فری میسن یہودی سازش

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
[=x-large]
فری میسن یہودی سازش
حقیقت کے آئینہ میں
ترتیب وتحقیق:مفتی ابولبابہ شاہ منصور
حا شیہ:مفتی مہربان علی شاہ بڑتوی
پیش کش: ناصرالدین مظاہری​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط(۱)
یوں تومسلمان روزاول سے کفارکی عداوت ،مخاصمت اورسازشوں کے شکار رہے ہیں ،عالم کفرانفرادی اوراجتماعی طورپر اسلام کے روشن چراغ کو بجھانے کی فکر میں رہا ہے ، یہودی ہوں یا عیسائی ، مشرک ہوں یا مجوسی ، دہریے ہوں یا ملحد کسی نے اللہ کے بھیجے ہوئے سچے دین کو مٹانے کی کوشش میں کسر نہیں نہیں چھوڑی ہر ایک نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسلام اورمسلمانو ں کو فکری ،جسمانی ، مالی ،روحانی ہر اعتبارسے گزند پہنچانے کی اپنی کوشش کی لیکن موجودہ دورمیں دو فرقے ایسے ہیں جنہو ں نے اسلام دشمنی میں اپنے پیش روؤں کو پیچھے چھوڑدیا ہے اوراس سلسلے میں ان کی چالوں اورسازشوں نے شیطان کے مکروفریب کو بھی مات کردیا ہے یہ دوفرقے یہود اورہنود ہیں،مسلمان آج کل جس گھمبیرصورت حال سے دو چار ہیں ان کے پیچھے ا ن ہی دونوں قوموں کے خفیہ ہاتھ کی کارفرمائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،اس تناظر میں اس بات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاد پیداکریں،اسلام کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اوران کے طریق کار کو سمجھیں…زیر نظر مضمون میں نہایت عرق ریزی سے اس کے بارے میں خفیہ ترین معلومات جمع کی گئی ہیں مسلم معاشرے میں ان کے اثر ونفوذان کے کام کرنے کے طریق کار ، ان کے مکر وفریب اورعیاری ومکاری کا پردہ چاک کیا ہے ۔
امید ہے کہ یہ مضمون معلومات افزااوربصیرت افروزثابت ہوگا اس کو پڑھ کربہت سوں کی آنکھیں کھل جائیں گی اورانہیں ہوش میں آنے اوراپنا مقصد زندگی متعین کرنے میں مدد ملے گی ۔
آئینۂ مظاہرعلوم کے مقاصدمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانان عالم کواسلام دشمن تحریکات اورسازشوں سے آگاہ وروشناس کرکے بیدارکیاجائے اورانھیں اسلامی تعلیمات کا خوگربناکردین کے صحیح اسلامی خطوط کی رہنمائی کی جائے۔
اس مقصدمیں ہمیں کہاں تک کامیابی ملی ہے اس کا فیصلہ تو قارئین فرمائیں گے البتہ ہمیں صرف اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ان صفحات کے ذریعہ قارئین تک اسلام دشمنوں کی خفیہ سازشوں کی اطلاعات پہنچاکر ان سے امیدکرتے ہیں کہ وہ خودبھی ان سازشوں سے بچیں اوردوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔
مفتی ناصرالدین مظاہری
مدیرماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم سہارنپور

فری میسن کیا ہے ؟
یہودی تحریکوں ،تنظیموں ،اداروںاورحلقوں کا بالتفصیل ذکر درکنار سرسری ذکر بھی ایک نشست میں ممکن نہیں ،لہٰذاتمام سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک تحریک کا ذکر کیا جاتا ہے جو ان تمام میں سب سے زیادہ مؤثراورسب سے زیادہ خطرناک ہے یہ تحریک ہے انٹر نیشنل فری میسنری یعنی ’’بین الاقوامی ‘‘فری میسن تحریک (INTER NATIONAL FREE MASONIRY)انٹرنیشنل فری میسنری سے مرادکوئی ایک تحریک یا تنظیم نہیں اس نہج پر دنیا میں سینکڑوںبل کہ ہزاروں تحریکیں،تنظیمیںاورحلقے قائم ہیں ،فری میسن تحریک سرتاپاخفیہ تحریک ہے اس کا اصل دائرہ کار اعلیٰ طبقات ہیں ،بادشاہان ،شہزادے ، امراء موجودہ جمہوری نظام میں صدر مملکت، وزیراعظم ، فوجی افسران ،بڑی مذہبی شخصیتیں،بڑے تاجر اورصاحب اثر لوگ ان کے خاص ہدف ہوتے ہیں ، ہر ایک میں اس کے مراکز ہیں جو لاج کہلاتے ہیں ، مختلف آزمائشوں(TESTS)گزرنے کے بعد ہی کسی کو لاج کا مستقل رکن بنایاجاتا ہے ، اس رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں ہر ڈگری کی رکنیت کے لئے کچھ شرائط ہیں اورہرڈگری کارکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے ربط ضبط رکھ سکتا ہے اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیاجاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگری کے رکن کے مقاصداورخفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا ، اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے ، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گذری ہو،انتہائی خفیہ اوررازداری میں رکھے جاتے ہیں ۔
اس تنظیم کا طریقۂ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کرنا بہت مشکل ہے ، لاجوںکی روئدادیں غیر معمولی طورپرخفیہ اورانتہائی رازداری میںرکھی جاتی ہیں اوران کے اراکین کے علاوہ کسی اورکو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی ۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کرکے یکجا کی جاسکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کو ڈ میں بات چیت کرتے ہیں اوروہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اورخفیہ الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں ، حدیہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروزرے کھٹکھٹانے کا بھی ان کا ایک مخصوص انداز ہے اوریہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کرلیتے ہیں اگر کوئی فر ی میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیںہوتی ، سوشل اجتماعات ، جلسوںیا تقریبات میں مختلف ملکوںمیں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اوربغیر کوئی لفظ منھ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہچان جاتے ہیں ،مثال کے طورپر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہاجاتا ہے اگر کسی اجنبی ماحول میں کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اورکتنے افراد موجود ہیں یا کسی اجنبی ماحول میں وہ خود اپنی شناخت کرانا چاہے تو وہ صرف اپنی انگلیاں اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوںسے مثلث بنائے اوردوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن ایسی ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فوراً شناخت کرلیں گے اورانہیں ایک دوسرے سے متعارف ہونے کیلئے کوئی لفظ منھ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔
فر ی میسن عام طورپرملک کے اعلیٰ افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان اورعہدیداروں کو ،رکن بننے کیلئے کسی خاص رنگ ، مذہب ،نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کورکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اوراس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے ۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ،برادری کے اراکین کے درمیان زبردست جذبہ ،محبت اورہمدردی پیدا کردیا جاتا ہے ،محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لئے اس کا حقدار بنادیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کے مقابلے میں جلدی ترقی ملے ، یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین میں صرف ایک آدھ یہودی ہویا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہود ی نہ ہو ں لیکن اس کی تنظیم اس طرزپر کی گئی ہے کہ بالآخرعالمی صہیونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہے ۔
کسی خفیہ تنظیم کی مطلق العنانی ، جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے ، پس پردہ کام کرنے کی وجہ سے زیادہ بے ضمیر ہوتی ہے ،یہ تنظیم خود پس پردہ رہ کر اپنے گماشتوں کے ذریعہ کام چلاتی ہے جنہیںحسب ضرورت تبدیل کیا جاسکتا ہے ، ان کے چہرے بدلنے سے تنظیم کو نقصان کی بجائے الٹا فائدہ ہوتا ہے ، مستقل تبدیلیاںکرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو منظر سے ہٹاکر وسائل میں اضافہ کرنے کے لئے دوسروں کو ان کی خدمات کے معاوضہ کے طورپرلے آیا جاتا ہے ۔
ایسی قوت کو جو نظر ہی نہ آتی ہو شکست دینا کافی مشکل ہے ، اس تنظیم کی قوت بعینہٖ یہی ہے ۱؎، فری میسن کے غیر یہودی افراد جنہیںعلم ہی نہیں ہوتا کہ کس کے کام کررہے ہیں ، اپنی لا علمی کی وجہ سے ، اندھوں کی طرح یہودیوں اوران کے مقاصد کی پردہ پوشی کرتے ہیں ، اس تنظیم کے علمی منصوبے ، یہاں تک کہ تنظیم کے مستقرکا محل وقوع تک ان لوگو ں کے لئے ایک نامعلوم سربستہ معمہ ہی رہتا ہے ۲؎۔
