزراعت ہر معاملے میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہے ،خود ہندستان میں بھی اگر آزادی کے ساتھ غیرجانبدار تنظیموں کے ذریعہ مردم شماری کرائی جائے تو یہاں بھی تیس کروڑ سے کم مسلمان نہیں ہیں ،یہ تیس کروڑ مسلمان اپناایک مذہب رکھتے ہیں جو پوری دنیا کیلئے واحد نجات دہندہ ہے ، اس کو اپنائے بغیرپوری انسانیت حقیقی کامیابی اور کامرانی سے باریاب نہیںہو سکتی،اس لئے کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جہاں دیگر ادیان ومذاہب کے مذہبی حقوق کامکمل خیال رکھا گیاہے اگر ایسا نہیں ہے توذمیوں،مستامنوں اور خراج دہندگان سے متعلق قوانین اسلام میں نہ پائے جاتے اسلام کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس میں دوسرے ادیان ومذاہب کی رعایت رکھی گئی ہویہی وجہ ہے کہ آج الحمدللہ یورپ سمیت پوری دنیا میں اسلام کو قبول کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے،اسلام قبول کرنے والوں میں ہر طبقہ اور مذہب کے لوگ شامل ہیں ، جس سے اسلام کی حقانیت صاف ظاہر ہے اور اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ:ملک کا ایک بااختیار،قانونی ادارہ ہے ،وہاں کے فیصلوں پر ملک میں غیر یقینی حالات کے باوجودآج بھی پوری قوم کو اعتماد ہے، لیکن جب سے تنگ نظروں،مفاد پرستوں،متعصب ذہنیتوں اور دیگر ادیان ومذاہب کے لئے گندی ذہنیت رکھنے والوں کے پاس قلمدان پہنچا ہے تو وقت بے وقت ایسے احکامات صادر ہونے لگے ہیں جن سے کسی خاص مذہب پر’’ضرب‘‘لگتی ہے،ایک خاص طبقہ متأثر ہوتا ہے اور بالفاظ دیگر ایک بڑے طبقہ کو عدالت عظمیٰ سے بدظن کردیا جاتاہے،کیا قانونی ماہرین اور عدالت عالیہ میں جلوہ افروزجج حضرات نے اس پہلو پر کبھی سوچا ہے کہ ان کے تعصب پر مبنی غلط احکامات اور فیصلوں سے قوم ان سے کس قدر کٹ چکی ہے،عوام کا اعتماداور یقین جو عدالت پر ہونا چاہئے تھا کیا وہ برقرار رہ سکا ہے، کیا عدالتوں کے فرامین اور احکامات پر قوم سے بزوربازوعمل کرایا جاسکتاہے؟… عدالتوں کے احکامات کے نفاذمیں اگر پولیس اور فوج کاسہارا لینا پڑے تو کیا اسے’’فیصلہ‘‘کہا جائے گا؟
فیصلے ایسے ہونے چاہئیں جس سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی جاسکے،عدالتی فرامین اس قدرصاف ستھرے اور پاکیزہ ہونے چاہئیں جن کی تعمیل کے لئے عوام دلی طور پر مجبور ہوجائیں۔فیصلوں میں ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ فیصلے کسی مذہب اور معاشرہ میں دخل اندازی نہ ہوکر اس کے مفاد کو پیش نظر رکھا گیاہو۔
محترمہ جسٹس سی کے ٹھکراور جسٹس ماکنڈے کاٹجو پر مشتمل ایک بینچ نے نجمہ نامی ایک عورت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ
’’محض طلاق کہہ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوجاتی(تین طلاق کے اس معاملہ پر عدالت عظمیٰ نے کہاکہ)مسلم معاشرے کا کوئی بھی فرد کسی(مردیاعورت)کو اس کی مرضی کے خلاف الگ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا‘‘(سہارا اردو دہلی ۲۲؍اپریل ۲۰۰۶ئ)
اڑیسہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھیں،جس پر وہاں کے مقامی مسلمانوں نے اسلامی احکامات کی روشنی میں طلاق کے باوجود یکجا رہنے کی اجازت نہیں دی تونجمہ نے اولاً وہاں کے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں اس کی درخواست خارج کردی گئی جس پر اس نے ’’انصاف‘‘کے لئے سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایااور وہاں سے مذکورہ بالافرمان صادر کرکے اسلام دشمنی کی بھڑاس نکالی گئی۔
جسٹس کاٹجو نے اپنے فیصلے میں کہا کہ
یہ(ہندستان)ایک سیکولر ملک ہے جہاں ہر فرقے کو مہذب طریقہ سے رہنا ہوگا ہر فرقے کے لوگوں کو عزت سے جینے کا حق حاصل ہے،لہٰذا کوئی بھی کسی کو الگ رہنے کے لئے مجبور نہیں کرسکتا‘‘
گویاکہ جسٹس کاٹجوکے بقول ایک سیکولر ملک میں صرف زبان سے اگر کسی کو گالی دیدی جائے تو کوئی بات نہیں ہے؟کسی بھی شحص پر پھبتی کس دی جائے اجازت ہے،راہ چلتے کسی بھی خاتون کو ’’زبان‘‘سے کچھ بھی کہہ دیا جائے روا ہے،چونکہ زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور زبان کو’’ شتر بے مہار‘‘ کی طرح استعمال کرنے پرقدغن لگانا ایک ’’سیکولراور جمہوری‘‘ملک کی جمہوریت اور اس کے اقدار کے منافی ہے ،کوئی بھی مرد کتنی ہی مرتبہ طلاق دیدے لیکن طلاق واقع نہیں ہوگی اس لئے کہ ایک سیکولر ملک کی سیکولر سپریم کورٹ کا ’فرمان عالی ‘‘ہے،عدالتوں میں گواہوں کے زبانی بیانات تسلیم نہیں ہوں گے کیونکہ زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے،عدالتوں میں ججوں کے سامنے وکلاء کی جرح وغیرہ اب زبانی نہیں ہوگی کہ زبان کوئی چیز نہیں ہے،جو کچھ ہوگا یا تو ہاتھ سے یا پیر سے یا کسی اور طریقے سے زبان کو یارائے تکلم نہیں؟…اللہ عدالتوں پر اپنا کرم فرمائے جوحالات، ماحول،وقت اور مصالح کو بالکل نہیں جانتیں اور انھیں اس کا بھی علم نہیں ہے کہ حکومت’’ زوربازو ‘‘کانام نہیں دلوں پر حکمرانی کا نام ہے اوردلوں پر حکمرانی کر نے کیلئے اسلام کے سواکسی بھی مذہب کے پاس کو ئی فارمولہ اور نسخہ نہیں ہے۔
اگر صرف زبان سے کہنے پر کچھ نہیں ہوتا توپھر ہندستانی قانون کی دفعہ ۱۹۳ کے تحت عدالت میں جھوٹی گواہی دینے والے کے لئے سات سال کی قید کیوں متعین ہے؟
اگر صرف زبان کے استعمال سے کچھ نہیں ہوتا توجلسوں اور تقریروں میں کسی کے مذہبی جذبات کومجروح کرنے پر دفعہ ۲۹۶کے تحت ایک سے تین سال کی سزاکیوں متعین ہے؟
کسی کو بغیر ہتھیار کے اگر اذیت پہنچائی جائے تو وہ زبان بھی ہوسکتی ہے اور بغیر ہتھیار کے اذیت پہنچائے جانے پر قانون کی دفعہ ۳۲۳کے تحت ایک سال کی قید متعین ہے ایسا کیوں؟
اسلئے اگر صرف زبان کی بنیاد پر اسلام نے کچھ بنیادی اصول اور قوانین وضع فرمادئے تو اس پر متعصب ذہنیت کیوں چیں بجبیں ہے؟
ظاہر ہے یہ سب اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی کھلم کھلادل آزاری ہے۔مسلمانوں کا اپنا پرسنل لاء ہے،اپنا اصول ہے،اپنی شریعت ہے،اپنی کتاب ہے،اپنی تہذیب ہے جس سے سرمو انحراف ایک موحد اور مسلم کے لئے ناممکن ہے۔اس لئے عدالتوں اور منصف ججوں کو صرف ایسے احکامات اور فیصلے صادر کرنے چاہئیں جس سے عدالت عالیہ کا امتیازاور اس کا وقار مجروح نہ ہونے پائے کہ آج عدالت ہی رہ گئی ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، خدا نخواستہ آنے والے کل اگر قوم کا اعتماد منصف عدالتوں سے اٹھ گیا تو کیا ہوگا؟
٭٭٭
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
تعمیرملت یا تفریق ملت

تعمیرملت یا تفریق ملت
ناصرالدین مظاہری
حضرت مصعب زبیر ؓ اورعبد الملک بن مروان میں جنگ ہورہی تھی ،روم اس زمانہ میں عبد الملک بن مروا ن کا دشمن تھا ،قیصرروم کے درباریوں نے اسے مشورہ دیا کہ چونکہ ان دنوںعبد الملک اورمصعب بن زبیر کے درمیان جنگ جاری ہے ،مناسب ہوگاکہ ہم اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور عبد الملک کے مقبوضات پر یلغار کردیں؟
قیصر روم نے جواب دیا کہ عبد الملک کے مقبوضات کو چھیڑنا مناسب نہیں ہے ،مصلحت کے خلاف ہوگا ، اس کے بعد قیصر نے تالی بجائی ،دو کتے لانے کا حکم صادر کیا ،تعمیل حکم میں دو کتے لائے گئے اور ان کے آگے تھوڑا سا گوشت ڈال دیا گیا ،گوشت کی خاطر کتے آپس میں لڑنے لگے ،قیصر نے ایک لومڑی بھی منگوائی ،لومڑی کتوں کے قریب چھوڑدی گئی اسے دیکھتے ہی کتے اپنی لڑائی بھول گئے اور لومڑی پر جھپٹ پڑے ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے لومڑی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔
قیصر نے کہا کہ اگر ہم نے اس وقت عبد الملک کی سلطنت پر حملہ کیا تو وہ اور مصعب (یعنی دونوں دشمن)آپ میں صلح کرلیں گے اور اکٹھے ہوکر ہمارے مقابلہ پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔
آج کے دور میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی نہ کسی درجہ میں اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کا نتیجہ ہے ،ایک شخص کی غلطی یا غلطی پر چشم پوشی سے ممکن ہے کچھ وقفے کے لئے اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ غلطی پھر دہرائی ہی نہ جاوے،کسی شخص سے اگر نادانستگی میں کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کی رعایت کا پہلو نکل سکتا ہے لیکن جب غلطی کو غلطی تسلیم کرتے ہوئے کوئی کام کیاجاوے تو اس کوغلطی نہیں ’’جرم‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ،بیماری کو جب تک بیماری سمجھا جائے اس وقت تک اس کا علاج ممکن ہے لیکن جب بیماری کو کوئی خوبی تصور کیا جانے لگے تو اس وقت علاج کے سارے طریقے اور حکما کے سارے نسخے بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
ایک شخص یا ایک جماعت کی کوتاہیوں سے دوسرا شخص اور دوسری جماعت آج کل اپنی روٹی سینک رہی ہے لیکن اس غلطی پر تنبہ یا انتباہ کا مادہ ہمارے دلوں اور ذہنوں سے نکل چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کل ہمارا فکر اور ہمارا طریق کار اپنی ذات اور اپنے مفادکے سوا کچھ نہیں رہا ،جماعتیں،ادار ے ، سوسائٹیزاورمختلف تنظیمات کی موجود گی کے باوجود نہ تو اسلام اپنی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ فگن ہوپارہا ہے ، نہ ہی غربت وافلاس کاخاتمہ، نہ بدعت وضلالت ختم ہوتی ہے ، نہ ہی علم دین کا بول بالا ہوتا ہے ،ہزار محنت ومشقت اورمختلف اسکیموں کے باوجود آپسی بھائی چارگی ،اخوت ومحبت ،الفت ویکجہتی اورانسان دوستی کاعنصرہمارے اندر پیدا ہوتا ہے اورنہ ہی خدمت خلق کاداعیہ ہمارے اندر انگڑائیاں لیتا ہے ………وجہ یہی ہے کہ ہمار ے اندرسے اخلاص کا مادہ ختم ہوچکا ہے ،بزرگوں کی روایات نے دم توڑدیا ہے جو موجود ہیں وہ اپنے سے پہلے والوں کی خوبیاں اختیارکرنے کے بجائے الٹے انہیں کو خاطی اورقصوروار گردانتے ہیں اس لئے ہم کو ہماری محنتوں کا کوئی ثمرہ نہیں مل پارہا ہے ہماری کوششیں رائیگاں اوربے سود ہورہی ہیں ہم کوئی بھی کام رفاہ برائے رفاہ اوراللہ رب کریم کی رضاوخوشنودی کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لئے انجام دیتے ہیں نتیجہ صفر ہوتا ہے ۔
