بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
مباحثہ… یا…محاسبہ
ناصرالدین مظاہری
ہردوراورہرزمانہ میں اسلام کی صف اول کی توجہات کارخ موڑنے،جادۂ اعتدال سے ہٹانے اوران کو اپنے مقصدکی ہمہ گیریت سے فضولیات کی بھول بھلیوں میں الجھانے کاعمل جاری ہے۔
اس سے قطع نظرکہ ملت اسلامہ کوفی زمانناکس سمت اورکس رخ کی ضرورت ہے،کس قیادت اورکس رہبری کی حاجت ہے،کس راہنمااورکس قائدکی کمی ہے؟مگرمسلمان بحیثیت مسلمان نہ تو اپنے رخ کویادرکھ سکانہ ہی اپنی سمت اورجہت پرکاربندرہ کر اسلام کے استحکام کاذریعہ بن سکا۔
خیرالقرون کے بعد بھی عام مسلمانوں میں دین کے چرچے،دین کی باتیں،مسئلہ اورمسائل پرگفتگوایک ماحول بن چکاتھا،حتی کہ قلی(حمال مزدور)بھی اپنے سروں پربھاری سامان لادکرجب ایک جگہ سے دوسری منتقل کرتے تھے تو آپس میں دینی مسائل پرگفتگوکرتے جاتے تھے۔
چنانچہ کتاب’’ ہزارسال پہلے‘‘میں اسی عہدمیمون کا ایک واقعہ ابن حوقل کے حوالے سے مذکورہے کہ
’’میں نے شہرخوزشتان میں ایک حمال (قلی)کوگزرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے سرپرایک بھاری بوجھ لداہواتھااور ایک دوسراحمال بھی اسی کے ساتھ ساتھ جارہاتھااوردونوں’’التاویل‘‘(قرآنی آیات کی تفسیر) اور علم کلام کے حقائق ومسائل میں جھگڑتے جارہے تھے،ایسامعلوم ہورہاتھاکہ ان دونوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے اپنے خیالات کے مقابلہ میں ان کی کوئی پرواہ ان کو نہیں ہے‘‘ (ہزارسال پہلے ص ۲۲۷)
اللہ عزوجل نے واضح لفظوں میں ارشادفرمایاہے یَااَیُّہاالذِّیْنَ آمَنُوالَاتَسْئَلوْاعَنْ أَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤ کُمْ ( المائدہ پ۷آیت ۱۰۰)اے ایمان والو!مت پوچھوایسی باتیں کہ اگرتم پر کھول دی جائیں توتم کو بری لگیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ترک مالایعنی ،فضول گوئی ،بکواس اورکثرت کلام سے منع فرمایاہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔انسان کی عمدہ خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کوترک کردے۔اسی طرح ایک موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے ارشادفرمایاتھاکہ میں تمہیں قیل وقال (بحث وتمحیص)سے،کثرت سے سوالات کرنے سے اورمال ضائع کرنے سے منع کرتاہوں۔
دین کی طلب،اسلامی تعلیم کی تڑپ،قرآن وحدیث کے علوم کے حصول کے لئے ہمارے اکابراہل اللہ کی کوششیں اورکاوشیں اپنی جگہ، اب ہم سے تو اتنابھی نہیں ہوتاکہ ان اکابرکے لکھے ہوئے علمی ذخیرہ کی قدر ومنزلت کرتے (۱)اس کی حفاظت وصیانت کی ہرممکن کوشش کرکے ان کے مطالعہ سے اپنی دنیاکوجگمگ اوراپنے اندرون کو روشن کرتے،اس کے برعکس ہماراحال یہ ہوگیاکہ ہم غیرضروری اورلایعنی بحثوں میں الجھ کررہ گئے،کسی کواس میں دلچسپی ہے کہ حضرت آدم اورحضرت حواعلیہماالسلام کے انتقال میں درمیانی وقفہ کتناہے؟کسی کو یہ فکردامن گیرہے کہ حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہمایاحضرت علی اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہمامیں سے کون حق پر؟کسی کوعصاء موسی اورعصاء سلیمان علیہم السلام کی تاریخی حیثیت معلوم کرنے میں دلچسپی ہے؟اس قسم کی خرافات اورفضول بحثوں پراپناقیمتی وقت صرف کردیاجاتاہے حالانکہ اگراس قیمتی وقت کودینی تعلیم اورمسائل کی تحصیل پرصرف کیاجائے تومعلومات کا قابل قدرذخیرہ ذہن نشین ہوجائے۔
غورکیجئے !ایک وہ اکابرتھے جنہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے مہینوں کا سفرطے کیا،راحلہ ختم،زادراہ ختم،سواری ختم ،توشہ ختم،سب کچھ ختم ہوجانے کے باوجودان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی ،کیونکہ ان کو اپنے زادراہ پربھروسہ تھاہی نہیں، ان کا سب سے بڑابھروسہ اللہ کی ذات والاصفات پر تھا سو اللہ نے ان کی کفایت اورکفالت فرمائی ،انھیں دینی علوم ومعارف سے مالامال فرماکراپنی کتاب اوراپنے نبی کی تعلیمات کارمزآشنابناکرہدایت وسعادت کی راہیں اورگرہیں ان کے لئے کھول دیں۔کسی نے سچ کہاہے
بقدرالکد تکتسب المعالی
ومن طلب العلا سہراللیالی
کسی اردوشاعرنے کیاخوب کہاہے
مٹادو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتاہے
اُس زمانہ میں دینی علوم کی تحصیل کس قدرمحنت طلب اوردقت ومشقت سے بھرپورہواکرتی تھی،غربت
(۱) ۱۲؍نومبر۲۰۰۹ء کو مظاہرعلوم کی طرف سے رضالائبریری رام پورکے ایک ورکشاپ میں شرکت کی غرض سے جانا ہوا،دوران قیام وہاں کی مشہور’’صولت لائبریری ‘‘دیکھنے کااتفاق ہوا، اس لائبریری کے رکھ رکھاؤ،کتابوں پر موجود گردوغبار، فرش کی گندگی،کتابوں کی بے ترتیبی،کبوتروں کے گھونسلوں اوران کی پھیلائی ہوئی گندگیوں،چھتوں میں شگاف کے باعث برساتی پانی سے ہونے والی سیلابی دیکھ کراوراس بدنظمی کی وجہ پوچھنے پرسرمایہ کی کمی کانامعقول کاعذرسن کربہت افسوس ہوااوردل نے گواہی دی کہ اگریہی بدنظمی برقراررہی تو چندسالوں میں ایک لاکھ کتابوں او رقیمتی مخطوطات سے مالامال اس لائبریری کانام صرف تاریخ اورکتابوں میں محفوظ رہ جائے گا۔اللہ تعالیٰ کارکنان وذمہ داران کو اس کی حفاظت کی توفیق عطافرمائے۔(ن م)
وعسرت ،فقروفاقہ اورتنگئی معاش کے ہزاروں قصے زبان زدہیں لیکن آج جب کہ الحمدللہ دولت کی ریل پیل ہے،آسودگی اورکشادگی کے مناظرہرسودیکھے جارہے ہیں،معاش ومعیشت اوراقتصادوتجارت میں خوب خوب ترقی ہورہی ہے ،اس فارغ البالی کاتقاضاتویہ تھاکہ ہمارے لئے حصول علم کے نئے باب واہوتے،عرفان الہی اورتعلیمات نبوی کے عمیق سمندرکو عبورکرکے اپنی تحقیقات غالیہ اورتصنیفات عالیہ سے علمی دنیامیں خوش آئندہیجان برپاکردیتے …لیکن… جوکچھ ہورہاہے وہ ہماری توقعات کے برعکس،ہمارے احساسات سے متضاداورہماری خواہشات سے ماورائ…ہمارے دینی تعلیمی ادارے نہ تورازی اورغزالی بنانے میں کوئی اہم کرداراداکررہے ہیں نہ ہی رفاہی اورخیراتی ادارے خیرالقرون کے عہدتاباں کی کوئی جھلک پیش کرنے میں کامیاب ہیں…ہماری عصری تعلیم گاہیں ڈگریوں اورسندوں کاپلندہ تھمانے میں توکامیاب ہیں لیکن اپنے فن کے ماہرین اوراپنے موضوع کے حاذقین دنیاکونہ دے سکے…اصلاح معاشرہ کے لئے وجودمیں آنے والی تنظیمں کسی بدعت اورفتنہ کو ختم کرنے سے پہلے خودہی فتنہ کی شکارہوکرتقسیم درتقسیم سے دوچارہوکرمعاشرہ کی نظروں میں اپنااعتماکھوچکی ہوتی ہیں…خدمت خلق کے صالح جذبہ سے سرشاراورکچھ کرگزرنے کا نیک جذبہ لے کرپیداہونے والی تحریکات چندمہینوں یاچندسالوں میں عنقاہوجاتی ہیں،دنیاکی قیادت اورعالم اسلام کی سیادت کاخواب دیکھ کربیدارہونے والے ،ضلالت اورذلالت کوحرف غلط کی طرح ختم کرنے کاعزم مصمم لیکرمیدان کارزارمیں کودپڑنے والے چنداصحاب عزیمت اورسپہ سالارپانی کے بلبلوں اورسمندری جھاگ کی طرح بیٹھ کرحالات کا رونارونے لگتے ہیں۔
آج طارق ؒبن زیادکاعزم ،نورالدین زنگی ؒکی بصیرت،موسی بن نصیرؒکی استقامت،صلاح الدین ایوبیؒ کاجذبہ،محمدبن قاسم ؒکاولولہ،سیداحمدشہیدؒکافکر،شاہ اسمعیل ؒشہیدکادرداورمحمودغزنویؒ،شیرشاہ سوریؒ اور شیرمیسور کے شاہین صفت ارادوں کاکوہ ہمالہ صرف اسی لئے سرنگوں ہوتاجارہاہے کیونکہ ہمارے دلوں سے ایمان کی عظمت،قرآن کی محبت،سول برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت اوراخیاراسلام کے اولوالعزمانہ کارناموں سے مجرمانہ غفلت ہماراطغرائے امتیازبن چکاہے۔
طبریؒ ورازیؒ ،غزالیؒ وسیوطیؒ،جوزیؒ وفارابیؒ ،اصمعیؒ وذہبیؒ ،عینیؒ ونوویؒ ،بخاریؒ وقرطبیؒ ،فارابیؒ وعسقلانیؒ ، بغدادیؒ واعرابیؒ ،تھانوی ؒوگنگوہی ؒ،دہلویؒ ونانوتویؒ ،سہارنپوریؒ ورائے پوریؒ یہ جتنے اہل علم وماہرین فن گذرے ہیںسبھوں نے حصول علم کے لئے خود کو فنا کرکے اور’’اَلْعِلْمُ لَا یُعْطِیْکَ بَعْضُہٗ حَتّٰی تُعْطِیْہِ کُلُّکَ ‘‘کو مد نظر رکھتے ہوئے محنت ومشقت اورقربانی وجانفشانی کی راہیں طے کیں،نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آسانیاں مقدر فرمادیں کیونکہ ان کے مجاہدے ،شب وروز کی محنتیں اوراللہ رحیم وکریم سے دعائیں اخلاص وعمل کی کسوٹی پر پوری اترتی تھیں ،آج ہم شاہراہِ معراج پر بکٹٹ دوڑنا چاہتے ہیں لیکن کسل مندی اورغفلت کی دبیز چادر ہم پر تنی ہوئی ہے ، موتیوں اورلعل وگوہر کی جستجو ہمیں بھی ہے لیکن بستروں اورنرم گدوں سے پیٹھ نہیں ہٹانا چاہتے ،غواصی نہیں کرتے ، بلندیوں کی طلب ہونے کے باوجود محنت ومشقت کا ہمارا مزاج نہیں بنتا ۔
