حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒ
ناصرالدین مظاہری
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒکی رحلت اورجدائی کازخم ابھی مندمل بھی نہ ہواتھا کہ شیخ الاسلام حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضوی ؒکے شاگردرشید،انشاء وادب کے سلسلہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریاؒکے معتمد،مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒ کے منظورنظر،اردواور فارسی کے قادرالکلام شاعر ،نظم ونثر پر یکساں درک ورسوخ رکھنے والے ،فارسی زبان کے ماہر ترین اورمسلم عالم، صاحب ِطرز ادیب اورنغزگوشاعراورگزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ تک پوری دیانت داری ،خلوص اورللہیت کے ساتھ مظاہر علوم کی خدمت کرنے والے حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒزندگی کی ۸۸بہاریں دیکھ کردوشنبہ ۴۲محرم الحرام ۹۲۴۱ھ مطابق ۳فروری ۸۰۰۲ء کومولائے حقیقی سے جاملے اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒ۱۴۳۱ھ کوعلم وروحانیت کے شہر تھانہ بھون میںپیداہوئے ، والدماجد کانام حافظ احمد حسنؒہے جو ۹۸۳۱ھ میں رحلت فرماگئے تھی۔
آپ نے ناظرہ قرآن کریم اپنے وطن ہی میں والد ماجد کے پاس پڑھ کرا ردو اورفارسی تعلیم دیوبند میں حاصل کی ، دارالعلوم دیوبند کے درجہ فارسی سے ۵۵۳۱ھ میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔
فارسی سے فراغت کے بعد مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے اور یہاں تعلیم کی تکمیل کرکے ۷۶۳۱ھ میں فارغ ہوئی،آپ فارسی اوراردوکے نامور ادیب وشاعر ہونے کے علاوہ بہتر ین خوش نویس بھی تھی، آپ کی بہت سی عربی ، اردواور فارسی زبانوں میں تحریرات آپ کی خوشی ذوق اور فنی مہارت کا پتہ دیتی ہیں۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اسی سال یہاںآپ کا تقررہوگیا ،مظاہر علوم کے شعبۂ نشرواشاعت کی ذمہ داری آپ سے متعلق تھی ،آپ نے یہاں ابتدائی عربی اور انتہائی فارسی کی کتابوں کا درس بھی دیاہے ۔
مظاہرعلوم کی ملازمت کے دوران آنے والے نامساعد حالات اورکٹھن اوقات میں آپ نے مادرعلمی کے وقار کے تحفظ اور تشخص میںکلیدی کردار اداکیا ،آپ اپنے اساتذہ میں سب سے زیادہ مناظراسلام حضرت مولانا محمداسعداللہ صاحب ؒؒ سے متاثر تھی۔
آپ ؒ نے اپنے اساتذہ کی گو ناگوںصفات اورحسنات کو بنظر غائر نہ صرف دیکھا بلکہ ان حسنات اور قابل تقلید صفات سے خود کومتصف کرنے میں کوشاں رہی، جس وقت آپ نے مظاہر علوم میں تحصیل علم کیلئے قدم رکھا تو یہاں کا چپہ چپہ قال اللہ اور قال الرسول کے نغموں اورزمزموں سے معطر اور معنبر تھا ،ذی استعداد اور مخلص ، بے لوث اور مشفق ومحنتی اساتذہ کی توجہات سامیہ سے پورے طورپر مالا مال رہے ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا عبد اللطیف ؒپورقاضوی ناظم مظاہر علوم ،استاذ الکل حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریاکاندہلویؒجیسی برگزید شخصیات نے مظاہرعلوم کے درودیوارپرنورکی بارش کررکھی تھی۔
Mظاہرہے ایسی خوبیوںاورخصوصیتوںسے مالا مال شخصیات کے تلامذہ میں ان کی جھلک کا آنا ایک بدیہی امر ہے ، حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ نے اپنے تمام ہی اساتذہ سے بھرپور اکتساب فیض کیاتھا ان کی ادبی صلاحیتوں،قلمی پختگی ،اردو اورفارسی زبانوں پر یکساںمہارت ،ان کی بصیرت افروزشاعری ،نغزگوئی اور مقالات پر مضبوط گرفت کے قائل صرف ان کے معاصرین ہی نہیں تھے بلکہ ان کے اساتذہ بھی دل کی گہرائیوںسے آپ کی ادبی اورقلمی صلاحیتوںکے معترف تھے چنانچہ آپ ؒ کے استاد اورمشفق کرم فرما حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب ؒ نے آپ کے نام ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا کہ
