کمزوردل اورموٹے افرادپڑھیں چاہے نہ پڑھیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
بشکریہ:
http://www.express.pk/story/38897/

مٹاپا بھی عجیب چیز ہے۔ کبھی تو یہ لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی اس کی وجہ سے بہت سی آسانیاں اور سہولیات میسر آجاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھاری بھرکم اور لحیم شحیم افراد کو ستائشی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، کیوں کہ ایسے لوگ اپنے وزن کی وجہ سے نہ تو کسی پیداواری عمل میں شامل ہوپاتے ہیں اور نہ ہی ان میں چستی اور پُھرتی ہوتی ہے، جس کے باعث وہ سست اور کاہل قرار پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عام لوگ طنزیہ نظروں سے دیکھتے اور ان پر تنقید و نکتہ چینی کے تیر برساتے ہیں۔ ان پر بسیار خوری کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دیکھنے میں تو بہت موٹے تازے نظر آتے ہیں، لیکن ان کی خوراک بہت کم ہوتی ہے۔ وراثت میں ملنے والا مٹاپا ان کے لیے جان کا روگ بن جاتا ہے۔
مٹاپے کو عموماً روگ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے، مگر بعض اوقات یہ لوگوں کے لیے بہت سی آسانیاں بھی ساتھ لاتا ہے۔ کبھی موٹے لوگ جیل کی قید سے بچ جاتے ہیں تو کبھی پھانسی کے پھندے کو بھی چکما دینے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ ذیل میں کچھ ایسے ’’مُٹاپوں‘‘ کا تذکرہ کیا جارہا ہے، جو کسی فربہ شخص کے لیے مصیبت بنے تو کسی بھاری بھرکم فرد کے لیے راحت کا پیغام لائے۔
1 ۔کیا مائرا قاتلہ تھی؟
مائرا روزیلز کا تعلق امریکی ریاست ٹیکساس سے ہے۔ وہ بے تحاشا موٹی ہے۔ 31سال کی عمر میں اس کا وزن 1,100یا نصف ٹن کے قریب ہے۔ ایسی وزنی عورت کی زندگی عذاب نہیں تو اور کیا ہوگی کہ نہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ہاتھ پائوں ہلاسکتی ہے اور نہ ہی وہ زندگی سے عام لوگوں کی طرح لطف اندوز ہوسکتی ہے۔ اپنے روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی کے لیے بھی وہ دوسروں کی محتاج ہے۔
مارچ 2008 میں یہ حیرت انگیز واقعہ منظر عام پر آیا کہ مائرا روزیلز نے اپنی بہن جیمی کے دو سالہ بیٹے Eliseo جونیر کو قتل کردیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو پولیس نے اسے حراست میں لے لیا اور مائرا نے عدالت کے سامنے یہ اعترافی بیان بھی دے دیا کہ اس سے یہ جرم سرزد ہوا ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ عدالت قانون کے مطابق اسے اس جرم کی سزا سنائے۔ اس نے یہ قتل کیسے کیا، اس پر عدالت بھی حیران تھی اور قانونی ماہرین بھی، کیوں کہ بالخصوص مائرا کے اٹارنی کا یہ کہنا تھا کہ اس کی موکلہ اس قدر بھاری بھرکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ یا پیر کو اپنی مرضی سے ذرا بھی حرکت نہیں دے سکتی۔ پھر اس کے مٹاپے میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے۔ ایسی عورت کے لیے اپنے وجود کو سنبھالنا ہی ممکن نہیں ہے، تو وہ کسی کو قتل کیسے کرے گی؟
یہ سب کیسے ہوا، اس کے جواب میں مائرا نے عدالت کے سامنے یہ بیان دیا:’’میری بہن جیمی کا بیٹا Eliseo جونیر میرے گھر میں میرے پاس سورہا تھا کہ حادثاتی طور پر سوتے میں، میں اس کی طرف لڑھک گئی اور میرا بھاری بھرکم ہاتھ اس کے اوپر چلا گیا، جس سے بچے کا دم گھٹ گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی۔‘‘
