حجراسود

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اللہ رب العزت کاقرآن پاک میں ارشاد پاک ہے
"بے شک لوگوں کی عبادت کے لئے سب سے پہلا مقررہونے والاگھروہ برکت والاہے جومکہ میں ہے سارے جہاں کارہنمااسمیں کھلی نشانیاں ہیں"۔

کعبہ معظمہ اتنی برکت والاہے کہ رب ذالجلال ہرروزوہاں پرایک سوبیس رحمتیں نازل فرماتاہے چالیس رحمتیں ان نمازیوں کے لئے جوکعبہ میں نمازپڑھتے ہیں اور ساٹھ رحمتیں کعبة اللہ کاطواف کرنیوالوں کے لئے اوربیس رحمتیں کعبة اللہ کی طرف نظرکرنیوالوں کے لئے جہاں پررب کی رحمت کی برسات ہووہ جگہ رحمت والی کیوں نہ ہو۔

تفسیرحسینی میں مرقوم ہے کہ کعبة اللہ کی طرف ایک نظرسے دیکھنااس قدرثواب واجرکاحامل ہے جتناکہ مکہ مکرمہ کے باہرسال بھرکی عبادت کاثواب ہوتاہے یعنی مکہ مکرمہ کے باہرسال بھرکی عبادت کاثواب اورمکہ کی جانب ایک نظردیکھنے کاثواب برابرہے جس نے ایک مرتبہ کعبہ پرنگاہ ڈالی گویااس نے ایک سال کی عبادت کاثواب حاصل کرلیا۔

حضرت مسیب ؓ نے فرمایا"جوکوئی ایمان اورقلبی تصدیق سے کعبہ معظمہ کادیدارکرے گناہوں سے یوں پاک ہوجاتاہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیداہواہو۔

ارشادباری تعالیٰ ہے ،
"وَللہ ِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البِیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلِیہِ سَبِیلاَ۔وَمَن کَفَرَ فَاِنِّ اللہَ غَنِیّ’‘ عَنِ العَالَمِین.'

اللہ پاک کے گھرکاحج کرناہرصاحب استطاعت پرایک مرتبہ فرض ہے کئی احادیث مبارکہ حج کے بارے میں وارد ہیں جن میں سے چندیہاں پردرج کی جارہی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ہم پرخطبہ پڑھاتوفرمایا!اے لوگوتم پرحج فرض کیاگیاہے لہذاحج کرو!ایک شخص نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ کیاہرسال حضورﷺخاموش رہے حتیٰ کہ اس شخص نے تین بارکہاتوآپﷺ نے فرمایاکہ اگرمیں ہاں کردیتاتوہرسال واجب ہوجاتااورتم نہ کرسکتے پھرفرمایا مجھے چھوڑے رہوجس میں میں تم کوآزادی دوں کیونکہ تم سے اگلے لوگ نبیوں سے زیادہ پوچھ گچھ اورزیادہ جھگڑے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں لہذاجب میں تمہیں کسی چیزکاحکم دوں توجہاں تک ہوسکے کرگزرواورجب تمہیں کسی چیزسے منع کروں تواسے چھوڑدو۔ (مسلم شریف)

حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایااے لوگو!بے شک اللہ پاک کی جانب سے تم پرحج فرض ہے۔پس حضرت اَقرَعَ بن حابسؓ کھڑے ہوئے اورعرض کیایارسول اللہ ﷺہرسال (آپﷺخاموش رہے یہاں تک اس صحابی ؓ نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا)آپﷺ نے فرمایااگر میں ہاں کردیتاتوواجب ہوجاتااگرواجب ہوجاتاتوتم اس پرعمل نہ کرتے اورنہ ہی اسکی طاقت رکھتے اورحج زندگی میں ایک بارفرض ہے جوزیادہ مرتبہ کرے وہ نفل ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا"جس شخص نے اللہ کی رضاکے لئے حج کیااورفحش کلامی نہ کی اورنہ فسق کی باتیں کیں جب (حج)کرکے لوٹے گاتوایساہوگاجیسے اسکی ماں نے اسے ابھی جناہو" (متفق علیہ )