انیسویں صدی کے اواخرمیںہندوستان سے ایک ایسی تحریک اٹھی جس نے اپنے باطل افکارونظریات اورمسموم ذہنیت سے سادہ لوح عوام وخواص میںبڑی تیزی کے ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرلیں ،اس وقت کی ظالم عیسائی حکومت اوران کی منصوبہ بند دعوتی مشنریوں نے تحریک کے بانی کی ہر قسم کی مددکی کیونکہ یہ تحریک نہ صرف انگریزوں کی ہم نوا تھی ،بلکہ ظالم انگریزوں کی قصیدہ خوانی ،تملق وچاپلوسی اورشہرت وثروت کی طمع نے ان کی آنکھوں پر دبیز پردے ڈال رکھے تھے ،جس کے باعث آزادی کی آواز اٹھانے والی ہرتحریک ،ہر تنظیم، ہر جماعت اورآزادی کی ہم نوا ہربڑی شخصیت کو کافر قرار دیا گیا ،تکفیر وتفسیق کے تیر چلائے گئے ،علماء حقانی اورگروہ ربانی کی پرزورمخالفتیں ہوئیں ،علماء دیوبند ، فرنگی محل، ندوۃ العلمائ،علی گڑھ اوردہلی وغیرہ کے علماء پر نام بنام کفرکے فتوے صادر کئے گئے جب کفرسازوں کو پھربھی سکون نہ ملا تو جماعتوں، تنظیموں، مختلف اداروںحتی کہ سیاسی پارٹیوںتک کوبھی مغلظات سے نوازاگیا اوریہ سب محض اسلئے ہو ا کہ پس پشت ’’برطانوی استعمار‘‘کی کارفرمائیاں شامل حال رہیں۔
ایسے مشکل وقت میں بھی علماء حقانی نے حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ایک طرف اپنی تحریک آزادی کو فروغ دیتے رہے اوردوسری طرف رضاخانی دروغ کا پردہ فاش کرتے رہے چنانچہ بریلویت اورقادیانیت دونوں محاذوں پر الحمد للہ قابل رشک خدمات انجام دی گئیںاور باطل نظریات کواپنی محدود چہاردیواری میں قید رہنا پڑا ۔
دراصل یہ دونوں جماعتیں اپنے وجود سے ہی انگریزوں اورانگریزسرکار کی مراعات سے فیض یاب رہی ہیں اسلئے ان سے یہ گمان رکھنا کہ یہ تفریق ملت سے بازآئیں گی اور تعمیرملت میںعلماء حقہ کے شانہ بشانہ چل سکیںگی یہ خام خیالی ہے ،کسی بھی زمانہ میںیہ جماعتیں ملت اسلامیہ کے فروغ وعروج کے لئے ایک پلیٹ فارم پرنہیںآسکیں اوراگر کبھی ایسا ہو اہے تووہ وقتی اورعارضی ثابت ہوا۔
ماضی قریب میںاسی بریلی شہرسے جہاںدنیابھرکے حق گواورحق پسند علماء کوکافر وزندیق اورمرتد وملحد کہاگیا تھا،بریلویت کے بانی وسرخیل مولانااحمد رضاخا ن کے ایک عزیز جناب توقیر رضا بریلوی نے بر صغیر کی مشہور ومعروف تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈکے مقابلہ میںجدید مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کیا اورخود ہی اس کے صدر محترم بن بیٹھے ہیں،یہ وہی توقیر رضا صاحب ہیں جن کو چند سال پہلے اچانک ’’اتحاد ملت ‘‘ کادورہ پڑاتھااوراسی اتحاد ملت کیلئے یا ملت اسلامیہ کے پلیٹ فارم پر آنے کے لئے ایک کارواں نکالا تھا جس نے ملک کادورہ کرکے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ ان کے دل میںبھی ملت اسلامیہ کاجذبہ بیدا ر ہے ۔
یہ’’ کارواں‘‘کارگرثابت ہوا یا بیکار،ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ شاید اس بھاگ دوڑ سے انہیں کچھ’’ مادی منفعت‘‘ حاصل ہوئی ،جس کے باعث اب ا نکوقدیم ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘‘کا متفقہ اورمتحدہ پلیٹ فارم اچھا نہیں لگتا ہے یا اس سے موصوف کی کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی جسکے باعث مقابلہ پر ’’جدیدمسلم پرسنل لاء ‘‘ قائم کرنے کی نوبت آئی ۔ ؎
قافلے دیکھ اوران کی برق رفتاری بھی دیکھ
ملت بیضا کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
ان کی آزادی بھی دیکھ ان کی گرفتاری بھی دیکھ
ایسے وقت میںجب کہ ہرسو سناٹا اورہو کاعالم ہے ،پوری دنیا کے مسلمان مختلف آزمائشوں کاشکار اورمخالف حالات سے برسرپیکار ہیں ،ہماری بے مائیگی ، بے حسی،بے شعوری،بے بصیرتی اوربد عملی نے ہمیںذلت وخواری کے دہانے پرپہنچادیا ہے ،خود غرضی ،مفاد پرستی ،انانیت اورہٹ دھرمی کے ہم خوگر ہوچکے ہیں،آپسی اختلافات ، باہمی نزاعات ،اندرونی انتشار وخلفشار،ذاتی رنجشوں اوررقابتوں سے ہمارادشمن بھرپورفائدے حاصل کررہا ہے اورہروقت ہمیں نت نئے فتنوں میں پھنسانے اورگمنامی کے قعر مذلت میںدفنانے کیلئے مختلف منصوبہ بندیوں سے کام لیا جارہا ہے ،ایسے مشکل اورصبرآزما حالات اورماحول میںہمیں خود کو سدھارنے اورسنوارنے کی ضرورت تھی ، ہمیں سرسے سر جوڑکرصہیونی سازشوںاوراغیارکی منصوبہ بندیوں کاقلع قمع کرنے کی ضرورت تھی، جب ایک جان دو قالب ہوکردنیا کو یہ پیغام پہنچانیکی ضرورت تھی کہ ہمارے اختلافات اورفروعی مسائل سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی جائے ،ہم مسلمان ،من حیث القوم ایک ہیں،ہمارے درمیان نفرتوں کی خلیج اوررقابتوں کی دیواریںحائل نہیں ہوسکتیں……لیکن افسوس…… توقیررضاصاحب نے اپنے آباء واجداد کی روایات کو گلے لگاتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ تعمیر ملت کاہمارے نزدیک کوئی مقام نہیں ہے ،ہمیں تفریق ملت اورتخریب امت کاسبق ملا ہے اس لئے اتحاد امت اورایک اسٹیج پر جمع ہونے کی ہم سے توقعات رکھنا فضول ہیں ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
بریلویت کے بنیادی عقائد اورمسائل میںکوئی فرق نہیں ہے ان کامسلک بھی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے، اللہ تعالیٰ کی الوہیت ،وحدانیت اوراس کی شا ن یکتائی وکبریائی کے وہ بھی قائل ہیںحضورسرورکونین ﷺ کی نبوت ورسالت اورانبیاء معصومین نیزصحابہ کرام ؓ کی عظمت وبزرگی اوران سے محبت کے وہ بھی دعویدارہیں ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کومانتے اوران کے مسلک پر عمل کرتے ہیں،حضرت امام ابوالحسن اشعری ؒ اورحضرت امام ابومنصورماتریدی ؒ کو بھی اپنا امام ومقتدیٰ سمجھتے ہیں،تصوف کے چاروں سلسلوں قادری ،نقشبندی،چشتی اورسہروردی میںبیعت کرتے اوربیعت کراتے ہیں ،ائمہ مجتہدین اوراولیاء کرام سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔
ان تمام صفات کے باوجود بانی بریلویت مولانا احمد رضاخان علماء دیوبند اورعلماء حقانی کے کیوں مخالف ہوئے ؟اس کا جواب صرف یہ ہے کہ انگریزی سرکار کی ’’مراعات ونوازشات ‘‘کے لئے ،اورظاہر ہے کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔
مولانا موصوف نے نوازشات کے حصول کیلئے امت مسلمہ میںاپنا وقار واعتبارکھودیا اوراختلافات کو بڑھانے کے لئے (تاکہ حکومت راضی وخوش رہے ) حق گو،حق پسند اورآزادیٔ ہند کی آواز اٹھانے والوں پر کچھ بے جا الزامات لگاکراپنی ڈیڑھ اینٹ کی دیوارکھڑی کی ،انگریزیہی چاہتے تھے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسی زمانہ میں پنجاب سے مرزا غلام احمدقادیانی کو’’انگریزی نبی‘‘بناکر قوم کے سامنے پیش کیا ،جو بالکل سادہ لوح اورمخلص حضرات تھے اورانہیں شیطانی تلبیسات کاعلم نہیں تھا وہ قادیانیت کے ہم نوا ہوکرغیرمسلم ہوگئے اورجو کم پڑھے لکھے تھے قدیم جاہلی رسوم ورواج کے خو گر تھے ان کو مولانااحمدرضا خان نے اپنے دامن فریب میں پھنسالیا، اس طرح صلیبی وابلیسی دونوں طبقات نے بڑا فائدہ اٹھایااور ع
کھو گئی ملت بیضا کی آبرو
بہرحال ’’جدید مسلم پرسنل لاء ‘‘کے قیام سے اصل مسلم پرسنل لاء پرانشاء اللہ کوئی حرف نہیں آئے گا کیونکہ اس کی جڑوں میں ہمارے اسلاف کاخون جگر اوران کی دعاؤں کا لعل وگہرشامل ہے ،یہ ملت اسلامیہ کا اجتماعی اوراتفاقی اسٹیج ہے جہاںتنگ نظری پر وسعت نظری کوفوقیت حاصل ہے ،جہاں مختلف مسلک ومشرب کے سرکردہ حضرات شیر وشکرہوکر ملت اسلامیہ کے لئے لائحہ عمل طے فرماتے ہیں اورپوری دنیا کے مسلمانوں میں اس کاایک وقار واعتبارقائم ہے ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ملت اسلامیہ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتی!

ملت اسلامیہ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتی!
ناصرالدین مظاہری
جس دورمیں ہم لوگ سانس لے رہے ہیں اس کو مختصرلفظوں میں ’’دورقحط الرجال ‘‘کہاجاسکتاہے ،کوئی مجلس ، کوئی جماعت،کوئی تنظیم ،کوئی ادارہ اور کوئی سوسائٹی ایسی نہیں ہے جس کو کام کے افرادکی کمی کااحساس اور شکوہ نہ ہو۔
اگرغائرانہ نظرڈالی جائے تو اس احساس کے شاکی ،افرادکی کمی کے لئے شکوہ سنج اورکام کے افرادنہ ملنے کی شکایت سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہے اور یہ بھی ناقابل انکارسچائی ہے کہ سب سے کم شکوہ یہودیوں کوہے۔
پوری دنیاکے کل یہودی آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہیں،لیکن ان کی سوچ،فکرونظرکی وسعت، منصوبہ بندی ،اتحادویک جہتی اورایک دوسرے کیلئے ہمدردی ومروت کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ پوری دنیامیں اگرکہیں بھی کسی یہودی مفادات یایہودی شخص کسی بھی ناگہانی آفت سے دوچار ہوتاہے تو ( صرف ۶۰؍سال قبل وجودمیں آنے والا) غاصب وقابض ملک اسرائیل اپنے تمام تروسائل اورذرائع کا استعمال کرکے اس کاپائدارحل تلاش کرلیتاہے،لیکن مسلمان حکومتیں،بااقتدارشخصیتیں اور بااثرمسلمان دنیاکے کسی بھی ملک اورخطہ کے مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی مشکل کاحل تلاش کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کی اپنی ستاون حکومتیں ہیں،ان کے اپنے مالیاتی ذخائراور معدنیاتی خزینے ہیں ،تیل،گیس،پیٹرول،سونے اورچاندی کے معادن انھیں کے پاس ہیں،دنیاکی سب سے بڑی مجموعی فوجی طاقت بھی مسلمانوں کے پاس ہے،دنیاکے اہم راستے،ہوائی اور زمینی گزرگاہیں بھی مسلمانوں کے پاس ہیںلیکن ان سب کے باوجودہماراکوئی وجوداورسالمی سوسائٹی میں ہماراکوئی شمارنہیں ہے…آخراس کی وجہ کیاہے…؟
وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے مسلمان ہونے کے احساس کوکھودیاہے،ایک مؤمن کیلئے سب سے بڑاجوسرمایہ ہوتاہے اس سرمایہ سے ہم دست بردارہوگئے ہیں،ہمارے پاس اڑنے کیلئے جودست وبازوتھے، پروازکیلئے جوفضائیں تھیں ان سب پر غیروں نے قبضہ جمالیااورہم اسی خوش فہمی کاشکاربنے رہے کہ سب کچھ ہمارے پاس ہے،ہم نے حالات کا رونارونے کو فرض منصبی تصورکرلیا،اسلام اور مسلمانوں پرجبروتشددکومسلم حکومتوں کے سرتھوپ کرخاموش ہوگئے ،معاش ومعادکے معاملہ میں اللہ پرتکیہ کرنے کے بجائے عالمی اورسوئس بینکوں پربھروسہ کربیٹھے،اپنی جماعت اور جمعیت کومتحدکرنے کے بجائے ہم خوداغیارکی جماعت کارُکن بن گئے،اپنی دنیاآپ پیداکرنے کے بجائے دوسروں کے رحم وکرم پراپنی زندگی گزارنے کودانائی اور حکمت عملی سمجھ بیٹھے ،نتیجہ یہ ہواکہ ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لئے اجنبی،ناکارہ اورعضومعطل تصورکئے جانے لگے،پروازکے لئے ہزاروں وسعتیں ،فضائیں اورآسمان ہونے کے باوجودہماراعرصہ حیات ہم پر تنگ ہوگیا۔
آج دنیامیں ہراہم معاشی نظام پریہودیوں کا قبضہ ہے،پوری دنیاکاسب سے طاقتورادارہ میڈیا یہودیوں کے قبضہ میں ہے،پوری دنیاکاسب سے مالدارعالمی بینک یہودیوں کاہے،امریکہ کے سرکاری یانیم سرکاری ہربڑے شعبہ کی سربراہی یہودی کرتاہے،امریکی جاسوسی نظام سے لے کردنیاکے ترقی پذیراورترقی یافتہ ملکوں کے فوجی نظام کویہودیوں کے مشاق تربیت یافتہ فوجیوں سے ٹریننگ مل رہی ہے۔
یہودیوں کودنیاکے مذکورہ کلیدی شعبہ جات پرمکمل گرفت کی وجہ کیاہے؟وجہ جاننے کے لئے تاریخ کے صفحات کوپلٹناہوگا۔
۵۸۶ قبل مسیح میں بخت نصرنے یہودیوں کاقتل عام کرایاتھا،۱۲۹۰ء میں برطانوی حکومت نے برطانیہ سے یہودیوں کونکال باہرکیا،۱۳۹۴ء میں فرانس میں یہودیوں کاقتل عام اورجلاوطنی ہوئی،۱۳مارچ ۱۴۹۲ء میں اسپین کی سرزمین بھی یہودیوں کیلئے تنگ ہوگئی اوروہاں سے بھی یہودیوں کوجلاوطن ہوناپڑا،۱۵۴۰ء میں نابولی (اٹلی) میں یہودیوں کوبے تحاشہ مارااورجلاوطن کیاگیا۔
مشہورعیسائی ظالم حکمراں ہٹلرکوبھی یہودی خباثتوں اورچیرہ دستیوں کابخوبی علم تھا،اس نے محسوس کیاکہ روئے زمین پراس قوم سے زیادہ مفسد،فتنہ پرداز،عیارومکاراورظالم وجابرکوئی اور قوم نہیں ہے چنانچہ ہٹلرنے یہودیوں کی ایک بڑی جمعیت کوجولاکھوں پرمشتمل تھی بے دریغ قتل کرادیا یہ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان کی بات ہے۔
جلاوطنی،نقل مکانی اورقتل عام کے یہ تمام واقعات عیسائی ملکوں اور عیسائی قوموں کے ذریعہ وجودمیں آئے جب کہ مسلمانوں نے یہودیوں کو ہرزمانہ میں بہت زیادہ مراعات دیں چنانچہ اسپین میں مسلمانوں نے جومراعات دے رکھی تھیں ان پرمستقل ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن یہودی ہمیشہ اپنے محسنوں کے لئے مارآستین ثابت ہوئے ہیں جس کا خمیازہ آج ہم مسلمان فلسطین میں بھگت رہے ہیں۔
اِن مسلسل قتل عام سے بچ جانے والے مٹھی بھریہودی اپنی جان بچاتے اور دم دباتے دنیاکے طول وعرض میں بھاگتے پھرے،انھیں نہ تو کہیں جائے قرارمل سکی اور نہ ہی راہ فرارمیسرآسکی،لیکن جویہودی جہاں بھی تھا آپس میں ایک دوسرے سے مربوط رہانتیجہ کے طورپر۱۸۹۷ء میں سوئزرلینڈکے شہرباسل میں ۳۰۰؍اہم یہودی رہنماجمع ہوئے اورپوری دنیاکو اپنی مٹھی میں لینے کادستورالعمل طے کیا،اس دستورکوعام اصطلاح میں ’’یہودی پروٹوکول‘‘ کہاجاتا ہے۔چنانچہ اس پروٹوکول کے مطابق کام شروع ہوا،منصوبہ بندی،حکمت علمی،رازداری جوکسی بھی مقصدکوپانے میں کلیدکی حیثیت رکھتی ہے اس کو ہمہ وقت پیش نظررکھاگیااوراس رزلٹ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ۔(اقوام متحدہ بھی یہودی مفادات کے تحفظ کیلئے قائم ہواہے جس کے تمام اہم شعبہ جات یہودیوں کے پاس ہیں :تفصیل کے لئے دیکھئے ’’یہودی خباثتیں‘‘)
یہودیوں نے اپنی شکست کابدلہ کتنی حکمت اورتدبیرسے لیاکہ دوسری تمام قومیں ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘کامصداق بن گئیں۔لیکن مسلمان جوہردورمیں ظلم کا شکارہوا…ہرعہدمیں اس پر غیروں نے شکنجہ کسا…ہرظالم حکمراں نے گاجرمولی کی طرح کاٹا…ہرنزلہ مسلمانوں کی گردنوں پرگرا…لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدارنہیں ہوا…ہم اپنے کرداروعمل سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے بجائے خودہی مرعوب ہوگئے۔
ایک بارحضرت خالدبن عبدالرحمن بغدادآئے توابوجعفرمنصوربغدادی نے آپ سے پوچھاکہ آپ تو خلفاء بنوامیہ میں تشریف لاتے رہے ہیں بتائیے کہ ان کے اورمیرے دورحکومت میں کیافرق ہے اورآپ نے راستے میں مختلف صوبوں کے عاملین کو کیساپایا؟
حضرت خالدؒنے برجستہ فرمایاکہ میں نے تمہارے عاملین(افسران )کودیکھاجن کے مظالم کی انتہانہیں ہے ،حالانکہ بنوامیہ کے عہدمیں کوئی ظلم نہیں تھا۔
منصورعباسی نے یہ جچاتلااور حق جواب سن کرندامت کے احساس سے گردن جھکالی اورکچھ دیرکے بعدسراٹھایااورگویاہواکہ اچھے عمال(افسران)نہیں ملتے،ہم کیاکریں؟
حضرت خالدؒنے فرمایاکہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒفرمایاکرتے تھے کہ حاکم کی مثال ایک بازارکی سی ہے جس میں وہی مال آتاہے جواس میں چلتاہے،اگروہ نیک ہوتاہے تومقربین اس کے پاس نیک لوگوں کو لاتے ہیں اور اگر وہ بدکارہوتاہے تومقربین اس کی خدمت میں بدکاروں کو پیش کرتے ہیں۔ (حکایات عزیمت ص ۲۸)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادعالی اعْمَالُکُم عُمَّالکم (جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارے حکمراں )اپنی جگہ بالکل برحق ہے،ہمارے اعمال کی نحوست سے حکمراں متعین ہوتے ہیں’’شامت اعمالِ ماصورت نادرگرفت‘‘ایک مسلم اصول ہے۔
اگرکسی شخص کوپرکھناہوتواس کیلئے سب سے اہم نکتہ ہمارے اکابرنے یہ فرمایاہے کہ اس کے مصاحبین اورمجلس نشین پرنظرکرو،اگرمجلس میں عارفین کی آمدزیادہ ہے تو ایسا شخص اپنے وقت کا عارف ہوگا،اگراس کی مجلس میں علماء اور اہل علم کی کثرت سے آمد ہوتی رہتی ہے تو ایسا شخص نیک اور صالح عالم ہوگا،اہل علم کی مجلس میں زرداوں اوردنیاداروں کی آمدزیادہ ہوتی ہوتو ایساشخص عالم دین نہیں عالم دنیاہوگا۔جوعالم مالداروں کے پاس آتاجاتاہواس سے دوررہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اللہ کی خوب خوب رحمتیں نازل ہوں حضرت فقیہ الاسلام مولانامفتی مظفرحسین ؒکی قبرمبارک پر،میں نے خود دیکھاہے کہ آپ کی مجلس میں کباراہل علم ،عارفین ،کاملین اور مخلصین کی بکثرت آمدہوتی تھی،آپ کی مجلس غیبت،جھوٹ،چغل خوری اوردنیاداری کی باتوں سے خالی رہتی تھی،لوگ خالی ہاتھ آتے تھے اوردامن مراد بھرکرجاتے تھے ،آپ کی مجلس میں بیٹھ کرطمانینت قلبی کاحصول ہوتاتھا،لوگ دعاؤں کی درخواست لے کرحاضر ہوتے اور خوش وخرم واپس جاتے تھے، رفق ونرمی،مروت ومحبت اورشفقت وعنایت کے دریاآپ کی ذات سے بہتے محسوس ہوتے تھے ۔
آپ ؒکی خدمت میں بمبئی شہرکے کچھ مخیرحضرات حاضر ہوئے اور خصوصی مجلس میں عرض کیاکہ حضرت آج کام کے افرادکیوں پیدانہیں ہورہے ہیں؟حضرت نے فرمایاکہ کام کے افراداس لئے پیدانہیں ہورہے ہیں کہ آپ لوگوں نے چندہ کے نام پر زکوٰۃ دینے کا معمول بنالیاہے،زکوٰۃ کومال کامیل کہاگیاہے،ظاہرہے مال کا میل کھاکردلوں میں تازگی،ذہن وفکرمیں نورانیت پیدانہیں ہوتی ،نورانیت تو آپ کی امدادسے پیداہوسکتی ہے جس سے آج کے مدارس محروم ہیں،دوسری طرف مدارس نے زیادہ سے زیادہ طلبہ کوداخل کرناشروع کردیاکیونکہ آپ لوگوں نے ایک معمول بنالیاکہ جہاں طلبہ زیادہ ہوں گے وہاں چندہ زیادہ دیں گے نتیجہ یہ ہواکہ طلبہ پر جو محنت ہونی چاہئے تھی ہمارے طلبہ اس سے محروم ہوگئے۔
دسمبر۲۰۰۹ء میں ایک ادارہ کے ذمہ دارکی دردمندانہ تحریرپڑھنے کوملی کہ
’’رمضان المبارک سے قبل کئی حضرات کو اورمدارس کے بڑے ذمہ داران کو عرض کررکھاتھاکہ کوئی اچھاقاری اگرمل جائے تو اس کوبھیج دیجئے!مگرابھی تک نہیں مل سکاہے،اسی طرح ایک فاضل یاعالم کے لئے کئی بڑے اساتذہ اوربڑے ذمہ داران سے اوربعض اپنے بے تکلف دوستوں سے گزارش کی کہ کوئی اچھاعالم دیدیجئے مگرتقریباًسب کا ایک ہی جواب ہے کہ’’ آدمی نہیں‘‘(نقوش اسلام ماہ نومبردسمبر۲۰۰۹ئ:مولانامحمدمسعودعزیزی ندوی)
کام کے آدمی نہ ملنے کا شکوہ ،وہ بھی ’’خیرامت ‘‘میں کس قدرافسوسناک ہے ،ہندوستان میں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق کل ۲۹ہزار۷۸مدارس ہیں اگرہرمدرسہ سے سال میں صرف ایک قاری اورایک عالم پیدا ہوجائے تو ۲۹ہزار۷۸قراء اور ۲۹ہزار۷۸علماء ہوجائیں گے۔اس حساب سے صرف دس سال میں ایک لاکھ نوے ہزارسات سواسی (۱۹۰۷۸۰)علماء اور قراء ہمارے درمیان اپنی شاندارلیاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ موجودہوں گے۔
غیرسرکاری اعدادوشمارکے مطابق ہندوستان میں ۳۵؍کروڑمسلمان ہیں ،اگرفی صدمسلمانوں پر ایک کام کاآدمی تیارہوجائے تو ۳۵؍لاکھ کام کے افرادہمارے درمیان ہوسکتے ہیں،اس سے بھی زیادہ وسعت سے کام لیاجائے اورفی ہزار مسلمانوں پر ایک ہی کام کافردمان لیاجائے تب بھی یہ تعداد۳؍لاکھ پچاس ہزارہوجائے گی جوظاہرہے کہ ایک بڑے ملک کو چلانے اور کسی بھی نظام عمل کوسنبھالنے کی کفیل ہوسکتی ہے۔
ایک عیسائی ملک میں یہودیوں کی اہم کتاب’’تلمود‘‘پرپابندی لگائی گئی تو یہودیوں نے اپنے بچوں کو تلمودکوحفظ کراناشروع کردیا۔
چندسال پہلے یوپی کی حکومت نے اردوٹیچروںکی تقرریاں شروع کیں تواس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت سے کافرمطلق نے اردوداں اوراردواداروں سے رجوع کیاکہ انھیں اردوسکھادی جائے تاکہ اردو ٹیچرس میں ان کا بھی نام آسکے۔
حج بیت اللہ جوخالص اسلامی شعارہے لیکن کس قدرتعجب کی بات ہے کہ ہندوستان میں حج کے امور کا سب سے کلیدی عہدہ غیرمسلم کے پاس ہوتاہے۔
اسی طرح ہندوستان میں اوقاف کی اہم حیثیت ہے اور تیسرے نمبرپرسب سے بڑی جائداداوقاف کی ہے لیکن مجموعی طورپران کی دیکھ ریکھ کے لئے کلیدی عہدہ غیروں کے پاس ہے۔