’’قدرت نے سرزمین تھانہ بھون کو مردم خیزی میں دوسرے مقامات پر ایک امتیازی حیثیت بخشی ہے اگر مبالغہ نہ سمجھیں تو میں وضوکرکے آپ کے متعلق بھی یہ رائے قائم کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا ہوں کہ آپ کی پیشانی کی لکیروں میں بھی ادب کے آفتاب نصف النہار کی کرنیں مستقبل قریب میں اپنے مستقل آفتاب ہونے کا اعلان کررہی ہیں ‘‘
اسی طرح معروف شاعر محترم تسکین قریشی مرحوم نے آپ کی شاعری کو اسلوب وتراکیب کے لحاظ سے ’’ہمرنگ ‘‘ اور’’دل پذیر‘‘بتلایا تھا ، دیوبند کی سرزمین کے نامور عالم حضرت مولانا محمدنعیم دیوبندیؒ جو مولانا انعام الرحمن تھانویؒ کے رفیق بھی تھی،اپنے ایک مکتوب میں مولانا کی ادبیت ، مضمون ووادب میں سبقت وصلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ آپ کی روانی قلم نے تھوڑی دیرکے لئے مجھے وہاں لیجاکر کھڑا کردیا جہاں ہم آپ اوردیگر احباء مصروف گلگشت تھے ،انصاف یہ ہے کہ اس بارے میں آپ تمام ساتھیوںپر گویا سبقت لے گئے ہیں ‘‘۔
معروف صحافی رفعتؔ تھانوی نے ایک خط میں آپ کے کسی مضمون کو پڑھ کر اپناتاثر یوں بیان کیا
’’معلو م ہوتا ہے کہ فرصت کا وقت تھا اورتخیل مائل پرواز تھا ،اشہب قلم صفحۂ قرطاس پر طرارے بھرتا رہا اورمکتوب اچھاخاصامعلوماتی مقالہ بن گیا ‘‘۔
مولانا اعجاز احمد قاسمی دیوبندی مدظلہ نے آپ کے اشعار کو ہدیۂ تحسین وتہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ آپ کے اشعارگویا شیشۂ الفاظ میں شراب معانی سے لبریز ہیں ‘‘۔
]حضرت مولانا عبد الرؤف عالی مدظلہ جو خود گوناگوںخوبیوں کے مالک ،درس نظامی کی ہر کتاب کو پڑھانے اوراس کا حق ادا کرنے پر قادر ، عربی ،فارسی اوراردو ادب کے نامور صاحب قلم انشاء پرداز ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبداللطیف صاحب پورقاضویؒ کے فرزند ہونہاراورحضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ کے نواسے ،مختلف کتابوں کے مصنف ،مؤلف اورہزاروں قلمی شہ پاروں کے موجد نیزمظاہر علوم سہارنپور سے ۸۶۳۱ھ میں فارغ ہیں اورلطف یہ کہ معاصر بھی ہیں لیکن ’’المعاصرۃ کالمنافرۃ‘‘سے دوربہت دور،اپنے قلم حقیقت رقم سے مولانا انعام الرحمن تھانوی ؒکو بایں الفاظ داد تحسین پیش کی ہی:
’’انعام صاحب نے ذہن ،فکر بلند ،ذوق لطیف اورجودت طبع کے ساتھ شعرو ادب کے میدان میں قدم رکھا ،اردو ، زبان کی حیثیت سے گھر کی لونڈی تھی ،ادھر فارسی کی چاشنی نے ان کی اردو کو شستگی وشائستگی عطا کی وہیں اس کو علمی پیرایہ ٔ بیان اورلطافت وشیرینی بخشی ،ایک طرف اردو کو انہوں نے اپنے علم وفن سے شاداب کیا وہیں فارسی زبان سے لگاؤکی بناء پر اپنے جذبات وافکار کا اظہار بڑی سجی سجائی اورآراستہ وپیراستہ فارسی میں بھی کیا ، شعر کی ہر صنف پر انہیں عبور حاصل ہے ان کا ذوق ادب عمدہ اشعار بلند پایہ ،فارسی زبان پر دسترس ،لب ولہجہ سنجیدہ ، لطافت بیان کے ساتھ اظہارمطالب پر قدرت شعرگوئی کاملکہ کہ کوئی صنف سخن ان کی جولانگاہ قلم سے باہر نہیں ، بلند انداز نظر،عربی فارسی ترکیبوںسے بھرپور مختصر جملے مگر معنویت اورجامعیت سے لبریز ۔‘‘
علم العروض کے ماہر اور’’کلیدعروض‘‘کے مصنف محترم زارؔ علامی نے بھی مولانا کی ادبیت اورشعر گوئی کاکھلے لفظوں میں اعتراف کیا تھا، حکیم عزیز الرحمن اعظمی جو خود بہترین شاعر اورادیب ہیں مولانا کی شاعرانہ خوبیوں ،فنی مہارتوں اورادبی لیاقتوں کے قائل اورشاہد ہیں۔
اسی طرح مولانا ریاست علی ظفرؔ بجنوری ،ڈاکٹر تنویراحمد علوی ،کوثرؔ تسنیمی ،واصفؔ عابدی ،شوقؔ مانوی ، ظہوراحمد ظہورؔ،جوہرؔ اخلاقی اورسہارنپورکے دیگراستادشعراء نے مولاناکی شاعری اورنظم گوئی پر قلمی شہادتیں پیش کی ہیں ۔
