حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یکے ازبانیان مظاہر:
حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ

(قسط :۱)

نام ونسب
آپؒ کا تاریخی نام محمدمظہر ہے اور اسی سے مشہور ومعروف ہوئے ،صدیقی خاندان کے چشم وچراغ تھے،سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔
حضرت مولانا محمد مظہربن جناب حافظ لطف علی بن حافظ محمد حسن بن حکیم غلام اشرف بن حکیم عبد اللہ بن شیخ ابوالفتح محمد مفتی بن مولوی محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طہٰ بن مفتی مبارک بن قاضی امان بن قاضی جمال الدین بن قاضی میراں بڈھے بن قاضی مظہر الدین بن نجم الدین بن نورالدین بن قیام الدین بن ضیاء الدین بن نورالدین بن نجم الدین بن نورالدین بن رکن الدین بن رفیع الدین بن بہائو الدین بن شہاب الدین بن خواجہ یوسف بن خلیل بن صدرالدین بن رکن الدین سمرقندی بن صدرالدین الحاج بن اسماعیل الشہید بن نورالدین القتال بن محمود بن بہائو الدین بن عبد اللہ بن زکریا بن نوربن سراج بن شادی الصدیقی بن وحید الدین بن مسعود بن عبدالرزاق بن قاسم بن محمدؓ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ (نسب نامہ شوخ نانوتہ ص ۵ ومکتوبات مولانا محمد یعقوب)
تعلیم وتربیت
قرآن کریم کے حفظ اور ابتدائی کتب کی پوری تعلیم اپنے والد ماجد حضرت حافظ لطف علی صاحبؒ کے پاس مکمل ہو۳؎ئی،اپنی ذہنی صلاحیت اورعمدہ تعلیم وتربیت کی وجہ سے اپنی نوعمری ہی میں نہایت ہوشیار وہوشمند تھے اورآپ کے اسی وقت کے طوروطریق سے ذکاوت وذہانت آشکار تھی،وطن کی ابتدائی تعلیم کے بعد استاذ الکل حضرت مولانا ممکوک العلی صاحب ؒنانوتوی اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔۴؎اوراستاذالکلؒ کی بیمثال تعلیم وتربیت اوروہاں کے خالص ماحول نے بڑا کا م کیا چنانچہ اسی وقت اپنے رفقاء اورمولانا مملوک العلی صاحبؒ کے حلقہ میں آپؒ کی لیاقت وصلاحیت کا شہرہ ہوگیا تھا۔
مسلم یونیورسٹی کے بانی جناب سرسید احمد خاںؒ (۱۸۱۷ئ؁-۱۸۹۸ئ؁)لکھتے ہیں۔
’’مولوی صاحب ممدوح بہت بڑے عالم تھے جس زمانہ میں دہلی میں طالب علم تھے اسی زمانہ میں ان کی ذہانت مشہور تھی،تقویٰ وورع میں بھی نہایت اعلی درجہ رکھتے تھے۔
دہلی میں حضرت مولانا مملوک العلی صاحب نانوتویؒ کے علاوہ صدرالصدور حضرت مفتی صدالدین آزردہ دہلوی،حضرت مولانا رشید الدین خاں صاحب دہلوی (۱۸۳۴ئ؁ )کے سامنے زانوئے تلمذبھی طے کیا۔
حدیث نبوی شریف کی تعلیم حضرت شاہ عبد الغنی مجددی(۱۸۲۰ئ؁-۱۸۷۹ئ؁ مدینہ)محدث کبیر حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوریؒ۱۸۱۰ئ؁-۱۸۸۰ئ؁)سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
ان حضرات کے علاوہ مدرسہ صولتیہ مکۃ المکرمہ کے بانی مناظراسلام حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی،اورمدینہ منورہ کے جلیل القدر عالم حضرت شیخ عبد الغنی بن سعید العمری سے بھی علمی استفادہ فرمایا تھا جس کا تفصیلی تذکرہ’’حج بیت اللہ‘‘کے تحت آئیگا۔(جاری
)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یکے ازبانیان مظاہر:
حضرت مولانا محمدمظہر نانوتوی
(قسط :۳)

ملازمت

تعلیم سے فراغت کے بعد اجمیری کالج تشریف لے گئے کجھ عرصہ کے تک تعلیم دینے کے بعد آگرہ کالج تشریف لے گئے ۸؎اوروہاں معیاری تنخواہ اورعہدہ سونپاگیا مگروہاں بھی آپ زیادہ قیام نہ فرماسکے چنانچہ دہلی میں بھی کچھ عرصہ کیلئے ملازم ہوگئے اورتھوڑے ہی عرصہ کے بعد مکتبہ نول کشورلکھنؤ (جودینی واصلاحی اوردرس نظامی کے علاوہ بہت وقیع نادرونایاب کتب کی اعلی کتابت وطباعت میں مشہورومعروف تھا)تشریف لے گئے اور عربی اُردو اورفارسی کی کتب کی تصحیح وغیرہ فرماتے رہے ۹؎دوسری طرف متعددطلبہ نے آپ سے فقہ،اصول فقہ اور علم کلام کی کتب پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۱۰؎ ایک مدت تک اسی کام میں مشغول رہے ،تصنیفات وتالیفات اوران کی طباعت واشاعت کا سلسلہ بھی چلتا رہا چنانچہ متعددمصنفین کی کتب کی تصحیح اورحضرت موصوف کی نظرثانی کے بعد ہی مکتبہ نول کشور لکھنؤ سے چھپتی تھیں،خود منشی نول کشور مرحوم مولانا محمد مظہرصاحبؒ نانوتوی کے شاگردتھے۔
استاذ محترم حضرت مولانا اطہرحسین ؒ نے فرمایا کہ منشی نول کشور حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کی عمدہ صحبت اوربہترین تربیت کی وجہ سے مولانا کے بڑے مداح اورعقدتمند تھے،مولانا کا بیحد اکرام واحترام اورحددرجہ ادب کرتے تھے،آپؒ کی صحبت صالح ہی کا نتیجہ تھا کہ منشی نول کشور بہترین داڑھی ،شاندار کرتا وپائجامہ اورنفیس عمامہ استعمال کرتے تھے۔ؒ
مظاہرعلوم میں تشریف آوری
۱۲۸۳ھ؁ میں جب فقیہ العصر حضرت مولانا سعادت علی صاحب نے مظاہرعلوم قائم فرمایا تو حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒجیسے قابل وفاضل،عالم وماہر اور ان کے مرشد سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکیؒ کی زبان میں’’یکتائے زمانہ‘‘کی ضرورت تھی،چنانچہ خود حضرت بانی علیہ الرحمہ نانوتہ تشریف لے گئے اوراپنے ساتھ مولانا محمد مظہرصاحبؒ کو لیکرآئے مظاہرعلوم کی عمراس وقت صرف تین ماہ تھی گویا شوال ۱۲۸۳ھ؁ میں مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے مظاہرعلوم کو سرفراز فرمایا ۔