۱؎ : ضعف ایمان جہاں ہوگایہ شیطانی قوت غالب آتی نظرآئے گی ،حق تعالیٰ نے ایسی غیر مرئی قوتوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے یبنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواٰتھما انہ یرٰکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم ۔ انا جعلنا الشیٰطین اولیاء للذین لا یومنون ۔(ترجمہ ) اے اولاد ِ آدم کی نہ بہکائے تم کو شیطان جیسا کہ اس نے نکالدیا تمہارے ماں باپ کی بہشت سے اتروائے ان سے ان کے کپڑے تاکہ دکھلائے ان کو شرمگاہیں ان کی وہ دیکھتا ہے تم کو اوراس کی قوم جہاں سے تم نہیں دیکھتے ، ہم نے کردیا شیطانوں کو رفیق ان لوگوں کا جو ایمان نہیں لائے ۔
۲؎ : یہ لوگ آپس میںایک دوسرے کے لئے بھی شیطان ہیں ۔
اغراض ومقاصد اورطریقہ کار
اب ہم یہاں فری میسن تنظیم کے اغراض ومقاصد اورطریق کار کے متعلق خودیہودیوں کی مرتب کی ہوئی ایک خفیہ ترین دستاویزسے اقتباسات پیش کرتے ہیں چوں کہ یہ دستاویزات انتہائی اہم ہیںاورآئندہ اس مضمون میں ان کا جابجا حوالہ دیا جائے گا ،اس لئے آگے بڑھنے سے پہلے ان کے مکمل پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ہماری قارئین کرام سے درخواست ہے کہ جہاں بھی ان دستاویز ات کا حوالہ آئے اس کو عام تحریر سمجھ کر نہ پڑھا جائے ان کے مندرجات بہت غور وفکر اورتجزیہ کے متقاضی ہیں ان دستاویزات کے مضمرات سمجھنے کے لئے انہیں باربار پڑھنے کی ضرورت ہے ،یہودیوں کے بہترین ۱؎دماغوںکی مرتب کی ہوئی ان خفیہ دستاویزات کو ۱۸۹۷ء میں اس کو سوئزرلینڈکے شہر باسل (BASLE)میں پہلی عالمی یہودی کانگریس کے موقع پر مرتب کیا گیا ، اس کانگریس میں یہودی مفادات کے لئے ساری دنیا میں تخریب کاری ،انقلابات، ارتکازدولت اوراسی قسم کے دوسرے منصوبے ترتیب دئے گئے ، ان منصوبوںکے رہنما خطوط تفصیلات مرتب کرکے ضبط تحریر میں لائی گئیں اوراس پران نمائندوں نے دستخط ثبت کئے ،اس کی نقول صرف یہودیوں کی سربرآوردہ شخصیات کو محدود تعداد میں تقسیم کی گئی تھیں لیکن خوش قسمتی سے ان دستاویزات کی ایک نقل ایک گھریلوملازمہ نے یہودیوںکی خفیہ تنظیم فری میسن کی ایک اعلیٰ خاتون کے ہاںچوری کرکے ایک روسی پادری سرجی نائلس کے حوالے کردی ، یہ مسودہ غالباً عبرانی زبان سے روسی زبان میں ترجمہ کیاگیا تھا ، پروفیسرسرجی نائلس نے جب اسے پڑھا تو اس بھیانک سازش کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد اس کے ہوش اڑگئے اور سازش کو طشت از بام کرنے کے لئے اس نے ضروری سمجھا کہ اسے کتاب کی شکل میں چھپواکر تقسیم کیا جائے ۔
اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کا ایک نسخہ ۱۹۰۵ء میں برنش میوزیم میں پہنچا روس میں مارننگ پوسٹ کا نمائندہ وکٹر،ای ،مارسڈن روس میں سزا بھگتنے کے بعد لندن پہنچا تو اس نے برٹش میوزیم والے نسخے کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ۔
یہاں جو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے یہ اسی انگریزی کتاب کا ہے ، اس کتاب کے سلسلے میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جوں ہی یہ شائع ہوتی ہے ،بازارسے غائب ہوجاتی ہے ، روس میں بالشویک انقلاب آنے کے بعد اس کتاب کی مانگ بہت بڑھ گئی تھی اوراس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ، جرمنی کے ڈکٹیٹرہٹلرنے بھی اسے کئی زبانوںمیں شائع کرایا لیکن یہودیوںنے کبھی بھی اسے زیادہ عرصے بازار میں نہیں رہنے دیا ۔
۱؎ :تعجب ہے تخریب کاردماغوں کو بہترین سمجھ لیا ، بدترین لکھنا موزوں تھا ،ہاں تحقیراً بہترین کا استعمال کیا ہوگا تاہم انداز سے بھی خوف زدہ نہیں کرنا چاہیے ۔
پروفیسرسرجی نائلس کی رائے میں یہ دستاویزات کسی جلسے کی روداد نہیں ہیں بلکہ یہ یہودیوں کے کسی سربرآوردہ شخص کی یادداشتیں ہیں اوریادداشتوں کے کچھ حصے یا تو اتفاقاً ضبط تحریرمیں آنے سے رہ گئے ہیں یا عملاً حذف کردئے گئے ہیں ، جنوری ۱۹۱۷ء میں نائلس نے اس کتاب کا ایک اورایڈیشن شائع کرانا چاہاتھا لیکن قبل اس کے کہ یہ بازار میں آتا ، مارچ ۱۹۱۷ء میں بالشویک انقلاب آگیا اوربالشویک حکومت نے اس کی ساری جلدیںجلوادیں، نائلس کو گرفتار کرکے اول حوالہ زنداں کیاگیا اوربعد میں اسے جلاوطن کردیا گیا جہاںولاڈیمیر میں وہ ۱۳؍جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پاگیا ۔
