ہیکلِ سلیمانی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ہیکلِ سلیمانی
مولاناکوکب جوالاپوری​

حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کو چار سال گذرچکے ،بلکہ دوماہ اوپر،داؤدعلیہ السلام کی وصیت،تعمیرہیکل کی فکر،سلیمان علیہ السلام نے کام شروع کردیا۔داؤد ؑ پہلے ہی سے پردیسیوںکو مقررکرگئے تھے ، اب سلیمان علیہ السلام نے اورزیادہ ،معمار،آرہ کش اورسنگ تراشوں کوکام پر لگادیا،تیس ہزار آدمیوں کولبنان پر ، ۰۷ہزارباربرداری کے کام پر ،اسی ہزارسنگ تراشی کیلئے ، اورتین ہزاران پر نگران کار ،یہ سب لکڑیاں چیرتے ،بڑے بڑے پتھر تراشتے اوردرست کرکے یروشلم بھیجتے ۔
سوریہ کے بادشاہ جیرام نے بھی کافی مدد کی ،چوبی سازوسامان کے لئے لکڑیاں فراہم کیں اوربھیجیں ۔
سلیمان علیہ السلام نے بنیادیں کھدوائیں ،مربع رقبہ اورگہری بنیادیں ،ساٹھ ہاتھ لمبی اورساٹھ ہاتھ چوڑی مشرقی رُخ اورسنگ مرمر کی طویل وعریض سلوںسے تعمیرشروع ،ساٹھ ہاتھ کی بلندی پر چھت ڈالی گئی اورسروکے صاف ستھرے شہتیروں اورتختوں سے پاٹی گئی ،اوپر ساٹھ ہاتھ کی بلندی کابالا خانہ بنایا گیا ۔
اس طرح ہیکل کی بلندی ایک سو بیس ہاتھ ،ہیکل کے سامنے برآمدہ ،بیس ہاتھ چوڑا ،بارہ ہاتھ لمبا،اونچائی ہیکل کی کل بلندی کے برابر،ہیکل کے چاروں جانب کمری،تعداد میں تیس چھوٹے چھوٹے برابربرابر،پانچ پانچ ہاتھ لمبے ،پانچ پانچ ہاتھ چوڑے اوربیس بیس ہاتھ اونچے ،ہر ایک سہ سہ منزلہ ،ہیکل کی نصف بلندی تک ان کی مجموعی اونچائی بالاخانوں کے کمروں میں کھڑکیاں اوربالاخانہ پر جانے کے لئے دیوارسے متصل زینہ ۔
ہیکل کی یہ تشکیل ماہرین فن کے ہاتھوں سے اس کی تعمیر،خوبی یہ ہے کہ نہ جوڑکا نشان ،نہ ٹانکے کا بند ،اس پر چھت اوردیواریں طلائی چادروں سے منڈھی ہوئی۔
ہیکل کو سلیمان علیہ السلام نے د و حصوں پر تقسیم کیا ۔
(۱)سلیمانی شریعت ،تصویر جائز،اندرونی درجہ کے لئے فرشتوں کے دو مجسمے بنائی،خالص سونے کے ، پانچ پانچ ہاتھ کاقد،دونوں کا ایک بازو دراز،ایک کا جنوبی دیوار سے ملا ہو ا ،دوسرے کاشمالی دیوارسے ،ان کے بیچ میں صندوقِ عہد۔
(۲)ہیکل کے بڑے بڑ ے دروازے ،دروازوں پر بڑے بڑے کواڑ،ان پر سونے کی چادریں چڑھی ہوئیں،اندرونی دروازوں کی طرح بیرونی دروازوںپر بھی پردے ،خوشنمااورخوش وضع،البتہ برآمدے پردوں سے خالی ،ہیکل کا بیرونی حصہ بھی طلائی چادروں سے منڈھا ہو ا …یہ ہے سلیمانی ہیکل…اندرسے بھی سنہری … باہرسے بھی سنہری …چمک دمک ایسی کہ آنکھیں خیرہ۔