مندرجہ بالااحادیث میں واردہے کہ جوشخص ادائیگی حج اورحج کے دنوں میں گناہوں سے بازآجائے تواسکے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں -

حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے حضرت عمرؓ کوارشادفرمایااے عمرؓ!کیاتونہیں جانتاکہ اسلام لانااسلام قبول کرنے سے پہلے والے گناہوں کومٹادیتاہے اورہجرت پہلے کے گناہوں کو مٹادیتی ہے اوربے شک حج سابقہ گناہوں کوگرادیتاہے اس حدیث مبارکہ میں تین باتوں کی وضاحت کی گئی ہے ،اول یہ کہ اگرکوئی غیرمذہب اسلام قبول کرلے تواسکے زمانہ کفرکے گناہ معاف ہوجاتے ہیں،دوسرایہ کہ راہ خدامیں ہجرت کرنے سے پہلے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورحج کرنے سے سابقہ گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "حج گناہوں کویوں دھوڈالتاہے جیسے پانی میل کو"

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آقاﷺ نے ارشادفرمایاکہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے درمیانی گناہوں کومٹادیتاہے اورحج مقبول کی جزاصرف جنت ہے -

حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کی یارسول اللہ ﷺمیری بہن نے حج کی منت مانی تھی اوروہ مرگئی تونبی کریم ﷺ نے فرمایااگراس پرقرض ہوتاتوتواداکرتاعرض کیاجی ہاں !آقاعلیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایااللہ پاک کاقرض بھی اداکرووہ توزیادہ اداکے لائق ہے ۔ (مسلم ،بخاری)

ارکان حج
احرام باندھنا اورتلبیہ کہنا
احرام کاباندھنافرض ہے احرام کے متعلق حدیث پاک میں آتاہے
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مدینہ والوں کے لئے جوذوالحلیفہ کومیقات(ایسی جگہ جہاں احرام باندھاجاتاہے) بنایااورشام والوں کے لئے حجفہ کواورنجدیوں کے لئے قرن منازل کواوریمن والوں کے لئے یلملم ۔یہ میقات ان کے باشندوں کے لئے بھی ہیں اورانکے لئے بھی جوانکاباشند ہ نہ ہومگر ان پرسے گزرے جوحج یاعمرہ کاارادہ کرتاپھرجوان میقاتوں کے اندرکاباشندہ ہوتواس کااحرام اپنے گھرے ہے اوراسی طرح حتیٰ کہ مکہ والے مکہ سے ہی احرام باندھیں ۔ (مسلم وبخاری)

حضرت زیدبن ثابتؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکودیکھاآپﷺنے احرام (باندھنے)کے لئے کپڑے اتارے اورغسل کیا۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے احرام کے وقت جب آپﷺ احرام باندھنے لگتے تھے اورآپکے احرام سے باہرنکلنے کے وقت کعبہ معظمہ کاطواف کرنے سے پہلے میں آپﷺ کوخوشبولگادیتی تھی ۔

نیت کرنے کے بعدمردبلندآوازسے اورعورتیں آہستہ آوازسے تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں لَبَّیکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیک الاخر(زبان سے کہناشرط ہے کم سے کم ایک مرتبہ کہنافرض ہے حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے جب اپناپاﺅں مبارک رکاب میں داخل فرمایااورآپﷺ کی اونٹنی آپ کولیکرسیدھی کھڑی ہوئی توآپﷺنے ذوالحلیفہ کی مسجدکے پاس باآوازتلبیہ کہا۔(مسلم ،بخاری)

حضرت خلادابن سائب سے روایت ہے وہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایامیرے پاس جبرائیل امینؑ آئے ہیں اورمجھے حکم پہنچایا ہے کہ یارسول اللہﷺاپنے صحابہ کوحکم دوکہ احرام یاتلبیہ اونچی آوازسے کریں۔(مالک،ترمذی،ابوداﺅد،نسائی،ابن ماجہ،درامی)