طبع شدہ کتابی شکل کے علاوہ ان دستاویزات کی ٹائپ شدہ نقول بھی تقسیم ہوتی رہیں اورخفیہ طورپر پڑھی جاتی رہیں ، ا ن ہی نقول میں سے باریک کاغذپر چھپی ہوئی ایک نقل روسی بندرگاہ ’’ولاڈیوسٹک‘‘کے راستے اگست ۱۹۱۹ء میں امریکہ پہنچی ، نائلس کے خیال میںیہ منصوبہ اسلام اورنصرانیت کے خلاف ایک سازش تھا لیکن ان دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ یہ سازش صرف اسلام یا نصرانی مذہب وتہذیب کے خلاف ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب اورتہذیبوں کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے ،بعد کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں جو بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے وہ اس نہج پر ہوئے جس کا راستہ خفیہ یہودی تنظیم نے پہلے سے متعین کردیا تھا وہ عالمی جنگیں ہوں یا معاشی بحران ، انقلاب ہوں یا قیمتوں میں اضافے یا و ہ عالمگیر بے چینی جس کاشکاراس وقت دنیا کے سارے ممالک ہیں ،ان سب باتوںکی پیش گوئی ان دستاویزات میں کردی گئی ہے ۔
یہ دستاویزات جو تعداد میں۲۴؍ہیں ان منصوبوں کا خلاصہ ہیں جو برسوں کی کاوش کے بعد یہودیوں کے بہترین دماغوں نے ترتیب دئے ہیں اورجن لوگوں کے لئے انہیں یادداشت کے طورپر قلم بند کیاگیا ہے وہ خود بھی یہودی قوم کے اہل علم ودانش ہیں جنہیں سمجھانے کے لئے صرف اشاروں پر اکتفاکیا گیا ہے اورتفصیلات میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ،کہیں کوئی ضمنی حوالہ دے دیا گیا ہے اورکہیں صرف ایک آدھ لفظ کااستعمال کافی سمجھاگیا ہے جو کسی غیر یہودی کے لئے معمہ معلوم ہوتا ہے ،امرواقعہ یہ ہے کہ عام یہودیوں کیلئے بھی جنہیں اس خفیہ سازش میںشریک نہیں کیا گیااس منصوبہ کے مضمرات ناقابل فہم ہی ہوں گے ۔
ان دستاویزات کو یادداشت یا حوالہ کے طورپرضبط تحریر میں لایا گیا تھا تاکہ یہ یہودی اہل دانش کے فکر وعمل کی معینہ خطوط پر رہنمائی کرسکیں لہٰذاانہیں بارباراور غورسے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔
فری میسن ،خفیہ یہودی دستاویزات کی روشنی میں
ذیل میں ان دستاویزات کا وہ حصہ پیش کیا جاتا ہے جو اس تنظیم سے متعلق ہے ،ہم فری میسن لاجوں کو دنیا کے تمام ملکوںمیں قائم کرکے ان کی تعداد میں اضافہ کریں گے ان لاجوںکا رکن ان لوگوں کو بنایا جائے گا جو سرکاری اداروں میں ممتاز عہدوںپر فائز ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے یہ لاج جاسوسی کے لئے اہم ترین کردار ادا کریں گے اوررائے عامہ کو متاثر کریں گے ان تمام لاجو ں کو ہم ایک مرکزی تنظیم کے تحت لے آئیںگے اوراس کا علم صرف ہمیں ہی ہوگا دوسرے اس سے واقف نہیں ہوسکیں گے یہ مرکزی تنظیم ہمارے دانا بزرگوں پر مشتمل ہوگی لاجوں کے اپنے نمائندے ہوں گے جو متذکرہ بالا مرکزی تنظیم کے لئے پردے کا کام کریں گے مرکزی تنظیم نصب العین ظاہر کرنے والے لفظ (WATCH WORD)اورلائحۂ کارجاری کرے گی یہ لاج وہ بندھن ہوں گے جو تمام انقلابیوںاورآزادخیالوںکو ایک دوسرے سے منسلک کردیں گے ا ن میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہوگی ،انتہائی خفیہ سیاسی سازشوںکا علم صرف ہمیں ہوگا اورجس روز اس سازش کا ذہنی خاکہ مرتب کیا جائے گا اسی وقت سے اس پر ہماری رہبرانہ دسترس ہوگی لاج کے اراکین میں تمام بین الاقوامی اورقومی پولیس کے اہلکارہوں گے ہمارے کام کے لئے پولیس کی خدمات بے بدل ہیں چوں کہ پولیس اس حیثیت میں ہوتی کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ما تحتوں سے مخصوص کام لینے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ ہماری کارگزاریوں کے لئے ایک پردہ بن کر عوام کے عدم اطمینان اوربے چینی کی وجوہات بھی گھڑسکتی ہیں ۔
عوام کا وہ طبقہ جو ہماری خفیہ تنظیم میںشامل ہونے پر خوشی سے آمادہ ہوجاتا ہے وہ ہے جو محض اپنی بذلہ سنجی کے زورپر زندہ رہتا ہے یہ پیشہ ورعہدے دار ہوتے ہیں عام طورپرایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذہنوںپر خواہ مخواہ بوجھ نہیں ڈالتے ان لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی ان لوگوں کو ہم اپنی ایجاد کردہ مشین میں چابی دینے کے لیے استعمال کریں گے اگر دنیا میں کہیں ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ عوام کے اتحاد میں دراڑڈالنے کے لیے تھوڑا سا جھنجھوڑنا پڑا ہے لیکن اگراس دوران میں کوئی جنم لیتی ہے تو اس کا سربراہ سوائے ہمارے کسی گماشتے کے اور کوئی نہیںہوسکتا چوں کہ صرف قدرتی طور پر ظاہر ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی دوسرا فری میسن سرگرمیوں کی سربراہی کا اہل نہیں ہوسکتا چوں کہ صرف ہمیں ہی اس کاعلم ہے کہ کدھر جانا ہے ہم ہی ہر سرگرمی کی منزل مقصود سے واقف ہیںجب کہ غیر یہودی اس سے قطعی نابلد ہیں وہ تو یہ تک نہیں جانتے کہ کسی عمل کا فوری رد عمل کیا ہوگا عام طور پر ان کے مد نظر ذاتی انا کی وہ وقتی تسکین ہوتی ہے جو انکی رائے کے مطابق نتائج حاصل کرنے پر ملتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کا بنیادی خیال ان کی اپنی اختراع نہیں تھا بلکہ یہ خیال ہم نے ان کے ذہن میں پیدا کیا تھا ۔
