ابن بشیر الحسینوی(غیر مقلد) الغزالی سے مفرورکا تعاقب

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
ابن بشیر الحسینوی(غیر مقلد) الغزالی سے مفرورکا تعاقب​

نوٹ:موصوف کبھی الغزالی فورم پر تشریف لایا کرتے تھے۔پھراسکے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔یہ تو مصر عہ کے لحاظ سے لکھا گیا ہے ورنہ روشنی تو خیر پہلے بھی نہ تھی ۔
موصوف عرصہ سے فرار ہیں اب اپنے بلاگ پر درجِ ذیل مضمون مسموم تحریرکیا ہے اور وہ بھی الغزالی کے حوالہ سے ۔آنا جانا کسی کا یہاں سے فرار ہونا یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن پوشیدہ طور پر الغزالی کے کسی مضمون پر یا کسی تخلیق کار کے عقیدہ پر ( کسی دوسرے بلاگ پر ) کچھ لکھنا یا منفی تبصرہ کرنا بہر صورت غلط ہے اور اس قوم کا وطیرہ ہے۔
حق احناف صاحب نےابن بشیر کے بلاگ سے اس مضمون کا الغزالی پر لنک دیا ہےچونکہ ابھی ابھی میری نظر سے یہ مضمون گذرا اس لئے تفصیلی جواب سے احتراز کرتے ہوئے مختصرا اور سنجیدہ جواب پیش کر رہا ہوں ۔ ذیل میں ابن بشیر کا سوال اوراس کے حواری شاہد نذیر کا سوال ملاحظہ کیجئے۔


دیوبندیوں کے فورم الغزالی کے تعاقب میں،امام ابوحنیفہ پر جرح قرآن و حدیث سے ثابت کرو؟
تحریر ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ | 15 نومبر 2011

امام ابو حنفیہ پر جرح قرآن وحدیث سے ثابت کرو ؟
جرح و تعدیل کا تعلق گواہیوں سے ہے اور گواہیوں کو قبول کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ گواہیاں بھی قرآن و حدیث سے دکھاو تو اس کا یہ کہنا باطل اور قرآن و سنت سے مذاق ہے۔ اس مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصول گواہی کو ہی ختم کر دیا جائے اور یہ باطل ہے۔
اس اوکاڑوی شبہ کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اہل حدیث کا چونکہ دعویٰ یہ ہے کہ ان کے بنیادی اصول صرف قرآن و حدیث ہیں اس لئے وہ امام صاحب پر جرح بھی قرآن و احدیث سے دکھائیں جس کا اصولی جواب تو اوپر پیش کر دیا ہے آل دیوبند کے لئے عرض ہے کہ تم تو مقلد ہو ابوحنیفہ ،اور اپنے بڑے دیوبندیوں کے کیا کسی نے یہ بات کہی ہے جو تم کہہ رہے ہو امام صاحب کے متعلق ؟!!!
آل دیوبند کے نزدیک اصول چار ہیں قرآن، حدیث، اجماع و قیاس تو اب عرض ہے کہ ان چاروں کی مدد سے امام صاحب کا خود کو ثقہ ماننا ٖ قرآن، حدیث، اجماع یا قیاس سے ثابت کرو۔ اگر نہ کر سکو تو اپنے بیہودہ سوال کا لغو ہانا تسلیم کرو یا اس لغو سوال کا جواب نہ دے کر ایک مجہول و غیر ثقہ امام کی تقلید کرنا مان لو۔
قرآن وحدیث سے گواہوں کی گواہی سننا اور اس کو ماننا اور اس کے مطابق عمل یعنی فیصلہ کرنا ثابت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے علم ، زہد ، ورع، تقویٰ، خشیت الٰہی،بزرگی، پر ہیز گاری ،امامت کی گواہی سلفیوں کے امام علامہ ابن تیمیہ ،امام شافعی اور ان کے استاذ محدث وکیع ابن الجراح ،امام بخاری کے استاذ محدث جلیل عبد اللہ ابن مبارک اور دیگر محدثین سے (جو فاسق نہیں )منقول ہیں ۔ان محدثین کی شہادت قبول نہ کرنا اور امام ابو حنیفہ کے معاندین ومخالفین ،روافض اور شیعوں وغیرہ اور ان کے فریب میں آئے بعض سادہ لوح بزرگوں کی تقلید (غیر مقلدیت کے دعوے کے با وجود) کرنا اور استاذ المحدثین امام ابو حنیفہ کے بارے میں بدگمانی نہیں بد زبانی اور لعن وطعن گالیاں بکنا یہ کون سے مذہب ہےاور کون سے اصول سے ثابت ہے ۔کیا غیر مقلدوں کے اصول دو گانہ سے یا اہل سنت والجماعت کے اصول اربعہ سے ؟
امام ابو حنیفہ کی معتبریت اور ان کی امامت مسلمہ ہے اور دو چار گمراہوں کے بکواس سے کسی کا کچھ بگڑنے والا بھی نہیں ہےاگر جرأت ہے تو اپنے اصول دو گانہ ہی کو قرآن وحدیث سے ثابت کیجئے ۔غیر مقلدوں کو چیلنج ہے ۔ براہ کرم یا ایھا الذین اٰمنوا اطیعوا اللہ واطیعواالرسول ولا تبطلوا اعمالکم ۔جب پیش کرنا تو ساتھ ہی یا ایھا الذین اٰمنوا اطیعو اا للہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم الایۃ بھی ساتھ میں لکھنا اور اس کا مطلب بھی سمجھانا ۔قرآن کی ایک آیت کو ماننا اور دوسرے کا انکار کرنا غیر مقلد فتوے کی رو سے یہودیت ہے اس سے پر ہیز کرنا
۔
ابن بشیر کے حواری شاہد نذیر ہیں ۔موصوف نے کیا خوب کہا شاہد نذیر بھائی نے کے عنوان سے جو خیال پیش کیا ہے وہ بھی ملاحظہ ہو
......................................................................................................................

