فری میسن ےہودی سازش(قسط ۲)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
فری میسن یہودی سازش حقیقت کے آئینہ میں(قسط ۲)

ترتیب وتحقیق:مفتی ابولبابہ شاہ منصوری
حا شیہ:مفتی مہربان علی شاہ بڑتوی
پیش کش:ناصرالدین مظاہری

سات خطرناک طریقے
اب تک جو طریقے درج کئے گئے یہ وہ ہیں جن میں وہ اپنے خاص لوگوں اورتربیت یافتہ آلہ ہائے کارکو استعمال کرتے ہیں اس میںوقت، طاقت اورخرچ زیادہ لگتا ہے ان کے علاوہ بھی یہودیوں کے کچھ طریقے ایسے ہیں جس میں انہیں کم سے کم طاقت لگانا پڑتی ہے اورزیادہ سے زیادہ مقصد برآری ہوتی ہے ،یہ ایک قسم کی بالواسطہ جنگ ہوتی ہے جس میں سراسر نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے ا ن طریقوں کی اہمیت اس اعتبار سے اوربڑھ جاتی ہے کہ ان کے اثرات دوررَس ،دیر پا اورامت مسلمہ کے لئے تباہ کن ہوتے ہیں وہ طریقے درج ذیل ہیں ۔
(۱) پہلا طریقہ جو سب سے زیادہ خطرناک اورضرر رساں آزادی کو قبول عام حاصل ہورہا ہے اور اب یہ چند سالوں کی بات ہے کہ نصرانی مذہب صفحۂ ہستی سے بالکل نیست ونابود ہوجائے گا اورایسا ہی ہوا ، موجودہ عیسائی دنیا یہودیو ں کی روندی ہوئی دنیا ہے ، اصل عیسائی مذہب کو مسخ اورعیسائی روایات اوراقدار کو تہس نہس کرنے کے بعد اب وہ یہی حربہ عالم اسلام کے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔
(۲) یہود کے سازشی ذہنوں کا گھڑا ہوا ایک طریقہ یہ ہے کہ مسلمان عوام میں احساس محرومی پیدا کرکے انہیں مسلمانوں کی نمائندہ قیادت اورمرکزی قوت کو عامۃ المسلمین کی نظر میں بے اعتبار کرنا یا ختم کردینا چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششیں ، ترکی میں نوجوان لڑکوں کا ظہور،عرب قومیت کے نظریہ کو ہوا دینا ،لارنس آف عربیہ کے کارنامے، سلطنتِ قاچار میں بہائیو ں کی کوششیں،بر صغیر میں مغلیہ سلطنت کے سقوط کیلئے ریشہ دوانیاںسب اسی کا حصہ ہیں ’’صہیونی دانا بزرگوں کی دستاویزات ‘‘نامی خفیہ مجموعہ میں اس طریقہ کو ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ۔
’’دنیا بھر میں مذہب کے تبلیغی مراکز کو تباہ کرنے کے لئے جو اس زمانہ میں بھی ہماری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،ہم عرصہ دراز سے کوشش کررہے تھے کہ عوام کے دل سے علماء کا احترام ختم کردیا جائے اب روزبروز عوام میں ان کا اثر ختم ہوتا جارہا ہے ،ہرجگہ ضمیر کی حکومت کے خلاف بھڑکایا جائے اورایسی شورش اورافراتفری بپا کی جائے کہ وہ نہ دنیاوی ترقی کرسکیں، نہ غلبہ ٔ دین کی محنت کے لئے ان کے پاس فرصت ہو ، آخر کا ر ان میں اتنی بد دلی پیدا کی جائے کہ وہ کسی ا َن دیکھے نجات دہندہ سے امیدیں باندھ کر پردۂ غیب سے اس کے ظہور کی تمنا کرنے لگیںاس طرح یہود کے تمام عالم پر کل غلبہ کی راہ ہموار کی جائے۔‘‘
اس طریقہ کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے ان خفیہ دستاویزات کے تین اقتباسات غورسے پڑھئے
(۱)’’جب ہماری مطلق العنان حکومت قائم ہوجائے گی تو ہر قسم کا آئین منسوخ کردیا جائے گا لیکن وہ وقت آنے سے پہلے اس درمیانی مدت میں یہ اقدامات بہت ضروری ہیں ان اقدامات کو تطویل سے بچنے کیلئے حذف کیا جاتا ہے ‘‘(اسی مضمون میں آگے چل کر مناسب جگہ ان میں سے کچھ کا ذکر کردیا جائیگا )
آئین کی منسوخی سے پہلے ہی ہمارے مطلق العنان حکمراں کو تسلیم کرلیاجائے گا اس کے تسلیم کئے جانے کا وقت وہ ہوگا جب حکومت کی بدعنوانیاں اورنا اہلی سے بیزار ہوکر (جس کا ہم عوام کو یقین دلا چکے ہوں گے ) عوام خود چیخنے لگیں گے کہ ہمیں ان نااہل حکمرانوں سے بچاؤاورایسے حکمراں کی خواہش کرنے لگیں گے جو انہیں متحد کرکے نفرت اوراختلافات کے اسباب ، ملکی حدود ،قومیتیں،مذہب اورملکی قرضوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اورانہیں ایسا امن وسکون مہیا کرسکے جو موجودہ حکمراں اورنمائندے فراہم نہیں کرسکتے تھے ۔
لیکن آپ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اقوام عالم کی اس خواہش کے اظہار کو ممکن بنانے کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ دنیا کے عوام کو ان کی حکومتوں کے خلاف صف آرا کیاجائے اورباہمی اختلافات ، نفرت ، جدو جہد ، جسمانی اذیت ، بھوک، امراض واحتیاج اتنی بڑھادی جائیں کہ انسانیت تھک کر چور ہوجائے اورغیر یہودیوں کے لئے ہماری دولت مند اوروسائل سے مالا مال حکومت کی محکومی کے علاوہ اورکوئی جائے قرار باقی ہی نہ رہے ۔
لیکن اگر ہم نے دنیا کی اقوام کو سانس لینے کا موقع دیا تو وہ لمحہ موعود جس کی ہم دعائیں کررہے ہیں شاید کبھی نہ آسکے ۔ (دسویں دستاویزات ، فرمانروائے عالم کا اعلان ص : ۱۲۰)