سلیمان علیہ السلام نے ایک کاریگر بلایا،سوریہ کاباشندہ جیرام نام ،اسرائیلی خاندان، بہت قابل اورہوشیار، سونے چاندی اورپیتل کے کام میں ماہر ،اس نے ہیکل کا سامان بنایا،سلیمان علیہ السلام کی مرضی کے مطابق،دوستون برآمدے کے دائیں بائیں،اٹھارہ اٹھارہ ہاتھ اونچے ،بارہ بارہ ہاتھ محیط کے ،ستونوں کے سروں پرسوسن کے درخت پانچ پانچ ہاتھ اونچے ،ایک ایک جالی ،جالی میں کھجور کی تصویر،سوسن کے پھول اوردوسوانار،پیتل کا ایک ستون اوربنایا ہر فٹ کے قطرکا،سرستونی پر بارہ بیل پیتل سے ڈھلے ،ہرجانب میں تین تین بیلوں کی پشت پر پیتل کابڑا حوض،نصف کُرّے کی صورت ،ہرہاتھ کے قطراورچارانچ کی انگشت کی جسامت کایہ حوض ہیکل کے سامنے رکھا گیا اوربحرؔکہہ کر پکارا گیا۔
دس ستون اوربنائے گئے ،چوکوراورمربع پانچ ہیکل کے دائیں جانب ہرستون کے چاروں گوشوں پر چھوٹے چھوٹے ستون ،ان کے درمیان دو جانب دو بیل کے مجسمے ،تیسری جانب شیرببر ،چوتھی جانب عقاب ، پھر چھوٹے چھوٹے قد کے جانور،ان چھوٹے ستونوں کے اوپراس طرح کے دس ستون ،ہرستون پر ایک ایک حوض۔
ایک پیتل کی قربان گاہ،سوختنی قربانی کیلئے بیس ہاتھ لمبی بیس ہاتھ چوڑی اوردس ہاتھ اونچی ،اس کیلئے پیتل کے چمچے ،دیگیں اوردست پناہ ،نہایت عمدہ اورخوشنما،پیتل ہی کی دس ہزارمیزیں،ا ن پر شیشیاںاورپیالیاں،دس ہزار شمع دان ،ایک بڑا شمع دان ہیکل کے جانب جنوب ،جو رات دن روشن رہتا ،درمیان میںسونے کی قربان گاہ، باقی ظروف ہیکل کے دوسرے درجے یعنی مقد س کمرے میں رکھے گئے ،کاہن آتے ،حوض میں وضو کرتے ، قربانی کے جانوروں کو دھوتے ،نہلاتے اورقربان گاہ میں جاکر قربانی گذارتے یَعمَلُونَ لَہ مَا یَشَائُ مِن مَّحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ ۔(سلیمان کو جو کچھ بنوانا منظورہوتا یہ جنات ان کے لئے بناتے جیسے مسجد بیت المقدس کی بڑی اونچی شاندار عمارتیں اورڈھلی ہوئی مورتیں اورحوض کی طرح بڑے بڑے لگن بڑی بڑی دیگیں جو ایک ہی جگہ جمی رہیں)۔
سلیمانی ہیکل مقدس ترین مکان ،ہر کس وناکس کے دخول سے اسکی حفاظت لازم ،اس لئے چہاروں جانب ایک چاردیواری بنوادی ،تین تین ہاتھ اونچی،دیوارسے باہر غارپٹوادیا ،زمین کو اونچا کیا اس پر ایک چھوٹی ہیکل تعمیرکرائی ، اندربڑے بڑے کمرے چاردروازے ،سامنے دورویہ مکانوں کی قطار،دورتک ،مکانوں پر چاندی کا ملمع۔
