حضرت مولاناعبدالرحیم متالا(۱)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ایک تابندہ علمی وروحانی شخصیت:
حضرت مولاناعبدالرحیم متالا
ہواٹھنڈی جوآتی ہے نکل کران کے کوچہ سے
نکل جاتی ہیں سردآہیں مرے ٹوٹے ہوئے دل سے
زندگی اورموت کی کشمکش روزاول سے جاری ہے،موت کوتوبہرحال آناہے سووہ آکرہی رہتی ہے،دنیااچھے لوگوں سے خالی ہوجائے یابھرجائے،موت کواس سے کچھ لینادینانہیں ہے،اہل اللہ کی موت پر کتنے لوگ گریہ کناں ہوتے ہیں،کتنے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوجاتی ہیں،کتنی آہیں افلاک تک جاکرواپس پلٹ آتی ہیں کیونکہ موت کاایک وقت مقررہے،موت ہرذی روح کے ساتھ لاحق ہے،صرف ایک ہی توذات ہے جو موت اورفنائیت سے بالاترہے اوروہ ہے اللہ احکم الحاکمین کی ذات گرامی۔باقی جوکچھ ہے سب کوموت کی آغوش میں جاناہے،یہ لہلہاتی زمین ایک دن فناہوجائے گی،یہ بغیرستونوں کاآسمان ختم ہوجائے گا،یہ روشنی سے والاسورج،یہ خوبصورت چاند،زمین کے اوپررہنے اوربسنے والی تمام چیزیں سبھی پرقیامت سے پہلے موت آنی ہے یعنی قیامت سے پہلے قیامت کاسلسلہ ازل سے ابدتک جاری وساری ہے۔
اذذکرتک والشوق یقتلنی
وارقتنی احزان واوجاع
وصارکل قلوبافیک دامیۃ
للسقم فیہاوللآلام اسراع
[align=justify]ہمیں اس کاشکوہ بھی نہیں ہے،کیونکہ ہرشخص اورشخصیت کواپنی حیات مستعارمکمل کرکے روانہ ہوجاناہے،لیکن طبعی طورپرایسے رجال کاراورمردان حروحریت کااٹھ جانااورروٹھ جاناوقتی طورپرپریشان توکرہی دیتاہے ،عالم کی موت کوعالم کی موت کہاگیاہے،یہ ایک جسدخاکی کی نہیں علم کانقصان ہے،روحانیت کانقصان ہے، ٹھیک ہے کہ وقت بہت بڑامرہم ہواکرتاہے ،ہم نے بھی بڑے بڑے اورکاری زخم سہے اوربرداشت کئے ہیں،ہم نے بھی متعدداہل اللہ کے جنازوں کوکندھادیاہے،ہم نے بھی خدارسیدہ بندوں اورنودمیدہ غنچوں کوزیرخاک دفن کیاہے،کیایہ چیزیں ہمیں موت کی یاددلانے کیلئے کافی نہیں ہیں؟کیاہم ان چیزوں سے عبرت حاصل نہیں کرتے؟کیا ہمیں بھی یہ سبق نہیں ملتاکہ ایک دن ٹھیک اسی طرح دوسروں کے کندھوں پرسوارہوکرگورغریباں میں سوجاناہے۔​
(جاری)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
آہ!کیابتاؤں اورکیسے بتاؤں،آنسوؤں کی نمی قلم کی نوک پرمحسوس ہوتی ہے،دل کی آہیں آنکھوں کومضطرب وبے قرارکئے دے رہی ہیں،کہ شیخ العرب والعجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریامہاجرمدنیؒکے نامورخلیفہ ،سرزمین زامبیا(افریقہ) میں اپنے علوم وکمالات سے روشنی پھیلانے اوردینی خواوراسلامی بوسے معطرومعنبرکرنے والے حضرت مولاناعبدالرحیم متالا(گجراتی)عمرعزیزکی ستربہاریں دیکھ کرمولائے حقیقی سے جاملے۔اناللہ واناالیہ راجعون
