گل ولالہ(ناصرمظاہری)سے مفیدانتخاب

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حاصل مطالعہ​
ناصر الدین مظاہر ی​
حضرت دانیال ؒ کی قبرمیںپائے گئے پتھر
مطرف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں تستر کی فتح میں ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ تھا ،مقام شوین میں ہمیں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر ملی ،وہاںکے لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو ان کو قبر سے نکال لیتے اور ان کے ذریعہ پانی کی دعا کرتے تھے ۔اس کے ساتھ ایک عبارت کندہ ملی جس کے پڑھنے کے لئے نعیم نامی حیرہ کے ایک نصرانی شخص کو بلایا گیا اس نے وہ عبارت پڑھی اس کے نیچے لکھا ہوا تھا ۔
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۔ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔
’’جس نے دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کیاوہ دین اس سے قبول نہیں کیاجائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا ۔‘‘
یہ سنکر اس دن بیالیس علماء نصاریٰ ایمان لائے ،یہ حضرت عمر ؓکی خلافت کا واقعہ ہے ۔(تاریخ یہود ونصاریٰ )
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
پتھروں کی بستی
ابن بطوطہ سندھ کی سیاحت کے حالات میں لکھتا ہے کہ ایک دن میں ایک مقامی جاگیرکے ساتھ شہر سے باہر روانہ ہوا۔تقریباًسات میل چلنے کے بعد ہم ایک ہموارعلاقہ میں پہنچ گئے ۔
یہاں ایک عجیب وغریب منظر تھا ۔آدمیوں اور جانوروں کی شکل کے بے شمار پتھرپڑے تھے ،بعض کے صرف سر یا پاؤں کی صورت باقی رہ گئی تھی ،باقی خدو خال اور ناک نقشہ مٹ چکا تھا،کچھ پتھر چنے ،گندم اور دال وغیرہ کی شکلوں کے بھی تھے شہر پناہ کے کھنڈر اور منہدم مکانات کی شکستہ دیواریں جگہ جگہ کھڑی تھیں ۔
چند قدم چل کر ہمیں ایک مکان نظر پڑا جس میں ایک کمرہ تراشے ہوئے پتھر کا تھا اس کے بیچوں بیچ پتھر ہی کا ایک چبوترہ سا تھا ،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب ایک ہی پتھر ہے اس کے اوپر پتھر کا ایک آدمی بیٹھا تھا مگر اس کا سر لمبا اور منہ چہرے کے داہنی طرف ہٹا ہوا تھا ، ہاتھ کمر کے پیچھے تھے جیسے کسی نے باندھ دئے ہوں ، جگہ جگہ پانی جمع تھا ، جو انتہائی متعفن تھا ،بعض دیواروں پر ہندی زبان میں کتنے کندہ تھے ،میرے ساتھی نے بتایا کہ اہل تاریخ کہتے ہیں کہ اس مقام پر ایک عظیم الشان شہر آباد تھا ۔یہاں کے باشندوں نے جب بد دیانتی ، جھوٹ ،فریب اور ظلم وتعدی کی انتہاء کردی تو یہ سب کے سب پتھر بنادئے گئے۔ان کا بادشاہ وہی ہے جو حویلی میں چبوترے پر بیٹھا ہے ،یہ حویلی اب بھی ’’شاہی محل ‘‘کے نام سے مشہور ہے اور جو کتبے ہندی زبان میں دیواروں پر کندہ ہیں ان میں اس شہر کی عبرتناک تباہی کی تاریخ درج ہے جو اَب سے ایک ہزار سال پہلے کی تاریخ ہے ۔(سفرنامہ ابن بطوطہ ۲:۷)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
پراسرار گواہی[align=center]
ابن بطوطہ سفر مالا بار کے حالات میں لکھتا ہے کہ یہاں کے ایک عظیم الشان شہر ’’ وہ فتن ‘‘میں جامع مسجد کے سامنے لوگوں نے مجھے ایک سرسبزوشاداب درخت دکھایاجس کے پتے انجیر کے مشابہ مگر قدرے نرم تھے اس کا نام ’’درخت ِ شہادۃ ‘‘ہے لوگوں نے عجیب وغریب بات یہ بتائی کہ ہر سال موسم خزاں میں اس میں سے ایک پتہ جھڑتا ہے جو سرخی مائل ہوتا ہے اس میں قلم قدرت کی یہ عجیب وغریب تحریر موجود ہوتی ہے ۔ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘۔
یہاں کے مشہور عالم ’’حسین ‘‘ اور بہت سے معتبر لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے وہ پتہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مذکورہ کلمہ صاف پڑھا ہے،’’حسین ‘‘نے بتایا کہ جب اس کے گرنے کا زمانہ آیا تو درخت کے نیچے کئی معتبر کافر اور مسلمان بیٹھ گئے جب وہ گرا تو نصف مسلمانوں نے لے لیا اور نصف شاہی خزانہ میں رکھ دیا گیا ۔
یہی درخت دیکھ کر موجودہ بادشاہ کا دادا کویل مسلمان ہوگیا تھا اس کا ایک لڑکا کافر تھا باپ کے مرنے کے بعد اس نے یہ درخت جڑ سمیت اکھڑوادیا اور اس کا کوئی نام ونشان باقی نہ چھوڑا ،مگر جلد ہی وہ درخت تو اپنی پہلی آب وتاب کے ساتھ نکل آیا مگر وہ لڑکا فوراً ہلا ک ہوگیا ۔ اب اس درخت سے یہاں کے غیر مسلم مریضو ں کیلئے شفاء مانگتے ہیں ۔(ابن بطوطہ ۲:۱۱۴)۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
[/align]
مندرجہ ذیل واقعہ کی صداقت سے وہ مستشرقین بھی انکار نہ کرسکیں گے جو طعنہ دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلاہے!
امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے غازیانِ اسلام کا ایک دستہ روم کی طرف روانہ کیا ،اسی دستہ میں رسول اکرم ﷺ کے ایک صحابی عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے ۔
سوء اتفاق سے یہ دستہ رومیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا رومیوں کو جب یہ معلوم کہ ان میں ایک صحابی بھی موجود ہیںتو انہیں شاہِ روم کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے صحابی ہیں ۔
شاہِ روم !(عبد اللہ ؓ سے )تم عیسائی مذہب قبول کرلو تو میں تمہیں اپنی حکومت وبادشاہت میں شریک کرلوںگا۔
عبد اللہ ؓ!اگر تو مجھے اپنے پورے ملک او ر مال ودولت کا اور تمام ملک عرب کا مالک بنادے تو میں ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے پیغمبرکے دین سے ہٹنا گوار ا نہیں کرسکتا ۔
شاہ ِروم !تو میں تمہیں قتل کرڈالوں گا ۔
عبد اللہ ؓ۔مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔
شاہ روم نے حکم دیا کہ اس کو سولی پر لٹکادیا جائے اور تیر اندازوں کو علیحدہ سمجھادیا کہ اس پر تیربرسائیں جائیںمگر اس طرح کہ یہ زندہ باقی رہے، تیروں کی بارش شروع ہوگئی تمام تیر دائیں بائیں سے ہوکر گزررہے تھے تیروں کی اس دہشت انگیز سنسناہٹ میں بار بار اس مرد جانباز کو عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی تھی مگر وہ غیر متزلزل قول کے ساتھ مسلسل انکا ر کرتے رہے ۔
عاجز آکر شاہِ رو م نے ان کو سولی سے اتارنے کا حکم دیا مگر اس لئے نہیں کہ اس کے دل میں کچھ رحم آگیاتھا بلکہ اس لئے کہ اب سا کی درنگدی نے ایک اور بھیانک صورت اختیار کرلی تھی ۔
ایک بڑی دیگ منگائی گئی اسم یں پانی خوب کھولایا گیا ، جب وہ پوری طرح جہنم زار بن گئی تو عبد اللہ ؓ کے ایک ساتھی کو دھمکی دی گئی کہ عیسائی مذہب اختیار کرلو ورنہ اس دیگ میں ابال دئے جاؤ گے لیکن یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نے صاف انکار کردیا آخر ان چیتہ صفت انسانوں نے اس کو کھولتی ہوئی دیگ میں پھینک دیا تھوڑی دیر بعد جب لاش باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو چند ہڈیاں نکل سکیں ،گوشت پانی میں گھل چکا تھا یہ بھیانک منظر دکھانے کے بعد شاہِ روم کو یقین تھا کہ عبد اللہ ؓ اب عیسائی مذہب سے انکار نہ کرسکے گا ۔
شاہِ روم : تم نے اپنے ساتھی کا حشر اچھی طرح دیکھ لیا اگر تم بھی عیسائی مذہب قبول نہ کرو گے تو تمہیں بھی اس دیگ میں اسی طرح ابا ل دیا جائے گا ۔
عبد اللہ ؓ !مگر میں اپنے ایمان پر اب بھی قائم ہو ںمیں اپنے پیغمبر کا مذہب نہیں چھوڑوں گا ۔
حکم دیا گیا کہ اسے بھی اسی کھولتے ہوئے پانی میں جھونک دیا جائے ۔
جب عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو اس وحشت ناک دیگ کے قریب لے جایا گیا تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسوؤںکی لڑیاں بہہ نکلیں ،شاہ روم سمجھا کہ یہ خوف زدہ ہوگیا ہے اس مرتبہ اس کو پختہ یقین ہوگیا کہ اب وہ اسلام کو ضرور چھوڑدے گا ۔ عبد اللہ کو پاس بلایا اور پھر اپنے مذہب کی تبلیغ کی۔
عبد اللہ ! میرافیصلہ اٹل ہے ،میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میں اسلام کو نہیں چھوڑوں گا اور اب بھی پور ی قوت کے ساتھ اس پر قائم ہو ں۔
عبد اللہ : میرا فیصلہ اٹل ہے ،میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میں اسلام کو نہیں چھوڑوں گا اور اب بھی پوری قوت کے ساتھ اس پرقائم ہوں ۔
شاہِ روم : پھر تم کیوں رورہے تھے ؟
عبد اللہ ! میں موت سے ڈر کر نہیں بلکہ یہ سوچ کر رورہا تھا کہ اب چند لمحو ں میں مجھے شہادت نصیب ہوجائے گی ،کاش مجھے سینکڑوں مرتبہ زندگی ملتی ، ہرمرتبہ زندہ ہونے کے بعد مجھے اس میں ڈالا جاتا اور ہر مرتبہ مجھے شہادت نصیب ہوتی !
شاہِ روم : اگر تم عیسائی مذہب قبول نہیں کرتے تو میرے سر کو بوسہ دید و میں تمہیںآزاد کردوں گا ۔
عبد اللہ :کیا میرے ساتھیوں کو بھی آزاد کردوگے ۔
شاہِ روم :ہاں ساتھیو ں کو بھی ۔
عبد اللہ کہتے ہیں کہ یہ سو چ کر کہ اگر چہ یہ اللہ کا دشمن ہے مگر اس کے سر کا بوسہ دینے سے (جس میں کوئی شرعی ممانعت بھی نہیں )مجھے اورمیرے تمام ساتھیوں کو آزادی مل جائے گی ،میں نے یہ شرط منظور کرلی اور اس کے سرکو بوسہ دیدیا۔
جب یہ پورے دستہ کے ساتھ آزاد ہوکر مدینہ منور ہ پہنچے تو امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا شاندار خیر مقدم کیا اور فرمایا ، ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ ؓ کے سر کو چومے اور سب سے پہلے میں چومتا ہوں ، یہ کہہ کر فرط ِمحبت میں عبد اللہ بن حذافہ کا سر چوم لیا ۔(کنز العمال ۷:۲۲، الاصابۃ ۲:۲۸۸)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حق بحق دار رسید
ابن بطوطہ نے ایک عجیب واقعہ یہ لکھا ہے کہ میں ہندوستان کے کو ہ کامروپہنچا،چین اور تبت کے ناقابل تسخیر پہاڑی سلسلہ سے ملا ہوا ہے ،مقصد یہ تھا کہ شیخ جلال الدین تبریزی سے ملاقات کروں ، جب میں ان سے ملا تو انہو ں نے ایک نہایت حسین اور بیش قیمت پوستین پہنی ہوئی تھی میرا دل چاہا کہ کاش شیخ یہ مجھے دیدیں مگر زبان سے کچھ نہ کہا ۔
جب میں رخصت ہونے لگا تو شیخ نے وہ پوستین اتار کر مجھے پہنای اور خود پیوندلگا ہوا لبادہ اوڑھ لیا ،ان کے پاس رہنے والے چند فقیروںنے مجھے بتایا کہ اتنا بیش قیمت لباس پہننے کی شیخ کو عادت نہیں ،در اصل یہ پوستین انہو ں نے اپنے بھائی ’’برہان الدین صاغرجی‘‘کے واسطے انہی کے ناپ پر بنوائی ہے ۔
لیکن تمہاری آمد کے وقت یہ انہوں نے خود پہن لی اور پیشین گوئی کی کہ یہ مہمان مجھ سے یہ پوستین لے لے گا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس سے ایک کافر بادشاہ لے لے گا پھر اس بادشاہ سے کسی طرح یہ پوستین میرے بھائی برہان الدین کے پاس پہنچ جائے گی ۔