(۲)’’عوام جب دیکھیں گے کہ آزادی کے نام پر ہر قسم کی مراعات حاصل کی جاسکتی ہیں تو وہ بزعم خو د یہ سمجھنے لگیں گے کہ انہوں نے حاکمیت خود اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہے لیکن اسی کوتاہ بینی اورکور چشمی کی وجہ سے انہیں قدم قدم پر ٹھوکریں کھانا پڑیں گی اورپھر انہیں کسی رہبر کی تلاش ہوگی ۔اب پچھلی صورتحال پر واپسی کے تمام راستے مسدو د ہوچکے ہوں گے اوراس طرح کلی اختیار ات ہمارے قدموں تلے آجائیں گے ، آپ کو فرانسیسی انقلاب یاد ہے اسے ہم نے انقلاب ِ عظیم کا نام دیا تھا ،اس انقلاب کی تیاری کے رازوں سے صرف ہم ہی واقف تھے اور سب کچھ ہماراہی کیا دھرا تھا ۔
اس وقت سے لے کر آج تک ہم عوا م کو مسلسل یکے بعد دیگرے محرومیوں اورنا امیدیوں سے دو چار کررہے ہیں تاآنکہ آخر میں وہ ہم سے بھی بد دل ہوکر اس مطلق العنان بادشاہ کی اطاعت قبول کرلیں جو صہیونی نسل سے ہوگا اورجسے ہم دنیا کے لئے تیارکررہے ہیں ۔موجودہ دورمیں ہم ایک بین الاقوامی طاقت کی حیثیت سے ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں اگر کوئی ملک ہمارے اوپر حملہ آور ہو تو دوسرے ممالک ہماری مدد کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں‘‘ (تیسری دستاویزات ، تسخیر کا طریق کار ص :۹۳)
(۳)’’جب ہم ناگہانی انقلاب کی ضرب کاری لگاکر کامیاب ہوجائیں تو انقلاب کا جواز یہ پیش کریں گے کہ ہر چیز تباہ ہوگئی تھی اورعوام کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی ہم نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں اس لئے لی تاکہ عوام کے مصائب کی بنیادی وجوہ یعنی قومیتیں ، سرحدیں اورکرنسی کے اختلافات وغیرہ ختم کئے جاسکیں ، تمہیں یہ حق ہے کہ ہمارے لئے جو سزاچاہوتجویز کرو لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ ہم تمہیں کیا پیش کررہے ہیں اس سے پہلے تمہاری تجویز کی ہوئی سزا انصاف پر مبنی نہیں ہوسکتی ،یہ سننے کے بعد لوگ ہمارا احترام کریں گے اورایک زبان فتح امید اورتوقعات کی خوشی میں جھومتے ہوئے ہمیںاپنے کندھوں پر بٹھالیں گے ‘‘۔(دسویں دستاویزات ،اقتدار کی تیاری ص : ۱۱۵)
مسلمانوں کے مختلف طبقات مثلاً حکمراں ، علماء ، مشائخ ،تاجر ،فوجی افسران ، عوام خواہ تعلیم یافتہ ہوں یا ناخواندہ ، خاص کر نو جوانوں کو باہم برگشتہ کرکے مختلف عنوانات کے تحت کسی علمی وفکری تنازعہ یا لا یعنی بحث ومباحثہ میں الجھا دینا یہ کام خود یا کسی آلۂ کارکے ذریعہ دیوار پر شیرہ لگانے کی مانند ہوتا ہے ، مخلص مسلمانوں کے مختلف طبقات محض سادگی میں اس کا شکار ہوجاتے ہیں اس مدت میں یہودی یا تو مزید رسوخ حاصل کرکے اپنی جڑیں مضبوط کرتے ہیں یا اپنے مقاصد تک پہنچ جاتے ہیں گذشتہ چند سالوں سے عالم اسلام میں جو بعض لا یعنی مباحثے ومناظرے اوربے مقصد نظریاتی لڑائیاں ہوئی ہیں وہ اسی کے شاخسانے ہیں، اعلیٰ ترین یہودی دماغوں نے اس سازش کو ان الفاظ میں دستاویزی شکل دی تھی ۔
’’اس کے بعدفوراً ہی عوام کی توجہ کا دھارا نئے مسائل کی طرف موڑدیں گے (کیا ہم نے لوگوں کو ہمیشہ نئی چیز کی جستجو کرنے کی تربیت نہیں دی ؟)ان نئے مسائل کی بحث میں وہ عقل سے عاری لوگ بھی کود پڑیں گے جو ابھی تک یہ نہیں سمجھے کہ جن مسائل پروہ بحث کررہے ہیں انہیں اس کا موہوم سا تصور بھی نہیں ہے ، رموز مملکت سو ا ئے ان لوگوں کے جنہوں نے اس علم کی بنیاد رکھی اورصدیوں سے اس میں رہنمائی کررہے ہیں ، دوسروں کی فہم سے بالا تر ہیں ۔
ان تمام باتوں سے آپ کو معلوم ہوگا کہ عوام کی رائے سے ہم صرف اپنے نظام کی کامیابی کی راہ ہموار کریں گے آپ اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم مختلف مسائل پر ان کی رائے سے اپنے عمل کی نہیں بلکہ اپنے قول کی توثیق کرائیں گے ہم بارہا اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم ہر معاملے میں اپنی رہنمائی اس امید اوریقین سے حاصل کرتے ہیں کہ ہم عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کررہے ہیں۔
(تیرھوی دستاویزات ،توجہ بھٹکانا ص : ۱۳۱ )
نظریاتی اختلافات کے علاوہ علاقائی، لسانی جھگڑوں کو ہوا دینا آئے دن کوئی نیا شوشہ چھوڑتے رہنا اورعامۃ الناس کو اس میں الجھاکر مقصدی امورسے ہٹائے رکھنا ، کوئی سمجھدار مسلمان اس کی اصلاح کیلئے آواز اٹھائے تو مختلف ہتھکنڈوںسے اس کی حوصلہ شکنی کرنا بلکہ یہ کوشش کرنا کہ مسلمانوں میں ایسی سمجھ اورشعوروالے افراد پیدا ہی نہ ہوں تاکہ یہ ننگ انسانیت قوم اپنا کام کئے جائے یہ سب کچھ اسی تیسرے طریقے کا حصہ ہیں ، درج ذیل اقتباسات کو ذرا بیدار ذہنی سے پڑھئے ۔