غیر یہودیوں میں،لاجوں میں شامل ہونے کا محرک یا تو ان کا جذبہ تجسس ہوتا ہے یا یہ امیدکہ وہ حکومت کے خوان نعمت سے خوشہ چینی کرسکیںگے کچھ لوگ اس لیے شامل ہونا چاہتے ہیں کہ حکومت کے عہدے دار وں میں ، ان کے ناقا بل عمل اور بے سروپا خیالی منصوبوں کو سننے والے سامعین مل جائیں گے وہ اپنی کامیابی کے جذبے اورتعریف کے ڈونگے بر سوانے کے بھوکے ہوتے ہیں۱؎ اور یہ کام کرنے میںہم بڑے فراخدل واقع ہوئے ہیں ہماری ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہم ان کی اس خود فریبی کو جس میں وہ اس طرخ مبتلا ہوتے ہیں استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کی یہ بے حسی ،انہیں ہماری یہ تجویزی غیر محتاط انداز میں قبول کرنے پر مائل کرتی ہے اوروہ بزعم خود پورے اعتماد کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خود ان کے منزہ عن الخطاء نظریات ہیں جو ان کے الفاظ میں جلوہ گرہورہے ہیں وہ اپنے طورپر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اورکا اثر قبول کریں آپ اس کااندازہ نہیں کرسکتے کہ غیریہود کا ذہین ترین آدمی بھی خود فریبی کے جال میں پھنس کر کس حدتک غیر شعوری سادہ لوحی کا شکار ہوسکتا ہے اوراس کے ساتھ ہی اسے ذراسی ناکامیابی پر بد ل کیاجاسکتا ہے خواہ اس کی ناکامیابی کی نوعیب اس سے زیادہ کچھ نہ ہوکہ اس کی تعریف میں ذراسی کمی کردی جائے جس کاوہ عادی ہوچکا ہے اسے دوبارے کامیابی حاصل کروالے کے لئے غلاموں کی طرح فرمانبرداربنایا جاسکتا ہے اگر ہم ان کے منصوبوںکی کامیابی حاصل کروانے کے لئے غلاموں کی طرح فرمانبرداربنایا جاسکتا ہے اگر ہم ان کے منصوبوں کی کامیابی سے صرف نظر کرنا شروع کریں تو غیر یہودی اپنی تعریف سننے کے لئے اپنے کسی بھی منصوبے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے ان کی یہ نفسیاتی کیفیت ہمیں ان کا رخ حسب دل خواہ سمت میں موڑنے میں ہمارا کام عملی طورپر آسان کردیتی ہے یہ جو شیر نظر آتے ہیں ان کے سینوں میں بھیڑکا دل ہے اوران کے دماغوںمیں بھوسہ بھرا ہوا ہے ۔
موت سب کا لابدی انجام ہے ہم جو اس منصوبے کے بانی ہیں اپنا انجام قریب لانے کے مقابلے میں یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کا انجام قریب ترلے آئیں جو ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں ہم فری میسن کے اراکین کو اس طرح ختم کردیتے ہیں کہ سوائے ہماری برادری کے کوئی کبھی بھی اس پر شبہ نہیں کرسکتا حد یہ ہے کہ جن کے نام موت کا پروانہ جاری ہوتا ہے وہ تک شبہ نہیں کرسکتے جب ضرورت ہوتی ہے تو ان کی موت بالکل اسی طرح واقع ہوتی ہے گویا وہ کسی عام بیماری میں مرے ہوں یہ معلوم ہونے کے بعد برادری کے اراکین تک احتجاج کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے یہ طریقے استعمال کرکے ہم نے فری میسن کے درمیان سے ، اپنے اختیار کے استعمال کے خلاف احتجاج کی جڑیں تک نکال پھینکی ہیں ۔(پندرھویںدستاویز،فری میسن کا مقصد اورسمت ص :۳۷)
(جاری )

۱؎ : قرآن کریم میں خو د یہودیوں کا یہ عیب ’’ویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا‘‘سے واضح کیا گیا ہے
۔



فری میسن یہودی سازش
حقیقت کے آئینہ میں

ترتیب وتحقیق:مفتی ابولبابہ شاہ منصوری ٭٭٭حا شیہ:مفتی مہربان علی شاہ بڑتویؒ​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط 2
فری میسن سے متعلق چندمشہورشخصیتیں