اللہ اکبر! میں تو حیران و پریشان ہوں کہ یہ دیوبندی علماء کا حال ہے کہ ایسے مطالبے کر رہے ہیں جو ایک عامی کو بھی زیب نہیں دیتے. سمجھ میں آگیا مقلد تو کہتے ہی اس کو ہیں جو عامی ہوتا ہے عالم کب مقلد ہوتا ہے! تو اب مقلدین کی جانب سے ایسے اور اس سے بھی بڑھکر مطالبے آنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں.
محدثین اور فن اسماء الرجال کے ماہرین ہمارے یہاں واتبع سبیل من اناب الی (لقمان پ ۲۱) کی رو سے متبوعین میں ہیں مثل اور ائمہ کے اور ان کو ماننا گویا قرآن کی آیت پر عمل کرنا ہے اس بنا پر ان کے بارے میں احناف سے سوال کرنا حماقت ہے اور یہ اصول اربعہ سے ثابت ہے اس لئے احناف کو الزام دینا درست نہیں اور اگر یہ آپ کے مطابق ( اصول دوگانہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے جیسا آپ نے لکھا ہے اس کے با وجود اس کو اہل سنت والجماعت کے اصول اربعہ سے خارج کرنا بیک جنبش قلم ۔ یہ بڑا حیران کن ہے ۔
اسماء رجال کے فن پر امت مسلمہ کا اجماع ہے. اور اہل حدیث اجماع کو مانتے ہیں اس لئے کہ اجماع قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور قرآن و حدیث کے ماننے میں اجماع کا ماننا خود بخود آجاتا ہے. معلوم ہونا چاہیے کہ ابوحنیفہ کے ضعف یا مذمت پر ہم جو بھی روایت پیش کرتے ہیں وہ کسی ایرے غیرے امتی کا قول نہیں ہوتا بلکہ اسماء رجال کے فن کے ماہر محدیثین کی گواہی ہوتی ہے. بتایا جا چکا ہے کہ فن حدیث اجماع سے ثابت ہے. پس اجماع کو پیش کرنا دراصل قرآن و حدیث کو پیش کرنا ہے.تحقیق دیوبندیوں کے اعتراض کا خاتمہ ہوا اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم نے قرآن و حدیث سے ابوحنیفہ پر جرح کی ہے۔
ابھی میں نے جن کا حوالہ دیا ہے مثلا امام علامہ ابن تیمیہ ،امام شافعی اور ان کے استاذ محدث وکیع ابن الجراح ،امام بخاری کے استاذ محدث جلیل عبد اللہ ابن مبارک وغیرہم ان حضرات نے امام ابو حنیفہ کو ثقہ قرار دیا ہے لہذا یہ بھی اجماع سے ثابت ہوااور آپ کے انداز میں کہوں تو قرآن وحدیث سے ثابت ہوگیا اور اب اس کے بعدآپ کا کیا ہوگا؟قرآن کا اور اجماع کا انکار کرنے آپ اپنی ملت سمیت کہاں پہنچیں گے ۔جب دو طرح کی رائیں کسی کے بارے میں ہوں تو آپ کونسا راستہ نکالیں گے ۔دو ہی صورت ہیں یہ دیکھنا ہوا گا کہ جرح کر نے والے کہاں کے ہیں کون ہیں کس پائے کے ہیں ۔دوسرا اگر دونوں طرف کے لوگ ہم پائے ہوئے برابر تعداد میں ہوئے تو ایسی جرح کو کیا کہیں گے؟
یادرہے کہ امتی کے قول اور امتی کی گواہی میں فرق ہے امتی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ جبکہ امتی کی گواہی مقبول ہوتی ہے اگر وہ فاسق و فاجر نہ ہو۔

چونکہ قرآن و حدیث بھی ہم تک امتیوں کے ذریعے سے پہنچا ہے اس لئے ہم امتی کے کسی ایسے قول کو تسلیم نہیں کرتے جو کہ بلادلیل ہو. جیسا کہ امام ابوحنیفہ کے اقوال اور مذہب چونکہ بے دلیل ہے اس لئے ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے. البتہ امتی کے ایسے قول کو جو دلیل سے مزین ہو ہم سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اس لئے کہ وہ دلیل کو ماننا ہوتا ہے ناکہ امتی کے قول کو. اور یہ دلیل کبھی قرآن ہوتی ہے کبھی حدیث کبھی اجماع وغیرہ

دیوبندیوں سے گزارش ہے کہ ہمیں ہمارے اصول یاد نہ دلائیں کیونکہ ہم ہمیشہ اپنے اصول نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ اپنے اصولوں سے روگردانی بھی نہیں کرتے. دیوبندیوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ نہ انہیں اپنی حدود یاد ہیں اور نہ ہی اپنے اصول. مقلد کی دلیل صرف اور صرف قول امام ہے اس لئے آپ لوگ جو کچھ پیش کریں وہ صرف اور صرف قول امام ہو اس کے علاوہ دلائل کے چکر میں نہ پڑیں کیونکہ دلائل میں پڑ کر انسان مقلد نہیں رہتا بلکہ غیر مقلد ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ کی اپنی معتبر کتابوں میں اس کی صراحت موجود ہے. امید ہے آپ لوگ دیانت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے تسلیم شدہ اصولوں سے بغاوت نہیں کرینگے
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بڑے بڑے اور زیادہ تر محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے اور آپ (حضرت ) کے لحاظ سے اجماع اور قرآن سے ثابت ہوا اور آپ اصول سے رو گرادانی نہیں کرتے ہیں تو اب کیا کیجئے گا ۔اپنے رویئے پر قائم رہتے ہوئے اصول کی دھجیاں اڑائیں گےیا پھر امام ابو حنیفہ کو گالیاں دینا چھوڑیں گے ؟
آپ دعویٰ تو زور دار کرتے ہیں لیکن شاید آپ سمجھتے نہیں ہیں آپ نے متضاد باتیں کہیں ہیں اور آپ کے اعلیٰ حضرت ابن ابشیر الحسینوی آپ کے گُن گائےجارہے ہیں ذرا سوچ سمجھ کر لکھا کیجئے ۔انشاء اللہ دونوں حضرات کے سوالوں کا تفصیلی جواب بہت جلد دیا جائیگا
۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
بہت شکریہ شرر صاحب اللہ کریم آپ کو ہم سب کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے آمین ۔ ۔ ۔
میں نے بھی غیر مقلدین کا یہ لنک دیکھا تھا تو محسوس ہوا یہ انداز کتنا غلط ہے اگر ان کو اعتراض تھا تو “ الغزالی فورم “ پر تشریف لاتے اور فرماتے کہ مجھے امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر یہ اعتراض ہے تو محققین ان کے اعتراض کا جواب دیتے مگر یہ کیا کہ اپنے گھر میں داخل ہو کر کہے کہ یہ ہوا وہ ہوا ۔۔ ۔ صاحب علم ایسا نہیں کرتے ۔ ۔ ۔
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
امام المجتہدین امام ابو حنیفہؒ کے حوالے سے دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام ذکر کرتے ہیں ، جو اس دعوے کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ،
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
مزید یہ ہے کہ تاریخ بغدادی میں امام ابو حنیفہ کے حوالے سے جن بے احتیاطیوں سے کام لیا اسے علامہ کوثری نے اپنی کتاب تانیب الخطیب میں ایک ایک بات کو غلط ثابت کیا ہے۔ پوری کتاب ڈیڑھ سو اعتراضات اور انکے جوابات۔ اور دیگر محدثین کے قصوں پر مشتمل ہے۔ ہر خاص و عام پڑھ سکتا ہے۔ اور غیر مقلدین لا مذہبوں کی کذب بیانی اور امام اعظم سے بغض کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔
 
Top