ضرورت ہے کہ ہم افرادسازی پر اپنی توجہات مرکوزکریں،ہمارامطمع نظراپنی ذات سے دوسروں کو صرف اورصرف فائدہ پہنچانابن جائے،کیونکہ اس دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیزفائدہ پہنچانے کے لئے بنائی ہے،سورج کی تمازت سے کھیتیاں پکتی ہیں،چاندکی روشنی سے پھلوں اورپھولوں میں حلاوت پیداہوتی ہے،دریا اورسمندر کھیتیاں سیراب کرتے ہیں،زمین اپنی گودسے زرخیزی وشادابی لانے میں اہم کرداراداکرتی ہے،درخت اپنے سایہ،پھل اورلکڑی سے خدمت کرتے ہیں،حتی کہ پتھربھی اپنی نافعیت اورخدمت میں دوسروں سے پیچھے نہیں ہے، مکانوں کی تعمیرسے لے کرسڑکوں،پلوں اوردیگرتعمیری امورمیں اپنی خدمات پیش کرتاہے، دریااورسمندر سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں ،زیرزمین پانی کاقدرتی نظام ہمیں آسانیاں فراہم کرتاہے،اسی طرح پانی اپنی ہمہ گیر نافعیت کے علاوہ بجلی بھی پیداکرتاہے ،اس قسم کی ہزاروں لاکھوں چیزیں صرف اورصرف انسان کی خدمت پرمامورکی گئی ہیں جوابتدائے آفرینیش سے قیامت تک اپنی خدمات بہم پہنچاتی رہیں گی۔
کیاآپ نے کبھی غورکیاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہزاروں لاکھوں چیزیں ہماری خدمت اوراطاعت کیلئے کیوں بنائیں ؟کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ،اس کو مخلوقات میں سب سے اونچامقام اسی لئے دیاگیاہے تاکہ وہ اپنے رب کی ربوبیت کاقائل ہوکراپنے مقصدتخلیق پرتوجہ کرکے اورمنشاء الہٰی وماخلقت الجن والانس الالیعبدون پرکاربندہوکراللہ کی رضااورخوشنودی کا خوگرہواورجنت کی ابدی اورسرمدی نعمتوں سے لطف اندوزہوسکے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنامحاسبہ کریں!حضرت عمرفاروق ؓکاارشادگرامی ہے’’ حَاسَبُوْاقَبْلَ اَنْ تَحَاسَبوْا‘‘تم خوداپنامحاسبہ کرو قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارامحاسبہ کیاجائے اوراس سے پہلے کہ تمہیں پرکھا جائے تم خودپرکھ کردیکھ لو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ احتساب اورمحاسبہ کی تلقین فرمائی ہے چنانچہ ایک جگہ ارشادفرمایاہے کہ یَااَیُّہَاالذِّیْنَ آمَنُوْااتقوااللّٰہ ولتنظرنفس ماقد مت لغد (پ ۲۸)
اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو،بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبرہے۔
اہل اللہ نے عقلمندوں کیلئے چار ساعتیں مقررکی ہیں جن میں سے ایک ساعت محاسبہ نفس کی بھی ہے۔
حضرت عمرفاروقؓ! رات کو اپنے پیروں پرکوڑے مارتے تھے اور خودکو مخاطب کرکے فرماتے تھے کہ تو نے آج کیاکیاہے؟
حضرت غزوان نامیؒ ایک غازی کی نظرایک اجنبیہ پرپڑگئی تو اپنے منہ پرزوردارطمانچہ ماراکہ آنکھ پر ورم آگیااورآنکھ کو مخاطب کرکے فرمایاکہ تو ایسی چیزکی طرف دیکھتی ہے جوتیرے لئے مضرہے۔
ایک عارف کامل نے ایک اجنبی عورت سے گفتگوکرلی ،گفتگومیں محویت ایسی ہوئی کہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھ دیا،فوراًاپنی غلطی پر نادم ہوئے اوربطورسزااپناوہ ہاتھ آگ کے شعلوں پر رکھ کرجلایایہاں تک کہ وہ ہاتھ کوئلہ ہوگیا۔
جن مخلصین کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جڑاہوتاہے وہ لوگ مکائد شیطانی اورہوائے نفسانی سے محفوظ ومامون رہتے ہیں ،ایسے برگزیدہ نفوس اپنے ایک ایک سانس ،ہرہرقدم اورہر لمحہ وہرآن صادرہونے والے افعال واعمال کومحاسبہ کی کسوٹی پرجانچتے اور پرکھتے ہیں ،روحانی بیماریوں کاعلاج قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں ۔
حضرت میمون بن مہرانؒ نے عجیب بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومن اور متقی انسان اپنے نفس کا حساب ظالم بادشاہ اور بخیل شریک سے بھی سخت لیتاہے اوربندہ اس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے نفس سے اس طرح حساب نہ لے جس طرح تاجراپنے شریک تجارت سے کیاکرتاہے۔
محاسبہ،احتساب نفس،ہوائے نفسانی سے احتیاط واحتراز اوراپنی غلطیوں پر خودہی سزادینے کا مزاج بنانے والے انسان ہی دراصل مقربین میں شمارہوتے ہیں۔
اللہ والوں نے اپنے نفس اور خواہشات کو اپناغلام بنالیاتو عنداللہ سرخروہوگئے اورہم خواہشات کے غلام،نفس کے بندے اور شیطان کے آلۂ کارہوکرتباہ ہورہے ہیں۔
نفس کے تقاضوں پر مشتبہ لقمہ حلق سے اتارنے پر فاقوں کی سزاتجویزکرلینا،کسی پربری نظرپڑجائے تو آنکھوں کو بندکرکے سزادینا،برے کام کے لئے چلنے پر رک جانے کی سزاپیروں کودینااورہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری ،جواب دہی اورحساب وکتاب کااستحضاررکھنااللہ والوں کی عمدہ عادات وصفات کا عملی نمونہ ہے۔