جب مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ سہارنپور تشریف لے آئے تو جناب منشی نول کشور صاحب لکھنؤ سے بغرض ملاقات آئے لیکن وضع قطع اورشکل وصورت سے یہ بتانا مشکل تھا کہ یہ مسلمان ہیں یا ہندو،یہ سب حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒکی برکت تھی،منشی نولکشورنے اس وقت مظاہرعلوم میں چل رہی ایک عمارت کی تعمیر میں مبلغ ایک سو پینتالیس روپے بھی دئے تھے اس کے علاوہ اپنے مطبع کی وقیع کتابوں اور مطبوعات سے بھی مظاہرعلوم کونوازتے رہتے تھے (منشی نولکشور کا تذکرہ حضرت محدث اعظمؒ نے مجمع بحارالانوار کے مقدمۃ الکتاب میں بھی کیا ہے)۔
مظاہرعلوم سہارنپورآنے کے بعد آپ کو صدر المدرسین کا عہدۂ جلیلہ سونپاگیا ،اس کے علاوہ حدیث وتفسیر کی اعلیٰ معیار ی کتابیں آپ کے زیردرس رہیں،آپ کی تعلیم جدوجہد کی وجہ سے طلبہ کی استعدادوصلاحیت میں پختگی پیداہونے لگی،آپ سے متعلقہ اسباق اورجماعت کے طلبہ پورے مدرسہ میں سب سے اعلیٰ، نمبرات امتحان میں کامیاب ہوتے اور حضرات ممتحنین مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کی قابلیت ومہارت ،اسلوب واندازاورطلبہ پرمحنت کی داددیتے تھے،آپ کی محنت سے تعلیمی معیار بھی بلند ہوا،طلبہ کی کامیابی کا اوسط بڑھ گیا جس کا اعتراف ذمہ داران مدرسہ فقیہ العصر حضرت مولانا سعادت علی صاحب فقیہ سہارنپوریؒ،حضرت قاضی فضل الرحمن صاحب اور شیخ الہندؒکے والد حضرت مولانا ذوالفقارعلی صاحب دیوبندیؒ(متوفی ۱۹۰۴ئ؁)نے بڑے انشراح کے ساتھ کیا ہے اورامید ظاہرکی کہ دیگر مدرسین بھی مولانا موصوف کی طرح تعلیم میں دلچسپی لیتے ہوں گے۔
۱۳۰۱ھ؁میں حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کی وفات سے ایک سال قبل مظاہرعلوم کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒنے طلبۂ مظاہرکا امتحان لیا تو جوطلبہ حضرت مولانا محمد مظہرصاحب کے پاس پڑھتے تھے ان کی تعریف بایں الفاظ فرمائی۔
’’یہ احقر العباد جوچوبیسویں جمادی الثانیہ ۱۳۰۱ھ؁ میں مدرسہ عربیہ سہارنپور میں حاضر ہوا تو چند جماعت کا امتحان خواندگی ،ازاں جملہ دوشخص درمختار خواں کو کہ جماعت اولی مدرس اعلیٰ مولوی محمد مظہرصاحب مدفیوضہم کی تھی قابل اجازت وذی استعدادپایا کہ پڑھنے میں فکر وفہم کو حاضرکرتے تھے ،لہٰذا ان کو مجمع عام جامع مسجد میں روز جمعہ اجازت دیکر دستار باندھی گئی۔
حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒنانوتوی تقریباً ۱۹؍سال تک مظاہرعلوم کی خدمت انجام دیتے رہے حالانکہ آپ کا مشاہرہ صرف پچیس روپئے تھا اس کے باوجود آپ نے بڑی بڑی پیشکش اورخطیرتنخواہ کوٹھکرادیا،خودمولاناسیداحمدخان نے علی گڑھ بلایاچاہالیکن آپ نہیں گئے کیونکہ مظاہرعلوم آپ کے بزرگوں اوراساتذہ کا مدرسہ تھا جس کے ذرے ذرے سے آپ کو محبت اورعشق تھا،۱۹؍سال کے درمیان ذیل کتب کا باقاعدہ درس دیا:
’’بخاری شریف،مسلم،ترمذی،ابودائود،نسائی ،ابن ماجہ،مشکوٰۃ،مؤطاامام مالک،سنن دارمی،شمائل ترمذی،ہدایہ، درمختار، قدوری، کنزالد قا ئق،شرح وقایہ، نورالانوار، اصول الشاشی،جلالین،ترجمہ قرآن،بیضاوی،کشاف،مختصرالمعانی،دیوان متنبی،مقامات حریری،حماسہ،سبعہ معلقہ،نفحۃ الیمن ، تا ر یخ یمنی،قصیدہ ہمزیہ،تاریخ تیموری، جبرومقابلہ،حصن حصین،نخبۃ الفکر،خطبۂ قاموس وغیرہ مذکورہ بالاکتابوں میں بعض بعض کتابیںایسی ہیں بھی ہیں جن کو ایک سال میں دودوبار پڑھایا کرتے تھے۔
تعلیم وتعلم کے علاوہ مظاہرعلوم کی تعمیرات کا خیال،فراہمی مالیات کیلئے دوردراز کے اسفار طلبۂ عزیز کی نگرانی،غرض جب تک حیات رہے دامے،درمے ،قدمے،سخنے امدادوتعاون اوردیکھ بھال کی پوری ذمہ داری آپ کے سپردرہی اورمولانا عبد الحئی کے الفاظ میں’’ آپ نے آپ کو مظاہرعلوم کیلئے وقف اورفنا کردیا تھا‘‘مولانا سید محمد ثانی حسنی مظاہریؒ(۱۳۵۴ھ؁-۱۳۹۹ھ؁)لکھتے ہیں :
’’درحقیقت مظاہرعلوم کی ترقی اور تعمیرجدید میں آپ کا ہاتھ نمایاں تھا اور آپؒہی کے نام پراس مدرسہ عربیہ کا نام مظاہرالعلوم رکھاگیا،اللہ نے آپ ؒ کو سادگی ومتانت تواضع وانکساری ،احتیاط ودرع،عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ ذہانت وذکاوت ،حسن انتظام ،علم وفضل اورمتعدد علوم میں لیاقت وکمال کی دولتوں سے پوری طرح نوازاتھا‘‘۔
حضرت مولانا مفتی محمد نسیم صاحب فریدی امروہویؒ (متوفی ۱۴۰۹ھ؁۱۹۸۸ئ؁)لکھتے ہیں
’’آپ نے اپنی پوری عمرمدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور میں قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس اورعلوم فنون کی نشرواشاعت میں گزاردی۔
آگے ارقام فرماتے ہیں:
’’مولانا محمد مظہرصاحب ایک جید اور متبحرعلم تھے،علوم وفنون میںآپ کو پڑارسوخ حاصل تھا،مدرسہ مظاہرعلوم کے صدرمدرس مقررہوئے۔
جناب سرسید احمد خان نے مولانا محمد مظہرصاحب ؒ کی وفات پرلکھا تھاکہ:
’’افسو س ہے کہ مولوی مظہر جوعربی مدرسہ سہارنپور میں مدرس تھے اوران ہی کی ذات بابرکت سے اس مدرسہ کو رونق اورعزت تھی‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’بیس برس سے زائد انہوں نے اپنے ہم قوموں میں علوم دین کی فیض رسانی پرکمرہمت باندھی تھی اور عربی مدرسہ سہارنپور میں پاشکستہ ہوکربیٹھ گئے،آمدنی مدرسہ سے صرف پچیس رورپے ماہواربقدر گزراوقات لیتے تھے اور علوم کی تعلیم میںمصروف تھے،بہت لوگ ان سے فیضیاب ہوئے ۔
بہرحال مولانا موصوفؒ تاحین حیات مدرسہ کی دیکھ ریکھ ،خبرگیری،انتظامی امورسے لیکرتدریسی معاملات تک پورا کنٹرول رکھتے تھے چنانچہ مولانا محمد زکریا ؒ(متوفی ۱۹۸۲ئ؁-۱۳۰۳ھ؁)فرماتے ہیں:
’’حضرت ممدوح گویا ابتداء مدرسہ سے اب تک ہرنوع کا جزوی وکلی نظم فرماتے تھے۔(جاری)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یکے ازبانیان مظاہر:
حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتویؒ
(قسط :۴)
بیعت وخلافت
حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتویؒ کے گھریلوتعلقات شروع ہی سے حضرت اقدس حاجی امداد اللہ صاحب مہاجرمکیؒ سے قائم تھے حتی کہ گھر کی عورتیں بھی حضرت حاجی صاحبؒ سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتی تھیں ،حضرت حاجی صاحبؒ بھی وقتاً فوقتاً نانوتہ تشریف لے جاتے توگیا خانقاہ لطف علی میں بہار آجاتی ،ہرشخص شاداں وفرحاں نظرآتا تھا،حضرت حاجی صاحب ؒکی ولادت بھی ۱۲۳۳ھ؁ میں نانوتہ ہی میں ہوئی تھی،آپ کی ایک بہن بھی نانوتہ میں تھیں، اس لئے آنا جانا خوب رہتا تھا حضرت حاجی صاحبؒ کی خصوصی توجہات اور مربیانہ عنایات پورے خانوادہ کے بچوں پرتھیں اس لئے مولانا محمدمظہر،مولانا محمد احسن ،اور مولانا محمدمنیر صاحبؒ حضرت حاجی صاحب کے فیض گنجور سے کیسے محروم رہ سکتے تھے چنانچہ اول اول مولانا محمد مظہر صاحب نانوتویؒ نے ارادت کا تعلق حضرت حاجی صاحبؒ سے قائم کیا تھا۔
پروفیسر ایوب قادریؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتویؒ استاذحدیث مجاز بیعت اعلی حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکیؒ ومحدث گنگوہی حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ‘‘
استاذ محترم حضرت مولانا اطہرحسین صاحب ؒ فرماتے ہیں:
وبایع الشیخ الکنکوہی ونال الخلافۃ منہ وکان اخذالاذکاراولا عن الشیخ امداداللّٰہ المھاجر المکی فلقنہ ثم فوضہ الی حضرۃ الشیخ الکنکوہی کمایظھر عن بعض رسائلہ فی ’’امدادالمشاق ‘‘
مولانا محمد مظہر صاحبؒ جب حج بیت اللہ کیلئے مکۃ المکرمہ پہنچے تو اپنے مرشد روحانی محبوب سبحانی حضرت اقدس حاجی امداد اللہ صاحب مہاجرمکیؒ سے خصوصیت سے ملاقاتیں فرمائیں اورفیض حاصل کیا۔
حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ اپنے والدصاحبؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ ایک تخت ہے جس کے صدر پرحضرت گنگوہیؒ اورحضرت نانوتویؒ تشریف رکھتے ہیں،مولانا نے یہ خواب ایک عریضہ میں لکھکر جس میں بیعت کی درخواست بھی تھی ،حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ کی خدمت میں روانہ کردیا،حضرت نے جواب میں خواب کی تعبیریہ تحریرفرمائی کہ دونوں میں سے کسی سے بیعت کرلو،چنانچہ مولانا محمد مظہرصاحب حضرت نانوتویؒ کے پاس خط لے کر آئے کہ مجھے بیعت کرلو،انہوں نے گھبراکرفرمایا کہ آپ ہی مجھے بیعت فرمالیں،فرمایا کہ لویہ خط ہے اور حکم ہے ،حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے (اس خط کو پڑھکر)فرمایا کہ میں آپ کو صحیح مشورہ دیتا ہوں کہ گنگوہ تشریف لے جائیں وہاں گئے تو حضرت گنگوہیؒ نے بھی قائل فرمایا مگرپھر بیعت فرمالیا‘‘
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب ؒ فرماتے ہیں:
’’وکان عالمامتبحراً متقنا للفنون بایع الامام رشید احمد الکنکوہی واجازۃ وکان کثیر القرأۃ للقراٰن ،دائم الذکر،رطب اللسان باسم الذات بعیداً عن التکلف ،زاہداً متقشفا وقوراقدالقیت علیہ المہابۃ‘‘
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مظہرصاحب مہاجرمکیؒ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒ اعلی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے عمرمیں بڑے تھے لیکن حضرت کے خلفاء اورمحبوب ترین خادم تھے‘‘
مولانا محمد ثانی حسنی مظاہری ؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے اگرچہ عمر میں بڑے تھے لیکن انہیں سے بیعت ہوئے،بیعت کیا ہوئے ان کی محبت وعشق میں ڈوب گئے ،حضرت گنگوہیؒ بھی آپ کی بڑی عزت فرماتے،اجازت وخلافت سے بھی آپ کو مشرف کیا‘‘
حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھیؒ(متوفی یکم شعبان ۱۳۶۲ھ؁-۱۹۴۳ئ؁)فرماتے ہیں۔
’’مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ عمرمیں حضرت امام ربانی سے بڑے تھے مگرعقیدت کے اعتبارسے گویا حضرت کے جاں نثار خادم اورعاشق جانباز تھے،جب (گنگوہ)تشریف لاتے تو بے اختیار حضرت (گنگوہی) کے قدموں پربوسہ لیتے اورآنکھوں میں آنسوبھرلایا کرتے …حضرت امام ربانی شرماتے اور یوں فرماتے کہ’’مولانا آپ مجھے کیوں نادم فرمایا کرتے ہیں،آپ میرے بڑے ہیں،مجھ پر آپ کا ادب ضروری ہے،آپ ایسا کام کرتے ہیں تومجھ کو بڑی شرم آتی ہے،مولانا مظہرصاحبؒ صاحب بصیرت تھے حضرت کے علوشان اورمرتبت اوراپنی فرط محبت کے سبب جوکچھ کرتے تھے،وہ ان کا طبعی تقاضا تھا مگر حضرت امام ربانی کبرسنی کے پاس ولحاظ اورجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقرکبیرنا فلیس منا،کے امتثال کو بھول نہیں سکتے تھے۔
حضرت اما م ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ مولانا محمد مظہرصاحبؒ کا جواحترام کرتے تھے اس سے آپ واقف ہوچکے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علماء دیوبند کے روحانی پیشواسید الطائفہ حضرت حاجی امد اللہ صاحب کی نظروں میں اس گوہر کی جو وقعت اورعزت تھی اس کو بھی بیان کردیا جائے۔
مرقومات امدادیہ میں ہے کہ حضرت حاجی صاحبؒ نے تحریر فرمایا :
’’اگرمولوی محمد مظہرنانوتہ میں تشریف رکھتے ہوں تو بعد سلام شوق ملاقات فرماکر یہ پیام دیں کہ اس یکتائے زمانہ کو اپنی جماعت میں اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہوں،دعاء خیر سے غافل نہیں ہوں،خاطرجمع فرمادیں اورجوکچھ ذکروشغل سے متعلق دریافت کرنا منظور ہوتو بذریعہ احقریا مولوی رشید احمد صاحب کہ ان کو بجائے احقرجانیں،معلوم کریں‘‘۔
سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب ؒکو مذکورہ تحریر سے مولانا محمد مظہرصاحب ؒ کے بلند وبالامقام ومرتبہ ،آپؒ کی عظمت وشان وجلالت برہان (جو حضرت حاجی صاحبؒ کی نظروں میں تھی)کا پتہ چلتا ہے۔
تقوی وطہارت
حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ جس طرح علم وفن میں یکتا تھے اسی طرح خلوص وللّٰہیت ،زہدوعبادت،استغناء وتوکل ،سلوک وتصوف تقوی وتدین میں بھی اپنی مثال آپ تھے اور اپنی عارفانہ صفات،بزرگانہ عادات،متقیانہ خصوصیات اور شمائل وخصائل کی وجہ سے مشہور ومعروف تھے۔
مظاہرعلوم سہارنپور کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجرمدنیؒ فرماتے ہیں
’’مدرسہ کے اوقات میں جب کوئی مولانا قدس سرہ کا عزیز ذاتی ملاقات کیلئے آتا تو اس سے باتیں شروع کرتے وقت گھڑی دیکھ لیتے اور واپسی پرگھڑی دیکھ کر (حضرت کتاب میں ایک پرچہ رکھا رہتا تھا)اس پرتاریخ اوران منٹوں کا اندراج فرما لیتے اورماہ کے ختم پر ان منٹوں کو جمع فرماکراگرنصف یوم سے کم ہوں تو آدھے روز کی رخصت لے لیتے اور گرنصف یوم سے زائد ہوتا تو ایک یوم کی رخصت مدرسہ میں لکھوادیتے البتہ اگرکوئی فتویٰ وغیرہ پوچھنے آتا یا مدرسہ کے کسی کام سے آتا تو اس کا اندراج نہیں فرماتے تھے۔
حج بیت اللہ
حضرت مولانا محمد مظہرصاحب کو حج بیت اللہ کی ایک عرصہ سے تمنا تھی اور بلاشبہ مسلمان کو ہونی چاہئیے چنانچہ اللہ رب العزت نے یہ خواہش بھی پوری فرمادی اور ظاہری اسباب بھی مہیا ہوگئے تو پہلا حج ۱۲۷۷ ھ؁ مطابق ۱۸۸۱ئ؁ میں کیا پھر سترہ سال کے بعد دوبارہ حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے یہ وہ دورتھا جب ٹرکی اور روس میں باہم جنگ چھڑی ہوئی تھی عوام میں یہ مشہور ہوگیا کہ دراصل سفرحج کا بہانہ کرکے ملک روم تشریف لے جارہے ہیں تاکہ حکومت ٹرکی کی جانب سے والیٹیرجماعت میں شرکت فرما کرجہاد کریں مگر لوگوں کا یہ خیال غلط تھا۔
سفرحج پرجانے والا یہ قافلہ تقریباً سوافراد پر مشتمل تھا بقول حضرت مولانا محمد زکریاصاحب ؒبارہ شوال کو سہارنپور سے روانہ ہوئے علماء وقت کے ایک جم غفیر کو آپ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل ہوئی اس مبارک قافلہ میں مشاہیر علماء مین سے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۱۲۴۸ھ ؁۷ ۹ ۲ ۱ھ ؁ حکیم ضیاء الدین صاحب ،مولانا محمد مظہرصاحب مع اہلیہ ،مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی (۱۲۴۹ھ؁-۱۳۰۲ئ؁) حضرت مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند(۱۲۵۲ھ؁…۱۳۰۸ھ؁)شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ (۱۲۶۸ھ ؁- ۳۹ ۳ ۱ ھ ؁) حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحب ، مولوی حکیم محمد اسماعیل صاحب ۳؎،حضرت مولانا احمد حسن صاحب کانپوری ،حضرت مولانا عنایت الٰہی ؒ مہتمم مظاہرعلوم(وقف)سہارنپور ،حضرت مولانا محمد منیر صاحب ۴؎نانوتویؒ(ولادت ۱۲۴۷ھ؁ ہے)برادراصغر مولانا محمد مظہرجیسے اکابر واعیان پرمشتمل یہ وفد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی سیادت وقیادت میں ۱۲شوال ۱۲۹۴ھ؁ کو سہارنپور سے روانہ ہوا۔۲۱ذی قعدہ کو یہ قافلہ خیروعافیت کے ساتھ مکۃ المکرمہ پہنچا اور ربیع الاول ۱۲۹۵ھ؁ میں واپس تشریف لایا۔
حضرت مولانا عبد الحئی صاحب ؒ فرماتے ہیں ’’حج کے اس مقدس سفرمیں مکۃ المکرمہ میں پیشوائے دیوبند حضرت حاجی امداداللہ صاحب تھانوی مہاجرمکیؒ سے خصوصیت سے ملاقاتیں فرمائیں نیز مدرسہ صولتیہ مکۃ المکرمہ کے بانی مناظراسلام حضرت مولانا علامہ رحمت اللہ صاحب کیرانوی بن خلیل الرحمن سے بھی ملاقات فرمائی نیز مدینہ منورہ میں حضرت شیخ عبد الغنی بن سعید العمری سے بھی ملاقات فرمائی اور خوب خوب فیض حاصل کیا۔
بہرحال مذکور ہ بالا طویل سفر کیلئے حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے ۶ماہ کی رخصت لی تو آپ سے متعلقہ اسباق،عہدۂ صدارت کی تمام ترذمہ داریاں اوردیگر امورکومحدث کبیر حضرت مولانا احمدعلی صاحب محدث سہارنپوریؒ نے اپنی گونا گوں مصروفیات ومشغولیات کے باوجود باحسن وجوہ پورا فرمایا تھا چنانچہ مدرسہ مظاہرعلوم کی روئدادمیں مرقوم ہے۔
’’مولوی محمد مظہرمدرس اول ومولوی احمد حسن مدرس دوم ومولوی عنایت الٰہی محررمدرسہ وپیر محمد خاں معاون نے واسطے حج بیت اللہ کے زیارت حرمین شریفین کے اس مدرسہ سے شروع سال سے چھ مہینے کی رخصت طلب کی چنانچہ ان کو بموجب ان کے درخواست کے رخصت مطلوب عطاکی گئی وباقتضائے مصلحت وقت وکمی وصول زرچندہ تنخواہ ایام رخصت نہیں دی گئی ۔ایام غیبت مدرسین میں مولوی احمد علی صاحب ہمیشہ مدرسہ میں تشریف لاتے اورجماعت اولیٰ اورجن کو مناسب جانتے درس دیتے رہتے۔‘‘(روداد مظاہرعلوم ۱۲۹۴ھ؁ص۲) (مزید تفصیل آئینہ مظاہرعلوم جلد۱۰شمارہ ۴و۵ میں مولانا احمد علی صاحب ؒ کے تذکرہ میں ملاحظہ فرمائیں)۔(جاری​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یکے ازبانیان مظاہر:
حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ
(قسط :۵)
علمی کارنامے
حضرت فخرالاماثل علیہ الرحمۃ کا سب سے بڑا کارنامہ مظاہرعلوم سہارنپور ہے جس کو مدرسہ سے ادارہ بنانے میں حضرت ہی کا عملی حصہ رہا ہے اور اس کو دوامی شہرت ،عوامی مقبولیت اس کے فضلاء وفارغین میں زہدوقناعت اورتصوف اور للّٰہیت ،تعلیمی معیار،وقارکی بلندی،مدرسین وملازمین کے اوقات کی پابندی،اکابرمظاہرعلوم اورولی اللّٰہی مسلک کی صیانت وحفاظت غرض مظاہرعلوم سہارنپور کی بہرنوع خدمت ،طالبان علوم دینیہ اور تشنہ کامان علوم نبویہ کی اپنے علوم معارف سے سیرابی وفیضیابی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حضرت فخرالاماثل نے علمی وتصنیفی کارنامے بھی انجام دئے چنانچہ اس سے پہلے گزرچکا ہے کہ لکھنؤ کے مکتبہ نولکشور میں طبع ہونے والی کتابوں کو تصحیح کا کام مکمل ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتے تھے اوراہل علم حضرات اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ کسی بھی علمی تحقیقی اور تصنیفی کام کی تصحیح ،تصنیف وتالیف سے بڑھ کر اور تصحیح میں دوگناذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
حضرت فخرالاماثل کے چھوٹے بھائی صاحب تصنیف کثیرہ،علوم عالیہ وآلیہ کے ماہرحضرت مولانا محمد احسن صاحب نانوتویؒ جنہوں نے تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا تھا اور دہلی کالج سے عربی کی تکمیل کی تھی ان کی کئی تصنیفات کی تصحیح فرمائی چنانچہ جناب ایوب قادری صاحبؒ (متوفی ۱۴۰۴ھ؁)لکھتے ہیں۔
’’فقہ حنفی کی مشہور ومتداول کتاب درمختارکا اُردو ترجمہ مشہور عالم مولانا خرم علی بلہوری(متوفی ۱۲۷۱ھ؁-۱۸۵۴ئ؁)نے حسب فرمائش نواب ذوالفقار الدولہ رئیس باندہ ۱۲۵۸ھ مطابق ۱۸۴۲ئ؁ میں کتاب النکاح سے شروع فرمایا۔محرم۱۲۷۱ھ؁ مطابق ۱۸۵۴ئ؁ میں قریب اختتام تھا کہ پیغام اجل آگیا۔مولانا محمد احسن صاحبؒ نے اس ترجمہ کو ان کے ورثاء سے اشاعت کی غرض سے خریدا۔اور بقیہ ترجمہ از باب الاذان تاکتاب الصلوٰۃ مکمل کیا اورجن مقامات کو مولانا خرم علی بلہوریؒ نے چھوڑدیا تھا ان کو مکمل کیا اور اس ترجمہ کو ہرطرح سے صحیح درست کرکے چند اصحاب کی شرکت میں اول چوتھی جلد مطبع صدیقی بریلی سے شائع کی اوراس کانام غایۃ الاوطار رکھا لیکن یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا مولانا محمد احسنؒ کوسخت فکرہوئی اورایک اشتہار اس باب میں طبع کرکے مشتہر کیا نواب کلب علی خاں رئیس رام پور (متوفی۱۲۰۴ھ؁ مطابق ۱۸۸۷ئ؁ نے طباعت کے جملہ مصارف برداشت کئے مولانا محمد احسنؒ نے نواب رامپور کی معارف پروری کا خاص طورسے ذکرکیا ہے اس کتاب کی تصحیح وتکمیل میں مولانا محمد احسن کے بڑے بھائی مولانا محمد مظہر صاحب نانوتویؒ(متوفی ۱۳۰۲ صدر مدرس مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور بھی شریک رہے،اس ضخیم اورگراں قدرکتاب کی چاروں جلدوں کی طباعت ۱۲۸۸ھ؁ مطابق ۱۸۷۱ئ؁ میں ہوئی ۔
جناب ایوب قادری صاحب نے مذکورہ بالاواقعہ کو اپنی کتاب’’مولانا محمد احسن نانوتوی‘‘میں یوں لکھا ہے’’مولانا محمد مظہرحدیث وفقہ میں بڑادرک رکھتے تھے،مولانا محمد احسن نانوتویؒ نے جب مولوی خرم بلہوریؒ کے ورثاء سے درمختار کااُردوترجمہ طباعت اشاعت کی غرض سے خریدا تو اس کتاب کو بقیہ ترجمے اورصحت ودرستی میں مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ پورے پورے شریک رہے۔جیساکہ مولانا محمد احسنؒ نے کتاب کے مقدمہ میں ذکرکیا ہے‘‘۔
حجۃ الاسلام حضرت الامام ابومحمد غزالیؒ کی مشہور عالم البیلی وعارفانہ کتاب احیاء علوم الدین کا اُردو ترجمہ مولانا محمد احسن نانوتویؒ نے منشی نولکشور کی فرمائش پر۱۲۸۱ھ؁ مطابق ۱۸۶۴ئ؁ تا۱۲۸۶ھ؁ مطابق ۱۸۶۹ئ؁ چارضخیم جلدوں میں کیا۔اورمذاق العارفین تاریخی نام رکھا ۔ترجمہ بامحاورہ اورسلیس ہے تخریج عراقی سے احادیث کے مخارج ومآخذکا حوالہ حاشیہ پرلکھ دیا،چنانچہ حضرت مولانا محمد مظہرصاحبؒ نے اس کو بھی بنظرغائر مطالعہ فرمایا اور مستقل حاشیہ کا داعیہ پیداہوا تو احیاء علوم الدین کے کئی قدیم نسخے بڑی کوششوں کے بعد حاصل کئے اور اصل کتاب میں چھپتی چلی آرہی غلطیوں طباعت اورپروف ریڈنگ کی خامیوں کو غایت محنت اورعرق ریزی کے بعد اغلاط کو پاک کیا جس کے لئے قدیم نسخوں کو سامنے رکھا اور جوعبارات آپس میں گڈمڈ ہوگئیں تھیں ان کو صحیح کیا پھر مشکل لغات کی مختصر مگرنہایت جامع علمی تشریح وتوضیح کی اس سلسلہ میں مصر کے قدیم نسخوں کو بھی سامنے رکھا اور درج ذیل کتب سے بھی مراجعت کی ’’مجمع البحار،شرح حصن حصین،بیضاوی ،مدارک،کشاف ،جلالین ،قاموس ،مصبا ح المنیر اور صراح وغیرہ‘‘۔
اس کتاب کی تصحیح وتحشیہ میں دارالعلوم دیوبند کے اولین صدرالمدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ نے بھی مددفرمائی جس کا تذکرہ خاتمۃالطبع کے تحت بڑے القاب کے ساتھ فرمایا۔
اس کتاب کے آخرمیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی طرف سے اُردو،عربی اورفارسی میں منظوم مادہ ہائے تاریخ طباعت بھی درج ہیں جن میں سے اُردو میں اس مصرعہ سے تاریخ طباعت نکلتی ہے۔
ع ’’خوب چھپی خوب چھپی واہ واہ‘‘ (۱۲۸۱ھ)
مظاہرعلوم سہارنپور کے شعبہ نشرواشاعت کی طرف سے ہرسال ایک مختصرتعارفی کتابچہ’’اجمالی کیفیت‘‘کے نام سے شائع ہوتا ہے، اس کے ص۸ پر’’خدمت حدیث شریف‘‘کے تحت مرقوم ہے کہ ’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ نے احیاء العلوم کے حاشیہ کی طرح ’’مجمع بحارالانوار‘‘ کا ایک مختصر حاشیہ تحریر فرمایا جس کا ذکر مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ محدث اعظمی نے کتاب مذکورکے مقدمۂ طباعت میں کیا ہے۔
تلامذۂ ذیشان
حضرت مولانا محمد مظہرصاحب ؒ کے تمام شاگرداورتلامذہ کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے کیونکہ آپ نے مظاہرعلوم میں ایک دوسال نہیں مسلسل ۱۹؍سال تک اہتمام کے ساتھ علوم دینیہ کے طالبوں پراپنے علوم عرفانیہ اور فیوض روحانیہ کی ندیاں بہائی ہیں ان تمام تلامذہ ذیشان کی تعداد کیلئے کئی صفحات درکارہیں تاہم چند مشہور ومعروف شخصیات کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں جن کا ذکرحضرت مولانا عبد الحئی صاحب حسنیؒ نے نزہۃ الخواطرکی آٹھویں جلد میں کیا ہے۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند (متوفی ۴؍جمادی الاولیٰ ۱۲۹۷ھ)۔
حضرت مولانا امیربازخا ن ؒ (۱۲۵۸ھ؁ م ۱۸۴۲ئ؁-۱۳۲۵ھ؁م۱۹۰۷ئ؁ )
حضرت مولانا اشرف علی سلطانپوری (ولادت ۷؍رمضان ۱۲۶۸ھ؁)مجاز حضرت گنگوہیؒ
محدث کبیر مولانا خلیل احمد انبہٹوی (متوفی پنجشنبہ ۱۶؍ربیع ۱۳۴۶۲)مجاز حضرت گنگوہیؒ
حضرت مولانا عبد الجبار عمرپوری (مشہور عربی شاعر
حضرت مولانا راغب اللہ پانی پتی (متوفی ۱۳۱۴ھ
حضرت مولانا نوراحمد امرتسری ؒ(متوفی ۱۳؍شعبان ۱۳۴۸ھ؁ م۱۹۳۰ء
حضرت مولانا حافظ جان محمد قاضی ریاست ٹونک۔
حضرت مولانا عبد المنان وزیر آبادی ماہرحدیث ورجال وحافظ صحاح (متوفی ۱۳۳۴ھ؁)۔
حضرت مولانا مقیم الدین کوٹی ٹانکی مدرسہ شوکت الاسلام سنڈیلہ (ہردوئی)۔
حضرت مولانا حکیم رحیم اللہ بجنوری ؒ(متوفی ۱۳۴۰)۔
حضرت مولانا سید جمعیت علی پورقاضوی پروفیسر عربی کالج بھاولپور(متوفی ۱۳۴۱ھ؁)۔
حضرت مولانا فخرالحسن گنگوہیؒ(متوفی ۱۳۱۵ھ؁)۔
حضرت مولانا نورمحمد حقانی لدھیانوی (متوفی ۲۳؍ذی الحجہ ۱۳۴۳ھ؁م۱۹۲۵ئ؁۔
حضرت مولانا محمد فاروقی خلیفۂ اجل حضرت گنگوہیؒ (متوفی ۱۳۲۰ھ؁)۔
حضرت مولانا حافظ قمرالدین سہارنپوری (متوفی ۲۷؍محرم ۱۳۳۴ھ؁)۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی (آپؒ کو مولانا محمد مظہرصاحبؒ سے اجازت حدیث حاصل ہے)۔
حضرت مولانا صدیق احمد انبہٹوی مفتی ریاست مالیرکوٹلہ پنجاب (متوفی ۱۳۴۲ھ؁)۔
حضرت مولانا ثابت علی پورقاضوی اول مدرس مظاہرعلوم سہارنپور (متوفی ۲۰ربیع الثانی ۱۳۴۲ھ؁)۔
بعض کتب تواریخ میں حضرت معین الدین صاحب ابن حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒکا اسم گرامی بھی ملتا ہے۔
مذکورہ بالا اسماء سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسی کیسی برگزیدہ ہستیوں اورستودہ شخصیتوں نے حضرت فخرالاماثل ؒسے علم حاصل کیا ہے ،خود حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ بھی مولانا کے شاگردوں میں تھے جس کا ذکر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے بایں الفاظ کیا ہے۔
’’ومن مفاخرہ ان الشیخ العلامۃ بحرالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم النانوتوی اخذعنہ بعض الکتب الابتدائیۃ کمااخبرمولانا ثابت علی المدرس بمظاہرعلوم‘‘
حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے اس قول کی تائید نزہۃ الخواطر سے بھی ہوتی ہے۔
نیز حضرت مفتی محمد نسیم امروہوی ؒفرماتے ہیں’’حضرت مولانا محمد قاسم نے بھی آپؓ سے بعض ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔
حضرت مولانا انوارالحسن صاحب شیرکوٹی نے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی ان کتابوں کی وضاحت بھی فرمادی جوانہوں نے حضرت فخرالاماثل ؒسے پڑھیں ۔فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے شرح مائۃ عامل،بدایۃ النحو،علم الصیغہ وغیرہ پڑھی تھیں۔
حضرت محدث کبیر مولانا خلیل احمد صاحب محدث سہارنپوری بھی حضرت فخرالاماثلؒ کے شاگردرشید ہیں،شاگردی کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت فخرالاماثلؒ کی شادی سہارنپور کے ایک گائوں لکھنوتی سے ہوئی تھی اورحضرت فخرالاماثل ؒرمضان المبارک گزارنے کے لئے وہیں تشریف لے جاتے تھے چنانچہ حضرت محدث کبیرنے ؒ لکھنوتی جاکرآپ کے دریائے علم سے فیض حاصل کیا تھا۔(جاری)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یکے ازبانیان مظاہر:
حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ
(قسط :۶)
عادات ومعمولات
آپ کی خوبیوںکو بیان کرنے کیلئے کئی صفحات درکارہیں تاہم چند خصوصیات پیش ہیں:
’’آپ قرآن مجید کی تلاوت بہت زیادہ کرتے تھے اور ہمیشہ ذکربھی بکثرت کرتے تھے‘‘
’’اسم ذات‘‘کے ذکرسے برابر رطب اللسان رہتے تھے،تکلف سے دوردنیا سے بے پرواہ صاحب وقار تھے آپ کے چہر ے پرایک قدرتی رعب تھا‘‘۔
حضرت فخرالاماثلؒ کا رعب اورہیبت اسقدر تھی کہ اچھے اچھے دل گردے والے بھی آپ سے بات کرنے سے ڈرتے تھے ،مظاہرعلوم کی چہاردیواری میں مدرس سے لیکر ملازم تک ،ابتدائی طالب علم سے لیکرمنتہی تک سب پرکڑی نظررکھتے تھے ،ارباب مدرسہ اورسرپرستان حضرات آپ کا بہت اکرام واحترام اورپاس ولحاظ رکھتے تھے وہ مدرسہ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر کرتے تھے۔ ۱۲۹۲ھ؁ سے ۱۳۰۲ھ؁ تک مظاہرعلوم کے تین سرپرستان رہے مگرروح ورواں حضرت فخرالاماثل علیہ الرحمہ ہی کی ذات بابرکات تھی۔
مدرسہ میں بڑی پابندی اوروقت پرتشریف لاتے کبھی بھی تاخیر نہ فرماتے ،مدرسہ کا مکمل انتظام وانصرام پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتے تھے ،نہایت کم گو،حق گو،سادہ لوح ، سادگی پسند تھے،رمضان المبارک میں تراویح کے وقت خوشبولگانے کا معمول مدتوں سے تھا،جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادافرماتے تھے اوروقتاً فوقتاً وہاں تقریر بھی کرتے تھے جس میں مظاہرعلوم کی ضروریات اوراسکے حالات وکیفیات سے عوام کو روشناس فرماتے تھے۔
سانحۂ ارتحال
آپ کی رحلت کی خبرکلفت اثرکا تذکرہ مظاہرعلوم کی روداد میں اس طرح ذکرکیا گیا ہے ۔
’’جناب مولانا مولوی محمد مظہرصاحبؒ مدرس اول جن کے اوصاف بیرون ازبیان ہیں اس وقت آٹھ بجے شب ۲۴؍ذی الحجہ ۱۸۸۵ئ؁ یکشنبہ کو بمرض دردگردہ سہارنپور میں اس جہان فانی سے رحلت فرماکر عالم جاودانی جنت الفردوس میں جاگزیں ہوئے ۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
اس صدمۂ جانکاہ سے ہندوستان کے اہل اسلام کوعموماً اور اس مدرسہ کے خیرخواہان کو خصوصاً جس قدررنج وغم ہو وہ کم ہے ،ایسے عالم باعمل اور فاضل اکمل،جملہ علوم مروجہ میں فائق اورتراویج دینیات میں سائق کا اس جہاں سے اٹھ جانا پس ماندگان کی نہایت کم نصیبی ہے،بعد انتقال مولوی سعادت علی مرحوم بانی اس مدرسہ کی نگرانی کاجملہ کاروبارانتظامی وخبرگیری مدرسہ بھی مولانا صاحب موصوف نے علاوہ تدریس کے اپنے ذمے لے رکھی تھی ،جوکچھ عزل ونصب بابت انتظام مدرسہ ہوتا تھا بدوں صلاح وصوابدید مولانا ممدوح کے نہ ہوتا تھا ، علاوہ اسکے فراہمی چند ہ میں بھی از حدسعی فرماتے تھے اورتدریس کا یہ حال کہ علاوہ دیگرکتب دینیات کے اکثرہرسال صحاح ستہ کا درس ختم ہوتارہا الغرض مولانا مرحوم کا اس جہان فانی سے رحلت فرمانا اس شہرمدرسہ کے واسطے کمال حسرت واندوہ کا واقعہ ہے ،خدائے تعالیٰ ان کو غریق مغفرت کرے اور درجات عالیہ عنایت فرمائے‘‘
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو جب مولانا کے انتقال کی افسوس ناک خبرملی تو بہت زیادہ مغموم ہوگئے اور حضرت محدیث کبیر مولانا خلیل احمد صاحبؒ محدث کے پاس درج ذیل تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا ۔
’’اب حادثۂ جدیدہ یہ ہوماکہ مولوی محمد مظہرمرحوم ۲۴؍شب ذی الحجہ کو فوت ہوئے عالم اندھیرا ہوا اب سب رفیق رخصت ہوئے دیکھئے کب تک میری قسمت میں اس دنیا میں دھکے لکھے ہیں‘‘۔
حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒانبہٹوی کو اپنے استاذ حضرت مولانا محمد مظہرصاحبؒ سے بے پناہ عقیدت ومحبت اورغایت انسیت والفت تھی چنانچہ ایک بارجمادی الثانی ۱۳۴۰ھ؁ میں جب سخت علیل ہوئے تو اپنا وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں لکھا کہ’’مجھے استادی مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کے پہلو میں دفن کریں‘‘لیکن حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ کا عشق مدنی آقاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قد ر تھادنیا کی کسی ذات سے نہیں ہوسکتا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور گھٹن کی کشش نے مدینہ پاک کھینچ لیا اور دیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مدفون ہیں جہاں کاذرہ ذرہ آفتاب وماہتاب اورانوارالٰہی کی تجلیات سے تاباں ودرخشاں ہے اورہرمومن کی زبان پریہی وردہے۔ بقول حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدایوب قاسمی ؒ:
ضمیرپُرمعاصی کی یہی ہے آرزو یارب
مدینہ کی زمیں پر کاش مجھکو موت آجائے
حضرت مولانا محمد مظہرصاحبؒ کے ایک عظیم المرتبت فاضل دوست اوررفیق ادیب الہند حضرت مولانا فیض الحسن ۴؎سہانپوریؒجولاہور کے اورینٹل کالج میں پروفیسر تھے اور اپنا ایک ذاتی اخبار’’ شفاء الصدور ‘‘نکالتے تھے حضرت ادیب الہند صاحبؒ کو جب مولانا محمد مظہرصاحب ؒ کے انتقال کی خبرملی تو کوہ غم ٹوٹ پڑا،حزن وغم اوررنج والم کی تصویربن گئے اور اپنے اخبار میں مولانا کی حیات اور ان کے زریں کارناموں پراپنے قلبی تاثرات کا اظہارکیا آپ کی وفات کوبہت بڑا حادثہ بتلایا۔
آپ کے ایک اورمعاصر عالم جناب سرسید احمد خاں مرحوم (بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)کو جب اس سانحہ کی خبرملی تو آپ نے بھی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ علی گڑھ کے ۱۰؍اکتوبر ۱۸۸۵ھ؁ کی اشاعت میں اپنے گہرے رنج وغم اور کرب وقلق کا اظہارکیا اورافسوس ظاہرکیا کہ اجل نے عوام وخواص کومولانا کے فیض سے محروم کردیا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجرمدنیؒ اپنی مشہور کتاب تاریخ مظاہر میں فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کا وصال ۲۴؍ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ؁ مطابق اکتوبر ۱۸۸۵ئ؁ کی شب ۸بجے کے قریب بمرض دردگردہ پیش آیا،حضرت ممدوح نوراللہ مرقدہ ابتداء مدرسہ سے اب تک ہرنوع کا جزئی وکلی نظم فرماتے مدرسہ کی ہرنوع کی خبرگیری نگرانی حضرت ہی کے حوالے تھی،عزل ونصب ملازمین،ترقی وتنزلی مدرسین،حضرت ہی کے ذات سے متعلق تھا،اس حادثہ کی وجہ سے عام طلبہ پربالخصوص طلبۂ حدیث پراثرہونا یقینی تھا،حضرت مولانا محمد مظہرؒاعلی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے عمرمیں بڑے تھے لیکن حضرت کے خلفاء اورمحبوب ترین خادم تھے۔
’’آپ نے ۲۴؍ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ؁ کو اتوار کے دن سترسال کی عمرمیں وفات پائی۔
بہرحال حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ علم وعمل ،زہدوتصوف،حلم و بردباری ،رفق ونرمی،صداقت وامانت ،نجابت وانابت،اخلاص ودیانت،دبدبہ وجلالت،خوف وخشیت اورسنت نبوی کے پابند،عشق الٰہی میں سرشار،متقی وپرہیزگار،اپنی ذات میں انجمن نابغۂ روزگار ،خدمت خلق کے جذبہ میں ممتازتھے ،چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد ان کی خالی جگہ پرآپ ہی جیسے مخلص ومحنتی،متدین ومتقی،بزرگ عالم،مظاہرعلوم کیلئے اپنا تن من،دھن سب کچھ قربان کردینے والے جذبہ وحوصلہ جیسی صفات سے متصف شخص کی ضرورت پیش آئی،مگر آپ جیسا آدمی نظرنہیں آیا چنانچہ مجبوراً اس وقت کے موجودہ مدرسین وملازمین کے عہدوں میں تغیر وتبدل کیا گیا۔
حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن بجنوریؒ فرماتے ہیں:
’’وصال کے وقت بمطابق حدیث شریف’’ علامۃ موت المومن حتی اذ۱قرب وصالہ عرق جبینہ‘‘یعنی مومن کی موت کی علامت یہ ہے کہ وصال کا وقت جب قریب ہوتا ہے توپیشانی پرپسینہ آتا ہے بعد وصال کے آپ کا چہرہ نہایت منور اورخوش وخرم معلوم ہوتا تھا۔
حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ کے ایک قریبی عزیز جناب حضرت حکیم احمد عشرتی نانوتوی اپنی کتاب’’مکتوبات مولانا محمد یعقوب ‘‘فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا محمد مظہرصاحبؒ کے تین بھائی تھے اور تینوں نامی گرامی بزرگ ،مجاہد آزادی اورصاحب علم وفضل تھے جن میں مولانا کے علاوہ حضرت مولانا محمد احسن صاحب نانوتویؒاور حضرت مولانا محمد منیر صاحبؒ ،حضرت مولانا محمد مظہر صاحب ؒکی کوئی اولاد نہیں ہوئی اورمولانا محمد احسن کے ایک فرزند مولوی محمد اسماعیل نانوتوی تھے،اسی طرح حضرت مولانا محمد منیر صاحب کے بھی ایک فرزند محبوب الرحمان نامی تھے‘‘
علم وعرفان کے گرانمایہ سرمایہ کو سہارنپور کے مشہور قبرستان شاہ کمال الدینؒ میں ہزارسوگواروں نے سپردخاک کیا۔ع آسماں ان کی لحدپر شبنم افشانی کرے
(ختم شد)​
 

احمداسد

وفقہ اللہ
رکن
حضرت رحمہ اللہ کے اتنے تفصیلی حالات پہلے دفعہ مطالعے کرنے کو ملے ہیں
جزاک اللہ خیرا
 
Top