اس دوران تفتیش جاری رہی اور پھر عدالت کے سامنے مائرا کی اصل کہانی اس وقت آگئی جب عدالت کے حکم پر ڈاکٹروں نے مرنے والے بچے کا معائنہ کیا۔ انہوں نے مائرا کی کہانی کو فرضی قرار دے دیا اور دعویٰ کرتے ہوئے کہا:’’اس بچے کی موت اس کے سر پر لگائی جانے والی ضرب سے واقع ہوئی ہے۔‘‘
جب مائرا نے دیکھا کہ اس کا جھوٹ کھل چکا ہے اور اب اس کے پاس سچ بولنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تو اس نے آخرکار عدالت کے سامنے سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا:’’میں نے اپنی بہن جیمی کو بچانے کے لیے یہ جھوٹ بولا تھا، کیوں کہ جیمی نے اس روز اپنے دو سالہ بیٹے کو کئی بار ہیئر برش سے مارا تھا اور یقینی طور پر اس کے سر پر کوئی کاری ضرب لگی تھی جس کی وجہ سے معصوم بچہ اپنی جان سے گیا تھا۔‘‘ اگرچہ مائرا جھوٹی ثابت ہوگئی، مگر مٹاپے کے باعث اس پر قتل کا الزام ثابت نہ ہوسکا۔ اس طرح محض اپنے مٹاپے کی وجہ سے سزا سے بچ گئی۔
2 ۔ کلاڈ جیکسن کی انوکھی سزا
شیپارٹن کے کلاڈ جیکسن نامی ایک شخص نے14جنوری2007کو شیپارٹن کے ایک بار میں ایک دوسرے گاہک ٹم کرک مین کے ساتھ جھگڑا کیا اور اس کے سر پر گلاس توڑ دیا، جس پر اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔ (واضح رہے کہ شیپارٹن، آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا ایک شہر ہے) اس جھگڑے میں ٹم کرک مین کی گردن پر چار سینٹی میٹر گہرا زخم آیا۔ اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا گیا۔
ملزم کلاڈ جیکسن کی عمر صرف 21سال ہے، اسے عدالت نے لڑائی جھگڑے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے متاثرہ شخص کو سنگین چوٹیں پہنچائی ہیں، جس پر اسے سخت سزا ملنی چاہیے۔
ادھر وکٹوریا کی کائونٹی کورٹ میں ایک میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ کلاڈ جیکسن کا وزن 190 کلوگرام ہے۔ اسے اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں تین ہارٹ اٹیک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آرتھرائٹس (جوڑوں کے درد) sleep apnoea اور دوسری ایسی بیماریوں میں مبتلا ہے جن کا تعلق وزن میں اضافے سے ہے۔
(واضح رہے کہ sleep apnoea ایک ایسی بیماری ہے جس میں سوتے میں متاثرہ فرد کو سانس لینے میں پریشانی ہوتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے سانس لے پاتا ہے)
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک بار اس کا وزن 234کلوگرام تک جاپہنچا تھا اور تب سے یہ خوف ناک و جان لیوا مٹاپا زندگی بھر کے لیے اس کے ساتھ ایسا چمٹا کہ اس کے لیے عذاب بن گیا۔
میڈیکل رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اسے جیل بھیجا گیا تو اس کی صحت کے لیے مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
کلاڈ جیکسن نے اس واقعے کے حوالے سے کہا:’’میں اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ آئندہ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کروں۔‘‘عدالت نے کلاڈ جیکسن کو یہ سزا دی ہے کہ اسے سماجی خدمات کی انجام دہی پر لگادیا ہے اور وہ اپنا یہ کام بڑی ذمے داری اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔
3 ۔موٹا خاندان: کام نہیں کرسکتا
یہ ایک ایسے خاندان کا قصہ ہے، جس کے تمام افراد کا مجموعی وزن83 اسٹون یا 527کلوگرام ہے۔
اس خاندان نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ چوں کہ اس کا کوئی بھی فرد اپنے مٹاپے کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں ہے، اس لیے حکومت ان کی مالی مدد میں قابل قدر اضافہ کرے۔
بلیک برن کی ایما چانر کی فیملی کے ارکان ایک فلاپ ٹی وی شو ’’ایکس فیکٹر‘‘ کے کردار ہیں۔ یہ لوگ اب بھی اپنی کیلوریز سے بھرپور لائف اسٹائل کا خرچ برداشت نہیں کر پارہے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ ڈائٹنگ کیوں نہیں کرتے؟ تو بے روزگار ایما چانر کے خاندان کے سبھی ارکان نے ہم آواز ہوکر یہ اعلان کیا:’’ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اس خاندان کے سبھی ارکان اس قدر موٹے ہیں کہ ان کے پڑوسی انہیں موٹے خرگوش کہہ کر پکارتے ہیں۔
53 سالہ فلپ شانر اور اس کی 57سالہ بیوی آڈرے کا وزن 24اسٹون یا 152 کلوگرام ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی پانچ فٹ تین انچ قامت کی حامل ایما کا وزن 17اسٹونیا 108کلوگرام ہے، جب کہ اس کی بڑی بہن اکیس سالہ سمانتھا کا وزن 18اسٹون یا 114 کلوگرام ہے۔ سمانتھا کا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔
انہوں نے گیارہ سال سے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مٹاپے کا سبب ان کا موروثی مرض ہے۔ یہ پوری فیملی اپنا سارا وقت ٹی وی کے سامنے گزارتی ہے۔ یہ ٹی وی بھی ان کی اپنی کمائی کا نہیں ہے، بلکہ یہ انہوں نے اپنے ایک دوست سے ادھار لیا ہے۔
اس خاندان کا کہنا ہے کہ خوراک پر اس کے ایک ہفتے میں 50پائونڈز خرچ ہوتے ہیں، جس میں چاکلیٹ، چپس، پائیز وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح یہ پوری فیملی تین ہزار کیلوریز یومیہ استعمال کرتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو نہ جانے اس فیملی کا کیا انجام ہوگا۔
4 ۔سزائے موت نہیں دی جاسکتی
امریکی ریاست اوہایو کے رونالڈ پوسٹ نامی ایک شخص نے لگ بھگ تیس سال پہلے شمالی اوہایو میں ایک ہوٹل کلرک کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جس پر عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی۔ رونالڈ کا وزن لگ بھگ 480پائونڈز ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر ہوجائے، جس کے لیے اس نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ اس کا بہت زیادہ وزن اس کی موت کو نہایت خوف ناک اور شدید تکلیف دہ بنادے گا۔
اس نے عدالت کو درخواست دیتے ہوئے کہا:’’میرا وزن اتنا زیادہ ہے کہ اس کی وجہ سے میری وریدیں بھی پھٹ سکتی ہیں اور ٹشوز بھی۔ اس کے علاوہ میرے دیگر طبی مسائل کے باعث مجھے موت کی سزا دینے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ وہ اس پہیوں والے اسٹریچر پر بھی پورا نہیں سماسکے گا جس پر لٹا کر اسے پھانسی گھاٹ تک لے جایا جائے گا۔ اس ضمن میں رونالڈ پوسٹ نے فیڈرل کورٹ میں اپنی درخواست جمع کرادی ہے۔ 53سالہ رونالڈ کی سزائے موت پر جنوری میں عمل درآمد ہونا ہے۔ اس نے 1983میںElyria میں 53سالہ ہیلن وانٹز کو پہلے گن پوائنٹ پر لوٹا اور پھر اس کے سر کے پچھلے حصے میں دو گولیاں ماری تھیں، جس سے وہ فوری طور پر ہلاک ہوگئی تھی۔ عدالت میں پیش کی جانے والی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رونالڈ پوسٹ نے اپنا وزن کم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن گھٹنے اور کمر کی تکالیف کی وجہ سے اسے ورزش کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کے باعث وہ یہ کام بھی نہیں کر پارہا ہے۔
5 ۔بھیانک مٹاپا: باپ ہونے کی خوشی چھن گئی
360پائونڈ کے وزن کا حامل ایک فرد، جس کا نام اس کے ملکی قانون کی وجہ سے بتایا نہیں جاسکتا، اس کا تعلق اوٹاوا ، کینیڈا سے ہے۔ یہ شخص محض اپنے بے تحاشا وزن کی وجہ سے اپنے دو بیٹوں کی کفالت اور نگہ داشت سے محروم ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالت کے حکم پر ایک ڈاکٹر نے اس کا طبی معائنہ کیا اور عدالت کو یہ بتایا کہ یہ شخص بہت زیادہ وزنی ہے اور اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ اپنے بچوں کی نگہ داشت نہیں کرسکتا۔ اس بیان کے بعد عدالت نے اس کے دونوں بیٹوں کو اس سے چھین لیا، جن کی عمریں بالترتیب پانچ اور چھے سال ہیں۔ اس ضمن میں اس نے ایک سال تک قانونی جنگ بھی لڑی، مگر اس میں اسے شکست فاش ہوئی۔
اس کے بعد ایک جج نے یہ فیصلہ سنادیا کہ ان دونوں لڑکوں کو گود لینے والوں کے لیے پیش کردیا جائے، تاکہ ان کی بہتر نگہ داشت کی جاسکے۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ مذکورہ فرد کو اپنے وزن میں کمی کے یومیہ پروگرام کے لیے خاصی جدوجہد کرنی ہوگی اور ساتھ ہی اسے اپنے بچوں کی نگہ داشت بھی کرنی ہوگی۔ ایسا اس وقت ہوا جب ایک ڈاکٹر نے یہ بتایا کہ مذکورہ شخص اپنے بہت زیادہ وزن کے باعث پوری توجہ اور جذبے کے ساتھ اپنے بچوں کی نگہ داشت نہیں کرسکے گا۔
عدالت نے ڈاکٹر کو حکم دیا تھا کہ وہ مذکورہ فرد کی صحت کا تفصیلی جائزہ لے۔ یہ دونوں بچے اپنی ماں (مذکورہ فرد کی سابق بیوی) کے ساتھ اس لیے نہیں رہ سکے، کیوں کہ وہ کسی دماغی مرض کے باعث اسپتال میں داخل تھی۔ شاید اس نے نشے کی ضرورت سے مقدار لے لی تھی۔ اس فرد کا نام چائلڈ اینڈ فیملی سروسز ایکٹ کے تحت ظاہر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ فرد ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے بچوں سے نہیں ملا ہے۔ اس دوران اس نے اپنا وزن 150 پائونڈ کم کرلیا ہے۔ دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔
6 ۔مُٹاپے نے فضائی سفر سے روک دیا
کینلی ٹگی مین ایک ایسی بھاری بھرکم مسافر ہے، جس نے مئی 2012میں دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وہ جب بہ ذریعہ طیارہ سفر کرنے کے لیے ایئر پورٹ کے گیٹ میں داخل ہورہی تھی تو وہاں موجود پہرے دار نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ بہت موٹی ہے اور ایک ٹکٹ میں طیارے میں سفر نہیں کرسکتی۔ واضح رہے کہ اس ملک میں زیادہ موٹے افراد فضائی سفر کے لیے ایک کے بجائے دو ٹکٹ خریدتے ہیں۔ اس پر کینلی ٹگی مین بہت برہم ہوئی اور اس نے ایئر لائن پر مقدمہ دائر کردیا۔
