حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہیؒ:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یادوں کی خوشبو
ناصر الدین مظاہر ی مدیر آئینہ ٔ مظاہرعلوم سہارنپور​
گفتار تری جیسے کہ ساغرمیں ڈھلے مے:
سرزمین گنگوہ نے کیسے کیسے جیالے پیداکئے ،یہاں کی پاک وروح پرورمٹی نے کتنے ہی دلوں کوپلٹا،کتنی ہی خشک زمینوں کوسیراب کیا،کتنے ہی بنجرذہنوں میں روح وروحانیت کی تازگی پیداکی،کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے دل کی دنیااورفکرکی کھیتی اسی زمین سے نموحاصل کرسکی۔خانقاہوں کے ذریعہ،دعوتوں کے ذریعہ،روحانیت کے ذریعہ،کمالات کے ذریعہ،عرفان حیات کے ذریعہ،تعلیم وتعلم کے ذریعہ،کردارکی پاکیزگی کے ذریعہ ،افکارکی بلندی کے ذریعہ،اعمال کی درستگی کے ذریعہ،اخلاق کی عظمتوں کے ذریعہ غرض دین اوراسلام کی اشاعت وحفاظت کے طرق ہائے لامحدودکے ذریعہ یہاں کے اکابرعلماء وصلحاء نے بھولے ہوئے لوگوں،بھٹکے ہوئے بندوں،گم کردہ راہ افراداورتشنہ کامان عرفان کووہ بصیرت اورفراست مہیاکی جس سے انسان اپنی منزلوں تک بحسن وخوبی پہنچ جائے،کھرے کھوٹے کاامتیاز، حسن وقبح کافرق،خوردوکلاں کاتباین، اسودوابیض کی پہچان کچھ اس اندازمیں پیداکی کہ وہی لوگ جوکل تک کچھ نہیں تھے بہت کچھ ہوگئے،کل تک جنہیں خوداپنی راہوں کاتعین مشکل تھاوہی لوگ آنے والے کل دوسروں کے ہادی بن گئے ، کل تک جوخودمریض تھے آج وہی مسیحابن کرقوم کے دردکے درماں بن گئے۔اکبرالہ آبادی نے کہاتھا
کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زرسے پیدا
علم ہوتاہے بزرگوں کی نظرسے پیدا
ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے اکابرومشاہیرکے پروردہ وپرداختہ،بزرگان دین اورعلماء عارفین کے نورنظر،شیوخ طریقت اورماہرین شریعت کے مخلص خادم حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہیؒ:
بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بستے ہوئے اک شہر کا پل بھر میں اجڑنا
قاری صاحب اپنی ذات میں انجمن،کسی بھی مجلس میں پہنچیں تومیرانجمن،اپنوں کے درمیان شفیق ومہربان،بڑوں کے مابین تواضع وانکساری کاپیکر،طلبہ وشاگردوں کے حق میں مادرمہربان،اساتذہ وعملہ کے لئے لطف وکرم کے دریا،مدارس کی صف میں باعزت نام، خانقاہی میدان میں عظمتوں کی بلندیوں پرفائزغرض
تصویر تری حسن کاآئینہ بنی ہے
گفتار تری جیسے کہ ساغرمیں ڈھلے مے
کردار کے مانند نہیں اور کوئی شئی
اخلاص ترا، میرا ترانہ ہے مری لے
خوبیوں کامجموعہ:
راقم السطورحیرتوں کے سمندرمیں ہچکولے کھارہاہے اورسوچ رہاہے کہ حضرت مولاناقاری شریف احمدؒکی زندگی کے کس پہلوپرقلم اٹھایاجائے ،ضمیرکہتاہے کہ قاری صاحبؒکی خوبیوںکولفظوں کی زبان دی جائے تومعاًخیال آتاہے کہ ان کے دلنوازپیکرکی دلفریبیوںکو زیب قرطاس کیا جائے،کہیں سوچتاہوں کہ ان کے گفتارکی بلندیوں اور افکارکی پاکیزگیوںسے روشناس کراؤں،تودل گواہی دیتاہے کہ ان کے سوزوسازکی نیرنگیوںاوران کے نکہت خیال کی معرکہ آرائیوں پرروشنی ڈالی جائے ،ہاتف غیب کی صدائیں سننے کی کوشش کرتاہوں تومدھم سروں میں آوازآتی ہے کہ اُن کے بڑوں کی مہربانیوں اوراُن کے شیوخ کی لن ترانیوںکوموضوع سخن بناؤ،ذہن کہتاہے کہ اُن کے کرداروگفتارکی جادوبیانیوں اورملت اسلامیہ کیلئے ہمدردیوںکوعنوان بناؤں،قلم کہتاہے کہ نسل نوکے سامنے قاری صاحب کی فکرمندیوں کو آشکاراکروں تودل کہتاہے کہ فی زمانناضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کیلئے قاری صاحب کی غمخواریاں،بے چینیاں اوربے قراریاں بیان کی جائیں تاکہ آج کی آرام پسنداورعیش کی دلدادہ نسل کوآئینہ دکھاکرمستقبل کے لئے انھیں اپنے اکابرکے خطوط ونقوش پرچلنے کیلئے مجبورکیاجاسکے۔
حضرت مفتی مظفرحسینؒ سے تعلق:
یادش بخیر ۱۹۹۶ء اور۱۹۹۷ء میںراقم مظاہر علوم وقف کے شعبہ ٔ دارالافتاء میں زیرتعلیم تھا ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کی خدمت میںعلماء ربانیین اورفقہائے متبحرین کی آمدمستقل ہوتی رہتی تھی ،انہی میں ایک بزرگ جو نورانی چہرہ ،وجیہ وپرکشش ،ملیح وملنسار ، گندم گوں،متوسط القامت ، سنجیدگی ومتانت ان کے کردار سے ہویدا،بات کریں تو پھول جھڑیں ،مسکراہٹ اورخندہ پیشانی عیاں ،مفتی صاحب ؒ بھی ان بزرگوارکا بہت احترام فرماتے ، اپنی مسند سے کھسک جاتے اوران بزرگوار کو اس مسندعالی پر بیٹھنے کااشارہ فرماتے ،ادھر وہ بزرگ بھی بڑوں کے صحبت یافتہ ،فیض یافتہ اور پروردہ وپرداختہ مسند عالی پر بیٹھنے میں تامل فرماتے اور وہ تکیہ جو مفتی صاحب نے آپ کے لئے خالی کیا تھا خود مفتی صاحب ہی کی طرف لوٹادیتے ، یہ منظر چشم فلک نے بارہا دیکھا ،اس شخصیت کانام نامی اسم گرامی حضرت مولانا قاری شریف احمد ؒہے جو اسم با مسمی تھے ۔
سناہے بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قاری صاحب !کمال یہ ہے کہ جو آپ نے کیا کہ مدرسہ قائم کرکے حالات کے مد وجزر کو برداشت کرکے ذرہ سے آفتاب بنادیا ہم لوگ تو بنے بنائے پر بیٹھے ہیں اوریہ کوئی کمال نہیں ہے ۔
غالباً ۱۹۹۸ء کی بات ہے ، مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں احقرکی سب سے پہلی حاضری استاذمحترم فقیہ الاسلام حضرت اقدس مولانامفتی مظفرحسینؒکے ساتھ کسی سفرسے واپسی پراچانک ہوئی تھی،دوپہرکاوقت تھا،قاری صاحبؒاپنے دولت کدہ پرجاچکے تھے ،کسی استاذسے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی البتہ ایک صاحب مطبخ میں تھے جوسہارنپورکے رہنے والے تھے انہوں نے حضرت مفتی صاحب کاوالہانہ استقبال کیا،مسجدسے متصل ایک حجرے میں ٹھہرایااوردوڑے دوڑے قاری صاحب کے پاس پہنچے اورمفتی صاحب کی تشریف آوری کی اطلاع دی ،یہ اطلاع سنتے ہی قاری صاحب تشریف لائے ، حضرت مفتی صاحب سے تپاک سے ملے اورفوراًکھانے وغیرہ کا نظم فرمایا۔بعدمیں مولانامحمدیعقوب بلندشہری جواس سفرمیں ساتھ تھے انہوں نے بتایاکہ حضرت قاری شریف احمدصاحب یہی ہیں۔بہت متأثرہواکیونکہ علاقہ میں ان کی مقبولیت کے چرچے،طبقۂ علماء میں قاری صاحب کاذکرخیر،دینی اجلاس اورمدارس کے سالانہ پروگراموں میں قاری صاحب کی شرکت وشمولیت،اکابراہل اللہ کی مجلسوں میں آپ کی محبوبیت اورمدرسہ اشرف العلوم گنگوہ کی تعلیمی،تعمیری،اورانتظامی ترقیات ان سب باتوں سے عام ذہنوں پرجوتأثرقائم ہوسکتاہے ان سے احقربھی متأثر تھالیکن قاری صاحب کے تواضع، فروتنی، عاجزی،انکساری،کم گوئی اورسادگی سے ان کی عظمت کاپتہ چلتاتھا۔