رائے عامہ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اسے پراگندہ رکھنا ضروری ہے اوریہ اس طرح ممکن ہے کہ ہم بھانت بھانت کے اختلاف رائے کے مواقع فراہم کریں ان اختلافات کو اتنے عرصہ تک شہ دیتے رہیں کہ غیر یہودیوں کے دماغ مختلف نظریات کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائیں اوران کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ بہترین بات یہی ہے کہ رموز مملکت کے بارے میں (جنہیں عوام کے لئے سمجھنا ضروری نہیں ہے )کوئی رائے زنی ہی نہ کی جائے ، وہ یہ سمجھ لیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ، ان معاملات کو سمجھنا ان ہی لوگوں کاکام ہے جنہیں عوام کی قیادت کرنی ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہ ہونا چاہیے یہ پہلا راز ہے ۔
ہماری حکومت کی کامیابی کا دوسرا راز مندرجہ ذیل ہے ۔
قومی کمزوریاں ، عادات ، جذبات اورمعاشرتی زندگی کے حالات بیان کرنے میں اس قدر غلوسے کام لینا چاہیے کہ عام آدمی کو یہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ اس افراتفری میں کہاں کھڑا ہے اوراس طرح لوگ دوسروں کا نقطۂ نظرسمجھنے کی صلاحیت ہی کھوبیٹھیں یہ افراتفری ہماری ایک اورطریقہ سے بھی مد د کرے گی اوروہ اس طرح کہ مختلف جماعتوں میں پھوٹ پڑجائے گی اوران تمام اجتماعی قوتوں کے جو ہماری اطاعت قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں ، قدم اکھاڑدے گی اورہر اس فرد کی حوصلہ شکنی کرے گی جو اپنی ذاتی اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے ۔
ہمارے لئے انفرادی اختراع سے زیادہ خطرناک اورکوئی چیز نہیں ہے اوراگر اس اختراع کے پیچھے فطانت اورذہانت بھی ہو تو ایسی اختراع ان دس لاکھ آدمیوں سے زیادہ خطرنا ک ہوسکتی ہے جن میں ہم نے نفرت کی پرورش کی ہے ۔
ہمیں غیر یہودیوں کے تعلیمی شعبے کو اس طرح منظم کرنا چاہیے کہ جب بھی وہ کسی ایسے مسئلے سے دو چار ہوں جس میں اختراع کی ضرورت ہوتو وہ اپنے آپ کو بے کس اورمعذور سمجھ کر خود ہی ہار مان لیں ۔
ان تمام باتوں سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم غیر یہودیوںکو تھکاکر اتنا مضمحل کردیں کہ وہ آخرکار ہمیں اس قسم کی بین الاقوامی طاقت پیش کرنے پر مجبور ہوجائیں جو ہمیں ا س قابل کردے کہ بغیر کوئی تشدد کئے ہم دنیا کے ملکو ں کی ساری طاقت رفتہ رفتہ چوس کر ایک سپر گورنمنٹ بناسکیں ، موجودہ حکمرانوں کی بجائے ہم ان پر ایک ایسا عفریت مسلط کردیں گے جو اس سپر گورنمنٹ کی انتظامیہ کہلائے گی ، اس کے پنجے ہر سمت گڑے ہوئے ہوں گے اوراس کی تنظیم اتنی وسیع وعریض ہوگی کہ ہمارے لئے ساری دنیا کی قوموں کی تسخیرمیں ناکامی ناممکن ہوگی ۔ (پانچویں دستاویز،مطلق العنانیت ص :۹۹)
یہودیوں کی برپاکردہ جمہوریت نامی سازش سے پہلے دنیا میں دوہی نظام حکومت ہوتے تھے ،خلافت اوربادشاہت ، دونوں میں اختیارات کا ارتکازفرد ِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ نظام خلافت میںاقتدار اعلیٰ آسمانی تعلیمات کا پابند ہوتا تھا جب کہ بادشاہی نظام میں ایسی کوئی پابندی نہ تھی ، یہودیوں نے جمہوریت کا غلغلہ بلند کرکے ان دونوں نظامو ںکا استیصال کردیا اب دنیا بھر میں یہودیوں کادیا ہوا ’’عوامی طرزِ حکومت ‘ ‘ رائج ہے جو ان کے مفادات کانگہبان ہے البتہ جہاںانہیں اس نظام حکومت سے خطر ہ نظر آنے لگتا ہے وہاں وہ اب بھی خود مختار بادشاہتوں کو قائم ودائم رکھنے کے لئے کوشاں ہے ،راقم کا اشارہ خلیجی ریاستوں کی طرف ہے ، جہاں کے حکمرانوں کا انتخاب ووٹ کے بغیر قدیم ملوکیت کے طرز سے ہوتا ہے لیکن مغربی دنیا اس پر معترض نہیں ، اس کے برعکس ساری دنیا کے ممالک کی امداد اورتجارتی معاہدے وغیرہ جمہوری نظام حکومت اپنانے کے ساتھ مشروط ہیں اس فرق کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ خلیج میں یہودی مفادات کے پاسبان حکمران اسی قدیم طرز نیابت سے ہی میسر آسکتے ہیں ،حال ہی میں اردن کے حکمران شاہ حسین کے جانشین شاہ عبد اللہ کا انتخاب اس کی بہترین مثال ہے ، ان ممالک میں جمہوری قدروں کے رواج پاجانے سے اندیشہ ہے کہ مغربی اقوام اوریہودیوں کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے کیونکہ کہ وہاں دینی روایات کی جڑیں اس قدر گہری ہیں اوردینی حلقوںکا شعوراس قدر قوی ہے کہ وہ یہودیوں کے مطلب کے آدمی کو آگے نہیں آنے دیں گے یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی لیکن مغربی ممالک کے ان کے ساتھ تعلقات پر آنچ نہیں آتی جب کہ یہی ممالک دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے ساتھ روابط کی بنیاد جمہوریت کے ہونے یا نہ ہونے پر رکھتے ہیں اورمارشل لاء تک برداشت نہیں کرتے ، آئیے یہودیوںکی خفیہ دستاویزات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہودی نظام خلافت وبادشاہت کے اس قدر دشمن اورجمہوریت کے ساتھ حامی کیوں تھے ۔
یہودی عرصۂ دراز سے تمام عالم کے انسانوں کے خلاف بلا امتیاز مسلم وغیر مسلم اس قدرگھناؤنی سازشیں کرتے چلے آرہے تھے اوران کے خفیہ منصوبوں نے ساری دنیا کو درہم برہم کررکھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ان سازشوںکا دنیا کو شعورکیوں نہیں اوروہ اس کے توڑکے لئے اس عیار قوم کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑی ہوتی ، خصوصاًمسلمان جن کے پاس تعلیمات الٰہیہ اپنی اصل میں موجود ہیں اورجذبہ ٔ جہاد جن کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے وہ ان منصوبوں کا ادراک کرکے ان کے بانیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کیوں سست ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ یہودیوںنے ایسی حکمت عملی اپنا رکھی ہے اوراپنے منصوبوں کو روبعمل لانے کے لئے ایسے زیر زمین طریقے وضع کررکھے ہیں کہ ان کی زد میں آنے کے بعد دنیا کو اپنا ہی ہوش نہیں رہا وہ ان کی چالوں کامقابلہ کیوں کر تے رہ گئے مسلمان تو ان کی کامیابی کی تین بنیادی اورموٹی موٹی شرائط تھیں۔
۱۔ احکاماتِ الٰہیہ اورسنت نبویہ پر پورا پورا عمل ۔
۲۔ فریضہ ٔ جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی ۔
۳۔ خلافت اسلامیہ کا قیام ، یہودیوںنے ایسا طریق کار اپنا یا کہ وہ رفتہ رفتہ ان تینوں میںکمزورہوتے ہوتے محروم ہونے کے قریب پہنچ گئے ،مسلمانو ں میں سے جن افراد ،تحریکوں یا اداروں کو ان باتوں کا شعور اور ملت اسلامیہ میں ان کے احیاء کی فکر ہے وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ، اس شعور کو سلب کرنے کے لئے یوں تو یہودیوںنے بیسیوںنہیں سینکڑوںطریقے استعمال کئے لیکن بطورخاص ایک اصولی طریقہ اپنایاگیا یہ ایک پیچیدہ اورعام لوگوں کے لئے ناقابل فہم طریقہ ہے لیکن چوں کہ یہ اتنا اہم ہے کہ سارے یہودی سازشی نظام کی بنیادیںاس پر کھڑی ہیںاس لئے اسے ذرا تفصیل سے اورخفیہ دستاویزات کے حوالوں کے ساتھ دکر کیا جاتا ہے اللہ کرے مسلمان اس کو پڑھ کر فکر مندہوںاوراس نہج پر لوٹ آئیں جو رسول اللہ ا نے انہیں دیا تھا اورجسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً بتاکران تک پہنچایا تھا اورجس کا خلاصہ اوپرلکھی گئی تین باتیںہیں یہ اصولی طریق کار تعقلیت (Rationalisation)کہلاتا ہے،ریشنلائزیشن وہ عمل ہے جس سے ان کے نزدیک ریشنلزم (Rationalism)کا قیام مقصود ہے ،ریشنلزم کامفہوم ہے عقل کو مذہب میں آخری فیصلہ کرنے والا قرار دینا اوران تمام نظریات کا رد کرنا جو عقل سے مطابقت نہیں رکھتے ،ریشنلائزیشن کی تین شاخیںمشہورہیں یعنی تین ایسے طریقے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن اصول کے اعتبار سے ایک یعنی عقل پر مبنی ہیں یہ تین طریقے درج ذیل ہیں ۔
۱۔ سیکولزائزیشن (Secularisation)
۲۔ ڈیموکریٹائزیشن (Democratisation)
۳۔ کمرشلائزیشن (Commercialisation)
گزشتہ پانچ سوسال سے یورپ میں ان مقاصد کے حصول کے لئے بلا مبالغہ ہزاروں تحریکیں تنظیمیں حلقے اورزاویے مختلف ناموں سے کام کررہے ہیں ،ان تینوں اصطلاحوںکا مختصر تعارف یہ ہے
۱۔ سیکولزائزیشن (Secularisation)سے مراد انسان کے فکر ونظر معاملات ، تہذیب ، ثقافت اورتمدن کو عقیدہ اوردین سے منقطع کرنا یعنی اسے ریگولر(Regular)یعنی متشرع کے بجائے سیکولر(Secular) بنانا ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بنی نوع انسان کو آسمانی ہدایت اورپیغمبرانہ تعلیمات کی پیروی سے ہٹاکر اسے ہمہ قسم کی پابندیوں سے آزاد اورتمام حدود وقیودسے باغی بنادینے کا نام سیکولرائزیشن ہے ، آج کل غیر مسلم دنیا اسی سیکرلرازم کا شکار ہوکر جانوروں کی طرح زندگی گزاررہی ہے ،پیٹ کی بھوک اورشرمگاہ کی خواہش پوری کرنے کے بعد اسے دنیا ومافیہا سے کوئی سروکار نہیں ،عیسائی دنیا تو یہودیوں کی برپا کردہ اس یلغارکے سامنے روندی جاچکی ہے ،لے دے کے مسلمان رہ جاتے ہیں جو ابھی تک آسمانی وحی کی بنیاد سے چمٹے ہوئے ہیں ، سیکولرائزیشن در اصل ایک وسیع وہمہ جہت عمل کا نام ہے اس کا نصب العین حقیقی سیکولرازم قائم کرنا ہے جو ریشنلزم (Rationalisation)کی لازمی شرط ہے ، ذرا چشم بصیرت سے ان خفیہ دستاویزات کادرج ذیل اقتباس پڑھئے اوراس کی بین السطورپر غورکیجئے ۔