چنانچہ حضرت جرجانی ؒ ہمیشہ ستو کھاتے تھے کہ روٹی کھانے اورچبانے پر وقت زیادہ ضائع ہوتا ہے اورذکراللہ کے لئے وقت میںکمی ہوتی ہے ،حضرت عتبہؓ سوکھا آٹا ہی کھالیتے تھے ،حضرت شقیق بن ابراہیمؒ کا نفس تیس سال سے حریرہ کھانے کو کہتا رہا لیکن نہیں کھایا ،حضرت مالک بن دینارؒ نے بھی نفس کی مخالفت میںچالیس سال دودھ نہیںپیا،حضرت احمد بن ابی الحواریؒ نے نمک کھانا ہی چھوڑدیا ،نفس نے ترکاری کی خواہش کی تو مالک بن منعمؒ نے چالیس دن کے لئے ترکاری کھانے کا ارادہ ہی ترک کردیا ،اسی طرح چالیس سال سے زائد عرصہ تک دودھ استعمال نہیں فرمایا ،حضرت داؤد طائی ؒ کے نفس نے خرماکی خواہش کی تو قسم کھالی کہ کبھی خرمانہیں کھاؤںگا ،حضرت موسیٰ بن رشتجؒ نے بیس برس تک نمک نہیں کھایا، حضرت احمد بن خلیفہؒ نے کبھی شکم سیر ہوکر پانی نہیںپیا،حضرت سری سقطیؒ کا جی چاہتا تھا کہ روٹی کو شیرہ اورانگور میں ترکرکے کھاؤں مگر تیس برس تک نہیں کھایا ۔
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ترک مالایعنی پر ایساعمل کیاکہ عقلیں حیران اورششدررہ جاتی ہیںچنانچہ منصوربن المعتمرؒنے عشاء کے بعد چالیس برس تک گفتگو نہیں فرمائی ، حضرت ربیع بن ہیثمؒ نے بیس سال تک کوئی کلام نہیں فرمایا ،حضرت حسین ؓ تیس برس نہیںہنسے ، حضرت عطاء سلمی ؒ چالیس برس نہیں ہنسے ،عبد الوہاب بن وراقؒ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا،حضرت حسن بصری ؒ چالیس سال تک نہ ہنسے ، حضرت سعید بن جبیرؓ کبھی نہیں ہنسے ، حضرت حسان بن سنانؒ نے ایک دریچے کی بابت معلوم کرلیا کہ یہ کب تعمیر ہوا ،فوراً تنبہ ہوا کہ لایعنی سوال کرلیا چنانچہ نفس کے لئے سزاتجویز کی کہ دو سال تک روزے رکھنا ہے اوراسی پر عمل کیا۔
جولوگ علمی ودینی ،تدریسی وتصنیفی ،دعوتی اوراصلاحی کام کرنے والے ہیں اورہروقت اپنے تھکنے کاشکوہ کرتے رہتے ہیں ان کے لئے یہ واقعات اورنظائر بصیرت افروزہوں گے کہ حضرت ابو محمد مریؒ اٹھانوے سال تک نہیں لیٹے ، حضرت عامر بن قیسؒ کبھی نہیں سوئے ،حضرت رابعہ عدویہ ؒنے پچاس سال شب وروز عبادت کی اور حضرت صفوانؒ نے چالیس برس تک بسترسے پیٹھ نہیں لگائی ۔
یہ حالات اورواقعات صرف اس لئے وجودمیں نہیںآئے کہ اللہ کے ان بندوں کویہ چیزیں غربت ومفلسی کی وجہ سے نہیں مل سکیں،ایسابھی نہیں تھاکہ اِن چیزوں کا حصول اِن قدسی نفوس کے لئے ناممکن تھا،حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اگرچاہتے تو آسمان سے سجے سجائے دسترخوان نازل ہوتے،من وسلویٰ ان کی غذائیں ہوتیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت کو نفس کی مخالفت کرنے والوں کے لئے بنایاہے ،اس لئے یہ طائفۂ خداوندی ہروقت اورہمہ وقت اللہ کے حضورمیں گریاں وبریاں رہتاتھا،دنیاوی لذات وخواہشات کی طرف ان کی توجہات نہیں ہوتی تھیں۔
حضرت مجمع ؒ نے ایک دن آسمان کی طرف نظر کی تو کسی بالا خانہ پرکوئی عورت نظر آئی فوراً توبہ کی اورقصد کرلیا کہ کبھی اوپر نہیں دیکھوںگا ،اخنف بن قیسؒ رات بھر چراغ جلاتے اوراپنی انگلی بتی پر رکھ کر نفس کو سزادیتے تھے۔
توبہ ابن الضمہ ؒرقہ میں تھے اوراپنے نفس کا محاسبہ کررہے تھے ،انہوں نے اپنی عمرکاحساب لگایاتو پتہ چلاکہ ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں،ساٹھ سال میں اکیس ہزارچھ سو دن ہوتے ہیں ،اس خیال سے کانپ گئے چیخ ماری اورکہا افسوس!میں شاہ حقیقی کے سامنے اکیس ہزارچھ سو گناہوں کے ساتھ ملاقات کروں گا،اور اگرہردن کے دس ہزارگناہ ہوئے تومیراانجام کیاہوگا؟پھروہ بیہوش ہوکرگرپڑے اوراسی حالت میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔
لوگوں نے ان کے انتقال کے بعدایک غیبی آوازسنی کہ کوئی کہہ رہاہے کہ اب فردوس بریں کی طرف لوٹ جاؤ!بندے کو اپنی سانسوں کا اسی طرح حساب لگاناچاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ اپنا کچھ وقت دنیوی کاموں کیلئے مخصوص کرلواورکچھ وقت اپنی آخرت کے لئے ۔
غورکیجئے !کیاہم اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں؟کیاہماراعمل سیرت وسنت کے مطابق ہے ؟ہم زمین کیلئے بوجھ تو نہیں ہیں؟کیاہماری ذات سے عمومی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچ رہاہے ؟کیاہماری شوکت وعظمت ہنوزقائم ہے ؟کیاہماری صفوں میں حقیقی علمائ،دینی راہنما،اسلامی قائدین ومفکرین اوربلندپایہ واعظین ومبلغین موجودہیں؟کیاعوام الناس کو ہمارے مرکزی اداروں اورمسلکی جماعتوں وتحریکوں سے فائدہ پہنچ رہاہے ؟ کیاہمارا بہترین دماغ ملک وقوم کی رہنمائی میں کامیاب ہے؟آج امت کو جن بنیادی مسائل میں ہماری قیادت کی ضرورت ہے کیااس میں ہم سوفیصدکامیاب ہیں؟اورکیااسلام اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کو واپس لانے میں ہماراکوئی اہم مثبت کردارقوم کے سامنے ہے؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