میں نے بارہادیکھاکہ یہاں مظاہرعلوم میں اگرافتاء یادورہ میں کسی محنتی اورذہین طالب علم کاداخلہ نہ ہوایایہاں کاکوٹہ پُر ہوگیاتوحضرت مفتی صاحبؒاس طالب علم پرغایت شفقت وکرم فرماتے اورطالب علم کوعلاقہ کے جن مدارس کے ذمہ داران کے نام سفارشی مکتوب تحریرفرماتے ان میں سرفہرست مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ تھا۔
حضرت مفتی صاحبؒگنگوہ کواپنے گھرکی طرح سمجھتے تھے،بلااطلاع گنگوہ پہنچنا،وہاں کے سالانہ اجتماعات اورخصوصی مواقع پرمفتی صاحب کی تشریف آوری،خودقاری صاحبؒکی مظاہرعلوم میں مفتی صاحب کے پاس حاضری اورہردوبزرگوں کے درمیان بے تکلف گفتگو،انتظامی معاملات میں مشورے،ملکی حالات کے سلسلہ میں آراء کاتبادلہ،وقف علی اللہ کے بارے میں قاری صاحبؒ کاموقف،مشکل وقت میں قاری صاحب کاحضرت مفتی صاحب کے شانہ بشانہ چلنااورمادرعلمی کے تحفظ میں کلیدی کرداراداکرنا،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا مہاجرمدنیؒ،مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ رامپوریؒ اورحضرت مفتی مظفرحسینؒ اجرڑوی وغیرہ سے مکاتبت ومراسلت سے ان حضرات کے آپسی تعلقات کابخوبی پتہ چلتاہے۔
حضرت مفتی صاحبؒانتقال سے کچھ عرصہ قبل گنگوہ تشریف لے گئے تھے اورخلوت میں قاری صاحب سے خداجانے کیاکیا گفتگوہوئی کہ دونوں حضرات کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں،اس موقع پرقاری صاحبؒ کے خلف الصدق،جانشین محترم حضرت مولانامفتی محمدخالدسیف اللہ مدظلہ بھی موجودتھے۔

(جاری)​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒسے تعلق:
جیساکہ سطوربالامیں ذکرکیاگیاکہ قاری صاحب نے مظاہر علوم سہارنپورکی چہاردیواری میں نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ یہاں کے اکابر اہل اللہ بالخصوص استاذ الکل حضرت مولانا عبد اللطیف پورقاضویؒ ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ؒ،مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوریؒ، مفتی ٔ اعظم حضرت مفتی سعیدا حمد اجراڑوی ؒاوراپنے معاصر خصوصی حضرت مولانا مفتی مظفر حسین اجراڑویؒ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے۔
اول الذکر حضرت مولانا عبد اللطیف ؒ جو مظاہر علوم کے عظیم المرتبت ناظم ومہتمم اورنظام وانصرام کے معاملات میں نہایت ہی اصول پسند تھے ، ان کی خدمت میں قاری صاحب ؒ نے کئی سال رہ کر اپنے دل کی دنیا روشن کی ،اپنے فکر کی کھیتی کوسیراب کیا ،اپنے مستقبل کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کا سبق ان کے بڑوں نے دیا تھا ،چنانچہ حضرت مولانا عبد اللطیف ؒنے قاری صاحب کی تعلیم کی تکمیل کے بعدسرزمین علم وروحانیت گنگوہ میں ایک مدرسہ کے قیام کا حکم دیا اورتعمیل حکم میں حضرت قاری صاحب ؒ نے ایک مکتب قائم فرمایا جس کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اورحضرت مولانا حکیم الامت تھانویؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اشرف العلوم رشیدی رکھا ،یہ مدرسہ ان بزرگانِ دین کی توجہات وعنایات اورخصوصی مستجاب دعاؤں سے شروع سے ہی مالامال رہا ہے ،چنانچہ مدرسہ کی خشت اول سے اب تک مظاہر علوم اوراشرف العلوم کا جو تعلق رہا ہے اس کی ایک شاندار تاریخ ہے ۔
قاری صاحبؒ یہاں مظاہرعلوم میں ایک عرصہ تک نہ صرف حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب کی خدمت میں رہے بلکہ یہاں سے جانے کے بعد وقتاً فوقتاً اپنے اساتذہ کوسالانہ اجتماعات ختم بخاری ،افتتاح بخاری ،ختم القرآن ،افتتاح مشکوۃ اوردیگر اہم مواقع پر یہاں کے اکابر کو مدعو کرتے رہے ،ان کے وعظ وبیانات بھی کراتے رہے اوراپنی سعادت مندی کا ہمیشہ مظاہر ہ کرتے رہے ۔
جس طرح حضرت مولانا عبد اللطیف ؒ نے حسن انتظام کے معاملہ میں بڑا نام کمایا ہے اسی طرح حضرت مولانا قاری شریف احمد ؒ بھی حسن انتظام ، مدرسہ کی ترقیات ،تعلیم کی عمدگی ،تعمیرات کے تنوع ،کتب خانہ اورنوادرات کے معاملہ میں آپ کی وسعت نظری اساتذہ وعملہ میں آپ کی مقبولیت ومحبوبیت وغیرہ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم خردوں کے لئے قابل تقلید وعمل ہیں ۔
حضرت مولانا عبد اللطیف ؒکے زمانہ میں مظاہرعلوم کی مسجد میں استعمال ہونے والے لوٹے خود قاری صاحب ؒ بنواتے تھے ،اورکبھی کبھی حضرت مولانا عبد اللطیف ؒ شکریہ اورحوصلہ افزائی کے کلمات بھی تحریر فرماتے تھے ۔
قاری صاحبؒعموماً اپنی مجلسوں میں حضرت مولاناپورقاضویؒکے حالات وکمالات،اقوال وملفوظات اورقصص وواقعات سنایاکرتے تھے۔چنانچہ ایک بارمظاہرعلوم کے دفتراہتمام میں حضرت مفتی صاحب کے پاس تشریف فرماتھے،مولانااطہرحسینؒبھی بیٹھے ہوئے تھے قاری صاحبؒنے حضرت مولاناعبداللطیف ؒکاایک عجیب وغریب واقعہ سنایاکہ حضرتؒ کے تقویٰ اورتدین کایہ عالم تھاکہ مدرسہ کے مطبخ میں تقسیم کے بعدجودال اورسالن بچ جاتاتھا،حضرتؒاس کے پیسے اپنی جیب سے مدرسہ میں داخل فرماتے،لوگوں نے عرض کیاکہ حضرت اس دال اورسالن کے پیسے آپ کیوں جمع کرتے ہیں ؟فرمایاکہ میں مدرسہ کاناظم ہوں،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے زائدسالن اوردال کے بارے میں اگرپوچھ لیاتوکیاجواب دوں گا۔
حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒ:
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاؒسے قاری صاحبؒکوخصوصی تعلق تھا،آپ کی خدمت میں بھی مسلسل حاضری دیتے تھے چنانچہ حضرت شیخ الحدیث ؒؒکی آپ بیتی اورآپ کی ذاتی ڈائری ’’تاریخ کبیر‘‘میں قاری صاحب کے تعلق سے عجیب وغریب مشفقانہ واقعات سے پتہ چلتاہے کہ حضرت قاری صاحبؒاپنے بڑوں کی نظروں میں کس قدرمحبوب تھے۔یہ محبوبیت ان شاء اللہ آخرت میں حضرت قاری صاحبؒکی ترقیٔ درجات کاباعث ہوگی۔
ایک بار گنگوہ کے علاقہ میں کسی پروگرام میں حضرت شیخ الحدیث ؒتشریف لے گئے ،اس موقع پرقاری صاحبؒکی خواہش اورتمناتھی کہ حضرت شیخؒکے قدم مبارک غریب خانہ میں پہنچ جائیں ،اپنی تمناکااظہارکیاجونامنظورہوگئی،خدام حضرات ہرزمانہ میں اپنے مخدوم کی شفقتوں کے پیش نظرکبھی کبھی زبردستی بھی کرلیتے ہیں،قاری صاحبؒ اس وقت نوجوان تھے ،سوچاکہ حضرت کوغریب خانہ تک کیسے لایاجائے اورپھریہ ترکیب نکال لی کہ پروگرام سے واپسی پرعرض کیاکہ حضرت جس راستہ سے سہارنپورواپسی ہونی ہے وہ راستہ خراب بھی ہے اورپانی بھی بھراہواہے اس لئے دوسرے راستہ سے تشریف لے جائیں،اسی راستہ پرگنگوہ واقع تھا،بہرحال روانگی ہوئی اورجب گنگوہ آیاتوبمنت سماجت حضرت شیخؒکواپنے گھرچلنے پرمجبورکرلیا۔یہ واقعہ سچی محبت اورعقیدت سے تعلق رکھتاہے ۔اس قسم کے متعددواقعات تلاش کرنے پرمل سکتے ہیں۔
حضرت قاری صاحبؒکے نام اکابرکے جومکاتیب ہیں ان کی اچھی حاصی تعدادہے اُن خطوط سے نہ صرف حضرت قاری صاحبؒکی سوانح میں خاطرخواہ مددملے گی بلکہ خردوکلاں کے درمیان شفقت وعقیدت کی حدودکابھی پتہ چلے گا۔
ایک اہم خوبی:
ایک بات جومجھ تک مؤثق ذرائع سے پہنچی ہے کہ حضرت قاری صاحبؒکواپنے اساتذہ وماتحتوں کی خانگی ضروریات اوراخراجات کی نہ صرف مکمل خبراوراطلاع رہتی تھی بلکہ بیماریوں،شادیوںاورخوشی یاغمی کے دیگرمواقع پراپنی جیب خاص سے بھی نوازتے تھے اوران کایہ نوازنا ہرطرح کے ذاتی مفادات سے بالاترہوتاتھا،وہ نیکی کرکے بھلادیتے تھے،کسی کوسہارادے کراپنے احسان کاصلہ وبدلہ لینے کاکبھی مزاج نہیں رکھا،اپنوں اوربیگانوں میں یکساں طورپرمحبتوں سے یادکئے گئے،ہرجگہ لوگوں نے دل کی گہرائیوں میں قاری صاحب کوجگہ دی کیونکہ وہ دوسروں کوہمیشہ عزت دیاکرتے تھے اسی لئے ہرجگہ سے انہیں عزت ملاکرتی تھی۔
صبروتحمل:
قاری صاحبؒکی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی کے آبگینۂ دل کوٹیس نہ پہنچے، اس احتیاط اورحزم میں خودقاری صاحبؒکبھی کبھی نہایت درجہ تحمل سے کام لے کرکظم غیظ اورعفوخاص پرعمل کیا،غایت ضبط وتحمل کوکچھ لوگوں نے حضرت کی کمزوری ومجبوری تصورکیا،توکسی نے حکمت ومصلحت کانام دیا۔
عفودرگزر:
جس طرح حضرت کاذہن خرافات سے خالی تھااسی طرح آپ کاقلب مبارک گویاکوثروتسنیم سے دُھلاہوا تھا،ماتحتوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں ،کوتاہیوں،تساہلی اورکام چوری پرصرف نظرکامعمول تھالیکن بڑی غلطیوں پروقتی تنبیہ کرتے ، چونکہ آپ منتقم مزاج نہیں تھے اس لئے عملہ کی بڑی بڑی غلطیوں کوبھی درگزرکردیاکرتے تھے،بعض ابن الوقتوں نے قاری صاحبؒکے نام جارحانہ اورعامیانہ خطوط بھی لکھے مگرحضرتؒنے زندگی بھرکسی پرظاہرنہ ہونے دیا،دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی آپ کاوصف تھا۔
مدرسہ اشرف العلوم رشیدی :
مدرسہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ اپنی وسعت ،کشادگی ،عملہ کی کثرت ،طلبہ کی زیادتی ،عمارتوں کے پھیلاؤ ،نظام تعلیم کی عمدگی ،نظام تربیت کی بلندی ، روحانی وعرفانی ماحول ،ظاہری وباطنی شفافیت ،مسجدمیں اذان کے فوراً بعدسنن کا اہتمام ،اخلاق وملنساری کے باب میں طلبہ واساتذہ کی شان امتیازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ گلہائے رنگارنگ کا وہ گلدستہ اورانواع واقسام کے یاقوت وجواہر کا وہ نگینہ ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کی وسعت ،مظاہر علوم سہارنپور کی روحانیت ،ندوۃ العلماء کا علمی ماحول ،خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون کا حسن انتظام ،خانقاہِ جلال آبادی کا سلوک ، خانقاہِ شہ ابرار کی تربیت ،خانقاہ ِ صدیق کی للہیت ،خانقاہ ِ گنگوہ کی علمیت اورخانقاہِ شیخ محمد زکریاؒ کی ندرت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے ،ان واضح صداقتوں کے باوصف کہا جاسکتا ہے کہ حضرت قاری صاحب کے اخلاص وعمل ،دعائے نیم شبی اورآہ سحرگاہی کا یہ مظہر ادارہ قدیم اداروں کے بھی اورجدید ونومولو د مدارس کے لئے بھی قابل رشک بھی ہے اورقابل اشک بھی ۔قابل رشک اس لئے کہ ہر نیک کام کو دیکھ کر ہر قلب مومن میں یہ داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ میں بھی یہ کام کروں اورقابل اشک اس لئے ہے کہ بعض ادارے شاہانِ اودھ کی طرح اسی خوش فہمی میں مبتلا رہ کر ابتلاء کا شکار ہوگئے کہ وہ بڑے مدرسے ہیں حالانکہ تاریخ بڑی بے رحم ہوا کرتی ہے ،تعامل ،جہد مسلسل ، فکرمندی ،حوصلہ کی بلندی ، انسان کو ثریا پر کمندیں ڈالنے کے لائق بنادیتی ہے تو خوش فہمی اوربڑا پن انسان کی فکر کو آلودہ عزائم کو پژمردہ ،عزیمت کو ژولیدہ اورارادوں کو پراگندہ کردیتی ہے ۔دنیا میں کوئی بڑا نہیں ہے یہ مزاج ختم کرکے انسان کو ہمہ دم یہ خیال کرنا چاہیے کہ پوری دنیا میں سب سے چھوٹا میں ہوں ۔ یہ نظریہ اوریہ فکر جب تک ذہن میں موجود رہتا ہے انسان ترقی کرتا رہتا ہے ،اپنے کاموں کی تعریف اوراپنے کارناموں کے گن ، اپنی خدمات کے ترانے گنگنانے والے لوگ کبھی ترقی نہیں کرپاتے اورسب کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہ کرپانے کا احساس انسان کو بلندیوں پر پہنچادیتا ہے ،حضرت مولانا قاری شریف احمدؒ اسی مزاج اورسرشت کے فرد تھے جنہوں نے مدرسہ کو قائم کرکے بلندیوں پر پہنچادیا اورپھر بھی یہ خیال فرماتے رہے کہ ع۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فناہوتے نہیں:
۲۴؍ربیع الاول ۱۴۲۶ھ چہار شنبہ صبح آٹھ بجے یہ المناک اطلاع ملی کہ مدرسہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے بانی مبانی حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ بھی سہا رنپور کے تاراوتی اسپتال میں طویل علالت کے بعدمولائے حقیقی سے جاملے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
بجھا چراغ اٹھی بزم کھل کے رُو اے دل!
وہ سب ہی چل بسے جنہیں عادت مسکرانے کی
ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات:
تین سال پہلے ۲۰۰۹ء میں احقر مفتی محمدخالدسیف اللہ صاحب مدظلہ سے ملاقات کیلئے گنگوہ حاضرہواتویقین جانئے بہت متأثر ہوا، مفتی صاحب کے اخلاق،تواضع،للہیت،مدرسہ کے حق میں مفتی صاحبؒ کی قربانیاں،درس وتدریس،دعوت وارشاد،خانقاہ ودارالافتائ، انتظام وانصرام، تصنیفی وتالیفی مشاغل اورسادگی کودیکھ کراندازہ ہوگیاکہ’’ ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات ‘‘والی کہاوت مفتی صاحب پرحرف حرف صادق آتی ہے۔ اپنے بزرگوں کے قصے،بڑوں کی باتیں،والدماجدکا تذکرہ،مدرسہ کے لئے فکرمندی،طلبہ پرشفقت یہی چیزیں توانسان کوبلندیاں عطاکرتی ہیں۔
اکثروقت مدرسہ میں:
میں جس دن مفتی محمدخالدسیف اللہ صاحب مدظلہ سے ملاقات کیلئے گنگوہ پہنچاتھاوہ جمعہ کادن تھا،یہ دن اہل مدارس کیلئے کسی طرح عید سے کم نہیں ہوتاکیونکہ یہی ایک دن چھٹی کاملتاہے،اندازہ یہ تھاکہ مفتی صاحب سے ملاقات عصرکے بعدتک ہوپائے گی،لیکن میری حیرت کی انتہانہ رہی جب یہ معلوم ہواکہ مفتی صاحب فجرکی نمازسے قبل مدرسہ آجاتے ہیں اورعشاء کے بعدگھرجاتے ہیں ،یہ خبرسن کریقین کرنامشکل ہوگیاکیونکہ آج کل ذمہ داران مدارس کے معمولات میں خاصافرق آگیاہے،پواردن توکیاضابطہ کے مطابق جووقت مدرسہ میں گزارنا ضروری ہوتاہے اس کابھی اہتمام نہیں ہورہاہے اوریہاں مفتی صاحب محض چندگھنٹوں کے لئے اپنے گھربچوں کے درمیان گزارتے ہیں باقی اوقات مدرسہ میں ،توبڑی خوشی ہوئی اورامیدقائم ہوئی کہ ابھی کچھ لوگ دنیامیں ایسے باقی ہیں جواپنے بڑوں کے نقوش قدم پرچلنے اوران کے طرزوعمل کواختیارکرنے میں اپنی سعادت تصورکرتے ہیں۔
سنتوں کااہتمام:
جمعہ کی نمازکے بعدہرجگہ عموماًیہی دیکھنے میں آتاہے کہ طلبہ ایسے بھاگتے ہیں جیسے نمازکے بعدمسجدسے نکل بھاگنے کی کوئی فضیلت واردہوئی ہو،گنگوہ میں میں نے دیکھاکہ نمازکے بعدپورے وقارسے امام نے دعامانگی،دعاختم ہوئی توسنتوں کے لئے طلبہ کھڑے ہوگئے،سنتیں پوری ہوئیں تواپنی جگہ کچھ دیرکے لئے بیٹھے رہے اوریہ بیٹھنابظاہراس حدیث پرعمل کرناہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکہ نمازکے بعدکچھ دیرکے لئے مسجدبیٹھے رہاکرو۔غالباًیہ مفتی صاحب کی اخلاقی تربیت کانتیجہ اورمدرسہ اشر ف العلوم کے ماحول کاثمرہ ہے ،بچے ماحول کے بہت جلدعادی ہوجاتے ہیں جہاں روحانیت کابول بالاہوتاہے وہاں بچے صوفی مزاج ہوجاتے ہیں،جہاں آزادی کابول بالاہوتاہے وہاں بچے سیاست میں دلچسپی لینے لگتے ہیں،جہاں تعلیم کابول بالاہوتاہے وہاں طلبہ محنتی ہوجاتے ہیں،جہاں جیسے اساتذہ ہوتے ہیں طلبہ ان ہی اساتذہ کارنگ اختیارکرلیتے ہیں۔مدرسہ اشرف العلوم کے اکثراساتذہ نے الحمدللہ کسی نہ کسی شخصیت سے روحانی رشتہ قائم کررکھاہے اسی کانتیجہ ہے کہ مسجدیں روحانی اوردرسگاہیں نورانی محسوس ہوتی ہیں۔
مفتی صاحبؒنے احقرکوازخود چل پھرکرمدرسہ کی خوشنماعمارات،دیدہ زیب مسجد،خوبصورت دارالافتائ،دارالحدیث، درسگاہیں، قیام گاہیں وغیرہ دکھائیں اورمیں اسی سوچ میں مستغرق رہاکہ مفتی صاحب میں تواضع وخاکساری کس قدرہے کہ اپنے معمولات چھوڑکرغایت دلچسپی کے ساتھ مدرسہ کی ایک ایک عمارت اوراس کی تاریخ سے واقف کرارہے ہیں،ایک چیزجوعموماً ہرجگہ ہرمدرسہ میں خصوصامطبخ وغیرہ میں پائی جاتی ہے وہ یہاں کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی وہ ہے گندگی،مطبخ بھی صاف ستھراتھا،وہیں ایک بڑی ٹنکی بھی تھی جہاں ٹھنڈاوگرم پانی کامعقول نظم تھایہ چیزیں دیکھ کربے اختیاردل سے دعائیں نکلیں کہ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کوحاسدین کے حسداور اشرارکے شرسے محفوظ رکھے۔
کسی بھی لائق فائق شخصیت کی پیرانہ سالی کے دورمیں محبین ومخلصین ان کی جانشینی کیلئے فکرمندہوجاتے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کابڑاکرم ہواکہ مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں جانشینی یاسجادہ نشینی کاکوئی نزاع پیدانہ ہوا،محترم مفتی محمدخالدسیف اللہ مدظلہ کی فعال،متحرک،علمی اورروحانی شخصیت موجودتھی ،سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے قاری صاحبؒکی رحلت کے بعدمفتی صاحب کواُن کاجانشین بناکرمدرسہ کومختلف فتنوں اورنزاعات سے بچالیا۔
مفتی صاحبؒالحمدللہ طلبہ کیلئے باوقار،عملہ کیلئے ملنسار،عوام کی اصلاح کیلئے بے قرار،اپنے مدرسہ کیلئے ہردم وہمہ دم متحرک وسبک سار، دارالافتاء ولاارشادکی مسندسے خلق خداکی رشدوہدایت کیلئے بلندکردار،عوام الناس کے درمیان خوش گفتار،ہم عصروہم عمرافرادکے درمیان باغ وبہار،چھوٹوں اورشاگردوں کے لئے حلیم وبردبار،متقی وپرہیزگار،عزم عزیمت اورصبرواستقامت کے کوہسار،منبرومحراب میں رعب دار،درسگاہ میں للہیت کاآبشار،خانقاہ میں خاکساراورعلم وعمل کے میدان میں تقویٰ شعارہیں،اللہ تعالیٰ نے انھیں مثبت فکر،مثبت نظریہ،مثبت ذہن اورثابت قدم مزاج عطاکیاہے ،یہی وجہ ہے کہ بفضل الہٰی انہوں نے فتنوں کی سرکوبی اورمدرسہ کی حفاظت وصیانت میں اپنی جس ذہانت وفطانت کاثبوت دیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
دعوت وتقریر،وعظ واصلاح،تعلیم وتعلم ،خانقاہ وافتاء وغیرہ مختلف میدانوں میں یہ مدرسہ خلق کی خدمت کررہاتھالیکن ضرورت تھی کہ ملک وبیرون ملک بسنے مسلمانوں کے گھروں تک مدرسہ کی آوازپہنچے اس لئے صدائے حق کے نام سے گنگوہ کی سرزمین سے ایک ایسا مجلہ جاری فرمایاجوعلمی بھی ہے،دینی بھی،اصلاحی بھی ہے تحقیقی بھی،ادبی بھی ہے معاشرتی بھی،سلوک واحسان کاترجمان بھی ہے،فقہ وفتاویٰ کی زبان بھی،مدرسہ کے روزوشب کی خبریں بھی ہیں اورملت اسلامیہ کے لئے فکرانگیزمضامین کابیش بہامجموعہ بھی۔اس ماہنامہ کااجراء مفتی صاحب کی ذہنی تازگی اورعلمی بصیرت کا ثبوت ہے،اللہ تعالیٰ قبولیت تامہ وعامہ عطافرمائے۔

 
Top