ان لوگوں کی بات سن کر میں نے کہا کہ اس تبرک کو میں اپنے ہاتھ سے جانے نہ دوں گا ،میں کسی بادشاہ سے یہ پہن کر ملو ں گا ہی نہیں چاہے وہ کافر ہو یا مسلمان ،یہ کہہ کر میں ان لوگوں سے رخصت ہوگیا ،عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً مجھے چین کا سفر پیش آیا اس کے عظیم الشان شہر ’’خنسہ ‘‘میں داخل ہوا تو شدید ہجوم کی وجہ سے میرے ساتھی مجھ سے بچھڑگئے ،اس وقت میں پوستین پہنے ہوئے تھا ،ابھی راستہ ہی میں تھا کہ سامنے سے وزیر کی سواری آگئی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو مجھے بلالیا ،ہاتھ میں ہاتھ ڈال کروہ حالات سفر پوچھتا رہا اور اپنے ساتھ لے گیا حتی کہ ہم دونو ں شاہِ چین کے محل میں داخل ہوگئے ، میں نے وہاں سے ہٹنے کی کوشش کی مگر وزیر نے روک دیا اور بادشاہ سے ملاقات کرائی ۔
شاہِ چین مجھ سے سلاطین اسلام کے بارے میں پوچھتا رہا لیکن بار بار اس کی نظریں میری پوستین میں جذب ہوتی جارہی تھیں آخر وزیر نے مجھ سے کہا کہ یہ پوستین اتار دو ،میں انکار نہ کرسکا اور پوستین اتار شاہ کے حوالہ کردی ،شاہ نے اس کے عوض میں مجھے دس جوڑے ،ایک آراستہ گھوڑا اور کچھ رقم خرچ کے لئے دیدی ، میں اس سودے پر خوش تھا مگر فوراً ہی شیخ کی پیشین گوئی یاد آگئی کہ ’’یہ پوستین ایک کافر بادشاہ لے لیگا ‘‘پھر اس پر ایک عجیب وغریب بات ہوئی کہ اگلے سال چین کے دوسرے شہر پیکنگ جانے کا اتفاق ہوا وہاں ایک بزرگ کے پاس حاضر ہوا یہ دیکھ کر میری حیرت بڑھتی جارہی تھی کہ یہ بزرگ بعینہٖ وہی پوستین پہنے بیٹھے تھے میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ کہیں پہ کوئی دوسری تونہیں اس کا پلہ الٹ کر دیکھنا چاہا ۔
مگر انہو ں نے معنی خیز انداز میں پوچھا ’’جب تم اسے پہچانتے ہو تو یوں کیوں الٹے پلٹتے ہو ؟ ‘‘
میں نے بے چینی سے کہا جی ! یہ وہی ہے جو مجھ سے خنسہ کے بادشاہ نے لے لی تھی ۔
انہوں نے اسی انداز سے کہا کہ میرا نام ’’برہان الدین صاغر جی ‘‘ ہے اور یہ پوستین میرے بھائی جلال الدین تبریزی نے میرے واسطے بنوائی تھی اورمجھے لکھ دیا تھا کہ یہ پوستین تمہارے پاس فلاں شخص کے ذریعہ پہنچ جائے گی یہ کہہ کر وہ خط انہوں نے مجھے دکھایا۔ (سفر ابن بطوطہ ۲؍۱۵۰)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
عجیب رات:​
سلطنت عباسیہ کا عظیم خلیفہ ہارون رشید تخت نشین ہوا تو رات کا وقت تھا اور ربیع الاول ۱۷۰ھ؁ کی سولہویں تاریخ ، اسی رات میں چند لمحوں قبل اس کے بھائی ہادی نے وفات پائی تھی جو اس وقت کا ولی عہد تھا ، چند ہی لمحوں بعد سلطنت عباسیہ کا آئندہ وارث مامون پیدا ہوا ۔
اس لحاظ سے تاریخ کی یہ عجیب رات تھی کہ اس میں سلطنت عباسیہ کے ایک خلیفہ نے وفات پائی ، ایک خلیفہ تخت نشین ہوا اور ایک خلیفہ پیدا ہوا ۔(حماۃ الاسلام ۲:۳۴)
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
بیاض گل و لالہ ( ناصر مظاہری )
بہت دل چسپ اور معلوماتی ہے ابھی تو اس بیاض کے چند ورق ہی دیکھ پائے ہیں جو کہ خوب مزیدار اور مفید ہیں اور ہم اپنے مفتی صاحب ( ناصر مظاہری ) سے امید رکھتے ہیں کہ
بیاض گل و لالہ ( ناصر مظاہری ) کا باقی حصہ بھی مطالعہ کے لئے ضرور ملے گا ۔ اور میں مفتی صاحب کا مشکور ہوں کہ جن کی بیاض کے خوبصورت موتی ہمارے دامن میں آ گے ۔ بہت شکریہ
 
Top