ہندوستان میں سِکھ شایدسب سے کم ہیں لیکن طاقت اورروزگارکے اعتبارسے سب سے آگے ہیں، خودیوپی میں اہم سرکاری اداروں پرجوحکمراں مسلط ہیں ان کو دیکھ کرقول رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ زبان پر آجاتاہے وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان(تم دیکھوگے کہ ننگے پیر اورننگے سر،بکریاں چرانے والے اونچی اونچی بلڈنگوں میں ڈینگیں ماریں گے )
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے چھوٹوں کوآگے بڑھائیں، نئے دماغوں ،نئے چہروں اورنئے عزم وارادوں سے لیس نئی نسل کوکام کے بہترسے بہترطریقے بتلائیں اوران کو دین کا سچاخادم بنائیں، دینی مدارس کی روح کوبرقراررکھیں،وہاں زیرتعلیم طلبہ کی تعلیم وتربیت پر ایسی توجہ اوردلچسپی لیں جواپنے بچوں کے سلسلہ میں لیتے ہیں۔
افرادسازی کی ایسی فیکٹریوں کو وجودبخشیں جس سے کبھی کوئی خام مال پیدانہ ہو،دین کودین کے سچے خادم ہروقت اورہمہ وقت مل سکیں اورپھر قوم کایہ دکھڑا اوررونابھی دورہوجائے کہ قحط الرجال کازمانہ ہے،افرادسازی نہیں ہورہی ہے،رازی اورغزالی پیدانہیں ہورہے ہیں،عوام کو ان کی توقعات کے مطابق علمائ،حفاظ،قرا،دعاۃ اورمبلغین ومقررین نہیں مل پارہے ہیں۔
جو بات مناسب ہے وہ حاصل نہیں کرتے
جو اپنی گرہ میں ہے اسے کھو بھی رہے ہیں
بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
وائے نادانی! کہ تو محتاج ساقی ہوگیا

وائے نادانی! کہ تو محتاج ساقی ہوگیا
مفتی ناصرالدین مظاہری
’’دنیا بھر میں روزانہ پانچ سو سے زائد افراد اسلام قبول کررہے ہیں ،ایک پاکستانی ویب سائٹ نے ایک رپورٹ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ۱۱؍ستمبرکے حادثہ کے پس منظر میں مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی طرف سے اسلام کوخونخواراور تشددپسندمذہب ثابت کرنے کیلئے زبر دست پروپیگنڈا کیا گیا اور تہدیبی تصادم کی تھیوری کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی جس کا عوام پر الٹااثر ہوا اور ان کے اندراسلام کے بارے میں جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا اور اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہورہے ہیں خاص طورسے امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعدادزیادہ ہے اور ان میں بھی عورتیں اسلام سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہی دنیا کاواحد مذہب ہے جس نے عورتوں کا بھرپورتحفظ کیا ہے اور انہیں مکمل حقوق فراہم کئے ہیں ،رپورٹ کے مطابق اسلام کے بارے میںجتنا منفی پروپیگنڈہ کیا گیا اسلام کا دائرہ اتنا ہی وسیع تر ہوتا گیا ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کے عوام جو فطری طورپرمذہب پسند رہے ہیں ان میں سے بڑی تعداددین کی طرف پلٹ رہی ہے اور دین حق کے طورپران کی پہلی پسند اسلام ہے جس سے عیسائی حلقوں میں زبردست تشویش پیدا ہوگئی ہے ۔‘‘
یہ اور اس قسم کی متعددخبریں آئے دن اخبارات ،رسائل اور میڈیا کے ذریعہ عوا م کے درمیان پہنچتی رہتی ہیں اس سلسلہ میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کی مخالفت اول دن سے ہی کی جاتی رہی ہے لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعداس کی مخالفت میںبین الاقوامی شدت آئی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا بالخصوص یورپ میںاسلام بڑی تیز رفتاری کے ساتھ پھیلا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ دہریت ،لادینیت اور مادیت کی مکمل ناکامی نے یورپ میں اسلام کی قوت اورقدر وقیمت بڑھادی ہو ،یہ تصورہی غلط ہے ،یورپ کل کی طرح آج بھی مختلف فکری وعملی فتنوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے ،شدید نوعیت کی مذہبی جنگ تنگ نظری ،صنم پرستی ،ابلیس پرستی حتی کہ جادو ٹونے میں بھی یہ معاشرہ مبتلا رہا ہے ،عقل پرستی اور تعلیم کے عموم کے باوجود ملغوبہ قسم کے عقائدیورپ کے ’’مہذب جنگل ‘‘میںپنپتے رہے ہیںاس کے باوجود پوری دنیا میں اور خاص طورپر یورپ اور امریکہ میںاسلام کے پھیلاؤ کا تناسب سے زیادہ ہے ۔
قبول اسلام کی فہرست میں عورتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ تہذیب اور وہ تمدن جو آزادیٔ نسواں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں سب سے آگے ہے وہاں صنف نازک میںقبول اسلام کا تناسب قابل رشک حد تک بڑھا ہوا ہے ۔
صرف تبلیغی جماعت دنیا کے تقریباً ایک سو بیس ممالک میںدعوتی خدمات انجام دے رہی ہے ،محتاط اندازہ کے مطابق فرانس میں ۴۵لاکھ ،انگلستان میں ۲۰؍لاکھ ،جرمنی میں ۱۵؍لاکھ اورامریکہ میں ۸۰؍لاکھ مسلمان موجود ہیں ،امریکہ میں ایک ہزار سے زائد مساجدتین سوسے زائداسلامی مراکزاور ڈیڑھ سو سے زائد دینی مدارس مصروف کارہیں جب کہ دیگر دعوتی اورفعال دینی جماعتوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے ، امریکی معاشرہ میں ہر سال۱۱؍ہزار افراددامن اسلام سے وابستہ ہوجاتے ہیں جن میں سے %۶۸خواتین ہوتی ہیںاب اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ واشنگٹن ،لندن ، پیرس ، روم ، ویانا ،لزبن ،نیویارک ،لاس اینجلس ،زغرب ہرجگہ اور ہرشہرمیںمسلمانوں کی نہ صرف شاندار مساجد آباد ہیں بلکہ دینی اور دعوتی مراکز، ان کابہترین لٹریچراور ویب سائٹ وغیرہ بھی موجود ہیں ۔
جدید تمدن نے عورت کو سب کچھ دیا، عالی شان مکان ،مکمل آزادی وخود مختاری ،بہترین ملبوسات ،معیاری غذا،شاندار گاڑیاں ،نئی تعلیم ،سیکولراور خالص دنیاداری پر مبنی تربیت اور غیر معمولی عیش وعشرت کے باوجود حقیقی سکون ،حقیقی خوشی اور حقیقی زندگی سے یکسر محروم ہے ،انہیں یورپی تہذیب میں’’وفا کے بندے ‘‘تو نہیں ملتے لیکن عیاش اور ہوس پرست’’جفا کے بندے ‘‘چاروں طرف نظر آتے ہیں ،یورپی تہذیب کایہ سب سے بڑا دیوالیہ پن ہے کہ آ ج وہاں انسانی قدریں پامال ہوچکی ہیں ،رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہے ،دولت ،عیاشی اور شراب ونشہ کی عادتوںنے انہیں خود اپنے آپ سے دور کردیا ہے ،انہیں جو تعلیم دی گئی ہے ،جس اندازمیں ان کی تربیت ہوئی ہے ،وہ نیکی وبدی ،حق اورباطل ،صحیح اورغلط اور حسن وبدصورتی میں امتیاز کرنے سے عاجز وقاصر ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ کے غلاظت خانہ میں اگر کسی کو سکون کی تلاش ہوتی ہے یا حقیقی خوشی ومسرت کے حصول کی ضرورت پڑتی ہے ،تووہ دیگر ادیان ومذاہب کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ صداقت دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے کے بعد انسان کوحقیقی روحانی سکون بھی ملتا ہے ،ذہنی سطحیت اور چھچھورپن سے نہ صرف نجات ملتی ہے بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ اور سیرت نبوی سے لگاؤ کے باعث ان کی کایا پلٹ جاتی ہے ۔
اسلام کا یہ سب سے بڑامعجزہ ہے کہ اس نے چودہ سو سال کے قلیل عرصہ میںپوری دنیاکو مہذب معاشرہ اور مہذب تعلیمات پہنچانے میںحیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ،دنیا کی ساری توجہات اور اس کی مکمل کوششیںاس پر صرف ہورہی ہیں کہ چاند پر کیسے پہنچا جائے ،مریخ پرقبضہ کس طرح ممکن ہے ،سورج کی شعاؤں کو کس طرح گرفتار کیا جاسکتا ہے ،آسمان پر کیاکیاچیزیںہیں ،زمین کی کھدائی ،آثار قدیمہ کی تلاش وجستجو ،نئی نئی تحقیقات وتدقیقات ،عجیب وغریب دریافتیںاور نہ جانے کن واہیات اور خرافات میںیورپ مغزماری کررہا ہے ،حالانکہ انہیں یہ ساری چیزیں قرآن کریم میں مل سکتی ہیں محض اس کی تلاش وجستجو کیلئے اسی کے مطابق عقل ،فکر اورہماراایمان ویقین ہونا ضروری ہے ۔
گذشتہ سال پوری دنیا میںیہ خبرگشت کرتی رہی کہ برطانوی شہزادہ چارلس خفیہ طورپرنماز پڑھتے ہیںاوران کا رجحان مسلمانوں کی طرف بڑھا ہوا ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ شر ط بھی لگادی ہے کہ ان کی تاج پوشی کے موقع پردیگر ادیان ومذاہب کے ساتھ ساتھ اسلامی نمائندوں کی موجودگی بھی ضروری ہے ۔
روسی جاسوس’’ الگزینڈر‘‘ جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی ساری توانائیاںصرف کردیں لیکن جب اللہ رب العزت نے انہیں اپنے اندرون کی جاسوسی کاموقع دیا تو انہوں نے اس حقیقت کو دریافت کرلیا کہ اب تک وہ جس مذہب کے پیروکاررہے ہیں وہ مذہب سر ے سے غلط ہے ،حقیقی زندگی اور حقیقی خوشی ومسرت اورامن وسکون اسلام کے دامن میںپناہ لینے میں ہے چنانچہ انہوں نے کسی چیچن مجاہدسے کہا تھا کہ اس کی تدفین اسلامی طرز پر ہونی چاہیے ۔
’’الگزینڈر‘‘کو اپنے ہی ملک اور اپنے ہی وفاداروں سے اپنی جان کا خطرہ تھا اس لئے وہ برطانیہ فرار ہوگئے تھے لیکن عیارومکارروسی درندوں نے خفیہ طورپراپنے دو نمک خواروں کے ذریعہ برطانیہ کے ایک ہوٹل میں ’’الگزینڈر‘‘ کوزہر دلوادیا جس کے باعث کچھ ہی دنوں میں ان کی موت ہوگئی اور رپورٹ سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ’’الگزینڈر‘‘ کو ایسا زہر دیا گیا تھا جس کے نتائج کچھ دنو ں میں سامنے آتے ہیں چنانچہ کچھ ہی دنوں میں ’’الگزینڈر‘‘ اس دنیا سے کوچ کرگئے اوران کی وصیت کے مطابق لندن کے ایک قبرستان میںاسلامی طرز کے مطابق ان کی تدفین عمل میں آئی ۔
اسلام کی خوبیاںاب بھی من وعن وہی ہیں جو اب سے چودہ سو سال پہلے تھیںاس کی تاثیر میں حبہ برابر کوئی فرق نہیں آیا ہے لیکن مسلمانوں میں حیرت انگیزتبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں اسوقت کے مسلمان اورآج کے مسلمان میںزمین آسمان کا فرق ہے ،آج مسلمانوں میں داعیانہ صفات عنقاء ہوتی چلی جارہی ہیں محض نسلی اور پشتینی مسلمان بن چکے ہیں حالانکہ اگر ہمارے اندراسلام کی تبلیغ اور ترویج واشاعت کی صفات موجود رہتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکاجاسکے ۔
امریکہ کی نومسلمہ محترمہ عالیہ (سٹرلنگ )کے بقول
’’امریکہ اوریورپ میںآج لاکھوں مسلمان مقیم ہیں انہیں عملی طورپر اسلام کاچلتا پھرتا اسلامی نمونہ بن جانا چاہیے ان کی یہ تعمیری روش ہی یورپ اور امریکہ میں اسلام کے بارے میں ساری غلط فہمیوںکو بھی دور کرے گی اور اسلامی تبلیغ کا مؤثرذریعہ بن جائے گی ‘‘۔(ہمیں خدا کیسے ملا)