آپ کی نظموںاورغزلو ںکا ایک مختصرانتخاب ان کے فرزندان نے ’’ارمغان تخیل ‘‘کے نام سے شائع کیاتھا جو تقریباً ۰۰۱ صفحات پر مشتمل ہے اس کے علاوہ بہت سی نظمیں،نعتیں،تاریخی غزلیں اب تک طبع نہیں ہوسکی ہیں ۔
آپؒماہنامہ’’ آئینہ ٔ مظاہر علوم ‘‘سہارنپورکے سب سے پہلے مدیر ہیں ،آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تحریرات علمی اورادبی حلقوں میں اعتماداوراستنادکی حیثیت رکھتی تھیں۔
۸۸۹۱ء میں جب آپ نے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے ایماء پرماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم کوجاری فرمایاتوسرکاری سطح پراشاعت کی اجازت مل گئی لیکن حکومت نے پہلاشمارہ پیش کرنے کیلئے بہت ہی کم وقت دیا،ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اوراپنی خدادادذہانت وفطانت،علمیت وادبیت کے باعث سرکاری طور پردئے گئے وقت کے اندرماہنامہ کی جمع وترتیب کاکام پوراکرکے اشاعت کے جان جوکھم مرحلہ سے فارغ ہوگئے ، ایسی حوصلہ مندی بہت ہی کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہی۔
آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں آپ کے اساتذۂ کرام کے نزدیک معتمد تھیں ،آپ حضرت مولانا سید عبداللطیف پورقاضویؒ ،مناظراسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوریؒ ، فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسین ؒ اورموجودہ ناظم ومتولی حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ سمیت مظاہرعلوم کے چار دور نظامت دیکھ چکے تھی۔
آپ ؒ نے ’’مظاہر علوم سہارنپور کے صد سالہ دورپر ایک نظر‘‘کے نام سے ایک قیمتی مقالہ بھی مرتب فرمایا تھاجس کا تذکرہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒنے بھی اپنے بعض مکتوبات میں فرمایاہے ۔
آپ ؒ نے خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کے مجموعہ ’’کلام مجذوب ‘‘پر لاجواب تحقیقی وتاریخی مقدمہ بھی تحریر فرمایا تھا جو طبع ہوکر مقبول خاص وعام ہوچکاہے ۔
یہ مقدمہ اپنی شائستگی،شستگی،برجستگی،عمدگی اورادبیت ومعنویت کے لحاظ سے تصوف کے بارے میں لکھے گئے مجموعی مقالات اور مضامین میں صف اول میں شمارکئے جانے کے لائق ہے اور اس مقدمہ کوپڑھ کرقاری حیرت میں پڑجاتاہے ۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب ؒ نے زمانہ طالب علمی میں مدرسہ کی طرف سے حضرت مولاناانعام الرحمن صاحب تھانوی ؒکے پاس تقریری مشق کی تھی ،اسی طرح شیخ الادب مولانا اطہر حسین ؒنے آپ سے ’’گلستاں‘‘ پڑھی تھی ،اس کے علاوہ حضرت شیخ الادب ؒ گاہے گاہے اپنی خصوصی مجلس میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت مولانا انعا م الرحمن تھانویؒ سے فراغت کے بعد اردو ادب سیکھا ہے ۔
میں نے حضرت مولانا اطہر حسین صاحبؒ کو حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ کا ہمیشہ ادب اوراحترام کرتے دیکھا ہے وہ عموماً حضرت مولانا کے سامنے مؤدب بیٹھتے تھے ، اپنی ادبی نگارشات بھی حضرت مولانا کو دکھاتے ،سناتے اورتصحیح لیتے تھے ،مولانا انعام الرحمن تھانوی ؒنے حکیم الامت حضرت تھانویؒ کو بھی دیکھا ہے اوران کی ایک دومجلسوںمیں شریک بھی رہے ہیں ۔
راقم الحروف نے حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ سے ہی قلم پکڑنا سیکھا ہے ،میرے محسن ، کرم فرما ،شفیق اورقابل احترام اساتذہ میں سے تھی،پیرانہ سالی ،معذوری اورامراض واسقام کے باوجود آپ کا ذہن اورزبان اخیروقت تک الحمد للہ قابو میں رہی ،آپ کی رفیقۂ حیات بھی چندماہ قبل انتقال فرماگئی تھیں۔
آپ کے شاگردرشیدجناب حافظ سلطان اخترصاحب مدظلہ قاضی شہرسہارنپورنے نمازجنازہ پڑھائی اور گورستان قطب شیرمیں تدفین ہوئی۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطافرمائی۔
 
Top