دخول مکہ وطواف کعبہ
حضرت نافع ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمرمکہ معظمہ میں داخل ہونے سے پہلے رات ذی طویٰ میں گزارتے ۔صبح غسل کرتے نمازپڑھتے پھردن کومکہ مکہ معظمہ میں داخل ہوتے اورجب مکہ معظمہ سے واپس ہوتے تورات ذی طویٰ پرگزارتے حتیٰ کہ صبح ہوجاتی اورآپؓ فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺیہی عمل کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن اوفی ؓ کہتے ہیں کہ رسول ا للہ ﷺ نے عمرہ کیاتوکعبة اللہ کاطواف بھی فرمایااورمقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نمازپڑھی آپ کے ہمراہ ایک آدمی تھاجوآپ کولوگوں سے چھپائے ہوئے تھاپھرایک شخص نے عبداللہ بن اوفی ٰ سے پوچھاکیارسول اللہ ﷺ کعبة اللہ کے اندر تشریف لے گئے تھے انہوں نے کہانہیں

حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺمکہ میں تشریف لائے توآپﷺنے طواف کیاصفااورمروہ میں سعی(دوڑ) کی اس طواف کے بعدآپ کعبہ کے قریب نہیں گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ عرفات سے واپس لوٹے ۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں حضرت ابوبکرنے اس حج میں جس میں نبی کریم ﷺنے انہیں امیرالحج بنایاتھایعنی حجة الوداع سے پہلے بقرعیدکے دن مجھے ایک جماعت میں بھیجاجسے آپﷺ نے حکم دیاکہ لوگوں میں یہ اعلان کردوخبرداراس سال کے بعدکوئی کافرحج نہ کرے اورکوئی ننگاطواف نہ کرے(مسلم،بخاری)

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب پہلاطواف کرتے توتین چکروں میں تیزچلتے اور چار چکروں میں معمولی چال چلا کرتے تھے اورجب صفاومروہ کے درمیان طواف کرتے توبطن سیل میں سعی(دوڑ) فرماتے ۔(مسلم،بخاری)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اورآپکے صحابہ ؓ جب(حج کرنے مکہ)تشریف لائے تومشرکوں نے (آپکے آنے سے پہلے باہم)اس بات کاچرچاکردیاکہ اب تمہارے پاس ایک ایساگروہ آنے والاہے جسے یثرب کے بخارنے کمزورکردیاہے (اس بات کا آقاﷺ کوپتاچلاتوآپﷺ نے حکم دیاکہ تین چکروں میں رمل (اچھل کودکر/اکڑکر)کریں اوردونوں رکنوں کے درمیان مشی (درمیانہ چلنا) کریں آپکویہ حکم دینے میں کہ وہ کل چکروں میں رمل کریں اسکے سواکہ لوگوں پرآسانی منظورتھی کوئی اوربات مانع نہ تھی۔