مباحثہ… یا…محاسبہ
ناصرالدین مظاہری
ہردوراورہرزمانہ میں اسلام کی صف اول کی توجہات کارخ موڑنے،جادۂ اعتدال سے ہٹانے اوران کو اپنے مقصدکی ہمہ گیریت سے فضولیات کی بھول بھلیوں میں الجھانے کاعمل جاری ہے۔
اس سے قطع نظرکہ ملت اسلامہ کوفی زمانناکس سمت اورکس رخ کی ضرورت ہے،کس قیادت اورکس رہبری کی حاجت ہے،کس راہنمااورکس قائدکی کمی ہے؟مگرمسلمان بحیثیت مسلمان نہ تو اپنے رخ کویادرکھ سکانہ ہی اپنی سمت اورجہت پرکاربندرہ کر اسلام کے استحکام کاذریعہ بن سکا۔
خیرالقرون کے بعد بھی عام مسلمانوں میں دین کے چرچے،دین کی باتیں،مسئلہ اورمسائل پرگفتگوایک ماحول بن چکاتھا،حتی کہ قلی(حمال مزدور)بھی اپنے سروں پربھاری سامان لادکرجب ایک جگہ سے دوسری منتقل کرتے تھے تو آپس میں دینی مسائل پرگفتگوکرتے جاتے تھے۔
چنانچہ کتاب’’ ہزارسال پہلے‘‘میں اسی عہدمیمون کا ایک واقعہ ابن حوقل کے حوالے سے مذکورہے کہ
’’میں نے شہرخوزشتان میں ایک حمال (قلی)کوگزرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے سرپرایک بھاری بوجھ لداہواتھااور ایک دوسراحمال بھی اسی کے ساتھ ساتھ جارہاتھااوردونوں’’التاویل‘‘(قرآنی آیات کی تفسیر) اور علم کلام کے حقائق ومسائل میں جھگڑتے جارہے تھے،ایسامعلوم ہورہاتھاکہ ان دونوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے اپنے خیالات کے مقابلہ میں ان کی کوئی پرواہ ان کو نہیں ہے‘‘ (ہزارسال پہلے ص ۲۲۷)
اللہ عزوجل نے واضح لفظوں میں ارشادفرمایاہے یَااَیُّہاالذِّیْنَ آمَنُوالَاتَسْئَلوْاعَنْ أَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤ کُمْ ( المائدہ پ۷آیت ۱۰۰)اے ایمان والو!مت پوچھوایسی باتیں کہ اگرتم پر کھول دی جائیں توتم کو بری لگیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ترک مالایعنی ،فضول گوئی ،بکواس اورکثرت کلام سے منع فرمایاہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔انسان کی عمدہ خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کوترک کردے۔اسی طرح ایک موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے ارشادفرمایاتھاکہ میں تمہیں قیل وقال (بحث وتمحیص)سے،کثرت سے سوالات کرنے سے اورمال ضائع کرنے سے منع کرتاہوں۔
دین کی طلب،اسلامی تعلیم کی تڑپ،قرآن وحدیث کے علوم کے حصول کے لئے ہمارے اکابراہل اللہ کی کوششیں اورکاوشیں اپنی جگہ، اب ہم سے تو اتنابھی نہیں ہوتاکہ ان اکابرکے لکھے ہوئے علمی ذخیرہ کی قدر ومنزلت کرتے (۱)اس کی حفاظت وصیانت کی ہرممکن کوشش کرکے ان کے مطالعہ سے اپنی دنیاکوجگمگ اوراپنے اندرون کو روشن کرتے،اس کے برعکس ہماراحال یہ ہوگیاکہ ہم غیرضروری اورلایعنی بحثوں میں الجھ کررہ گئے،کسی کواس میں دلچسپی ہے کہ حضرت آدم اورحضرت حواعلیہماالسلام کے انتقال میں درمیانی وقفہ کتناہے؟کسی کو یہ فکردامن گیرہے کہ حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہمایاحضرت علی اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہمامیں سے کون حق پر؟کسی کوعصاء موسی اورعصاء سلیمان علیہم السلام کی تاریخی حیثیت معلوم کرنے میں دلچسپی ہے؟اس قسم کی خرافات اورفضول بحثوں پراپناقیمتی وقت صرف کردیاجاتاہے حالانکہ اگراس قیمتی وقت کودینی تعلیم اورمسائل کی تحصیل پرصرف کیاجائے تومعلومات کا قابل قدرذخیرہ ذہن نشین ہوجائے۔
غورکیجئے !ایک وہ اکابرتھے جنہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے مہینوں کا سفرطے کیا،راحلہ ختم،زادراہ ختم،سواری ختم ،توشہ ختم،سب کچھ ختم ہوجانے کے باوجودان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی ،کیونکہ ان کو اپنے زادراہ پربھروسہ تھاہی نہیں، ان کا سب سے بڑابھروسہ اللہ کی ذات والاصفات پر تھا سو اللہ نے ان کی کفایت اورکفالت فرمائی ،انھیں دینی علوم ومعارف سے مالامال فرماکراپنی کتاب اوراپنے نبی کی تعلیمات کارمزآشنابناکرہدایت وسعادت کی راہیں اورگرہیں ان کے لئے کھول دیں۔کسی نے سچ کہاہے
بقدرالکد تکتسب المعالی
ومن طلب العلا سہراللیالی
کسی اردوشاعرنے کیاخوب کہاہے
مٹادو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتاہے
اُس زمانہ میں دینی علوم کی تحصیل کس قدرمحنت طلب اوردقت ومشقت سے بھرپورہواکرتی تھی،غربت