وشوہندو پریشد کے صدراشوک سنگھل کابیان اجودھیاسے نکلنے والے ایک ہندی پرچے میں شائع ہوا تھا کہ
’’مسلمان ہم لوگوں کو کافر کیوں کہتے ہیں،کافر تو ان کو کہاجاتا ہے جو انکار کرنے والے ہو ںانہوں نے ہم پر کیا پیش کیا ہے جو ہم نے انکار کیا ہو ‘‘۔ (ارمغان دعوت ص ۱۰۴)
ایک نومسلم نے ایک داعی سے روکر کہا
’’جب میں سوچتا ہوں کہ میرے ماں باپ دوزخ میں جل رہے ہوں گے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں مسلمانوں کو نوچ کر کھاجاؤں ،کا ش وہ ان تک دین کو پہنچادیتے ۔‘‘(ارمغان دعوت ص ۱۰۴)
رائے ونڈکے اجتماع میںایک نومسلم مبلغ کوشرکت کی دعوت دی گئی انہوں نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے ’’یَا اَیُّھَا الظَّالِمُوْنَ‘‘سے بات شروع کی ۔
مسلمانوں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کو محبت سے بلایا ہے ،اسلام کی دعوت دی ہے پھربھی آپ ہمیںظالم کہتے ہیں، انہوں نے کہاکہ بے شک آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی مگر آپ اپنے ظلم پر غور کیجئے ، میرے باپ مجھ سے زیادہ شریف تھے اور اسلام کو پسند کرتے تھے اور بہت زیادہ قابل تھے کہ اسلام قبول کریںمگر آپ نے اسلام کا تعارف ان سے نہیں کرایا اور وہ بیچارے محروم اس دنیا سے چلے گئے میرے وہ شریف اورمحسن والدین جنہوں نے مجھے پالا پوسااور کس کس طرح میری پرورش کی ،آج دوزخ میں جل رہے ہوں گے کیا آپ نے ٹھنڈے کلیجے سے سوچا ان کو کس قدر تکلیف ہوگی صرف تمہاری کاہلی کی وجہ سے اور تمہاری اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے کی وجہ سے ‘‘۔
وہ لوگ جو نسلی مسلمان ہیں ان کیلئے یہ چیزیں غوروفکرکی دعوت دیتی ہیںکہ انہوں نے اسلامی مطالبات اور تقاضو ں کو کہاں تک پورا کیا ہے یہ کتنا آسان کام ہے کہ اپنی غلطیاںاوراپنی خامیاںہم دوسروں کے سر تھوپ دیتے ہیں مگریہ کس کی غلطی ہے کہ لاکھوں کروڑو ں افرا د جن کا دل ودماغ اور فکروضمیراس قابل تھا کہ اگر انہیں اسلام کی تعلیمات بتائی جاتیں ،اسلامی تقاضے بتلائے جاتے ،قرآن کریم کے مطالبات سمجھائے جاتے ،رسول ا کااسوۂ مبارک ان کے سامنے پیش کرتے اور ان سے عاجزانہ التماس کرتے کہ وہ اس تاریک دنیاکوآخری دنیا نہ سمجھ کر اس دنیا کے لئے زاد سفر تیار کرلیں جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور اس کے بعد کوئی موت نہیں ہے تو کیا عجب تھا کہ کُل نہ سہی ، بعض افرادتو اسلام قبول کرہی لیتے اور جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جاتے ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں
’’ملاء اعلیٰ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرآگے چل کر کسی وقت قوت وشوکت او ر اقتدار وحکومت یہاںکی قدیم اکثریت کے ہاتھ میں آگئی تو کچھ بعیدنہیں ہے کہ توفیق الٰہی ان باشندگانِ ہندکو ہدایت عطا فرمائے اور یہ راہِ حق پر آجائیں لیکن اس پیشین گوئی یا اشارۂ غیبی کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ ان کا یہ قبول حق خود ان کی محض استعداد قبولیت حق کا نتیجہ ہو گا یا اس میں کچھ دخل اس امت اجابت کی سعی وکوشش کا بھی رہے گا جو ہزار برس سے ان بندگانِ خدا کے پہلوبہ پہلو رہ رہی ہے مگر اس طویل مدت میںوہ اس حق کی حقانیت کو اپنے قول وعمل سے اپنے ہمسایوں پر یہ واضح نہ کرسکی جس حق نے ان کوچودہ سو برس پہلے امت دعوت سے امت اجابت میں داخل ہونے کی سعادت بخشی تھی یا خدا نخواستہ ان ہمسایوںکی تبدیلیٔ فکر وعقیدہ اس آیت کامصداق نہ بن جائے وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْا اَمْثَالُکُمْ (اور اگرتم پھرجاؤ گے تو بدل ڈالے گااورلوگ تمہارے سوا،پھر وہ نہ ہوںگے تمہاری طرح کے (پ ۲۶ سورہ محمد۳۸)۔
کسی بزرگ کا مقولہ ہے
’’ولی ہونے کاایک آسان نسخہ ہے کہ جب کسی غیر مسلم کاانتقال ہوتو اس پر دل کھول کرروؤ،آنسوبہاؤ ، یہ سوچ کرکہ کاش ہم اس کودین کی دعوت دیتے تو آج یہ مسلمان ہوتا اور آنے والے کل جہنم میں جانے کے بجائے جنت کی حقیقی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ‘‘۔
ہمارا قول ہمارے فعل سے متصادم ہے ،ہمارا دل ہماری زبان کے مخالف ہے ،ہمارا فکرہمارے طرز زندگی سے متضادہے ،ان تضادا ت نے ملت اسلامیہ کوجونقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کسی طورنہیں ہوسکتی ،کسی عارف سے پوچھاگیا کہ مسلمانوںکی زبانوںمیںوہ اثر کیو ں نہیں جس سے غیر مسلم متأثر ہوتے تھے ،جواب دیاگیا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَتم وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں مطلب یہی ہے کہ آج مسلمانوں کے دلوںاور زبانوں میں تضاد پیدا ہوگیا ہے ،رابطہ منقطع ہوچکا ہے ۔
علامہ رشید رضامصری نے اپنے خطاب میںبرصغیرکے مسلمانوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’اس برصغیرکی عظیم اکثریت کے سامنے یہاں کے علماء نے اسلام کو بحیثیت دین پیش کرنے کی پچھلے ایک ہزارسالہ دورمیںکماحقہ کوشش نہیں کی اس کانتیجہ ہے کہ ہزار سالہ اقتدار کے باوجودآج ہندوستانی مسلمان غیرمسلموں کے سمندرمیںایک جزیرہ اور ٹاپو کی حیثیت رکھتے ہیں ،اس وقت بھی اگر انہوں نے دعوت وتبلیغ اور اشاعت اسلام کے طریقہ کو پوری اہمیت اورقوت کے ساتھ انجام نہ دیا تو یہاںکی مسلم اقلیت کامستقبل سخت خطرہ میں ہے ،علماء کی خاص طورپر یہ ذمہ داری ہے اور وقت کا تقاضا ہے ‘‘۔
قرآن کریم نے بالکل صاف لفظوںمیںفرمایا ہے کہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اے پیغمبر!لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریقہ سے ان سے مناظرہ کرو۔
ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیمات اورقرآن کریم کے مطالبات اور تقاضوںسے سب سے پہلے خودواقف ہونا ضروری ہے اس کے بعدجن افراد،اشخاص ، ماحول اور معاشرہ میں داعیانہ خدمات انجام دینی ہیں وہاں کے مزاج سے واقفیت اورمخاطب کی رعایت ضروری ہے اس سلسلہ میں اس وقت چند ضروری اور بنیادی نکات اختیار کرنے کی ضرورت ہے مثلاً عامۃ المسلمین اوران کے تمام گروہوں میں ایمان کی قوت کو بیدار کرنا ،مذہبی حقائق ،دینی تصورات کوتحریف اور عصر حاضر کے مغربی تصورات سے محفوظ رکھنا ،سرورکائنات ا سے روحانی جذباتی اور قلبی تعلق میں پختگی پیدا کرنا ،تعلیم یافتہ طبقات بالخصوص میڈیا (چاہیے الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا) پرحاوی افراد کے درمیان اسلام کے اعتماد کو بحال کرنا اور اپنے قول وعمل اور کردار وافعال اوردلائل وبراہین سے قائل کرنا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو پوری انسانی آبادی کی قیادت کرسکتا ہے ، مغربی نظام تعلیم جو عالم اسلام میں رائج ہے ،اس کابنظرغائرجائزہ لے کر اسے ایسے قالب میں ڈھالا جائے کہ مسلم اقوام کے قدوقامت پر راست آجائے اوراسلامی عقیدہ وپیغام سے ہم آہنگ ہوکر اسلامی صفات وخصوصیات آشکارا ہوسکیںنیز مادی والحادی عناصرسے پاک ہوتاکہ کائنات کا صرف مادی تصوراس کے سامنے نہ ہو ،اسلام کو مغربی معاشرے اور تہذیب کی صحت مندی کے لئے ایک اہم علاج کے طورپرپیش کیجئے ،توحیدالٰہی کو پورے اعتمادویقین کے ساتھ مخاطب کے ذہن نشیں کیجئے ،مغربی معاشرہ کو اسلام کے خاندانی نظام کی خوبیاںبتائیے ،اسلام کے نشہ کیے سلسلہ میں کیا تعلیم دی ہے ،اس کے دوررَس فوائد سے آگاہ کیجئے ،نسل پرستی ،قومی عصبیت ،رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیادپرکسی کو کوئی تفوق حاصل نہیں ہے ،تفوق تو صرف تقویٰ پر ہے یہ بات مغربی اقوام کو سمجھائیے ،اپنے طرزوعمل سنت وشریعت کے مطابق رکھئے کہ یہی سب سے بنیادی چیز ہے ،اسلامی مفکرین ، اسلامی حکومتوں اور مسلم سوسائٹیوںکا یہ بھی فرض ہے کہ وہ باریک بینی کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسا تمدن تشکیل کریں جو مغرب کی کورانہ تقلید بغیرپلاننگ کے سرسری اقدام اوراحساس کمتری کے آثارسے یکسرپاک وصاف ہو،مغربی تہذیب وتمدن پر اسلامی چھاپ اوراسلامی تعلیمات کے گہرے نقوش ثبت کرنے کی کوشش کی جائے ،ناکارہ اور بانجھ اسلامی ممالک کے سربراہان کو اسلامی تقاضوں سے روشناس کرایا جائے اورانہیں بتایاجائے کہ وہ جس کو سیاست سمجھ رہے ہیں وہ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ،غیر مسلم ممالک میں بھی اسلام کی دعوت اوراس کا تعارف حکمت وبصیرت کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح جن ممالک میںمسلمان برائے نام ہیں ،وہاں کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے کردار، افعال ،اخلاق اورروز مرہ کے معمولات سے دوسروں پر ثابت کریں کہ وہ مسلمان ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو اسلامی کی تعلیمات نے کس طرح غیروں پرامتیاز وتفوق بخشا ہے ،ہرداعی کو بلندیٔ کردار،عزمِ جواں ،طبع جولاں اور فکررواں رکھنے کے ساتھ دوررَس طبیعت ،سلیم الطبع مزاج ،بلند حوصلگی اور اخلاق فاضلہ سے لیس ہونا ضروری ہے ،مذکورہ باتوں کے علاوہ ہر ایسی اچھائی اور خوبی جو اسلام کی نشرواشاعت کا ذریعہ بن سکتی ہو اس کو اختیار کیا جائے اور یہ تصوراپنے دل ودماغ میں بسا لیا جائے کہ اللہ کی بارگاہ میںہرشخص سے سوال کیاجائے گا کہ اس نے اپنی ذمہ داریوں کو کہاں تک نبھایا ہے ان ذمہ داریوںاور عند اللہ مسئولیت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان کمر ہمت باندھ کر اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑکر دعوتی میدان میںاترجائے ۔
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہ وَر بھی تو، رہبر بھی تو،منزل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہوگیا
مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
وقت کی قدروقیمت

وقت کی قدر وقیمت اورنبوی ہدایات
از:ناصرالدین مظاہری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الکریم امابعد!
حضرات!
میری تحریرکاموضوع ہے ’’وقت کی قدروقیمت اورنبوی ہدایات‘‘اس سلسلہ میں نہ توکسی تمہیدکی ضرورت ہے اورنہ ہی کسی تفصیل کی،اجمالاًاتناکہاجاسکتاہے کہ دنیاکے تمام ادیان ومذاہب میں سب سے زیادہ وقت کی قدروقیمت کااحساس سرکارودوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلایاہے ۔
حضرات آج کے دورمیں عام معمول یہ ہے کہ قوموں کے راہنمااپنی رعیت اوررعایاکوتونیک کاموں کاحکم کرتے ہیں،وہ اپنی قوموں اوراپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں اپنی رعیت کو جس چیزکاحکم کروں رعایالیت ولعل کے بغیراس پرعمل پیراہوجائے ،حالانکہ اکثرخودکانہ توکوئی نظام الاوقات ہوتانہ ہی کوئی معیارزندگی،لیکن آئیے میں آپ کودنیاکے سب سے اہم اورسب سے بڑے مذہب کی سب سے عظیم ذات کی خانگی اورخارجی حیات مبارکہ کی چندجھلکیاں دکھلاؤں جس کودیکھ کراورسن کرخالی الذہن انسان حیرت واستعجاب سے دوچارہوجاتاہے کہ ایک انسان نے اپنے کرداروگفتارسے کیسے اتناعظیم کارنامہ انجام دیاہے جس کی زندگی کاایک ایک لمحہ انسانوں کی فلاح وبہبودمیں کچھ ایسے صرف ہواہے کہ سمع خراشی،وقت کاضیاع،لایعنی مصروفیات کسی چیزکادوردورتک گزرنہیں تھا۔
اس موقع پرمیں نامورصاحب قلم حضرت مولاناسیدسلیمان ندویؒکی تحریرگرامی کے ایک اقتباس سے اپنی بات شروع کرناچاہوں گا۔
’’ایک ایسی زندگی جوطائفۂ انسانی کے مختلف مظاہراورہرقسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کامجموعہ ہو،صرف محمدرسول اللہ کی سیرت ہے،اگردولت مندہوتومکہ کے اوربحرین کے خزانہ دارکی تقلیدکرو،اگرغریب ہوتوشعب ابی طالب کے قیدی اورمدینہ منورہ کے مہمان کی کیفیت سنو،اگربادشاہ ہوتوسلطان عرب کاحال پڑھو،اگررعایاہوتوقریش کے محکوم کوایک نظردیکھو،اگرفاتح ہوتوحنین کے سپہ سالاروں پرنگاہ دوڑاؤ،اگرتم نے شکست کھائی ہے تومعرکہ احدسے عبرت حاصل کرو،اگرتم استاذاورمعلم ہوتوصفہ کی درسگاہ کے معلم قدس کودیکھو،اگرشاگردہوتوروح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پرنظرجماؤ،اگرواعظ اورناصح ہوتو مسجدمدینہ کے منبرپر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو،اگرتنہائی بیکسی کے عالم میں حق کی منادی کافرض انجام دیناچاہتے ہوتومکہ کے بے یارومددگارنبی کااسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے،اگرتم حق کی نصرت کے بعداپنے دشمنوں کوزیراورمخالفوں کوکمزوربناچکے ہوتوبنی نضیراورفدک کی زمینوں کے مالک کے کاروباراوراس کے نظم ونسق کودیکھو،اگریتیم ہوتوعبداللہ وآمنہ کے جگرگوشہ کونہ بھولو،اگربچے ہوتوحلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کودیکھو،اگرتم جوان ہوتومکہ کے ایک چرواہے کہ سیرت پڑھو،اگرسفری کاروبارمیں ہوتوبصریٰ کے کاروان سالارکی مثالیں ڈھونڈو،اگرعدالت کے قاضی اورپنچائتوں کے ثالث ہوتوکعبہ میں نورآفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کودیکھوجوحجراسودکوایک گوشہ میں کھڑاکررہاہے ،مدینہ کی کچی مسجدکے صحن میں بیٹھنے والے منصف کودیکھوجس کی نظرانصاف میں شاہ وگدااورامیروغریب برابرتھے ،اگرتم بیویوں کے شوہرہوتوخدیجہ وعائشہ کے مقدس شوہرکی حیات پاک کامطالعہ کرو،اگراولادوالے ہوتوفاطمہ کے باپ اورحسن وحسین کے ناناکاحال پو،غرض:تم جوکوئی بھی ہواورکسی حال میں بھی ہو،تمہاری زندگی کے لئے نمونہ ،تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لئے سامان،تمہارے ظلمت خانہ کے لئے ہدایت کاچراغ اوررہنمائی کونورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبریٰ کے خزانہ میں ہروقت اورہمہ وقت مل سکتاہے‘‘۔
حضرات!ان چندسطورسے اس عظیم ذات کی مبارک زندگی پراجمالی نظرسے آپ کواندازہ ہوگیاہوگاکہ ایسی خوبیوں اورخصوصیات سے آراستہ وپیراستہ ذات گرامی مزیدکتنی صفات کی حامل ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاایک ایک منٹ بلکہ ایک ایک لمحہ امت کی صلاح وفلاح کے لئے وقف رہا،دن ہویارات،صبح ہویاشام ،سفرہویاحضر،خوشی ہویاغمی ہرموقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال ومیانہ روی کواختیارفرماکرامت کوان ہی خطوط ونقوش پرچلنے کاخوگربنایاہے۔
چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’آپ کا اپنے گھر میں اپنے ذاتی حوائج (طعام ومنام )کے لئے تشریف لے جانا ظاہر ہے اور آپ اس بات کے لئے منجانب اللہ ماذون تھے ، سو آپ اپنے گھر میں تشریف لاتے تو اپنے اندر رہنے کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ‘‘۔
(۱) ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ۔
(۲) ایک اپنے گھروالوں کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کے لئے (جس میں ان سے ہنسنا بولنا شامل تھا )
(۳) اور ایک حصہ اپنے نفس کی راحت کے لئے ۔
پھر اپنے حصہ کو اپنے اور لوگوں کے درمیان میں تقسیم فرمادیتے (یعنی اس میں سے بھی بہت سا وقت امت کے کام میں صرف فرماتے اور اس حصہ وقت کو خاص احباب کے واسطہ سے عام لوگوں کے کام میں لگادیتے (یعنی اس حصہ میں عام لوگ تو نہ آسکتے تھے مگر خواص حاضر ہوتے اور دین کی باتیں سن کر عوام کو پہنچاتے اس طر ح عام لوگ بھی ان منافع میں شریک ہوجاتے )اور لوگوں سے کسی چیز کا اخفا نہ فرماتے،نہ تو احکام دینیہ کا اور نہ متاع دنیوی کا بلکہ ہر طرح کا نفع بلا دریغ پہنچاتے اور اس حصہ وقت میں آپ کاطرز یہ تھا کہ اہل فضل (یعنی اہل علم وعمل )کو آپ اس امر میں اور وں پر ترجیح دیتے کہ ان کو حاضر ہونے کی اجازت عطا فرماتے اور اس وقت کو ان لوگوں پر بقدر ان کی فضیلت دینیہ کے تقسیم فرماتے ۔سو ان میں سے کسی کو ایک ضرورت ہوتی کسی کو دو ضرورتیں ہوتیں ، کسی کو زیادہ ضرورتیںہوتیں سو ان کی حاجت میں مشغول ہوتے اور ان کو ایسے شغل میں لگاتے جس میں ان کی اور بقیہ امت کی اصلاح ہو ، وہ شغل یہ کہ وہ لوگ آپ سے پوچھتے اور آپ ان کے مناسب حال امور کی ان کو اطلاع دیتے اورآپ یہ فرمایاکرتے کہ جو تم میں حاضر ہے وہ غیر حاضر کو بھی خبر کردیا کرے اوریہ بھی فرماتے کہ جو شخص اپنی حاجت مجھ تک کسی وجہ سے مثلاً پردہ یا ضعف یا بعد وغیرہ کے سبب نہ پہنچاسکے تم لوگ اس کی حاجت مجھ تک پہنچادیا کرو کیونکہ جو شخص ایسے آدمی کی حاجت کسی ذی اختیار تک پہنچادے تواللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں باتوں کا ذکر ہوتا تھا اور اس کے خلاف دوسری بات کو قبول نہ فرماتے (مطلب یہ کہ لوگوں کی حوائج اوران کے منافع کے سوا دوسری لایعنی یا فضول باتوں کی سماعت بھی نہ فرماتے )
لوگ آپ کے پاس طالب ہوکر آتے اور کچھ نہ کچھ کھاکر واپس ہوتے (یعنی آپ علاوہ نفع علمی کے کچھ نہ کچھ کھلاتے بھی تھے )۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اچانک گھر میں کبھی تشریف نہ لاتے کہ گھروالوں کو پریشان کردیں بلکہ اس طرح تشریف لاتے کہ (گھروالوں کو پہلے سے آپ کی تشریف آوری کا علم ہوتا )پھر آپ سلام کرتے ،جب آپ اندر تشریف لاتے تو کچھ نہ کچھ دریافت فرمایا کرتے ،بسا اوقات پوچھتے کہ کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ اور بسا اوقات خاموش رہتے یہاں تک کہ ماحضر پیش کردیا جاتا نیز منقول ہے کہ جب آپ گھرمیں تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَفَانِیْ وَآوَانِیْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ وَسَقَانِی وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ مَنَّ عَلَیَّ اَسْأَلُکَ اَنْ تُجِیْرَنِیْ مِنَ النَّارِ۔
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میر ی(تمام ضروریات کی)کفالت فرمائی اور مجھے ٹھکانا بخشااور تمام تعریفیںاللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے کھلایا اور پلا یا اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر احسان فرمایا (اے اللہ )میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے (عذاب نار)سے بچالیجئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے ’’مومن کے لئے دو خوف ہیں ایک عاجل ، جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک آجل جو ابھی باقی ہے ،معلوم نہیں اللہ اس میں کیا فیصلہ صادرفرمائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لئے ،دنیا سے آخرت کے لئے ،جوانی سے بڑھاپے کے لئے ،اورزندگی سے قبل از موت کچھ نفع حاصل کرے ‘‘۔
بہت سے لوگ اپنے معاشی ،تجارتی اوردفتری امورسے فراغت کے بعدجب گھرپہنچتے ہیں توگھریلووقت کوسونے،بے جاگفتگو، لایعنی باتوں اورفضولیات میں گزاردیتے ہیں ،آئیے ایسے موقع پر ہم سیرت نبوی کاجائزہ لیتے ہیں اوریہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس باب میں نبوی ہدایات اورمشاغل کیاتھے ؟
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں میں آکر کیا کیا کرتے تھے ،انہوں نے فرمایا کہ اپنے گھروالوں کی خدمت یعنی گھریلوزندگی میں حصہ لیتے تھے ،مخدوم اور ممتاز بن کر نہ رہتے تھے بلکہ گھر کا کام بھی کرلیتے تھے مثلاً بکری کا دود ھ دوہ لینا ،اپنے نعلین مبارک کی اصلاح کرناوغیرہ ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں اور خادموں کے ساتھ بہت خوش اخلاقی کا سلوک فرماتے اور کبھی کسی سے سرزنش اور سختی سے پیش نہ آتے ۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے پاس ہوتے تو بہت نرمی اور خاطر داری کرتے اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے تھے ۔ (ابن عساکر)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف رکھتے تو خانگی کاموں میں مصروف رہتے ،خالی اوربیکار کبھی نہ بیٹھتے ،معمولی معمولی کام خود انجام دے لیتے مثلاً گھر کی صفائی ،مویشی کو چارہ دینا ،اونٹ اور بکری کاانتظام فرمانا حتیٰ کہ خادم کے ساتھ مل کر کام کرلیا کرتے تھے اورآٹا گندھوالیتے تھے ۔
احادیث مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے وقت کی اہمیت کو بیحداجاگر کیاہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
نعمتان مغبون فیھما کثیرمن الناس؛ الصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ۔(بخاری )
‘‘دونعمتوں کے بارے میںاکثرلوگ خسارے میںرہتے ہیں، صحت اور فرصت‘‘۔
اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اورفراغت اوقات کی نعمتوںسے نوازتاہے تو اکثرسمجھتے ہیںکہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیںاوران کو کبھی زوال نہیں آنا، حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتاہے، جورب کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت چھین بھی سکتاہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوںکی قدر کرتے ہوئے انہیں بہترطورپر استعمال میں لانا چاہئے۔
حضرت معاذابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
لاتزول قدماعبدیوم القیامۃ حتی یُسْاَلَ عن اربعِ خصالٍ :عن عمرہ،فیم افناہ؟وعن شبابہ ،فیم ابلاہ،وعن مالہ ،من این اکتسبہ ،وفیم انفقہ ؟وعن علمہ ماذاعمل فیہ۔(ترمذی )
قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں )کھڑا رہے گاجب تک کہ اس سے چار چیزوںکے بارے ’’میںپوچھ نہ لیاجائے گا:(۱)اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری ۔(۲)اس نے اپنے علم پر کتناعمل کیا(۳)اس نے مال کہاںسے کمایااور کیسے خرچ کیا(۴)اس نے اپناجسم کس کا م میں کھپائے رکھا۔
کیاہم یوم قیامت اللہ رب العزت کے حضور اپنی زندگی، علم ،مال اور جسم کے بارے میں سوالات کے جواب دینے کو تیارہیں؟کیاہم اللہ عزوجل کی طرف سے عطاکردہ ان نعمتوںکا حق اداکررہے یں؟ان سوالوں کے جواب کے لئے ہم میں سے ہرایک کو اپنے احوال حیات کاجائزہ لیناہوگااورپھردرستگی کی طرف آناہوگا۔اسی صورت میں ہم قیامت کے روز اللہ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ سکیںگے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ان قامتِ الساعۃُ، وفی یدِ اَحدِکُمْ فَصیلۃٌ، فانِ اسْتَطَاعَ أَنْ لا تَقُوْمَ حتیّٰ یغْرِسَھَافَلیَغْرِسْہَا۔( مسنداحمدبن حنبل)
اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میںکھجور کا چھوٹاساپوداہواوراس بات کی ’’استطاعت رکھتاہوکہ وہ حساب کے لئے کھڑاہونے سے پہلے اسے لگالے گاتو اسے ضرور لگاناچاہئے۔
اندازہ کیجئے کہ شارع اسلام حضورنبی کریم ص صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو کس قدروقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلارہے ہیںکہ اگر قیامت قائم ہوجائے اور کوئی اس نفسانفسی کے عالم میں بھی ذرہ برابر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ فوراً نیکی کرڈالے ۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مامن یوم یأتِیْ عَلٰی اِبنِ آدمَ اِلاقَالَ ذٰلِکَ الیَومُ :یَابْنَ آدَم !أَنَایومٌ جَدِیْدٌ،وَأَنَاعَلَیْکَ شَہِیْدٌ،فَافْعَلْ فیَّ خیراً،وَاعْمَلْ فیَّ خیراً،أَشْہَدُلَکَ بِہٖ یَومَ القِیامَۃِ ،فَاِنَّکَ لَنْ تَرَانِیْ بَعْدَہَاأَبَداً۔
اولاد آدم پر ہرنیا آنے والا دن (اسے مخاطب ہوکر )کہتا ہے : اے ابن آدم ! میں نئی مخلوق ہوں ،میں کل (یوم قیامت)تمہارے عمل کی گواہی دو ں گا پس تم مجھ میں عمل خیر کرنا کہ میں کل تمہارے حق میں اسی کی گواہی دوں ،اگر میں گزرگیا تو پھر تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکوگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے ۔
اتنے واضح الفاظ فرمائے جانے کے بعد بھی اگر کوئی مسلمان غفلت کا مظاہر ہ کرے اور اپنے دن ورات کو کھیل کود ، گپ شپ ،کھانے پینے ،سیر وسیاحت ،گھومنے پھرنے اور سونے میں گزار دے تو اس پر سوائے حیف کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
اِغْتَنِمْ خَمْساًقَبْلَ خَمْسٍ :حَیاتَکَ قَبلْ مَوْتِکَ،وَصِحَّتَکَ قَبلَ سَقَمِکَ،وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ،وَشَبَابَکَ قَبلَ ھَرَمِکَ،وَغِناکَ قَبْلَ فَقَْرِکَ (حاکم)
پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو،زندگی کوموت سے پہلے،صحت کوبیماری سے پہلے،فرصت کومشغولی سے پہلے،جوانی کوپڑھاپے سے پہلے،مالداری کومحتاجی سے پہلے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے سرکارودوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون ساعمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے ؟فرمایا:أَفْضَلُ الصَّلٰوٰۃِ فِی أَوَّلِ وَقْتِہَا،سب سے افضل نمازوہ ہے جوابتدائے وقت میں اداکی جائے۔
اسی طرح ترمذی شریف میں ہے کہ اَفْضَلُ الَاعْمَالِ أَلصَّلٰوۃُ فِی أَوَّلِ وَقْتِہَا۔اعمال میں سب سے بہترعمل نمازکواس کے اول وقت میں اداکرناہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمرسے روایت ہے کہ أَوَّلُ الْوَقْتِ رِضْوَانُ اللّٰہِ وَآخِرُالْوَقْتِ عَفْوُاللّٰہِ ۔(بخاری ومسلم)
نمازکواول وقت میں اداکرنااللہ کی روخوشنودی اورآخروقت میں اداکرنااللہ تعالیٰ کی معافی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
لاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَکُونُ السَّنَۃُ کَالشَّہْرِوَیَکُوْنُ الشَّہرُکَالْجُمْعَۃِ وَتَکُوْنُ الْجُمْعَۃُ کَالْیَوْمِ وَیَکُوْنَ الْیَوَمُ کَالسَّاعَۃِ وَتَکُوْنُ السَّاعَۃُکَاِحْتِرَاقِ السَعْفَۃِ وَالسَّعْفَۃُ ہِیَ الْخُوْصَۃ۔
قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ وقت سمٹ جائے گا،سال مہینہ کے برابر،مہینہ ہفتہ کے برابر،ہفتہ دن کے برابر،دن گھنٹہ کے برابرہوگااورگھنٹہ آگ کے پھونس کی طرح ہوجائے گا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ماندمت علی شئی ندمی علی یوم غربت شمسہ ،نقص فیہ اجلی،ولم یزدفیہ عملی۔
میں کسی چیزپراتناشرمسارنہیں ہوتاہوں جتنااس دن پرجس کاسورج غروب ہوگیاہواورمیری عمرکم ہوگئی ہو،لیکن عمل میں اضافہ نہ ہواہو۔گویا
گزرگیاہے جوعہدعشرت ،نہ کرتونادان اس کی حسرت
توقدراس کی سمجھ غنیمت ،جووقت پیش نگاہ اب ہے
خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں ایک دفعہ میں سوئی ہوئی تھی کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامجھ پرگزرہوا،مجھے لیٹے ہوئے دیکھاتوفرمایاقُوْمِی اشْہَدِی رِزْقَ رَبَّکِ وَلَاتَکُوْنِی مِنَ الْغَافِلِیْنَ،فَاِنَّ اللَّہَ یُقَسِّمُ أَرْزَاقَ النَّاسِ مَابَیْنَ طَلَوعِ أَلَفَجْرِاِلیٰ طُلُوعِ الشِّمْسِ۔
فاطمہ! اٹھواوراللہ کے رزق کی تقسم میں شامل ہوجاؤاورغفلت کرنے والوں میں شامل نہ ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ طلوع فجراورطلوع شمس کے درمیان لوگوں کارزق تقسیم کرتاہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک ایک عمل اورقول سے وقت کی قدردانی کااحساس دلاتے تھے،بات کوپھیلانے، گفتگوکوطویل کرنے اورلایعنی بات کرنے سے خودبھی احترازفرمایااوردوسروں کوبھی اسی کی تلقین وہدایت فرمائی،چنانچہ آپ کاایک ارشادہے اوتیت جَوامِعَ الکَلِمْ ۔ ظاہربات ہے کہ کلمات کی جامعیت ہی شخصیت کی صلاحیت پردلالت کرتی ہے اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک جملے میں ایسی ایسی باتیں ارشادفرمادی ہیں جن کی شرح وتفصیل سیکڑوں صفحات میں کی گئی ہے۔
سامعین محترم!ان نبوی ہدایات وارشادات سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ غفلت کے دبیزپردوں میں محواستراحت لوگو!یہ تمہاری بیداری کاوقت ہے،اس وقت کوکام میں لاؤتاکہ آنے والے کل جانے والے کل کااحساس نہ ستاسکے اوربقول شیخ سعدی:ؒ
خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمارعمر
زاں پیشترکہ بانگ برآیافلاں نماند
٭٭٭٭٭٭٭
(ناصرالدین مظاہری)
مدیرتحریرماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم
مدرسہ مظاہرعلوم (وقف)سہارنپور۔
۱۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۳ھ


E.MAIL:
nasirmazhairi@gmaikl.com
00919358585811@hotmail.co.in
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
وہ قوم نہیںلائق ہنگامۂ فردا

وہ قوم نہیںلائق ہنگامۂ فردا

٭ نیشنل ڈیموکریٹک کے رکن خطاطی نے کہا کہ ’’ملعون اسرائیل مسجد اقصیٰ کو برباد کرنیکی کوشش کررہا ہے ۔‘‘
٭ مصری پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بیان بازی کرتے ہوئے کہاکہ ’’صرف ایٹم بم سے ہی یہودی
ریاست کی سرگرمیوں کو روکا جاسکتا ہے‘‘۔
٭ پنٹاگن نے الزام لگایا کہ’’ ایران عراق میںتشددکوبڑھاوا دے رہا ہے ۔‘‘
٭ اسرائیل نے اپنے میزائل سسٹم ’’ہرتز‘‘کاتجربہ کیا جسے سرکاری سطح پر’’ایران کو پیغام ‘‘قرار دیا گیا۔
٭ ایران میںایک ہفتہ کے اندردوخطرناک خودکش دھماکے اورہیلی کاپٹروں کی تباہی ۔
٭ عراق وافغانستان میںمزید امریکی فوج کی طلبی۔
٭ ایک مبصرنے دعویٰ کیا کہ’’ امریکہ ایران پرہرحال میں حملہ کریگااوراگرامریکہ حملہ نہیںکرتاتویہ فریضہ ان تمام
حملوں،جنگوں،دہشت گردیوںاورتخریب کاریوں کے عالمی ٹھیکیدار’’اسرائیل‘‘ کو انجام دینی پڑیگی۔‘‘
٭ ایران نے کہاکہ’’ اس کا ایٹمی سسٹم جاری رہیگا اوریہ کہ اس نے اپنے ’’بیک گیئر‘‘کو توڑدیا ہے اوراس
کے اس مشن میں’’بریک‘‘ کاکوئی نام ونشان نہیں ہے۔‘‘
٭ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اورایران صدر احمدی نژادکی ملاقات ۔
٭ فلسطین اورفلسطین کے رہنمااسمٰعیل ہانیہ اورمحمود عباس کے درمیان شاہ عبد اللہ کی مصالحت اورمکہ اعلامیہ
پرہردو فلسطینی رہنماؤں کااظہار ِ اطمینان۔
٭ روس کے صدر ولادیمیرپتن کی مصراورسعودی عرب کے فرمانرواؤں سے ملاقات۔
٭ امریکہ نے کہا کہ’’ فی الحال ایران پر حملہ کرنے کا اس کا کوئی اراد ہ نہیں ہے ‘‘۔
٭ ایران نے کہاکہ ’’ہمیںپرامن مقاصد کیلئے اپنے سسٹم کوآگے بڑھانیکامکمل حق حاصل ہے ‘‘۔
مذکورہ بالامتضادخبروںاورمتضادآراء کی روشنی میںبخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ پس پردہ حالات کتنے دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔
ان تمام حقائق اورصداقتو ں کے باوجوداس پہلو پرکسی کوسوچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے کہ ٹھیک ایسے وقت جبکہ ایران پرامریکی حملے ہونے والے ہیں،ایران کی سرزمین عراق اورافغانستان کی طرح لالہ زار ہونے والی ہے، معصوموں، بے قصوروں،نہتے عوام اورہنستے مسکراتے چہروںپرناگہانی آفت آن پڑنے والی ہے ایسے وقت میں ’’ورلڈکپ ‘‘ جیسے کھیلوںکاطویل ترین سلسلہ تاکہ ان کھیلوںمیں ڈوب کرپوری قوم اور پوراعالم ڈیڑھ ماہ تک ناکارہ اورنکما ہوجائے ،سوچنے اورسمجھنے کی ساری صلاحیتیںزنگ آلو د ہوجائیںاورپس پردہ بہادر امریکہ اوراس کے آقا اسرائیل کوکھل کر’’اپناکھیل ‘‘کھیلنے کامناسب موقع ہاتھ آجائے ۔
اس پہلو پربھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ یہودیوں کی ایجادکردہ اوریہودی مفادات کیلئے قائم شدہ ’’اقوام متحدہ ‘‘پوری دنیامیںاپنی منصوبہ بندیوں،تخریب کاریوںاورسی آئی اے ،ایف بی آئی اورموسادجیسی تخریب کارتنظیموںکی سرگرمیوںاورسرپرستیوںسے پوراعالم حیران وپریشان ہے ،پورا یورپی بلاک ایک ہوچکا ہے ،ایران پر امریکی حملہ کے تناظرمیںروس اورچین نے جوخوداقوام متحدہ کے کلیدی ’’آلۂ کار ‘‘ہیںانہوںنے ایران پرامریکی حملے کی حامی نہیںبھری لیکن ع۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیر تھا
سرکارِ دوعالم ا کا فرمان عالی’’الکفرملۃ واحدۃ ‘‘ایک اٹل اورناقابل انکار صداقت ہے جس سے سرموانحراف ناممکن ہے وہ قوم بہت جلدقعرِمذ لت میں گرجاتی ہے جو اپنوں پر اعتماد کرنے کے بجائے غیروںسے اعتماد کی ’’بھیک ‘‘طلب کرنے لگے ،اپنوںمیںاتحاد ویگانگت پیداکرنے کے بجائے اغیار کی صفوںمیں جا کھڑا ہو، اپنے اصولوںاورآئین وقوانین پر عمل درآمدکے بجائے یورپی آقاؤںاورمغربی سورماؤں کے رحم وکرم پر اوران کے اصول وآئین پرآنکھ بندکرکے ع۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
کامصداق بن جائے وہ بہت جلداپنی حیثیت اوراہمیت کھودیتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ سرکار دو عالم ا کے فرمان کی روشنی میںمسلمان خود کورنگیںاوراسلامی ممالک سرسے سر جوڑکربچنے اوراپنے بھائیوںکو بچانے کی تدابیرکریںکیونکہ ع۔ چمن بچاؤ غم آشیاں کا وقت نہیں
تصحیح
ماہنامۂ آئینۂ مظاہرعلوم جلدنمبر۱۶شمارہ نمبر۴ص ۴۴سطرنمبر۱۲غلط چھپ گئی ہے اسے اس طرح پڑھاجائے۔
’’(۵) ضلع بیت المقدس :زیتون کی پہاڑی (Mount of Olives)جہاںعیسائیوںکے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو(نعوذباللہ )سولی دی گئی تھی ‘‘۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
زمین کابوجھ

زمین کابوجھ

ناصرالدین مظاہری
میں ہوں نومید تیرے ساقیانِ سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے سانگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوںکے جیب و داماں میں
پرانی بجلیوںسے بھی ہے جن کی آستیں خالی
اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اورحلقہ بگوشان اسلام کی کثرت کودیکھتے ہوئے یہ امیدبندھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ الحمد للہ اسلام کا مستقبل ماضی کی طرح تابناک ہے اس تصورکے ساتھ ہی یہ خیال آتا ہے کہ ہماراماضی کتنا روشن اورشاندارتھا تو حال کی کثافتوںاورچہارسو اسلام دشمن مخالفتوںکو دیکھ کر طبیعت بے چینی وبے کلی محسوس کئے بغیر نہیں رہتی ۔
اس وقت ہماری مثال اس ’’مور‘‘جیسی ہوتی ہے جب وہ اپنے حسن اورخدا کی بے مثال صناعی پر خوش ہوکر ناچنے لگتا ہے لیکن جب اس کی نظراپنے پیروں پر پڑتی ہے تو اس کی ساری خوشیاںعنقاء اورکافور ہوجاتی ہیں ، پیروں کی بدنمائی اورہیئت کذائی اس کو ناچنے سے روک دیتی ہے ۔