ماضی قریب میں وہ بڑے لوگ جن کے بارے میں متعین طورپر یہ معلوم ہے کہ وہ فر ی میسن تحریک کے سرگرم کارکن تھے ان میں ترکی کے مصطفی کمال پاشا ،ایران کے آخری شاہ رضا پہلوی ،مصر کے صدر جمال عبد الناصر اورایران کے وزیر اعظم امیر عباس ہویدا اہم ہیں ، اس کے علاوہ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں،مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پوررضا علی خاں،اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈورشپ فل ماسٹر تھے ، اسی طرح مصرکا ایک اورصدر انورسادات ایک مشہورفری میسن تھا اس کی بیوی جہاں سادات ایک معززیہودی عورت تھی اس خاتون کی یہودیوںمیں عزت اورتوقیر کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ جب عالمی یہودی کانگریس میں دو بڑے مذہبی طبقوںمیں اختلاف رونما ہواتو اسے ثالث قرار دیا گیا ، یادش بخیرعظیم فلسطینی مجاہد یاسر عرفات (مرحوم)کا فری میسن ہونا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اس کی بیوی بھی ایک مشہوریہودی عورت (یہودی مفادات کی تکمیل کے بعدجب یہودیوں کویاسرعرفات کی ضرورت نہیں رہی تواسی حرافہ کے ذریعہ عجیب وغریب زہردلواکرماردیاگیا)
شراب دشباب کے ذریعے کام لینا یہودیوں کا مخصوص اور کارگرطریقہ ہے ،یہودیوں کے دانا بزرگوںکی مرتب کی ہوئی دستاویزات کا یہ پیراگراف پڑھئے ۔
’’آپ نشے میں بدمست ان جانوروںکو دیکھتے ہیں ، ان کا دماغ نشے کی وجہ سے مختل ہوجاتا ہے ان کی آزادی نے انہیں اس بسیار نوشی کی اجازت دی ہے ہمارا طریقہ یہ نہیں ہے اورہمیں اس راہ پر نہیںجلنا چاہیے ، غیریہودی افراد شراب کے نشے میںاپنے حواس کھوبیٹھتے ہیں ان کے نوجوان قدامت پرستی ، فسق وفجوراور بدکرداری کی وجہ سے غبی اورکند ذہن ہوچکے ہیں ہم نے اپنے مخصوص گماشتوںکے ذریعہ انہیں اس راہ پر لگایا ہے یہ کام مدرسین کے ذریعہ اپنے کاسہ لیسوں کے ذریعہ ،امراء کے گھروں میں کام کرنے والی خادماؤں کے ذریعہ اوراپنی لڑکیوںکو عیاشی کے ان اڈوںمیں داخل کرکے جہاںغیر یہودیوںکی عام طورپرآمدورفت ہے کروایا گیا ہے مؤخر الذکر گروہ میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیںسبھا کی پریاں(SOCIETY LADIES)کہاجاتا ہے یہ خواتین بدکاری اورعیاشی میں دوسروں کی رضاکارانہ تقلید کرتی ہیں‘‘۔ (پہلی دستاویزص :۸۲)
فری میسن سے منسلک چندمشہورتحریکیں
مسلمانوں میں چند تحریکیں اورتنظیمیںایسی ہیں جو یا تو براہِ راست یہودی تنظیمیںہیں یا ان سے منسلک اوران کی ایجنٹ ہیں ان میں قادیانی ، بہائی اوراسماعیلی خاص طورپر قابل ذکر ہیں ، ذیل میں ان کا مختصرتذکرہ کیا جاتا ہے ۔
قادیانی
قادیانیت کے سلسلے میں زیادہ عرض کرنا چنداںضروری نہیں دنیا بھر کے مسلمان جانتے ہیں کہ اس زہریلے پودے کی کاشت ہی انگریزیہودیوں نے اس لئے کی تھی کہ اس کے بدبودارزہر سے اسلام اورمسلمانوں کو نقصان پہنچایاجائے تاہم تین باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر بطورخاص کیاجانا چاہیے ۔
(۱) ہندستان میں بٹالہ کے نزدیک واقع قادیان اورپاکستان میں ربوہ کے بعد ان کا سب سے منظم مرکز اسرائیل کے شہر ’’حیفا‘‘میں ہے اس وقت بھی جب اسرائیل میں مسلمانوں کا رہنا دو بھر ہے قادیانیوں کو اسرائیل میں کام کرنے کی پوری آزادی ہے ۔
(۲) کمیونسٹ روس میں جہاں کسی کا اعلانیہ مسلمان رہنا موت کو دعوت دینا تھا اورجہاں لینن سے لیکر ہر رعنیف کے دورتک کروڑوں مسلمان شہید کئے گئے ،انقلاب روس سے اب تک قادیانیت کو کام کرنے کی پوری آزادی رہی ۔
(۳) جنگ خلیج کے بعد دنیا میں جو سٹیلائٹ چینل کا موصلاتی انقلاب برپا ہوا ہے اورمواصلاتی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے مغرب نے عالم اسلام پر مواصلاتی یلغار کردی ہے تاکہ ساری اسلامی دنیا کو مغربی ثقافت کے رنگ میں غرق کردیا جائے ایسی حالت میں ۱۹۹۲ء کے اواخر میں سب سے بڑی مراعات قادیانیت کو دی گئیں تاکہ وہ وسطی ایشیاء کے تمام ملکوں میں اپنے خیالات وعقائد مصنوعی سیارچوںکے ذریعے پھیلائے اورمسلمانوں کو اسلام کی طرف لوٹنے سے باز رکھ سکے ۱؎۔
بہائی
جہا ں تک بہائیت کا تعلق ہے تو وہ گویا شیعوں کے قادیانی ہیں ،سید علی محمد المعروف بہ باب (پیدائش ۱۸۱۸ء ) سے لے کربہاء اللہ (پیدائش ۱۸۱۷ء )عبد البہا(پیدائش ۱۸۴۴ء )تا ایں وقت ان کی پوری تحریک
اسلام کے انہدام کے لئے تھی ، ان کا قبلہ مشرق الاذکارکہلاتا ہے اسرائیل میں کوہ کرمل میں واقع ہے یہ بات
۱؎ : چھوٹی اوربہت موٹی بات پر غورکرلیا جائے کہ قادیانی تنظیم کسی ہندو، سکھ ،عیسائی ،یہودی غرض کسی غیر مسلم کو قادیانی اسلام کیوں پیش نہیں کرتے ، ان کی پوری محنت اورتوجہ کا مرکز غریب مسلمان ہی کیوں ہیں ؟
قابل ذکر ہے کہ بہائیت کے ابتدائی مویدین میں روسی یہودی نواز ادیب نا بسٹائی اہم ہے اس کے لئے دیگرمغربی مویدین میں ملکہ رومانیہ لیڈی مارتھا بادشاہ ڈنمارک ،شہزادہ اولگا،مارتھا،روتھ ڈوروتھی بیچہ، ایملیا، کیلنس،لواگیٹ سنگر، تھوربورن ،کروپر،لیڈی ،بلوم فیلڈدرسارافارمرجیسے مرد وخواتین رہے ہیں۔
اسمٰعیلی
شیعوں میں اسمٰعیلی سب سے بڑھ کر ان کے آلۂ کاراورمددگار ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے روابط حسن علی شاہ آغا خا ں اول کے زمانہ امارت میں ۱۸۲۴ء کے بعد از سر نو استوار ہوئے یہ وہی زمانہ ہے جب انہیں کرما ن کی گورنری کا عہدہ چھوڑنا پڑا جہاں وہ محلات (اصفہان)چلے گئے واضح ہوکہ اصفہان یہودیوںکا ایک بڑا مرکزرہا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہودیوں کی وساطت سے حسن علی شاہ کو ہندستان میں برطانوی عمل داری میں پناہ ملی یہ ۱۸۴۲ء کی بات ہے ہندوستان میں جتنے کم عرصہ میں آغا خاں جیسے غیر ملکی کو عروج مقبولیت اوررسوخ حاصل ہوا وہ شایدہی کسی کو ہوا ہوگا ،حسن علی شاہ کے بعد اس کے بیٹے علی شاہ (متوفی ۱۸۸۵ء )اورپھر اس کے بیٹے سر سلطان محمد آغا خاں کو جیسا رسوخ حاصل ہوا ہے وہ بیان سے باہر ہے ایسا لگتا ہے کہ سلطنت ِ برطانیہ کی پوری وسطی ایشیاء کی پالیسی آغا خاں اول ،دوم وسوم اوراب چہارم کے تعاون سے چلتی رہی ہے شاید ہی کسی شخص کو اتنا نوازا گیا ہو مثلاً سر سلطان محمد آغا خاں(پیدائش ۱۸۷۷ء )کو ۱۸۹۸ء میں (KCIE)۱۸۰۳ء میں(C.C.I.E.)اور۱۹۲۳ء میں (GCNO)کے خطابات دئے گئے کسی مذہبی شخصیت کو پہلی بار سلطنت برطانیہ نے فرسٹ کلاس چیف مع گیارہ توپوںکی سلامی سے نوازا ہے ،تعجب تو یہ ہے کہ وہ ۱۹۰۶ء میں ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے سیاہ وسفیدکے مالک ہوگئے اور۱۹۳۰ء میں ہندوستانیوں کے تمام طبقات کی طرف سے متفقہ طورپر گول میز کانفرنس میں نمائندہ قرار پائے ،مسلمانوں کی سادگی سمجھ میں آنے والی بات ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان کی نمائندگی پرنہ تو سلطنت برطانیہ کو اعتراض تھا نہ مہاتما گاندھی جیسی سیاسی شخصیت کو، آغا خاںکی خصوصی خدمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ برطانیہ کی وزارت خارجہ نے جس کی خفیہ فائلیںحسب روایت پچاس سال کے بعد عام (DECLASSIFY)کردی جاتی ہیںخلاف معمول اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وسطی ایشیاء افغانستان اورشمال مغربی ایشیاء کی وہ فائلیںجو آغا خاں سے متعلق ہیں مزید ایک سو پچاس سال تک عام نہ کی جائیں ،اسی ایک بات سے آغا خانیوںکے انگریزکے ساتھ گہرے روابط اورہندوستان میں ان کے آلہ کارہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
ہندوستان میں علماء کرام کے درمیان براہِ راست فری میسن تحریک کے متعلق استفہام واستفتاء انیسویں صدی کے اواخرمیں شروع ہوا ایسا لگتا ہے کہ اس وقت سے پہلے وہ ان سازشوںکو کسی اورجانب منسوب کرتے تھے تاہم ۱۸۹۷ء میں دہلی میں جو علمی سرمایہ تباہ ہوگیا یا جنہیں انڈیا آفس لائبریری منتقل کردیا گیا ، مشائخ اور علماء کے وہ ملفوظات جو سرد خانوں میں پڑے ہیں سامنے لائے جائیں تو ان سازشوں کا مزید علم ہوگا ، ہندوستان میں فری میسن کے متعلق سب سے واضح سوال حکیم الامت مولانااشرف علی صاحب تھانوی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا جس کا جواب انہوں نے اپنے رسالے ’’التقی فی احکام الرفی‘‘ اور’’طلسم کشائی‘‘ فری میسن میں دیا ہے یہ دونوں رسالے غالباً ۱۹۰۱ء میں لکھے گئے ہیں۔(دیکھیں التکشف عن احکام التصوف ص :۱۲)
تنظیم کا طریق کار
یہودیوں کی عالمی تحریک جسے ہم نے فری میسن کے نام سے موسوم کیاہے کے طریقہ ہائے کارمیں گفتگوکرناچنداں آسان نہیں ،ان کے یہاں سینکڑوں ایسے طریقے رائج ہیں جنہیں حالات،مقامات اورمواقع کی مناسبت سے اختیارکرتے ہیں،ان سینکڑوں طریقوں کا مختصر تعارف بھی آسان نہیں،تاہم چندبنیادی طریقے یہاں ذکرکئے جاتے ہیں،لیکن ہم ان کی مثالیں بوجوہ نہیں لکھیں گے اگرقارئین ادنیٰ شعوروتدبرکامظاہرہ کریں تووہ اپنے آس پاس روزمرہ وقوع پذیرہونے والے واقعات پرخودسے ان طریقوں کی تطبیق کرسکتے ہیں،وہ طریقے یہ ہیں۔