(۱) ۱۲؍نومبر۲۰۰۹ء کو مظاہرعلوم کی طرف سے رضالائبریری رام پورکے ایک ورکشاپ میں شرکت کی غرض سے جانا ہوا،دوران قیام وہاں کی مشہور’’صولت لائبریری ‘‘دیکھنے کااتفاق ہوا، اس لائبریری کے رکھ رکھاؤ،کتابوں پر موجود گردوغبار، فرش کی گندگی،کتابوں کی بے ترتیبی،کبوتروں کے گھونسلوں اوران کی پھیلائی ہوئی گندگیوں،چھتوں میں شگاف کے باعث برساتی پانی سے ہونے والی سیلابی دیکھ کراوراس بدنظمی کی وجہ پوچھنے پرسرمایہ کی کمی کانامعقول کاعذرسن کربہت افسوس ہوااوردل نے گواہی دی کہ اگریہی بدنظمی برقراررہی تو چندسالوں میں ایک لاکھ کتابوں او رقیمتی مخطوطات سے مالامال اس لائبریری کانام صرف تاریخ اورکتابوں میں محفوظ رہ جائے گا۔اللہ تعالیٰ کارکنان وذمہ داران کو اس کی حفاظت کی توفیق عطافرمائے۔(ن م)
وعسرت ،فقروفاقہ اورتنگئی معاش کے ہزاروں قصے زبان زدہیں لیکن آج جب کہ الحمدللہ دولت کی ریل پیل ہے،آسودگی اورکشادگی کے مناظرہرسودیکھے جارہے ہیں،معاش ومعیشت اوراقتصادوتجارت میں خوب خوب ترقی ہورہی ہے ،اس فارغ البالی کاتقاضاتویہ تھاکہ ہمارے لئے حصول علم کے نئے باب واہوتے،عرفان الہی اورتعلیمات نبوی کے عمیق سمندرکو عبورکرکے اپنی تحقیقات غالیہ اورتصنیفات عالیہ سے علمی دنیامیں خوش آئندہیجان برپاکردیتے …لیکن… جوکچھ ہورہاہے وہ ہماری توقعات کے برعکس،ہمارے احساسات سے متضاداورہماری خواہشات سے ماورائ…ہمارے دینی تعلیمی ادارے نہ تورازی اورغزالی بنانے میں کوئی اہم کرداراداکررہے ہیں نہ ہی رفاہی اورخیراتی ادارے خیرالقرون کے عہدتاباں کی کوئی جھلک پیش کرنے میں کامیاب ہیں…ہماری عصری تعلیم گاہیں ڈگریوں اورسندوں کاپلندہ تھمانے میں توکامیاب ہیں لیکن اپنے فن کے ماہرین اوراپنے موضوع کے حاذقین دنیاکونہ دے سکے…اصلاح معاشرہ کے لئے وجودمیں آنے والی تنظیمں کسی بدعت اورفتنہ کو ختم کرنے سے پہلے خودہی فتنہ کی شکارہوکرتقسیم درتقسیم سے دوچارہوکرمعاشرہ کی نظروں میں اپنااعتماکھوچکی ہوتی ہیں…خدمت خلق کے صالح جذبہ سے سرشاراورکچھ کرگزرنے کا نیک جذبہ لے کرپیداہونے والی تحریکات چندمہینوں یاچندسالوں میں عنقاہوجاتی ہیں،دنیاکی قیادت اورعالم اسلام کی سیادت کاخواب دیکھ کربیدارہونے والے ،ضلالت اورذلالت کوحرف غلط کی طرح ختم کرنے کاعزم مصمم لیکرمیدان کارزارمیں کودپڑنے والے چنداصحاب عزیمت اورسپہ سالارپانی کے بلبلوں اورسمندری جھاگ کی طرح بیٹھ کرحالات کا رونارونے لگتے ہیں۔
آج طارق ؒبن زیادکاعزم ،نورالدین زنگی ؒکی بصیرت،موسی بن نصیرؒکی استقامت،صلاح الدین ایوبیؒ کاجذبہ،محمدبن قاسم ؒکاولولہ،سیداحمدشہیدؒکافکر،شاہ اسمعیل ؒشہیدکادرداورمحمودغزنویؒ،شیرشاہ سوریؒ اور شیرمیسور کے شاہین صفت ارادوں کاکوہ ہمالہ صرف اسی لئے سرنگوں ہوتاجارہاہے کیونکہ ہمارے دلوں سے ایمان کی عظمت،قرآن کی محبت،سول برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت اوراخیاراسلام کے اولوالعزمانہ کارناموں سے مجرمانہ غفلت ہماراطغرائے امتیازبن چکاہے۔
طبریؒ ورازیؒ ،غزالیؒ وسیوطیؒ،جوزیؒ وفارابیؒ ،اصمعیؒ وذہبیؒ ،عینیؒ ونوویؒ ،بخاریؒ وقرطبیؒ ،فارابیؒ وعسقلانیؒ ، بغدادیؒ واعرابیؒ ،تھانوی ؒوگنگوہی ؒ،دہلویؒ ونانوتویؒ ،سہارنپوریؒ ورائے پوریؒ یہ جتنے اہل علم وماہرین فن گذرے ہیںسبھوں نے حصول علم کے لئے خود کو فنا کرکے اور’’اَلْعِلْمُ لَا یُعْطِیْکَ بَعْضُہٗ حَتّٰی تُعْطِیْہِ کُلُّکَ ‘‘کو مد نظر رکھتے ہوئے محنت ومشقت اورقربانی وجانفشانی کی راہیں طے کیں،نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آسانیاں مقدر فرمادیں کیونکہ ان کے مجاہدے ،شب وروز کی محنتیں اوراللہ رحیم وکریم سے دعائیں اخلاص وعمل کی کسوٹی پر پوری اترتی تھیں ،آج ہم شاہراہِ معراج پر بکٹٹ دوڑنا چاہتے ہیں لیکن کسل مندی اورغفلت کی دبیز چادر ہم پر تنی ہوئی ہے ، موتیوں اورلعل وگوہر کی جستجو ہمیں بھی ہے لیکن بستروں اورنرم گدوں سے پیٹھ نہیں ہٹانا چاہتے ،غواصی نہیں کرتے ، بلندیوں کی طلب ہونے کے باوجود محنت ومشقت کا ہمارا مزاج نہیں بنتا ۔
ضرورت ہے کہ ہم افرادسازی پر اپنی توجہات مرکوزکریں،ہمارامطمع نظراپنی ذات سے دوسروں کو صرف اورصرف فائدہ پہنچانابن جائے،کیونکہ اس دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیزفائدہ پہنچانے کے لئے بنائی ہے،سورج کی تمازت سے کھیتیاں پکتی ہیں،چاندکی روشنی سے پھلوں اورپھولوں میں حلاوت پیداہوتی ہے،دریا اورسمندر کھیتیاں سیراب کرتے ہیں،زمین اپنی گودسے زرخیزی وشادابی لانے میں اہم کرداراداکرتی ہے،درخت اپنے سایہ،پھل اورلکڑی سے خدمت کرتے ہیں،حتی کہ پتھربھی اپنی نافعیت اورخدمت میں دوسروں سے پیچھے نہیں ہے، مکانوں کی تعمیرسے لے کرسڑکوں،پلوں اوردیگرتعمیری امورمیں اپنی خدمات پیش کرتاہے، دریااورسمندر سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں ،زیرزمین پانی کاقدرتی نظام ہمیں آسانیاں فراہم کرتاہے،اسی طرح پانی اپنی ہمہ گیر نافعیت کے علاوہ بجلی بھی پیداکرتاہے ،اس قسم کی ہزاروں لاکھوں چیزیں صرف اورصرف انسان کی خدمت پرمامورکی گئی ہیں جوابتدائے آفرینیش سے قیامت تک اپنی خدمات بہم پہنچاتی رہیں گی۔