کینلی نیو آرلیانز میں رہتی ہے۔ اس کی ایک اپنی ویب سائٹ AllTheWeigh.com ہے، جس پر وہ وزن کم کرنے کے حوالے سے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہتی ہے۔ اس ویب سائٹ میں اس نے یہ الزام لگایا کہ ایئر پورٹ کے پہرے دار اپنی کمپنی کی پالیسی پر عمل نہیں کرتے اور یہ لوگ ایئر پورٹ پر دیگر مسافروں کے سامنے متعدد لوگوں کے ساتھ متعصبانہ برتائو کرتے ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں اور یہ کہ مذکورہ ایئر لائن موٹے مسافروں کے ساتھ تعصب والا برتائو کرتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اب یہ طریقہ عام ہوگیا ہے کہ چاہے آپ کا وزن مناسب ہو، مگر پھر بھی یہ آپ کو زیادہ وزنی یا لحیم شحیم قرار دے کر دوسرا ٹکٹ خریدنے پر مجبور کرتے ہیں، جس سے، ظاہر ہے، کمپنی کو زیادہ منافع ہوتا ہے۔ مگر یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ گیٹ پر کھڑے اہل کار اس بات کا فیصلہ کریں کہ کونسا مسافر موٹا ہے اور یہ کہ آیا اسے ایک کے بجائے دو ٹکٹ خریدنے ہیں۔
7 ۔موٹی دلہن عروسی جوڑے سے محروم
گلوسسٹر (انگلستان) کی 31سالہ کلیئر ڈونلے کی شادی کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ وہ خوش تھی کہ اب بہت جلد وہ عروسی لباس پہنے گی۔ اس لیے اس نے شہر کے ایک معروف بوتیک سے اپنے لیے عروسی جوڑا تیار کروانے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے وقت بھی لے لیا۔ مگر اس وقت کلیئر ڈونلے حیران و پریشان رہ گئی جب اس بوتیک کے ملازمین نے اسے یہ اطلاع دی کہ وہ بہت زیادہ موٹی ہے اور اس کا عروسی گائون یہاں تیار نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ کلیئر ڈونلے کا قد پانچ فٹ دو انچ ہے۔ پھر اسے یہ بھی بتایا گیا کہ اس دکان میں ایسا کوئی ڈیزائن موجود نہیں ہے، جو اس کے سائز کے مطابق بھی ہو اور اس کے بجٹ کے مطابق بھی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کلیئر ڈونلے کی شادی سر پر ہے ، مگر اسے پورے برطانیہ میں ایسی کوئی ڈریس شاپ نہیں مل سکی ہے، جہاں اس کے سائز کا عروسی لباس تیار ہوسکے۔ کیا کوئی اس ہونے والی دلہن کی مدد کرسکتا ہے ورنہ یہ بے چاری دلہن عروسی جوڑے سے محروم رہ جائے گی؟
8 ۔موٹی لاش جلانے کے خطرات
یورپ کے ملک آسٹریا میں مرنے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نذر آتش کرنے کا رواج عام ہورہا ہے۔ اسی لیے وہاں متعدد crematorium (لاشوں کو جلانے کے مرکز) قائم ہورہے ہیں۔ اس ملک کے ایک شہرGraz میں ایک لحیم شحیم لاش کے کریا کرم نے اس قدر شدید آگ بھڑکادی کہ اس کی وجہ سے crematoriumلگ بھگ تباہ ہوگیا۔
اس حوالے سے تفتیش کرنے والوں کا خیال ہے کہ آسٹریا کے شہر Grazمیں اپریل کے وسط میں جو آگ لگی تھی، اس کا سبب ایک 440پائونڈ وزنی عورت کی لاش کی چربی کی وہ بڑی مقدار تھی جس نے ادارے کے ایک ایئر فلٹر کو بلاک کردیا، جس کی وجہ سے فلٹر سسٹم ضرورت سے زیادہ گرم ہوگیا۔ فائر فائٹرز کو اس آگ پر قابو پانے کے لیے crematorium کے بیرونی سوراخوں سے پانی کی موٹی دھاریں اندر پھینکنی پڑی تھیں، مگر اس سے پہلے آگ اپنا کام کرچکی تھی اور اس قدر نقصان کا سبب بن چکی تھی کہ اس crematorium کو کئی روز تک بند رکھنا پڑا۔ فائر مین جب متاثرہ مقام سے واپس روانہ ہوئے تو وہ سیاہ چکنی کالک کی تہوں سے اٹے ہوئے تھے۔
اس حوالے سے گریز کے فائر چیف کا کہنا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہماری حکومت خصوصی قسم کے crematoria تعمیر کروانے پر توجہ دے جہاں اس طرح کی لحیم شحیم لاشوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھرپور انتظامات موجود ہوں۔ اس کا کہنا تھا کہ سوئٹزر لینڈ میں کم از کم ایک ایسا مرکز موجود ہے۔(ماخوذ:http://www.express.pk/story/38897/)
 
Top