مولاناکی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ ہوسکی ،البتہ مولاناکے برادرخوردحضرت مولانامحمدیوسف متالازیدمجدہم سے چھ سال عمرمیں بڑے تھے اس لئے ۱۹۴۰ء کے آس پاس مولاناکی ولادت کااندازہ ہے۔آپ کے والدماجدمحمدسلیمان تھے داداجان کانام قاسم تھا،خاندانی لقب متالاہے۔پیشے کے اعتبارسے کاشتکارتھے ،بعدمیں زراعت چھوڑکرتجارت کاپیشہ اختیارکرلیا۔آپ کاخاندان گجرات کے ضلع سورت کے وریٹھی میں صدیوں سے مقیم ہے۔
آپ کی والدہ ماجدہ نکاح کے بعدتقریباًپانچ چھ سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہیں،بزرگوں کی آمدورفت پہلے سے ہی تھی اسی دوران ایک بزرگ سے آپ کے والدماجدنے دعاکی درخواست کی،انہوں نے دعاکی اورجب وہ بزرگ اگلے سال تشریف لائے تواس سے پہلے ہی جوبچہ پیداہواوہ یہی حضرت مولاناعبدالرحیم متالاتھے۔
مولانانے ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعدراندیرکے جامعہ اشرفیہ میں اپنی تعلیم کی تکمیل کی اوروہیں سے ۱۳۶۴ھ میں فارغ ہوئے۔
جس سال مولانامشکوٰۃ شریف پڑھ رہے تھے اسی سال چندافرادکی ایک مختصرجماعت کے ساتھ سہارنپورکاپہلاسفرکیا،جہاں حضرت مولانامحمد زکریا مہاجرمدنیؒکاسلسلۂ بیعت وارشاداورروحانی وعرفانی دریاموج زن تھا۔
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
۲۸؍رمضان المبارک کویہ حضرات سہارنپورپہنچے اورحضرت شیخ الحدیث سے ملاقات کی،پہلی ہی ملاقات میں حضرت کی شخصیت دل میں جم گئی اوراگلے دن ۲۹؍رمضان المبارک کوبیعت کی درخواست کردی،فرمائش پوری ہوئی لیکن وظائف اورمعمولات نہیں بتائے گئے۔ہمت کرکے اوراداوروظائف کی درخواست کی توحضرت شیخ نے فرمایاکہ تم اگلے سال (مدرسہ والوں کاتعلیمی سال شوال سے شروع ہوتاہے)دورہ پڑھوگے اس لئے وظیفہ رہنے دوویسے ہی اس جماعت میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔مولاناافسردہ ہوگئے،اپنے رفقاسے اپنی پریشانی بتلائی توہمت دلائی اورکہاکہ اگلی نشست میں پھردرخواست کرو،مولانانے پھرعرض کیاتوحضرت شیخ نے ڈانٹ دیااورپھردس تسبیحات یومیہ کاوظیفہ بتلایا۔
یہ چندنفری قافلہ جب سہارنپورسے واپس ہواتوصرف تن ان کے ساتھ تھادل سہارنپورہی میں چھوڑگئے تھے۔دورۂ حدیث کی تکمیل جامعہ اشرفیہ میں کی اورپھررمضان سے پہلے ہی سہارنپورپہنچ گئے،اب یہاں کے معمولات یومیہ کاحقیقی کورس اورنصاب پوراہوناشروع ہوا،چندہی دن قیام کیاتھاکہ مولانامحمدیعقوب نامی ایک صاحب جوحضرت کے کاتب تھے،انہوں نے مولاناعبدالرحیم صاحب سے قیام کی تفصیل پوچھی ،مولانانے بتایاکہ بقرہ عیدتک رکنے اورتربیت لینے کاارادہ ہے،وہ خوش ہوئے اورکہنے لگے کہ میں حضرت کے خطوط لکھتاہوں،مجھے کسی اہم کام سے وطن جاناہے اس لئے اب یہ کام تم کرلیاکرو۔
مولانایعقوب صاحب نے حضرت شیخ سے پوری تفصیل عرض کردی توحضرت نے فرمایاکہ یعقوب تواپنے گھرجارہاہے اب میرے خطوط کون لکھے گا؟