یہی صورت حال ہماری ہے ہم جب اپنے آباء واجداد کے تذکرے کرنے پر آتے ہیں تو دفتر کے دفتر کھول کررکھ دیتے ہیں،اپنے آباء واجداد کی صالحیت اورصلاحیت کے ترانے ،ان کی عبادتوں اورریاضتوں کے نغمے ، ان کے تقویٰ وتدین کے زمزمے ،زہدو تقدس ،طہارت ونفاست ،علمی گیرائی وگہرائی ،باریک بینی اورمختلف فنی معلومات پر مشتمل گن گاتے ہیںاس سے اپنی روح اوراپنے نفس کو خوش کرتے ہیںدوسروں کے سامنے اپنے بزرگوں کی اعلیٰ صفات اورحسنات بیان کرکے اپنی خاندانی نجابتوںاوررفعتوںکاقائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب ہم اپنے حال پرتنقیدی نظر ڈالتے ہیں تومستقبل کے عزائم زمیں بوس ہوجاتے ہیں۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ ترمذی شریف کے سبق میںعموماً فرماتے رہتے تھے کہ
’’کام کے بنو نام کافی نہیں ہے ،اپنے سے پہلو ں کی اچھائیوں کو اختیار کرواوران کی خطائے فکری وذہنی سے مطلب مت رکھو،کوشش اس کی ہونی چاہیے کہ ہمیںہمارے اسلاف کی جوعلمی وروحانی وراثت ملی ہے اس کی شایانِ شان قدر دانی ہوسکے اوراپنے آپ کواپنے اسلاف کاعکس بنانے کی کوشش کریںاور اگر ہم نے کوشش نہ کی ،بدھو بنے رہے پھر بھی اجداد کی تعریف وتوصیف میںرطب اللسان رہے تویہ ایسا ہے جیسے گاؤں اوردیہاتوں کے باہررات کے وقت گیدڑآتے ہیں ان میںسے ایک گیدڑجوان کالیڈرہوتا ہے بآوا ز بلند کہتا ہے ’’پدرم سلطان بود ‘‘توسارے گیدڑجواباً کہتے ہیں’’تراچہ مراچہ،تراچہ مراچہ‘‘۔
اللہ رب العزت کا بڑا احسان ہے کہ اس نے علم کی دولت سے نواز ا لیکن یہ ہماری حرماںنصیبی ہے کہ ہم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے اوراس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس علم کی وجہ سے ہم پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہوچکی ہیں نیزہمارے وہم وگمان میں بھی ہماری اپنی حیثیت اورشخصیت کا وزن محسوس نہیں ہوتا ہمیں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد ملت اسلامیہ کے لئے کیا کرنا ہے ،کس معیارپر کام کرنا ہے ،آنے والی نسلو ں کیلئے ہمیں اپنے کارنامے کس شکل میں چھوڑنے ہیں اوریہ کہ کیا ہماری کوششیں ان نسلوں کیلئے خاطرخواہ، سود مند اورنفع بخش ہوسکیں گی؟تعجب ہے کہ یہ احساس بھی قریب سے نہیں گزرتا۔
ظاہر ہے کہ جب مرض ایک خوبی سمجھ لی جائے تو دواؤں کے سارے طریقے اورحکماء کے سارے نسخے بیکار ہوجاتے ہیں ۔
دینی مدارس میںجو تعلیم دی جاتی ہے اورایک بڑی تعداد کوآنے والے حالات وماحول کیلئے جس انداز میں تیار کیا جاتا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن ان مدارس میںتعلیم دینے والے بڑے اساتذہ ،اہم افراد اورشخصیات پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوںکوصرف درس نظامی تک محدود نہ کرکے طلبہ کواپنے تجربات ومشاہدات اوراپنے علوم ومعار ف سے کما حقہ سیراب وفیضیاب کرنے کی کوشش کریں کیونکہ دینی مدارس میںصرف درس نظامی کی تعلیم ہوتی ہے لیکن طلبہ کی تربیت، ان کے لئے بہتر مستقبل کے رہنما خطوط اورملت اسلامیہ کے لئے کام کرنے کے طریقوں سے واقفیت اساتذہ کی ذمہ داری ہے اگراساتذہ حضرات اپنے ذہن وفکر میںیہ طے فرمالیںکہ مدرسہ نے جو کتابیں ہم سے متعلق کی ہیںصرف ان کی تعلیم ہمیں دینی ہے اوراپنی طرف سے طلبہ کی کوئی مزید خدمت ہمیں نہیںکرنی ہے تو فیصلہ آپ کیجئے کہ مجرم کون ہے؟ اس لئے دینی مدارس کے ذمہ داران اورارباب حل وعقد کو اس پہلو پر غوروفکر کرنااورایک مستقل ایسا لائحۂ عمل تیار کرنا ضروری ہے کہ طلبہ اوراساتذہ کے درمیان فاصلوںکوختم کرکے استفادہ کی راہ ہموارکی جاسکے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒکا ارشاد ہے
’’اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تمام لوگوں کو عذاب نہیںدیتے البتہ جب گناہ کھلے بندوںکئے جائیں اورروکنے والا کوئی نہ ہوتو تمام قوم عذاب کے لائق ہوجاتی ہے ۔‘‘
اگرتمام اہل مدارس یہ عزم مصمم کرلیںکہ وہ صرف تعلیم تک اپنیذمہ داریوں کو محدود نہ رکھ کر افراد سازی اوررجال سازی شروع کردیں تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے پاس ہر فن کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت موجودہوگی،یہ شکوہ بھی ختم ہوگاکہ اچھی صلاحیتوں کے مدرسین دستیاب نہیں ہوتے،یہ اعتراض بھی ختم ہوگاکہ دینی مدارس بانجھ ہوگئے ہیں،یہ احساس بھی دورہوگاکہ افرادسازی نہیں ہوتی اور دینی مدارس کی اہمیت وافادیت بھی ازسرنوعوام کی نظروں میں بلند ہوجائے گی۔
افرادسازی تمام مدارس اور اداروں کی ذمہ داری ہے ہر مدرسہ اورادارہ کواپنے وسائل اوراختیارات کے مطابق افراد سازی کا خو گر ہونا چاہیے تاکہ ’’ کام کے افراد ‘‘نہ ملنے کا شکوہ بھی ختم ہوسکے ۔
’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ہی ارشا د ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ میں تیری قوم میں سے چالیس ہزار اچھے لوگوںکواورساٹھ ہزار برے لوگوں کو ہلاک کروں گا ، انہوں نے عرض کیا یا اللہ ! برے تو برے ہیںنیک لوگوں کوہلاک کرنے کی کیا وجہ ہے ارشاد ہوا کہ انہوں نے میرے لئے کبھی غصہ نہیں دکھایا بلکہ بروں کے ساتھ ہم نوالہ وہم پیالہ بنے رہے ۔‘‘
علامہ اقبالؒنے’’سود‘‘کی نحوست بیان کی ہے کہ ۔ع
’’سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات‘‘
ہمارے مدارس کی بھی یہی حالت ہے ایک کی بدنامی سیکڑوں کی بدنامی کا باعث ہے اس لئے تمام اہل مدارس کو سیرت وسنت کی روشنی میںاپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ کے رسول اکا ارشاد گرامی ہے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بھلائی کے پھیلنے کا اوربرائی کو روکنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اورکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی کے پھیلنے کااوربھلائی کی رکاوٹ کا ذریعہ ہوتے ہیں سو مبارک ہے ان لوگوں کے لئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خیر کے پھیلنے کا ذریعہ بنایا اورہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو برائی کے پھیلانے پرکمربستہ ہوگئے ۔
آپ ا سے پوچھاگیا کہ أ ی الناس شر قال العالم اذا فسد بدترین لوگ کون ہیں فرمایاکہ عالم لوگ جب کہ وہ بگڑجائیں۔
فقیہ ابواللیث سمرقندی ؒ نے’’ تنبیہ الغافلین باحادیث سید الانبیاء والمرسلین ‘‘میںلکھا ہے کہ ویقال اذا فسد العالم فسد لفسادہ العالم جب عالم بگڑتا ہے تو اس کے بگڑنے کی وجہ سے ایک عالَم (جہان)بگڑجاتا ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاارشاد گرامی ہے
’’ماأکثر الاشجارولیس کلھا بمثمروما أکثر العلماء ولیس کلھم بمرشد وماأکثر الاثمار ولیس کلھا بطیب وماأکثرالعلوم ولیس کلھا بنافع ۔ (درخت تو بہت ہوتے ہیں مگرسبھی پھلدار نہیں ہوتے اورعلماء بھی بہت ہوتے ہیں مگر سبھی صاحب رشد وہدایت نہیں ہوتے پھل بھی بہت ہوتے ہیں مگر سبھی اچھے اورعمدہ نہیں ہوتے اورعلوم بھی بکثرت ہیں مگر سبھی نافع نہیں ہوتے )۔
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایاکہ
’’ مایغنی من الاعمی حمل السراج ویستضیء بہ غیر ہ وما ذا یغنی عن البیت المظلم ان یکون السراج علی ظہرہ وما ذا یغنی عنکم أ ن تتکلموا بالحکمۃ وما تعملون بھا۔اس اندھے کو کیا فائدہ جو چراغ اٹھائے ہوئے ہو اورلوگ اس سے روشنی پاتے ہوںاوراس تاریک گھر کوکیا نفع جس کی چھت پر چراغ رکھا ہوا ہے اورتمہیں اس حکمت ودانائی کے کلام سے کیا فائدہ جس پر عمل نہیں کرتے ۔‘‘
اس روشنی میںعلماء کرام اورزعماء قوم کودعوت فکروعمل دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض پر متوجہ ہوں اورجائزہ لیتے رہیںکہ ان کی صلاحیتیں اورلیاقتیںملت اسلامیہ کیلئے کس حدتک کارآمد ہورہی ہیں اورکیا ان خدمات سے ان کا اپنا نفس مطمئن ہے ؟اورکیادینی دعوتی اوراصلاحی میدان میںوہ اس معیار پرکام کررہے ہیں جس کی قوم ان سے توقع کرتی ہے ؟۔
فقیہ ابواللیث ؒ نے تنبیہ الغافلین میںسرکار ِ دوعالم ا کاارشاد گرامی نقل کیاہے کہ
’’بھلائی کی تلقین کرواگر چہ خو د بھی عمل نہ کرواوربرائی سے روکتے ہوگو خود بھی نہ رکتے ہو‘‘( تنبیہ الغافلین)
اسی طرح حضرت ابو الدرداء ؓ کا قول ہے …’’لایکون الرجل عالماً حتی یکون متعلماًولا یکون عالماً حتی یکون بالعلم عاملاً ۔کوئی متعلم بنے بغیرعالم نہیں بن سکتا اورجب تک علم پر عمل نہ ہو عامل نہیں ہوسکتا ‘‘…آپ ہی کا ارشاد ہے ’’ویل للذی لا یعلم مرۃ وویل للذی یعلم ولا یعمل سبع مرات ۔نہ جاننے والے کیلئے ایک دفعہ ہلاکت وافسوس ہے اورجو علم پر عمل نہیں کرتا اس کیلئے سات بار ہلاکت اورافسوس ہے ‘‘( تنبیہ الغافلین)
اہل مدارس کوافراد سازی اورماہرین علم دین پیدا کرنے کی ضرورت ہے اوریہ خیال کہ اسی درس نظامی کو پڑھ کر اکابر علماء نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں یہ خیال ہی غلط ہے کیونکہ اُن حضرات کادامن سیہ کاریوںاورگناہوں سے پاک صاف تھا،ان کے سروں پر اکابر اہل اللہ کادست شفقت تھااور اب تو یہ حال ہے کہ
بقی الذین حیوٰتہم لاتنفع
(وہ لوگ باقی رہ گئے جن کی زندگی بے فائدہ ہے)
اِس زمانے میںگناہوں میں ابتلا ء عام ہے، جو لوگ گناہ نہیں کرتے وہ نسیان کے مریض نہیں ہوتے اورجونسیان کے مریض نہیں ہوتے وہ اپنی قوم اورملت کیلئے ہروقت اورہمہ جہت کارنامے انجام دینے کیلئے فکر مند رہتے ہیں ۔
دینی مدارس چونکہ پاورہاؤ س کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے مستقل ایسے شعبہ جات قائم کرنا ضروری ہے جن کے ذریعہ افراد سازی کی کوششیں بارآورہوسکیں اور پھر ملت کماحقہ ان سے فیضیاب ہوسکے۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
دینی مدارس چونکہ پاورہاؤ س کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے مستقل ایسے شعبہ جات قائم کرنا ضروری ہے جن کے ذریعہ افراد سازی کی کوششیں بارآورہوسکیں اور پھر ملت کماحقہ ان سے فیضیاب ہوسکے۔
بہت شکریہ ۔۔۔۔۔
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم
حضرت مظاہری صاحب آپ کے مضامین بہت ہی علمی اور ہم جیسے مبتدی کے لئے راہنما ہے آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنے مضامین کو علیحدہ علیحدہ تھریڈ میں لگا کریں اس سے پڑھنے میں بھی آسانی رہے گی اور مضامین کی عنوان کے حساب سے الغزالی میں جمع ہوتے رہیں گے
اس سے قاری اگرکوئی خاص مضمون پڑھنا چاہے تو آسانی سے پڑھ سکے گا
جزاک اللہ خیرا
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
وعلیکم السلام سیفی بھائی!
آپ کامشورہ قبول ہے ،کوشش کروں گا،میں اس سائٹ ہی کانہیں نیٹ کاہی مبتدی ہوں بڑی مشکل سے احمدقاسمی صاحب کی قدم قدم رہنمائی کے بعدکسی نہ کسی درجہ میںپوسٹ کرنے لگاہوں ،اس لئے تمام ماہرین حضرات مجھے مبتدی تصورفرماکربروقت ،ہروقت اورہمہ وقت رہنمائی فرماتے رہیں ۔یہ میرے اوپراحسان عظیم ہوگا۔
ناصرالدین مظاہری
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت آپ جیسے علماء کا الغزالی پہ تشریف لانا ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ ۔اور پھر آپ کے بہترین مضامین سونے پہ سہاگہ ۔ ۔ ۔
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
میں نے فورمز پر کافی عرصہ گزار کر یہ محسوس کیاہے کہ اب لولوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں بالخصوص سیاسی مضامین یااس طرح کے مضامین کیلئے۔
اس لئے بہتر ہے کہ مضمون جتنامختصر ہو اتناہی لوگ پڑھتے ہیں ورنہ مضمون کی طوالت کو ہی دیکھ کر اسے چھوڑدیتے ہیں۔
ہاں اگرکسی علمی موضوع پر کوئی مدلل اورمفصل بحث ہے تواس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اسے پڑھیں گے۔ ورنہ عوامی موضوعات پر لکھناہوتو تحریر کو جتنامختصر رکھین اتناہی ہی اچھاہے۔ آپ کیلئے بھی اورقارئین کیلئے بھی۔
 
Top