(۱) فری میسن کی پہلی کوشش اس بات کی ہوتی ہے اوریہ ان کی بنیادی تکنیک ہے کہ بااثرحلقوں میں رسوخ حاصل کیاجائے ،حکمراں طبقہ، وزرائ،اعلی فوجی افسران،بیوروکریٹ،بڑے تاجراورصحافی ان کے اولین ہدف ہوتے ہیں۔
(۲) حکمراں طبقہ کے بعد یہودیوں کی دوسری کوشش دینی اورمذہبی طبقہ میں رسوخ حاصل کرنے کی ہوتی ہے،لہذا اس اعتبارسے بڑے علماء اورمشائخ خانوادوں تک رسائی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے،وہ ان کے حلقہ میں دھیرے دھیرے ایسامقام حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے وہ ان کے فیصلوں پراثراندازہوسکیں۔
(۳) ان کی تیسری کوشش ریاست کے تین اہم طبقات یعنی مسلم حکمراں،علماء ،مشائخ اورعامۃ المسلمین کوایک دوسرے سے الگ کرنے کی ہوتی ہے۔
یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ اسلام اورمسلمانوںپراسی وقت آفت آئی ہے جب حکمرانوں،علماء مشائخ اورعامۃ المسلمین کے درمیان ربط کمزورپڑگیایاآپس میں یکجاہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوگئے،حالات کی نزاکت کا تقاضاہے کہ ان تینوں طبقات یعنی دنیاوی آمرین ،حکمراں وعلماء ومامورین عوام کے مابین عوام ہمہ وقت مضبوط اورشفاف ربط رکھاجائے۔
(۴) یہودیوں کی چوتھی کوشش مسلم عوام میں افراتفری پھیلانے کی رہتی ہے وہ اس سلسلہ میں ہرطرح کی لاقانونیت اورطوائف الملوکی کوہوادیتے ہیں اس سے ان کو پہلا فائدہ یہ ہوتاہے کہ عوام چنددنوں کے بعد اپنے رہنماؤں اورارباب حل وعقدسے متنفرہوجاتے ہیں اس کا دوسرافائدہ یہ ہوتاہے کہ ملک میں واقع ہونے والی باتوں سے رفتہ رفتہ عوام لاتعلق رہناپسندکرنے لگتے ہیں ،اس سے تیسرافائدہ یہ ہوتاہے کہ نازک سے نازک گھڑی میں بھی تینوں طبقات یعنی حکمراں ،مشائخ وعلماء اورمسلم عوام میں یہ داعیہ پیدانہیں ہوتاکہ وہ باہم مربوط ہوکرکسی بحران کامقابلہ کریں یاکسی موقع کوغنیمت جان کراس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
(۵) یہودیوں کی پانچویں کوشش یہ ہوتی ہے کہ علماء کوآپس میں یاعلماء اورمشائخ کو ایک دوسرے سے لڑوادیاجائے اس لئے موقع کی مناسبت سے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
(۶) اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خطرناک سازش یہ کرتے ہیں کہ جہاں ایک طرف وہ علماء کو خفیہ طریقے سے آپس میں لڑادیتے ہیں کہ کسی کو محسوس نہ ہوکہ وہ فی الواقع کسی کے آلہ کارکی طرح لڑرہے ہیں وہاں…دوسری طرف اس لڑائی کوعامۃ المسلمین تک پہنچاکرپورے معاشرے میں لڑائی کی آگ بھڑکادیتے ہیں ،انیسویں صدی کی ہندوستان کی تاریخ اس پرشاہدعدل ہے کہ بہت سے مذہبی تنازعات کے پیچھے ایک تیسری قوت کارفرماتھی۔
(۷) ان کاایک اورطریقہ ہے جسے ’’براہ راست اقدام کاطریقہ‘‘کہتے ہیں اس کی تین صورتیں ہیں ۔
(الف) ایسے حکمرانوں اورعلماء کا خاتمہ یاانہیں بے دخل اورمعزول کردینا جوان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
(ب) مخالفت مشائخ اوراپناحلقہ رکھنے والے بزرگان دین کاخاتمہ۔
(ج) ایسے علما جوقیادت کے اہل اورباشعورہوں ،معاشرہ میں اپنااثرورسوخ رکھتے ہوں اوریہودیوں کی چالوں کوسمجھتے اوران کے مقاصد میں مزاحم ہوتے ہوں ان کوشہیدکردیاجائے ،ادنیٰ سے ادنیٰ شعوررکھنے والافردبھی اپنے گردوپیش پر نظردوڑائے توایسے بیسیوں واقعات مل جائیں گے جن کی کڑی مذکورہ بالایہودی طریقہ ہائے کارسے جاملتی ہے۔
(۸) یہودیوں کے طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ بالکل ابتدائی مرحلوں میں اپنے افرادکودشمن کی جماعت یاتحریک کی صفوں میں داخل کردیتے ہیں جووہاں کچھ دنوں میں خاصے بارسوخ ہوجاتے ہیں پھربعدمیں جب انہیں موقع ملتاہے تواپنی شہرت ،مقبولیت اوراثرورسوخ کی آڑمیں یہودیوں کے لئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں جن کا عام حالات میں تصورکرنابھی محال ہے،بے جانہ ہوگااگرہم اس کی ایک مثال ذکرکردیں مصرمیں جمال عبدالناصراورانورسادات کی یہی صورت حال تھی ۱۹۵۴ء میں انقلاب کے برپاہوتے ہی جمال عبدالناصرنے اسلامی تحریکوں کوبربریت کے ساتھ کچلناشروع کیا۱۹۷۰ء میں ناصرکاانتقال ہوگیااس کے بعدانورسادات نے کیمپ ڈیوڈمعاہدے پردستخط کردئیے،مصرکا اس معاہدے پردستخط کرناپوری ملت اسلامیہ کی فلسطین کے متعلق پالیسی سے انحراف اورغداری کے مترادف تھا۔ (جاری ہے اگلی قسطوں کاانتظارفرمائیں)ن
 
Top