کیاآپ نے کبھی غورکیاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہزاروں لاکھوں چیزیں ہماری خدمت اوراطاعت کیلئے کیوں بنائیں ؟کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ،اس کو مخلوقات میں سب سے اونچامقام اسی لئے دیاگیاہے تاکہ وہ اپنے رب کی ربوبیت کاقائل ہوکراپنے مقصدتخلیق پرتوجہ کرکے اورمنشاء الہٰی وماخلقت الجن والانس الالیعبدون پرکاربندہوکراللہ کی رضااورخوشنودی کا خوگرہواورجنت کی ابدی اورسرمدی نعمتوں سے لطف اندوزہوسکے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنامحاسبہ کریں!حضرت عمرفاروق ؓکاارشادگرامی ہے’’ حَاسَبُوْاقَبْلَ اَنْ تَحَاسَبوْا‘‘تم خوداپنامحاسبہ کرو قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارامحاسبہ کیاجائے اوراس سے پہلے کہ تمہیں پرکھا جائے تم خودپرکھ کردیکھ لو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ احتساب اورمحاسبہ کی تلقین فرمائی ہے چنانچہ ایک جگہ ارشادفرمایاہے کہ یَااَیُّہَاالذِّیْنَ آمَنُوْااتقوااللّٰہ ولتنظرنفس ماقد مت لغد (پ ۲۸)
اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو،بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبرہے۔
اہل اللہ نے عقلمندوں کیلئے چار ساعتیں مقررکی ہیں جن میں سے ایک ساعت محاسبہ نفس کی بھی ہے۔
حضرت عمرفاروقؓ! رات کو اپنے پیروں پرکوڑے مارتے تھے اور خودکو مخاطب کرکے فرماتے تھے کہ تو نے آج کیاکیاہے؟
حضرت غزوان نامیؒ ایک غازی کی نظرایک اجنبیہ پرپڑگئی تو اپنے منہ پرزوردارطمانچہ ماراکہ آنکھ پر ورم آگیااورآنکھ کو مخاطب کرکے فرمایاکہ تو ایسی چیزکی طرف دیکھتی ہے جوتیرے لئے مضرہے۔
ایک عارف کامل نے ایک اجنبی عورت سے گفتگوکرلی ،گفتگومیں محویت ایسی ہوئی کہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھ دیا،فوراًاپنی غلطی پر نادم ہوئے اوربطورسزااپناوہ ہاتھ آگ کے شعلوں پر رکھ کرجلایایہاں تک کہ وہ ہاتھ کوئلہ ہوگیا۔
جن مخلصین کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جڑاہوتاہے وہ لوگ مکائد شیطانی اورہوائے نفسانی سے محفوظ ومامون رہتے ہیں ،ایسے برگزیدہ نفوس اپنے ایک ایک سانس ،ہرہرقدم اورہر لمحہ وہرآن صادرہونے والے افعال واعمال کومحاسبہ کی کسوٹی پرجانچتے اور پرکھتے ہیں ،روحانی بیماریوں کاعلاج قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں ۔
حضرت میمون بن مہرانؒ نے عجیب بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومن اور متقی انسان اپنے نفس کا حساب ظالم بادشاہ اور بخیل شریک سے بھی سخت لیتاہے اوربندہ اس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے نفس سے اس طرح حساب نہ لے جس طرح تاجراپنے شریک تجارت سے کیاکرتاہے۔
محاسبہ،احتساب نفس،ہوائے نفسانی سے احتیاط واحتراز اوراپنی غلطیوں پر خودہی سزادینے کا مزاج بنانے والے انسان ہی دراصل مقربین میں شمارہوتے ہیں۔
اللہ والوں نے اپنے نفس اور خواہشات کو اپناغلام بنالیاتو عنداللہ سرخروہوگئے اورہم خواہشات کے غلام،نفس کے بندے اور شیطان کے آلۂ کارہوکرتباہ ہورہے ہیں۔
نفس کے تقاضوں پر مشتبہ لقمہ حلق سے اتارنے پر فاقوں کی سزاتجویزکرلینا،کسی پربری نظرپڑجائے تو آنکھوں کو بندکرکے سزادینا،برے کام کے لئے چلنے پر رک جانے کی سزاپیروں کودینااورہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری ،جواب دہی اورحساب وکتاب کااستحضاررکھنااللہ والوں کی عمدہ عادات وصفات کا عملی نمونہ ہے۔