’’عرصہ ہوا پرانے زمانے میں ہم نے سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے آزادی ، مساوات اوراخوت کے نعرے پیش کئے تھے ، بعد کے زمانوں میں اطراف وجوانب کے احمق طوطے ان کی رٹ لگاتے ہوئے اس جال میں پھنستے چلے گئے اوراس کے ساتھ ہی دنیا سے خوشحالی بھی رخصت ہوگئی ،یہ خوشحالی تھیں فرد کی اصل آزادی جو عوام کے دباؤ سے محفوظ تھی۔
غیر یہودی مفکرین ان مجر د الفاظ کے معنی کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے ، انہوں نے ان الفاظ کے معانی کے تضاد اورباہمی تعلق پر غورنہیں کیا ، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ مساوات اورآزادی نظام فطرت کے خلاف ہیں ، قدرت نے انسانوں کو یکساں صلاحیتیں نہیں دیں ، یہ اصول اتنا ہی ناقابل تبدیل ہے جتنا خود یہ اصول کہ قانون قدت سے انحراف ناممکن ہے ۔
ہمارے بھولے اورنا سمجھ گماشتوں کی وجہ سے جو ہم نے غیر یہودی معاشرے میں پیدا کردیتے تھے ، آزادی ، مساوات اوراخوت کے الفاظ دنیا کے گوشے گوشے میں زبا ں زد خلائق ہوگئے ، جوق در جوق لوگ سرگرمی سے ان الفاظ کے جھنڈے تلے آنے لگے اوررفتہ رفتہ یہ الفاظ غیر یہودکی خوشحالی کو گھن کی طرح چاٹ گئے ، امن واستحکام رخصت ہوا اورغیریہودی سلطنتوںکی بنیادیںہل گئیں ،جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگا اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میںکافی مددکی خوشحالی کو گھن کی طر ح چاٹ گئے ، امن واستحکام رخصت ہو اور غیر یہودی سلطنتوںکی بنیاد یں ہل گئیں جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگااس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مد د کی اورمنجملہ دوسرے فائدوں کے ہمیں ایک شاہ کلید حاصل ہوگئی ۔
(پہلی دستاویز،آزادی ،مساوات اوراخوت ص :۸۳و۸۴)
کتاب وسنت کی تعلیمات سے منھ پھیرنے اورآزاد روی اختیار کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں خود یہود کی زبانی سنئے ۔
’’جب ہم نے ریاست کے جسم میں آزاد خیالی کا زہرداخل کردیا تو اس کا پوراسیاسی نظام درہم برہم ہوگیا، ملک ایک لا علاج مرض میں مبتلا ہوگیا ، زہراس کے خون میںسرایت کرگیا اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسے سسکنے کیلئے چھوڑدیا جائے اوراس کی موت کا انتظار کیاجائے۔ (دسویں دستاویزاقتدار کی تیاری ص :۱۱۷)
یہ سوچ دنیا کو کس نے دی ؟سکولر ذہنیت کا منبع کیاہے ؟ اور ایک مخصوص مدت کے بعد یہ نعرے خود بخود کس طرح ختم کردیئے جائینگے ، آزاد خیا لوں(Libarals) اقوال یعنی ’’آزادی ’’ اور اخو ت عملا ہمارے فری میسن (Freemasion) ہی کے دیئے ہوئے نعرے ہیں جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے تو ان نعروں کی اتنی قلب ماہیت کردیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے اس کے بجائے یہ صرف خیالی تصور(Idealism)کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے یعنی ان کے معنی بدل کر ’’آزادی کا حق ‘‘’’مساوات کا فرض ‘‘اوراخوت کاتصور‘‘رہ جائیں گے ، یہ ہیں وہ معنیٰ جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اوراس طرح ہم ان نظریات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے ۔ (نویں دستاویز ص :۱۱۰)
یہ آزادخیالی پھیلائی کس طرح مذہب سے بیزار اورروحانیت سے برگشتہ کیاجاتا ہے اس کا طریق کار بھی اسی خفیہ کتاب سے پتہ چلتا ہے ، درج ذیل اقتباس پر نگاہ بصیرت ڈالئے ’’اس خیال کے پیش نظر کہ غیر یہودی ادارے مقررہ وقت آنے سے پہلے ہی نیست ونابود نہ ہوجائیں ہم نے اس کا بندو بست بڑی عیاری اورنفاست سے کیا ہے ، ہم نے ان کمانیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جو اس مشین کو چلاتی ہیں یہ کمانیاں انتظامیہ کی مشین میں انتہائی حساس مقامات پر واقع ہیں ہم نے وہاں آزاد خیالی کے نام پر افراتفری پھیلانے والوں کو بٹھایا ہوا ہے ، ہمارے ہاتھ قانون نافذکرنے والے اداروں میں موجود ہیں،انتخابات کراے والے اداروں میں موجود ہیں ، پریس میںہیں ، انسانی حقوق کے علمبردار اداروں میں ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ تعلیمی اورتربیتی اداروں میں ہیں جو آزاد وجود کاسنگ بنیاد ہیں ، ہم ان خو د ساختہ نظریات اورمسالک کی تعلیم وترویج کے ذریعہ جن کے متعلق ہم خود جانتے ہیں کہ یہ غلط ہیں غیر یہود کے نوجوان طبقے کو ورغلاکراخلاقی طورپر کنگال اورذہنی طورپر پراگندہ کرچکے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر غیر یہود کو معینہ وقت سے پہلے اس کا علم ہوجائے تو یہ ہوشیار ہوکر ہمارے خلاف شمشیر بکف صف بستہ ہوجائیں گے اس متوقع خطرے کی ہم پہلے ہی پیش بندی کرچکے ہیں اوریہ منصوبہ اتنا خوفناک ہے کہ اسے سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجائے گا ، زیر زمین خفیہ تنظیمیںایسی بارودوی سرنگیں ہیں جومعینہ وقت آنے سے پہلے ہی تمام دارالحکومتوںکے نیچے بچھی ہوئی ہوں گی اورایسے دھماکے سے پھٹیںگی کہ ان کے سارے ادارے معہ ان کی یادداشتوں کے محافظ خانوں کے اپنے ساتھ اڑادیں گی ۔‘‘(نویں دستاویز،ہمہ گیردہشت گردی کامنبع، ص :۱۱۳)
کمرشلائزیشن کیاہے ؟
کمرشلائزیشن کا مطلب ہے تمام انسانی زندگی اوراس زندگی کی تگ ودو کو مادیت میں محدود کردینا اورتمام مادی اشیاء خدمات بات حتی کہ فطری خواہشات کو خالص مادی پیمانے کے اعتبار سے قابل تبادلہ بنانا یعنی بیع وشرا کے دائرے میں لانا اس کے تحت ہر چیز خدمت جذبہ اورفطرت مادی اشیاء کی طرح مال ہوجاتی ہے اورقابل قیمت ٹھہرتی ہے لہٰذا قابل بیع وشراہوکر قابل تبادلہ ہوجاتی ہے کمر شلائزیشن کی انتہا یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شئے خدمت جذبہ اورفطرت ایسی باقی نہ رہے جو مال کی طرح قیمت نہ رکھتی ہو اورقابل تبادلہ بصورت بیع وشرا نہ ہوکمرشلائزیشن کاہدف ہے دنیا میں پائے جانے والے تمام مادی غیر مادی انسانی وسائل بشمول حیاتیاتی وجماداتی وسائل پر یہودیوں کی اجارہ داری قائم کرنا اورساری دنیا کو اپنا دائمی غلام بنالیناکمرشلائزیشن کے لئے ہزاروں طریقے روبہ عمل لائے گئے ہیں اقوام متحدہ کی ساری کارروائیاں سلامتی کونسل کے فیصلے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیںعالمی مالی اورعالمی بینک کی کارروائیاں دیگر بین الاقوامی ادارہ جات ، اسلحوں کی تخفیف کی روائیاں، خاندانی منصوبہ بندی کی کوششیں،ماحولیاتی تحریکیں،اسقاط حمل کو قانونی قراردینا ، سب کی سب کمرشلائزیشن کی ذیلی شاخیں ہیں حتی کہ یو تھنیریایعنی اپنے پسند سے اپنی موت کا فیصلہ کرنا اورمیڈیکل سائنس کے وہ تمام تجربے اورایجادات کی کوششیںجس میں انسانی جسم کی ہر چیز قابل استعمال اورقابل بیع وشرا ہوا اسی کا حصہ ہے ، چنانچہ فیملی پلاننگ اسقاط حمل کو قانونی بناناکے تجربات (جس کے تحت انسانی اعضاء مصنوعی طورپرتیار کرنے کے تجربات ہورہے ہیں حتی کہ مصنوعی جاندار بنانے کے تجربات ہورہے ہیںاوراب تو کلوننگ کے ذریعہ ہم شکل انسان پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہیں)در اصل اس کمرشلائزیشن کی انتہائی منزل پرپہنچنے کی کوشش ہے جہاں یہودی ایک عالمگیرطاقت کے اعتبارسے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کتنے لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے اورکتنوںکو نہیں ، ساتھ ہی ساتھ یہودیوں کے علاوہ دیگرانسانی آبادی کے سلسلے میں ان کا منشاء وہی ہے جو سامان اورآلہ جات کے بارے میں ہے یعنی اگر کسی وقت خاص میں انسانی وسائل کی زیادہ ضرورت ہے تو اتنے انسان پیدا کرلئے جائیں اورجب ضرورت نہ ہو تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ،ٹیسٹ ٹیوب بے بی ،کلوننگ اورمرغبانی کے مراکزمیں جو تجربات ہورہے ہیں (یعنی مثلاً وہ کسی دن ایک لاکھ چوزے نکالتے ہیں اگر پچاس ہزار بک سکے تو بقیہ پچاس ہزار کو برقی چولہوں میں جلا ڈالتے ہیں اس لئے کہ پچاس ہزار کو ایک دن پالنا دوسرے دن نئے پچاس ہزار پیدا کرنے کے مقابلے میں مہنگاہوتا ہے )اسی کمرشلائزیشن کا حصہ ہے ۔
سیکولرائزیشن کے تحت کئے گئے تجربات
اس کا تو موقع نہیں کہ سیکولزائزیشن (Secularisation)ڈیموکریٹائزیشن(Democratisation) کمرشلائزیشن(Commercialisation)تینوںکے تجربات بیان کئے جائیں ، لہٰذا صرف سیکولرائزیشن کے پیٹرن (Patter)کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔گذشتہ دو سال میں مسلمان ممالک کے مختلف خطوںمیں سیکولرائزیشن کے کم ازکم دس تجربات کئے گئے ، اس کے تحت ان کی بنیادی کوشش مسلمانوںکو دین کے سرچشمے سے فکری ، ایمانی اورعملی طورپر الگ کردینے کی تھی ، اختصارکے پیش نظر یہاں صرف ترکی ،مصر،غیر منقسم ہندستان اورپاکستان میں کئے جانے والے تجربات اورکوششیںذکر کی جاتی ہیں۔
ترکی میں یہودی سازشیں
یورپ کے اکثرملکوں کا سیاسی اوراخلاقی ڈھانچہ تباہ کرنے اورروس میں زار کی حکومت ختم کرکے وہاں اشتراکیت قائم کرنے کے بعد یہودیوں کااگلا منصوبہ فلسطین کی جانب پیش قدمی کرنا تھا کہ وہاں ایک آزاد یہودی ریاست قائم کی جاسکے ۔فلسطین اس زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا لہٰذا کوشش کی گئی کہ سلطنت عثمانیہ کو رام کرکے وہاں زمین خریدی جائے ، سلطان عبد الحمید جب اس پر کسی طرح تیار نہیں ہوئے تو ان کے خلاف وہ عظیم سازش کی گئی جس کی کامیابی پریہودی آج تک فخر کرتے ہیں ترکی کے انقلا ب کا تفصیلی منصوبہ اوراس کی جزئیات کو عملی جامہ پہنانا بین الاقوامی صہیونیت کا شاہ کار ہے ۔
ایک بین الاقوامی صہیونی لیڈر سلیمان منصورنے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں لکھا۔
’’ہم نے فلسطین میں ( جو ترکوں کی عملدار ی میں ہے )تھوڑی سی اراضی خریدنے کے لئے سلطان عبد الحمید کو منھ مانگی قیمت کی پیش کش کی تھی لیکن وہ نہیں مانے اورہمار ے آدمیوں کو بے عزت کرکے اپنے دربارسے نکال دیا ،لیکن آپ یقین رکھئے ہم اس سرکش حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اورترکوں کو ایسی سزادیں گے کہ ان کا حال اس سے بدتر ہوگا جو ریڈ انڈیالوگوں کا امریکہ میں ہے ۔‘‘
اب یہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ کس طرح انجمن اتحاد وترقی (COMITTEE OF UNION AND PROGRESS) قائم ہوئی اورکس طرح بین الاقوامی صہیونیت نے پس پردہ رہ کر اپنی خفیہ تنظیم فری میسن کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرایا ۔
ایک مغربی مصنف آر ، ڈبلیوسٹین واٹس (R.W.SETON WATSON)اپنی کتاب بلقان میں قومیت کی بیداری (مطبوعہ ۱۹۱۷ء ص ۱۳۵تا ۱۳۶)لکھتا ہے ۔
’’انجمن اتحاد وترقی (COMITTEE OF UNION AND PROGRESS)کی اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طورپرغیر ترک اور غیر مسلم خطوط پر قائم کی گئی تھی اس انجمن کے اہم ترین عہدے داروں میں سے بمشکل ایک فرد ترک تھا ، انورکا باپ پولینڈ کا باشند ہ تھا اورجاوید یہودی تھا ، طلعت ’’بلغاریہ ‘‘کا خانہ بدوش تھا جس نے بظاہراسلام قبول کرلیا تھا ، احمد رضا کا باپ ’’میرا سین ‘‘تھا اورماں ’’میگلیار‘‘۔
در حقیقت یہودیوںکی فری میسن تنظیم ترکی میں تقریباً سوسال سے سرگرم عمل ہے جب ۱۳؍اگست ۱۸۷۸ء کو ایک نوجوان انقلابی علی سوادی ، سلطان مراد پنجم کو ترکی کاتخت واپس دلانے میں ناکام ہوگیا اوراسے بمعہ اس کے ساتھیوں کے قتل کردیا گیا تو یہودیوںنے فورا ً ہی اپنے ایک دوسرے گماشتے نکینتھن اسکالیری (SCALERI CLEANTHIES) کو اس کام پر مامورکردیا ۔ یہ شخص ایک یونانی تھا جو استنبول میں رہائش پذیر تھا اورفر ی میسن میں لاج کا ماسٹر تھا اس نے ترکی کے چنداعلیٰ افسران سے مل کر مراد پنجم کو تخت نشین کروانے کی سازش کی۔
(حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو جارج حداد کی کتاب (REVOLUTIONS AND MILITARY RULE IN MIDDLE EAST یونیورسٹی آف کیلفورنیا مطبوعہ نیویارک صفحہ نمبر ۴۸)
۱۸۷۸ء میں جب سلطان کومعزول کرکے مراد کو تخت نشین کرانے کی سازش ناکام ہوگئی تو مراد کو مالٹا میں نظر بند کردیا گیا وہاں سے اس نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا کہ اگر تم نے مجھے یہاں سے نکالنے کی کوشش نہیں کی تو یہ جگہ میرا قبرستان بن جائے گی ،یہ خط جس دوست کے نام لکھا تھا وہ کلینتھی اسکالیری وہی یونانی تھا جو استنبول میں فری میسن لاج کا ماسٹر تھا اوراس عہدے کی وجہ سے پورے یورپ میں ا س کااثر تھا اسکالیری نے فوراً ایک کھلا خط سلطان کے نام لکھا اوراسے ایک انگریزی اخبار ایسٹرن ایکسپریس میں اشاعت کے لئے بھیج دیا ، اس خط میں دھمکیوں کے ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسے ضرورشائع کیا جائے ، اخبار نے یہ خط چھاپنے سے پہلے سعید پاشا کو جو شاہی محل میں کونسلر تھا دکھایا اوراس نے کندھے اٹھاکر کہ ’’چھاپ دو ‘‘اس خط کے چھپنے کا خاطرخواہ اثر ہوا اوراس کے نتیجے میں مراد کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ۔
اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ فری میسن کس طرح کام کرتے ہیں اسکالیری ایک معمولی مدرس تھا لیکن اس کی پہنچ کہاں تک تھی ، ساتھ ہی یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی کے ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا کتنا اثر تھا وہ جوچاہتے تھے اخبارو ں میں چھپواسکتے تھے ۔
سلطان عبد الحمید خاں چوںکہ یہودیوںپر سخت تھے اورانہوں نے یہودیوں کو فلسطین میں اراضی فروخت کرنے سے قطعی انکار کردیا تھا اس لئے یہودی فری میسن تنظیم سلطان کو معزول کرکے مراد کو تحت نشین کروانا چاہتی تھی جو نہ صرف آزاد خیال تھا بلکہ اس کے فری میسن تنظیم سے تعلقات بھی تھے ۔
بعد کے عرصے میں یہودی ، نوجوان ترکوں کو اپنا آلۂ کاربناکر اپنے مقاصد کے لئے کام کرواتے رہے اورنوجوانوں کے گرم خون کو استعمال کرکے انہیں لوٹ مار اورتخریب کاری کے لئے استعمال کیا ۔
