یادوں کی خوشبو
ناصر الدین مظاہر ی مدیر آئینہ ٔ مظاہرعلوم سہارنپور
ناصر الدین مظاہر ی مدیر آئینہ ٔ مظاہرعلوم سہارنپور
گفتار تری جیسے کہ ساغرمیں ڈھلے مے:
سرزمین گنگوہ نے کیسے کیسے جیالے پیداکئے ،یہاں کی پاک وروح پرورمٹی نے کتنے ہی دلوں کوپلٹا،کتنی ہی خشک زمینوں کوسیراب کیا،کتنے ہی بنجرذہنوں میں روح وروحانیت کی تازگی پیداکی،کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے دل کی دنیااورفکرکی کھیتی اسی زمین سے نموحاصل کرسکی۔خانقاہوں کے ذریعہ،دعوتوں کے ذریعہ،روحانیت کے ذریعہ،کمالات کے ذریعہ،عرفان حیات کے ذریعہ،تعلیم وتعلم کے ذریعہ،کردارکی پاکیزگی کے ذریعہ ،افکارکی بلندی کے ذریعہ،اعمال کی درستگی کے ذریعہ،اخلاق کی عظمتوں کے ذریعہ غرض دین اوراسلام کی اشاعت وحفاظت کے طرق ہائے لامحدودکے ذریعہ یہاں کے اکابرعلماء وصلحاء نے بھولے ہوئے لوگوں،بھٹکے ہوئے بندوں،گم کردہ راہ افراداورتشنہ کامان عرفان کووہ بصیرت اورفراست مہیاکی جس سے انسان اپنی منزلوں تک بحسن وخوبی پہنچ جائے،کھرے کھوٹے کاامتیاز، حسن وقبح کافرق،خوردوکلاں کاتباین، اسودوابیض کی پہچان کچھ اس اندازمیں پیداکی کہ وہی لوگ جوکل تک کچھ نہیں تھے بہت کچھ ہوگئے،کل تک جنہیں خوداپنی راہوں کاتعین مشکل تھاوہی لوگ آنے والے کل دوسروں کے ہادی بن گئے ، کل تک جوخودمریض تھے آج وہی مسیحابن کرقوم کے دردکے درماں بن گئے۔اکبرالہ آبادی نے کہاتھا
سرزمین گنگوہ نے کیسے کیسے جیالے پیداکئے ،یہاں کی پاک وروح پرورمٹی نے کتنے ہی دلوں کوپلٹا،کتنی ہی خشک زمینوں کوسیراب کیا،کتنے ہی بنجرذہنوں میں روح وروحانیت کی تازگی پیداکی،کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے دل کی دنیااورفکرکی کھیتی اسی زمین سے نموحاصل کرسکی۔خانقاہوں کے ذریعہ،دعوتوں کے ذریعہ،روحانیت کے ذریعہ،کمالات کے ذریعہ،عرفان حیات کے ذریعہ،تعلیم وتعلم کے ذریعہ،کردارکی پاکیزگی کے ذریعہ ،افکارکی بلندی کے ذریعہ،اعمال کی درستگی کے ذریعہ،اخلاق کی عظمتوں کے ذریعہ غرض دین اوراسلام کی اشاعت وحفاظت کے طرق ہائے لامحدودکے ذریعہ یہاں کے اکابرعلماء وصلحاء نے بھولے ہوئے لوگوں،بھٹکے ہوئے بندوں،گم کردہ راہ افراداورتشنہ کامان عرفان کووہ بصیرت اورفراست مہیاکی جس سے انسان اپنی منزلوں تک بحسن وخوبی پہنچ جائے،کھرے کھوٹے کاامتیاز، حسن وقبح کافرق،خوردوکلاں کاتباین، اسودوابیض کی پہچان کچھ اس اندازمیں پیداکی کہ وہی لوگ جوکل تک کچھ نہیں تھے بہت کچھ ہوگئے،کل تک جنہیں خوداپنی راہوں کاتعین مشکل تھاوہی لوگ آنے والے کل دوسروں کے ہادی بن گئے ، کل تک جوخودمریض تھے آج وہی مسیحابن کرقوم کے دردکے درماں بن گئے۔اکبرالہ آبادی نے کہاتھا
کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زرسے پیدا
علم ہوتاہے بزرگوں کی نظرسے پیدا
علم ہوتاہے بزرگوں کی نظرسے پیدا
ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے اکابرومشاہیرکے پروردہ وپرداختہ،بزرگان دین اورعلماء عارفین کے نورنظر،شیوخ طریقت اورماہرین شریعت کے مخلص خادم حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہیؒ:
بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بستے ہوئے اک شہر کا پل بھر میں اجڑنا
بستے ہوئے اک شہر کا پل بھر میں اجڑنا
قاری صاحب اپنی ذات میں انجمن،کسی بھی مجلس میں پہنچیں تومیرانجمن،اپنوں کے درمیان شفیق ومہربان،بڑوں کے مابین تواضع وانکساری کاپیکر،طلبہ وشاگردوں کے حق میں مادرمہربان،اساتذہ وعملہ کے لئے لطف وکرم کے دریا،مدارس کی صف میں باعزت نام، خانقاہی میدان میں عظمتوں کی بلندیوں پرفائزغرض
تصویر تری حسن کاآئینہ بنی ہے
گفتار تری جیسے کہ ساغرمیں ڈھلے مے
کردار کے مانند نہیں اور کوئی شئی
اخلاص ترا، میرا ترانہ ہے مری لے
گفتار تری جیسے کہ ساغرمیں ڈھلے مے
کردار کے مانند نہیں اور کوئی شئی
اخلاص ترا، میرا ترانہ ہے مری لے
خوبیوں کامجموعہ:
راقم السطورحیرتوں کے سمندرمیں ہچکولے کھارہاہے اورسوچ رہاہے کہ حضرت مولاناقاری شریف احمدؒکی زندگی کے کس پہلوپرقلم اٹھایاجائے ،ضمیرکہتاہے کہ قاری صاحبؒکی خوبیوںکولفظوں کی زبان دی جائے تومعاًخیال آتاہے کہ ان کے دلنوازپیکرکی دلفریبیوںکو زیب قرطاس کیا جائے،کہیں سوچتاہوں کہ ان کے گفتارکی بلندیوں اور افکارکی پاکیزگیوںسے روشناس کراؤں،تودل گواہی دیتاہے کہ ان کے سوزوسازکی نیرنگیوںاوران کے نکہت خیال کی معرکہ آرائیوں پرروشنی ڈالی جائے ،ہاتف غیب کی صدائیں سننے کی کوشش کرتاہوں تومدھم سروں میں آوازآتی ہے کہ اُن کے بڑوں کی مہربانیوں اوراُن کے شیوخ کی لن ترانیوںکوموضوع سخن بناؤ،ذہن کہتاہے کہ اُن کے کرداروگفتارکی جادوبیانیوں اورملت اسلامیہ کیلئے ہمدردیوںکوعنوان بناؤں،قلم کہتاہے کہ نسل نوکے سامنے قاری صاحب کی فکرمندیوں کو آشکاراکروں تودل کہتاہے کہ فی زمانناضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کیلئے قاری صاحب کی غمخواریاں،بے چینیاں اوربے قراریاں بیان کی جائیں تاکہ آج کی آرام پسنداورعیش کی دلدادہ نسل کوآئینہ دکھاکرمستقبل کے لئے انھیں اپنے اکابرکے خطوط ونقوش پرچلنے کیلئے مجبورکیاجاسکے۔
حضرت مفتی مظفرحسینؒ سے تعلق:
یادش بخیر ۱۹۹۶ء اور۱۹۹۷ء میںراقم مظاہر علوم وقف کے شعبہ ٔ دارالافتاء میں زیرتعلیم تھا ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کی خدمت میںعلماء ربانیین اورفقہائے متبحرین کی آمدمستقل ہوتی رہتی تھی ،انہی میں ایک بزرگ جو نورانی چہرہ ،وجیہ وپرکشش ،ملیح وملنسار ، گندم گوں،متوسط القامت ، سنجیدگی ومتانت ان کے کردار سے ہویدا،بات کریں تو پھول جھڑیں ،مسکراہٹ اورخندہ پیشانی عیاں ،مفتی صاحب ؒ بھی ان بزرگوارکا بہت احترام فرماتے ، اپنی مسند سے کھسک جاتے اوران بزرگوار کو اس مسندعالی پر بیٹھنے کااشارہ فرماتے ،ادھر وہ بزرگ بھی بڑوں کے صحبت یافتہ ،فیض یافتہ اور پروردہ وپرداختہ مسند عالی پر بیٹھنے میں تامل فرماتے اور وہ تکیہ جو مفتی صاحب نے آپ کے لئے خالی کیا تھا خود مفتی صاحب ہی کی طرف لوٹادیتے ، یہ منظر چشم فلک نے بارہا دیکھا ،اس شخصیت کانام نامی اسم گرامی حضرت مولانا قاری شریف احمد ؒہے جو اسم با مسمی تھے ۔