وداعی حج(خطبہ حجة الوداع)
حضرت جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنوسال مدینہ پاک میں مقیم رہے حج نہ کیاپھردسویں سال لوگوں میں حج کااعلان کیا گیاکہ رسول اللہ ﷺ حج کوتشریف لے جانے والے ہیں چنانچہ بہت سے لوگ مدینہ پاک میں آگئے ہم آپﷺ کے ساتھ(چل)پڑے حتیٰ کہ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو حضرت اسماءبنت عمیس ؓ کے ہاں محمدبن ابوبکرصدیق پیداہوئے حضرت اسماءنے نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں پیغام بھیجاکہ یارسول اللہ ﷺ اب میں کیاکروں رسول اللہﷺنے فرمایانہالواورکوئی کپڑاباندھ لواوراحرام باندھ لوپھرآقاﷺنے مسجدمیں نمازاداکی پھرآپﷺ قصواءاونٹنی پرسوارہوئے حتیٰ کہ جب اونٹنی آپ کولے کرمیدان میں سیدھی کھڑی ہوئی توحضورﷺنے کلمہ توحیدبلند آوازسے پکاراحاضرہوں الٰہی میں حاضرہوں حاضرہوں تیراکوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں بیشک تمام تمام تعریفیں نعمتیں ملک تیرے ہیں تیرا کوئی شریک نہیں حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم صرف حج ہی کی نیت سے تھے عمرہ کوجانتے بھی نہیں تھے حتیٰ کہ جب ہم کعبہ معظمہ میں نبی کریم ﷺکے ساتھ پہنچے توحضورﷺنے رکن کوبوسہ دیاپھرسات پھیرے طواف کیاجس میں تین چکروں میں رمل فرمایااور چارچکروں میں معمولی چال چلے پھرمقام ابراہیم ؑ پرتشریف لائے تویہ آیت تلاوت کی"کہ مقام ابراہیم کوجائے نمازبناﺅپھردورکعتیں اسی طرح پڑھیں کہ مقام کواپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرلیاایک اورروایت ہے کہ آپ ﷺنے ان دونوںرکعتوں میں قل ھواللہ احداورقل یایھاالکفرون پڑھیں پھررکن اسود کی طرف لو ٹے اسے چوماپھردروازے سے صفاپہاڑکی طرف تشریف لے گئے جب صفاسے قریب ہوئے تویہ آیت کریمہ تلاوت کی "کہ صفاومروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ہم اس سے ابتداءکریں گے جس سے رب تعالیٰ نے ابتداءکی چنانچہ آپﷺنے صفاسے سعی شروع کی اس پرچڑھے حتیٰ کہ کعبہ معظمہ کو دیکھ لیاتوکعبہ کومنہ کیااللہ تعالیٰ کی توحیدوتکبیربیان کی اورفرمایااللہ کے سواکوئی معبودنہیں اسکاکوئی شریک نہیں اسی کاملک ہے اسی کی تعریف ہے وہ ہرچیزپرقادرہے اللہ کے سواکوئی معبودنہیں جس نے اپناوعدہ پوراکردیااپنے بندے کی مددکی اس اکیلے نے دشمن کے گروہوں کوبھگایاپھران ذکروں کے درمیان دعامانگی تین باریہ فرمایاپھر صفاسے اترے پھرمروہ کی طرف چلے حتیٰ کہ بطن وادی میں آپکے قدم شریف برابرسیدھے ہوگئے پھردوڑے حتیٰ کہ جب آپﷺچڑھنے لگے توآپ ﷺمعمولی چال چلے حتیٰ کہ مروہ پرپہنچے پھر مروہ پربھی اسی طرح کیاجس طرح صفاپرکیاتھاحتیٰ کہ جب مروہ پرآپﷺکاآخری چکرہواتوآپﷺبے آوازدی حالانکہ آپ مروہ پرتھے اورلوگ آپ ﷺسے نیچے توفرمایااگرہم اس کام کاپہلے سے خیال کرتے جسکابعدمیں خیال آیاتوہم ہدی(قربانی کاجانور)نہ لاتے اوراسے عمرہ قراردیتے لہذاتم میں سے جسکے ساتھ ہدی نہ ہووہ احرام کھول دے اوراسے عمرہ قراردے تب حضرت سراقہ ابن مالکؓبن جعشم کھڑے ہوکر بولے یارسو ل اللہ ﷺیہ حکم ہمارے لئے اسی سال کے لئے ہے یاہمیشہ کے لئے تورسول اللہﷺ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائیں اور دوبارہ فرمایاکہ عمرہ حج میں داخل ہوگیایہ حکم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے جناب علی یمن سے نبی کریم ﷺ کے ہدی کے اونٹ لے کرآئے توان سے حضورﷺنے پوچھاکہ جب تم نے حج کی نیت کی توکیاکہاتھاعرض کیامیں نے کہاتھاالٰہی میں اسکااحرام باندھتاہوں جس کااحرام تیرے رسول اللہ ﷺنے باندھافرمایامیرے ساتھ توہدی ہے لہذاتم حلال نہ ہونا(احرام نہ کھولنا)روای فرماتے ہیں ان ہدیوں کامجموعہ جوجناب علی یمن سے لائے اورجونبی کریم ﷺ لائے تھے وہ کل سو (100) تھیں فرماتے ہیں پھرتمام لوگ حلال ہوگئے (یعنی احرام کھول دیا)اوربال کٹوائے سوائے نبی کریم ﷺکے اوران حضرات کے جن کے ساتھ ہدی جانور تھاپھرجب آٹھویں بقرعیدہوئی تولوگوں نے منیٰ کارخ کیاجب حج کااحرام باندھانبی کریم ﷺسوارہوئے تومنیٰ میں ظہر،عصر،مغرب عشاءاورفجرکی نمازپڑھی پھرتھوڑا ٹھہرے حتیٰ کہ سورج نکل آیااورحضورﷺنے حکم دیاتھاتونمرہ میں حضورﷺکے لئے اونی خیمہ لگادیاگیاتھاچنانچہ رسول اللہﷺچلتے رہے قریش کواس میں شک وتردوہی نہ تھاکہ آپ مشعرحرام کے پاس قیام کریں گے(ٹھہرجائیں گے)جیسے اسلام سے پہلے قریش کیاکرتے تھے مگر آقاﷺ وہاں سے آگے بڑھ گئے حتیٰ کہ عرفہ پہنچ گئے تو آپﷺنے مقام نمرہ میں خیمہ لگاہواپایاوہاں سے اترپڑے حتیٰ کہ سورج ڈھل گیاتو اونٹنی قصواءکاحکم دیااسے کجاوا کس دیاگیاآپ بطن وادی میں تشریف لائے لوگوں کوخطبہ دیااورفرمایاکہ تمہارے خون تمہارے آپس کے مال تم پریوں ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی اس مہینہ اوراس شہرمیں حرام ہیں۔خبرداررہوجاہلیت کے زمانہ کے خون ختم کردیئے گئے ہیں میں اپنے خونوں میں پہلاخون ختم کرتاہوں وہ ربیعہ ابن حارث کاخون ہے یہ بنی سعدمیں شیرخوارتھے توانہیں قومِ ہذیل نے قتل کردیاتھااورجاہلیت کے زمانہ کے سودختم ہیں میں اپنے سودوں میں سے پہلاسودختم کرتاہوںوہ عباس ابن عبدالمطلب کاسود ہے وہ ساراہی ختم ہے۔ عورتوں کے معاملہ میں اللہ پاک سے ڈروکہ تم نے انہیں اللہ پاک کی امان میں لے لیاہے اورکلمہة الٰہیہ سے ان کی شرمگاہوں کوحلال کیاہے ۔ تمہارے ان پریہ حقوق ہیں کہ وہ تمہارے بستروں کوان سے پامال نہ کرائیں جنہیں تم ناپسندکرتے ہوپھراگروہ عورتیں ایساکریں توتم انہیں نقصان نہ دینے والی مارمارواور عورتوں کی تم پربھلائی سے انکی روزی اوربھلائی سے انکاکپڑاہے میں تم میں وہ چیزیں چھوڑتاہوں کہ اسکے ہوتے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے جب تک تم اسے تھامے رہے یعنی قرآن کریم اورتم سے میرے متعلق پوچھاجائے گاتوتم کیاکہوگے سب بولے ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے تبلیغ فرمادی اور امانت اداکردی اورخیرخواہی فرمائی پھرحضرت بلالؓ نے اذان دی پھرتکبیرکہی آقاﷺنے نمازظہرپڑھی پھرتکبیرکہی توعصرپڑھ لی ان دونوں نمازوں کے درمیان کچھ نہ پڑھاپھرآقاﷺسوار ہوئے حتیٰ کہ عرفات کے جائے مقا م پرتشریف لائے تواپنی قصواءکاپیٹ بڑے پتھروں کی طرف کردیااورحبل مشاة کواپنے سامنے لیااورقبلہ کومنہ کیاپھروہاں اتنے ٹھہرے رہے کہ سورج ڈوب گیااورکچھ زردی غائب ہوگئی تاآنکہ سورج کی ٹکیہ پوری چھپ گئی اورحضرت اسامہؓ کوردیف بنایااورروانہ ہوگئے حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے پھروہاں ایک اذان اوردوتکبیروں سے نمازمغرب وعشاءپڑھی درمیان میں نوافل کچھ نہ پڑھے پھرکچھ دیرلیٹ گئے حتٰی کہ فجرطلوع ہوگئی توسویراچمکتے ہی اذان وتکبیرکے ساتھ فجرپڑھی پھر قصواء پر سوار ہولئے حتٰی کہ مشعرپہاڑکے پاس تشریف لائے پھرقبلہ کومنہ کیااوررب سے دعامانگی تکبیروتہلیل وتوحیدکہتے رہے وہاں ٹھہرے رہے کہ خوب اجالاہوگیاسورج نکلنے سے پہلے روانہ ہوگئے اورحضرت فضل ابن عباس کواپنے پیچھے سوارکرلیاحتیٰ کہ بطن وادی میں آئے تواپنی اونٹنی کوکچھ حرکت دی پھردرمیانی راستہ پرپڑگئے جوبڑے جمرے پرنکلتاہے حتیٰ کہ اس جمرہ پرپہنچے جودرخت کے پا س ہے تواسے سات کنکر مارے جن میں سے ہرکنکرکے ساتھ آقاﷺتکبیر کہتے تھے جوکنکری ٹھیکری کی طرح تھی بطن وادی سے رمی کی پھرقربانی گاہ کی طرف لوٹے تو63اونٹ اپنے ہاتھ قربانی کئے پھرحضرت علی المرتضیٰ کومرحمت فرمایابقیہ انہوں نے قربانی کئے اورحضورﷺ نے اپنی ہدی میں شریک کرلیاپھرحکم دیاتوہراونٹ کی ایک بوٹی لے کرہانڈی میں ڈالی اورپکائی گئی توان دونوں صاحبوں نے وہ گوشت کھایااس کا شوربا پیا پھر رسول اللہﷺسوارہوئے اوربیت اللہ شریف (کیطرف) چلے.نماز ظہرمکہ میں پڑھی پھربنی عبدالمطلب کے پاس تشریف لائے جوزمزم پرپانی کھینچ رہے تھے فرمایااے بنی عبدالمطلب کھینچے جاﺅاگریہ خطرہ نہ ہوتا کہ سب لوگ تمہارے پاس کھینچے میں تم پرغلبہ کرلیں گے تومیں تمہارے ساتھ پانی کھینچتالوگوں نے آقاﷺکوپانی کاڈول پیش کیاآقاﷺنے اس سے پانی پیا۔ (مسلم شریف)

بوسہ حجراسود
حضرت عمرؓ کعبة اللہ کاطواف کررہے تھے طواف کرتے کرتے جب حجراسودکے پاس آئے اوراسے بوسہ دیااورکہا۔اے حجراسودمیں جانتاہوں کہ توایک جنتی پتھر ہے کعبة اللہ کی دیوارمیں نصب ہے پراے حجراسودسن نہ تم عمرؓکے نفع کامالک ہے نہ نقصان کامالک ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تجھے بوسہ دیاہے اسلئے میں بھی تجھے بوسادے رہاہوں اگرنبی ﷺ نے تجھے بوسانہ دیاہوتاتومیں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ حجراسودجنت سے آیاوہ دودھ سے زیادہ سفیدتھااسے آدمیوں کے گناہو ں نے سیاہ کردیا۔آپ ؓ سے ایک روایت ہے آپؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺنے حجر(اسود)کے متعلق فرمایارب تعالیٰ!کی قسم اللہ پاک اسے قیامت کے دن ایسے اٹھائے گاکہ اسکی دوآنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھتاہوگااورایک زبان ہوگی جس سے بولتاہوگا(جس نے اسکو)حق سے چوماہوگااسکی گواہی دے گا۔(ترمذی،ابن ماجہ،درامی)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایارکن اسود(حجراسود)اورمقام ابراہیم جنت کے یاقوتوںمیں سے یاقوت ہیں جنکی روشنی اللہ پاک نے چھپالی ہے اگراللہ پاک انکی روشنی نہ چھپاتاتویہ مشرق ومغرب کے درمیان کوجگمگادیتے۔(ترمذی
 
Top