ساتواں سال، اورہیکل اپنے سازوسامان کے ساتھ بالکل تیار ،سلیمان ؑ نے بنی اسرائیل کو جمع کیا ،قرب وجوارسے ،اوردوردرازسے ،ضیافت کی دھوم دھام سے ،صندوق شہادت اندررَکھا ،کاہنوں نے چیزوں کو ترتیب سے لگایا،باہرآئے ،ابر سیاہ کا ایک ٹکڑا نمودار ہو ا ،جس سے اندھیرا چھاگیا ،ٹکڑۂ ابر ہیکل کے اندر گیا ،لوگوں کو ہیکل کی مقبولیت کایقین ہوا ،سلیمان ؑ سربسجود،اوربارگاہِ رب العزت میں یہ مناجات ۔
’’ربّ قدوس نہ توآسمان کی بلندیوں میں سماسکتا ہے ،نہ زمین کی پہنائیوںمیں ،نہ سمندرکی گہرائیوںمیںآسکتا ہے ،نہ خشکی کی وسعتوںمیں یہ مکان ہے تیری پرستش کے لئے اورتیرے مقدس نام کی طرف منسوب ،اسلئے مقام تقدیس ہے ،اورقابل احترام ،تیرے پرستاربندے ،یہاں آئیں گے ، دعا مانگیں گے مرادیں چاہیں گے ،میں تیری منت کرتا ہوں ،ان کی بندگی کو قبول کر ،دعاؤںکوسن ،جو مانگیں انہیں دے ،حاجتیں پوری ہوں اورنامراد بامراد ،تو سب کا محافظ اورنگہبا ن ، جو تجھ سے ڈرتے ہیں ،ان پر سب سے زیادہ مہربان ‘‘۔
دعاختم کی ،سلیمان ؑ شکر الٰہی بجالائے ،قربانی کی بے شما ر جانورو ں کی ،آسمان سے آگ اتری اورتمام قربانیوںکو کھاگئی ،قربانی قبول ،اس کے بعد سلیمانؑ نے سب کو رخصت کیا ،لوگو ں نے نعرہ ہائے مسرت بلند کئے ، اوراپنی اپنی بستیوں کو واپس …یہ دن تھا بنی اسرائیل کی اقبال مندی کااورانتہائی مسرت کا۔
ہیکل مقدس کی تعمیر پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی ،سلیمان ؑ نے خاک پاک حرم کا قصد کیا ،سفر کی تیاری ، لاؤلشکرساتھ لیا ،تخت پر بیٹھے ،اعیان واشراف کو بٹھایا،ہوا کو کوچ کا حکم ،تخت ہوا میں اُڑا،اورارضِ حرم یعنی مکہ معظمہ (زادہا اللہ شرفا وتعظیماً )پہنچ گیا …قربانیاں کیں ،مناسک اداکئے ،اورزائرین کے سامنے پیش گوئی فرمائی۔
’’یہ مقام ہے مقامِ مقدس ،ایک نبی عربی یہاں سے ظہورکرے گا ،جو امی ہوگا ،دشمنوں پر فتح پائے گا نزدیک ودوراس کی ہیبت کاسکہ بیٹھ جائے گا ،لومۃ لائم کی پرواہ نہ کرے گا ،حق وصداقت کی اشاعت میں کامیاب ہوگا ‘‘۔
لوگوں نے عرض کیا ۔
’’وہ کس دین پر ہوگا ؟‘‘……’’دین حنیف پر‘‘پھر فرمایا۔
’’بڑا خوش نصیب ہے وہ شخص جواسے پائے اور اس پر ایمان لائے ‘‘حاضرین یہ خبر ان لوگوں کو پہنچادیں جو موجو د نہیں ،وہ نبیوں کا سردار ہے اوررسالت اس پر ختم ‘‘۔
ایک مرتبہ تَفَقَّدَالطَّیرَ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کی موجودات کی خبر لی تو فرمایا۔
مَالِیَ لَا اَرَی الھُد ھُدَ۔ اَم کَانَ مِنَ الغَاءِبِینَ۔ لَاُعَذِّبَنَّہ عَذَاباً شَدِیداً اَولَاَذبَحَنَّہ اَولَیَاتِیَنِّی بِسُلطٰنٍ مُّبِینٍ۔
کیابات !ہدہد نظرنہیں آتا پرندوں کی کثرت کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتا یا واقع میں غیر حاضر ہے اگرغیرحاضرہے تو میں اسے ضرورسزا دوں گا ،سخت سزا،یا اسے حلال کرڈالوں گا ، یا معقول وجہ پیش کری
فَمَکَثَ غَیرَ بَعِیدٍ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہدہدآحاضرہوا ،سلیمان علیہ السلام نے نگاہِ غضب سے دیکھا اور فرمایا۔کہاں تھا ؟میں تجھے سخت سزا دوں گا۔
فَقَالَ ……ہدہد نے عرض کیا ۔
اَحَطتُّ بِمَا لَم تُحِط بِہٖ وَجِئتُکَ مِن سَبَائٍ بِنَبَائٍ یَّقِینٍ۔
مجھے ایک ایسا حال معلوم ہوا ہے جواب تک حضورکو معلوم نہیں،ایک خبر لایا ہوا ہوں ،تحقیقی خبر اورخبر ہے شہر سباکی ۔
کیا؟……میں نے ایک عورت دیکھی ہے ،سبا کی ملکہ اوران پر حکمران ،ہرچیز میسر،ہرطرح کا سامان سلطنت موجود۔ وَلَھَا عَرشٌ عَظِیمٌ ایک بڑے تخت پرجلوس کرتی ہے ،مگرخدا فراموش ،اورآفتاب کے آگے سجدہ ریزوہ بھی اوراس کی قوم بھی ،شیطان کی شرارت ،یہ اعمال ان کی نگاہوں میں پسندیدہ ،اورسیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ، خدائے قدیر، آسمان کی پوشیدگیوںکو نمایاں کرنے والا،زمین کے پردوں کو پھاڑکرچیزیں نکالنے والا ، چھپے سے واقف اورظاہر سے باخبروہ ہی پرستش کے لائق ہے ،اوروہی عرشِ عظیم کامالک ،مگر…انہیں سوجھتاہی نہیں …فرمایا۔
لے !میر ی یہ تحریرلے جا،اسے ان کی طرف ڈال دے ،ان سے الگ ہوکر دیکھتا رہ ،وہ کیا جواب دیتے ہیں ؟‘‘
ہدہد نے خط لیا اورشہرسبا کی جانب پرواز،پہنچا،ملکہ کے اوپرڈال دیا ،ملکہ نے خط اٹھایا ،کھولا اورپڑھا ۔
بلقیس نے درباریوںسے کہا
یَااَیُّھَا المَلَوئُ اِنِّی اُلقِیَ اِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیمٌ۔
درباریو!یہ مکتوب گرامی میری طرف ڈالا گیا ہے ؟
یہ مکتوب کس کاہے ؟بتایا
اِنَّہ مِن سُلَیمَانَ
یہ سلیمان کے پاس سے آیا ہے !
کیا لکھا ہے ؟……پڑھ کر سنایا
اِنَّہ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ اَلَّاتَعلُوا عَلَیَّ وَاتُونِی مُسلِمِینَ۔
اس میں سب سے پہلے بسم للہ لکھی ہے ۔اس کے بعد؟یہ کہ ہم سے سرکشی نہ کرو،فرماں برداربن کر حاضر ہوجاؤ۔
فرمان سنایا……اورکہا
یَااَیُّھَا المَلَوئُ اَفتُونِی فِی اَمرِی۔
لوگو!بتاؤ،اس معاملہ میںتمہاری کیارائے ہے ؟
میرا ہمیشہ سے دستور یہ ہے کہ
مَاکُنتُ قَاطِعَۃً اَمراً حَتّٰی تَشھَدُونَ۔
تمہاری موجودگی کے بغیرمیں کوئی قطعی حکم نہیں دیا کرتی ۔
قَالُوا…وہ بولے ۔
نَحنُ اُولُو قُوَّۃٍ وَّاُولُوابَأسٍ شَدِیدٍ۔وَالاَمرُ اِلَیِکِ فَانظُرِی مَاذَاتَامُرِینَ۔
حضورلڑنا چاہیں تو ہم بڑے طاقتورہیں اوربڑے لڑنے والے ، آئندہ سرکارکو اختیار،جو حکم دیجئے اس کے نیک وبدکو اچھی طرح دیکھ لیجئے ‘‘
قَالَت ……اس نے کہا
اِنَّ المُلُوکَ اِذَا دَخَلُوا قَریَۃً اَفسَدُوھَاوَجَعَلُوا اَعِزَّۃَ اَھلِھَا اَذِلَّۃً ۔ وَکَذَالِکَ یَفعَلُونَ۔
بادشاہوںکادستورہے ،وہ کسی شہرکوفتح کرتے ہیںبزوربازو،جب اس میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کردیتے ہیں ،وہاںکے معززین کوذلیل کردیاکرتے ہیں‘‘۔
پھر؟……’’صلح ہی بہتر ہے ‘‘…تو سلیمان ؑ کے پاس جائیے گا ‘‘؟……’’پہلا بلاواہے ابھی جانامصلحت نہیں‘‘۔……’’پھر کیاصورت؟‘‘ …… ’’صورت‘‘؟
اِنِّی مُرسِلَۃٌ اِلَیھِم بِھَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ بِمَ یَرجِعُ المُرسَلُونَ۔
ایلچیوں کو بھیجتی ہوں،تحفے لیجائیںگے دیکھو کیا جواب لے کرآتے ہیں۔
رائے درباریوں کوپسند ،بیش بہاہدیے فراہم ،ایلچیوںنے لئے اورروانہ ،مقصدیہ کہ سلیمان ؑ اس دولت کو دیکھیں گے ممکن ہے نرم پڑجائیں اورارادے سے بازآجائیں ۔فَلَمَّا جَائَ سُلَیمَانَ۔ایلچی سلیمان کے دربارمیں پہنچے ۔تحائف پیش کئے ……تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایااَتُمَدِّدُونَنِ بِمَالٍ۔کیا مال سے میری امدادکرنا چاہتے ہو؟مال اورمیرے ارادے کوبدل دے ،حق وصداقت کی اشاعت سے روک دے سنو!میں پیغمبرہوں اورخدا کا پیغمبر۔ فَمَا آتٰنِیَ اللّٰہُ خَیرٌ مِّمَّا آتَاکُم خدانے چو کچھ مجھے دے رکھا ہے ،تمہارے مال سے بہتر ،تمہاری دولت سے کہیںبڑھ چڑھ کر،میںاوردنیاکی دولت کودیکھ ریجھ جاؤں،خوشی کے مارے پھولا نہ سماؤں،کبھی نہیں۔بَل اَنتُم بِھَدِیَّتُکُم تَفرَحُونَ یہ تمہارے ہدیے ،یہ تحائف ان سے کچھ تم ہی خوش ہوسکتے ہو،تم ہی ان پر اتراسکتے ہواِرجِع اِلَیھِم جاؤ!جن کے پاس سے آئے ہوانہیں کے پاس واپس جاؤ۔
یہ ہدیے ،یہ بیش قیمت تحفے بھی لے جاؤ !مجھے اوران کی ضرورت؟جاؤ !جاکر کہہ دوکہ حکم کی تعمیل کرو ، فوراًدربار میں حاضر ہو ورنہ فَلَنَأتِیَنَّھُم بِجُنُودٍلَّا قِبَلَ لَھُم بِھَا ہم ایسا لشکر لے کر چڑھیں گے کہ ان سے مقابلہ نہ ہوسکے گا اورذلیل وخوارکرکے نکال دیں گے ۔
ایلچی روانہ ہوگئے ۔سلیمان علیہ السلام نے کہا
درباریو!تم میں کوئی ایسا ہے جو ملکہ کے تخت کولاکر حاضر کرے ان کے مطیع ہوکر آنے سے پہلی۔
یَااَیُّھَا المَلَوئُ اَیُّکُم یَاتِینِی بِعَرشِھَا قَبلَ اَن یَّاتُونِی مُسلِمِینَ۔قَالَ عِفرِیتٌ مِّنَ الجِنِّ اَنَا آتِیکَ بِہٖ قَبلَ اَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَاِنِّی عَلَیہِ لَقَوِیٌ اَمِینٌ۔
ایک طاقتور جن بولا میں لاحاضرکروں گا اوردربارکی برخاستگی سے پہلے مجھ میںاس مہم کو سرکرنے کی طاقت ہے ،امانت دار بھی ہو ں۔
قَالَ الَّذِی عِندَہ عِلمٌ مِّنَ الکِتَابِ دربار کا ایک شخص ،کتابی علم سے آشنا،اسم اعظم کا جاننے والا ، سلیمان کا وزیرآصف بن برخیا وہ بول اٹھا ۔اَنَاآتِیکَ بِہٖ قَبلَ اَن یَّرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُکَ میں آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی لاحاضرکرتا ہوں۔فَلَمَّا رَآہُ مُستَقِرًّا عِندَہ سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تخت سامنے موجود……بولے
ھٰذامِن فَضلِ رَبِّی لِیَبلُوَنِی ئَ اَشکُرُ اَم اَکفُرُ وَمَن شَکَرَفَاِنَّمَا یَشکُرُ لِنَفسِہٖ۔وَمَن کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّی غَنِیٌّ کَرِیمٌ۔
یہ احسان ہے میرے پروردگارکااحسان ،اوریہ میری آزمائش ہے کہ شکر کرتا ہوں یا ناشکری کوئی کرے گا تو وہ رب بے نیاز ہے ،کریم ہے جودوسخاکا مالک ،ناشکروںکو بھی دینے والا۔
سلیمان کا ارادہ ہوا کہ ملکہ کو آزمایاجائے کتنی عقل رکھتی ہی؟ ……حکم دیا ۔نَکِّرُوالَھَا عَرشَھَا تخت کی صورت بدل دو،کیوں ؟
ٌنَنظُرُ اَتَھتَدِی اَم تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لَایَھتَدُونَ ۔
دیکھیںایمان کے سیدھے راستے آتی ہے یا کبھی راہ پر نہ آنے والوں میں رہتی ہے ۔
حکم کی تعمیل ہوئی ،تخت میں تغیروتبدل کردیا گیا …
فَلَمَّاجَائَ ت قِیلَ اَھٰکَذَا عَرشُکَ ۔
آپ کاتخت بھی ایسا ہی ہے ؟
قَالَت……بولی … اَھٰکَذَا عَرشُکَ …ہوبہواسی جیسا معلوم ہوتا ہے ۔
بتایا گیا کہ اس جیسا نہیں بلکہ وہی ہے ……بلقیس کو خفت ہوئی ،معذرت کی اورکہا
وَاُوتِینَا العِلمَ مِن قَبلِھَا وَکُنَّا مُسلِمِینَ۔ہمیں پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا،آپ برگزیدہ ٔ خداہیں۔آپ ہمیں کیا آزماتے ہیں ہم توپہلے ہی سے آپ کے فرمانبردارہوچکے حاضری سے پہلے ہی۔
وَصَدَّھَامَاکَانَت تَّعبُدُمِن دُونِ اللّٰہِ ۔ اِنَّھَا کَانَت مِن قَومٍ کَافِرِینَ۔اورواقع میںوہ جوخداکے سواآفتاب کوپوجتی تھی ،اسی نے اب تک اس کو سلیمان ؑ کے پاس آنے سے بھی روکے رکھا کیوں کہ وہ کافرلوگوںمیں سے تھی۔
سلیمان ؑ کا محل،محل کاصحن،پانی کا حوض،لبالب،اس میں مچھلیاں،رنگ برنگ کی اورقسم قسم کی چھوٹی اوربڑی ،حوض پر صاف شفاف بلورکی سطح سفید اوربے داغ شیشے کی ،محل میں جاناہوتا تو بلوریں سطح کے اوپرسے … محل کے صدرمقام میں تخت،تخت پر سلیمانؑ رونق افروز،اورفراست بلقیس کا دوسراامتحان۔
قِیلَ لَھَا ادخُلِی الصَّرحَ…بلقیس سے کہاگیامحل میںچلئی!
بلقیس آئی… فَلَمَّا رَأَتہُ… اس نے دیکھا
حَسِبَتہُ لُجَّۃً…سمجھی کہ پانی لہرارہا ہے ،اندازہ کیاتوگھٹنوں سے کم معلوم ہواپائینچے اٹھائی۔
وَکَشَفَت عَن سَاقَیھَا…اوردونوںپینڈلیوںکوکھول دیا۔
سلیمان علیہ السلام فوراً بول اٹھے
اِنَّہ صَرحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِیرَ…یہ تو شیش محل ہے اس کے فرش میںبھی شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔
کم نگاہی، بے عقلی اوربھرے دربارمیں،متنبہ ہوئی اورسخت نادم سمجھ گئی کہ میری عقل خاک بھی نہیں۔
قَالَت…اس نے سلیمان علیہ السلام کے روبروصاف کہہ دیا۔
رَبِّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی وَاَسلَمتُ مَعَ سُلَیمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ…پرودگار!اب تک آفتاب پرستی کرتی رہی ،بے سمجھی اورکم عقلی سے ،اپنا ہی نقصان کیا،اب تیرے پیغمبرسلیمانؑ کے ساتھ ہوئی ،حق وصداقت کی راہ پائی اوردنیا جہان کے پروردگارخدائے قدوس پرایمان لائی۔
سلیمان علیہ السلام کفار سے لڑے ،دشمنوںسے جنگ کی ،مملکت کو وسعت دی ،فرات سے لے کر فلسطینوںتک کے ملک تک،اورمصرکی حدتک ،اسی کے ساتھ عبادت وریاضت اورمہینوں کا تخلیہ…… آخر ۵۷۵؁ہے عصاپرتکیہ،خدائے قدیرکاآخری حکم نازل اورقفس عنصری سے روح پروازمگر کسی کو معلوم بھی نہیں ہوا ،کیا جن اورکیا انس سب یہی سمجھا کئے کہ سلیمان علیہ السلام خانۂ عبادت میں ریاضت کی مدت پوری کررہے ہیں۔
سال بھرہوگیا ،جن وانس،جوش وطیوراورمقررہ خدمات پربدستوریہاں تک کہ عصاکو دیمک کھاگئی ۔
فَلَمَّا قَضَینَاعَلَیہِ المَوتَ مَادَلَّھُم عَلٰی مَوتِہٖ اِلَّا دَابَّۃُ الاَرضِ تَاکُلُ مِنسَاَتَہ…جب ہم نے سلیمان علیہ السلام پر موت کاحکم جاری کیاتو جنات کو کسی چیز نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتایامگرگھن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان کے عصا کو کھارہا تھا ۔
عصاٹوٹا ،سلیمان علیہ السلام زمین پر گری۔
فَلَمَّا خَرَّتَبَیَّنَتِ الجِنُّ اَن لَّوکَانُوایَعلَمُونَ الغَیبَ مَالَبِثُوافِی العَذَابِ المُھِینِ…سلیمان ؑ گرپڑے ،تب جنات پریہ حقیقت واضح ہوئی کہ اگرہم غیب داں ہوتے تو اس ذلت کی مصیبت میں نہ رہتی۔
[/b][/align][/size]
 
Top