حضرت مولاناعبدالرحیم متالاکھڑے ہوگئے اوربرجستہ عرض کیاکہ حضرت میں لکھاکروں گا،اوراسی وقت ایک آدھ لائن لکھ کراپنی تحریرحضرت کودکھلائی جوپسندکی گئی،اب رفتہ رفتہ حضرت کے خطوط کے ساتھ دیگرخدمات بھی انجام دینے لگے،حضرت کوسہارادے کرکھڑاکرنا،حضرت کوادھرادھرلے کرجانا،سفروحضرمیں حضرت کے ساتھ رہنا،حضرت کے کھانے پینے اورآرام وراحت کاخیال رکھنا،حضرت کے اشارات کوسمجھنااوران پرعمل کرناگویاحضرت کے مزاج سناش ہوگئے،حضرت کوبھی آپ سے مناسبت ہوگئی،خودحضرت شیخ فرمایاکرتے تھے کہ مجھے جلدی کسی سے مناسبت نہیں ہوتی،لیکن یہ مولاناکی سعادت اورخوش نصیبی کی بات تھی کہ حضرت شیخ کومولاناسے مناسبت ہوگئی۔
بقرہ عیدکے ایام میں مولانانے گھرجاناچاہاتوحضرت شیخ نے فرمایاکہ توگھرچلاجائے گاتومیراکام خراب ہوجائے گا،میرے خطوط کون لکھے گا،مجھے کسی سے مناسبت نہیں ہوپاتی اورجس سے مناسبت ہوجاتی ہے وہ منہ پھیرکرچلاجاتاہے۔اتناسنتے ہی مولانانے پھرپورے سال قیام کاارادہ کرلیا،اب حضرت علیہ الرحمۃ کی خاص نوازشات آپ پرہونے لگیں،حضرت اپنے بیٹے کی طرح مولاناکوچاہتے اورجانتے تھے،اپنابیٹاہی کہتے تھے۔
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت شیخ الحدیث ؒنے اعتکاف کابابرکت سلسلہ دفترمظاہرعلوم وقف سہارنپوروالی مسجدسے شروع فرمایااوریہ غالباً۱۹۶۴ء کی بات ہے،مولاناعبدالرحیم متالااوران کے برادرخوردمولانامحمدیوسف متالادونوں نے پہلااعتکاف اسی مسجدمیں حضرت کے ساتھ کیاتھا۔
یہاں حضرت شیخ کی خدمت کے ساتھ مولاناعبدالرحیم متالاحضرت کے درس بخاری میں بھی شرکت کرتے تھے۔دونوں بھائیوں کے عجیب وغریب محیرالعقول واقعات پڑھنے اورسننے میں آتے ہیں،کہاجاتاہے ’’ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات‘‘یہ کہاوت ان دونوں بھائیوں پرپورے طورپرصادق آتی ہے۔بچپن ہی سے للہیت کے آثارصاحبان نظران کی پیشانیوں پرمحسوس کرتے تھے۔حضرت شیخ کی عنایتیں اورنوازشیں توانتہاکوپہنچی ہوئی تھیں،خودمولاناعبدالرحیم بھی حضرت کے مزاج سے اس قدرواقف ہوگئے تھے کہ عموماً خطوط کے جوابات خودہی لکھتے اورحوالۂ ڈاک کردیتے تھے،کبھی کبھی کسی خط کے جواب کوحضرت شیخ خودہی فرماتے کہ جواب لکھ کردکھایناتودکھادیتے تھے،اس سے پہلے ایساکبھی نہیں ہوتاتھا،ہرخط کاجواب حضرت بول کرلکھواتے تھے اورپھرسنتے بھی تھے۔
حضرت شیخ مولاناعبدالرحیم متالاسے بے تکلف بھی تھے ،ہلکاپھلکامزاح بھی فرمالیاکرتے تھے،چنانچہ جب مولاناکی شادی طے ہوگئی توحضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوری کاایک لطیفہ بھی سنایاکہ جب حضرت رائے پوری کے خادم نے خوش خبری سنائی کہ حضرت میری شادی طے ہوچکی ہے توحضرت نے فرمایاکہ بھائی توتومجھ سے گیا،اورجب خادم نے دوبارہ خوش خبری سنائی کہ حضرت فرزندکاتولدہواہے توحضرت نے فرمایاکہ بھائی اب توخودسے بھی گیا۔
مولاناعبدالرحیم صاحب کانکاح ہوگیااورنکاح کے بعدسہارنپورآگئے توحضرت نے اپنی جیب خاص سے سہارنپورمیں باقاعدہ ولیمہ کیاجس میں جلیل القدرشخصیات نے شرکت فرمائی ،مولاناکی سعادتوں کے بہت سے واقعات لکھے جاسکتے ہیں،جن کااحاطہ توسوانح نگارہی کرسکتاہے،مجھے تویہ عرض کرناہے کہ بزرگوں کی جوتیوں کوسیدھی کرنافائدہ سے خالی نہیں ہوتااس میں دینی بھی نفع ہے اوراخروی بھی۔مولانامتالانے حضرت کی خدمت جس خلوص محنت اورلگن اورعشق کے ساتھ کی تھی اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ حضرت شیخ کی عنایات اورتوجہات سے پورے طورپرمالامال رہے اوربہت سے حضرات صرف رشک کرتے رہ گئے۔
حضرت شیخ کے ہمراہ حج اورعمرہ کے لئے بھی باربارجانے کی سعادت ملتی رہی،مدینہ پاک سے بذل الجہودکی ترتیب وتہذیب کے لئے مولاناتقی الدین ندوی کے پاس قاہرہ بھیجا،کئی ماہ کے بعدکتاب کی دوجلدیں شائع ہوئیں تومولاناان کولے کرمدینہ پاک حضرت کی خدمت میں پہنچے توحضرت ان جلدوں کودیکھتے رہے اورخوشی کے آنسوآنکھوں سے جاری رہے۔
حضرت شیخ کی کوششیں بذل کے لئے جاری رہیں ،مولاناعبدالرحیم متالاباربارقاہرہ آتے جاتے رہے،اسی دوران حضرت شیخ نے مولاناکوحکم دیاکہ اپنی اہلیہ کولے آؤاورحج کرادو،مولانانے حسب الحکم اہلیہ کوحج کرایا،اب تک مولاناصاحب اولادنہیں ہوئے تھے،پھرحضرت کے حکم سے اپنے ساتھ قاہرہ لے گئے کیونکہ وہاں مولاناتقی الدین صاحب کے ساتھ علمی کاموں میں مصروفیت تھی،وہاں رہنے کانظم بھی حضرت نے فرمایاتھا،پھرایک دن حضرت شیخ کوخوش خبری پہنچائی کہ الحمدللہ حج بیت اللہ کی برکت سے رفیقۂ حیات امیدسے ہے،حضرت نے خوب خوب دعاؤں سے نوازااورفکرمندبھی رہے کہ مسافرت کی حالت میں زچگی باعث پریشانی ہے،اسی لئے حضرت مولاناعبدالحفیظ مکی مدظلہ کی اہلیہ کوان کے پاس دیکھ ریکھ کے لئے بھیجا۔
قاہرہ سے علمی کاموں کی تکمیل کے بعدجب اہلیہ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے توحضرت شیخ الحدیث نے دودنبہ اپنی جیب خاص سے ذبح کرائے اورمولاناکے بچے کاعقیقہ کیا،اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت مولاناانعام الحسن کاندھلوی اورحضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی بھی موجوداورشریک دعوت رہے۔​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت شیخ الحدیث ؒجب ہندوستان تشریف لائے اورمولاناعبدالرحیم کی اہلیہ محترمہ گجرات میں تھیں توباربارمولاناکوگجرات جاناہوتاتھا،ان دنوں میںحضرت شیخ کاعلمی اورقلمی کام متأثرہوجاتا،خطوط کے جوابات لکھنے میں تاخیرباعث کلفت ہوجاتی،توحضرت نے خط لکھا اورفرمایاکہ تیراباربارجانامیرے لئے پریشانی کاباعث ہے ،میرے پاس بہت سے حضرات کے خطوط اورتارآتے ہیں اورزبانی بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو بھی لاناچاہتے ہیں لیکن میراگھرچونکہ مختصرہے اس لئے صاف منع کردیتاہوں اورکہہ دیتاہوں کہ رہنے کانظم خودہی کروگے۔لیکن تیرے لئے مجھے خودلکھناپڑرہاہے کہ تواپنی بیوی کولیتے آ،میں سمجھوں گاکہ میرے ایک اوربیٹی ہے ۔
جب تک یہاں قیام رہابیٹی کی طرح رکھا،خیریت معلوم کراتے،طبیعت خراب ہوتی توحکیم اورمعالج کوطلب کرتے،پرہیزی کھاناپکواتے اورہرممکن آرام وراحت کاخیال رکھتے۔
حضرت شیخ الحدیثؒمشتبہ مال سے بھی پرہیزکرتے تھے ،مال وقف سے ذرہ برابرنفع اورانتفاع ناقابل تصورتھا،خودمولانافرمایاکرتے تھے کہ ایک دفعہ دارجدیدکے ایک گملے سے ایک خوبصورت پھول ٹوڑکرلایااورخدمت اقدس میں پیش کیاتوحضرت نے پوچھاکہ کہاں سے لائے ہو؟عرض کیاکہ دارجدیدکے صحن میں جوگملے ہیں ان ہی میں سے توڑکرلایاہوں،فرمایاپیارے !مدرسہ کامال مال وقف ہے اس سے انتفاع تم لوگوں کے لئے توجائزہے لیکن میرے لئے جائزنہیں ہے۔
دارجدیدکے صحن میں پودینہ لگاہواتھاکچھ طلبہ پودینہ لے کرحاضرخدمت ہوئے ،حضرت نے پوچھاکہاں سے لائے ہو؟عرض کیاکہ دارجدیدکے صحن سے،فرمایامدرسہ کی چیزسے فائدہ اٹھانامیرے لئے جائزنہیں ہے۔
حضرت شیخ الحدیث کے تقویٰ اورتدین کے سینکڑوں واقعات کتابوں میں منتشرہیں،جب حضرت مولانامحمدیوسف کاندھلوی کاانتقال ہواتولوگوں کاتانتابندھ گیا،اس وقت تک سہارنپورمیں سردی کم ہوگئی تھی اسی لئے مدرسہ نے وضوکے لئے پانی گرم کرنے کاسلسلہ موقوف کردیاتھا،حضرت شیخ الحدیث نے اپنی جیب سے لکڑیاں منگوائیں اورحمام میں جلوائیں تاکہ نوواردمہمانوں کوتکلیف نہ اٹھانی پڑے۔
بہرحال حضرت مولاناعبدالرحیم متالاکی نوجوانی کے حالات بھی قابل رشک تھے،ان کی جوانی بھی قابل تعریف تھی،ان کابڑھاپابھی لائق تحسین تھا،ان کاہرعمل جوانہوں نے امت کے لئے انجام دیاتاریخی تھا،افریقہ کی سرزمین پردیارغیرمیں اتنابڑادارالعلوم بنادینا دل گردے اورتوفیق الہی کی بات ہے،کیسے کیسے حالات حکومت کی طرف سے آئے،کیسی کیسی اڑچنیں کھڑی کی گئیں،کیاکیامصائب اورمشکلات درپیش ہوئیں لیکن مولانانے مردانہ واران کامقابلہ کیا،کمرہمت ایسی کسی کہ کبھی باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے،ان کے عزائم کی بلندیاں،ان کے افکار کی بلندپردازیاں،ان کے اعمال کی بوقلمونیاں،ان کے کرادارکی خوبیاں اوران کے حسن گفتارکی دلآویزیاں سب ایک ایک کرکے متعلقین کویادآئیں گی اورباربارآنسوبہانے پرمجبورکریں گی،مولاناتونہیں ملیں گے لیکن ان کے عزم اورعزیمت کی سچی داستان معہدالرشیدکی شکل میں ہم کلام ہوگی،اس کے نونہالان ہمارے درمیان موجودرہیں گے،اس معہدکی خدمات اوراسلام کی روشن تعلیمات موجودرہیں گی اوریہی بندۂ مومن کااثاثہ ہیں۔
ڈھونٹوگے اگرملکوں ملکوں ،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیرہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم​
 
Last edited by a moderator:
Top