یہ بات خصوصیت سے توجہ کی مستحق ہے کہ نوجوان ترکوں کی کامیابیوںکو مغربی ممالک میں خوب اچھالا گیا اورمغربی ذرائع ابلاغ نے جو کلی طورپر یہودیوں کے زیر اثر تھے ،اس کی تعریف کے پل باندھ دئے ،متذکرہ بالا جارج حداداپنی کتاب میں ان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔
نوجوان ترک دوران جنگ بھی سلطنت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کررہے تھے اورانہوں نے نادانستہ طورپراس پالیسی کی بنیاد رکھی جو مصطفیٰ کمال کی جمہوریہ نے بعد میں اپنائی اوراس طرح انہوں نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی ، انہوں نے قانونی مقدمات شرعی عدالتوں سے دیوانی عدالتوںمیں منتقل کردئے ، ترکی زبان کو رومی رسم الخط میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش ،قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینے شروع کروائے ، موسیقی کی درسگاہیں قائم کیں ،خواتین کو آزادی دلاکر انہیں ملازمتوںمیں جگہ دی ،اسلامی قوانین منسوخ کرکے عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اورایک سے زیادہ بیوی رکھنے پر پابندی عائد کی ‘‘۔
ان تمام کارستانیوں ہی کانتیجہ ہے کہ چند دہائیوں قبل جو ملک تمام عالم اسلام کا مرکز اورسب کی عقیدت ومحبت کا محورتھا وہاں آج یہ قرارد اد پاس کردی گئی ہے کہ اذان اونچی آواز میں نہیں دی جائے گی ،طالبات تعلیمی اداروں میں حجاب استعمال نہیں کریںگی بے دینی کا یہ سیلاب اور مذہب بیزاری کا یہ سیلاب انہی دوررَس اقدامات کا نتیجہ تھا جو یہودی شیطا نی دماغوں نے تجویز کئے دراصل بین الا قوامی صیہونیت ایک بہت بڑے پیمانے کی سازش ہے ،صہیونیت سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہودی سازش کے ذریعہ ہی دنیا پر اقتدار کا خواب دیکھتے رہے ہیں اورجس دورکاذکر برنا ڈلیوس نے کیا ہے وہ سازشوں اورریشہ دوانیوںسے بھرا ہوا ہے اورہر سازش کے پیچھے یہودی اورصرف یہودی ہی ہیںلیکن عوام کی توجہ حقائق سے ہٹانے کے لئے وہ کسی سازش کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں ، ذرا غورکیجئے کہ یہ خو د کتنی بڑی سازش ہے ۔
آخرمیںلارڈکنروس (LORD KINROSS)کی کتاب ’’اتاترک ،ایک قوم کا احیا (ATATURK THE REBIRTH OF A NATION)سے تھوڑا سا اقتباس دلچسپی سے خالی نہ ہوگا وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۲۸پر لکھتا ہے ۔
ترکی کی انجمن اتحاد وترقی نے فری میسن تنظیم کے طریقوں کو آزادی سے استعمال کیا اورانجمن کارکن بنانے کیلئے اسی طریقہ کا ر کو اختیار کیا جو فری میسن کرتے ہیں ، انجمن کارکن بنانے کیلئے وہی تقریب منعقد کی جاتی تھی جس میں امیدوار کن کی آنکھوںپر پٹی باندھ کر نقاب پوشوںکے سامنے پیش کیا جاتا جو لمبی لمبی عبائیںپہنے ہوئے ہوتے اوراسے تلوار اورقرآن پرحلف اٹھوایا جاتا کہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرائے گا ،انجمن کے رازوںکی حفاظت کرے گا اوراس کے احکامات کی تعمیل کرے گا اس سلف میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر انجمن کسی کو قتل کرنے کاحکم دے گی تو اس کی تعمیل بھی کی جائے گی ۔،
اس قسم کی باتیں مصطفیٰ کمال جیسے آدمی کے مزاج کے لئے قابل قبول نہیں تھیں لیکن چوں کہ اس کے پاس یونیورسٹیوںکے ساتھ چلنے کی علاوہ اورکوئی چارہ کار نہیں تھا اسے یہ حلف اٹھانا پڑا ۔
مصطفیٰ کمال نے تین نقاب پوشوںکے سامنے حلف اٹھایا تھا اس کا اعتراض صرف قرآن کی موجودگی پر تھا ورنہ وہ یہودیوںکی فری میسن تحریک سے بالکل متفق تھا ۔
یہودیوںکی اس سازش کااثریہ ہوا کہ سلطنت عثمانیہ جس کی حدود مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھیں اورجس نے یورپ کی عظیم الشان سلطنتوں کو لرزہ براندام کیا ہوا تھا پارہ پارہ ہوگئی ان علاقوں کے مسلمان جو ایک امت واحد ہ میں پروئے ہوئے پر سکون اورخوشحال زندگی گزاررہے تھے ،ان میں علاقائی عصبیت کا زہر داخل کرکے چھوٹی چھوٹی حقیر اکائیوںمیں تقسیم کردیا گیا ،بین الاقوامی صہیونیت اسرائیل کی ایک آزاد مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اورجن عرب ملکوں کو ’’آزادی ‘‘کی نعمت سے نوازا گیا وہاں اقتدار کے حقدار صرف اسرائیل کے گماشتے قرار پائے جو صرف آپس میں لڑکر ایک دوسرے کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف متحدنہیں ہوسکتے ۔
اسرائیل جو ایک معمولی سے علاقہ پر قائم ہوا تھا ، آج اس کی حدود میں شام کا جولان کا علاقہ مصر کی غزہ پٹی ، اردن کا مغربی کنارہ اورجنوبی لبنان شامل ہوچکے ہیں ۔(جاری ہے)
 
Top