راقم السطورحیرتوں کے سمندرمیں ہچکولے کھارہاہے اورسوچ رہاہے کہ حضرت مولاناقاری شریف احمدؒکی زندگی کے کس پہلوپرقلم اٹھایاجائے ،ضمیرکہتاہے کہ قاری صاحبؒکی خوبیوںکولفظوں کی زبان دی جائے تومعاًخیال آتاہے کہ ان کے دلنوازپیکرکی دلفریبیوںکو زیب قرطاس کیا جائے،کہیں سوچتاہوں کہ ان کے گفتارکی بلندیوں اور افکارکی پاکیزگیوںسے روشناس کراؤں،تودل گواہی دیتاہے کہ ان کے سوزوسازکی نیرنگیوںاوران کے نکہت خیال کی معرکہ آرائیوں پرروشنی ڈالی جائے ،ہاتف غیب کی صدائیں سننے کی کوشش کرتاہوں تومدھم سروں میں آوازآتی ہے کہ اُن کے بڑوں کی مہربانیوں اوراُن کے شیوخ کی لن ترانیوںکوموضوع سخن بناؤ،ذہن کہتاہے کہ اُن کے کرداروگفتارکی جادوبیانیوں اورملت اسلامیہ کیلئے ہمدردیوںکوعنوان بناؤں،قلم کہتاہے کہ نسل نوکے سامنے قاری صاحب کی فکرمندیوں کو آشکاراکروں تودل کہتاہے کہ فی زمانناضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کیلئے قاری صاحب کی غمخواریاں،بے چینیاں اوربے قراریاں بیان کی جائیں تاکہ آج کی آرام پسنداورعیش کی دلدادہ نسل کوآئینہ دکھاکرمستقبل کے لئے انھیں اپنے اکابرکے خطوط ونقوش پرچلنے کیلئے مجبورکیاجاسکے۔
حضرت مفتی مظفرحسینؒ سے تعلق:
یادش بخیر ۱۹۹۶ء اور۱۹۹۷ء میںراقم مظاہر علوم وقف کے شعبہ ٔ دارالافتاء میں زیرتعلیم تھا ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کی خدمت میںعلماء ربانیین اورفقہائے متبحرین کی آمدمستقل ہوتی رہتی تھی ،انہی میں ایک بزرگ جو نورانی چہرہ ،وجیہ وپرکشش ،ملیح وملنسار ، گندم گوں،متوسط القامت ، سنجیدگی ومتانت ان کے کردار سے ہویدا،بات کریں تو پھول جھڑیں ،مسکراہٹ اورخندہ پیشانی عیاں ،مفتی صاحب ؒ بھی ان بزرگوارکا بہت احترام فرماتے ، اپنی مسند سے کھسک جاتے اوران بزرگوار کو اس مسندعالی پر بیٹھنے کااشارہ فرماتے ،ادھر وہ بزرگ بھی بڑوں کے صحبت یافتہ ،فیض یافتہ اور پروردہ وپرداختہ مسند عالی پر بیٹھنے میں تامل فرماتے اور وہ تکیہ جو مفتی صاحب نے آپ کے لئے خالی کیا تھا خود مفتی صاحب ہی کی طرف لوٹادیتے ، یہ منظر چشم فلک نے بارہا دیکھا ،اس شخصیت کانام نامی اسم گرامی حضرت مولانا قاری شریف احمد ؒہے جو اسم با مسمی تھے ۔
سناہے بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قاری صاحب !کمال یہ ہے کہ جو آپ نے کیا کہ مدرسہ قائم کرکے حالات کے مد وجزر کو برداشت کرکے ذرہ سے آفتاب بنادیا ہم لوگ تو بنے بنائے پر بیٹھے ہیں اوریہ کوئی کمال نہیں ہے ۔
غالباً ۱۹۹۸ء کی بات ہے ، مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں احقرکی سب سے پہلی حاضری استاذمحترم فقیہ الاسلام حضرت اقدس مولانامفتی مظفرحسینؒکے ساتھ کسی سفرسے واپسی پراچانک ہوئی تھی،دوپہرکاوقت تھا،قاری صاحبؒاپنے دولت کدہ پرجاچکے تھے ،کسی استاذسے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی البتہ ایک صاحب مطبخ میں تھے جوسہارنپورکے رہنے والے تھے انہوں نے حضرت مفتی صاحب کاوالہانہ استقبال کیا،مسجدسے متصل ایک حجرے میں ٹھہرایااوردوڑے دوڑے قاری صاحب کے پاس پہنچے اورمفتی صاحب کی تشریف آوری کی اطلاع دی ،یہ اطلاع سنتے ہی قاری صاحب تشریف لائے ، حضرت مفتی صاحب سے تپاک سے ملے اورفوراًکھانے وغیرہ کا نظم فرمایا۔بعدمیں مولانامحمدیعقوب بلندشہری جواس سفرمیں ساتھ تھے انہوں نے بتایاکہ حضرت قاری شریف احمدصاحب یہی ہیں۔بہت متأثرہواکیونکہ علاقہ میں ان کی مقبولیت کے چرچے،طبقۂ علماء میں قاری صاحب کاذکرخیر،دینی اجلاس اورمدارس کے سالانہ پروگراموں میں قاری صاحب کی شرکت وشمولیت،اکابراہل اللہ کی مجلسوں میں آپ کی محبوبیت اورمدرسہ اشرف العلوم گنگوہ کی تعلیمی،تعمیری،اورانتظامی ترقیات ان سب باتوں سے عام ذہنوں پرجوتأثرقائم ہوسکتاہے ان سے احقربھی متأثر تھالیکن قاری صاحب کے تواضع، فروتنی، عاجزی،انکساری،کم گوئی اورسادگی سے ان کی عظمت کاپتہ چلتاتھا۔
میں نے بارہادیکھاکہ یہاں مظاہرعلوم میں اگرافتاء یادورہ میں کسی محنتی اورذہین طالب علم کاداخلہ نہ ہوایایہاں کاکوٹہ پُر ہوگیاتوحضرت مفتی صاحبؒاس طالب علم پرغایت شفقت وکرم فرماتے اورطالب علم کوعلاقہ کے جن مدارس کے ذمہ داران کے نام سفارشی مکتوب تحریرفرماتے ان میں سرفہرست مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ تھا۔
حضرت مفتی صاحبؒگنگوہ کواپنے گھرکی طرح سمجھتے تھے،بلااطلاع گنگوہ پہنچنا،وہاں کے سالانہ اجتماعات اورخصوصی مواقع پرمفتی صاحب کی تشریف آوری،خودقاری صاحبؒکی مظاہرعلوم میں مفتی صاحب کے پاس حاضری اورہردوبزرگوں کے درمیان بے تکلف گفتگو،انتظامی معاملات میں مشورے،ملکی حالات کے سلسلہ میں آراء کاتبادلہ،وقف علی اللہ کے بارے میں قاری صاحبؒ کاموقف،مشکل وقت میں قاری صاحب کاحضرت مفتی صاحب کے شانہ بشانہ چلنااورمادرعلمی کے تحفظ میں کلیدی کرداراداکرنا،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا مہاجرمدنیؒ،مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ رامپوریؒ اورحضرت مفتی مظفرحسینؒ اجرڑوی وغیرہ سے مکاتبت ومراسلت سے ان حضرات کے آپسی تعلقات کابخوبی پتہ چلتاہے۔
حضرت مفتی صاحبؒانتقال سے کچھ عرصہ قبل گنگوہ تشریف لے گئے تھے اورخلوت میں قاری صاحب سے خداجانے کیاکیا گفتگوہوئی کہ دونوں حضرات کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں،اس موقع پرقاری صاحبؒ کے خلف الصدق،جانشین محترم حضرت مولانامفتی محمدخالدسیف اللہ مدظلہ بھی موجودتھے۔
(جاری)
غالباً ۱۹۹۸ء کی بات ہے ، مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں احقرکی سب سے پہلی حاضری استاذمحترم فقیہ الاسلام حضرت اقدس مولانامفتی مظفرحسینؒکے ساتھ کسی سفرسے واپسی پراچانک ہوئی تھی،دوپہرکاوقت تھا،قاری صاحبؒاپنے دولت کدہ پرجاچکے تھے ،کسی استاذسے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی البتہ ایک صاحب مطبخ میں تھے جوسہارنپورکے رہنے والے تھے انہوں نے حضرت مفتی صاحب کاوالہانہ استقبال کیا،مسجدسے متصل ایک حجرے میں ٹھہرایااوردوڑے دوڑے قاری صاحب کے پاس پہنچے اورمفتی صاحب کی تشریف آوری کی اطلاع دی ،یہ اطلاع سنتے ہی قاری صاحب تشریف لائے ، حضرت مفتی صاحب سے تپاک سے ملے اورفوراًکھانے وغیرہ کا نظم فرمایا۔بعدمیں مولانامحمدیعقوب بلندشہری جواس سفرمیں ساتھ تھے انہوں نے بتایاکہ حضرت قاری شریف احمدصاحب یہی ہیں۔بہت متأثرہواکیونکہ علاقہ میں ان کی مقبولیت کے چرچے،طبقۂ علماء میں قاری صاحب کاذکرخیر،دینی اجلاس اورمدارس کے سالانہ پروگراموں میں قاری صاحب کی شرکت وشمولیت،اکابراہل اللہ کی مجلسوں میں آپ کی محبوبیت اورمدرسہ اشرف العلوم گنگوہ کی تعلیمی،تعمیری،اورانتظامی ترقیات ان سب باتوں سے عام ذہنوں پرجوتأثرقائم ہوسکتاہے ان سے احقربھی متأثر تھالیکن قاری صاحب کے تواضع، فروتنی، عاجزی،انکساری،کم گوئی اورسادگی سے ان کی عظمت کاپتہ چلتاتھا۔
میں نے بارہادیکھاکہ یہاں مظاہرعلوم میں اگرافتاء یادورہ میں کسی محنتی اورذہین طالب علم کاداخلہ نہ ہوایایہاں کاکوٹہ پُر ہوگیاتوحضرت مفتی صاحبؒاس طالب علم پرغایت شفقت وکرم فرماتے اورطالب علم کوعلاقہ کے جن مدارس کے ذمہ داران کے نام سفارشی مکتوب تحریرفرماتے ان میں سرفہرست مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ تھا۔
حضرت مفتی صاحبؒگنگوہ کواپنے گھرکی طرح سمجھتے تھے،بلااطلاع گنگوہ پہنچنا،وہاں کے سالانہ اجتماعات اورخصوصی مواقع پرمفتی صاحب کی تشریف آوری،خودقاری صاحبؒکی مظاہرعلوم میں مفتی صاحب کے پاس حاضری اورہردوبزرگوں کے درمیان بے تکلف گفتگو،انتظامی معاملات میں مشورے،ملکی حالات کے سلسلہ میں آراء کاتبادلہ،وقف علی اللہ کے بارے میں قاری صاحبؒ کاموقف،مشکل وقت میں قاری صاحب کاحضرت مفتی صاحب کے شانہ بشانہ چلنااورمادرعلمی کے تحفظ میں کلیدی کرداراداکرنا،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا مہاجرمدنیؒ،مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ رامپوریؒ اورحضرت مفتی مظفرحسینؒ اجرڑوی وغیرہ سے مکاتبت ومراسلت سے ان حضرات کے آپسی تعلقات کابخوبی پتہ چلتاہے۔
حضرت مفتی صاحبؒانتقال سے کچھ عرصہ قبل گنگوہ تشریف لے گئے تھے اورخلوت میں قاری صاحب سے خداجانے کیاکیا گفتگوہوئی کہ دونوں حضرات کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں،اس موقع پرقاری صاحبؒ کے خلف الصدق،جانشین محترم حضرت مولانامفتی محمدخالدسیف اللہ مدظلہ بھی موجودتھے۔
(جاری)
Last edited by a moderator: