حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
گلشن تری یادوں سے مہکتاہی رہے گا:
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ

ناصرالدین مظاہری

[align=justify]مظاہرعلوم سہارنپورکواللہ تعالیٰ نے جن امتیازات سے نوازاہے ان میں ایک اہم چیزدرس نظامی پرعبور اورحل کتاب میں خاطرخواہ دلچسپی بھی ہے۔یہاں ہرزمانے میں فن کے ماہرین اورموضوع کے متخصصین نے گمنامی اورسادگی کے ساتھ خدمات انجام دی ہیں جن میں بانی مظاہرعلوم حضرت مولاناسعادت علی سہارنپوریؒ، حضرت مولاناعنایت الٰہی سہارنپوریؒ،حضرت مولاناسخاوت علی انبہٹویؒ،حضرت مولاناسعادت حسین بہاریؒ، حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،حضرت مولاناسید ظریف احمد پورقاضویؒ، حضرت مولانا علامہ سیدصدیق احمدجمویؒ،حضرت مولاناجمیل الرحمن امروہویؒ،حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن کلیانویؒ،حضرت مولاناظفراحمدنیرانویؒ اور حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ بطورخاص قابل ذکرہیں جنہوں نے درس وتدریس کواپنی زندگی کااوڑھنابچھونابنائے رکھا،تعلقات سے کنارہ کشی اختیارکی، دولت وثروت سے دامن بچایا،دنیااوردنیاداری سے رخ موڑکرصرف اورصرف اللہ تعالیٰ سے اپناتعلق اوررشتہ جوڑکرخاموشی وسادگی کے ساتھ کن فی الدنیاکانک غریب اوعابر سبیل کوعملی جامہ پہناکردنیاسے رخصت ہوگئے۔
کتابیں ہیں چمن اپنا:
یہ وہ حضرات ہیں جو اپنے زمانے میں فن کے ماہروحاذق اورطباع سمجھے جاتے تھے،ان کے عہدمیں ان کی نظیرملنی مشکل تھی،کتاب اورکتابی ابحاث سے آگے کچھ بھی نہیں سوچا،کتاب ہی ان کی صبح تھی،کتاب ہی ان کی شام،کتابوں کے درمیان ہی ان کابسترتھااورکتابیں ہی ان کی زندگی کاحصہ،ایک طرف ان کی قابلیت اورلیاقت کایہ عالم کہ مشکل ترین ابحاث کی گتھیوں کوسلجھانااورلاینحل عبارات کوچٹکیوں میں حل کردیناان کے لئے آسان تودوسری طرف ان کی سادگی اوردنیاومافیہاسے ترک تعلق کایہ عالم کہ فون کے نمبرات ملانایاگھڑی میں چابی بھرناان حضرات سے مشکل ،منطق وفلسفہ کی وہ ابحاث جن کوحل کرنے میں عبقری شخصیات ہمت ہاردیں لیکن وہی ابحاث ان سادہ لوح شخصیات کے لئے سہل اورآسان،جن لوگوں کوسخت اورمشکل کتابیں پڑھانے میں لذت محسوس ہوتی ہولیکن ریڈیوکے بارے میں تذبذب کاشکارکہ اس میں انسانی آوازیں کیونکرآتی ہیں،وہی لوگ جوخودیہ کہنے پرمجبور ہوجائیں کہ درس نظامی کی کوئی بھی کتاب میرے لئے مشکل نہیں لیکن خدارامجھے سمجھاؤکہ بائیسکل بغیرکسی روک ٹوک کے دوپہیوں پرکس طرح چلتی رہتی ہے؟۔
ان حضرات کے پاس دولت وثروت نہیں ملتی،زووجواہرات نہیں ملتے،دنیاداری کی گفتگوتک نہیں ہوتی،عیش وآرام کاسامان نہیں ملتالیکن ایک چیزفراوانی کے ساتھ ملتی ہے اوروہ ہیں کتابیں،کتابوں کے جمع کرنے کاشوق اتناکہ پیٹ کاٹ کاٹ کرکتابیں خریدتے تھے،کتابوں میں مگن رہتے تھے اورکتابوں ہی میں گھرے رہتے تھے۔
یہی شخصیات ہیں جن کے سونے کوعبادت پرتفوق حاصل ہے،ان ہی شخصیات کے زہدواتقاپرمسلمانی ناز کرتی ہے،ان ہی برگزیدہ وخدارسیدہ ہستیوں نے مظاہرعلوم کواوج کمال پرپہنچایا،ان ہی سادہ لوح مخلصین نے مادرعلمی کے وقاروتقدس کوبلندکرنے میں تاریخ سازکرداراداکیا۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ
ناصرالدین مظاہری )قسط ۲)
سودائے عشق:

دبلے پتلے،نحیف الجثہ،سانولارنگ،چوڑی پیشانی،ستواں ناک،سفیدریش،متوسط القامت،صاف وشاف کپڑوں میں ملبوس،عالمانہ وقار،فاضلانہ گفتگو،سہارنپوری لہجہ،حق پسند،اصول پسند،،حق نگر،بلندآواز، صاف گویہ تھے مظاہرعلوم وقف سہارنپورکے مہتمم تعلیمات،حضرت شیخ الحدیثؒکے مخلص خادم اورخانوادۂ شیخ کے اتالیق،فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒکے معتمد،حضرت مولاناعبدالمجیدؒکے جانشین،حضرت علامہ سیدصدیق احمدکشمیریؒکی توجہات کامثمرثمر،خاکسارومتواضع،متین وبردبارحضرت مولاناعلامہ محمدیامینؒابن جناب ماسٹرمحمدصدیق انصاریؒ جوسرزمین سہارنپور کے ان چند گنے چنے افرادمیں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی آنکھیں مظاہرعلوم میں کھولیں توآخری سانسیں اورآنکھیں اسی مظاہرعلوم میں بند ہوئیں، جنہوں نے مظاہرعلوم کے لئے اپنے آپ کویہ کہتے ہوئے قربان کردیاکہ
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
ان حضرات نے اپنے کرداروعمل سے ثابت کردیاتھاکہ ’’قوم مذہب سے ہے مذہب جونہیں تم بھی نہیں‘‘ مظاہرعلوم ان حضرات کیلئے اوریہ حضرات مظاہرعلوم کیلئے لازم وملزوم ہوچکے تھے۔سچائی یہ ہے کہ یہ حضرات مظاہرعلوم کامعیاربن چکے تھے،اس وقت مظاہرعلوم ان قدسی نفوس ہستیوں کے دم قدم سے شاہراہ ترقی پرگامزن تھا،ان حضرات نے اپنی بصیرت وفراست سے مظاہرعلوم کووقار واعتمادکی وہ دولت عطاکی جس کے باعث آج بھی یہ ادارہ اپنی سادگی اورتعلیم وتربیت میں شہرتوں کی بلندیوں پرکمندیں ڈال رہاہے۔
علامہ صاحبؒ اورامتحان گاہ:
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒاحقرکے استاذنہیں تھے نہ ہی ان کی خدمت میں رہنے کاموقع ملا،اس وقت احقرمظاہرعلوم میں موقوف علیہ کاجدیدطالب علم تھااورعلامہ صاحب ؒضعف ونقاہت کے باوجود دفتر میں شرح جامی کادرس دیتے تھے،امتحان ششماہی اورسالانہ کے موقع پرالبتہ علامہ صاحب کی ہیئت وہیبت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی،وہی کمزورونحیف جسم وجثہ جس میں ازخود چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی لیکن امتحان گاہ میں پہنچتے ہی خداجانے علامہ صاحب کے اندرکون سی طاقت آجاتی تھی کہ بغیرسہارے اور بغیرعصاکے امتحان گاہوں میں تیزی کے ساتھ چلتے پھرتے نظرآتے،امتحان گاہ میں اپنی جگہ پربیٹھے بیٹھے نقل کرنے والے طلبہ کونہ صرف پکڑنے میں ماہرتھے بلکہ جہاں آپ پہنچ جاتے تھے خودکوہوشیارسمجھنے والے طلبہ پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ​
ناصرالدین مظاہری )قسط ۳)
رعب اوروقار:
جب تک علامہ صاحب حیات رہے دفترمدرسہ میں طلبہ آنے میں ہچکچاتے تھے،اگرکسی طالب علم کی دفترمیں طلبی ہوگئی توطالب علم نہایت فکرمندہوجاتاتھا۔آپ کے پروقاراوررعب دارلب ولہجہ سے ہرطالب علم متأثرتھا،مجال نہیں تھی کہ حضرت علامہ صاحبؒاصول اورضابطہ سے حبہ برابرنرمی یالوچ پیداکرلیں۔
۲۵؍ پیسے:
۱۹۹۴ء میں احقرموقوف علیہ میں زیرتعلیم تھا،اس وقت امتحان کے جوابات لکھنے کے لئے آج کی طرح باقاعدہ کاپی نہیں دی جاتی تھی،سادہ ساایک ورق ملتاتھااگرجواب طویل ہوجائے توامتحان گاہ کے دفترسے ایک اورکاغذمل جاتاتھا،احقرنے مشکوۃ کے ایک سوال کاجواب غلط لکھدیالیکن فوراًاندازہ بھی ہوگیاکہ یہ جواب غلط ہے چنانچہ ایک کاغذلینے کیلئے دفترامتحان گاہ پہنچا،حضرت علامہ صاحبؒنے وہ پرچہ دیکھاجوغلط لکھا گیا تھااورایک ورق عنایت فرمادیااوریہ بھی فرمایاکہ اس کاغذکے پیسے بعدمیں دفترمیں جمع کردینا۔
بات آئی گئی ہوگئی،امتحان کے تقریباًایک ماہ بعدجناب بھائی محمدعبداللہ مرحوم احقرکے حجرہ ۱۸مطبخ پہنچے اور یہ خبرسنائی کہ دفترمیں علامہ صاحب کے پاس تمہاری طلبی ہوئی ہے،یہ خبرمیرے لئے نہایت ہی اہمیت کی حامل تھی،سوچ سوچ کرکلیجہ خشک ہورہاتھاکہ پتہ نہیں کس لئے بلاواآیاہے،کیاغلطی سرزدہوگئی ہے،کسی نے شکایت کردی ہے؟اسی سوچ میں غلطاں وپیچاں دفترتعلیمات پہنچا،اپنانام اورقیام گاہ بتاکرخاموشی کے ساتھ بیٹھ گیا، حضرت علامہ صاحبؒنے فرمایاکہ تم نے امتحان گاہ میں ایک کاغذضائع کیاتھااسکے پیسے کیوں جمع نہیں کئے؟
قارئین یہ سن کرحیران ہوں گے کہ کاغذضائع کرنے کاجومطالبہ تھاوہ صرف پچیس پیسے تھاجوظاہرہے ایک حقیرومعمولی چیزہے لیکن ان بزرگوں نے اپنے ان ضابطوں سے یہ سبق دیدیاکہ مدرسہ کامال مال وقف ہے جس میں ذاتی تصرف کسی کے لئے بھی جائزنہیں،مدرسہ کامال حقوق العبادسے تعلق رکھتاہے جس کی جوابدہی احکم الحاکمین کے سامنے ذمہ داران کوکرنی ہوگی۔حضرت علامہ صاحبؒنے وہ پیسے داخل دفترکرائے اورہمیشہ کے لئے یہ سبق بھی دے دیاکہ کسی بھی رقم کومعمولی نہیں سمجھناچاہئے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ

ناصرالدین مظاہری )قسط ۴)
مظاہرعلوم میں داخلہ:

حضرت علامہ محمدیامینؒنے جس وقت مظاہرعلوم میں داخلہ لیااس وقت حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ، حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ،حضرت مولاناسیدصدیق احمدکشمیریؒ،حضرت مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیؒ، حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراوڑیؒ،حضرت مولاناامیراحمدکاندھلویؒ،حضرت مولانامفتی جمیل احمدتھانویؒ اور حضرت مولاناقاری سیدمحمدسلیمان دیوبندیؒکی روحانیت سے مظاہرعلوم کی چہاردیواری معطرتھی۔
درجات:
…میں مظاہرعلوم میں داخلہ لے کرتعلیم کاآغازکیا،اورسنین کی تعیین کے ساتھ درج ذیل کتب پڑھیں۔
۱۳۶۲ھ :
۱۳۶۳ھ :شرح مأۃ عامل،مراح الارواح،فصول اکبری،ہدایۃ النحو،نورالایضاح،تیسیرالمبتدی۔
۱۳۶۴ھ :مرقات،مختصرالقدوری،مراح الارواح،مفیدالطالبین،بحث فعل،نفحۃ الیمن ،تہذیب۔
۱۳۶۵ھ :بحث اسلم،میرقطبی،کنزالدقائق،اصول الشاشی،تلخیص المفتاح،تعلیم المتعلم،سلم العلوم۔
۱۳۶۶ھ :مختصرالمعانی،ہدایہ اولین،مقامات حریری،نورالانوار،سراجی،سبعہ معلقہ۔
۱۳۶۷ھ :جلالین،ہدایہ ثالث،مشکوۃ،مقدمہ مشکوۃ،شرح نخبۃ الفکر
۱۳۶۸ھ :بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،طحاوی،مؤطاامام مالک،مؤطاامام محمد۔
۱۳۶۹ھ :(درجہ فنون)ملاحسن،شرح عقائد،ہدایہ رابع،میبذی،امورعامہ
اساتذۂ دورہ:
درجہ بدرجہ مظاہرعلوم میں تعلیم حاصل کرکے شعبان ۱۳۶۸ھ میں فراغت حاصل کی،آپ نے درج ذیل حضرات سے متعلقہ کتب پڑھنے کاشرف حاصل کیا۔
حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ
بخاری جلداول اورابوداؤدشریف
حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ
بخاری جلدثانی
حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ
مسلم شریف
حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒ
ترمذی شریف
حضرت مولانامحمداسعداللہؒ
طحاوی،نسائی ابن ماجہ
علامہ صاحبؒنے طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولاناعلامہ صدیق احمدؒکی خدمت کرتے تھے، درسگاہ میں عبارت بھی آپ ہی پڑھتے تھے،خارجی وقت میں کتابوں کااجراء اورتکراربھی آپ ہی کراتے تھے،حل عبارت کی دولت اللہ تعالیٰ نے فطری طورپرعطافرمائی تھی اسی لئے علامہ صدیق احمدؒکے شرح جامی کے سبق کوتوجہ اوردلچسپی سے بغورسنتے اورذہن ودماغ میں بٹھانے کی کوشش کرتے ، مغرب وعشاکے بعداس کتاب کاتکراربھی کراتے،استاذگرامی کوآموختہ سناتے اوراس طرح علامہ صدیق احمدؒ کے منظورنظربن گئے۔
ممتازرفقاء دورۂ حدیث شریف:
حضرت مولاناعبدالرؤف عالی ابن حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒناظم مظاہرعلوم سہانپور
حضرت مولانامحمداللہ ابن حضرت مولانامحمداسعداللہؒناظم مظاہرعلوم سہارنپور
حضرت مولانا سعیداحمدابن حضرت مولاناحافظ عبدالعزیزگمتھلویؒرکن شوریٰ مظاہرعلوم سہارنپور
حضرت مولاناعبدالکریم مدظلہ پسرجناب عنایت اللہ صاحب افضل گڑھ ضلع بجنور(حیات ہیں)
حضرت حافظ عبدالوحیدپسرجناب عزیزالدین صاحب نوگانوہ ضلع سہارنپور
حضرت مولاناحافظ بشیراحمدصاحب سنسارپوری استاذمدرسہ اشرف العلوم گنگوہ ضلع سہارنپور
سالانہ امتحان میں حضرت علامہ محمدیامین ؒپوری جماعت میں درجہ اول سے پاس ہوکراکابرعلماء وصلحاء کے منظورنظربن گئے ۔
اساتذہ کے منظورنظر:
حضرت علامہ سیدصدیق احمدکشمیریؒآپ سے بہت شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیؒ کی محبتوں سے بھی مالامال رہے،حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒکی توجہات اور حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒکی عنایات سے نوازے گئے اوراس طرح تمام علماء وصلحاء کی دعاؤں سے علامہ محمدیامینؒکاروشن مستقبل ہوگیا۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ​
ناصرالدین مظاہری )قسط ۵)
مظاہرعلوم میںتقرر:
شعبان ۱۳۸۶ھ میں مظاہرعلوم سے فارغ ہونے کے بعدمظاہرعلوم ہی میں تقررہوگیاچنانچہ رجسٹر تقررات مدرسین وملازمین میں آپ کے تقررکی بابت درج ذیل سطورملتی ہیں۔
’’۱۶؍ربیع الاول ۱۳۷۱ھ درجہ مدرس فارسی شاخ پر تقرر ہوا،مشاہرہ تیتیس روپے اسی پیسے مقرر ہوئے ‘‘
اس تقرر کے بعد حضرت علامہ یکسوئی کے ساتھ مفوضہ امورکی انجام دہی میں مصروف ہوگئے اور بہت جلد ارباب حل وعقد کے درمیان آپ کااخلاص وللہیت مشہورہوگیاچنانچہ شعبان ۱۳۹۶ھ میںنائب مہتمم تعلیمات کاعہدہ آپ کے لئے تفویض کیاگیااوررجسٹرمیںدرج ذیل تجویزپاس کی گئی ۔
’’حسب تجویزحضرات سرپرستان اجلاس منعقدہ ۲۴؍شعبان ۱۳۹۶ھ مدرس درجہ علیاسے نائب مہتمم کاعہدہ تجویزہوا نیزدرجہ علیاکا گریڈ بدستور باقی رہا۔‘‘
علامہ صدیق سے علامہ یامین تک:
حضرت مولاناعلامہ صدیق احمدکشمیریؒکافی ضعیف ہوچکے تھے،مختلف بیماریاں لاحق تھیں،علاج ومعالجہ سے افاقہ نہ ہواتوحضرت ناظم صاحب ؒکودرخواست دی کہ میں اپنی مسلسل علالت اورضعف ونقاہت کے باعث اِس سال شرح جامی نہیں پڑھاسکوں گا،اس لئے شرح جامی کا سبق مولانا محمد یامین صاحب مدرس مظاہر علوم کے سپرد کردیاجائے۔
یہ درخواست منظورہوگئی ،علامہ محمدیامینؒجو حضرت کے تلمیذرشید،خاص تربیت منظورِنظرتھے اورخصوصیت سے علم صرف ونحو میں ’’التلمیذ نسخۃ استاذہٗ‘ کا مصداق تھے،اگلے دن صبح شرح جامی کاسبق پڑھانے کیلئے پہلی باردرسگاہ پہنچے ، سبق پڑھایااوراسی دن شام کو عصرکی نماز کے بعد حضرت علامہ سیدصدیق احمد کشمیر یؒ دار فانی سے کوچ فرماگئے۔تاریخ وفات ۱۸؍شوال المکرم ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۹؍دسمبر۱۹۶۹ء دوشنبہ ہے۔
حضرت شیخ الحدیث ؒکے دولت کدہ پر:
حضرت علامہ محمدیامینؒایک عرصہ تک شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلویؒکے دولت کدہ پر بحیثیت اتالیق خدمت انجام دیتے رہے،جہاں حکیم خاندان کے اکثربچوں نے (جو ماشاء اللہ مولانابلکہ اولاناہوکرگھرکے بھیدی بن گئے اور وہ کارنامے انجام دئے جس کااجریاحشرروزمحشرہی نظرآئے گا)آپ کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا۔
اتالیق ہونے کے ساتھ حضرت شیخ الحدیثؒبطورخاص تعویذات وغیرہ لکھنے ہاآپ ہی کوحکم صادرفرماتے تھے،چنانچہ حضرت علامہ صاحبؒتعویذات میں بڑی مہارت تھی اورآپ کے تعویذات اثروتاثیرمیں خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔
حج بیت اللہ:
حضرت شیخ الحدیث ؒکی شفقتتوں،نوازشوں اورکرم فرمائیوں سے علامہ صاحب پورے طورپرمالامال رہے ، آپؒ کے احسانات اورعنایات کی مثالیں اتنی ہیں کہ انھیں لکھنے کے لئے مستقل دفترچاہئے،علامہ صاحبؒکامشاہرہ اتناکبھی نہیں رہاکہ وہ اپنی گھریلوضروریات سے بچاکراتنی رقم جمع کرسکیں کہ وہ حج کے لئے کافی ہوجائے، حضرت شیخ الحدیثؒکواس کااحساس تھاچنانچہ اپنی جیب خاص سے علامہ صاحبؒکوحج کرایا، حالانکہ اس سستے زمانے میں بھی پانچ سوروپے سفرحج میں خرچ ہوجاتے تھے۔
شرح جامی:
مختصر مدت کے لئے مدرسہ کی شاخ گھنٹہ گھرمیں بھی تعلیمی خدمات انجام دی تھیں،شرح جامی جوعلم نحوکی ممتازومعرکۃ الآراء کتاب ہے حضرت علامہ صاحبؒکوشروع ہی سے اس کتاب سے مناسبت پیداہوگئی تھی، چنانچہ ۱۳۶۵ھ میں شرح جامی کے سال مدرسہ میں ہونے والے تینوں امتحانوں (سہ ماہی،ششماہی،سالانہ) میںبالترتیب ۱۸۔۱۹۔۲۰نمبرات حاصل ہوئے تھے۔اس وقت مدرسہ میں کل نمبرات ۲۰تھے۔
آپ کی شرح جامی کا درس دوردورتک مشہورتھاحتیٰ کہ دارالعلوم دیوبندسے طلبہ جب سہارنپورآتے تھے توعلامہ صاحب کے اسباق میں حاضری کواپنی سعادت تصورکرتے تھے۔
حضرت کامعمول تھاکہ صبح کے دونوں گھنٹوں میں شرح جامی اورسلم العلوم پڑھاتے تھے،شرح جامی آپ کواس قدرازبرتھی کہ کتاب کھولنے یاکتاب دیکھ کرپڑھانے کی ضرورت محسوس نہ فرماتے تھے۔
درسگاہ میں ہمیشہ پانچ منٹ پہلے پہنچتے تھے اوراگرکبھی گھنٹہ بجنے کے بعدپانچ منٹ سے زیادہ تاخیرہوجاتی تودفترمیں رخصت کی درخواست دیدیتے۔
اس اصول پسندی کاایک بڑافائدہ تویہی تھاکہ آخرت کی مسئولیت سے بچتے تھے اوردوسرااہم فائدہ یہ تھاکہ اپنے ماتحتوں کوبھی اسی راہ کاخوگربناتے تھے۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ​
ناصرالدین مظاہری )قسط ۶)
مفتی صاحبؒ کے رفیق کارومشیرخاص:
حضرت مولاناعبدالمجید ؒ مہیسروی جوبیک وقت مدرسہ کے شعبہ مالیات ،شعبہ تعلیمات اورشعبہ مطبخ کی ذمہ داریوں کوسنبھال چکے تھے، علامہ محمدیامینؒسے بہت محبت فرماتے تھے،دفترتعلیمات میں آپ جیسے بالغ نظر،صاحب الرائے وصائب الرائے فردکی ضرورت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی،چنانچہ فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے عہدمیں آپ مظاہرعلوم کے شعبۂ تعلیمات کے نگران اعلیٰ بنائے گئے اوربہت جلدفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے نہایت معتمدومعتبرافرادمیں آپ کاشمارہونے لگااورشایدمبالغہ نہ ہوگاکہ مفتی صاحب کی منشاء اورمرادکوسمجھنے میں علامہ صاحبؒاپنی نظیرآپ تھے،اصولوں کے نہایت ہی سخت ،لوچ یانرمی کادوردورتک شائبہ نہ تھا، حضرت فقیہ الاسلامؒ کوآپ کی ذات گرامی پرمکمل اعتمادتھا۔
چنانچہ ایک بار۱۹۹۵ء میں حضرت فقیہ الاسلامؒترمذی شریف کاسبق پڑھارہے تھے،اس وقت دارالحدیث کے دونوں طرف ایک ایک کشادہ کمرہ ملحق تھاجس کوطلبہ چھیپیان کہاکرتے تھے،اس چھیپیان میں جوطلبہ بیٹھتے تھے وہ عموماً کاہل،غبی اورغیرمحنتی شمارہوتے تھے،فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒکی نظرچھپیان کی طرف اٹھ گئی دیکھاتوکچھ طلبہ گفتگومیں مصروف تھے،حضرت غضبناک ہوگئے ،مسندسے اٹھے،ملحقہ حجرہ میں پہنچ کرطلبہ کی پٹائی شروع فرمادی،پھرمسندپرتشریف لے آئے اورفرمایاکہ اگرتم لوگ اپنی حرکتوں سے بازنہیں آؤگے تو تمہارے نام لکھ کرعلامہ صاحب کے پاس بھیج دوں گا۔
مقصداس واقعہ سے یہ عرض کرناہے کہ حضرت فقیہ الاسلامؒجوخودبااختیارناظم اعلیٰ تھے مگرڈرانے اورخوف دلانے کے لئے علامہ صاحب کی دھمکی دیتے تھے،بات تھی بھی کچھ ایسی ہی کہ طلبہ جتناعلامہ صاحب سے خائف رہتے تھے ،حضرت فقیہ الاسلامؒ سے کبھی اتنے خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔
تائیدوقف:
جب تک حیات رہے حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒمدرسہ کی انتظامی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں بے فکررہتے تھے ،طلبہ کے تعلیمی وانتظامی معاملات میں مفتی صاحبؒ کوعلامہ صاحب کے فیصلوں اورصوابدیدپرمکمل اعتمادتھا۔مفتی صاحبؒبے فکری کے ساتھ ملکی یاغیرملکی دورے پرتشریف لے جاتے توعلامہ صاحبؒحضرت کی کمی کومحسوس نہ ہونے دیتے ۔مدرسہ کے اہم امورمیں علامہ صاحبؒہی حضرت مفتی صاحب کے مشیرخاص تھے،حضرت مفتی صاحبؒکوآپ پراس قدراعتمادتھاکہ بعض معاملات علامہ صاحب کی صوابدیدپرچھوڑدیتے تھے،کبھی کبھی طلبہ کی درخواستوں پرلکھ دیتے کہ ’’علامہ صاحب غورفرماکرمناسب فیصلہ فرمادیں‘‘حضرت علامہ صاحب ؒجوبھی فیصلہ صادرفرماتے وہ مفتی صاحب کی منشاء اورمفادمدرسہ کے ہمیشہ موافق ہوتاتھا۔
حضرت شیخ الحدیث سے غایت درجہ قرب وتعلق کے باوجودجب مخالفین وقف نے انکاروقف کاجرم کرکے اورعدالتوں،کروٹ کچہریوں اورمنصف ججوں کے سامنے اپنے غیرمذہبی ہونے کے حلفیہ بیانات دئے توایسے وقت میں علامہ صاحب نے وقف علی کی تائید،مظاہرعلوم کے تحفظ اورفقیہ الاسلام مفتی مظفرحسینؒکی حمایت میں کھل کرسامنے آئے تاہم اختلافات کوہمیشہ شرعی حدودمیں رکھا،نہ تواپنے شاگردوں پرلعن طعن کی،نہ ہی اپنے استادزادوں کومطعون کیا،جب بھی تذکرہ کرتے تواپنااورمخالفین کاعالمانہ وقارملحوظ رکھتے ۔
وقت کی پابندی:
وقت کی پابندی میں حضرت علامہ محمدیامینؒبہت مشہورتھے،ایک چیزتقریباًہرزبان پرتھی کہ علامہ صاحبؒاپنے گھرسے چل کرجب مدرسہ پہنچتے تھے تووہ وقت ایساہوتاتھاکہ اسی وقت گھنٹہ بھی بجتاتھا۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ​
ناصرالدین مظاہری )قسط ۷)
تقویٰ:
تقویٰ مظاہرعلوم کاطغرائے امتیازرہاہے چنانچہ علامہ صاحبؒبھی نہایت متقی وپرہیزگارتھے،اوراگرکبھی مدرسہ پہنچنے میں تاخیرہوجاتی تودرخواست دے کررخصت لے لیتے اورتنخواہ وضع کرادیتے۔
اسی طرح آپ کاایک معمول شروع سے یہ رہاکہ ہرماہ پابندی کے ساتھ تنخواہ ملنے پرکچھ مخصوص رقم ’’معاوضہ کوتاہی ملازمت درحقوق مدرسہ‘‘کے نام سے دفترمالیات سے رسیدکٹوالیتے تھے۔
حزم واحتیاط:
آپ کے پاس یادفترتعلیمات میں واردین وصادرین کوحضرت والااپنی جیب خاص سے چائے پلاتے تھے،مہمانوں پرآنے والے صرفہ کابوجھ مدرسہ پرنہیں ڈالتے تھے،اسی طرح سلام میں پہل حضرت علامہ صاحبؒکاامتیازتھا،مشکل ہی سے کسی کوسلام میں سبقت حاصل ہوتی تھی،سلام کرنے میں آپ خوردوکلاں اورامتیازمن وتوکے قائل نہیں تھے۔
بلندکردار:
آپ کی شکل بارعب ،آپ کالہجہ پروقار،آپ کاکردار عظیم ،آپ کی گفتاربے مثال،آپ کالباس عمدہ آپ کی نشست وبرخاست میں صفائی وستھرائی کاخصوصی لحاظ،آپ کی زبان خالص سہارنپوری (سہارنپور والے عموماً الفاظ وحروف مشدداستعمال کرتے ہیں)آپ کاسبق علمی،آپ کی گفتگواصلاحی،آپ کافکرصالح اورآپ کانظریہ مثبت تھا۔اسی صالحیت اورصلاحیت کانتیجہ تھاکہ آپ ہرجگہ عزت وعظمت کے ساتھ یادکئے جاتے تھے۔
لباس:
حدیث نبوی الناس باللباس ہمیشہ آپ کے پیش نظررہی،جوکپڑے زیب تن فرماتے تھے وہ بے داغ، صاف وشفاف،سفیدوخوبصورت،کلپ لگے ہوئے،اونچی ٹوپی اورمغلئی شلواراستعمال فرماتے تھے۔
انتقال پرملال:
حضرت علامہ صاحبؒ طویل عرصہ تک بیماررہے ،بیماری نے آپ کے جسم کومزیدلاغروکمزورکردیا،دواؤں نے کچھ کام نہ کیا،جوں جوں دواکی گئی مرض بڑھتاچلاگیااورپھراسی مرض میں ۱۵؍ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ کوراہیٔ داربقاہوگئے۔
دفترمالیات کے رجسٹرسروس مدرسین وملازمین میں علامہ صاحبؒکی رحلت کے بارے میں جوشذرہ سپردقلم کیاگیاہے وہ درج ذیل ہے۔
’’حضرت علامہ محمدیامین صاحبؒناظم تعلیمات مدرسہ مظاہرعلوم وقف سہارنورمؤرخہ ۱۵؍ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ مطابق ۲۲؍دسمبر۱۹۹۴ء بروزجمعرات صبح چاربج کر۳۵منٹ پرانتقال فرماگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون
۱۱بجے دن میں احاطہ دارالطلبہ قدیم مدرسہ ہذامیں حضرت مولانامحمدسالم صاحب مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے نمازجنازہ پڑھائی،تدفین قبرستان حاجی شاہ کمال سہارنپورمیں ہوئی۔
حضرت علامہ صاحب بڑے اوصاف کے حامل نمونۂ اسلاف تھے،آپ کی شرح جامی کادرس بڑامشہورومعروف تھا،باری تعالیٰ حضرت کواپنے جواررحمت میں جگہ عطافرمائے،کل مدت ملازمت چوالیس سال یک ماہ ہے‘‘
اولادواحفاد:
علامہ صاحب نے پسماندگان کے طورپردوبیٹے اوردوبیٹیاں چھوڑیں،بڑے بیٹے جناب محمدتحسین صاحب موٹرمکینک ہیں ،چھوٹے صاحب زادے مولوی محمدخالدصاحب ماشاء اللہ عالم وحافظ ہیںاورمدرسہ کی ایک شاخ میں مصروف درس وتدریس ہیں۔
بڑی بیٹی خدیجہ جناب حافظ نصیراحمدصاحب سے اورخالدہ جناب محمداسلم صاحب سے منسوب ہیں اورسبھی صاحب اولادہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات کوبلندفرمائے،جنت الفردوس میں اپنے حبیب کاقرب عطافرمائے۔
مصادر:
رودادمظاہرعلوم( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۱ھ :
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت۱۳۶۲ھ
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت۱۳۶۳ھ
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت۱۳۶۴ھ
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۵ھ :
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۶ھ :
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۷ھ :
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۸ھ :
رودادمظاہرعلوم ( وقف )سہارنپوربابت ۱۳۶۹ھ :
رجسٹرروزنامچہ دفترمالیات مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
ریکارڈدفترتعلیمات مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
رجسٹرسروس بک مظاہرعلوم( وقف ) سہارنپور
رجسٹراطلاعات دفترتعلیمات مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
رجسٹرقبض الوصول مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
تاریخ مظاہرجلددوم ص ۲۶۳
ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم :۱۹۹۵ء
ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘
ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم ’’شیخ الادب نمبر‘‘
ماہنامہ دارالعلوم دیوبند:۱۳۸۹ھ
رجسٹرمفیدمشورے:مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
ریکارڈدفترنشرواشاعت مظاہرعلوم ( وقف )سہارنپور
بیاض کبیر:حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ​
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
اللہ کریم ہمارے مفتی صاحب پہ اپنی خاص رحمتیں اور نوازشیں نازل فرمائے (آمین )
حضرت مفتی صاحب اللہ کے خاص بندوں کا تزکرہ خوبصورت انداز میں فرما رہے ہیں جو ہمارے لئے بہت ہی مفید اور معلوماتی ہے ۔ ۔ ۔ اللہ کریم ہمیں استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے آمین
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا۔
اللہ کریم اس سیاہ کار کو کامل استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے کیونکہ فورم پر سب سے زیادہ غریب بھی میں ہی ہوں۔
(نوٹ:یہ غربت روپے پیسے والی نہیں)۔
 
Top