حضرت علامہ مولاناسیدعشیق احمد پورقاضوی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت علامہ مولاناسیدعشیق احمد پورقاضوی

استاذمحترم حضرت مولاناعلامہ عشیق احمدصاحب ؒ استاذ مظاہر علوم سہارنپورحضرت مولانا سیدظریف احمد پورقاضویؒ کے ہونہار فرزند سعید تھے ، ٹھوس استعداد، پختہ صلاحیت،علوم معقولہ ومنقولہ بالخصوص ہیئت ، اقلیدس، ریاضی،حساب ،تفسیر،فلکیات اور سائنس میںمکمل درک حاصل تھا ،۱۳۷۳ھ میں مظاہرعلوم سے فارغ ہوئے۔
آپ نے بخاری شریف اورابوداؤدشریف شیخ الحدیث حضرت مولاناحمدزکریامہاجرمدنیؒسے،مسلم شریف، ابن ماجہ،موطاامام مالکؒ اورمؤطاامام محمدؒحضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سے،طحاوی شریف حضرت مولانا محمداسعداللہؒسے اورترمذی شریف مع شمائل ترمذی حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒسے پڑھنے کاشرف حاصل کیا۔
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ،حضرت مولانامفتی عبدالعزیزرائے پوریؒ،حضرت مولانامفتی منظوراحمد جونپوری مدظلہ،حضرت مولانامحمدموسیٰ برمیؒ اورحضرت مولانامحمدیوسف برمیؒ آپ کے دورۂ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میں سے تھے ۔
حضرت مولاناعلامہ عشیق احمدصاحبؒ کی عربی تحریربڑی خوبصورت تھی،تختۂ سیاہ پرخوش خط لکھنے میں وہ اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔
مولاناسیدعشیق احمدؒنے مظاہرعلوم کے علاوہ دارالعلوم دیوبندسے بھی سندفراغ حاصل فرمائی تھی، فراغت کے بعدایک طویل عرصہ تک آپ نے چھاپی گجرات میں حدیث وتفسیر کی خدمات انجام دیں پھر دارالعلوم سہارنپوراوراخیرمیںمظاہرعلوم سہارنپور میں تقریباًآٹھ سال تک قرآن، حدیث، فلسفہ اور عقائد وغیرہ کی تعلیم دی۔
آپ دوران درس نہایت ہی سنجیدہ رہتے ،کوئی پرلطف حکایت نہ سناتے ،طلبہ کیلئے اصول پسند رہتے،لمبی چوڑی تقریرکے قائل نہ تھے،اپناسبق کاپی میں لکھوانے کامعمول تھا،راقم الحروف نے میبذی فلسفہ کی مشہور اصطلاحات ہیولیٰ،جزء الذی لایتجزیٰ،برہان سلمی،مثلث، ضلع،بعداصلی، زاویہ، زاویۂ قائمہ ، زاویۂ حادہ، مثلث ،مخمس ،شکل ،جسم ،عقل اورصورت وغیرہ اصطلاحات سنی بھی نہیں تھیں لیکن مولانا نے اپنے ٹھہرے ہوئے پروقارلہجہ میں سب کچھ سمجھادیاتھا۔کتاب زیادہ سے زیادہ ہم لوگوں کی سمجھ میں آجائے اس کے لئے وہ ’’کرَّہ‘‘اور’’تختۂ سیاہ ‘‘کابھی سہارا لیتے تھے۔
آپ کا مطالعہ بڑاگہرااوروسیع تھا،مطالعہ کی گہرائی اورگیرائی کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ درس نظامی کی سب سے ادق وپیچیدہ کتاب میبذی اور شرح عقائد نسفی جیسی بہت سی کتابیں آپ ہی کے یہاں زیردرس رہتی تھیں،شرح عقائد کی تدریس میں تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ملکہ عطافرمایاتھا ،اس کتاب کاوہ حاشیہ جومشہور غیرمقلدعالم مولاناوحیدالزماں کالکھاہواہے حضرت مولانادوران درس باربارمحشی پر نکیرفرمایاکرتے تھے، یہی نہیں کتاب کا جونسخہ آپ کے زیردرس رہتاتھااس کاحاشیہ بلکہ بعض جگہ خود مصنف ؒکی انیق عبارات بھی حضرت مولاناکے ناقدانہ قلم بُرَّاں سے متاثرہوئے بغیرنہ رہتی تھیں،جگہ جگہ عبارتوں کی عبارتیں قلم زدکرکے مولانانے اپنے قلم سے حاشیہ تحریرفرمارکھاتھا،اسی طرح میبذی اورابن ماجہ کاحاشیہ بھی آپ کی دقت نظری کامرہون منت تھا،افسوس کہ مولاناکاکوئی ایساجانشین نہیں رہاجو مولاناکی ان علمی چیزوں کی قدرکرتا۔
مولاناکانکا ح محلہ میرکوٹ شہرسہارنپورکے حکیم سعیداحمددیوبندیؒکی صاحب زادی سے ہوا،جن سے ایک بچی کاتولدبھی ہواتھاجونوعمری ہی میں انتقال کرگئی تھی ،بچی کے انتقال کے چندسال بعدمولاناکی اہلیہ محترمہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں،آپ سے چھوٹے ایک بھائی تھے جن کا نام ’’انیق احمد‘‘تھاجومولاناکی رحلت کے دسیوں سال بعدانتقال فرماگئے لیکن وہ عالم نہیں تھے اس لئے گوہرکی قدردانی کسے ہوتی اورکیوں کرہوتی؟علمی ذخیرے کے اس طرح زیاں پر دل روتاہے اوردعابھی نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرصالح عالم کونیک وصالح جانشین ضرورعطافرمائے !جو ان کے علمی باقیات کی قدردانی کرسکے۔
اخیرعمرمیں بہت ہی ضعیف اور نحیف ہوگئے تھے ،آپ کاگھرمظاہرعلوم سے بہ مشکل سوقدم کے فاصلے پرواقع تھالیکن کمزوریوں اور معذوریوں کے باعث مولانایہ فاصلہ بھی بذریعہ رکشہ طے فرماتے تھے،ہم لوگ مولاناکورکشہ پربٹھاتے تھے اوررکشہ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے دارالطلبہ قدیم کے اندرونی زینہ تک رکشہ لے جاتے (رکشہ والے بھی بڑے ظالم ہوتے ہیں اس قدرکم مسافت کے بھی مولاناسے پانچ روپیہ چارج کرتے تھے)دفتر تعلیمات والوں نے بھی مولاناکی معذوریوں کے باوجودان کی درسگاہ فوقانی منزل پردارالحدیث سے متصل مقررکررکھی تھی،جس کا مولانابارباراظہاراور احساس بھی فرماتے تھے ،ایک دفعہ ہم لوگوں نے عرض کیاکہ حضرت ہماری جماعت بہت مختصر ہے ہم لوگ آپ ہی کے دولت کدہ پرحاضر ہوجایا کریں؟ مگرمولانا ہمیشہ سختی کے ساتھ منع فرمادیتے ،وہ طلبہ سے ہدیہ لینے میں حددرجہ محتاط تھے ، کیونکہ طلبہ کی قوم عموماًبلا کسی مقصدکے کسی کو ہدیہ نہیں دیتی چنانچہ ایک بارایک طالب علم نے مولاناکودودھ پلادیامولانانے پی لیا،اتفاق سے دوسرے یاتیسرے دن اس طالب علم نے مولاناسے مدرسہ کے ایک معاملہ میں سفارش کرانی چاہی تو فرمایاکہ اچھاتم نے اسی لئے دودھ پلایاتھا اورفوراً اپنی جیب سے پانچ روپیہ نکال کراس طالب کو دیدیئے اورکہاکہ میں کسی کی سفارش نہیں کیاکرتا۔
علامہ صاحبؒ نے کچھ مدت تک اپنے کرایہ کے مکان میں ’’بنیادی دینی تعلیم کامدرسہ‘‘کے نام سے ایک مکتب بھی قائم فرمایاتھاجس میں بچوں کودین کی بنیادی تعلیم کلمہ،نماز،روزہ وغیرہ کی مشق بھی کراتے تھے اوریہ خدمت لوجہ اللہ انجام دیتے تھے۔
آپ کامزاج چونکہ الگ تھلگ رہنے کا تھا،مجلسی زندگی بھی پسندنہ تھی،طلبہ سے خدمت کرانے میں بھی بہت زیادہ محتاط رویہ اپناتے تھے،گام گام احتیاط کی وجہ سے طلبہ وعوام قریب نہ ہوپاتے اس لئے مولاناکی ذات گرامی سے جوعمومی فائدہ اوراصلاحی نفع ہوناچاہئے تھاوہ نہ ہوسکا،آپ نے اپنے مکان کے مرکزی دروازہ کی پیشانی پرچونے سے لکھوارکھاتھاکہ’’کھٹ کھٹ مت کر نام بتاکام بتا‘‘چنانچہ کسی بھی طالب علم یاضرورت مندکوعموماً دروازے ہی سے چلتاکردیتے تھے۔
مولاناکی تربیت کااندازعام علما اوربزرگوں کے طرزوروش سے بالکل الگ تھلگ تھاچنانچہ ایک مرتبہ راقم اپنے ایک رفیق درس مفتی فیروزالدین ارریاو ی کے ہمراہ شرح عقائدکاسبق پڑھانے کے واسطے حضرت مولاناکولینے ان کے مکان پر حاضرہوا، مفتی فیروزالدین نے دروازہ کے باہرسے سلام کرنے کے بعدذراساتوقف کیاکہ اندرسے حضرت مولاناکی اجازت مل جائے؟چنانچہ اجازت مل گئی میں بھی مفتی فیروزکے ہمراہ اندرپہنچ ہوگیا،مجھے دیکھتے ہی مولاناکا پارہ گرم ہوگیا،ڈانٹ کرفرمایاتم بغیرسلام اوربغیراجازت اندرکیسے آگئے؟باہرجاؤ اورسلام کرکے اجازت چاہو!چنانچہ میں پھر دولت کدہ سے باہرگیا،سلام کیا،حضرت مولانانے نام پوچھا،میں نے نام بتلایا،حضرت نے پھر کام پوچھا،میں نے کام بتلایاتب کہیں جاکراندرپہنچنے کی اجازت مل سکی۔یہ مولاناکی تربیت کا ایسامنفرداندازتھا کہ لیل ونہارکی گردشیں بھی شایدذہن ودماغ سے اس واقعہ کو محونہ کرسکیں۔اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔
عموماًحدیث نبوی الیمین فالیمین پرعمل کرنے کی کوشش فرماتے تھے حتیٰ کہ کرتا،جوتااورسڑک پرچلنے میں بھی یہ حدیث آپ کے پیش نظررہتی تھی۔
حضرت مولاناعلامہ سیدعشیق احمدؒنے ’’تنظیم القرآن‘‘کے نام سے تفسیرلکھنے کا جومبارک ومسعودسلسلہ شروع فرمایاتھا اس کی پہلی قسط جو ۸۔۳۰۔۲۰کے تقریباًسترصفحات پرمشتمل ہے ۱۳۹۷ھ میں شائع ہوکرعلمی حلقوں میں مقبول ہوئی،اس کتاب کی تائیدوتقریظ حضرت مولاناسیدظریف احمد پورقاضویؒ نے ان الفاظ میں فرمائی تھی۔
’’احقرنے کتاب تنظیم القرآن الطرازالجدیدکاگہری نظرسے مطالعہ کیا،مؤلف نے مستندکتابوں سے اخذکرکے ایک بہترین تفسیرمرتب کی ہے۔مولف نے یہ کام بہت خوبی سے انجام دیا ہے،دوسری چیزموجودہ اردوزبان کالحاظ کرتے ہوئے الفاظ قرآنی کے معانی کی تعیین بھی بڑی کاوش کی محتاج تھی ،تنظیم القرآن میں یہ کام بھی بہت خوبصورتی سے ہوگیاہے امیدہے کہ آئندہ اجزاء قرآنیہ میں بھی یہ دونوں امراسی عمدگی سے ہوسکیں گے۔‘‘
یہ کتاب اپنی ابتداء سے انتہاء تک نہایت ہی اہم معلومات پر مشتمل ہے حتیٰ کہ کتاب کا سرورق جوعموماً صرف خوش رنگ اوردیدہ زیب ہواکرتاہے لیکن مولانانے اپنی افتادطبع کی مناسبت سے ٹائٹل پرایک بلڈنگ دکھلائی جس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی اس خالی جگہ پررسول اللہ ﷺ کا اسم گرامی لکھاگیااور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہ ثابت کیاگیاہے کہ آپ ﷺآخری نبی اور رسول ہیں،پوری حدیث شریف جس کو بخاری ،مسلم ،نسائی اورترمذی نے نقل فرمایاہے یہ ہے ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتاً فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذی اللبنۃ وانا خاتم النبیین ۔ کنزالعمال اورابن ابی حاتم نیزمسند احمد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد گرامی میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔فکنت أنا سددت موضع اللبنۃ وختم بی النبیون وختم بی الرسل۔
مولانانے اپنی اس کتاب پرمولف کے نام کی جگہ اپنے معروف نام ’’عشیق احمد‘‘کے بجائے غیرمعروف نام ’’احمدفاروقی‘‘تحریرفرمایاہے۔ مولاناکی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ایساکام انجام دیں جس میں کثیرصرفہ کااندازہ ہوچنانچہ ’’عرض حال‘‘کے تحت مولاناکی یہ سطوربھی پڑھتے چلیں جس کی ایک ایک سطر سے ایک صاحب علم وصاحب قلم کے اندرونی دردواضطراب اورتمنا وآرزو کااظہار ہوتاہے۔
’’فی الحال وسائل کی کمی کی وجہ سے صرف جزء اول شائع کیاجارہاہے ،اگرخداکومنظورہوا، بالتدریج باقی حصص سامنے آتے رہیں گے،مخلصین اہل علم سے امیدہے کہ وہ کسی مفیدمشورہ سے محروم نہیں کریں گے،ان اریدالاالاصلاح الاصلاح مااستطعت وماتوفیقی الاباللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب۔
نہ بنقش بستہ مشوشم،نہ بحرف ساختہ سرخوشم
نفسے بیاد تومی زنم،چہ عبارت وچہ معانیم
پرودرگارعالم اس کوشش کو محض اپنے فضل سے شرف قبولیت بخشے اور ناچیز مصنف کیلئے نجات اخروی کا ذریعہ بنائے‘‘(شوال ۱۳۹۰ھ )
بہرحال کتاب لائق مطالعہ،مفیداورپرمغزہے،صاحبان علم بالخصوص تفسیری میدان میں خدمات انجام دینے والوں کو اس کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دیاجاتاہے۔
راقم الحروف نے حضرت علامہ صاحبؒسے میبذی اورشرح عقائد نسفی کے علاوہ دورۂ حدیث شریف کی مشہورکتاب ابن ماجہ شریف بھی پڑھی ہے۔آپ نے کئی سال تک (جمعہ کے دن )ابن ماجہ کا درس دیا ، آپؒ اپنے والدماجدکی طرح بعض مسائل میں منفردرائے رکھتے تھے چنانچہ دعاء بعدصلوۃالعصرنیزخصی جانوروں کی قربانی وغیرہ کے سلسلہ میں توآپ منفردرائے رکھتے ہی تھے اسی کے ساتھ ساتھ برش کے ذریعہ دانتوں کوصاف کرنے کو مولانامسواک کا درجہ دیتے تھے،سلوک وتصوف کے سلسلہ میں افراط وتفریط کے قائل نہیں تھے۔
کالاخضاب لگانابھی حضرت مولاناکے تفردات میں سے تھا،چنانچہ ایک باررفیق محترم مفتی محمودعالم رام پوری نے دوران سبق حضرت سے عرض کیاکہ حضرت آپ نے کالاخضاب لگارکھاہے حالانکہ امام سیوطیؒ نے کالا خضاب لگانے کوغلط لکھاہے؟حضرت مولانانے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں فرمایاکہ’’ سیوطی پیوطی نے لکھاہوگا‘‘پھرکسی عالم کے حوالہ سے فرمایاکہ انہوں نے جائزلکھاہے،مفتی محمودعالم صاحب نے پھر عرض کیاکہ مفتی تقی عثمانی نے بھی فلاں جگہ ایساایسالکھا ہے؟ مولاناڈانٹ کرکہنے لگے ’’کیاہوا؟مفتی تقی عثمانی وہ بھی محدث میں بھی محدث وہ چھوٹامحدث میں بڑامحدث‘‘اس طرح کے متعددپرلطف واقعات ہیں جن سے مولاناکی سادگی اورانفرادیت محسوس کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان تفردات کو حضرت مولاناہی تک محدودسمجھاجائے ان تفرادات کومفتیٰ بہ قطعاً نہ سمجھاجائے۔
رمضان ۱۴۱۶ھ کی عام تعطیلات کے موقع پراپنے وطن گیاہواتھا،شوال المکرم میں شعبۂ افتاء میں داخلہ کی غرض سے جب مادرعلمی مظاہرعلوم سہارنپورمیںحاضری ہوئی تو رفیق محترم مولانامحمداویس بارہ بنکوی (خادم حضرت والا)نے رقت آمیزلہجہ میں یہ جانکاہ اطلاع دی کہ حضرت اقدس مولاناعلامہ سیدعشیق احمد پورقاضویؒاللہ کے حضورپہنچ گئے ۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
دارالطلبہ قدیم کے وسیع وعریض صحن میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کی اقتدامیں نمازجنازہ اداکی گئی اورمشہورگورغریباں’’حاجی شاہ کمال الدین ؒ‘‘کے مغربی جانب چہاردیواری سے متصل تدفین عمل میں آئی۔ ؎
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بندہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے
٭٭٭
 
Last edited by a moderator:
Top