چنانچہ حضرت جرجانی ؒ ہمیشہ ستو کھاتے تھے کہ روٹی کھانے اورچبانے پر وقت زیادہ ضائع ہوتا ہے اورذکراللہ کے لئے وقت میںکمی ہوتی ہے ،حضرت عتبہؓ سوکھا آٹا ہی کھالیتے تھے ،حضرت شقیق بن ابراہیمؒ کا نفس تیس سال سے حریرہ کھانے کو کہتا رہا لیکن نہیں کھایا ،حضرت مالک بن دینارؒ نے بھی نفس کی مخالفت میںچالیس سال دودھ نہیںپیا،حضرت احمد بن ابی الحواریؒ نے نمک کھانا ہی چھوڑدیا ،نفس نے ترکاری کی خواہش کی تو مالک بن منعمؒ نے چالیس دن کے لئے ترکاری کھانے کا ارادہ ہی ترک کردیا ،اسی طرح چالیس سال سے زائد عرصہ تک دودھ استعمال نہیں فرمایا ،حضرت داؤد طائی ؒ کے نفس نے خرماکی خواہش کی تو قسم کھالی کہ کبھی خرمانہیں کھاؤںگا ،حضرت موسیٰ بن رشتجؒ نے بیس برس تک نمک نہیں کھایا، حضرت احمد بن خلیفہؒ نے کبھی شکم سیر ہوکر پانی نہیںپیا،حضرت سری سقطیؒ کا جی چاہتا تھا کہ روٹی کو شیرہ اورانگور میں ترکرکے کھاؤں مگر تیس برس تک نہیں کھایا ۔
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ترک مالایعنی پر ایساعمل کیاکہ عقلیں حیران اورششدررہ جاتی ہیںچنانچہ منصوربن المعتمرؒنے عشاء کے بعد چالیس برس تک گفتگو نہیں فرمائی ، حضرت ربیع بن ہیثمؒ نے بیس سال تک کوئی کلام نہیں فرمایا ،حضرت حسین ؓ تیس برس نہیںہنسے ، حضرت عطاء سلمی ؒ چالیس برس نہیں ہنسے ،عبد الوہاب بن وراقؒ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا،حضرت حسن بصری ؒ چالیس سال تک نہ ہنسے ، حضرت سعید بن جبیرؓ کبھی نہیں ہنسے ، حضرت حسان بن سنانؒ نے ایک دریچے کی بابت معلوم کرلیا کہ یہ کب تعمیر ہوا ،فوراً تنبہ ہوا کہ لایعنی سوال کرلیا چنانچہ نفس کے لئے سزاتجویز کی کہ دو سال تک روزے رکھنا ہے اوراسی پر عمل کیا۔
جولوگ علمی ودینی ،تدریسی وتصنیفی ،دعوتی اوراصلاحی کام کرنے والے ہیں اورہروقت اپنے تھکنے کاشکوہ کرتے رہتے ہیں ان کے لئے یہ واقعات اورنظائر بصیرت افروزہوں گے کہ حضرت ابو محمد مریؒ اٹھانوے سال تک نہیں لیٹے ، حضرت عامر بن قیسؒ کبھی نہیں سوئے ،حضرت رابعہ عدویہ ؒنے پچاس سال شب وروز عبادت کی اور حضرت صفوانؒ نے چالیس برس تک بسترسے پیٹھ نہیں لگائی ۔
یہ حالات اورواقعات صرف اس لئے وجودمیں نہیںآئے کہ اللہ کے ان بندوں کویہ چیزیں غربت ومفلسی کی وجہ سے نہیں مل سکیں،ایسابھی نہیں تھاکہ اِن چیزوں کا حصول اِن قدسی نفوس کے لئے ناممکن تھا،حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اگرچاہتے تو آسمان سے سجے سجائے دسترخوان نازل ہوتے،من وسلویٰ ان کی غذائیں ہوتیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت کو نفس کی مخالفت کرنے والوں کے لئے بنایاہے ،اس لئے یہ طائفۂ خداوندی ہروقت اورہمہ وقت اللہ کے حضورمیں گریاں وبریاں رہتاتھا،دنیاوی لذات وخواہشات کی طرف ان کی توجہات نہیں ہوتی تھیں۔
حضرت مجمع ؒ نے ایک دن آسمان کی طرف نظر کی تو کسی بالا خانہ پرکوئی عورت نظر آئی فوراً توبہ کی اورقصد کرلیا کہ کبھی اوپر نہیں دیکھوںگا ،اخنف بن قیسؒ رات بھر چراغ جلاتے اوراپنی انگلی بتی پر رکھ کر نفس کو سزادیتے تھے۔
توبہ ابن الضمہ ؒرقہ میں تھے اوراپنے نفس کا محاسبہ کررہے تھے ،انہوں نے اپنی عمرکاحساب لگایاتو پتہ چلاکہ ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں،ساٹھ سال میں اکیس ہزارچھ سو دن ہوتے ہیں ،اس خیال سے کانپ گئے چیخ ماری اورکہا افسوس!میں شاہ حقیقی کے سامنے اکیس ہزارچھ سو گناہوں کے ساتھ ملاقات کروں گا،اور اگرہردن کے دس ہزارگناہ ہوئے تومیراانجام کیاہوگا؟پھروہ بیہوش ہوکرگرپڑے اوراسی حالت میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔
لوگوں نے ان کے انتقال کے بعدایک غیبی آوازسنی کہ کوئی کہہ رہاہے کہ اب فردوس بریں کی طرف لوٹ جاؤ!بندے کو اپنی سانسوں کا اسی طرح حساب لگاناچاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ اپنا کچھ وقت دنیوی کاموں کیلئے مخصوص کرلواورکچھ وقت اپنی آخرت کے لئے ۔
غورکیجئے !کیاہم اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں؟کیاہماراعمل سیرت وسنت کے مطابق ہے ؟ہم زمین کیلئے بوجھ تو نہیں ہیں؟کیاہماری ذات سے عمومی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچ رہاہے ؟کیاہماری شوکت وعظمت ہنوزقائم ہے ؟کیاہماری صفوں میں حقیقی علمائ،دینی راہنما،اسلامی قائدین ومفکرین اوربلندپایہ واعظین ومبلغین موجودہیں؟کیاعوام الناس کو ہمارے مرکزی اداروں اورمسلکی جماعتوں وتحریکوں سے فائدہ پہنچ رہاہے ؟ کیاہمارا بہترین دماغ ملک وقوم کی رہنمائی میں کامیاب ہے؟آج امت کو جن بنیادی مسائل میں ہماری قیادت کی ضرورت ہے کیااس میں ہم سوفیصدکامیاب ہیں؟اورکیااسلام اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کو واپس لانے میں ہماراکوئی اہم مثبت کردارقوم کے سامنے ہے؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی